• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر مکّہ پاکستان میں ہوتا؟

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
لیکن ہر آدمی کے ساتھ ایسا معاملہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ سعودیہ میں جائے اور اس کا عقیدہ ویسے کا ویسے بگڑا ہوا ہی رہے بلکہ بہت سارے لوگوں نے وہاں جا کر عقیدہ توحید کی بہاریں دیکھ کر اپنی اصلاح کی اور اللہ نے انہیں ہدایت عطا فرمائی۔

ایسی کئی مثالیں میرے سامنے ہیں۔
بلکل صحیح کہا آپ نے
ایک مثال ہم خود ہیں آپ کے سامنے

الله کا احسان عظیم ہے کے اس نے ہمیں توحید کی بہار سے نواز ، اب موت بھی اے تو کم سے کم اتنا تو اطمنان رہیگا کے ہم نے توبہ کے بعد کبھی الله کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا اور توحید پر کبھی سودا نہیں کیا

الحمد الله توحید کے معاملے میں ہمارا عقیدہ چٹان سے بھی زیادہ مضبوط ہے
 

محبوب حسن

مبتدی
شمولیت
نومبر 26، 2011
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
228
پوائنٹ
0
محترم آپ عام گفتگو کو جذباتیت کا رنگ خواہ مخواہ ہی دے رہے ہیں۔۔۔ مضمون افسانوی تھا تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے آپ نے مملکت خدادا پاکستان کا نام ہی کیوں تجویز کیا؟؟؟۔۔۔ جہاں تک آپ نے وضاحت پیش کی ہے ماضی کا عمل دخل نہ ہونے کی بات صرف مضمون کی حد تک محدود ہے تو کیا یہ ضروری ہے میں آپ کی سوچ کو خود پر مسلط کرلوں؟؟؟۔۔۔ اور اگر ایسی بات تھی تو آپ کو مضمون میں اس کی وضاحت پیش کرنا چاہئے تھا ایسا میرا خیال ہے۔۔۔ جہاں تک بات ہے شرک کے روک تھام کی تو اس کے لئے آپ کو روکا کس نے ہے؟؟؟۔۔۔ لیکن مجھے میرے سوال کا جواب نہیں ملا جو میں نے اپنی پچھلی تحریر میں آپ سے پوچھا تھا۔۔۔ کے سعودی عرب میں شرک کی روک تھام کے لئے سب سے اہم کردار کس نے ادا کیا؟؟؟۔۔۔ آپ نے ایک کافر کی زبان میں لکھا این ایکس حنفی تو یہ بھی بتادیں کے آپ کا حالیہ مسلک کیا ہے؟؟؟۔۔۔تو پھر اُس پر بھی کچھ بات ہوجائے۔۔۔
1۔ محترم میں اس ملک کا باسی ہوں اور میں نے اپنا حق استعمال کرتے ہوئے اسی کے نام پر افسانوی مضمون لکھا۔ آپ کا اعتراض نا مناسب ہے۔
2۔ میں نے کہیں پر یہ نہیں کہا کہ آپ میری سوچ خود پر مسلط کریں۔ آپ خواہ مخواہ جذباتی ہو رہے ہیں۔
3۔ آپ کا سوال موضوع سے مطابقت نہیں رکھتا اس لئے جواب دینا مناسب نہیں ہے، جبکہ میں شرک کی روک تھام کرنے والے تمام احباب کے لئے دعا گو ہوں۔
4۔ حیرت ہے کہ آپ جسے کافر کی زبان قرار دے رہے ہیں، اُسی زبان میں آپ نجانے کیا کیا کہتے آئے ہوں گے اور استعمال کرتے آئے ہوں گے، کیا آپ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ آپ نے انگریزی کبھی استعمال نہیں کیَ؟ محترم زبان زبان ہوتی ہے محترم، زبان کا تعلق کسی مذہب سے جوڑنا پرلے درجے کی۔۔۔۔۔ خیر چھوڑیں۔
5۔ آپ کے آخری سوال کا جواب میرے مضمون میں موجود ہے۔ ایک ہی بات کو بار بار دھرانا وقت کا زیاں ہے۔ براہ مہربانی۔۔۔۔۔
Give me a break
 

سوالی

مبتدی
شمولیت
اپریل 24، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
79
پوائنٹ
0
محترم آپ عام گفتگو کو جذباتیت کا رنگ خواہ مخواہ ہی دے رہے ہیں۔۔۔ مضمون افسانوی تھا تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے آپ نے مملکت خدادا پاکستان کا نام ہی کیوں تجویز کیا؟؟؟۔۔۔ جہاں تک آپ نے وضاحت پیش کی ہے ماضی کا عمل دخل نہ ہونے کی بات صرف مضمون کی حد تک محدود ہے تو کیا یہ ضروری ہے میں آپ کی سوچ کو خود پر مسلط کرلوں؟؟؟۔۔۔ اور اگر ایسی بات تھی تو آپ کو مضمون میں اس کی وضاحت پیش کرنا چاہئے تھا ایسا میرا خیال ہے۔۔۔ جہاں تک بات ہے شرک کے روک تھام کی تو اس کے لئے آپ کو روکا کس نے ہے؟؟؟۔۔۔ لیکن مجھے میرے سوال کا جواب نہیں ملا جو میں نے اپنی پچھلی تحریر میں آپ سے پوچھا تھا۔۔۔ کے سعودی عرب میں شرک کی روک تھام کے لئے سب سے اہم کردار کس نے ادا کیا؟؟؟۔۔۔ آپ نے ایک کافر کی زبان میں لکھا این ایکس حنفی تو یہ بھی بتادیں کے آپ کا حالیہ مسلک کیا ہے؟؟؟۔۔۔تو پھر اُس پر بھی کچھ بات ہوجائے۔۔۔

دیکھے آپ کا کہنا بھی درست ہے ، لیکن جیسا کہ میں نے پہلے لکھا تھا کہ محبوب حسن کی تحریر میں ضرور پاکستان پر بات ہوئی لیکن مقصد تحقیر کرنا نہیں ہے

اس بات کو یوں سمجھے کہ جیسے ایک گھر میں ایک بھائی دوسرے بھائی کی نالائقی کی نشاندہی کرتا ہے ، گرچہ اسکا مقصد بھائی کی ہتک کرنا مقصود نہیں ہوتا

سعودیہ کے ماضی اور دبئی کی بات اس لیے غیر مناسب ہے کہ اول تو کوئی بھی سعودی یا امارتی شہری ادھر نہیں ، مخاطب انہیں کو کیا جائے گا جسکا اس ملک سے کوئی تعلق ہو ،

ایک طنز وہ ہوتا ہے جس میں نیت خالص تنقید کرنا اور برا بھلا جاننا کہنا اس بات کی مزمت ہونی چاہیے کہ واقعی یہ غلط ہے

لیکن ایک طنز ، معاشرہ کو آئینہ دیکھانا ، اسکے عیوب کا لوگوں کو دوسرے پرائے میں بیان کرنا ، جو کہ اس تحریر میں ہے ، یہ بالکل غلط نہیں میرے حساب سے ،
سچائی پہلے سچائی ہوا کرتی تھی ، تبھی لوگ سن لیا کرتے تھے ، مگر افسوس سچائی اب کڑوی ہوتی ہے اس لیے لوگوں کی ہضم نہیں ہوتی ۔۔۔


اس لیے براہ مہربانی دونوں محترم سے درخواست ہے کہ بدگمانی نہ رکھے ، اس سے شیطان ہی محظوظ ہوگا
مقصد و نیت بظاہر دونوں کے درست ہیں ،باقی دلوں کا حال اللہ جانتا ہے



واللہ اعلم !
 

سوالی

مبتدی
شمولیت
اپریل 24، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
79
پوائنٹ
0
1۔ محترم میں اس ملک کا باسی ہوں اور میں نے اپنا حق استعمال کرتے ہوئے اسی کے نام پر افسانوی مضمون لکھا۔ آپ کا اعتراض نا مناسب ہے۔
2۔ میں نے کہیں پر یہ نہیں کہا کہ آپ میری سوچ خود پر مسلط کریں۔ آپ خواہ مخواہ جذباتی ہو رہے ہیں۔
3۔ آپ کا سوال موضوع سے مطابقت نہیں رکھتا اس لئے جواب دینا مناسب نہیں ہے، جبکہ میں شرک کی روک تھام کرنے والے تمام احباب کے لئے دعا گو ہوں۔
4۔ حیرت ہے کہ آپ جسے کافر کی زبان قرار دے رہے ہیں، اُسی زبان میں آپ نجانے کیا کیا کہتے آئے ہوں گے اور استعمال کرتے آئے ہوں گے، کیا آپ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ آپ نے انگریزی کبھی استعمال نہیں کیَ؟ محترم زبان زبان ہوتی ہے محترم، زبان کا تعلق کسی مذہب سے جوڑنا پرلے درجے کی۔۔۔۔۔ خیر چھوڑیں۔
5۔ آپ کے آخری سوال کا جواب میرے مضمون میں موجود ہے۔ ایک ہی بات کو بار بار دھرانا وقت کا زیاں ہے۔ براہ مہربانی۔۔۔۔۔
Give me a break
محترم !
براہ مہربانی ، گریز سے کام لے

تاہم ایک نقطہ پر مؤدبانہ اختلاف کرتے ہوئے محض اپنی ناقص رائے دونگا ۔۔

میرا خیال ہے کہ زبان بھی "کافر" و "مسلمان" ہوسکتی ہے ، زبان کا تعلق مذہب سے گہرا ہے ۔۔۔
مثلا جیسا کہ لباس کی بات ہے ، لباس کافروں کی مشابہت والا بھی ہے ، اور مسلمانوں کی شناخت والا بھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ شرعی اعتبار سے ہر وہ لباس پہننا جائز ہے جس سے ستر ڈھنپے اور کافروں کی مشابہت والی نہ ہو ۔۔
لیکن یہ پہلو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ جو زبان و لباس کسی خاص معاشرے کا لازمی جز بن جائے وہ انہی سے منسوب کہلائے گی ۔۔۔
مثال کے طور پہ ، جینز ٹی شرٹ ، پینٹ وغیرہ مغربی لباس کی عکاسی ہے ، کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ مسلمان ممالک میں بھی رائچ ہے ، بے شک ایسا ہے لیکن کیا مسلمان ممالک کا لباس ، ثوب ، شلوار قمیض بھی مغربی ممالک میں رائچ ہے ؟ ایسا نہیں ہے

ٹھیک اسی طرح زبان کا مسئلہ بھی ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ زبان کا تعلق مذہب سے نہیں لیکن دوسرا (کفار) یہ نہیں سمجھتا وہ تو ہر وہ چیز جسکا تعلق اسلام و مسلمان سے ہو اسکو اپنی ضد سمجتا ہے ، اگر ایسا نہیں ہوتا تو مغربی ممالک میں انگریزی کی بجائے عربی کی تعلیم دی جاتی کیونکہ زبان کے لحاظ سے
عربی انگریزی سے قدیم زبان ہے ، لیکن وہ ایسا نہیں کرتے ، بلکہ ایسا نظام بنا گئے ہیں کہ انگریزی ، فرنچ کے علاوہ کوئی دوسری زبان سرکاری طور پر قبول تک نہیں ۔۔۔
پاکستان بننے سے قبل ہندؤں نے اردو سے محض مذہب کی وجہ سے تعصب رکھا ، اور ہندی کو فروغ دینے کی ناکام کوشش کی ۔۔

تو یہ سمجھنا کہ زبان کا مذہب سے تعلق نہیں ، میرے حساب سے مناسب بات نہیں

باقی میری بات اور تجزیہ غلط بھی ہوسکتا ہے
 

محبوب حسن

مبتدی
شمولیت
نومبر 26، 2011
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
228
پوائنٹ
0
محترم میرا مقصد گریز کا ہی رہا ہے اور زبان کا تعلق مذہب سے نہ ہونے سے میری مراد صرف یہ تھی کہ اسلام ہمیں کسی زبان کے استعمال سے روکتا نہیں ہے اور عربی کے علاوہ کسی اور زبان کے استعمال میں کوئی گناہ بھی نہیں ہے۔ اگر میں غلط ہوں تو براہ مہربانی تصحیح فرما دیجئے گا۔

لباس میں فحاشی و عریانی کا عنصر ہو سکتا ہے مگر زبان کے استعمال میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
باقی میری بات اور تجزیہ غلط بھی ہوسکتا ہے
چونکہ آپ پہلے ہی ایسا لکھ کر خود کو محفوظ کر چکے ہیں :) لہذا میرا جواب بہرحال آپ پر تنقید تو نہیں ہے۔

مثال کے طور پہ ، جینز ٹی شرٹ ، پینٹ وغیرہ مغربی لباس کی عکاسی ہے ، کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ مسلمان ممالک میں بھی رائچ ہے ، بے شک ایسا ہے لیکن کیا مسلمان ممالک کا لباس ، ثوب ، شلوار قمیض بھی مغربی ممالک میں رائچ ہے ؟ ایسا نہیں ہے
مثال پوری طرح درست نہیں ہے۔ اگر شلوار قمیض کو مسلم لباس مانا جائے تو پاکستان کی غیرمسلم قوم بالخصوص سکھ بھی ایسا ہی لباس زیب تن کرتے ہیں اور اسی طرح نارتھ انڈیا کے کئی غیرمسلموں میں یہی لباس مروج ہے۔ ونیز یہاں سعودی عرب میں دیکھا گیا ہے کہ جنوبی ہند کے باشندوں میں دھوتی کرتا والا لباس مخصوص و مقبول ہے اور اس میں مسلم یا غیر مسلم کی کوئی تخصیص کبھی دیکھی نہیں گئی۔
لیکن یہ پہلو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ جو زبان و لباس کسی خاص معاشرے کا لازمی جز بن جائے وہ انہی سے منسوب کہلائے گی ۔۔۔
منسوب ہونا ایک الگ بات ہے لیکن اس کا استعمال ایک مختلف معاملہ ہے۔ اگرچہ عربی زبان خلیجی اور دیگر عرب ممالک سے منسوب ہے لیکن اس کا استعمال برصغیر پاک و ہند کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہوتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ زبان کا تعلق مذہب سے نہیں لیکن دوسرا (کفار) یہ نہیں سمجھتا وہ تو ہر وہ چیز جسکا تعلق اسلام و مسلمان سے ہو اسکو اپنی ضد سمجتا ہے ، اگر ایسا نہیں ہوتا تو مغربی ممالک میں انگریزی کی بجائے عربی کی تعلیم دی جاتی کیونکہ زبان کے لحاظ سےعربی انگریزی سے قدیم زبان ہے
دلیل بھی درست نہیں اور مثال بھی۔
آجکل اردو کو مسلمانوں کی زبان باور کرایا جا رہا ہے ، یہ کہتے ہوئے کہ عربی کے بعد وہ دوسری زبان ، جس میں مذہب اسلام کا مواد موجود ہے وہ اردو ہے۔ لیکن یہ بات فراموش کر دی گئی ہے کہ ماضی اور حال دونوں ادوار میں اس زبان کے غیرمسلم ادیب و شعراء نے بھی اپنی شناخت بنائی ہے ، گو کہ پچھلے دور کے مقابلے میں تعداد آج کچھ کم ہے۔ لہذا یہ کہنا درست نہیں کہ غیرمسلم ، مسلم طبقے سے جڑی کسی زبان کو اپنی ضد سمجھتا ہے۔
زبان کا تعلق اگر مذہب سے "لازمی" ہوتا تو پھر دنیا کی ایک ایک زبان میں قرآن و حدیث کے تراجم کار عبث ٹھہرتے۔ جب کہ ایسا ہے نہیں۔
 

سوالی

مبتدی
شمولیت
اپریل 24، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
79
پوائنٹ
0
محترم میرا مقصد گریز کا ہی رہا ہے اور زبان کا تعلق مذہب سے نہ ہونے سے میری مراد صرف یہ تھی کہ اسلام ہمیں کسی زبان کے استعمال سے روکتا نہیں ہے اور عربی کے علاوہ کسی اور زبان کے استعمال میں کوئی گناہ بھی نہیں ہے۔ اگر میں غلط ہوں تو براہ مہربانی تصحیح فرما دیجئے گا۔

لباس میں فحاشی و عریانی کا عنصر ہو سکتا ہے مگر زبان کے استعمال میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
بے شک زبان میں فحاشی کا عنصر ویسا تو نہیں جیسا کہ لباس میں ہے ، (گالی ، فحش کلامی ، چرب زبانی، جھوٹ وغیبت کا تعلق مخصوص زبان سے نہیں) ۔ لیکن بسا اوقات احتیاط کا پہلو نہ رکھا تو لباس سے سنگین معاملہ ہوسکتا ہے ۔۔۔
مثال کے طور پر ہندی کے کچھ الفاظ اگر مستعمل ہوجائے تو لاشعوری طور پہ انکے باطل معبودوں کی تعریف کرنے لگینگے جوکہ سنگین معاملہ ۔۔۔خیر یہ بھی ایک استشنائی معاملہ (ایکسپشنل یا رئیر کیسز) ہے ،

اسلام ہمیں یقینا دوسرے کی زبان سے نہیں روکتا (جیسا کہ حدیث میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے صحابی رضی اللہ عنہہ کو غیر عربی غالبا یہود کی زبان عبرانی سیکھنے کو کہا) لیکن اگر غور کیا جائے تو مقصد یہ تھا کہ غیر عرب کو انکو زبان میں مسئلہ سمجادیا جائے اس سے انہی کو دین سمجھنے میں
آسانی و سہولت ہوگی ۔۔۔وغیرہ ۔۔
اہم بات "دین" کو پہلے ترجیح دی جائے گی دنیا پر ، بے شک دنیا میں ہے تو دنیاوی امور بھی سیکھنا ہونگے لیکن چونکہ بات مذہب سے ہے لہٰذا اولین ترجیح دین ہوگی ۔۔۔

جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اکثر ہندی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تاکہ ہندو کو سمجھنے میں آسانی ہو ، اور ایسا ہوتا ہے ۔۔
(ذاتی طور مجھے ہندی سخت ناپسند ہے ، ماسوائے ایک شخص کے منہ سے ، اور وہ ذاکر نائیک کیونکہ کام دیکھنا چاہیئے ماشاء اللہ خوب کررہے ہیں)

یہاں تک تو بات سمجھ آسکتی ہے کہ ایک مبلغ یا ڈاکٹر وغیرہ کو اس زبان پر عبور حاصل کرنا چاہیئے جس سے وہ غیر زبان والوں کی بات سمجھ اور سمجھا سکے

لیکن ہم دیکھتے ہیں سرسید نے کیا انگریزی سیکھنے کو کہا، سبھی "انگریز" بن گئے ، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا جو نہ تو دین کا کام کررہا ہے ، اور نہ ہی کوئی انسانیت کی فلاح کے کوئی کام کررہا ہے ، لیکن انگریزی سیکھنے کے لیے جان کی بازی لگا رہا ہے
چنانچہ اس سیکھنے کی چکر میں ، انگریز تو بن گئے فر فر انگریزی بولتے ہیں ، لیکن اگر پوچھا جائے کہ کم ازکم سورۃ الناس ہی صحیح پڑھ لو تو جان نکل جائے گی ۔۔۔۔۔کیا اس لیے دوسرے کی زبان سیکھنے کو کہا تھا ؟؟
ترجیحات بدل گئی ، دین نہ رہا ، صرف دنیا ہوگیا ۔۔۔۔۔سو زلیل ہوئے۔۔۔

انگریزوں نے جب نو آبادیاتی کا عمل شروع کیا تو پہلا کام ہی یہ کیا کہ مسلمانوں کے درمیان رابطہ کو ختم کیا جائے ،چنانچہ رابطہ کو ختم کرنے کے لیے انکے درمیان رائچ بین المسلمین زبان عربی کا خاتمہ کیا ،


ہوتا ہے یہ کہ جو زبان کسی خاص ثقافت کو حصہ ہوجائے ، اور وہ زبان آپ سیکھنے لگے تو فطرت انسانی کے سبب رفتہ رفتہ آپ کو انکی زبان تو کیا ثقافت کی محبت بھی دل میں گھر کرجاتی ہے، چنانچہ زبان کنجی ہوتی ہے اور داخلہ کی بنیاد بنتی ہے ، پھر رفتہ رفتہ آپ انکے رسم و رواج کو سمجھتے ہیں
شیطان آپ کے دل میں انکے لیے پہلے ہمدردری پیدا کرتا ہے ، پھر محبت اور پھر آپ ہی کے اپنے مذہب سے بغاوت کی آواز آنے لگتی ہے
ذہنی وسواس آتے ہیں کہ انکا یہ رسم و رواج کتنا اچھا ہے ، کاش ہمارے مذہب میں بھی ایسا کچھ ہوتا ۔۔۔وغیرہ وغیرہ

یقین نہ آئے تو خود سے تجربہ کرکے دیکھ لیں، وہ مسلمان جو انگریز ملک میں جا بستے ہیں یا نہیں بھی بستے لیکن زبان کی بدولت انکی پوری ثقافت سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں انکے دل میں کفار کے لیے ہمیشہ نرم گوشہ ہوگا ،
انگریز چھوڑے بھارت میں جاکر بس کر دیکھے اور ہندی سیکھے ، کل کلاں کو ہندو کے بارے میں آپکے نظریہ نہ بدلے تو بتائیے گا ۔۔

اور میری ناقص رائے یہ ہے کہ سب غیر زبان کو بے مقصد سیکھنے کا نتیجہ ہے ، اسکی بجائے ہم عربی کو ترجیح دیتے سمجھ رہے ہوتے
تو شائد قرآن فہمی اور حدیث فہمی ہماری بہتر ہوتی اور اتنے فرقوں میں نہ بٹے ہوتے ۔۔۔۔

واللہ اعلم !
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
ہوتا ہے یہ کہ جو زبان کسی خاص ثقافت کو حصہ ہوجائے ، اور وہ زبان آپ سیکھنے لگے تو فطرت انسانی کے سبب رفتہ رفتہ آپ کو انکی زبان تو کیا ثقافت کی محبت بھی دل میں گھر کرجاتی ہے، چنانچہ زبان کنجی ہوتی ہے اور داخلہ کی بنیاد بنتی ہے ، پھر رفتہ رفتہ آپ انکے رسم و رواج کو سمجھتے ہیں
شیطان آپ کے دل میں انکے لیے پہلے ہمدردری پیدا کرتا ہے ، پھر محبت اور پھر آپ ہی کے اپنے مذہب سے بغاوت کی آواز آنے لگتی ہے
ذہنی وسواس آتے ہیں کہ انکا یہ رسم و رواج کتنا اچھا ہے ، کاش ہمارے مذہب میں بھی ایسا کچھ ہوتا ۔۔۔وغیرہ وغیرہ
اب اس قدر مزاحیہ نکتہ پر ہنسا جائے یا ؟؟ :)
یہ کوئی کلیہ نہیں ہے ، ہاں استثنائی مثالیں ضرور ہو سکتی ہیں۔
اگر یہ کوئی باقاعدہ یونیورسل کلیہ ہوتا تو پھر ۔۔۔۔
  • پاکستان کے تمام غیرمسلم اب تک مسلم ہو گئے ہوتے کیونکہ وہاں "اردو" قومی زبان ہے
  • ہندوستان کے تمام مسلمان مذہب سے بغاوت کر گئے ہوتے چونکہ وہاں کی قومی زبان سنسکرت آمیز ہندی ہے
  • سعودی عرب کے تمام غیر مسلم غیرملکی اسلام قبول کر گئے ہوتے کیونکہ عربی یہاں کی قومی زبان ہے

مسئلہ یہ ہے کہ آپ "زبان" کو "انسانوں کے طرز عمل " کے مترادف پیش کرنے کی سعئ لاحاصل کر رہے ہیں۔ آدمی فطری طور پر "طرز عمل" سے متاثر ہوتا ہے نہ کہ محض کسی زبان سے۔
  • سعودی عرب میں ہر سال ہزارہا غیرمسلم اسلام قبول کرتے ہیں ۔۔۔ اگر کبھی ان سے پوچھ کر دیکھا جائے کہ کیا وہ زبان سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیے ہیں؟ تو یقیناً ان کا جواب نفی میں ہوگا۔
اسلام جو انسانیت اور انسانوں کے مابین مناسب و موزوں طرز عمل کی تلقین کرتا ہے ۔۔۔ اگر گراؤنڈ ریلیٹیز کو مد نظر رکھ کر دیکھا جائے تو اس طرح کا "طرز عمل" کون اختیار کر رہا ہے؟
مسلم معاشرہ تو اس طرح کے اسلامی طرز عمل سے کافی دور نظر آتا ہے جبکہ مغربی معاشرہ گو کہ توحید و رسالت کو نہ مانتا ہو مگر جس "انسانی طرز عمل" کی اسلام تلقین و تبلیغ کرتا ہے ، اس پر وہ لوگ صدق دلی سے کاربند ہوتے ہیں اور جس کا سبب ہی ہے کہ ۔۔۔ وہاں مائیگریٹ کر جانے والے مسلمانوں کے دلوں میں کفار کے لیے نرم گوشہ اسی "حسن سلوک" ، "اخلاق و رواداری" کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے نہ کہ کسی مخصوص "زبان" کی بنیاد پر!!

اور میری ناقص رائے یہ ہے کہ سب غیر زبان کو بے مقصد سیکھنے کا نتیجہ ہے
کم از کم اپنے تجربے اور مشاہدے کے ذیل میں ، میں نے تو آج تک کسی ایک ایسے بندے کو نہیں دیکھا جس نے کوئی زبان "بےمقصد" سیکھی ہو یا سیکھنے کی نیت رکھتا ہو۔
آج کل تو محاورہ عام ہے کہ بغیر مقصد کی خاطر تو ایک بھائی اپنے دوسرے بھائی کے کام نہیں آتا ۔۔ پھر یہاں خواہ مخواہ کوئی بندہ اپنی "بےتحاشا مصروف زندگی" سے کچھ وقت نکال کر کسی غیر زبان کو سیکھنے کا جھنجھٹ کیوں پالے گا؟
کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہو سکتا ہے۔ چاہے وہ معاشی ہو ، تفہیمی ہو یا دینی یا کچھ اور۔ جب تک اس بندے کے حقیقی اغراض و مقاصد سے واقف نہ ہوا جائے محض ظن و گمان کی بنیاد پر اس کے مقصد کو "برا" باور کرانے کی کوشش کرنا زیادتی ہی ہے۔
 

سوالی

مبتدی
شمولیت
اپریل 24، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
79
پوائنٹ
0
چونکہ آپ پہلے ہی ایسا لکھ کر خود کو محفوظ کر چکے ہیں :) لہذا میرا جواب بہرحال آپ پر تنقید تو نہیں ہے۔


مثال پوری طرح درست نہیں ہے۔ اگر شلوار قمیض کو مسلم لباس مانا جائے تو پاکستان کی غیرمسلم قوم بالخصوص سکھ بھی ایسا ہی لباس زیب تن کرتے ہیں اور اسی طرح نارتھ انڈیا کے کئی غیرمسلموں میں یہی لباس مروج ہے۔ ونیز یہاں سعودی عرب میں دیکھا گیا ہے کہ جنوبی ہند کے باشندوں میں دھوتی کرتا والا لباس مخصوص و مقبول ہے اور اس میں مسلم یا غیر مسلم کی کوئی تخصیص کبھی دیکھی نہیں گئی۔
محترم مثال کو عام طور پہ مخصوص کرکے نہیں بلکہ عموم کو دیکھ کی دی جاتی ہے ، اور میں نے یہ نہیں کہا کہ شلوار قمیض مسلم لباس ہے ، بلکہ یہ کہا ہے کہ مسلم ممالک میں رائج ہے ، ہاں البتہ یہ کہونگا جس سے شائد آپ کو بھی انکار نہ ہو کہ عمومی تاثر یہ ہے کہ مسلم لباس ہے ۔۔
باقی رہی دھوتی کرتہ والی بات تو یہ بات درست ہے لیکن خاص ہےاور اسی علاقہ کی شناخت سے نسبت ہے ، یعنی بظاہر ہر جگہ ایسا نہیں ۔۔


منسوب ہونا ایک الگ بات ہے لیکن اس کا استعمال ایک مختلف معاملہ ہے۔ اگرچہ عربی زبان خلیجی اور دیگر عرب ممالک سے منسوب ہے لیکن اس کا استعمال برصغیر پاک و ہند کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہوتا ہے۔
جی بالکل ، لیکن بولنے والے کی اکثریت مسلمانوں کی ہے(گرچہ عرب عیسائی بھی بولتے ہیں) اور عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے



دلیل بھی درست نہیں اور مثال بھی۔
آجکل اردو کو مسلمانوں کی زبان باور کرایا جا رہا ہے ، یہ کہتے ہوئے کہ عربی کے بعد وہ دوسری زبان ، جس میں مذہب اسلام کا مواد موجود ہے وہ اردو ہے۔ لیکن یہ بات فراموش کر دی گئی ہے کہ ماضی اور حال دونوں ادوار میں اس زبان کے غیرمسلم ادیب و شعراء نے بھی اپنی شناخت بنائی ہے ، گو کہ پچھلے دور کے مقابلے میں تعداد آج کچھ کم ہے۔
صرف اردو نہیں بلکہ عربی کا بھی یہی حال ہے ، ماضی میں مشرکین مکہ و کفار جس زبان میں شعر و شاعری کرتے تھے وہ یہی زبان تھی بلکہ اپنی
فصحیح و بلیغ عربی پرانکو اتنا فخر تھا کہ دوسروں کو عجمی سمجھتے تھے ،
یہاں ماضی کی نہیں حال کی بات ہورہی ہے ، اور حال یہ ہے کہ دونوں زبان اب اپنے علاقے کے اعتبار سے مسلمانوں کی شناختی زبان بن گئی ہے


لہذا یہ کہنا درست نہیں کہ غیرمسلم ، مسلم طبقے سے جڑی کسی زبان کو اپنی ضد سمجھتا ہے۔
یہ شائد میں اور آپ سمجھتے ہیں ، جبکہ حقیقت یہی ہے جو بیان کی جاچکی ہے وہ زبان جو کفار و مسلمان دونوں میں یکساں ہوں اس پر تو کوئی ضد نہیں ، ہندی انگریزی اسکی مثال ہے اس پر کوئی تعصب نہیں لیکن عربی اردو پر تعصب ، موجودہ دور کے بھارتی میڈیا اور انگریزی میڈیا سے لگا سکتے ہیں


زبان کا تعلق اگر مذہب سے "لازمی" ہوتا تو پھر دنیا کی ایک ایک زبان میں قرآن و حدیث کے تراجم کار عبث ٹھہرتے۔ جب کہ ایسا ہے نہیں۔
میرا مقصد یہ کہنے کا نہیں تھا ، جبکہ میں نے پچھلی پوسٹ میں وضاحت بھی کی ہے کہ ترویج دین کی خاطر غیر زبان سیکھنا اچھی بات ہے اور اسکی
حدیث میں مثال بھی ہے اسی طرح قرآن و حدیث کے تراجم یقینا کار ثواب ہے ۔۔۔
اس سے تو انکار نہیں ۔۔۔

لیکن اس حقیقت کو جھٹلانے کے لیے ٹھوس ثبوت درکار ہیں کہ موجودو دور میں زبان کا مذہب سے کوئی رشتہ نہیں ۔۔۔


باقی ، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ میری بات و تجزیہ غلط بھی ہوسکتا ہے

والسلام
 
Top