• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر من مانی دین ہو سکتا ہے تو شیعوں کے اظہار غم کا طریقہ بھی دین ہو۔

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اگر من مانی دین ہو سکتا ہے تو شیعوں کے اظہار غم کا طریقہ بھی دین ہو۔

اگر اظہار محبت و مسرت اور فرحت کیلئے اسلام کے بتائے ہوئے اصول و ہدایات سامنے رکھنا اور پیغمبر اسلام اور صحابہ کرام کے طریقے کو اپنا ضروری نہیں تو پھر شیعوں نے جو طریقے اپنے اظہار رنج و غم میں ایجاد اور اختیار کر رکھے ہیں ان کی صحت کا بھی مفتی سعیدی کو فتویٰ صادر کر دینا چاہئے، آخر یہ کون سا انصاف ہے کہ بریلویوں سعیدیوں میلادیوں کو تو دین میں اضافہ پر اضافہ کرنے کا پورا حق حاصل ہو لیکن شیعہ حضرات جو جو طریقے اظہار غم کیلئے اختیار کریں وہ ناحق ہوں، اگر قرآنِ مجید کی آیت :قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا الخ سے اظہار محبت و مسرت کا ہر من مانا طریقہ جائز ہو سکتا ہے اور یوں قرآنِ مجید سے ’’عید میلاد،، کا ثبوت مہیا کیا جا سکتا ہے تو پھر شیعہ حضرات جو قرآنِ مجید کی آیت:’’لا یحب اللہ الجھر بالسوء من القول الامن ظلم،، (المائدہ:۱۴۸) والی آیت سے اپنا من مانا طریقہ غم و اظہار غم اور خود ساختہ ماتم و نوحہ کے جواز کیلئے پیش کرتے ہیں تو پھر ان کا طریقہ غم کیوں جائز نہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ دونوں حضرات (بریلویہ ، شیعہ) کا قرآنِ مجید کو اپنی خود ساختہ رسومات اور بدعات کیلئے استعمال کرنا تحریف معنوی اور تفسیر بالرائے ہے ورنہ قرآنِ مجید تو زمانہ رسالت محمدی میں بھی تھا اور زمانہ اصحاب عظام میں بھی تھا مگر ان دونوں آیتوں سے نہ تو کسی نے جشن و مسرت میلاد کی یہ دھوم سمجھی جو بریلوی لوگ سمجھ رہے ہیں اور نہ غم اور ماتم کی وہ خانہ ساز رسومات ان کو نظرآئیں جو شیعہ حضرات اس دوسری آیت سے کشید کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے بجا فرمایا ہے:

خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ہم مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تحدیث نعمت کو بیان کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی تسلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نعمت محمدی کو آیت :لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا میں بیان فرمایا ہے لیکن بقول علامہ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ تعالیٰ ، صغری کبری ملانے سے ’’عید میلاد،، کا ثبوت کس طرح ہوگیا۔ اگر محض نعمت ہونے سے، عید کا جواز بن جاتا ہے تو پھر عیدوں کاشمار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’وان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا،،۔(ابراہیم ۳۴)
کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو تم شمار نہیں کر سکتے (کیونکہ وہ لاتعداد اور ان گنت ہیں)
تو پھر تم اے میلادیوکہاں کہاں عید مناؤ گے اور کس کس کی عید مناؤ گے۔

اگر کہو کہ ہر نعمت پر عید منانے کی ضرورت نہیں، صرف بڑی بڑی نعمتوں پر عید منانی چاہئے تو عرض ہے : اول کہ یہ فرق کس نے کیا ہے اور کس آیت وحدیث سے تم نے سمجھا ہے کہ بڑی نعمت پر عید مناؤ اور چھوٹی نعمت کو یوں چھوڑ دو۔

دوم: ولادت نبوی سے بھی عظیم دن وہ دن ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر تاج نبوت و رسالت رکھا گیا کیونکہ رسالت و نبوت کی نعمت ولادت سے بھی بڑی نعمت ہے اگر یوم ولادت عید ہے تو یوم رسالت و بعثت بطریق اولیٰ عید ہونی چاہئے۔ اسی طرح قرآنِ مجید کا نزول بھی بہت بڑی نعمت ہے تو نزول قرآن بھی عید کا دن ہونا چاہئے، معراج کا دن ، بدر کا دن، فتح مکہ کا دن، بھی عیدوں کے دن ہونے چاہئیں۔ بڑی بڑی نعمتوں کی تعداد بھی تھوڑی نہیں۔ فقط ایک نعمت کی منانا اور دوسری بڑی بڑی نعمتوں والے دنوں کی عید نہ منانا قرآن کے خلاف ہے۔ اگر تحدیث نعمت عید کے بغیر ممکن نہیں تو پھر کئی عیدوں کا مزید اضافہ بھی ہونا چاہئے ورنہ تحدیث نعمت کا حق ادا نہیں ہو گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سوم: عید میلاد منانے کی یہ منطق بھی عجیب ہے کہ رسالت کبھی ولادت کے بغیر نہیں مل سکتی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو رسالت ملی اگر ولادت نہ ہوتی تو رسالت بھی نہ ہوتی، اس لئے ولادت کا دن منایا جائے جو کہ رسالت کا سبب ہے۔

یہ منطق عجیب اس لئے ہے کیونکہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد اس لئے منایا جائے کہ یہ رسالت کا سبب بنا تو پھر بجائے ولادت نبوی منانے کے، آپ کے والد محترم عبد اللہ بن عبد المطلب کی ولادت کا دن منایا جائے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا سبب بنے اگر وہ پیدا نہ ہوتے تو آپ بھی پیدا نہ ہوتے بلکہ اس منطق سے تو پھر بجائے عبد اللہ کی ولادت منانے کے عبد المطلب کی ولادت کا دن منایا جائے جو عبد اللہ کی پیدائش کا سبب بنے کیونکہ اگر عبد اللہ نہ پیدا ہوتے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا نہ ہوتے اگر عبد المطلب پیدا نہ ہوتے تو عبد اللہ پیدا نہ ہوتے۔

بات سبب کی جب شروع ہوئی تو پھر بجائے ان کے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی میلاد منائی جائے کیونکہ اگر حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا نہ ہوتے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا نہ ہوتے۔ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا نہ ہوتے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا نہ ہوتے تو پھر بات حضرت آدم علیہ السلام پر جا کر رکے گی کہ اگر حضرت آدم علیہ السلام پیدا نہ ہوتے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا نہ ہوتے لہٰذا حضرت آدم علیہ السلام کی میلاد منانی چاہئے پھر تو اسباب کی بنا پر حضرت آدم، حضرت ابراہیم ، حضرت اسماعیل، حضرت عبد المطلب ، حضرت عبد اللہ، ان کی ازواج سمیت سب کا میلاد منانا چاہئے۔ اسی حساب سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے مخاطب علامہ سراج احمد مفتی اوچ شہر، مصنف کتب کثیرہ ہیں لوگ ان کی بڑی تعریف کرتے ہیں یہ لوگ ان کی تعریف کرنے کے بجائے ان کے ماں باپ محترم کی تعریف کریں کیونکہ مولوی سراج احمد صاحب کے ماں باپ پیدا نہ ہوتے تو یہ علامہ سراج احمد پیدا ہو کر علامہ مفتی نہ بنتے۔

لہٰذا مولوی سراج احمد کے اصل سبب اس کے ماں باپ ہیں لہٰذا وہ زیادہ تعریف کے لائق ہیں پھر ان کے ماں باپ کے ماں باپ زیادہ تعریف کے لائق ہیں ۔وقس علی ہذا۔ اسی طرح مولوی سراج کے بجائے اس کے استاد کی تعریف کریں کہ وہ اس کی علمیت کے اصل سبب ہیں کہ اگر وہ اسے تعلیم نہ دیتے تو یہ علامہ سراج نہ بنتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چہارم: اگر نعمت فضل رحمت کے ملنے پر خوشی ہر سال منانا چاہئے تو پھر ویومئذ یفرح المومنون بنصر اللہ۔(پ:۲۱، روم:۵) کے حساب سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خبر دی کہ جس دن رومی غالب آ جائیں گے اس دن مسلمان بھی خوش ہوں گے، اسی خوشی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو یہ بھی خوشی ہو گی کہ بدر میں مسلمانوں کو فتح ہوئی۔

تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام بدر کی فتح اور رومیوں کی فارسیوں پر فتح کو ہر سال فتح کی مسرت کے طور پر مناتے تھے۔ اگر مناتے تھے تو تم اے میلادیو آج تک یہ فتح و مسرت کا دن کیوں نہیں منایا اور اگر انہوں نے اس فتح کے دن کو فتح کا دن ہر سال نہیں منایا تو پھر عجیب بات نہیں کہ جس دن کی فتح کی خوشی کرنے کی اللہ تعالیٰ دے اور یہ بھی خبر دے کہ اس دن مسلمان خوش ہوں گے، اس دن کو تو تم آج تک نہ مناؤ اور میلاد نبوی کے دن منانے کا حکم نہ اللہ تعالیٰ نے دیا اور نہ خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم منایا اس دن کو تم اپنی طرف سے جشن میلاد منانے لگ جاؤ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث

سعیدی (دلیل نمبر۲) : لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیہم رسولا (آل عمران :۱۶۴) ترجمہ بیشک اللہ تعالیٰ نے بڑا احسان کیا مومنوں پر جب اس نے ان میں عظمت والا رسول بھیجا، اس سے ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت مومنوں کے گھر میں ہوئی تھی اور احسان بھی مومنوں پر ہے اور آپ کی آمد کی خوشی بھی مومنوں کو ہے بھلا کافر کیوں خوش ہوں، ان کا دماغ تو آپ کی آمد سے خراب ہو گیا (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۴)

محمدی: اس آیت سے بعثت نبوی مراد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کا اعلان فرمایا تو اس وقت کوئی بھی مسلمان اور مومن نہیں تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صفا پہاڑی پر چڑھ کر اعلان نبوت فرمایا اور ان سے خطاب فرمایا تو مردوں میں سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سب نے آپ پر ایمان لانے اور آپ کی بات قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق اس مجلس میں آپ پر ایمان لائے یہی امت مسلمہ اہل سنت کا مسلمہ ہے۔ علامہ ولی الدین خطیب صاحب مشکوٰۃ نے اسماء الرجال مشکوٰة کے صفحہ ۵۹۱پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا ہے: وھو اول الرجال اسلاما کہ آپ مردوں میں پہلے مسلمان اور مومن ہیں اور علامہ مفتی عمیم الاحسان المجددی البرکتی اپنی کتاب اوجز السیر ملحق بمشکوٰۃ ص:۵۸۶پر لکھتے ہیں:
فأمنت بہ سید تنا خدیجۃ وعلی وکان فی عیالہ وزید وآمن بہ ابوبکر وہو اول من آمن من الرجال الاحرار وبدعوتہ آمن عثمان والزبیر وعبد الرحمن بن عوف وسعد بن ابی وقاص وبعد ہم آمن بو عبیدۃ وسعید وارقم وابن مسعود وخباب وبلال وغیرہم الخ۔
کہ سب سے پہلے پہل آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی جو آپ کے ماتحتی میں تھے اور زید آپ کا غلام ایمان لائے اور حضرت ابوبکر صدیق آزاد مردوں میں سے سب سے پہلے آپ پر ایمان لائے اور آپ رضی اللہ عنہ کی دعوت سے حضرت ابوعبیدہ ، سعید، ارقم، ابن مسعود، جناب اور بلال رضی اللہ عنہم ایمان لائے۔الخ۔

اس آیت سے ولادت نبوی مراد نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ مومنین پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے کہ اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور آپ نے لوگوں کو وعظ فرمایا تو ان مومنوں نے وعظ کو قبول فرما لیا جیسا کہ تفسیر جلالین میں ہے : وان کانوا من قبل ای قبل بعثہ لفی ضلال مبین کہ یہ مومنین اس بعثت اور اعلان نبوت سے پہلے کھلی اور واضح گمراہی میں تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باقی سعیدی نے جو بات کہی ہے کہ اس سے ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت مومنوں کے گھر میں ہوئی الخ بالکل غلط ہے کیونکہ اگر ہم یہ تسلیم کرلیں تو قرآن کی اس آیت میں جو آگے ہے : وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین وہ سعیدی نظریہ اور سعیدی کشید کے بالکل خلاف بنتا ہے کیونکہ اس کا معنی ہے اور ضرور وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے (ترجمہ احمد رضا) اور نعیم الدین مراد آبادی بریلوی اس آیت کی تفسیر میں لکھتا ہے ص:۳۱۷کہ حق و باطل و نیک و بد میں امتیاز نہ رکھتے تھے اور جھل و نابینائی میں مبتلا تھے۔(تفسیر خزائن العرفان ص:۱۰۳، طبع خورد) اور تمہارے علامہ صاوی آیت : لقد من اللہ علی المومنین الخ پر یوں لکھتے ہیں:
وفی الحقیقۃ ہو نعمتہ حتی علی الکفار وانما خص المومنون لانہم منتفعون بھا وتدوم علیہم واما الکفار وان امنوا بہ من الخسف والمسخ وکل بلاء عام الا ان عاقبتھا الخلود فی دار البوار ۱۲صاوی (تعلیقات جدیدہ علی جلالین ص:۶۴درسی)
کہ اصل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں پر بھی نعمت بن کر آئے مگر مومنوں کا خاص نام اس لئے لیا کہ انہوں نے نعمت سے فائدہ اٹھایا اور یہ نعمت ان پر ہمیشہ رہی، لیکن کافر اگرچہ وہ بھی آپ کی وجہ سے خسف و مسخ اور ہر بلا سے محفوظ رہے مگر نتیجہ ان کیلئے جہنم ہے کیونکہ وہ ایمان نہیں لائے اور خزائن العرفان ص:۱۰۳میں یوں لکھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں مبعوث فرما کر انہیں گمراہی سے رہائی دی اور حضور کی بدولت انہیں بینائی عطا فرما کر جہل سے نکالا اور آپ کے صدقہ میں راہ راست کی ہدایت فرمائی الخ، اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ان کو ہدایت ملی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جب آپ نے ان کو وعظ فرمایا ورنہ یہی لوگ پہلے کافرمشرک یہودی عیسائی وغیرہ تھے۔ گمراہی سے نجات اور رہائی اس کو ملتی ہے جو پہلے گمراہ ہو اور ان کو گمراہی سے نجات بعثت نبوی کے بعد ملی نہ کہ ولادت نبوی پر۔

اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مومنوں کے گھر ہوتی ہے تو ابولہب، ابوطالب، عبدالمطلب وغیرہ کو مومن ماننا پڑے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نیز سعیدی صاحب کی یہ بات اگر تسلیم کر لی جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت مومنوں کے گھر میں ہوئی الخ تو پھر ابو طالب، ابو لہب ، عبد الطلب، سارا خاندان مومن ماننا پڑے گا اور آپ کی والدہ بھی ۔ حالانکہ تمہارے علامہ نبھانی یوں لکھتے ہیں کہ :
الفصل الاول فی احیاء ابویہ وایمانھما بہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فی المواھب روی الطبرانی بسندہ عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نزل بالحجون کثیبا حزینا فاقام بہ ما شاء اللہ ثم رجع مسرورا فقال سألت ربی فاحیالی امی ثم ردھا الخ۔(حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین ص:۴۱۲ج:۲)
فصل اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے زندہ ہونے میں اور آپ پر ایمان لانے میں۔ مواھب میں ہے کہ طبرانی نے اپنی سند سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے بیان کیا کہ تحقیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجون میں اترے غمگین اور وہاں ٹھہرے رہے جتنا کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا، پھر آپ خوش خوش لوٹے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے میرے لئے میری ماں کو زندہ فرمایا وہ مجھ پر ایمان لائی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو واپس لوٹا دیا، اور ابو حفص بن شاھین نے روایت کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ حجۃ الوداع ادا فرمایا اور آپ میرے ساتھ عقبہ حجوں کی جگہ پر گزرے تو آپ نہایت غمناک ہو کر رونے لگ گئے تو میں بھی آپ کے ساتھ رونے لگ گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اترے اور فرمایا اے حمیرا۔ اس کو قابو رکھ تو میں اونٹ کے ساتھ ٹیک لگ کر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر ہوئی تو آپ میرے پاس تشریف لائے تو تبسم فرما رہے تھے اور فرمایا کہ میں اپنی والدہ کی قبر پر گیا اور اپنے رب سے سوال کیا کہ یا اللہ اس کو زندہ فرما دے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو زندہ فرما دیا پس وہ مجھ پر ایمان لائی الخ اگر پیدائش نبوی کے وقت یہ سارا خاندان مومن تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت کے بائیس سال بعد اپنی ماں کیلئے پریشان کیوں ہوئے اور اپنی والدہ کے زندہ ہونے اور ایمان لانے کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا کیوں فرمائی اور وہ زندہ ہو گئی اور وہ آپ پر ایمان لائی تو آپ خوش و خرم ہو گئے تو بقول سعیدی وہ اگر مومنہ تھی تو بقول نبھانی ایمان لانے کیلئے زندہ کیوں کیا گیا الخ۔اسی طرح ابو طالب اگر ولادت اور بعثت کے وقت مومن تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی موت کے وقت اس کے ایمان لانے کی خواہش اور کوشش کیوں فرمائی اور جب آپ کی آرزو پوری نہ ہوئی اور وہ اپنے باپ دادے کے دین پر فوت ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اداس کیوں ہو گئے اور پھر آیت انک لاتھدی من احببت الخ اللہ تعالیٰ نے کیوں نازل فرمائی۔

باقی رہی سعیدی میلادی کی یہ لکھت کہ آپ کی آمد کی خوشی بھی مومنوں کو ہے کافر بھلا کیا خوش ہوں ان کا دماغ تو آپ کی آمد سے خراب ہو گیا الخ یہ حقائق کے خلاف ہے کیونکہ پیدائش کے وقت سبھی لوگ خوش ہوئے تھے چاہے بعد میں وہ آپ کے بڑے مخالف اور منکرو کافر ہو کر ابھرے حتیٰ کہ ابولہب (جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا) جیسا مشہور کافر بھی اس وقت خوش ہوا تھا اور اس نے ولادت نبوی کی خوشخبری لانے والی اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا تھا۔ کفرو اسلام کی بحث ولادت نبوی کے وقت نہیں تھی، اس کی بحث تو بعثت نبوی کے بعد چلی، آپ کے خاندان میں کون آپ پر ایمان لایا مومن بنا، کون ایمان نہ لایا اور کفر پر رہا۔ افسوس اتنی واضح بات بھی مولوی سراج احمد کو سمجھ نہ آئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کے افراد تھے وہ بھی آپ کی پیدائش کے وقت مومن و مسلم نہیں تھے۔ بعثت نبوی کے بعد یہ مسلمان مومن بنے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ مشہور ہے کہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوجہل نے تکلیف پہنچائی تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو کسی طرح پتہ چل گیا تو وہ سیدھا ابوجہل کے پاس گیا اور بھری مجلس میں اس سے بدلہ لے کر اپنے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا کہ پیارے گھبراؤ نہیں میں نے ابوجہل سے آپ کا بدلہ لیا ہے اب تو خوش ہو جاؤ۔ فرمایا میں ایسی ویسی باتوں پر خوش نہیں ہوتا کہا بھتیجے آپ کس بات پر خوش ہوں گے فرمایا میں اس پر خوش ہوں گا کہ آپ ایمان لائیں مسلمان ہو جائیں۔ تو کہا بھتیجے تیرے راضی ہونے میں میں یہ بھی کر لیتا ہوں اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد رسول اللہ۔ کہا اور ایمان لائے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ تو کافی بعد مسلمان ہوئے ، کتب تاریخ میں یہ سب کچھ موجود ہے، اگر گھرانے کے یہ حضرات میلاد نبوی کے وقت مسلمان مومن تھے تو یہ بعد میں ان کا ایمان لانا کیسا، اور ابو طالب کا آپ پر ایمان نہ لانے والا مشہور واقعہ ہے ۔ ابو لہب جو آپ کے گھرانے کا ہی ایک فرد تھا اس کا کفر مشہور ہے۔

تو ماننا پڑے گا کہ ولادت نبوی کے وقت آپ کے گھرانے کے افراد سبھی اپنے آباؤ اجداد کے مذہب پر قائم تھے جو صریحاً اسلام کے مذہب کے برخلاف تھا لیکن میلاد پر سبھی خوش ہوئے۔

یہودی کاہنوں کے جو قصے مشہور کر رکھے ہیں کہ یہ لوگ میلاد نبوی پر چیخے چلائے تھے وہ سب قصے بے ثبوت ہیں جیسا کہ علامہ سلیمان ندوی کی تحقیق پہلے گزری۔

سعیدی میلادی کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ بعثت کا وقت میلاد سے چالیس سال بعد ہوا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے اور ولادت ہوتی ہے ماں کے پیٹ سے بچے کے باہر آنے کے وقت۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سعیدی عجیب انسان ہے

سعیدی صاحب تذکرہ بعثت والی آیت کا کرتا ہے اور اس سے اثبات یہ کرتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت مومنوں کے گھر میں ہوئی الخ۔ یہ تفسیر القول بما لا یرضی بہ القائل ہے اور یہ غلط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آگے خود سعیدی صاحب اس آیت سے بعثت تسلیم کر کے لکھتے ہیں کہ احسان ، منت، نعمت عظیمہ کو کہتے ہیں اور بیشک سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نعمت عظیمہ ہے کیونکہ خلق کی پیدائش جہل و عدم درایت وقلت فہم ونقصان عقل پر ہے ، اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں مبعوث فرما کر انہیں گمراہی سے رہائی دی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت انہیں بینائی عطا فرما کر جھل سے نکالا اور آپ کے صدقہ میں راہ راست کی ہدایت فرمائی الخ (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۴، سطر :۶) تو معلوم ہوا کہ اگر بقول سعیدی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت مومنوں کے گھر میں ہوئی تھی تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں مبعوث فرما کر انہیں گمراہی سے رہائی دی… بینائی عطا فرما کر جہل سے نکالا… راہ راست کی ہدایت فرمائی الخ چہ معنی دارد۔

کیا جو لوگ پیدائش کے وقت مومن ہوں ان کیلئے یہ خط کشیدہ الفاظ استعمال ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ یہ فقط سعیدی عقل کا فتور ہے اور کچھ نہیں کیونکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے اس وقت تو آپ نے یہ سب کام نہیں کئے تھے کہ ان پر آیات کی تلاوت فرمائی ہو اور آپ نے ان کو پاکیزگی اور ستھرائی کی تعلیم دی ہو اور انہیں کتاب و حکمت اور سنت کی تعلیم دی ہو کیونکہ یہ سارے کام بعثت کے بعد کے ہیں ولادت کے وقت یا ولادت کے فوری بعد کے نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
واذکروا نعمة اللہ علیکم سے استدلال

سعیدی(دلیل نمبر۳): حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمی ہیں اور باری تعالیٰ نے مل کر نعمتوں کے ذکر کرنے کا حکم بار بار دیا ہے : واذ نعمة اللہ علیکم ۔ ترجمہ یاد کرو اللہ کی نعمت کو جو تم پر ہے۔ بخاری شریف ج:۲، ص:۵۶۶پر ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نعمۃ اللہ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی نعمت ہیں۔ اذکروا جمع مخاطب کا صیغہ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ تم سب مل کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بیان کرو اور جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کا بہترین ذریعہ ہے۔(ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۲۴)

محمدی
(اول): قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کی بہت نعمتیں ذکر کی گئی ہیں۔
۱۔ یا ایھا الذین آمنوا اذکروا نعمت اللہ علیکم اذہم قوم ان یبسطوا الیکم ایدیہم فکف ایدیہم عنکم الخ (پ:۶، مائدہ :۱۱)
ترجمہ اے ایمان والو اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جو تم پر کی، جب ایک قوم نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے ہاتھوں کو تمہاری طرف دراز کریں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو تم سے روک لیا۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس نصرت اور امداد کو بیان اور ذکر کرنے کا حکم دیا ہے جو اس نے کافروں کے مقابلہ میں مسلمانوں پر فرمائی تھی تو اس میں بھی اذکروا کا صیغہ ہے تو بقول سعیدی۔ یہاں بھی مراد یہ ہو گا کہ مسلمانو! تم سب مل کر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور امداد کو بیان کرو اور نصرت الٰہی کانفرنس یا جشن اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کا بہترین ذریعہ ہے تو پھر تم جشن نصرت الٰہی کانفرنس بھی اسی شوق و ذوق سے منایا کرو جس شوق و ذوق سے میلاد النبی مناتے ہو کیونکہ دونوں مقامات پر اذ کروا ہے جو جمع کا صیغہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس سعیدی بریلوی میلادی مجتھد کو نصرت الٰہی کانفرنس ابھی تک سمجھ نہیں آئی یا الہام نہیں ہوا ۔
 
Top