• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر تم مومن ھو

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
خلیفہ کے بنیادی حقوق
کتاب و سنت سے خلیفہ کے درج ذیل حقوق سامنے آتے ہیں جنہیں ادا کرنا اہل ایمان پر لازم ہوتا ہے۔

1۔ خلیفہ کی اطاعت کی بیعت کرنا:


پہلی بیعت سے دیگر شرائطِ خلافت کا حامل ایک شخص خلیفہ قرار پاتا ہے اور بقیہ افرادِ امت پر لازم ہو جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر بیعت کریں۔ بقیہ افرادِ امت کی طرف سے ہونے والی یہ بیعت خلیفہ قرار پائے ہوئے شخص کی اطاعت کی بیعت ہوتی ہے اس لئے اسے بیعتِ اطاعت کہا جاتا ہے اور یہ بیعت ہر فردِ امت پر لازم ہے کیونکہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ مَنْ خَلَعَ یَدًا مِّنْ طَاعَۃٍ لَقِیَ اللہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَا حُجَّۃَ لَہٗ وَمَنْ مَاتَ وَلَیْسَ فِیْ عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً‘‘۔
(مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ عبدﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ )
’’ جس نے اطاعت سے ہاتھ نکالا وہ قیامت کے دن ﷲ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس اپنے اس عمل کیلئے کوئی حجت نہ ہو گی اور جو اس حال میں مر گیا کہ اس کی گردن میں بیعت کا قلادہ نہیں وہ جاہلیت کی موت مر گیا‘‘۔


2۔ خلیفہ کی معروف میں اطاعت کرنا:

پہلی بیعت کے حامل ( خلیفہ و امام) کی معروف میں اطاعت لازم ہے ۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’عَلَی الْمَرْء الْمُسْلِمِ السَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ فِیْمَا اَحَبَّ وَکَرِہَ اِلَّا اَنْ یُؤْمَرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَاِنْ اُمِرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَۃً ‘‘۔
(مسلم کتاب الامارۃ عبدﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ )
’’ مسلمان پر حکم سننا اور ماننا واجب ہے خواہ اس کو پسند ہو یا ناپسند ہو مگر جب کہا جائے معصیت کا تو نہ سننا ہی چاہئے اور نہ اطاعت کرنی چاہئے‘‘۔

’’ لَاطَاعَۃَ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللہِ اِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوْفِ‘‘۔
(مسلم‘ کتاب الامارۃ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ )
’’ ﷲ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں اطاعت صرف معروف میں ہو گی‘‘۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
3۔ خلیفہ کی نصرت کرنا:

نبی ﷺ کی موجودگی میں ہر مومن پر آپ ﷺ کی نصرت لازم تھی ‘ آپ ﷺ کے بعد امت کی سیاست کا ذمہ دار چونکہ پہلی بیعت کا حامل (خلیفہ و امام) قرار پاتا ہے اس لئے آپ ﷺ کے بعد اس کی نصرت لازم ہے جب وہ نصرت کیلئے پکارے کیونکہ اس کی اطاعت ﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے یوں اس کی اطاعت میں اس کی نصرت بھی دراصل ﷲ اور اس کے رسول کی نصرت ہے‘ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللہِ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللہَ وَمَنْ یُّطِعِ الْاَمِیْرَ فَقَطْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ یَّعْصِ الْاَمِیْرَ فَقَدْ عَصَانِیْ‘‘۔
’’ جس نے میری اطاعت کی پس اس نے ﷲ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے ﷲ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی‘‘۔
(بخاری‘ کتاب الاحکام‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ )۔

نصرت کی بنیاد اطاعت ہی ہے کیونکہ خلیفہ اگر نصرت کیلئے پکارے گا تو اس کی نصرت اس کی اطاعت ہی میں کی جائے گی۔ اسی طرح سے ’’بنیادی نصرت‘‘ بھی اطاعت ہی ہے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ اٰمَنَّا بِاللہِ وَ اشْھَدُ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ‘‘۔
(آل عمران:52)۔
’’ کہا (عیسیٰ علیہ السلام نے) کون ہے میرا مددگار ﷲ کی راہ میں۔ کہا حواریوں نے ہم ہیں ﷲ کے مددگار۔ ایمان لائے ہیں ہم ﷲ پر اور گواہ رہو کہ ہم اطاعت کرنے والے ہیں‘‘۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
4۔ امام کو ڈھال بنانا:۔

نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’ مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللہَ وَمَنْ یُّطِعَ الْاَمِیْرَ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ یَّعْصِ الْاَمِیْرَ فَقَدْ عَصَانِیْ وَاِنَّمَا الْاِمَامُ جُنَۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ وَیُتَّقِی بِہٖ فَاِنْ اَمَرَ بِتَقْوَی اللہِ وَعَدَلَ فَاِنَّ لَہٗ بِذَالِکَ اَجْرً وَاِنْ قَالَ بِغَیْرِہٖ فَاِنَّ عَلَیْہِ مِنْہُ‘‘۔
(بخاری‘ باب الجاہد والسیر‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ )
’’ جس نے میری اطاعت کی پس اس نے ﷲ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی پس اس نے ﷲ کی نافرمانی کی‘ اس نے میری نافرمانی کی اور امام ڈھال ہے اسی کی قیادت میں قتال کیا جاتا ہے اور اسی کے ساتھ دفاع کیا جاتا ہے۔ اگر وہ ﷲ کے ڈر کے ساتھ حکم کرتا ہے اور انصا ف کرتا ہے تو اس کیلئے اس کا اجر ہے اور اگر وہ اس کے علاوہ کرتا ہے تو اس کا وبال اسی پر ہے‘‘۔

حدیثِ بالا میں نبی ﷺ امام کی فرمانبرداری کی اہمیت بتانے کے ساتھ ہی امام کو ڈھال قرار دے رہے ہیں اور اسی کی قیادت میں قتال اور اسی کے ذریعے دفاع کرنے کا فیصلہ سُنا رہے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سے امام کی اطاعت کرنا لازم ہے اسی طرح سے سے ڈھال بنانا بھی لازم ہے۔ ڈھال کے حوالے سے یہ بات خاص ہے کہ اسے خود پکڑ کر دفاع کیلئے استعمال کیا جاتا ہے تب یہ فائدہ مند ہوتی ہے اس سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مومنین کی ذمہ داری ہے کہ وہ امام کو ڈھال بنائیں اور اس کی صورت یہ ہے کہ وہ اس کی بیعت کریں‘ اس کی اطاعت اختیار کریں‘ اس کی نصرت کرتے ہوئے اس کے گرد اکٹھے ہوں‘ اس کے دست و بازو اور اس کی افواج بنیں یوں اسے مضبوط بنائیں پھر اسی کی قیادت میں قتال کریں اور اسی کے ذریعے دفاع کریں۔

امام شرعی جماعت کی صورت بھی ہے اور چونکہ ﷲ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہے‘ اس بنا پر صرف امام شرعی کی قیادت میں کئے جانے والے جہاد ہی کے حوالے سے امید کی جا سکتی ہے کہ ﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح و نصرت عطا فرمائے گا۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

باب نہم:​
شرعی امیر ’’نبی و خلیفہ‘‘ کے ’’سلطنت و اقتدار کے حامل ہونے‘‘ کا طریقہ کار

گزشتہ صفحات میں ‘ کتاب و سنت سے کسی شخص کے نبی اور لوگوں کے اصولی حکمران قرار پانے کی بنا اور سبب کا مطالعہ کیا گیا ہے‘ ذیل میں کتاب و سنت سے یہ دیکھا جائے گا کہ نبی کے سلطنت و اقتدار کے حامل ہونے کا کیا طریق کار ہے؟

نبی ﷺ کی طرف سے اہلِ ایمان کی بیعت‘ اطاعت اور نصرت میسر آنے سے سلطنت و اقتدار کے حامل ہوئے

نبی ﷺ ﷲ کے مقرر کردہ نشانیوں کی بنا ء پر ﷲ کے نبی تھے اور اس بنا پر اصولاً تمام جن و انس کے حکمران اور تمام روئے زمین کے اقتدار کے حقدار تھے‘ مگر اپنی بعثت کے ساڑھے تیرہ سال بعد تک روئے زمین کے کسی حصے پر اقتدار کے ’’عملاً حامل‘‘ نہ ہو سکے تھے‘ آخر کار ﷲ کی طرف سے آپ کو مومنین کی نصرت میسر آئی جس کے ذریعے سے شروع میں آپ مدینہ کی چھوٹی سی ریاست پر عملاً مقتدر ہوئے پھر مومنین کی نصرت ہی کی بنا پر قتال کے قابل ہوئے اور اس نصرت کے ذریعے سے اس چھوٹی سی ریاست کو وسعت دینے کے قابل ہوئے۔

مدینہ کے اہلِ ایمان کی جس نصرت کی بنا پر آپ مدینہ پر مقتدر بنے اس کا بیان وسعت عقبہ ثانیہ کے حوالے سے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا:۔

’’ یَا رَسُوْلَ اللہِ عَلَامَ نُبَایُعِکَ قَالَ تُبَایِعُوْنِی عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی النَّشَاطِ وَالْکَسَلِ وَعَلَی النَّنَفَقَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَعَلَی الْاَمْرِ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّھْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاَنْ تَقُوْلُوْا فِی اللہِ لَا تَخَافُوْنَ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ وَعَلَی اَنْ تَنْصُرُوْنِیْ فَتَمْنَعُوْنِیْ اِذَا قَدِمْتُ عَلَیْکُمْ مِمَّا تَمْنَعُوْنَ مِنْہُ اَنْفُسَکُمْ وَاَزْوَاجَکُمْ وَاَبْنَائَ کُمْ وَلَکُمُ الْجَنَّۃُ قَالَ فَقُمْنَا اِلَیْہِ فَبَا یَعْنَاہٗ فَاَخَذَ بِیَدِہٖ اَسْعَدُ بْنُ زُرَارَۃَ وَھُوَ مِنْ اَصْغَرِھِمْ فَقَالَ رُوَیْدًا یَا اَھْلَ یَثْرِبَ فَاِنَّا لَمْ نَضْرِبْ اَکْبَارَ الْاِبِلِ اِلَّا وَنَحْنُ نَعْلَمُ اِنَّہٗ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ وَاِنَّ اِخْرَاجَہُ الْیَوْمَ مُفَارَقَۃُ الْعَرَبٍ کَاَفَّۃً وَقَتْلُ خِیَارِکُمْ وَاَنَّ تَعَضَّکُمُ السُّیُوْفُ فَاِمَّا اَنْتُمْ قَوْمٌ تَصْبِرُوْنَ عَلَی ذٰلِکَ وَاَجْرَکُمْ عَلَی اللہَ عَزَّوَجَلَّ وَاِمَّا اَنْتُمْ قَوْمٌ تَخَافُوْنَ مِنْ اَنْفُسِکُمْ جَبِیْنَۃً فَبَیَّنُوْا ذٰلِکَ فَھُوَ عُذُرٌ لَکُمْ عِنْدَ اللہِ قَالُوْا اَمِطْ عَنَّایَا اَسْعَدَ بْنِ زُرَارَۃَ فَوَا اللہِ لَا نَدَعُ ھٰذِہِ الْبِیْعَۃَ اَبَدًا وَلَا نَسْلُبُھَا اَبَدًا قَالَ فَقُمْنَا اِلَیْہِ فَبَایَعْنَاہُ فَاخَذَ عَلَیْنَا وَشَرْطَ وَیُغْطِیْنَا عَلَی ذٰلِکَ الْجَنَّۃَ ‘‘۔

ہم نے عرض کی کہ اے ﷲ کے رسول (ﷺ) ہم آپ ﷺ سے کس بات پر بیعت کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس بات پر کہ:

1۔ چستی و سستی ہر حال میں بات سنو گے اور مانو گے۔

2۔ تنگی اور خوشحالی ہر حال میں مال خرچ کرو گے۔

3۔ بھلائی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے۔

4۔ ﷲ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہوگے اور ﷲ کے مقابلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرو گے۔

5۔ اور جب میں تمہارے پاس آ جائوں تو میری نصرت کرو گے اور جس چیز سے اپنی جان اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو اس سے میری بھی حفاظت کرو گے اور تمہارے لئے جنت ہے۔

اس وقت ہم بیعت کرنے اٹھے تو اسعد بن زرارہ نے جو ان (ستر آدمیوں) میں سب سے کم عمر تھے آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولے: اہل یثرب ذرا ٹھہر جاؤ! ہم آپ کی خدمت میں اونٹوں کے کلیجے مار کر (یعنی لمبا چوڑا سفر کر کے) اس یقین کے ساتھ حاضر ہوئے ہیں کہ آپ ﷺ ﷲ کے رسول ہیں۔ آج آپ ﷺ کو یہاں سے لے جانے کے معنی ہیں سارے عرب سے دشمنی‘ تمہارے چیدہ سرداروں کا قتل اور تلواروں کی مار‘ لہٰذا اگر یہ سب کچھ برداشت کر سکتے ہو تب تو انہیں لے چلو اور تمہارا اجر ﷲ پر ہے اور اگر تمہیں اپنی جان عزیز ہے تو انہیں ابھی سے چھوڑ دو۔ یہ ﷲ کے نزدیک زیادہ قابلِ قبول عذر ہو گا۔(اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کی بات سُن کر) لوگوں نے کہا اسعد بن زرارۃ رضی اللہ عنہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ ﷲ کی قسم ہم اس بیعت کو نہ چھوڑ سکتے ہیں اور نہ توڑ سکتے ہیں ۔ (جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے) ہم لوگ اٹھے اور آپ ﷺ نے ہم سے بیعت لی اور اس کے عوض جنت کی بشارت دی۔
(احمد‘ باقی مسند المکثرین‘ جابر بن عبدﷲ رضی اللہ عنہ)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
مدینہ کے مومنین کی نصرت ہی ایس چیز تھی جس کی بنا پر وہ مومنین انصارِ مدینہ کہلائے‘ اسی نصرت کی بنا پر نبی ﷺ مدینہ کے اقتدار کے حامل ہوئے۔ اس کے بعد ﷲ کی طرف سے ملنے والی مومنین کی نصرت ہی ایسی چیز تھی جس کی بنا پر نبی ﷺ قتال کے قابل ہوئے اور یہی چیز آپ ﷺ کے اقتدار میں وسعت کا باعث بنی۔ مومنین کو نبی ﷺ کی نصرت کیلئے ابھارتے ہوئے ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ:۔

’’ یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَالَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمْ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اثَّا قَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیْلٌ o اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبُکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّیَسْتَبْدِلَ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَلَا تَضُرُّوْہُ شَیْئًا وَاللہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئً قَدِیْرٌo اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ اِذْیَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا السُّفْلٰی وَکَلِمَۃَ اللہِ ھِیَ الْعُلْیَاء وَاللہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌo اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالاً وَجَاھِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ‘‘۔
(التوبہ: 41 ... 38)
’’ اے ایمان والو تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے کہا گیا کہ تم نکلو ﷲ کی راہ میں تو تم چمٹ گئے زمین سے کیا پسند کرلیا ہے تم نے دنیاوی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں؟ (اگر ایسا ہے تو جان لو) کہ نہیں ہے سازو سامان دنیاوی زندگی کا آخر ت کے مقابلہ میں مگر تھوڑا۔ اگر نہ نکلو گے تم تو سزا دے گا تم کو ﷲ دردناک سزا اور نہ بگاڑ سکو گے تم اس کا کچھ بھی اور ﷲ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ اگر نہ نصرت کی تم نے نبی کی تو بیشک نصرت کی تھی اس کی ﷲ نے اس وقت بھی جب نکال دیا تھا اس کو ان لوگوں نے جو کافر تھے (جب تھا وہ) دو میں کا دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے اور جب وہ کہہ رہا تھا وہ اپنے ساتھی سے کہ غم نہ کرو یقینا ﷲ ہمارے ساتھ ہے۔ سو نازل کیا ﷲ نے اپنی طرف سے سکونِ قلب اس پر اور مدد کی اس کی ایسے لشکروں سے جو نہ نظر آتے تھے تمہیں اور کلمہ کافروں کا کر دیا نیچا اور کلمہ ﷲ کا تو ہے ہی بلند و بالا رہنے والا اور ﷲ زبردست اور حکمت والا ہے‘ نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل اور جہاد کرو اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ ﷲ کی راہ میں یہ بہتر ہے تمہارے لئے بشرطیکہ تم سمجھو‘‘۔

نبی ﷺ کو ﷲ تعالیٰ نے اپنی اور مومنین کی نصرت سے مضبوط بنایا اس حوالے سے ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’فَاِنَّ حَسْبَکَ اللّہُ ھُوَ الَّذِیْ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ ‘‘۔
(الانفال:62)
’’ تو یقینا کافی ہے تمہارے لئے اللہ‘ وہی تو ہے جس نے قوت بہم پہنچائی تمہیں اپنی نصرت سے اور مومنین کے ذریعہ سے‘‘۔
۔۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

خلیفہ بھی مومنین کی بیعت‘ اطاعت اور نصرت میسر آنے سے
سلطنت و اقتدار کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ نبی ﷺ اس کے حامل ہوئے

جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ پہلی بیعت کا حامل ہو جانے والا اس پہلی بیعت سے‘ خلیفہ قرار پا جاتا ہے اور تمام اہل ایمان پر لازم ہو جاتا ہے کہ اس کے ساتھ وفاداری نبھائیں اور اسے اس کے حقوق (بیعت‘ اطاعت و نصرت) دیں۔ یوں وہ ’‘صرف ایک شخص‘‘ یعنی پہلی بیعت کرنے والے پر مقتدر ہونے کی انتہائی کمزور حالت سے دیگر مومنین کی طرف سے بیعت کرتے چلے جانے‘ ان کی طرف سے اپنے اوپر اس خلیفہ کا اختیار و اقتدار تسلیم کرتے چلے جانے‘ اس کی اطاعت اختیار کرتے چلے جانے اور اس کی نصرت پر کاربند ہوتے چلے جانے سے یہ خلیفہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔

پہلی بیعت کا حامل ہونے والا نبی ﷺ کی طرح اصولاً تو تمام اہلِ ایمان کیلئے خلیفہ‘ امیر‘ امام اور سلطان مقرر ہوتا ہے لیکن عملاً اس کا اقتدار وہاں تک قائم ہوتا ہے جہاں تک کے لوگ اس کی بیعت و اطاعت اختیار کرتے ہیں جیسے نبی ﷺ اصولاً تو تمام روئے زمین کیلئے مقتدر مقرر کئے گئے تھے لیکن عملاً آپ ﷺ کا اقتدار وہاں تک قائم ہوا تھا جہاں تک کے لوگ آپ ﷺ پر ایمان لائے یا ایمان نہ لانے کے باوجود اہل ایمان کی نصرت کے نتیجے میں آپ کے مطیع (ذمی) ہوئے۔

جوں جوں لوگ خلیفہ کی بیعت‘ اطاعت و نصرت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں اس کی امامت‘ امارت اور سلطنت و اقتدار کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اقتدار تمام مومنین کی بیعت‘ اطاعت و
نصرت میسر آ جانے کی بنا پر تمام بلادِ اسلامیہ پر باآسانی قائم ہو گیا

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ پر پہلی بیعت کے انعقاد سے پہلے تمام اہل ایمان کیلئے محترم تو تھے مگر ان کیلئے واجب الاطاعت اور ان پر مقتدر ہونے کے حوالے سے ابھی کسی شرعی دلیل کے حامل نہ تھے ورنہ صحابہ عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے پہلے ہی آپ رضی اللہ عنہ پر مجتمع ہو جاتے ہیں جبکہ ایسا نہ ہو سکا (اس کی مزید وضاحت لوگوں کی طرف سے پیش کردہ شرائط کے جوابات کے حوالے سے آگے آئے گی) مگر جونہی آپ کے ہاتھ پر عمر رضی اللہ عنہ کے بیعت کرنے سے پہلی بیعت منعقد ہو گئی خلیفہ قرار پاجانے کی بنا پر آپ تمام اہل ایمان کیلئے واجب الاطاعت قرار پا گئے مگر بیعت ہوتے ہی سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کا اقتدر اس شخص پر قائم ہوا جس نے آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر کے اپنے اوپر آپ رضی اللہ عنہ کا اقتدار تسلیم کیا یعنی عمر رضی اللہ عنہ پھر آپ کا اقتدار ثقیفہ بنی ساعدہ میں موجود بقیہ‘ بیعت کر کے آپ کا اقتدر تسلیم کرنے والوں پر قائم ہوا پھر بقیہ افرادِ امت کے بیعت کرتے چلے جانے اور آپ کی اطاعت و نصرت اختیار کرتے چلے جانے سے آپ کے اقتدار کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا مگر یہ وسیع ہوتا ہوا دائرہ وہاں رک گیا جہاں مرتدین و منکرین زکوٰۃ کی حدیں شروع ہو گئیں۔ وہان اہل ایمان کی نصرت ہی سے ان کی سرکوبی ممکن ہوئی اور تھوڑے ہی عرصہ میں ان تمام بلادِ اسلامیہ پر آپ کا اقتدار قائم ہو گیا جو نبی ﷺ چھوڑ کر گئے تھے پھر اہل ایمان کی نصرت ہی سے آپ کے اقتدار کا دائرہ کار پہلے سے زیرِ خلافت علاقوں سے بھی آگے بڑھنا شروع ہو گیا۔

علی رضی اللہ عنہ کا اقتدار شام کے مومنین کی بیعت
اطاعت اور نصرت میسر نہ آنے کی بنا پر بلادِ شام پر قائم نہ ہو سکا

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد آنے والے دو خلفاء کا اقتدار بھی تمام اہل ایمان کی وفاداری فوراً میسر آ جانے پر پورے بلادِ اسلامیہ پر باآسانی قائم ہو گیا مگر علی رضی اللہ عنہ کو اہل شام کی بیعت‘ اطاعت و نصرت میسر نہ آ سکنے پر آپ رضی اللہ عنہ کا اقتدار بلادِ شام پر قام نہ ہو سکا۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

باب دہم:​
تقررِ خلیفہ کیلئے ﷲ کی مقرر کردہ شرائط اور لوگوں کی پیش کردہ شرائط

تقرر خلیفہ کے حوالے سے کتاب و سنت سے جو چیز سامنے آتی ہے اس کا خلاصہ تو یہ ہے کہ ایک خلیفہ کے جانے کے بعد جس بھی شرائط خلافت پوری کرنے والے شخص کے ہاتھ پر ایک اہل ایمان بیعت کر دے اور وہ امت میں پہلی بیعت ثابت ہو جائے تو اس بیعت کا حامل امت کی سیاست کا ذمہ دار‘ عہدہ وخلیفہ کا حامل‘ امت کا امیر‘ امام و سلطان قرار پا جاتا ہے اور سلطنتِ اسلامیہ کے اقتدار کا اصولاً وارث اور حقدار قرار پا جاتا ہے اور پھر اہل ایمان کی طرف سے حقوقِ وفاداری (بیعت اطاعت و نصرت) ادا کرنے سے سلطنت و اقتدار کا عملاً مالک بن جاتا ہے مگر بعض لوگ تقرر خلیفہ کے حوالے سے ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا کتاب ﷲ میں تو نام و نشان نہیں البتہ پیش کرنے والے انہیں ﷲ کی شرط کی طرح پکا قرار دیتے ہیں۔ شرائط کے حوالے سے نبی ﷺ کا یہ ارشاد پہلے بھی گزر چکا ہے کہ:

’’مَابَالُ رِجَالٍ یَشْتَرِطُوْنَ شُرُوْطًا لَیْسَتْ فِیْ کِتَابِ اللہِ مَاکَانَ مِنْ شَرْطٍ لِیْسَ فِیْ کِتَابِ اللہِ فَھُوَ بَاطِلٌ وَاِنْ کَانَ مِائَۃَ شَرْطٍ قَضَائُ اللہِ اَحَقُّ وَشَرْطُ اللہَ اَوْثَقُ‘‘۔
(بخاری ‘ کتاب البیوع ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا)
’’ لوگوں کو کیا ہو گیا کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا ﷲ کی کتاب میں پتہ نہیں۔ جو شرط ﷲ کی کتاب میں نہ ہو وہ باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرطیں بھی ہوں۔ ﷲ ہی کا حکم حق ہے اور ﷲ ہی کی شرط پکی ہے‘‘۔

ذیل میں تقریر خلیفہ کے حوالے سے لوگوں کی پیش کردہ شرائط کا‘ کتاب و سنت کی روشنی میں جائزہ لیا جاتا ہے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

بیعت سے پہلے کسی علاقے پر عملاً مقتدر ہونے کی شرط​
بعض لوگ یہ شرط پیش کرتے ہیں کہ جس شخص کے ہاتھ پر بیعت کرنی ہو اس کا بیعت سے پہلے کسی علاقے پر عملاً مقتدر ہونا لازمی ہے۔

بیعتِ عقبہ ثانیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جس وقت نبی ﷺ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی آپ اصولاً تو پوری دنیا کے مقتدر تھے مگر عملاً کسی علاقے پر مقتدر نہ تھے بلکہ یہ بیعت تو تھی ہی آپ کی اطاعت‘ حفاظت اور نصرت کی بیعت
(پڑھئے بیعتِ عقبہ ثانیہ صفحہ: 238)
اور اقتدار ارضی تو اس بیعت کے نتیجے میں آپ کو سپرد ہوا تھا نہ کہ بیعت سے پہلے آپ اقتدارِ ارضی کے حامل تھے اسی طرح جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تھی تو اس بیعت سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ ذاتی طور پر کسی علاقے پر مقتدر نہ تھے مگر عمر رضی اللہ عنہ کے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہی آپ امت میں پہلی بیعت کے حامل ہو گئے اور اس بنا پر ’’امت کے خلیفہ‘ امام‘ امیر و سلطان قرار پا گئے‘‘ اور ’’اہل ایمان کی وفاداری اور ان کی سلطنت و اقتدارِ ارضی کے حقدار‘‘ ہو گئے اور پھر ایک اہل ایمان عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے خلیفہ قرار پانے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ بقیہ اہل ایمان کی وفاداری (بیعت اطاعت و نصرت) نبھانے سے ’’عملاً‘‘ سلطان و مقتدر بن گئے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
نصرت کرنے والوں کیلئے مقتدر ہونے کی شرط
بعض لوگ یہ شرط پیش کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے نصرت کرنی ہو اور اس کیلئے بیعت کرنی ہو تو ان کا صاحبِ اختیار و اقتدار ہونا لازم ہے کیونکہ ان کے پاس اقتدار ہو گا اور وہ ان کی نصرت کے ذریعے پہلی بیعت کے حامل کو منتقل ہو گا تو وہ مقتدر ہو گا جبکہ کتاب و سنت سے کچھ اور ہی ثابت ہوتا ہے مثلاً:

عیسیٰ علیہ السلام کسی علاقے پر مقتدر نہیں تھے لیکن پھر بھی وہ بنی اسرائیل کو اپنی اطاعت کیلئے کہہ رہے تھے کیونکہ ﷲ کی طرف سے نبی ہونے کی بنا پر ان کیلئے مقرر کردہ حکمران وہی تھے لیکن بنی اسرائیل نے آپ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا بلکہ الٹے وہ آپ علیہ السلام کی جان کے درپے ہو گئے ایسی حالت میں آپ علیہ السلام نے پکارا کہ ’’مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہِ ‘‘ (کون ہے ﷲ کی طرف میری نصرت کرنے والا) ایسی حالت میں جن لوگوں نے آپ کی نصرت کا اعلان کیا وہ ایک تو کسی علاقے پر مقتدر بھی نہیں تھے اس پر مستزاد کمزور بھی اتنے کہ ان کے سامنے ان کی سیاست کے ذمہ دار کے آسمان پر اٹھا لئے جانے کی نوبت آ گئی ۔

حواریوں کے اعلان نصرت کے حوالے سے ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’وَجِئْتُکُمْ بِاٰیٰۃٍ مِّنْ رَبِّکُمْ فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِیْعُوْنَo اِنَّ اللہَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌo فَلَمَّآ اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْھُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ اٰمَنَّا بِاللہِ وَاَشْھَدُ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ‘‘۔
(آل عمران: 50‘ 52)
’’ (عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے کہا) اور آیا ہوں میں تمہارے پاس نشانی لے کر تمہارے رب کی طرف سے لہٰذا ﷲ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو بیشک ﷲ ہی رب ہے میرا بھی اور رب ہے تمہارا لہٰذا تم اسی کی عبادت کرو‘ یہی ہے صراطِ مستقیم۔ پھر جب محسوس کیا عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی طرف سے کفرو انکار تو کہا کون ہے ﷲ کی طرف میری نصرت کرنے والا‘ کہا حواریوں نے ہم ہیں ﷲ کی نصرت کرنے والے۔ ایمان لاتے ہیں ہم ﷲ پر اور گواہ رہیے کہ ہم اطاعت کرنے والے ہیں‘‘۔

آیاتِ بالا سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اعلانِ نصرت و بیعت نصرت کیلئے ضروری نہیں کہ ایسا کرنے والے صاحب اختیار ہوں پھر یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نصرت کی صورت صرف یہی نہیں کہ اپنا اقتدار خلیفہ کو منتقل کر دیا جائے بلکہ کمزوروں کا اطاعت اختیار کرنا بھی ان کی طرف سے نصرت کی صورت ہے کیونکہ حواریوں نے اعلان نصرت کے بعد اطاعت ہی کا اعلان کیا تھا اور کتاب و سنت سے واضح ہوتا ہے کہ نصرت کی بنیادی صورت ’’اطاعت ‘‘ ہی ہے اور ’’اقتدار کے ذریعے سے نصرت‘‘ بھی اطاعت ہی کی بنیاد پر فراہم کی جاتی ہے اور جو لوگ صاحبِ اقتدار نہیں ہوتے جب وہ ’’اطاعت کے ذریعے نصرت‘‘ فراہم کرتے ہیں اور صاحبابِ اقتدار تک دعوتِ حق پہنچاتے ہیں تو اس سے صاحبانِ اقتدار کی نصرت ملنے کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔
۔
 
Top