• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر مکّہ پاکستان میں ہوتا؟

محبوب حسن

مبتدی
شمولیت
نومبر 26، 2011
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
228
پوائنٹ
0
اگر مکّہ پاکستان میں ہوتا؟

اپنا چوتھا عُمرہ مکمل کرنے کے بعد میں سستانے کے لئے کچھ دیر کعبۃ اللہ کے سامنے بیٹھ گیا اور ارد گرد کے حالات کو اپنے انداز میں سوچنا شروع کیا کہ “کیا ہوتا اگر مکّہ پاکستان میں ہوتا؟“۔ اس خیال نے میرے دماغ کے تمام فیوز اُڑا کر رکھ دئیے، مگر اس سوال کے مختلف جوابات ذہن میں آنا شروع ہوئے جو کچھ اس طرح تھے۔۔۔۔

حرم شریف کے باہر سڑکیں اور فُٹ پاتھ ٹوٹی پھوٹی حالت میں ہوتے، فلائی اُوور گِرنے کے قریب ہوتے اور ڈبلیو11 (کراچی کے روٹس پر چلنے والی مشہور بس W11) “ٹاپو ٹاپ“ حاجیوں کو “لاد“ کر پہنچا رہی ہوتی، کیا معلوم ان بسوں میں “ٹیپ ریکارڈ“ بھی بج رہے ہوتے۔

کعبۃ اللہ کے تمام دروازوں پر “فقیر“ آپ کی “خیرات“ کے عوض آپ کے مستقبل کے لئے “معجزانہ کامیابیوں“ کی دعائیں “بانٹ“ رہے ہوتے۔ ٹریفک سِگنلز پر “فقیرانہ لباس“ میں ملبوس مانگنے والے بچے آپ پر “جھپٹنے“ کی کوشش کرتے، آپ کے “احرام“ کو کھینچتے، آپ احرام “کُھل جانے“ کے ڈر سے اُن کو پانچ پانچ رُوپے دے کر اللہ کا شُکر ادا کرتے۔

بے شمار ٹھیلے والے آپ کو “چین“ کی بنی ہوئی اشیاء بیچنے کی غرض سے اُونچی اُونچی آوازیں لگا رہے ہوتے “چوبیس کے بارہ، چوبیس کے بارہ“۔

قریب ہی ایک پُرانی سی پولیس موبائل کھڑی ہوتی، اُس میں بیٹھی ہوئی موٹی اور کاہل نظر آنے والی پولیس عام لوگوں کو دھتکار کر اور حاجیوں سے دور رکھ کر سیکیورٹی دے رہی ہوتی۔

رینجرز کے جوان مستعدی سے اپنی “اولڈ“ G3 بندوقیں سنبھالے فخر سے کھڑے ہوتے جیسے ان کے پاس دُنیا کا جدید ترین اسلحہ ہے اور انہیں اس سے 200 میٹر دور تک فائر کرنا پڑ سکتا ہے۔ کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لئے تمام حاجیوں کو “اسکین“ کیا جا رہا ہوتا۔ فول پروف سیکیورٹی کے لئے FBI کے ٹریننگ یافتہ K9s یعنی “کُتّے“ استعمال کئے جا رہے ہوتے۔

مسجدِ حرام میں داخل ہوتے ہی آپ کو بہت سے “چھوٹے“ سر والے افراد ( المعروف دولت شاہ کے چوہے) نظر آتے جو قوالی “دم مست قلندر مست مست“ پر دھمال ڈال رہے ہوتے۔ قوال حضرات خود کو اسلام کا بڑا خدمتگار سمجھتے جو اپنے طبلے کی تھاپ اور ہارمونیم کی دُھنوں سے اسلام کی “عظیم خدمت“ کرتے۔ نعتوں کی جدید قسم آپ کو دیکھنے میں ملتی، مشہور نعت خواں حضرات نعتیں اس طرح پڑھ رہے ہوتے کہ اُن کے پیچھے “سبز پگڑی“ پہنے بچے حلق سے BASS کے متبادل کے طور پر “حق اللہ۔۔۔ یا۔۔۔۔ اللہ اللہ“ نکال رہے ہوتے۔

کعبۃ اللہ آنے والی خواتین ہماری نوجوان نسل کی “چھانڑے بازی“ یا “پُونڈی“ کا شکار ہو رہی ہوتیں، یہ چھانڑے باز طواف پر توجہ کرنے کے بجائے لڑکیوں کے قریب قریب چلنے کی کوشش کرتے۔

مسجدِ حرام کے ہر کونے اور ستون پر کسی نا کسی “روحانی سلسلے“ کے پیر یا بابوں کے “تنخواہ دار“ مرید قابض ہوتے جو خود کو تمام انسانوں سے افضل تصور کرتے، یہ بلند پایہ مرید اپنے “مرشدِ پاک“ کے نام پر تگڑے تگڑے بکرے اور مُرغے بٹورتے اور ان کے عوض “حاجت مندوں“ کی حاجات “آگے“ پہنچاتے۔ یہ حضرات خواتین کے ساتھ “خاص ہمدردی“ سے پیش آتے۔۔ ان کے مقبوضہ کونے یا ستون پر لنگر کا “خاص انتظام“ ہوا کرتا، لنگر لینے کے لئے مرد و خواتین کی الگ الگ قطاریں بنائی جاتیں مگر اتنی قریب کہ سب ایک دوسرے کی “مدد“ کر سکیں۔ یہ بھی “چھانڑے بازی“ کا ایک نادر موقعہ ہوا کرتا۔

محرم الحرام میں حرمین شریفین کا ماحول “کالا کالا“ نظر آتا جبکہ ربیع الاول میں سب کچھ “سبز سبز“ ہو جایا کرتا۔ کیا معلوم محرم میں احرام کا رنگ “کالا“ اور ربیع الاول میں “سبز“ ہوا کرتا۔

امامت کے مسئلے پر تمام فرقوں میں ہر وقت “خوں ریزی“ کا خطرہ ہوتا، ہر فرقہ دوسرے فرقے کو کعبۃ اللہ کی امامت کے لئے غیر موزوں ہونے کے “فتوے“ جاری کرتا۔ اس صورتحال میں وزیرِ مذہبی اُمور (ایک ریٹائرڈ جرنل صاحب) کعبۃ اللہ کی امامت “سابق آرمی چیف“ کو سونپ دیتے، جن کے حُلیہ مبارک میں ڈاڑھی تو نہیں البتہ مونچھ ضرور ہوتی اور اُنہوں نے برطانیہ کے کسی ادارے سے “24ویں صدی کی جِدت پسندی“ نامی ایک “اسلامی“ کورس بھی کر رکھا ہوتا۔

حرم شریف کی تزئین و آرائش کا کام اُس کمپنی کو “ٹھیکے“ پر دیا جاتا جو “ٹینڈر“ کی کم سے کم قیمت پر راضی ہوتی مگر زیادہ سے زیادہ “کمیشن“ کھلاتی۔

آبِ زم زم بوتلوں میں بھر کر بازاروں میں فروخت ہو رہا ہوتا مگر حاجی حضرات کو ایک ایک گلاس کے لئے لمبی قطاروں میں انتظار کرنا پڑتا۔ اکثر کے پاس گلاس موجود نہ ہوتے کیونکہ پلاسٹک کے گلاس “کون چھوڑتا ہے بھائی؟“، وہ بیچارے حاجی ہاتھ میں زم زم پیتے اور اللہ کا شُکر ادا کرتے۔

میڈیا کے “اینکر پرسنز“ (لال بُجھکڑ) ان تمام مسائل پر فاطر العقل پروگرام پیش کرتے، سیاستدانوں کو لڑواتے اور خوب ریٹنگ بڑھواتے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوھدری صاحب حرمین شریفین میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سوموٹو نوٹس لیا کرتے۔ پی پی پی تمام مسائل کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیتی، نواز لیگ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا کرتی، عمران خان صاحب کہا کرتے “اِن سب کو شرم آنی چاہیے، بیڑا غرق کر دیا“، الطاف حسین صاحب کا نعرہ “انقلاب۔۔۔انقلاب“ ہوتا، ق لیگ کو کچھ سمجھ ہی نہ آتی کیا ہو رہا ہے، پرویز مشرف صاحب فیس بُک پر اعلان کیا کرتے کہ “میں میں میں“ آؤں گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا، جماعت اسلامی مسائل کو امریکی سازش قرار دیا کرتی اور اسلامی نظام کے لئے “بھینس“ کے آگے بین بجاتی، مولانا فضل الرحمٰن مسائل کو “ڈیزل میں غوطے“ دے کر عُمرے کیا کرتے، اے این پی کی “لاٹری“ نکلتی اور یہ عوام الناس کو بس “لال ٹوپی“ پہنایا کرتی۔ کوئی “بھولا بھٹکا“ اگر نظامِ خلافت کی بات کرتا تو لوگ اُسے “شِدّت پسند“ قرار دیتے۔ الیکشن ہونے کی صورت میں شریف لوگ نتائج کی فہرست میں “نیچے سے“ جیتا کرتے۔

پیمرا ایک نیا قانون متعارف کرواتا جس کے تحت میری اس تحریر پر پابندی لگا دی جاتی اور میرا کتاب و سُنّت فورم کا آن-لائن اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیا جاتا۔

کتاب و سُنّت فورم کے اکاؤنٹ ڈیلیٹ ہونے کے خیال نے مجھے ڈرا دیا اور میں نے اللہ مالکُ المُلک کا لاکھ لاکھ شُکر ادا کیا کہ “مکّہ سعودی عرب میں ہے“ اور یہاں کے لوگ تمام معاملات نہایت خوش اسلوبی سے چلانے کے اہل ہیں، ورنہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ “بدعتِ حسنہ“ کے نام پر کعبۃ اللہ میں لوگ کیا کیا کیا کرتے اور حاجیوں کو کن کن “پاکستانی حالات“ کا سامنا کرنا پڑتا۔

یقیناً خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو مکّہ میں پیدا ہوئے، پوری زندگی کعبۃ اللہ کی فضاؤں میں گزاری اور اُن کا جنازہ کعبۃ اللہ کے سامنے امامِ کعبہ پڑھاتے ہیں۔ یہاں کے انتہائی خوش قسمت وہ مسلمان ہیں جو فقہی ائمہ کے صرف ناموں سے واقف ہیں اور شاید دیوبندی اور بریلوی نام اُنہوں نے کبھی سُنے بھی نہیں۔

علامہ اقبال رحمہ اللہ کا یہ شعر ہمارے لئے ہے۔۔۔
تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ
کوئی بتائے یہ مسجد ہے یا کہ میخانہ
--------
نوٹ: اس افسانوی مضمون کا مقصد صرف اپنے ملک کے اُن حالات اور اپنے معاشرے کا منظر پیش کرنا تھا، ہمارا معاشرہ اندھے اعتماد اور اندھی تقلید کا بلا کی حد تک شکار رہا ہے جو اس مجموعی صورتحال کی وجہ ہے۔ قوالی، دھمال اور مزاروں کے حالات کے حوالے سے جو کچھ تحریر کیا گیا وہ میرا ذاتی مشاہدہ بھی ہے، تقریباً 10 سال پہلے تک میں بھی مختلف مزاروں پر جاتا رہا ہوں۔ یہ مضمون در اصل محمد تیمور شیخ کی تخلیق ہے جو اُنہوں نے 2009 میں ای-میل کے ذریعے مختلف لوگوں کو بھیجا، میں نے اُن کے مضمون کا اُردو ترجمہ کیا اور موجودہ حالات کے حوالے سے کُچھ تصرف بھی کیا ہے، اگر تیمور صاحب تک یہ تحریر پہنچے تو اُن سے گزارش ہے کہ براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں۔ جزاک اللہ خیراً کثیرا۔
-------
واضح رہے کہ اس مضمون کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں رہا اور اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے میں تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں۔

اللہ ہم سب کو کعبۃ اللہ اور مسجد نبوی جانا نصیب کرے۔ آمین۔

والسلام علیکم و رحمتہ اللہ و بارکتہ

محبوب حسن
١٣ مئی ٢٠١٢

محمد تیمور شیخ‌ صاحب کے انگریزی مضمون کا لِنک۔۔
If Makkah Was in Pakistan
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔۔۔

اس بے مقصد اور فضول سی تحریر کا کوئی سر پیر نہیں۔ اللہ ایسی تحریر لکھنے والوں کو کوئی بامقصد اور مثبت کام کرنے کی توفیق دے۔ آمین
 

سوالی

مبتدی
شمولیت
اپریل 24، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
79
پوائنٹ
0
میرا نہیں خیال یہ بے مقصد اور فضول تحریر تھی بلکہ ہمارے معاشرے کی صحیح ترجمانی کی ہے ،
پورا سو فیصد درست فٹ بیٹھ رہی ہے یہ تحریر ہمارے معاشرے کے اعتبار سے
دیکھا جائے اور دل پر ہاتھ رکھ کر منصفانہ فیصلہ کیا جائے تو بالکل ایسا ہی ہوتا جیسا لکھا ہے

بلکہ اس تحریر میں اس بات کا اضافہ کرنا چاہونگا کہ اگر مدینہ پاکستان میں ہوتا تو ، "نقش پا" ۔ "پنج تن پاک کا پنجہ " ، دعوت اسلامی کا جھنڈا ،
عین گنبد خضرا کے اوپر نصب ہوتا ، روضہ مبارک پر نیلی پیلی ریشمی رومال اور دھاگے لپٹے ہوتے ۔۔۔
پوری مسجد میں میٹروملن اگر بتی کی تیز خوشبو سے مہک رہی ہوتی
اور مسجد کے باہر "مدنی بریانی" پر لوگوں کا رش ہوتا اور ہر جمعہ کو نماز کے بعد بچوں کی اسپیشل ٹیم امام صاحب کے ساتھ کورس میں نعت پڑھ رہے ہوتے "یا نبی سلام علیک " ، وغیرہ وغیرہ


لکھنے والے یا شئیر کرنے والے کا مقصد دل آزاری یا تضحیک ہرگز نہیں ہم کو برا اس لیےلگتا ہے کہ ہم آئینہ دیکھنے سے گھبراتے ہیں کیونکہ ہم اور ہمارا معاشرہ منافقت ، جھوٹ مکاری اور بیشتر سماجی برائیوں سے اپنا منہ اتنا کالا اور مکروہ کرچکے ہیں کہ آئینہ دیکھنے سے ڈر لگتا ہے


یہ تو بات ہے کہ "اگر ہوتا تو" ۔۔۔لیکن خود مشاہدہ کرے ، پاکستان سے آنے والے بدعتی ٹولہ وہی کچھ کرتا ہے جسکی نشاندہی کی ہے
چنانچہ کوئی روضہ رسول کی جالی پکڑنے کی تگ و دو میں ہے کوئی رقعہ پھینکنے کے چکر میں ہے کوئی کچھ
میں نے خود جنت بقیع میں عورتوں کی چٹیاں کٹی ہوئی دیکھی ہے جا بجا جو عورتیں باہر سے پھینکتی ہیں ۔۔۔
یعنی کوئی ادب و احترام نہیں جب یہاں کے مطوعے یا شرطے کچھ کہتے ہیں تو لگے برائی کرنے
"وہابی ہے نا ؟ یہ کیا جانے عشق رسول"


بلکہ انتہائی افسوس اور دکھ کے ساتھ یہ تلخ بات بھی بتاتا چلوں- بیشتر عینی شاہد کے مطابق دوران طواف فحش حرکات اور چوریاں بھی ہوتیں ہیں
اوریہ سب کرنے والے زیادہ تر پاکستانی ہوتے ہیں


ابھی جب مکہ مدینہ ادھر نہیں تو یہ حال ہے ، ہوتا تو کیا ہوتا ؟
واللہ اعلم !

والسلام
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
اس بے مقصد اور فضول سی تحریر کا کوئی سر پیر نہیں۔ اللہ ایسی تحریر لکھنے والوں کو کوئی بامقصد اور مثبت کام کرنے کی توفیق دے۔ آمین
مگر مجھے آپ کے اس تبصرے سے اختلاف ہے
یہ ٹھیک ہے کہ مثبت کام ہونا چاہیے ۔۔۔ مگر علامہ اقبال نے بھی ایک بار فرمایا تھا کہ :
اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے ۔۔۔
:)
 

محبوب حسن

مبتدی
شمولیت
نومبر 26، 2011
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
228
پوائنٹ
0
لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔۔۔

اس بے مقصد اور فضول سی تحریر کا کوئی سر پیر نہیں۔ اللہ ایسی تحریر لکھنے والوں کو کوئی بامقصد اور مثبت کام کرنے کی توفیق دے۔ آمین
یوسف بھائی مجھے اس تحریر کا سر اور پیر پاکستان میں نظر آیا تبھی میں نے پوسٹ کیا۔ بہتر ہوتا اگر آپ میری کسی بات پر اعتراض کرتے تو میں وضاحت کرتا یا غلطی کی صورت میں رجوع کرنے کے قابل ہوتا۔

"سوالی" بھائی کی پوسٹ بھی لاجواب رہی ہے، یہ مضمون میں نے آزمائشی طور پر یہاں پوسٹ کیا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں آپ نئی چیزیں دیکھ سکیں گے۔ میرا مطلب ہے کہ ۔۔۔۔ ابھی آئینے میں "پاکستانی چہرہ" شاید کچھ دھندلا سا ہے جسے سوالی بھائی نے کچھ مزید بہتر کیا ہے۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے۔ آمین۔
 

محبوب حسن

مبتدی
شمولیت
نومبر 26، 2011
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
228
پوائنٹ
0
لکھنے والے یا شئیر کرنے والے کا مقصد دل آزاری یا تضحیک ہرگز نہیں ہم کو برا اس لیےلگتا ہے کہ ہم آئینہ دیکھنے سے گھبراتے ہیں کیونکہ ہم اور ہمارا معاشرہ منافقت ، جھوٹ مکاری اور بیشتر سماجی برائیوں سے اپنا منہ اتنا کالا اور مکروہ کرچکے ہیں کہ آئینہ دیکھنے سے ڈر لگتا ہے
بہترین دلائل دینے کا شکریہ۔ آپ کی پوری پوسٹ ہی بہترین رہی جو مجھے اصل مضمون کی تدوین میں مدد دے گی۔ انشاء اللہ۔
جزاک اللہ خیراً کثیرا۔
 
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
122
ری ایکشن اسکور
422
پوائنٹ
76
کچھ دیر پہلے ایک تھریڈ میں کسی نے سموکنگ کی حرمت پوچھی تھی وہاں مفتی یوسف ثانی صاحب نے اس کو حلال کروانے کے لئے کافی لمبی فضول بحث لکھ کر اپنا اور دوسروں کا قیمتی وقت ضائع کیا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا محسوب حسن بھائی
اللہ تعالیٰ کا بہت بہت بہت شکر ہے کہ اللہ نے کعبہ کو مشرکین سے پاک رکھا۔الحمدللہ

محبوب حسن بھائی نے بالکل صحیح کہا ہے،اللہ کا بہت زیادہ شکر ہے کہ کعبہ پاکستان میں نہیں ہے۔

اللہ کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔

اور کعبہ اصلی پاک سر زمین یعنی مکہ میں ہے۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
محبوب حسن بھائی نے بالکل صحیح کہا ہے،اللہ کا بہت زیادہ شکر ہے کہ کعبہ پاکستان میں نہیں ہے۔
اور اللہ کا لاکھ شکر ہے کہ اس نے آلِ سعود کو یہ نازک اور اہم ذمہ داری سونپی ہے۔
گو کہ آلِ سعود کو ہم ہر معاملے میں نیک نیت پاک طنیت نہیں مانتے ۔۔۔ مگر کم از کم اس اہم ترین ذمہ داری کے معاملے میں توحید کے مسئلے پر سمجھوتا کرتے ہم نے انہیں کبھی نہیں دیکھا۔
اور اللہ ہی اپنے کاموں کو بہتر جانتا ہے!!
 
Top