• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر تم مومن ھو

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
.
بسم ﷲ الرحمن الرحیم

میرے عزیز دوست جناب عمران صاحب نے مجھے ایک کتاب عنایت کی اور فرمایا کہ اسے کمپوز کر دوں۔ عرصہ دراز سے یہ کمپوزنگ میرے پاس رکھی ہوئی ہے۔ اس کی پی ڈی ایف فائل تو میں عمران صاحب کو ارسال کر چکا ہوں البتہ اس کے بعد اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔

آج کوئی چیز پاس نہیں تھی سوچا کہ یہ کتاب ہی شروع کر دوں۔

کتاب جب ٹائپ کی تھی تو اس کے متعلق کافی معلومات تھیں۔ اب مجھے شاید کچھ بھی یاد نہیں۔ اس لئے سب احباب سے گذارش ہے کہ جہاں کوئی غلطی وغیرہ دیکھیں تو فورا مطلع فرما دیں تاکہ اہل علم سے رابطہ کر کے اسے درست کر لیا جائے۔

انتظامیہ سے درخواست ہے کہ اگر یہ چیز فورم کے معیار کی نہ ہو تو میری نادانی سمجھ کر درگزر کرتے ہوئے اسے حذف فرما دیں۔

کیونکہ

کتاب پر مصنف کا نام تحریر نہیں تھا۔

اور کتاب کہاں سے آئی یہ بھی میں نے اپنے دوست سے نہیں پوچھا تھا۔

اور اگر کتاب کا موضوع اور اس کے مندرجات مفید ہوں تو یہ سب اللہ رب العزت کا لطف و کرم ہو گا۔ اور اسی کا احسان اور فضل عظیم ہو گا۔

بڑی ناسپاسی ہو گی اگر میں یہاں یہ ذکر نہ کروں کہ میرے ڈیوٹی ٹائم میں میری اہلیہ اس کتاب کو فورم کی نظر کرتی رہیں گی۔ جس کے لئے میں ان کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔

لیجیے کتاب حاضر خدمت ہے:

نام کتاب : اگر تم مومن ہو

بسم ﷲ الرحمن الرحیم

فہرست ابواب

دیباچہ

پہلا حصہ

ایمان باﷲ

اوّل : ﷲ پر ایمان کی ﷲ کے ہاں مقبول صورت

دوئم: غیر ﷲ کو الٰہ نہ ماننا اور ان کی عبادت نہ کرنا

سوئم: صرف ﷲ کو الٰہ ماننا اور صرف ﷲ کی عبادت کرنا

چہارم: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ﷲ کا آخری رسول ماننا اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی اتباع کرنا ص6 : م56 تا 58 ان مراسلوں میں ایرر ھے ڈبل ہیں۔
چہارم دو مرتبہ ڈالا گیا ھے دوسری مرتبہ میں مراسلہ نمبر 59 تا 63 ریویو پلیز

پنجم: طاغوت سے کفر کا حکم اور امتِ مسلمہ کی حالت

ششم : موجودہ وقت میں طاغوت سے کفر کرنے کی صورتیں

دوسرا حصہ

وحدت امت

اوّل : وحدت
مظہر صبر و تقویٰ
ایمان کے بعد مومنین کی کامیابی کا بنیادی ذریعہ

دوئم: توحید ﷲ اور حبلِ ﷲ وحدت میں رہنے اور افتراق سے بچنے کی بنیاد

سوئم: مسلمانوں کی جماعت کے وحدت میں ڈھلنے کی عملی صورت ص12 تا 13: م120 تا 126
ص 13 تا 14 : مراسلہ 127 تا 133 انہیں چیک کریں کتاب سے شائد ڈبل ہیں۔

چہارم: مسلمانوں کی جماعت و امامہم مسلمانوں کی وحدت کا مرکز اور ذریعہ

پنجم: سیاستِ خلفاء

ششم: اہل ایمان کے ’’سلطنت و اقتدار‘‘ کے حامل ہونے کا اصول و طریقہ کار یہ بات دو مرتبہ ڈالا گیا ھے چیک کریں

ہفتم: کسی شخص کے امیر شرعی ’’بنی اور خلیفہ‘‘ قرار پانے کی بناء یہ بات بھی دو مرتبہ ڈالا گیا ھے ان کی تریب اسطرح ھے

ششم اس کے بعد ہفتم پھر اس کے بعد ششم پھر اسے کے بعد ہفتم۔ خیال رہے جو پہلے ہیں وہ نامکمل ہیں اور جو بعد میں ہیں وہ مکمل ہیں پھر بھی کتاب سے چیک کر کے درستگی فرمائیں۔

ہشتم: شرعی امیر ’’نبی و خلیفہ‘‘ کے بنیادی حقوق

نہم: شرعی امور ’’ نبی و خلیفہ‘‘ کے ’’سلطنت و اقتدار کے حامل ہونے‘‘ کا طریقہ کار

دہم : تقررِ خلیفہ کیلئے ﷲ کی مقرر کردہ شرائط اور لوگوں کی پیش کردہ شرائط
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بسم ﷲ الرحمن الرحیم
دیباچہ

ان الحمد ﷲ نحمدہ ونستعینہ

ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:

’’ وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘۔
’’ اور ہم پر حق تھا مؤمنین کی مدد کرنا‘‘۔
(الروم: 47)

’’ وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ‘‘
’’اور تم سستی نہ کرو، اور نہ غم کھاؤ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔
(آل عمران: 139)

’’ وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ‘‘۔
’’ عزت تو ﷲ‘ اس کے رسول اور مؤمنین کیلئے ہے‘‘۔
(المنافقون: 8)

آیات بالا میں ﷲ تعالیٰ ’’مومنین کی مدد کو اپنے اوپر حق قرار دے رہا ہے‘‘ ان کیلئے غلبے کا وعدہ کر رہا ہے مگر اس شرط پر کہ ’’اگر یہ مومن ہوں اور ﷲ اور اس کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کے بعد عزت مومنین ہی کا حق قرار دے رہا ہے پھر اپنے وعدوں کے حوالے سے ﷲ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرما رہا ہے کہ:۔

’’ وَمَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ‘‘۔
’’ اور ﷲ سے بڑھ کے کون ہے جو اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہو‘‘۔
(التوبہ: 111)

مؤمنین سے ﷲ کے وعدے اور ان کے قطعی ایفاء کی یقین دہانیاں اپنی جگہ اٹل ہیں لیکن آج مومن کہلانے والے کفار کے ہاتھوں جس طرح ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں اور کفار انہیں جس طرح اپنے ہاتھوں سے بھی تباہ و برباد کر رہے ہیں اور انہیں گردہوں میں تقسیم اور باہم متحارب کر کے خود انہی کے ہاتھوں سے بھی قید و قتل کروا رہے ہیں اس سے خیال خودبخود اس طرف جاتا ہے کہ کیا (معاذ اللہ) مومنین کیلئے ﷲ کی مدد کے وعدے جھوٹے ہیں؟ … نہیں … ایسا تو ہو نہیں سکتا… تو پھر توجہ خودبخود اس بات کی طرف مبذول ہوتی ہے کہ مددکا وعدہ تو ’’مؤمنین‘‘ کیلئے ہے اور کہیں ایسا تو نہیں کہ مومن کہلانے والے ہم لوگ اس ایمان ہی پہ پورے نہ اترتے ہوں جو ﷲ کے ہاں قابل قبول ہے جس پہ اس کی مدد میسر آتی ہے اور جس مدد کے بغیر کسی کامیابی کا تصور بھی محال ہے۔

آئیں خود ﷲ تعالیٰ کی ’’وحی‘‘ سے دیکھیں کہ اس کے ہاں قابل قبول ایمان کون سا ہے جس کی بناء پر مومنین کو ﷲ تعالیٰ کی مدد میسر آتی ہے اس کے بعد ہم اپنا بھی جائزہ لیں کہ اس ایمان کے حوالے سے اس وقت ہماری کیا کیفیت ہے اور کیا ہم اس کی بنیادوں اور اس کے بنیادی تقاضوں کا بھی اہتمام کر سکے ہیں کہ نہیں کہ جن کے بغیر دنیا میں کامیابی تو کجا خود آخرت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے جبکہ آخرت انسان کیلئے ہدف اوّل ہے۔

آخر اتنی ذلت و رسوائی کے بعد بھی ہم اپنا جائزہ کیوں نہ لیں جبکہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ‘‘۔
’’ اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے پہنچتی ہے اور بہت سے (قصوروں کو تو وہ) ویسے ہی معاف کر دیتا ہے‘‘۔
(الشوری: 30)

جب ہم ﷲ تعالیٰ کی وحی (کتاب ﷲ و سنت رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم) میں تدبر کرتے ہیں تو وہاں ’’ﷲ پر ایمان‘‘ میں ’’طاغوت سے کُفر‘‘ بنیادی چیز نظر آتی ہے اس کے بنیادی تقاضوں میں ’’امت کی وحدت‘‘ اوّلین چیز کے طور پر سامنے آتی ہے اور انہی چیزوں کا خصوصی اہتمام ﷲ تعالیٰ کی مدد کا باعث بنتا ہے لیکن جب لوگوں کی موجودہ حالت کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اکثر میں انہی چیزوں کا خصوصی فقدان نظر آتا ہے۔

زیر نظر کتاب میں کتاب و سنت سے مذکورہ بالا چیزوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ کتاب و سنت سے ملنے والا وہ لائحہ عمل بھی سامنے رکھا گیا ہے کہ جس پر عمل پیرا ہو کر لوگ ’’ﷲ پر ایمان‘‘ کی حقیقت کو بھی پا سکتے ہیں اور ’’وحدتِ امت‘‘ کو بھی دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں اور یوں ﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے دنیا میں بھی دوبارہ سرخروئی حاصل کر سکتے ہیں اور آخرت میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ۔

اس کتاب کا مقصد مذکورہ بالا چیزوں کے حوالے سے کتاب وسنت پیش کرنا ہے کیونکہ ﷲ تعالیٰ نے صرف اسی کی اتباع کرنے اور اسی کے ذریعے نصیحت کرنے کا پابند کر رکھا ہے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:۔

’’ اِتَّبِعُوْا مَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآئَ‘‘۔
’’ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا دوسرے سرپرستوں کی پیروی مت کرو‘‘۔
(الاعراف: 3)۔

’’ فَذَکِّرْ بِاالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ‘‘۔
’’ پس اس قرآن سے نصیحت کرو ہر اس شخص کو جو ڈرتا ہو میری وعید سے‘‘۔
(ق: 45)

’’ وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ الِیَ الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘۔
’’ اور تم میں ایک جماعت ضرور ایسی ہونی چاہئے جو خیر کی طرف بلائے ‘ معروف (کتاب و سنت ‘ وضاحت صفحہ 175 پر موجود ہے) کے ساتھ حکم کرے اور منکر سے منع کرے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘۔
(آل عمران: 104)

ﷲ کی طرف سے جہاں اس بات کی پاندی ہے کہ نصیحت صرف کتاب و سنت سے کرنی ہے وہیں اس بات کی بھی پابندی ہے کہ کتاب و سنت کی ہربات کی وضاحت/ تفسیر/ مُراد بھی کتاب و سنت ہی سے حاصل کرنی ہے کیونکہ جس (اللہ) نے بات کہی ہے اپنی بات کی حقیقی مراد سے بھی وہ خود ہی واقف ہو سکتا ہے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:۔

’’ فَاِذَا قَرَاْنہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ o ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ‘‘۔
’’ جب ہم اسے پڑھ رہے ہوں تو پیروی کرتے رہو اس کے پڑھنے کی پھر یقینا ہمارے ہی ذمہ ہے اس کا مطلب سمجھا دینا بھی‘‘۔
(القیٰمۃ: 18‘ 19)

’’ وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗ اِلَّا اللّٰہُ‘‘۔
’’ اور کوئی نہیں جانتا اس کی مرادِ حقیقی سوائے ﷲ کے‘‘۔
(آل عمران:7)

’’وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ‘‘
’’ اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے یہ ذکر تمہاری طرف نازل کیا تا کہ تم وضاحت کر دو اس کی جو ہم نے لوگوں کی طرف نازل کیا ہے تا کہ وہ فکر کریں‘‘۔
(النحل: 44)

مذکورہ بالا کے علاوہ ایک اور پابندی جو ﷲ کی طرف سے عائد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ (کسی چیز کے ٹھیک یا غلط ہونے یا اسے چھوڑنے یا اختیار کرنے وغیرہ) فیصلہ کرنا ہے تو اھواء کی بجائے صرف ﷲ کی نازل کردہ وحی (کتاب و سنت) کی بنیاد پہ کرنا جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعُ اَھْوَآئَ ھُمْ عَمَّا جَآئَ کَ مِنَ الْحَقِّ‘‘۔
’’ تم ﷲ کی نازل کردہ (وحی) کے مطابق ان کے مابین فیصلے جاری کرو اور ان کی اھواء کی پیروی مت کرو اس حق سے منہ موڑ کے جو تمہارے پاس آ چکا ہے‘‘۔
(المائدہ:48)

کتاب کے اوّلین مخاطب اہل اُردو ہونے کی بناء پر آیات و احادیث کا اُردو ترجمہ بھی دیا گیا ہے جس کیلئے سنت نبی صلی ﷲ علیہ وسلم سے اذن ملتا ہے جیسا کہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ:۔

’’ اِنَّ النَّبِیَّ اَمَرَہُ اَنْ یَتَعَلَّمَ کِتَابَ الْیَھُوْدِ حَتَّی کَتَبْتُ لِلنَّبِیِّصلی اللہ علیہ وسلم کُتُبَہُ وَاَقْرَاْتُہُ کُتُبَھُمْ اِذَا کَتَبُوْا اِلَیْہِ‘‘۔
’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (زید بن ثابت کو) حکم دیا کہ وہ یہودیوں کی تحریر سیکھیں‘ یہاں تک کہ میں یہودیوں کے نام نبی e کے خطوط لکھتا اور جب یہودی آپ کو لکھتے تو ان کے خطوط آپ کو پڑھ کے سناتا۔
(بخاری ‘باب الاحکام ‘ زید بن ثابت رضی اللہ تعالی)

زیر نظر کتاب میں اگرچہ مذکورہ بالا پابندیوں کے اندر رہنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن آیات و احادیث کا ترجمہ‘ کتاب و سنت سے ان کا اخذِ فہم ‘ حالات و واقعات پہ ان کا انطباق اور ان کی بنا پر فیصلے چونکہ انسانی کوشش ہے‘ اس بنا پر اس میں خطا کا امکان موجود ہے۔

نوٹ: قارئین سے گزارش ہے کہ جہاں کہیں خطا پائیں کتاب و سنت کی دلیل کے ساتھ اس کی نشاندہی فرمائیں تا کہ آئندہ ایڈیشن میں اسے درست کیا جا سکے۔

وما توفیقی الا باﷲ علیہ توکلت والیہ انیب
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
پہلا حصہ

ﷲ پر ایمان

با ب اوّل:

ﷲ پر ایمان کی ﷲ کے ہاں مقبول صورت

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ ثم ننجی رسلنا والذین امنوا کذلک ج حقًّا علینا ننج المؤمنین‘‘۔
’’ پھر ہم نجات دیتے ہیں اپنے رسولوں کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائیں‘ اسی طرح ہمارے اوپر حق ہے کہ ہم نجات دین مومنین کو‘‘۔
(یونس:103)۔

آیت بالا میں ﷲ تعالیٰ مومنین کو نجات دینا اپنے اوپر حق قرار دے رہا ہے‘ اس سے پہلے دیباچے میں بیان ہونے والی آیات میں ﷲ تعالیٰ مومنین کی مدد کرنا اپنے اوپر حق قرار دے چکا ہے اور ان کے ’’مومن‘‘ ہونے کی شرط پر ان سے غلبے کا وعدہ فرما چکا ہے۔ آج وقت کی اہم ترین ضرورت ’’ﷲ پر ایمان کی خود ﷲ کے ہاں مقبول صورت‘‘ کا جان لینا ہے جس کے اختیار کر لینے پر ﷲ کی مدد آتی ہے اور کفار سے نجات اور ان پر غلبے کا باعث بنتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا حقیقی علم خود ’’ﷲ کی وحی (کتاب و سنت)‘‘ ہی سے ہو سکتا ہے چنانچہ اس کیلئے صرف اسی کی طرف رجوع کیا جانا لازم ہے۔

ﷲ پر ایمان کی ﷲ کے ہاں مقبول صورت کے حوالے سے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ کے قبلہ عبد القیس (ربیعہ) کے لوگوں کو دئیے گئے ذیل کے حکم سے بھی رہنمائی ملتی ہے۔

’’ اَمْرَھُمْ بِالْاِیْمَانِ بِاللّٰہِ وَحْدَہٗ قَالَ اَتَدْرُوْنَ مَا الْاِیْمَانُ بِاللّٰہِ وَحْدَہٗ قَالُوْا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ قَالَ شَہَادَۃُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَاِقَامُ الصَّلٰواۃِ وَاِیْتَائِ الزَّکٰوۃِ وَصِیَامُ رَمَضَانَ وَاَنْ تُعْطُوْا مِنَ الْمَغْنَم الْخَمُسَ‘‘
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ﷲ واحد پر ایمان لانے کا حکم دیا اور پوچھا کیا تم جانتے ہو ﷲ واحد پہ ایمان لانا کیا ہے؟ انہوں نے کہا ﷲ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ شہادت دینا اس بات کی کہ کوئی الٰہ نہیں سوائے ﷲ کے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ، ﷲ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرنا۔
(بخاری ‘ کتاب الایمان ۔ عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ)

حدیثِ بالا سے ﷲ پر ایمان لانے کی درج ذیل صورت سامنے آتی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
پہلا حصہ

ﷲ پر ایمان


با ب اوّل:

ﷲ پر ایمان کی ﷲ کے ہاں مقبول صورت

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ ثم ننجی رسلنا والذین امنوا کذلک ج حقًّا علینا ننج المؤمنین‘‘۔
’’ پھر ہم نجات دیتے ہیں اپنے رسولوں کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائیں‘ اسی طرح ہمارے اوپر حق ہے کہ ہم نجات دین مومنین کو‘‘۔
(یونس:103)۔

آیت بالا میں ﷲ تعالیٰ مومنین کو نجات دینا اپنے اوپر حق قرار دے رہا ہے‘ اس سے پہلے دیباچے میں بیان ہونے والی آیات میں ﷲ تعالیٰ مومنین کی مدد کرنا اپنے اوپر حق قرار دے چکا ہے اور ان کے ’’مومن ‘‘ ہونے کی شرط پر ان سے غلبے کا وعدہ فرما چکا ہے۔ آج وقت کی اہم ترین ضرورت ’’ﷲ پر ایمان کی خود ﷲ کے ہاں مقبول صورت‘‘ کا جان لینا ہے جس کے اختیار کر لینے پر ﷲ کی مدد آتی ہے اور کفار سے نجات اور ان پر غلبے کا باعث بنتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا حقیقی علم خود ’’ﷲ کی وحی (کتاب و سنت)‘‘ ہی سے ہو سکتا ہے چنانچہ اس کیلئے صرف اسی کی طرف رجوع کیا جانا لازم ہے۔

ﷲ پر ایمان کی اﷲکے ہاں مقبول صورت کے حوالے سے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلہ عبد القیس (ربیعہ) کے لوگوں کو دئیے گئے ذیل کے حکم سے بھی رہنمائی ملتی ہے۔

’’ اَمْرَھُمْ بِالْاِیْمَانِ بِاللّٰہِ وَحْدَہٗ قَالَ اَتَدْرُوْنَ مَا الْاِیْمَانُ بِاللّٰہِ وَحْدَہٗ قَالُوْا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ قَالَ شَہَادَۃُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَاِقَامُ الصَّلٰواۃِ وَاِیْتَائِ الزَّکٰوۃِ وَصِیَامُ رَمَضَانَ وَاَنْ تُعْطُوْا مِنَ الْمَغْنَم الْخَمُسَ‘‘
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ﷲ واحد پر ایمان لانے کا حکم دیا اور پوچھا کیا تم جانتے ہو ﷲ واحد پہ ایمان لانا کیا ہے؟ انہوں نے کہا ﷲ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتے ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ شہادت دینا اس بات کی کہ کوئی الٰہ نہیں سوائے ﷲ کے اور یہ کہ محمد، ﷲ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرنا۔
(بخاری ‘ کتاب الایمان ۔ عبدﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ)

حدیثِ بالا سے ﷲ پر ایمان لانے کی درج ذیل صورت سامنے آتی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

ﷲ واحد کی توحید اور محمد ﷺ کی رسالت
کی شہادت دینا اور اعمالِ صالح بجا لانا

اس صورت میں پہلی اہم بات تو یہ سامنے آتی ہے کہ ﷲ کو محض​
ایک ہستی کے طور پر مان لینا کافی نہیں بلکہ​
’’ﷲ کو واحد و یکتا ماننا مقصود ہے‘‘​
پھر اس کا اصول سامنے آتا ہے کہ ’’اس بات کی شہادت (گواہی) دی جائے کہ​
’’کوئی الٰہ نہیں سوائے ﷲ کے اور اس بات کی شہادت دی جائے کہ محمد ﷺ ﷲ کے رسول ہیں پھر اعمالِ صالح (ﷲ کی عبادت کے ﷲ کے مقرر کردہ افعال) بجا لائے جائیں‘‘۔​
-
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
الٰہ؟​
حدیث میں ’’اِلٰہ‘‘ کا ذکر آیا ہے جس کے حوالے سے اس بات کی شہادت دینی ہے کہ ’’کوئی الٰہ نہیں سوائے ﷲ کے‘‘۔ الٰہ کے حوالے سے مذکورہ شہادت کا معاملہ سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک یہ نہ جان لیا جائے کہ ﷲ تعالیٰ کے ہاں الٰہ سے کیا مراد ہے؟

الٰہ ۔ (رب و معبود)

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْء وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآء الْاَرْضِ ء اِلٰہٌ مَّعَ اِلٰہٌ قَلِیْلاً مَا تَذَکَّرُوْنَ‘‘۔
’’ بھلا کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جب وہ اسے پکار اور اس کی تکلیف کو رفع کرتا ہے اور تمہیں زمین کے خلیفہ بناتا ہے؟ کیا ﷲ کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو‘‘۔
(النمل:62)

آیتِ بالا میں بے قرار کی دعا سننے‘ اس کی تکلیف رفع کرنے اور زمین کے خلیفہ بنانے کا ذکر ہوا ہے! یہ افعال اُن افعالِ ربوبیت میں سے ہیں جو ربّ بندوں کیلئے ادا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آیت میں ’’کسی کے پکارنے‘‘ کا ذکر ہوا ہے اور غیب سے مدد کیلئے پکارنا ان افعالِ عبادت میں سے ہے جو بندے رب کیلئے ادا کرتے ہیں۔ یہ سب کہنے کے بعد پھر کہا گیا کہ ’’کیا ﷲ کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے؟

‘‘اس سے واضح ہوتا ہے کہ ’’الٰہ‘‘ وہ ہے جو بندوں کا ربّ (بندوں کیلئے افعالِ ربوبیت ادا کرنے والا) اور اُن کا معبود ہو (بندے جس کیلئے افعال عبادت ادا کرتے ہوں)‘‘۔

۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اپنی ذات‘ ناموں اور صفات میں
واحد و یکتا ﷲ ہی الٰہ حقیقی و واحد و یکتا ہے
ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:۔

’’ قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ 0 اَللہُ الصَّمَدُ 0 لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ 0 وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدْ‘‘۔
’’ کہو وہ ﷲ ہے ’’واحد و یکتا‘‘ ! وہ سب سے بے نیاز ہے نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے‘‘۔
(الاخلاص: 112)

’’ ھُوَ اللہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ عَلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ o ھُوَ اللہُ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُھَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ o ھُوَ اللہُ الْخَالِقُ الْبَارِیُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوَتِ وَالْاَرْضِ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘‘۔
’’ وہ ﷲ ہی ہے کہ نہیں ہے کوئی الٰہ سوائے اس کے ‘ غائب و حاضر کا جاننے والا وہی ہے بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ وہ ﷲ ہی ہے کہ نہیں ہے کوئی الٰہ سوائے اس کے بادشاہ حقیقی نہایت مقدس ‘سراسر سلامتی‘ امن دینے والا ‘نگہبان‘ سب پر غالب ‘اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا اور بڑا ہی ہو کر رہنے والا‘ مبرا ہے اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں۔ وہ ﷲ ہی ہے تخلیق کرنے والا‘ منصوبہ تخلیق کو نافذ کرنے والا‘ صورت گری کرنے والا‘ اسی کیلئے وہ تمام بہترین نام‘ تسبیح کر رہی ہے اس کی ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے اور وہ زبردست اور بڑی حکمت والا ہے‘‘۔
(الحشر: 22 ‘24)

ﷲ تعالیٰ اپنی ذات کی یکتائی ‘ ناموں کے حسن اور صفات کے کمال میں بھی واحد و یکتا ہے پھر پوری کائنات کی تخلیق سمیت تمام قدرت ہائے ربوبیت میں کمال و یکتائی بھی صرف ﷲ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے اس لئے پوری کائنات اور اس میں موجود بندوں کیلئے تمام افعال ربوبیت کی کمال ادائیگی کا حق بھی وہی ادا کر سکتا ہے اس بنا پر بندوں کے تمام افعالِ عبادت کا حق بھی صرف ﷲ تعالیٰ ہی رکھتا ہے اس لئے وہی الٰہ حقیقی ہے۔

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ اَللہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَآئً بِنَآئً وَصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ذٰلِکُمُ اللہُ رَبُّکُمْ فَتَبٰرَکَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ o ھُوَ الْحَیُّ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدَّیِنَ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘۔
’’ ﷲ ہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو جائے قرار بنایا اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہاری صورت بنائی اور بہت ہی عمدہ بنائی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا‘ یہ ہے ﷲ جو تمہارا رب ہے پس بہت ہی بابرکت ہے ﷲ جو رب ہے پوری کائنات کا‘ وہ زندہ و جاوید ہے‘ کوئی الٰہ نہیں سوائے اس کے پس تم اسی کو پکارو دین کو اسی کیلئے خالص کرتے ہوئے‘ تمام تعریفیں ﷲ کیلئے ہیں جو رب ہے تمام کائنات کا‘‘۔
(المؤمن: 64 ‘65)

کوئی شخص اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ ’’کوئی الٰہ نہیں سوائے ﷲ کے‘‘ تو وہ اصل میں اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ کوئی نہیں جو بندوں کیلئے افعالِ ربوبیت کی ادائیگی کا حق ادا کر سکتا ہو اس بناء پر ان کی ادائیگی کا حق رکھتا ہو اور کوئی نہیں جو بندوں کی طرف سے افعال عبادت ادا کئے جانے کا حق رکھتا ہو۔ اپنی ذات‘ صفات‘ ناموں اور قدرت ہائے ربوبیت میں کمال و یکتائی کا حامل ہونے کی بنا پر یہ تمام حقوقِ ربوبیت و عبادت صرف ﷲ کیلئے خاص ہیں‘ وہ ان حقوق کی ملکیت کے حوالے سے واحد و یکتا ہے۔

-
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ﷲ کیلئے خاص ﷲ کے چند افعال و قدرت ہائے ربوبیت
رب حقیقی ﷲ تعالیٰ کے افعال و قدرت ہائے ربوبیت بے حدو حساب ہیں اور ان تمام کو بیان کرنا مخلوق کے بس سے باہر ہے۔ ان میں سے کتاب و سنت میں ذکر ہونے والوں میں سے ہمارے سامنے آنے والے درج ذیل ہیں۔

کائنات اور اس میں موجود ہر شے کی تخلیق ‘ کائنات کے اقتدارِ اعلیٰ کی ملکیت‘ اختیاراتِ کُل کی ملکیت‘ قدرتِ مطلق کی حاملیت‘ کائنات کے امور کی تدبیر‘ زمین و آسمان کے خزانوں کی ملکیت‘ بندوں کی پناہ و بقا کا انتظام‘ ان کیلئے رزق رسانی کا بندوبست‘ ان کی ہدایت و راہنمائی کا اہتمام اور ان کیلئے حاکمیت (احکامات‘ قوانین اور فیصلوں) کا نزول‘ ان کی حاجت روائی ‘ مشکل کشائی اور کارسازی کا انتظام‘ ان کے اعمال کی جزا‘ سزا‘ مغفرت و شفاعت کی انجام دہی وغیرہ۔

۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ﷲ کیلئے خاص بندوں کے چند افعالِ بندگی و عبادت
ذیل میں کتاب و سنت سے ہمارے سامنے آنے والے بندوں کے چند افعالِ بندگی و عبادت درج ہیں جن کا صرف ﷲ کیلئے ادا کیا جانا حق ہے۔

بندوں کا ﷲ کے سامنے اپنے ہر اختیار سے دستبردار ہونا‘ ﷲ کی حاکمیت (احکامات‘ قوانین اور فیصلوں) کی اطاعت کرنا‘ ﷲ کی راہنمائی کی اتباع کرنا‘ ﷲ سے سب سے بڑھ کے محبت و عقیدت رکھنا‘ اس کی رضا چاہنا اور اس کیلئے اس کے آگے صلوٰۃ ادا کرنا اور قیام ‘ رکوع‘ سجدہ وغیرہ بجا لانا‘ روزہ رکھنا‘ صدقہ وخیرات کرنا‘ نذر و نیاز دینا‘ قربانی کرنا‘ اس کی تسبیح و مناجات کرنا‘ اس کے گھر کا طواف کرنا اور اس کیلئے اعتکاف کرنا‘ اس پر توکل کرنا‘ ہر مشکل میں اس کی طرف رجوع کرنا‘ غیب سے مدد کی امید کے ساتھ اسے پکارنا‘ اس سے دعا کرنا ‘ اس سے سزا ملنے کا خوف رکھنا‘ اس سے گناہوں کی معافی مانگنا‘ اس کے حضور توبہ کرنا اور اس سے شفاعت مانگنا وغیرہ۔

۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
غیرُ ﷲ کو اپنا الٰہ بنانا
ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ ولا تجعل مع اﷲالھا اخر فتلقی فی جھنم ملومًا مامدحورًا‘‘۔
’’ اور مت بنانا ﷲ کے ساتھ کوئی الٰہ دوسرا ور نہ تم جہنم میں ڈال دئیے جائو گے ملامت زدہ اور ہر بھلائی سے محروم ہو کر‘‘۔
(بنی اسرائیل: 39)۔

ﷲ کی ذات کو یکتا جاننا‘ اس کی صفات‘ اس کے ناموں‘ اس کے افعال و قدرت ہائے ربوبیت اور تمام افعالِ عبادت کو عقیدۃً اور عملاً ﷲ کیلئے مخصوص رکھنا صرف ﷲ کو اپنا الٰہ بنانا ہے۔

ﷲ کے علاوہ کسی (فریاد یا چیز) کو ﷲ کی ذات کا حصہ قرار دینا (مثلاً ﷲ کی بیوی‘ بیٹا یا اس کے وجود کا جزو قرار دینا) کسی کو ﷲ کے ناموں میں سے کسی ایک بھی نام سے موسوم کرنا (مثلاً الرحمن کہنا)‘ کسی کو ﷲ کی قدرت ہائے ربوبیت میں سے کسی ایک بھی قدرت پر قادر قرار دینا (مثلاً کائنات کے امور کی تدبیر پر قادر قرار دینا) کسی کو ﷲ کے افعالِ ربوبیت میں سے کسی ایک بھی فعل کی ادائیگی کا حق ادا کرنے پر قادر یا اس کے ادا کرنے کا حقدار قرار دینا (مثلاً کسی کو بندوں کیلئے قانون سازی کا حق ادا کرنے پر قادر اور قانون سازی کرنے کا حقدار قرار) کسی کو ﷲ کیلئے مخصوص افعالِ عبادت میں سے کسی فعل کا حقدار قرار دینا اور اس کیلئے فعل عبادت ادا کرنا (مثلاً کسی کا وضع کردہ قانون ماننا) وغیرہ۔ مذکورہ بالا میں سے ایک بھی کام کرنا غیرﷲ کو اپنا الٰہ بنانا ہے۔

۔
 
Top