- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
اگر من مانی دین ہو سکتا ہے تو شیعوں کے اظہار غم کا طریقہ بھی دین ہو۔
اگر اظہار محبت و مسرت اور فرحت کیلئے اسلام کے بتائے ہوئے اصول و ہدایات سامنے رکھنا اور پیغمبر اسلام اور صحابہ کرام کے طریقے کو اپنا ضروری نہیں تو پھر شیعوں نے جو طریقے اپنے اظہار رنج و غم میں ایجاد اور اختیار کر رکھے ہیں ان کی صحت کا بھی مفتی سعیدی کو فتویٰ صادر کر دینا چاہئے، آخر یہ کون سا انصاف ہے کہ بریلویوں سعیدیوں میلادیوں کو تو دین میں اضافہ پر اضافہ کرنے کا پورا حق حاصل ہو لیکن شیعہ حضرات جو جو طریقے اظہار غم کیلئے اختیار کریں وہ ناحق ہوں، اگر قرآنِ مجید کی آیت :قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا الخ سے اظہار محبت و مسرت کا ہر من مانا طریقہ جائز ہو سکتا ہے اور یوں قرآنِ مجید سے ’’عید میلاد،، کا ثبوت مہیا کیا جا سکتا ہے تو پھر شیعہ حضرات جو قرآنِ مجید کی آیت:’’لا یحب اللہ الجھر بالسوء من القول الامن ظلم،، (المائدہ:۱۴۸) والی آیت سے اپنا من مانا طریقہ غم و اظہار غم اور خود ساختہ ماتم و نوحہ کے جواز کیلئے پیش کرتے ہیں تو پھر ان کا طریقہ غم کیوں جائز نہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ دونوں حضرات (بریلویہ ، شیعہ) کا قرآنِ مجید کو اپنی خود ساختہ رسومات اور بدعات کیلئے استعمال کرنا تحریف معنوی اور تفسیر بالرائے ہے ورنہ قرآنِ مجید تو زمانہ رسالت محمدی میں بھی تھا اور زمانہ اصحاب عظام میں بھی تھا مگر ان دونوں آیتوں سے نہ تو کسی نے جشن و مسرت میلاد کی یہ دھوم سمجھی جو بریلوی لوگ سمجھ رہے ہیں اور نہ غم اور ماتم کی وہ خانہ ساز رسومات ان کو نظرآئیں جو شیعہ حضرات اس دوسری آیت سے کشید کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے بجا فرمایا ہے:
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق