• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر زینب زندہ ہوتی "تحریر اور جوابات"

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
اگر زینب زندہ ہوتی

ہم تھوڑی دیر کے لیے تصور کر لیتے ہیں کہ زینب زندہ ہے ۔

وہ کوڑےدان کے پاس بے ہوش پڑی ملی تھی۔ اسے بروقت ہسپتال پہنچا دیا گیا، اور یوں اس کی جان بچ گئی۔ چند ہفتوں بعد جب وہ چلنے کے قابل ہوئی تو عدالت نے اسے طلب کر لیا گیا اور اس سے اس دعوی کے متعلق پوچھا گیا جو اس کی بے ہوشی کے دوران کیا گیا تھا۔ زیر نظر کاروائی شریعی عدالت کی ہے جو فقہ اسلامی کی روشنی میں انصاف فراہم کرتی ہے ۔

قاضی: تمھارے والد نے رپورٹ لکھوائی ہے، کہ تمھارے ساتھ زنا کیا گیا ہے۔
زینب: جی، مجھے زبردستی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔


قاضی: کیا عمر ہے تمھاری؟
زینب: سات سال


قاضی: وکیل صاحب، آپ کو معلوم ہے بچے کا دعوی شریعت اسلامی میں معتبر نہیں۔ وہ عاقل و بالغ نہیں، کیا آپ اس کے اس دعوے کا کوئی ثبوت پیش کر سکتے ہیں.
(التشریع الجنائی 397:2)

وکیل: جی ہسپتال کی میڈیکل رپورٹ یہ ہے۔ اس پر دو “عاقل ،بالغ، مرد ڈاکٹروں” نے سائن کر کے لکھا ہے کہ بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔

قاضی: کس شخص نے تمھارے ساتھ زنا کیا ہے؟

پولیس: جی ہم نے cctv کی مدد سے اس درندے کو گرفتار کر لیا ہے۔ اور اس نے اقرار جرم بھی کر لیا ہے۔

قاضی: مجرم پیش ہو اور عدالت کے سامنے بتائے کیا وہ زنا کا اقرار کرتا ہے؟

مجرم: نہیں، میں اقرار نہیں کرتا.

پولیس افسر: کیمرے سے اس کے کپڑوں ، بالوں، قد سب کی شناخت ہوگئی ہے۔ دیکھیں ویڈیو. میں نظر آ رہا ہے یہی ہے جو ہاتھ پکڑ کر لے جا رہا ہے۔

قاضی: حدود کے کیس میں گواہی کا معیار متعین ہے، لگتا ہے وکیل صاحب آپ شریعت اسلامی اور فقہ اسلامی سے واقف نہیں ہیں۔
زنا کے معاملے میں ضروری ہے کہ عینی گواہوں کہ تعداد چار ہو۔ اور یاد رہے گواہ مسلمان ہونا چاہیے ۔کسی غیر مسلم اور مشرک کی گواہی معتبر نہیں۔
(المغنی176/10)


وکیل: آپ جو فرما رہے ہیں ایسا ہی ہو گا، لیکن جی یہ زنا رضامندی کے ساتھ نہیں ہوا، یہ تو زنا بالجبر ہے۔ یعنی زبردستی زنا کیا گیا ہے اور یہ بچی کے ساتھ کیا گیا ہے اس معصوم بچی کے ساتھ۔

قاضی: فقہ اسلامی کی روشنی میں زنا بالجبر، زنا کے علاوہ کوئی الگ جرم نہیں ہے۔ زنا زنا ہی ہوتا ہے۔ چاہے جبرا ہو یا مشاورت سے۔ جو ان سے ہو یا عجوزہ سے۔ البتہ اگر آپ یہ ثابت کر دیں کہ زینب بی بی مالکی فقہ کی پیرو ہیں اور چار مسلمان عاقل بالغ مردوں نے اس شخص کو زبردستی زینب کو اپنا گھر میں لے جاتے دیکھا ہے تو “جنسی استمتاع کے عوض” مہر کی رقم کے جتنا معاوضہ مجرم سے دلوایا جا سکتا ہے، حد پھر بھی جاری نہیں ہو گی، کیونکہ مردوں کی گواہی زینب کو لے جانے کی ہے، زنا ہوتے ہوئے انھوں نے نہیں دیکھا۔
(المدونۃ 322/5)۔

وکیل: کیا آپ نے ٹی وی دیکھا ہے؟ اس معصوم پھول جیسی بچی سے ہمدردی میں پورا ملک سڑکوں پر نکل آیا ہے، لوگ انصاف کا تقاضہ کر رہے ہیں، ہمیں آپ سے انصاف کی توقع ہے ۔

قاضی: اگر زینب حنفی ہے تو مجرم کے انکار کے بعد چار گواہوں نے اگر اسے اٹھا کر لے جاتے ہوئے بھی دیکھا ہو تو “جنسی استمتاع کے عوض” حق مہر جتنا معاوضہ ملنا نا ممکن ہے۔ اس صورت میں حد بھی جاری نہیں ہو سکتی
(سرخسی، المبسوط، 61/9)

حد جاری ہونے کے لیے ضروری ہے کہ چار گواہ اس بات کی گواہی دیں کہ انھوں نے مجرم کو زینب کے ساتھ زنا کرتے ہوئے پورے یقین سے دیکھا ہے اور وہ ہوش و حواس ، قطعیت اور پورے اذعان سے اس کی گواہی دیتے ہیں۔ وکیل صاحب ان چار میں سے اگر دو یہ بھی کہہ دیں کہ زنا جبرا ہوا ہے، تو زینب سزا سے بچ جائے گئی اور مجرم پر حد نافذ ہوسکے گی۔
المغنی(185/10)


وکیل : زینب کو سزا سے کیا مطلب؟ زینب تو بے چاری وہ بچی ہے جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ جبرا زیادتی کی گئی ۔

قاضی: زینب اگر یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی تو وکیل صاحب اسے قذف کی سزا ہو سکتی ہے۔ ہم آپ کو رعایت دے کر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ آپ اگر چار گواہ لے آئیں ۔اور ان میں سے دو بھی یہ کہہ دیں کہ زنا جبرا کیا گیا تھا تو زینب سزا سے بچ جائے گی۔ اور مجرم کو سزا مل جائے ۔ لیکن زینب کو قذف سزا سے بچانے کے لیے بھی دو لوگوں کو جبرا زنا کی گواہی دینا ہوگی۔
لہذا چار گواہ ہوں گے تو مجرم کو سزا ہو گی ورنہ شریعی حد نافذ نہیں کی جا سکتی ۔
(الاستذکار 146/7)


زینب کے والد : اگر ہم چار گواہ پیش ک ردیں تو پھر کیا عدالت اس مجرم کو سزا دے دے گی اور زینب کو انصاف مل جائے گا؟ اس مجرم کو عبرت ناک سزا مل سکے گی ۔
کیا سزا ہوگی اسلامی قانون و فقہ کے تحت قاضی صاحب ؟

قاضی: کیا مجرم شادی شدہ ہے؟
پولیس افسر: جی نہیں


قاضی: پھر سو کوڑے کی سزا دی جائے گی ۔
(سورہ نور، آیت 2)

پولیس: ہم نے چار گواہ تلاش کر لیے ہیں۔
قاضی : عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔


فیصلہ :
“میڈیکل رپورٹ پر دو مرد مسلمان ڈاکٹرز کی تصدیق اور چار عاقل بالغ مسلمان مردوں کی عینی گواہی کے بعد فقہ اسلامی اور شریعت اسلامی کی روشنی میں زینب کے ساتھ زنا کے مجرم کو
“سو کوڑے ” مارنے کی سزا سنائی جاتی ہے، ان شرائط کے ساتھ کہ کوڑے اتنے سخت نہ ہوں کہ مجرم کو زخمی کر دیں یا جلد اکھڑ جائے بلکہ متوسط ہوں اور ان میں گراہ بھی نہ لگی ہوئی ہو۔ کوڑے مختلف اعضاء پر مارے جائیں گے کیونکہ ایک عضو پر مستقل مارنا باعث ہلاکت ہو سکتا ہے، کوڑوں کا مقصد محض زجر ہے، مجرم کی شرم گاہ اور چہرے پر بھی کوڑے نہیں ماریں جائیں گے

(ہدایہ کتاب الحدود فصل فی کیفیۃ الحدود و اقامۃ) ۔


مجرم کو ایک ہفتے میں سو کوڑے کی سزا پوری ہو جانے کے بعد رہا کر دیا گیا۔

زینب کی طبیعت بحال ہو گی، وہ اب تین ماہ بعد اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلی تو اس نے دیکھا، گلی کی کونے میں کھڑا ایک شخص اس کی طرف نظریں جما کر زیر لب مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔

تحریر: محمد حسن الیاس،
(یہ شائد جاوید غامدی کے داماد ہیں)


جاری ہے
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
جواب
فقہ اور اصولِ فقہ کے متعلق جہلِ مرکب کا شاہ کار

غامدی صاحب کا حلقہ اپنے متعلق ہمارے حسنِ ظن کو مسلسل ختم کرنے کے درپے ہے اور اس ضمن میں تازہ ترین کوشش ان کی ترجمانی پر فائز صاحب نے کی ہے جنھوں نے نہ صرف یہ کہ فقہ اور اصولِ فقہ کے متعلق اپنے جہلِ مرکب کا ، بلکہ فقہاے کرام کے متعلق اپنے شدید تعصب کا بھی اظہار کیا ہے اور وہ بھی اس سانحے کے سیاق میں جس پر پوری قوم رنج اور الم میں مبتلا ہے۔ ماضیِ قریب میں اس حلقے ، اور بالخصوص ان ترجمان صاحب، کے ساتھ بحث کے تجربے کی روشنی میں میری سوچی سمجھی راے یہ ہے کہ جامد اور اندھی تقلید میں مبتلا اس متعنت اور متعصب گروہ کے ساتھ بحث کا فائدہ کوئی نہیں ہے۔ اس لیے میں نے ان کی اس یاوہ گوئی کو نظرانداز کیا لیکن مسلسل کئی اصحاب نے اس ضمن میں سوال کیا ۔ اس لیے مجبوراً چند نکات قلم بند کررہا ہوں۔

پہلی غلطی: یہ مسلمانوں کا قاضی ہے یا انگریزوں کا گونگا ، بہرا اور اندھا جج؟

ترجمان صاحب نے اپنے مکالمے میں جس قاضی کو پیش کیا ہے وہ انگریزی عدالت کا جج ہے جس کے نہ صرف ہاتھ پیر بندھے ہوئے ہیں ، اور نہ صرف اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے بلکہ وہ صرف انھی امور پر سوال اٹھا سکتا ہے جو فریقین نے اس کے سامنے پیش کیے ، وہ صرف وہی ثبوت دیکھ سکتا ہے جو مدعی نے اس کے سامنے پیش کیا ، وہ مدعی اور مظلوم کے درمیان فرق دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا ، نہ ہی اسے مظلوم کی چیخ و پکار سنائی دیتی ہے ، نہ ہی وہ اپنے اوپر یہ لازم سمجھتا ہے کہ مظلوم کی داد رسی کرے اور ظالم کے خلاف ثبوت اور شواہد اکٹھے کروائے ، نہ ہی وہ کمرۂ عدالت سے باہر جا کر خود صورتِ واقعہ اور میدانی حقیقت معلوم کرنے کا اختیار رکھتا ہے ۔ یہ اندھا، گونگا، بہرا اور اپاہج جج انگریزوں کے وضع کردہ
adversarial system کا جج ہے ، نہ کہ مسلمانوں کے قاضی کا ۔ کاش ترجمان صاحب ذرا سی مشقت اٹھا کر مسلمان قاضی اور اس معذور جج کے درمیان فرق پر بھی – اردو میں ہی – کوئی کتاب پڑھ لیتے!


کچھ نہیں تو کم از کم اس سوال پر غور کریں کہ inquisitorial system میں جج کے پاس کیا اختیارات ہوتے ہیں اور اس کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں؟ یہ سمجھنا بھی مشکل ہو تو کم از کم سپریم کورٹ کے اختیارات ہی دیکھ لیں کہ وہ "جے آئی ٹی" تشکیل دے سکتی ہے یا نہیں؟ وہ "رٹ" جاری کر سکتی ہے یا نہیں؟

دوسری غلطی: اس قاضی نے فقہ پڑھی ہے یا المورد کی میزان؟

ترجمان صاحب نے جس شخص کو قاضی کے منصب پر بٹھایا ہے، اس نے "تخصص فی المیزان – الطبع الاخیر" کا کورس تو یقیناً کیا ہوا ہے لیکن اس کے بعد فقہ کا مطالعہ صرف سطحی اور سرسری ہی کیا ہے اور وہ بھی ثانوی مآخذ ، بلکہ تیسرے درجے کے مآخذ ، سے ۔ (اور وہ بھی اردو میں ، ورنہ کم از کم بیسویں صدی عیسوی کے مصری مصنف عبد القادر عودہ کی کتاب "التشریع الجنائی" کو "التشریح الجنائی" تو نہ لکھتے۔ واضح رہے کہ کی بورڈ پر عین اور ح ایک دوسرے سے اتنی دور واقع ہیں کہ عین کی جگہ ح لکھا ہی نہیں جا سکتا جب تک واقعی تشریع کو تشریح نہ مانا جائے!)


کم از کم یہ بات تو میں سو فی صد یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ترجمان صاحب نے امام سرخسی کی المبسوط ج 9 ، کتاب الحدود ، کا مطالعہ کیا ہی نہیں ہے ورنہ ایک تو وہ "بونگی" بالکل بھی نہ مارتے جو انھوں نے امام سرخسی کے حوالے سے ماری ہے اور دوسرے انھیں اسی کتاب میں یہ بات تو ضرور ملتی کہ فساد کے جرم پر عبرت ناک طریقے سے سزاے موت دینے کا اختیار حکمران اور قاضی کے پاس ہے اور اس کے ثبوت کے لیے اقرار یا گواہی ضروری نہیں بلکہ قرائن بھی کافی ہوتے ہیں۔

بہرحال ترجمان صاحب کے فرض کردہ متخصص فی المیزان – الطبع الاخیر قاضی کو یہ بھی علم نہیں کہ بچی کے ساتھ کی گئی زیادتی فقہ کی رو سے زنا کی تعریف میں ہی نہیں آتی، اس لیے قذف کا سوال ہی نہیں اٹھتا ۔ اس نام نہاد قاضی کو یہ بھی علم نہیں کہ فقہ کی رو سے بچی پر تشدد کی بدترین قسم کا ارتکاب کیا گیا ہے جس پر فقہی قواعد کی رو سے حدود اور قصاص کے بجاے فقہی تصور "سیاسہ" کا اطلاق ہوتا ہے اور اس وجہ سے اس شنیع ترین جرم کا ارتکاب کرنے والے بدبخت کو بدترین سزا دینا لازم ہے ۔ یہ نام نہاد قاضی یہ بھی نہیں جانتا کہ فقہ کی رو سے اس معاملے میں بارِ ثبوت بچی یا اس کے ولی پر نہیں بلکہ حکومت پر ہے کہ وہ بہرصورت معلوم کرے اور ناقابلِ تردید ثبوت عدالت میں پیش کر کے ثابت کرے کہ جرم کا ارتکاب کس نے کیا ہے ؟ یہ نام نہاد قاضی یہ بھی نہیں جانتا کہ فقہ کی رو سے قاضی پر لازم ہے کہ اگر مجرم معلوم نہ ہو سکے یا جرم ثابت نہ ہو سکے تو اس صورت میں اس پر لازم ہے کہ حکمران پر اس بچی کے ساتھ کیے گئے مظالم کی تلافی لازم کر دے۔

تیسری غلطی: اس متخصص فی المیزان -الطبع الاخیر – قاضی نے فقہاے کرام کے اصولِ فقہ نہیں پڑھے ۔

اس کی وجہ تو واضح ہے۔ اس نام نہاد قاضی کا تخصص تو میزان کے آخری دستیاب ایڈیشن کے "اصول و مبادی" میں ہی ہے۔ اسے اصولِ فقہ سے کیا نسبت؟ اس لیے یہ نام نہاد قاضی یہ بھی نہیں جانتا کہ فقہاے کرام جس قاضی کا ذکر کر رہے ہیں وہ یا تو مجتہد ہوتا ہے اور یا مقلد ۔ پہلی صورت میں وہ اصول خود وضع کرتا ہے ، ان کے درمیان ہم آہنگی یقینی بناتا ہے اور پھر خود ان اصولوں کی روشنی میں فروع مستنبط کرتا ہے ۔ وہ اس کا محتاج نہیں ہوتا کہ ایک بات حنفی فقہ کی المبسوط سے لے تو دوسری بات حنبلی فقہ کی المغنی سے ۔ پھر اگر دوسری صورت ہے کہ یہ قاضی مقلد ہے تو فقہ کی رو سے اس پر لازم ہے کہ کسی ایک فقہی مذہب کی ہی اتباع کرے کیونکہ ایک فقہی مذہب کے اصول آپس میں ہم آہنگ ہوتے ہیں اور دو یا زائد مذاہب کے اصول بسا اوقات ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے نہیں چل سکتے۔ اس صورت میں بھی یہ قاضی یہ کر ہی نہیں سکتا تھا کہ ایک بات حنفی فقہ کی المبسوط سے لے اور دوسری حنبلی فقہ کی المغنی سے۔


ہاں! چونکہ یہ قاضی میزان کے آخری دستیاب ایڈیشن کا متخصص ہے، اس لیے یہ بات قابلِ فہم ہے کہ کیوں وہ ایک اصول ایک جگہ سے ، دوسرا اصول دوسری جگہ سے ، ایک فقہی جزئیہ ایک کتاب سے، دوسرا فقہی جزئیہ دوسری کتاب سے ، عموماً اردو تراجم سے ، یا سنی سنائی سے ، یا سینہ در سینہ پہنچنے والی روایت سے ، لیتا ہے اور اس چکر میں ہی نہیں پڑتا کہ یہ اصول اور جزئیات آپس میں ہم آہنگ ہیں بھی یا نہیں ؟
فقہی لحاظ سے مسئلے کی صحیح نوعیت

ترجمان صاحب کی ساری فرض کردہ صورت حال فقہی لحاظ سے غلط ہے ۔ فقہاے کرام کی تصریحات کی روشنی میں مسئلے کی صحیح نوعیت یہ ہے
:


1۔ اس معاملے میں بارِ ثبوت بچی کے ولی پر نہیں بلکہ حکمران پر ہے اور مجرم تک پہنچنا قاضی کی ذمہ داری ہے جس کے لیے وہ صرف حکمران کی جانب سے پیش کیے گئے ثبوتوں پر ہی انحصار کا پابند نہیں ہے بلکہ اس پر لازم ہے کہ آگے بڑھ کر خود ایسی تدابیر اختیار کرے کہ مجرم معلوم ہو سکے اور اس کے خلاف ناقابلِ تردید ثبوت اکٹھے کیے جا سکیں۔

2۔ اس معصوم بچی کے ساتھ پیش آیا ہوا واقعہ حدِ زنا کا مسئلہ ہے ہی نہیں ، بلکہ یہ فساد کی بدترین قسم ہے جس کے لیے فقہاے کرام "سیاسہ" کے تصور کی رو سے قاضی کےلیے یہ اختیار مانتے ہیں کہ وہ قرائن اور جدید ترین ذرائع سے میسر آنے والے ثبوتوں کی روشنی میں مجرم کو ایسی عبرت ناک سزا دے کہ پھر کسی کو اس طرح کے جرم کے ارتکاب کی جرات ہی نہ ہوسکے۔

3۔ مجرم معلوم نہ ہوسکے تب بھی بچی کے ساتھ کیا گیا ظلم رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ اس کی تلافی کی ذمہ داری حکمران پر ہے اور قاضی کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حکمران سے مظلوم کا یہ حق وصول کروائے ۔
المورد کے تجدد کی رو سے معاملے کی نوعیت

ترجمان صاحب کی طرح میں بھی یہ بتا سکتا تھا کہ المورد کے تجدد کی رو سے اس مسئلے کی کیا نوعیت ہے اور اس تجدد کی رو سے حکمران کے اختیارات اور قانون کے ساتھ جو کھلواڑ ہوتا ہے، اس سے اس طرح کے معاملے میں کیا فسادِ عظیم برپا ہو سکتا ہے، لیکن میں بہرحال اس سطح تک نہیں گرسکتا کہ اس عظیم اور دردناک قومی سانحے کو پوائنٹ سکورنگ کے لیے استعمال کر سکوں۔ مجھے اس سے معذور جانیے۔


ایک نصیحت

جس کے متعلق مجھے یقین ہے کہ ترجمان صاحب اسے درخورِ اعتنا نہیں سمجھیں گے۔ پھر بھی نصیحت کرنا میری ذمہ داری ہے۔ میں پورے خلوص سے انھیں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ فقہاے کرام کے متعلق یاوہ گوئی سے قبل ایک دفعہ فقہ اور اصولِ فقہ کو سمجھنے کی کوشش ضرور کریں۔ ترجمانی کے فرائض انجام دینے کی وجہ سے زیادہ فرصت نہ ہو تو کم از کم فقہاے احناف کے ہاں "سیاسہ" کا تصور ہی سمجھنے کی کوشش کریں ۔ اور ہاں۔ اس مقصد کے لیے مستشرقین یا مستغربین کے بجاے فقہاے کرام ہی کی کتب کا مطالعہ کریں ، اور وہ بھی اصل زبان میں ۔

پس نوشت

قاضی حسین احمد صاحب مرحوم کی دختر ایم این اے بنے تو ان کی صلاحیت کے باوجود اسے "اقربا پروری" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پتہ نہیں المورد میں ڈائریکٹر کا عہدہ اقربا پروری کا نتیجہ ہے یا نہیں۔


تحریر: ڈاکٹر محمد مشتاق


——————–

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد


ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد کے شعبۂ قانون کے چیئرمین ہیں ۔ ایل ایل ایم کا مقالہ بین الاقوامی قانون میں جنگِ آزادی کے جواز پر، اور پی ایچ ڈی کا مقالہ پاکستانی فوجداری قانون کے بعض پیچیدہ مسائل اسلامی قانون کی روشنی میں حل کرنے کے موضوع پر لکھا۔ افراد کے بجائے قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں اور جبر کے بجائے علم کے ذریعے تبدیلی کے قائل ہیں۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
کیا غامدی صاحب زنا بالجبر کے لیے چار گواہوں کی شرط ضروری نہیں سمجھتے؟

دیگر کئی امور کی طرح اس معاملے میں بھی نہ صرف یہ کہ غامدی صاحب کی آرا میں ارتقا
(کبھی معکوس ارتقا) ہوا ہے بلکہ چونکہ یہ آراء حالات کے دباؤ کے نتیجے میں تبدیل ہوتی رہی ہیں (playing to the gallery ان کا بنیادی مسئلہ ہے )، اس لیے ان میں تعارض بھی موجود ہے۔ چنانچہ جب کبھی فقہائے کرام پر نکتہ چینی کی ضرورت ہو اور لوگوں کی جذباتی کیفیت کو مزید برانگیختہ کرنے کا موقع ہو تو غامدی صاحب کے متاثرین اس طرح کے اقتباسات پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں:


"ثبوت جرم کے لیے قرآن مجید نے کسی خاص طریقے کی پابندی لازم نہیں ٹھیرائی، اِس لیے یہ بالکل قطعی ہے کہ اسلامی قانون میں جرم اُن سب طریقوں سے ثابت ہوتا ہے جنھیں اخلاقیات قانون میں مسلمہ طور پر ثبوت جرم کے طریقوں کی حیثیت سے قبول کیا جاتا ہے اور جن کے بارے میں عقل تقاضا کرتی ہے کہ اُن سے اِسے ثابت ہونا چاہیے۔ چنانچہ حالات، قرائن، طبی معائنہ، پوسٹ مارٹم، انگلیوں کے نشانات، گواہوں کی شہادت، مجرم کے اقرار، قسم، قسامہ اور اِس طرح کے دوسرے تمام شواہد سے جس طرح جرم دنیا میں ثابت ہوتے ہیں، اسلامی شریعت کے جرائم بھی اُن سے بالکل اِسی طرح ثابت قرار پاتے ہیں۔ "
(برہان، قانونِ شہادت)

عموماً زنا بالجبر کی بحث میں غامدی صاحب کے متاثرین غامدی صاحب کے بیان کردہ اس اصول سے ایک استثناء کا ذکر کرتے ہیں کہ شریعت نے زنا کے جرم کے ثبوت کے لیے چار گواہ ضروری قرار دیے ہیں۔ اس کے بعد وہ بتاتے ہیں کہ زنا کا جرم زنا بالجبر سے مختلف ہے اور یہ کہ یہ حرابہ کی قسم ہے۔ وہ یہ نہیں بتاتے کہ قرآن نے نص صریح میں ایک اور جرم کے لیے بھی چار گواہ ضروری قرار دیے ہیں اور اس جرم کو غامدی صاحب "حرابہ" ہی میں شمار کرتے ہیں۔ آئیے خود غامدی صاحب کے الفاظ ملاحظہ کریں:


"دوم یہ کہ کسی معاشرے میں اگر قحبہ عورتیں ہوں تو اُن سے نمٹنے کے لیے قرآن مجید کی رو سے یہی کافی ہے کہ چار مسلمان گواہ طلب کیے جائیں جو اِس بات پر گواہی دیں کہ فلاں فی الواقع زنا کی عادی ایک قحبہ عورت ہے۔ وہ اگر عدالت میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ گواہی دیتے ہیں کہ ہم اِسے قحبہ کی حیثیت سے جانتے ہیں اور عدالت نقدو جرح کے بعد اُن کی گواہی پر مطمئن ہو جاتی ہے تو وہ اُس عورت کو سزا دے سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِکُمْ فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ، فَاِنْ شَھِدُوْا فَاَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا
.

(النساء ۴ : ۱۵)’’
اور تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کرتی ہیں، اُن پر اپنے اندر سے چار گواہ طلب کرو۔ پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو اُن کو گھروں میں بند کر دو، یہاں تک کہ موت اُنھیں لے جائے یا اللہ اُن کے لیے کوئی راہ نکال دے۔‘"

اس آیت کے متعلق غامدی صاحب کی یہ تاویل کس حد تک درست ہے، سردست ہم اس پر بحث نہیں کرنا چاہتے۔ ہم صرف یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ زنا کے علاوہ ایک اور جرم بھی ہے جس کے لیے قرآن نے چار گواہ ضروری قرار دیے ہیں اور اس جرم کی تشخیص انھوں نے "قحبہ گری" سے کی ہے۔

اب ایک قدم آگے بڑھا کر دیکھیے کہ قحبہ گری یا "زنا کی عادی عورت" کے جرم کو غامدی صاحب حدود میں شمار کرتے ہیں یا نہیں اور اگر ہاں تو کس حد کا اطلاق اس جرم پر کرتے ہیں؟

"اِس صورت میں اصل مسئلہ چونکہ عورت ہی کا ہوتا ہے، اِس لیے مرد زیربحث نہیں آئے۔ یعنی اِس بات کے گواہ کہ یہ فی الواقع زنا کی عادی قحبہ عورتیں ہیں۔ سورۂ نور میں بھی اللہ تعالیٰ نے اِس جرم کو ثابت کرنے کے لیے چار گواہوں کی یہ شرط اِسی طرح برقرار رکھی ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ یہ ایک عارضی حکم تھا۔ چنانچہ اِس میں جس راہ نکالنے کا ذکر ہے، وہ بعد میں اِس طرح نکلی کہ قحبہ ہونے کی وجہ سے اِن عورتوں کو زنا اور فساد فی الارض، دونوں کا مجرم قرار دیا گیا اور اِن جرائم کی جو سزائیں سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۲ اور سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۳۳ میں بیان ہوئی ہیں، وہ بعض روایتوں کے مطابق اِن پر نافذ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ "
(البیان، سورۃ النساء، آیت 15 پر حاشیہ)

اس اقتباس کو بار بار پڑھیے اور بالخصوص درج ذیل مقامات پر غور کریں:


" سورۂ نور میں بھی اللہ تعالیٰ نے اِس جرم کو ثابت کرنے کے لیے چار گواہوں کی یہ شرط اِسی طرح برقرار رکھی ہے۔ "

" قحبہ ہونے کی وجہ سے اِن عورتوں کو زنا اور فساد فی الارض، دونوں کا مجرم قرار دیا گیا۔ "

" اِن جرائم کی جو سزائیں سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۲ اور سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۳۳ میں بیان ہوئی ہیں، وہ بعض روایتوں کے مطابق اِن پر نافذ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ "

اس سے یہ معلوم ہوا کہ قحبہ دو جرائم کا ارتکاب کرتی ہے: زنا اور فساد فی الارض اور اس وجہ سے اسے دونوں جرائم کی سزا دی جاتی ہے؛ ایک سزا سورۃ النور میں ہے (زنا کی) اور دوسری سزا سورۃ المآئدۃ میں ہے (فساد فی الارض کی) ؛ قحبہ کا جرم ثابت کرنے کے لیے معیار ثبوت چار گواہوں کی گواہی ہے کیونکہ " سورۂ نور میں بھی اللہ تعالیٰ نے اِس جرم کو ثابت کرنے کے لیے چار گواہوں کی یہ شرط اِسی طرح برقرار رکھی ہے۔ "

اب اس پر ایک اور نکتے کا اضافہ کیجیے۔

قرآن کریم نے بے حیائی کے ضمن میں عموماً دو قسمیں بیان کی ہیں: مسافحات اور متخذات اخدان۔ غامدی صاحب نے ان الفاظ کا ترجمہ اس طرح کیا ہے: "بدکاری کرنے والیاں اور آشنائی گانٹھنے والیاں"۔ ان کی رائے یہ ہے کہ سورۃ النسآء کی آیت 15 میں مسافحات کا ذکر ہے اور آیت 16 میں متخذات اخدان کا ذکر ہے۔ چنانچہ آیت 16 کی تاویل میں کہتے ہیں :

" یہ زنا کے عام مجرموں کا ذکر ہے جو بالعموم یاری آشنائی کے نتیجے میں اِس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اِس میں زانی اور زانیہ، دونوں چونکہ متعین ہوتے ہیں، اِس لیے دونوں کا ذکر ہوا ہے اور مذکر کے صیغے زبان کے عام قاعدے کے مطابق شریک غالب کے لحاظ سے آئے ہیں۔ یہی ایذا ہے جو بعد میں سو کوڑوں کی صورت میں متعین کر دی گئی۔ "

پس قحبہ گری ہو یا زنا، سفاح ہو یا اتخاذ اخدان، فساد فی الارض ہو یا "عام زنا "، دونوں کے لیے غامدی صاحب چار گواہوں کی شرط ضروری مانتے ہیں۔

اس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک قحبہ گری کے پیشے اور "زنا بالجبر" کا آپس میں گہرا تعلق تھا۔ چنانچہ سورۃ النور کی آیت کی تاویل میں، جہاں لونڈیوں کو زنا پر مجبور کرنے پر وعید سنائی گئی ہے، لکھتے ہیں:

"بانداز تنبیہ فرمایا ہے کہ اب کوئی شخص اِن لڑکیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرے، ورنہ یاد رکھے کہ جبر کی صورت میں اللہ اُنھیں تو معاف کر دے گا، لیکن اُن سے پیشہ کرانے والے اپنا انجام سوچ لیں، وہ اُس کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔ اِس تنبیہ کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ اُس زمانے کے عرب میں لونڈیاں ہی زیادہ تر چکلوں میں بٹھائی جاتی تھیں اور اُن کے مالک جو کچھ اُن کے ذریعے سے کماتے تھے، اُس سے آسانی کے سا تھ دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے تھے۔ چنانچہ اندیشہ تھا کہ وہ اپنے تمام ہتھکنڈے اُن کو پاک دامنی کی زندگی بسر کرنے سے روکنے کے لیے استعمال کریں گے۔ "
(سورۃ النور، آیت 33 پر حاشیہ)

اب ان دو باتوں کے ساتھ تیسری بات کا اضافہ کیجیے کہ روایات میں جہاں رجم کی سزا کا ذکر ہے، اسے غامدی صاحب قحبہ گری، فساد فی الارض اور زنا بالجبر کی سزا قرار دیتے ہیں۔ یہ بات اتنی مشہور ہے کہ اس کے لیے کوئی اقتباس پیش کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اب دیکھیے کہ رجم کی سزا کے متعلق روایات سے کیا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سزا کس بنیاد پر دی گئی؟ کسی بھی روایت میں آپ کو اقرار یا چار گواہوں کے سوا کوئی تیسرا طریقہ نہیں ملتا۔ لے دے کے ایک روایت (فجر کے وقت عورت پر جنسی حملے کا واقعہ) ملتی ہے جس سے غامدی صاحب کے متاثرین یہ استدلال کرتے ہیں کہ "زنا بالجبر" کی سزا "متاثرہ عورت کی گواہی" پر دی گئی۔ اس روایت پر الگ بحث کی ضرورت ہے لیکن سردست اتنا نوٹ کرنا کافی ہے کہ غامدی صاحب کے اصولوں کے مطابق اس روایت سے استدلال ہی غلط ہے کیونکہ اس کی سند بھی مضطرب ہے اور متن بھی اور جب تک روایت سنداً صحیح نہ ہو غامدی صاحب اسے استدلال کے لیے استعمال کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ نیز اس روایت میں بھی اس شخص کے اقرار کا ذکر بہرحال ہے۔


ان تین باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب فساد فی الارض میں زنا شامل ہو تو غامدی صاحب اس کے ثبوت کے لیے چار گواہ ضروری سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
زنا بالجبرکی بحث میں اہل المورد کی غلطی

ہمیں توقع تھی کہ اس موضوع پر ہم نے جتنی تفصیل سے غامدی صاحب کے متبعین کی غلط فہمیوں پر بحث کی ہے اس کے بعد کسی نئی غلط فہمی کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں ہو گی لیکن لگتا ہے کہ ابھی بہت لمبا سفر باقی ہے۔ جناب احمد بلال صاحبِ علم ہیں اور ان سے بالخصوص یہ توقع تھی کہ ان کے لیے فقہاے کرام کے موقف کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا ہو گا ۔ اپنے تفصیلی مضمون کی ابتدا انھوں نے اسی نکتے سے کی جو ہمارے نزدیک اس ساری غلط فہمی کی جڑ کاٹ دیتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ یہ سرا چھوڑ کر کسی اور طرف چلے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کے لیے گتھی سلجھنے کے بجاے مزید الجھ جاتی ہے۔

ڈور کو سلجھا رہے ہیں اور سرا ملتا نہیں!

پہلے یہ نکتہ خود ان کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ اس کے بعد آگے کی بحث کریں گے۔ وہ فرماتے ہیں :

"کسی عورت کی عصمت دری، یا عوام کی زبان میں عزت لوٹ لینے کے جرم کو ہمارے شریعت پر مبنی قانونی مسودات زنا بالجبر کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس اصطلاح میں نقائص ہیں اور یہ ہماری روایتی فقہ میں بھی اسی طرح موجود نہیں، اس لیے اس کی جگہ کوئی دوسری اور بہتر 'Umbrella term' وضع و اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ پھر مردوں، کم سن بچے بچیوں کو بھی اس کی مختلف صورتوں میں شامل تصور کرنا عقلی اقتصاءات کا تقاضا ہے۔ "

یہاں پہلی بات نوٹ کرنے کی یہ ہے کہ "زنا بالجبر" کی اصطلاح کے متعلق ان کا بنیادی مفروضہ ہی غلط ہے۔ ہم بالتفصیل واضح کرچکے ہیں کہ یہ اصطلاح "ہماری شریعت پر مبنی قانونی مسودات" نے تخلیق نہیں کی بلکہ دراصل یہ انگریزوں کے دیے گئے قانون، مجموعۂ تعزیراتِ ہند، میں بنائے گئے جرم rape کا اردو ترجمہ ہے۔ جب ریپ کی دفعات حدود قوانین 1979ء کے ذریعے ختم کی گئیں تو ان نئے قوانین میں ریپ کی جگہ زنا بالجبر کی اصطلاح ہی استعمال کی گئی۔ اصلاً یہ اصطلاح "ہماری شریعت" سے نہیں آئی بلکہ انگریزوں کے قانون سے آئی ہے جسے "ہماری شریعت پر مبنی قانونی مسودات" میں بھی جگہ دی گئی، اور یہ بہت بڑی غلطی تھی لیکن براہ کرم اس غلطی کو "ہماری شریعت" کی طرف منسوب نہ کیا جائے۔

دوسری بات یہ ہے کہ وہ نہ صرف یہ مانتے ہیں کہ "اس اصطلاح میں نقائص ہیں" بلکہ یہ بھی مانتے ہیں کہ "اور یہ ہماری روایتی فقہ میں بھی اسی طرح موجود نہیں"۔ اس کے باوجود وہ اپنی اگلی ساری بحث اس مفروضے پر کرتے ہیں کہ فقہاے کرام نے "زنا بالجبر" کے احکام کو "زنا بالرضا" کے احکام پر "قیاس" کیا ہے۔ فیا للعجب! اس مفروضے کی غلطی ہم تفصیل سے واضح کرچکے ہیں لیکن چونکہ احمد بلال صاحب نے پھر یہ نکتہ بڑے زور و شور سے اٹھایا ہے، اس لیے ہم بھی مجبوراً آگے چند نکات اس غلط فہمی کے ازالے کی کوشش میں ذکر کریں گے۔

تیسری بات یہ ہے کہ وہ یہ مانتے ہیں کہ جنسی تشدد کی کئی دیگر اقسام سرے سے اس اصطلاح کی تعریف میں آتے ہی نہیں لیکن اس کے باوجود وہ اس بنیادی سوال پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ پھر اس ناقص اصطلاح اور ناقص تصور کے بجاے مسئلے کو جڑ سے کیوں نہ پکڑا جائے؟

"مظلوم" اور "ملزم" کا فرق ضروری ہے یا نہیں؟

ریپ کے کیسز میں جہاں یہ امکان ہوتا ہے کہ ریپ کا الزام لگانے والی خاتون واقعی مظلوم ہو وہاں یہ امکان بھی ماننا پڑتا ہے، اور بارہا ثابت بھی ہوا ہے، کہ اس کا الزام غلط بلکہ بدنیتی پر مبنی تھا۔ امریکا سے چند اعداد و شمار ذکر کرنے کے بعد احمد بلال صاحب لکھتے ہیں :

" اس طرح کے کیسز میں قانون سازی کی باتیں کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ قانون میں مظلوم (victim) اور ملزم (accused) کے حقوق کے مابین ایک لطیف بیلنس قائم کرنا پڑتا ہے جو ایک بہت دقیق مشق ہے۔ اسی لیے یہ مضمون اس کی کوئی کوشش بھی نہیں کرے گا۔ "

ایک دفعہ پھر اصل مسئلے تک رسائی کے بعد وہ کتنی آسانی سے اسے جوں کا توں چھوڑ دیتے ہیں اور آگے چلے جاتے ہیں! جب تک اس بنیادی حقیقت پر توجہ نہیں ہوگی کہ عدالت نے ہر مدعی کو مظلوم نہیں فرض کرنا، قانونی مسائل کی پیچیدگیوں کا صحیح ادراک ہو ہی نہیں سکتا۔ اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ یہاں وہ یہ دعوی کررہے ہیں کہ وہ اس مضمون میں مظلوم اور ملزم کے درمیان بیلنس قائم کرنے کی کوشش نہیں کریں گے لیکن آگے کی بحث میں وہ پہلے ریپ کا الزام لگانے والی کو مظلوم مان کر سارا تجزیہ اسی زاویے سے پیش کردیتے ہیں اور اس کے بعد جب اس موقف پر اعتراضات کی طرف آتے ہیں تو مان جاتے ہیں کہ اگر عورت نے جھوٹا الزام لگایا ہو تو اسے جھوٹے الزام کی سزا ملنی چاہیے۔ یہی تو وہ بیلنس تھا جسے قائم کرنے سے آپ گریزاں تھے! یہی تو وہ پہلو ہے جسے نظرانداز کرنے سے ہی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔

اس لیے ان کا یہ کہنا محض تجاہل عارفانہ ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں کہ:

"یہ بدیہی بات ہے کہ جس طرح زیادتی کے نوعیت کے باقی مقدمات میں انصاف کے ادارے پہلے یہ تسلی کرتے ہیں کہ جرم ہوا بھی ہے کہ نہیں، اسی طرح عصمت دری کے مقدمات میں بھی کریں گے۔ اس کو بیان میں لانا کیونکر ضروری تھا؟"

اس کو بیان میں لانا اس لیے ضروری ہے کہ اسے بیان میں لائے بغیر تصویر مکمل نہیں ہوتی اور آپ کے دوست یک رخے پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ احمد بلال صاحب نے آگے ایک دلچسپ مثال دی ہے:

"موٹروے پر حد رفتار سے تجاوز کرنے پر سزا مقرر ہے۔ اب ایک شخص یہ مشہور کرنا شروع کر دیتا ہے یا موٹروے پولیس کے پاس یہ الزام لیکر آتا ہے کہ میں نے فلاں شخص کو فلاں مقام اور وقت پر حد رفتار سے تجاوز کرتے دیکھا ہے۔ ایک دوسری مثال میں ایک شخص جس کی گاڑی کے ساتھ تیز رفتاری کے باعث کسی دوسری گاڑی کی ٹکر ہو گئی اور وہ بھاگ گئی، اپنا استغاثہ لیکر آیا ہے کہ اسے انصاف دلایا جائے۔ یہ دونوں کیسز ایک جیسے ہو گئے؟ دوسرا اپنے ساتھ زیادتی کا مقدمہ لیکر آیا ہے۔ ٹوٹی ہوئی گاڑی اس کے پاس ہے اور اپنے نقصان کا مداوا چاہتا ہے۔ جبکہ پہلا محض ایک ایسا الزام لیکر آیا ہے جس سے اس کا نہ تو کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اس کا کوئی نقصان ہوا ہے۔ "

اس مثال سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح کیسے وہ قانونی مسئلے کی پیچیدگی کو سادہ بنا کر پیش کررہے ہیں اور اس وجہ سے اصل مسئلہ نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ بھئی یہاں تو جسے آپ مظلوم کہہ رہے ہیں وہ اس وجہ سے مظلوم نہیں کہ وہ کہتا ہے کہ میرے ساتھ ظلم ہوا ہے بلکہ اس وجہ سے اسے مظلوم مانا گیا ہے کہ " ٹوٹی ہوئی گاڑی اس کے پاس ہے"۔ ایک لمحے کے لیے فرض کیجیے کہ اس کے پاس ٹوٹی ہوئی گاڑی نہیں ہے بلکہ اس کی گاڑی بالکل صحیح سلامت ہے، تو کیا پھر بھی اسے محض اس وجہ سے مظلوم مانا جائے گا کہ وہ یہ کہہ رہا ہے کہ میری گاڑی کو کسی نے ٹکر ماری جبکہ دوسرا شخص تو کسی اور کی گاڑی کے بارے میں بات کررہا تھا؟ ذرا سے تامل سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ اصل سوال یہ نہیں کہ کون اپنی گاڑی کی بات کررہا ہے اور کون کسی دوسرے کی گاڑی کی، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا واقعی گاڑی ٹوٹی ہوئی ہے؟

کیا فقہاے کرام "زنا بالجبر" کو "زنا بالرضا" پر قیاس کرتے ہیں؟

یہ بات اتنی کثرت سے دہرائی جارہی ہے کہ عام لوگ اسے مسلمہ حقیقت سمجھنے لگے ہیں۔ احمد بلال صاحب نے اسے ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر ہی پیش کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

"ہماری روایتی فقہ میں بالعموم اصلاً اور اوّلاً زنا بالجبر کو زنا بالرضا پر ہی قیاس کیا گیا، اور اسی لیے حدود میں سے شمار کیا گیا ہے۔ یہ بات اتنی واضح ہے کہ اس ضمن میں کسی کو 'hide the ball' کھیلنے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ "

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں وہ خود اپنا بیان کردہ نکتہ بھول گئے ہیں جس سے انھوں نے اپنے مضمون کی ابتدا کی تھی۔ ہم ان کی یاددہانی کے لیے ان کے الفاظ یہاں دہرا دیتے ہیں:

"کسی عورت کی عصمت دری، یا عوام کی زبان میں عزت لوٹ لینے کے جرم کو ہمارے شریعت پر مبنی قانونی مسودات زنا بالجبر کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس اصطلاح میں نقائص ہیں اور یہ ہماری روایتی فقہ میں بھی اسی طرح موجود نہیں۔ "

سوال یہ ہے کہ اس بات کے بعد اس دعوے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ فقہاے کرام نے "زنا بالجبر" کو "زنا بالرضا" پر قیاس کیا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اپنے اس دعوے کے حق میں کوئی دلیل یا کوئی حوالہ دینا بھی پسند نہیں کرتے بلکہ یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ: "یہ بات اتنی واضح ہے کہ اس ضمن میں کسی کو 'hide the ball' کھیلنے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ " یعنی غامدی صاحب کے الفاظ میں "اس معاملے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں!"

احمد بلال صاحب فرماتے ہیں:

" میرے اس مضمون کا محور زنا بالجبر کی سزا کے اس پہلے اور اکیلے جزئیے سے ہے جسے حد میں شمار کیا جاتا ہے، اور جس کے تحت زنا بالرضا پر قیاس کے نتیجے میں اسی کی سزائیں زنا بالجبر کے لیے متعیّن ہو جاتی ہیں، اور اسی کا معیارِ ثبوت – یعنی چار چشم دید گواہ – اس کے لیے بھی ضروری۔ "

ان سے پہلے اس مکتب فکر کے جن اصحاب نے بعض فقہی جزئیات سے یہ استدلال کیا تھا اور ہم تفصیل سے ان کے اس استدلال کی غلطی واضح کرچکے ہیں۔ تاہم چونکہ یہ بات پھر دہرائی گئی ہے اس لیے ایک دفعہ پھر ہمیں اپنی وضاحت یہاں پیش کرنی پڑ رہی ہے۔ شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات! ہم نے لکھا تھا:

زنا کے احکام پر بحث کرتے ہوئے فقہاے کرام کے سامنے ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر چار گواہوں نے گواہی دی کہ مرد نے عورت کے ساتھ زنا کیا لیکن عورت کو مجبور کیا گیا تھا تو عورت سے تو حد ساقط ہوجاتی ہے لیکن کیا مرد پر زنا کی حد جاری کی جائے گی؟ یہ سوال اس لیے اٹھا کہ فعلِ زنا میں دو افراد شامل ہوتے ہیں جن میں ایک سے حد ساقط ہوچکی ہے تو کیا اس سے دوسرے کے فعل کے متعلق شبہ پیدا ہوجاتا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب فقہاے کرام صراحت سے نفی کے ساتھ دیتے ہیں۔ امام سرخسی فرماتے ہیں: فأما إذا زنى بمكرهة يلزمه الحد ۔ (اگر اس نے عورت کو مجبور کرکے اس سے زنا کیا تو اس پر حد لازم ہے ۔ )

واضح رہے کہ یہاں بحث یہ نہیں ہ ورہی کہ کیا "زنا بالجبر" زنا کی قسم ہے یا نہیں، بلکہ یہ ہورہی ہے کہ جب کسی شخص کے متعلق چار گواہوں سے ثابت ہوا کہ اس نے زنا کیا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ خاتون کو مجبور کیا گیا تھا تو خاتون تو سزا سے محفوظ رہے گی لیکن مرد پر زنا کی حد لازم ہوگی کیونکہ مرد کا فعل الگ فعل ہے اور اسے اپنے مستقل بالذات فعل کی سزا مل رہی ہے ۔

پھر نوٹ کریں کہ یہاں یہ بحث نہیں ہورہی کہ عورت کے ساتھ جبر کیا گیا تو اسے کیسے ثابت کیا جائے گا؟ بحث یہ ہورہی ہے کہ زنا کا فعل ثابت ہو چکا ہے لیکن یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ مرد نے عورت کو مجبور کیا تھا تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے گا؟

زنا پر بحث میں فقہاے کرام اس سوال پر بھی غور کرتے ہیں کہ اگر زنا کے گواہوں کا اختلاف ہوجائے کہ بعض اکراہ کا اثبات کریں اور بعض اس کی نفی کریں تو کیا ان کی گواہی سے مرتکبین میں کسی کا جرم ثابت ہوسکے گا؟

امام ابوحنیفہ کا موقف یہ ہے کہ اس صورت میں کسی کے لیے بھی زنا کا جرم ثابت نہیں ہوتا ۔ امام سرخسی اس کی وضاحت میں کہتے ہیں کہ اگر دو گواہوں نے اکراہ کا ذکر کیا اور دو نے رضامندی کا تو یہ دو الگ افعال کی گواہیاں ہوگئیں کیونکہ اکراہ کے تحت کیا گیا فعل رضامندی کے تحت کیے گئے فعل سے مختلف ہوتا ہے ؛ اور معلوم حقیقت ہے کہ زنا کا جرم چار گواہوں کی گواہی سے ہی ثابت ہوتا ہے ۔

اس جزئیے پر غور کرتے ہوئے یہ بات نگاہوں سے اوجھل نہ ہوجائے کہ یہاں بحث اس پر نہیں ہورہی کہ "زنا بالجبر" کے ثبوت کے لیے چار گواہ چاہئیں ، بلکہ اس پر ہورہی ہے کہ زنا کے لیے چار گواہ چاہئیں اور جب دو نے اکراہ کا اور دو نے رضامندی کا ذکر کیا تو زنا کے متعلق چار گواہ میسر نہ ہوسکے۔ یہاں فقہاے کرام یہ بحث کرہی نہیں رہے کہ عصمت دری کا جرم کیسے ثابت کیا جاتا ہے ۔ وہ یہ واضح کررہے ہیں کہ جب مرد و عورت پر زنا کا الزام لگا لیکن گواہوں میں اختلاف ہوا تو کیا زنا کا جرم ثابت ہوسکتا ہے؟

اس کی مزید وضاحت اس سوال سے ہوجاتی ہے کہ اس صورت میں کیا ہو گا اگر گواہوں کا اختلاف جگہ یا وقت پر ہوا؟ امام سرخسی نے تصریح کی ہے:

الزنا فعل یختلف باختلاف المحل و المکان و الزمان ؛ و ما لم یجتمع الشھود الأربعۃ علی فعل واحد ، لا یثبت ذلک عند الامام ۔
(زنا کے فعل کی نوعیت فعل کے محل ، مکان اور وقت پر اختلاف سے تبدیل ہوتی ہے ۔ اس لیے جب تک چار گواہ ایک فعل پر متفق نہ ہوں ، عدالت کے سامنے یہ فعل ثابت نہیں ہوتا۔ )


یہاں یہ بات بھی مد نظر رہے کہ حدود کے معاملے میں جہاں معمولی سا بھی امکان پیدا ہوجائے جس کی بنا پر حد کی سزا روکی جاسکتی ہے تو فقہاے کرام حد کی سزا روکنے کے قائل ہوجاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ اگر کسی جوڑے کے متعلق چار افراد زنا کی گواہی دیں اور وہ نکاح کا دعوی کریں تو خواہ ان کے پاس نکاح کا گواہ نہ ہو، فقہاے کرام کے نزدیک حد ساقط ہوجاتی ہے ، بلکہ اگر مرد نکاح کا انکاری بھی ہو تب بھی حد ساقط ہوجائے گی ۔ (یاد کریں کہ گواہوں کے بغیر نکاح کے بعد جب دخول ہو جائے تو اس پر عقدِ فاسد کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے!)

زنا پر بحث کے وقت فقہاے کرام یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ اگر زنا کے ساتھ کسی اور جرم کا بھی ارتکاب ہوا تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟

مثال کے طور پر اگر کسی عورت کے ساتھ زنا کیا گیا اور اس کے کسی عضو کو نقصان پہنچایا گیا تو فقہاے کرام کہتے ہیں کہ اس صورت میں اس عضو کا ارش لازم ہوتا ہے امام سرخسی نے یہاں ایک اہم نکتے کی وضاحت کرتے ہیں جو زیربحث موضوع کے لیے قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ اس صورت میں ارش اور حد دونوں کا اطلاق ہوتا ہے لیکن اس پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ ایک جرم پر دو سزائیں کیوں دی جا رہی ہیں کیونکہ دونوں سزاؤں کے اسباب الگ ہیں:
و ما یجب بالجنایۃ لیس بدل المستوفی بالوطء حتی یقال : لا یجمع بینہ و بین الحد ؛ بل ھو بدل المتلَف بالجنایۃ۔
(جرم کی وجہ سے جو تاوان واجب ہوتا ہے وہ وطی کے ذریعے حاصل کی جانے والی چیز کا بدل نہیں کہ یہ کہا جائے کہ اسے حد کے ساتھ اکٹھا نہیں کیا جاسکتا؛ بلکہ وہ اس چیز کا بدل ہے جس کا اتلاف جرم کے نتیجے میں کیا گیا ۔ )


اسی طرح صاحبِ ہدایہ واضح کرتے ہیں کہ اس صورت میں دو الگ جرائم ہوتے ہیں اور ہر جرم کے اپنے نتائج ہوتے ہیں : انہ جنی جنایتین ، فیوفر علی کل واحد منھما حکمہ ۔ (اس نے دو جرم کیے ہیں ، اس لیے اس پر ان میں سے ہر جرم کے احکام کا اطلاق ہوگا۔ )

اس کے علاوہ ہم یہ بھی واضح کرچکے ہیں کہ پاکستان میں رائج کیے گئے جرم زنا آرڈی نینس کے تحت بھی "زنا بالجبر" کے لیے چار گواہوں کی شرط نہیں تھی بلکہ چار گواہوں کی عدم موجودگی میں بھی دیگر طرقِ اثبات سے زنا بالجبر ثابت کیا جاسکتا تھا۔

جرم زنا آرڈی نینس کی دفعہ 6 میں زنا بالجبر کی تعریف پیش کی گئی تھی اور دفعہ 8 میں اس کے لیے معیار ثبوت یہ رکھا گیا تھا کہ ملزم اقرار کرے یا اس کے خلاف چار گواہ پیش ہوں۔ آرڈی نینس کے ناقدین نے اس سے آگے پڑھنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کی۔ دفعہ 10 میں قرار دیا گیا تھا کہ چار گواہ نہ ہوں تو کیا کیا جائے گا۔ ملاحظہ کریں:

whoever commits ... zina-bil-jabr which is not liable to hadd, or for which proof in either of the forms mentioned in Section 8 is not available and the punishment of ‘qazf’ liable to hadd has not been awarded to the complainant, or for which hadd may not be enforced under this Ordinance, shall be liable to tazir.
اسی دفعہ کی ذیلی دفعہ 3 میں قرار دیا گیا تھا:


Whoever commits zina-bil-jabr liable to tazir shall be punished with imprisonment for a term which may extend to twenty-five years and shall also be awarded the punishment of whipping numbering thirty stripes.
ان دفعات کی روشنی میں یہ دعوی قطعی غلط تھا کہ ریپ کی شکار خاتون اگر چار گواہ پیش نہ کرسکی تو ریپ ثابت نہ ہوتا، یا یہ کہ ریپ کے ثبوت میں ڈی این اے اور میڈیکل رپورٹس ناقابل اعتبار ٹھہرائی گئیں۔ ایسا نہیں تھا بلکہ معاملہ صرف اتنا تھا کہ چار گواہ "حد" کی سزا کے لیے درکار تھے۔ ڈی این اے اور دیگر رپورٹس اور ثبوتوں پر 25 سال تک قید اور 30 کوڑوں کی تعزیری سزا دی جاسکتی تھی۔


اپنے ایک مضمون میں ہم نے آخر میں یہ سوالات ان دوستوں کے سامنے رکھے تھے۔ وہی سوالات یہاں پھر پیش کرنے پڑ رہے ہیں کیونکہ ان سوالات کا جواب دیے بغیر یہ مفروضہ مانا نہیں جاسکتا کہ فقہاے کرام "زنا بالجبر" کو "زنا بالرضا" پر قیاس کرتے ہیں:

1۔ کیا متخصصین فی المیزان کسی ایک فقیہ کا نام بتاسکتے ہیں جو جنسی تشدد کے ثبوت کے لیے چار گواہ لازمی سمجھتے ہوں؟
2۔ چلیں کسی ایسے فقیہ کا ہی نام بتادیں جو جنسی تشدد کے الزام کو قذف کہتا ہو۔
3۔ یہ بھی نہیں تو کسی ایسے فقیہ کا نام بتادیں جو "زنا بالجبر" کے الزام کو قذف کہتا ہو اور اس وجہ سے ثبوت میں چار گواہ مانگتا ہو۔


صحافیانہ فنکاری کی روایت

فراہی مکتبِ فکر کے منتسبین میں عموماً یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ قانونی مسائل پر بحث میں صحافیانہ فنکاری کے کمالات دکھانا شروع کردیتے ہیں۔ دور کیوں جائیں؟ زانی محصن کی سزا کی روایات کے متعلق تدبر قرآن میں مولانا اصلاحی کی 'تحقیق' ہی پڑھ لیجیے۔ جناب احمد بلال صاحب سے ہمیں یہ توقع تھی کہ کم از کم وہ ایسا نہیں کریں گے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! انھوں نے یہ روایت برقرار رکھی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

"ہمارے فقہا چونکہ زنا بالجبر کو زنا بالرضا پر ہی قیاس کرتے ہیں اسی لیے ایسا بیانِ قانون ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر فلاں شرائط پوری ہوئیں تو مستغیثہ پر قذف کی حد جاری نہیں کی جائیگی۔ یعنی یہاں بھی کمال دیکھیں۔ میں اسے دوسرے جرائم پر محمول کر کے اس جملے کی حیرت انگیز لغویت واضح کرتا ہوں: کسی مقتول کے ورثا اگر انصاف لینے آئے تو اگر انہوں نے فلاں شرائط پوری کر دیں تو خود ان پر قذف کی سزا جاری نہیں کی جائیگی ؛ اگر کوئی عضو تلف کیے جانے پر انصاف کے لیے آیا تو اگر اس نے فلاں شرائط پوری کر دیں تو خود اس پر قذف کی سزا جاری نہیں کی جائیگی ۔ ؛ اگر کسی کا مال ڈاکو لوٹ لے گئے اور وہ انصاف کے لیے قانونی ادارے کے پاس آیا تو اگر اس نے فلاں شرائط پوری کیں تب ہی خود اس پر قذف کی سزا جاری نہیں کی جائیگی ۔ "

یہ صحافیانہ فنکاری کیوں ہے؟ اس کے لیے درج ذیل نکات پر غور کریں:

ایک یہ کہ فقہاے کرام کے متعلق یہ مفروضہ کہ وہ زنا بالجبر کو زنا بالرضا پر قیاس کرتے ہیں، محض ایک مفروضہ ہے اور اس مفروضے کے حق میں احمد بلال صاحب کوئی دلیل یا حوالہ پیش نہیں کرسکے ہیں۔

دوم یہ کہ فقہاے کرام کے متعلق یہ کہنا کہ " اگر فلاں شرائط پوری ہوئیں تو مستغیثہ پر قذف کی حد جاری نہیں کی جائیگی" ادھوری بات ہے۔ فقہاے کرام اس سے آگے بڑھ کر یہ کہتے ہیں کہ اگر ثابت ہوا کہ عورت کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی تو قذف کا قانون اس پر لاگو ہی نہیں ہوتا اور اسی لیے اس سے چار گواہ طلب نہیں کیے جائیں گے۔ باقی باتیں ایک طرف، پاکستان میں جو جرم زنا آرڈی نینس اور قذف آرڈی نینس نافذ کیے گئے تھے ان میں بھی یہی پوزیشن تھی جیسا کہ ہم واضح کرچکے ہیں۔ ہم پہلے بھی یہ مطالبہ کرچکے ہیں اور اب پھر دہرارہے ہیں کہ اگر احمد بلال صاحب یا المورد کے کسی اور 'محقق' یا 'ڈائریکٹر' کا یہ دعوی ہے کہ زنا بالجبر کی شکار خاتون سے فقہاے کرام چار گواہ طلب کرتے ہیں اور پیش نے کرنے پر اس پر قذف کی حد جاری کرتے ہیں تو وہ فقہ کی کسی کتاب سے اس کا حوالہ دے دیں۔

سوم یہ کہ دیگر جرائم کا ذکر محض مبالغہ اور رنگ آمیزی ہے ورنہ احمد بلال صاحب بھی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ قذف صرف زنا کے الزام کو کہتے ہیں اور اس وجہ سے یہ دیگر ساری مثالیں قطعی غیر متعلق ہیں لیکن ظاہر ہے کہ جذبات ابھارنے کے لیے ایسی مثالیں دینا صحافیانہ فنکاری کا کمال ہے۔

چہارم یہ کہ خود احمد بلال صاحب یہ امکان مانتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ جنسی تشدد کا الزام جھوٹا ہو اور یہ بھی مانتے ہیں کہ اگر ایسا ثابت ہوا تو پھر جھوٹا الزام لگانے والی عورت کو سزا بھی دینی چاہیے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

"ایک سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ اگر مستغیثہ جھوٹ بول رہی ہو تو پھر کیا کیا جائے گا۔ تو بھئی وہی کچھ کیا جائے گا جو زیادتی کے نوعیت کے دوسرے criminal مقدمات میں کیا جاتا ہے۔ کوئی جس طرح چوری کا جھوٹا الزام لگا سکتا ہے، ڈاکے کا لگا سکتا ہے، قتل وغیرہ کا لگا سکتا ہے، تو اسی طرح rape کا بھی ظاہر ہے لگا سکتا ہے۔ یعنی یہ اس طرح کے سوال پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے، ناقابلِ فہم ہے۔ "

بھئی جب آپ خود یہ مانتے ہیں کہ جھوٹا الزام لگانے کی صورت میں الزام لگانے والے/ والی کو سزا دی جائے گی تو پھر فقہاے کرام پر تنقید کا مطلب کیا ہوا؟ اور اس اقتباس کے آخر میں بھی صحافیانہ فنکاری دیکھیے۔ پوچھتے ہیں: "یہ اس طرح کے سوال پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے، ناقابلِ فہم ہے۔ " یہ ناقابلِ فہم کیوں ہے؟ کیا عقلاً اس کا امکان نہیں؟ یا عملی طور پر ایسا ہوتا نہیں؟ خود آپ نے امریکا سے جو اعداد و شمار دیے ان سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ کیا پاکستان سے اس کی مثالیں نہیں ملتیں؟ اگر عقلی امکان اور عملی وقوع دونوں ثابت ہیں تو پھر قانونی تجزیے میں اس سوال سے گریز کیسے کیا جاسکتا ہے اور اس کے بغیر تجزیہ یک رخے پن کا شکار کیوں نہیں ہو گا؟

احمد بلال صاحب نے آگے جناب غامدی صاحب کے موقف پر ہماری تنقید کو جواب دینے کی بھی کوشش کی ہے لیکن اس پر بحث کو ہم فی الحال مؤخر کرتے ہیں کیونکہ وہ الگ سے تفصیلی تجزیہ چاہتا ہے۔

جناب سید منظور الحسن صاحب کی خدمت میں

اہل المورد میں جن صاحب کے متعلق ہمیں سب سے زیادہ یہ توقع تھی کہ وہ اس بحث میں گروہی تعصب سے بالاتر ہو کر حصہ ڈالیں گے وہ برادر محترم جناب سید منظور الحسن صاحب ہی تھے لیکن ان کے مضمون نے یہ خوش فہمی بھی ختم کردی ۔ انھیں نہ صرف ہمارا اسلوب 'عامیانہ' نظر آیا بلکہ 'اگر زینب زندہ ہوتی' کے سوقیانہ ڈرامے کے لیے انھیں جواز بھی تراشنے پڑے کیونکہ بہرحال اس ڈرامے کے خالق المورد کے ڈائریکٹر کے منصب پر (ذاتی قابلیت کی بنیاد پر نہ کہ اقربا پروری کی وجہ سے) فائز ہیں۔ بہرحال منظور بھائی کے طویل مضمون کے اہم نکات پر مختصر تبصرہ پیشِ خدمت ہے:

اولاً انھوں نے فقہاے کرام کے موقف کی تحقیق کے لیے مولانا تقی عثمانی صاحب کا مختصر مقالہ چنا ہے اور یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ میرا بیان کردہ موقف مولانا کے موقف سے مختلف ہے۔ جناب احمد بلال صاحب کے مضمون پر تبصرے میں ہم واضح کر چکے ہیں کہ انھوں نے فقہاے کرام کے موقف کو کیسے غلط سمجھا ہے۔ بعینہ یہی غلطی منظور بھائی نے مولانا تقی عثمانی صاحب کے موقف کو سمجھنے میں کی ہے ۔ اس لیے جو سوالات ہم نے احمد بلال صاحب کے سامنے رکھے ہیں وہی منظور بھائی کے سامنے بھی رکھتے ہیں اور وہ چاہیں تو براہ راست یہ سوالات مولانا تقی عثمانی صاحب سے بھی پوچھ کر ان کا جواب معلوم کرسکتے ہیں :

1۔ کیا متخصصین فی المیزان کسی ایک فقیہ کا نام بتاسکتے ہیں جو جنسی تشدد کے ثبوت کے لیے چار گواہ لازمی سمجھتے ہوں؟
2۔ چلیں کسی ایسے فقیہ کا ہی نام بتادیں جو جنسی تشدد کے الزام کو قذف کہتا ہو۔
3۔ یہ بھی نہیں تو کسی ایسے فقیہ کا نام بتادیں جو "زنا بالجبر" کے الزام کو قذف کہتا ہو اور اس وجہ سے ثبوت میں چار گواہ مانگتا ہو۔


ہم یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان میں رائج کیے گئے جرم زنا آرڈی نینس اور جرم قذف آرڈی نینس کی رو سے بھی زنا بالجبر کے ثبوت کے لیے چار گواہ ضروری نہیں تھے نہ ہی زنا بالجبر کی شکار خاتون کو قذف کی سزا دی جاسکتی تھی۔ یہ بھی معلوم حقیقت ہے کہ حدود آرڈی نینسز کے متعلق کئی عدالتی فیصلے خود مولانا تقی عثمانی صاحب نے لکھے ہیں۔ ان فیصلوں میں ، اور نہ ہی منظور بھائی کے ذکر کردہ مختصر مضمون میں، انھوں نے کہیں زنا اور قذف آرڈی نینسز کے اس موقف کو غلط کہا ہے۔

ثانیاً منظور بھائی کو ہمارے مضمون "فقہ اور اصول فقہ کے متعلق جہل مرکب کا شاہکار" کے اسلوب پر اعتراض ہے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ 'اگر زینب زندہ ہوتی' پر تبصرے کے لیے اس سے بہتر عنوان اور اسے بہتر اسلوب میرے بس میں نہیں تھا۔ مجھے اس سلسلے میں معذور جانیے۔ ہاں، ان کی خوشی کے لیے ہم اس عنوان سے "شاہکار" کا لفظ ہٹانے کے لیے سوچ سکتے ہیں۔

دوسرے یہ کہ اس مضمون میں غامدی صاحب کے اس اسلوبِ تنقید کی پیروی کی کوشش کی گئی ہے جو انھوں نے "برہان" میں اپنے تنقیدی مضامین میں اپنایا ہے۔ اس سے زیادہ میں نے کچھ نہیں کیا ہے۔ جب تک "برہان "موجود ہے اور "اگر زینب زندہ ہوتی" جیسے ڈرامے وجود میں آئیں گے، ان پر تنقید کے لیے یہی اسلوب مناسب سمجھا جائے گا۔

جنسی تشدد کا ثبوت اور سزا: ڈاکٹر عرفان صاحب کی خدمت میں

ڈاکٹر عرفان شہزاد صاحب کے ساتھ اس موضوع پر تفصیلی بحث ہوچکی لیکن انھوں نے پھر یہ سوال اٹھایا ہے۔ فرماتے ہیں:

"مشتاق صاحب آپ ذہین آدمی ہیں، مگر مدار بحث پر بات نہیں کرتے ۔ میں ایک بار پھر بصد احترام متعین کر کے استفتا کر لیتا ہون۔

مرد نے زبردستی عورت یا بچی سے زنا کر لیا۔ عضو کو وہی نقصان پہنچا جو نارمل ہے۔ متاثرہ فریق نے استغاثہ کیا۔ اب اولا کیا ہو گا؟ عورت یا بچی سے چار گواہ طلب کیے جائیں گے یا نہیں؟ یا یہ جانتے ہی کہ مقدمہ جنسی زیادتی کا ہے، اسے سیاستہ کے زمرے میں رکھتے ہوئے دیگر قرائن اور شواہد دیکھے جائیں گے؟ یعنی اولا کیا ہوگا؟

اگر اولا چار گواہ طلب کیے جائین گے تو یہ کیس حدود کا ہوا۔ اگر چار گواہ موجود کر دیے جائیں تو زنا کی حد کی سوا کیا ساتھ اکراہ کے لیے تعزیرا بھی کوئی سزا دی جائے گی؟"


اس کے جواب میں عرض ہے:

ما شاء اللہ آپ کو بھی اللہ نے ذہانت سے نوازا ہے لیکن آپ اسے کام میں لانے سے گریزاں ہیں۔ میری دعا آپ کے ساتھ ہے۔

آپ کے سوالات کے جواب کئی بار دیے گئے۔ پھر سن لیجیے:

آپ کا پہلا سوال ہے:

مرد نے زبردستی عورت یا بچی سے زنا کر لیا۔ عضو کو وہی نقصان پہنچا جو نارمل ہے۔ متاثرہ فریق نے استغاثہ کیا۔ اب اولا کیا ہوگا؟

اس کا جواب یہ ہے (اچھی طرح نوٹ کرلیں):

اگر یہ ثابت ہو جائے کہ زبردستی کی گئی تھی تو چاہے عضو کو کوئی نقصان پہنچا ہو یا نہ پہنچا ہو، چاہے دخول ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، عورت یا بچی سے چار گواہ طلب نہیں کیے جائیں گے بلکہ قرائن اور میڈیکل رپورٹ پر بھی مجرم کا تعین کیا جاسکتا ہے اور اگر قاضی مطمئن ہو کہ ملزم کا جرم ثابت ہوا ہے تو اسے مناسب سزا دے سکتا ہے جو سزاے موت بھی ہوسکتی ہے اور سزاے موت کا کوئی عبرتناک طریقہ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ حدود کا نہیں، سیاسہ کا مسئلہ ہے۔

اگر کسی شخص کا یہ دعوی ہے کہ اس صورت میں فقہاے کرام عورت یا بچی سے چار گواہ طلب کرتے ہیں تو وہ کسی بھی فقہی کتاب کی ایک عبارت ایسی پیش کردے جس میں کہا گیا ہو کہ جس عورت کے ساتھ زبردستی نکاح کیا گیا وہ چار گواہ پیش کرے گی ورنہ اسے قذف کی سزا دی جائے گی۔

فقہاے کرام کا تو ذکر ہی کیا، پاکستان میں جرم زنا آرڈی نینس کے تحت بھی یہی اصول مانے گئے تھے کہ "زنا بالجبر" کے لیے چار گواہ کی شرط نہیں اور یہ کہ زنا بالجبر کی شکار خاتون کو قذف کی سزا نہیں دی جائے گی۔

آپ کا دوسرا سوال ہے:

اگر چار گواہ موجود کر دیے جائیں تو زنا کی حد کی سوا کیا ساتھ اکراہ کے لیے تعزیرا بھی کوئی سزا دی جائے گی؟

اس کا جواب یہ ہے:

اگر چار گواہ موجود ہوں تو بالغ عورت کے ساتھ زیادتی کے مقدمے میں زنا کی بھی سزا دی جائے گی کیونکہ اس پر دو جرم ثابت ہوئے: زنا اور جنسی تشدد۔

اگر چار گواہ موجود ہوں تب بھی نابالغ بچی کے ساتھ زیادتی کے مقدمے میں زنا کی حد جاری نہیں کی جاسکے گی کیونکہ نابالغ بچی/بچے کے ساتھ جنسی تعلق کو قانوناً زنا نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ جنسی تشدد کی بدترین شکل ثابت ہے (جو چار گواہوں کے بغیر بھی ثابت ہے اور ان کے ساتھ بھی)۔ اس لیے اس پر عبرتناک انداز میں سزاے موت اور اس کے ساتھ کوئی اور سزا بھی دی جاسکتی ہے۔

امید ہے اب آپ اپنی ذہانت کا صحیح استعمال کر سکیں گے۔ میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ڈاکٹر مشتاق صاحب اس ’ مکتبہ فکر ‘ کے سپیشلسٹ ہیں ، انہوں نے کافی تفصیل سے جواب دے دیا۔
ورنہ ’ اگر زینب زندہ ہوتی ؟ ‘ اس طرح کی فضولیات اور کٹ حجتیوں کے عملی جوابات خیر القرون اوراس کے بعد کے معاشروں سےبالکل واضح طور پر مل جاتے ہیں ، جہاں اسلامی تعلیمات اور حدود کا نفاذ موجود تھا ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

ایک پوسٹ آپکی نظر کرتا ہوں جو پہلے پوسٹ کے جواب میں لکھی گئی۔

ڈاکٹر مشتاق اس مسئلے پر شریعت اور قانون کے مطابق الگ پوسٹس میں مفید جوابات دے رہے ہیں پھر بھی یہاں کمنٹس میں کچھ باتیں مختصر اور سمجھنے والی میں بھی شیئر کئے دیتا ہوں۔

چار گواہ یا ملزم کا اقبال جرم، محمد حسن الیاس، اگر زینب زندہ ہوتی، انہونی پر ہونی سے جو عدالت آپ نے لگائی جس کے قاضی آپ ٹھہرے اور ملزم کے وکیل کے بغیر ہی فیصلہ ملزم کے حق میں سنا دیا، نہ تو آپ نے سول کورٹ میں کوئی مقدمہ پر کاروائی ہوتے دیکھا ہے اور نہ ہی شرعی کورٹ میں اور نہ ہی آپ کو قوانین پر کوئی معلومات ہے، ماسوائے کتاب میں کوئی بات پڑھ کر اپنے ایک اندازہ سے بیان کرنے کے۔ عرب ممالک کی شرعی عدالتوں میں بھی ایسا نہیں ہوتا۔

یہ موٹر سائیکل چالان نہیں تھا جو درجہ اول مجسٹریٹ میں اکیلے پیش ہونا تھا اور سٹوڈنٹ کہہ کے 50 روپے جرمانہ کے ساتھ مسئلہ حل۔ یہ اغواہ، زیادتی، اور قتل کا کیس تھا اس میں جج کے علاوہ وکیل استغاثہ اور وکیل صفائی دونوں کی موجودگی ضروری ہے ایسے کیسیز میں ملزم کی وکالت کرنے کے لئے کوئی بھی وکیل کیس نہیں لیتا جس پر ڈیوٹی وکیل ملزم کو فراہم کیا جاتا ہے۔

قاضی کا یہ کہنا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج، میڈیکل رپورٹ، ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ، ملزم کا اقبال جرم کو وہ نہیں مانتا اس لئے ملزم کو بری کرتا ہے تو ایسی صورت میں قاضی کا بھی ذہنی توازن درست نہیں جس نے شریعت پڑھی اور قانون نہیں پڑھا اس پر بھی آخر میں ذکر کریں گے۔ عرب ممالک میں شرعی عدالت کا قاضی قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ عالم فاضل بھی ہوتا ہے۔

قاضی کا کام سوال پوچھنا نہیں ہوتا بلکہ دونوں وکلاء کے سوال و جواب پرکاروائی کو سننا ہوتا ہے اگر قاضی سوال کرے تو وکیل اسے سوال کرنے سے روک سکتا ہے، فیصلہ پر کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لئے قاضی کو سوالات پوچھنے کی ضرورت ہے تو وہ درمیان میں کھانے کے وقفے میں مخالف وکیل کو اپنے سوالات دے سکتا ہے عدالتی کروائی کے دوران پوچنے کے لئے، اور زینب اگر زندہ ہوتی تو جج پرائیویٹ چیمبر میں اس بچی کی بیان لیڈی وکیل کی مدد سے بھی لے سکتا ہے۔

کسی بھی کیس پر انویسٹی گیشن پولیس ٹیم سی سی ٹی وی فوٹیج، میڈیکل رپورٹس، ڈی این اے کی مدد سے ہی ملزم تک پہنچتی ہے اور اسی کے مطابق ہی ملزم سے سوالات اور اس کے جوابات ریکارڈ بھی ہو رہے ہوتے ہیں اور لکھے بھی جاتے ہیں اور اس کمرہ میں لگے کیمرہ سے بھی محفوظ کئے جاتے ہیں۔ جس پر لکھے ہوئے سوالات اور جوابات مکمل ہونے پر ملز کو پڑھنے کے لئے دئے جاتے ہیں اور اسے کہا جاتا ہے کہ اس پر اپنے دستخط کر دو۔ اسی طرح اس کیس سے جڑے ہوئے سہولت کار یا زیادتی میں ملوس مزید ملزمان کے ساتھ بھی اسی طرح سوالات اور جوابات پر ان سے داستخط یا انپڑھ ہونے کی صورت میں انگوٹھا لگوایا جاتا ہے پھر عدالت میں پیش کرنے سے پہلے ان کی میڈیکل فٹنس رپورٹ بھی ساتھ لگائی جاتی ہے۔ ملزم کے وکیل کو اگر میڈیکل فٹنس رپورٹ پر اعتراض ہو تو وہ اس کا میڈیکل دوبارہ بھی کروا سکتا ہے۔

ملزم کی طرف سے اگر کوئی وکالت کر رہا ہے تو وہ وکیل انویسٹیگیشن ٹیم کے سوال و جوابات کی کاپی حاصل کر سکتا ہے اور اسے سٹڈی کرنے کے بعد وہ ملزم کے گھر والوں کو بتا دیتا ہے کہ اس کے بچنے کی کوئی راہ نہیں اگر آپ چاہیں تو میں کوشش کر سکتا ہوں مگر بچانے کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا۔

قاضی کیس کو سٹڈی کرنے کے بعد سنوائی سے پہلے کسی بھی دن دونوں وکلاء کو بلوا کے اس کیس کی باریکیوں پر بات کر سکتا ہے۔

محمد حسن الیاس کے کہنے کے مطابق زینب اگر زندہ ہوتی تو زینب کی میڈیکل رپورٹ کے مطابق ایک سے زیادہ ملزمان اس زیادتی میں ملوث پائے گئے اور یہ سب انکوئری کے دوران اقبال جرم اور ایک دوسرے پر گواہ ہیں اس لئے قاضی ان سب کو شریعت کے مطابق سزا دینے کا اہل ہے۔

اب آتے ہیں انکوائری اور انکوئری کے دوران استعمال میں لایا جانے والا میٹیرئل کو شریعت سے اجازت ہے یا نہیں۔

سورۃ البقرۃ 2، آیت نمبر 67 سے 73 تک ترجمہ تفسیر مطالعہ فرمائیں۔

مختصر! جب سیدنا موسی علیہ سلام بنی اسرائیل کو لے کر یروشلم آ گئے۔ ہوا یوں تھا کہ ایک شخص بنی اسرائیل میں قتل ہو گیا تھا۔ گواہی معدوم تھی۔ مشتبہ افراد ایک دوسرے پر الزام لگاتے تھے۔ بنی اسرائیل کی پولیس بھی کارکردگی کے معاملے میں پنجاب پولیس کی جڑواں بہن تھی۔ منصف بے بس تھے۔

(جب تم نے ایک شخص کو قتل کیا تو اس میں باہم جھگڑنے لگے لیکن جس جرم کو تم چھپانے والے تھے اللہ نے اس کو ظاہر کرنا تھا۔ ہم نے حکم دیا کہ ذبح شدہ بیل کا کوئی سا ٹکڑا مقتول کے بدن کو مارو۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم عقل پکڑو)

اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ ایک گائے ذبح کریں اور اس کا ایک ٹکڑا مقتول کی لاش پر ماریں۔ ایسا ہونا تھا کہ مقتول یک بہ یک زندہ ہو گیا۔ اس نے قاتل کی نشاندہی کی اور دوبارہ مر گیا۔

اب چونکہ انبیا اور معجزات کا زمانہ نہیں لہذا یہ تو ممکن نہیں کہ زینب خود کوڑے کے ڈھیر سے اٹھ کر کھڑی ہو اور اپنے سفاک قاتلوں کا نام پکارے اور دوبارہ ابدی نیند سو جائے، لیکن یہاں یہ سبق ملتا ہے کہ گواہان نہ ہونے کی صورت میں ملزم تک پہنچنے کے لئے دوران تفتیش سی سی ٹی وی فوٹیج اور ہر قسم کا میٹیریل استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

باقی قارئین پر چھوڑتے ہیں متفق ہونا ضروری نہیں۔

والسلام

 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
قرآن وحدیث کی روشنی میں زینب کے مجرم کی سزا

ڈاکٹر حافظ حسن مدنی، مدیر ماہنامہ محدث لاہور
قصور میں زینب نامی معصوم بچی سے ہونیوالا سانحہ ایک مسلمان معاشرے کے لئے شرم ناک ہے جس کی جس قدر مذمت کی جائے، کم ہے۔ ایسے واقعات کی روک تھام معاشرے میں اسلامی احکام کے فروغ اور ان جرائم کی شرعی سزاؤں کے کامل نفاذ کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے۔ اس حوالے سے یہاں فقہی مباحثہ جاری ہے، کہ فقہ حنفی یا جعفری میں اس کی سزا کیا ہے، اس کے ساتھ ہی وہ اہل علم بھی اس بحث میں اتر گئے ہیں جو ملت کے مجموعی رجحانات سے قطع نظر بالکل نیا ہی عقلی استدلال لے آتے ہیں۔
سب سے پہلے تو اس سانحہ کے بارے میں قرآن وسنت (شریعت اسلامیہ) کا حکم واضح ہونا چاہیے۔
شریعت میں زنا کے جرم کی سنگینی بے پناہ ہے اور اس کی سزائے رجم بھی سنگین ترین سزا ہے۔ تاہم جب اس میں جبر ودہشت شامل ہوجائے اور یہ ایک معصوم بچی کے ساتھ ہو تو اس کی شدت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس سنگینی کی بنا پر قصور ایسے واقعے جرم زنا سے تو نکل نہیں جاتے تاہم اس میں بعض مزید جرائم بھی مزید شامل ہوجاتے ہیں۔
اسلامی شریعت میں زنا بالجبر کو جرم کی مستقل اصطلاح کے طور پر تو نہیں لیا گیا، تاہم اس نوعیت کے زنا کے احکام متاثرہ فرد کے لئے عام زنا سے مختلف ہیں۔ زنا بالجبر کے لئے احادیث میں اغتصاب کا لفظ بولا گیا ہے، جیسے الفاظ حدیث ’’غَصَبَها نَفْسَها‘‘ کے بارے میں عربی لغت لسان العرب میں ہے کہ یہ لفظ جبری زنا کے لئے بطور استعارہ استعمال ہوا ہے۔ (مادہ غصب : 1؍648)
اور اگر کوئی عورت ؍ متاثرہ فرد محض قانونی قرائن (یہاں چار گواہوں کی کوئی بات نہیں) سے یہ ثابت کردے کہ اس پر جبر ہوا ہے تو قرآن کریم کی آیت وقد فصل لکم ما حرم علیکم الا ما اضطررتم علیہ (الانعام: 119) ’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے حرام چیزیں بیان کردیں، الا یہ کہ تم مجبور کردیے جاؤ۔‘‘ اور سورۃ النور کی آیت33: ومن یکرہہن فان اللہ من بعد اکراہہن غفور رحیم ’’اور جو مجبور کردی جائیں تو اللہ ان کی مجبوری پر معاف کرنے والا مہربان ہے۔‘‘ ان عورتوں کی سزا سے معافی کو ثابت کرتی ہیں۔
اور درج ذیل احادیث رسول کی بنا پر نہ صرف متاثرہ فرد (عورت یا مرد) پر کوئی سزا نہیں بلکہ اس کے خصوصی حقوق ہیں:
  1. سیدنا ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: اللہ تعالی نے میری امت سے خطا ونسیان اور جبر واضطرار کو معاف کردیا ہے۔ (ابن ماجہ: 2045)
  2. دور نبوی میں ایک عورت سے جبری زنا کیا گیا تو نبی کریم نے اس سے سزائے سزا ساقط فرما دی۔ (جامع ترمذی: 1453)
  3. دور نبوی میں ایک عورت سے کسی شخص نے زیادتی کی، جب وہ چلائی تو ظالم بھاگ نکلا، عدالت نبوی میں معاملہ پیش ہوا تو محض متاثرہ عورت کے کہنے پر، قرائن کی روشنی میں اس کو بری قرار دیا گیا، اور ملزم پر سزاے زنا کے نفاذ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ (جامع ترمذی: 1540)
  4. سیدنا عمر کے دور میں ایک عورت کو ویرانے میں پانی کو پانے کے لئے ایک چرواہے کے ہاتھ اپنی عزت گنوانا پڑی۔ جب یہ کیس سیدنا عمر کے علم میں آیا تو انہوں نے سیدنا علی سے مشورہ کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ تو مجبور تھی، سو سیدنا عمر نے اپںے پاس سے اس عورت کو کچھ مزید دے کر بھیج دیا۔ (سنن بیہقی: 8؍236)
  5. جبر کو ثابت کرنے کے لئے چار گواہوں کی ضرورت نہیں بلکہ محض واقعاتی شہادت یا قرائن ہی کافی ہیں، جیسا کہ سیدنا یوسف اور زوجہ عزیز مصر کے قرآنی واقعہ میں قمیض کا پیچھے سے پھٹا ہوا، ان کی براءت کے لئے کافی ثابت ہوا۔
  6. جہاں تک جبری زنا کرنے والے کا تعلق ہے تو زنا کی شرعی سزا تو ظالم پر چار گواہوں کے ذریعے ہی ثابت ہوگی، تاہم جبر وتشدد کی بنا پر اس پر حرابہ یعنی دہشت گردی کی سزا بھی مزید عائد ہوگی، معصوم بچی پر ظلم کی بنا پر حرابہ کی سنگین تر سزا یعنی ظالم کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا کو بھی لاگو کرنا چاہیے۔
اگر زنا کے چار گواہ نہ ہوں تو بے راہ روی کے جرم کی تعزیری سزا (سیاستًا) نافذ کرکے، اس پر حرابہ کی سزا کا اضافہ کیا جائے گا۔ سعودی عرب کی کبار علما کونسل کا فتوی بھی اسی کی تائید کرتا ہے:
"إن جرائم الخطف والسطو لانتهاك حرمات المسلمين على سبيل المكابرة والمجاهرة من ضروب المحاربة والسعي في الأرض فساداً المستحقة للعقاب الذي ذكره الله سبحانه في آية المائدة سواء وقع ذلك على النفس أو المال أو العرض‘‘
(فتوی نمبر 85، مؤرخہ 11؍11؍1401ھ)
مذكوره تفصيل سے ثابت ہوا کہ قرآن وحدیث میں زنا بالجبر کا شکار ہونے والے پر کوئی سزا نہیں، اور وہ محض قرائن سے جبر کو ثابت کرکے حکومت سے رعایت و تاوان کا بھی حق دار ہے۔ تاہم جبری زنا کرنے والا بدبخت قصور ایسے واقعہ میں زنا کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا بھی مجرم ہے۔ اس کی سزا میں کوئی نرمی نہیں ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں عکل وعرینہ کے نبوی فیصلے کو بھی سامنے رکھنا چاہیے جس میں فساد فی الارض کرنے والوں کے نہ صرف نبی کریم نے ہاتھ پاؤں کٹوائے بلکہ ان کی آنکھوں میں سلائیاں بھی پھروائیں، اور وہ ریت پر منہ مارتے تڑپ تڑپ کر مر گئے۔
جہاں تک فقہی جزئیات کی بات ہے تو فقہاے کرام کی فقہی توجیہات کسی خاص واقعہ، خاص دور اور خاص مناسبت تک محدود ہوتی ہیں۔ جو عصمت قرآن وسنت کو حاصل ہے، وہ فقہ کو حاصل نہیں ہے، اور فقہاے کرام کی رائے مرجوح یا محدود بھی ہوسکتی ہے۔ قرآن وسنت یعنی شریعت میں تعدد نہیں، وہ قیامت تر ہر زمان ومکان کے لئے ہیں، جبکہ یہ خصوصیات فقہ کو حاصل نہیں۔ اس لئے فقہی جزئیات پر الجھنے کی بجائے، قرآن وسنت سے اس مسئلہ کا حل سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
افسوس کہ اس موضوع پر اتنے بہت سارے مضامین میں سب اپنے اپنے فقہی موقف کا دفاع تو کئے جارہے ہیں، لیکن نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کے موقف کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے آپ سےبڑھ کر اسلام کو پیش کرنے کی توفیق مرحمت فرمائیں۔
 
Top