• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہلسنت کے اصولِ تعامل: علم، عدل، ہدایت، حکمت، آسائش، رحمت

شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37

اہلسنت کے اصولِ تعامل: علم، عدل، ہدایت، حکمت، آسائش، رحمت


سفر الحوالی
’’امتِ اسلام‘‘ براعظموں پر پھیلی ایک بھاری وسیع حقیقت ہے۔ ممکن نہ تھا کہ قیامت تک یہ اپنی اُسی مثالی حالت پر رہے جس پر رسول اللہﷺ اسے چھوڑ گئے۔ انحراف اور افتراق ایک انسانی سنت ہے؛ جس سے کسی کو مفر نہیں۔ خود رسول اللہﷺ اپنی امت کے بارے میں اس واقعہ کی پیش گوئی فرما گئے تھے۔ ’’تہتر فرقوں‘‘ والی حدیث کو محدثین اور علمائے عقیدہ نے بڑی سطح پر قبول کیا ہے۔

اس افتراق (امت کا73 فرقوں میں بٹنا؛ جن میں سے 72 دوزخی اور ایک جنتی) والی حدیث کے سلسلہ میں امت کے یہاں دو انتہائیں سامنے آئیں:

  1. اِفراط کی راہ چلنے والوں نے یہ رخ اختیار کیا کہ جب حدیث میں اُن ٹولوں کو دوزخی کہا گیا تو پھر ہم بھی اُنہیں دوزخی کیوں نہ ٹھہرائیں۔ یہ حضرات اپنے اور اُن کے مابین بلندوبالا فصیلیں کھڑی کر نے اور صبح شام انہیں طعنے کوسنے دینے لگے۔ محض لیبلز labels پر لوگوں کے فیصلے کیے جانے لگے اور انفرادی فَرق individual differences کو مدنظر رکھنا تک غیرضروری جانا گیا۔ (لیبلز اور انفرادی فُروق کی وضاحت آگے چل کر آئے گی)۔
ابھی ہم ان منحرف طبقوں کی بات نہیں کر رہے جو ’’نجات پانے والے واحد فرقے‘‘ کو خاص اپنے مسلک کے لوگوں میں محصور سمجھتے ہیں!

  1. تفریط کی راہ چلنے والوں نے یہ تصور ہی فضول جانا کہ امت میں کوئی ’بدعتی ٹولے‘ وغیرہ ہوتے ہیں۔ اِن کے خیال میں سب ایک سے مسلمان ہیں؛ کوئی ’گمراہ‘ وغیرہ نہیں؛ ان میں جو بھی اختلاف ہے وہ ’’اختلافِ سائغ‘‘ (جس کی دین میں گنجائش ہے، مانندفقہائے صحابہؓ کا اختلاف) کی قبیل سے ہوگا نہ کہ ’’اختلافِ مہلک‘‘ (دوزخ تک پہنچانے والے اختلاف) کی قبیل سے۔ اِن ٹولوں میں سے کسی کو دوزخ کی راہ پر نہیں کہا جا سکتا۔ مسئلہ زیادہ سے زیادہ ’عمل‘کی خرابیوں کا ہوگا؛ اور وہ کہیں بھی پایا جا سکتا ہے۔ مگر صرف ایک ’’حق‘‘ پر باقی ’’ضلالت‘‘ پر، یہ نری بےبنیاد بات ہے۔ یہاں کوئی کسی سے بڑھ کر نہیں، سب کو ایک سا ڈِیل کرو اور ایک ساتھ لے کر چلو!
چنانچہ ایک جانب یہ تفریط ہے، یعنی ’’دوزخی فرقوں‘‘ والی حدیث کو توجہ دینے پر ہی آمادہ نہ ہونا، اِس پر بس مٹی ہی ڈالنا؛ اور یوں ایک ایسی مہلک چیز کو امت کے وجود میں پنپتا چھوڑ دینا۔ جبکہ دوسری جانب ہم نے دیکھا افراط ہے؛ اور جوکہ اِس ’’افتراق‘‘ کا علاج کرنے کے دوران ’’افتراق‘‘ کو اور بھی بڑھاتا ہے!

مسئلہ عام سا نہیں۔ امت کے، “ٹولوں” اور “اھواء” میں بٹ جانے کا واقعہ اگر ہوا ہے یا اس کا امکان ہے؛ تو اِس معاملہ میں سب سے پہلے اپنی پوزیشن دیکھنا کہ آدمی ہلاکت میں پڑنے والے ’’فرقوں‘‘ میں ہے یا نجات کا وعدہ دی گئی ’’الجماعۃ‘‘ میں… اور پھر ’’ہلاکت‘‘ اور ’’نجات‘‘ کی اس کشمکش میں ملّی سطح پر عین وہ کردار ادا کرنا جو نبیﷺ اور صحابہ﷢ کے سچے وارثوں سے ایسی کسی صورتحال میں مطلوب ہوسکتا ہے، یقیناً آدمی کے پریشان ہونے کی بات ہے۔ جبکہ ہم نے دیکھا؛ اہلِ تفریط اِس معاملہ میں بےپروائی کی روش اختیار کرتے ہیں اور اہلِ افراط غیرذمہ داری کی۔
یہاں ضروری تھا کہ اِفراط اور تفریط ایسے ہردو رویّہ سے دور رہتے ہوئے؛ اس مہلک واقعہ کے ساتھ پیش آنے کا کوئی حکیمانہ طریق اختیار کیا جائے۔ اس سے بڑھ کر ضروری یہ کہ ایسا کوئی طریق ایجاد نہ کیا جائے (کیونکہ وہ بذاتِ خود ایک بدعت ہوگی) بلکہ دریافت کیا جائے کہ جب سے اس امت میں انحراف و افتراق ایسے یہ مہلکواقعات پیش آنے لگے تب سے رسول اللہﷺ سے تربیت پاچکے لوگوںؓ اور ان کے خاص اعتمادیافتہ شاگردوںؒ کا ان مہلک واقعات کے ساتھ کیا تعامل رہا؟ اور یہ کہ اِس (مدرسۂ سلف) نے خاص اِس باب میں ہمیں کیا اصول دیے ہیں؟
’’اصولِ اہل سنت‘‘ درحقیقت ہمارے اِسی سوال کا جواب ہے۔

یہ ’’اصولِ اہل سنت‘‘ ہی وہ چیز ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ:


  1. دین اور امت میں پیش آنے والے سب “انحرافات” کے ساتھ ایک سا معاملہ نہ ہو؛ بلکہ ہر انحراف کی باقاعدہ تقییم assessment ہو کہ وہ کس درجے کا ہے، اور یہ تقییم کچھ “معیارات” پر قائم ہو؛ جس سے اس انحراف کی فی ذاتہٖ سنگینی ماپی جا سکے۔
  2. پھر کسی انحراف کے گڑھے میں گر چکے سب اشخاص کے ساتھ معاملہ ایک سا نہ ہو۔ یعنی ایک شخص لاعلم ہے، دوسرا کسی علمی الجھن کا شکار، تیسرا کسی کی دیکھادیکھی، چوتھا پوری ڈھٹائی اور عناد پر ہے اور جتنا مرضی سمجھا لو ہر حال میں اس گڑھے میں جانے پر بضد۔ پانچواں منافق زندیق ہے اور اہل اسلام کو اِس گڑھے میں پہنچانے کےلیے باقاعدہ کسی مار پر ہے۔ تو اب باوجود اس کے کہ گڑھا ایک ہے، مگر ان میں سے معاملہ ہر کسی کے ساتھ مختلف ہوگا۔ ایک لاعلم شخص کو یہاں سے نکالنے کا جو طریقہ ہوگا وہ ایک معانِد (ہٹ دھرم) کے حق میں درست نہ ہوگا۔ اور معاند کے ساتھ اختیار کیا جانے والا طرزعمل ایک الجھن کا شکار آدمی کے حق میں درست نہ ہوگا، علیٰ ھٰذاالقیاس۔ پھر ایک شخص اس گڑھے میں گرا نہیں؛ صرف اس کا ٹھپہ لیے پھرتا ہے۔ یہاں سے اہل سنت کا اصول ٹھہرا کہ لیبلز labels کے تحت لوگوں کو ہرگز نہ جانچا جائے؛ بلکہ ایک ہی لیبل لگے مجمع کے اندر آدمی آدمی کا فرق کیا جائے۔ یہ ایک کمال منہجِ عدل تھا جو اللہ نے علمائے اہل سنت کو عطا کیا۔ جبکہ کم نظروں نے ’’تھوک‘‘ میں فرقوں اور جماعتوں کے فیصلے کیے!
  3. پھر حکم لگانے میں بھی اہل سنت کا منہج کمال عدل اور رحمت کا آئینہ دار ہے۔ ٹھیک ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان فرقوں کو دوزخی قرار دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایک آدمی ایسے کسی فرقے ’’میں سے‘‘ شمار کب ہوگا؟ کیا محض اس بنیاد پر کہ آدمی پر سماجی یا آبائی طور پر کسی خاص فرقے سے ہونے کا ٹھپہ ہے؟کیا یہ ضروری نہ ہوگا کہ اس بات کا فیصلہ آدمی پر لگے ہوئے کسی ظاہری ٹھپے سے نہیں بلکہ اس بات سے ہو کہ اس کا اپنا اعتقاد اور عمل واقعتاً ایک دوزخی فرقے والا ہے یا نہیں؟ اللہ کے ہاں کیا لوگوں کی نسبتیں چلیں گی یا ان کے اعتقادات اور اعمال دیکھے جائیں گے؟ اگر جواب ثانی الذکر ہے تو پھر کسی کو ’دوزخی فرقے میں سے‘ ٹھہرانا ٹھپوں اور لیبلوں کی بنیاد پر نہ ہوگا بلکہ اس کے اعتقادات اور اعمال ہی کو شرعی میزان میں رکھا جائے گا۔ نتیجتاً؛ کسی باطل فرقے سے منسوب ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہو سکتی ہے جو باعتبارِحقیقت اُس دوزخی فرقے ’’میں سے‘‘ نہ ہوں، بلکہ وہ اپنی اُس نسبت (ٹھپے) کے باوجود ’’عوامِ اہل سنت‘‘ کے طور پر ڈِیل ہوں، اگرچہ کسی ادنیٰ درجہ میں کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ ’’دلیلِ فطرت‘‘ کے موجب (کُلُّ مَولُودٍ یُولَدُ عَلىٰ فِطرۃِ الإسلَام)، اصل چیز اہل قبلہ میں ’’براءتِ ذمہ‘‘ ہے }یعنی تمام اہلِ ملت اصلاً (by default) اسلام کی فطرت اور سنت پر ہیں جب تک کہ کسی کا اِس فطرت اور سنت سے مفارقت کر جانا ثابت نہ ہو{۔ یعنی خواہ ایک آدمی پر کوئی ٹھپہ (لیبل) ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی اصل یہ ہے کہ ملت کا ایک فرد ہونے کے ناطے وہ فطرت اور سنت پر ہی شمار ہو تاوقتیکہ اپنے اعتقاد اور عمل کی بنیاد پر (نہ کہ محض اپنے اوپر لگے کسی ٹھپے کی بنیاد پر) وہ ’’بدعتی‘‘ اور ’’مفارق‘‘ قرار دے دیا جائے۔ چنانچہ اہل سنت کے نزدیک کسی شخص کو ’’دوزخی فرقےمیں سے‘‘ قرار دینے کےلیے ضروری ہے کہ اس پر حجت قائم کر لی گئی ہو، اس سے جہالت رفع کر لی گئی ہو اور اس کی فکری الجھنیں باحسن طریق دور کردی گئی ہوں۔ نیز دیکھ لیا گیا ہو کہ اس کو کوئی اور ایسا عذر تو لاحق نہیں جو اس کو ’’بدعتی‘‘ ٹھہرانے میں معقول طور پر مانع ہو۔ یوں اس سارے عمل سے لوگوں کو بدعت سے ’’نکالنے‘‘ کا عمل ہو رہا ہو گا نہ کہ ان کے دامن پر لگی بدعت کو نظرانداز کرنے کا (تفریط) یا اس پر ان کو طعن کرنے، ان پر فتوے لگانے اور یوں ان کو اس پر مزید پختہ کرنے کا (اِفراط)۔
  4. پھر مسئلہ ’’وعید‘‘ کی بابت اصول اہل سنت میں پائی جانے والی وسعت اور رحمت بھی لائقِ توجہ ہے۔ 73 فرقوں میں سے ایک کو چھوڑ کر باقی کو دوزخی ٹھہرانا ایک وعید ہے۔ جبکہ اہل سنت کے ہاں ایک معلوم اصول یہ ہے کہ جب تک کسی شخص کی بدعت یا گناہ اُسے ’’شرک‘‘ (دائرۂ اسلام سے خارج ہوجانے) تک نہ پہنچائے تب تک وہ ’’تحت المشيئة‘‘ ہے۔ یعنی وہ خدا کی مرضی پر ہے، خدا چاہے تو کسی شخص کے حق میں اپنی وہ وعید ٹال دے،[1] خواہ محض اپنی رحمت سے، خواہ اس کو پہنچنے والی کسی دنیوی بلاء کو اس کے حق میں کفارہ بنا کر، یا اپنے کسی مقرب بندے کی شفاعت قبول فرما کر، یا اس کی اس برائی کے مقابل اس کی اپنی ہی نیکیوں کا پلڑا جھک جانے کی بدولت۔ وغیرہ۔
یہاں سے؛ اہل سنت کے ہاں بدعت کو مکفرہ (موجبِ کفر) اور غیرمکفرہ میں تقسیم کیا جانے لگا؛ اور ہر دو کے ساتھ معاملہ میں فرق کیا جانے لگا:


  • اب جہاں تک کسی ایسے ٹولے کا تعلق ہے جس کی بدعت اُسے کفر تک نہیں پہنچاتی (یعنی غیرمکفرہ) … تو اس کو دوزخی ہونے کی جو وعید حدیث میں سنائی گئی اسے اہل سنت یوں سمجھیں گے کہ:
    1. اس کی بدعت چونکہ اسے کافر اور نبیﷺ کی ملت سے خارج کردینے والی نہیں، لہٰذا یہ دوزخ دائمی نہ ہوگی۔ اور وہ اپنی سزا کاٹ کر بالآخر جنت میں جانے کا امیدوار پھر بھی ہے۔ (گو اہل سنت کی کوشش یہ ہوگی کہ وہ وقتی سزا سے بھی بچ جائے؛ اور اس بدعت سے ہی اپنا دامن چھڑا لے)۔
    2. اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے بعض افراد کے حق میں وہ وعید سرے سے ٹل جائے، جس کی بعض صورتیں پیچھے بیان ہوچکیں۔
  • جبکہ ’’کفریہ‘‘ بدعت کے معاملے میں جہالت وغیرہ کا عذر ہمیشہ اہل سنت کے پیش نظر رہتا ہے؛ اور وہ کسی کی تکفیر کےلیے کبھی بےچین نہیں ہوتے۔
  1. سب سے اہم چیز یہ کہ آپ کے ہاں اہل قبلہ کی ’’حالتِ اصلی‘‘ کا تعین کیونکر ہے؟ اہل سنت کا یہ اصول نہایت لائق توجہ ہے: اہل قبلہ شمار ہونے والے ایک شخص میں ’’اصل‘‘ کیا ہے؟ (یعنی اہل قبلہ کے ایک آدمی کا by default status شریعت میں کیا ہے؟) کیا اس کے ساتھ رشتۂ موالاۃ (دوستی) رکھنا؟ یا معاداۃ (دشمنی) رکھنا؟ اگر اصل موالات ہےتو اُس پر دشمنی صرف استننائی صورت میں اور کسی خصوصی دلیل سے لاگو ہوگی۔ اور اگر اصل دشمنی ہے تو اُس پر موالات صرف استثنائی صورت میں اور کسی خصوصی دلیل سے لاگو ہوگی۔ یعنی:
    1. اول الذکر صورت میں: اصل یہ ہوگا کہ ایک اہل قبلہ کے ساتھ آپ کی نصرت اور یگانگت ہی ہو(خدا کی اطاعت کے کاموں میں نہ کہ معصیت کے کاموں میں)… تاآنکہ کچھ شرعی موجبات اُس کے ساتھ منافرت اور دشمنی کا تقاضا نہ کرلیں۔
    2. جبکہ ثانی الذکر صورت میں: اصل یہ ہوگا کہ ایک اہل قبلہ کے ساتھ آپ کی منافرت اور دشمنی ہی ہو… تاآنکہ کچھ شرعی موجبات اُس کے ساتھ یگانگت اور نصرت کا تقاضا نہ کرلیں۔
اب یہ تو واضح ہے کہ اصل صورت پہلی ہے۔ یعنی اہل قبلہ میں سے ایک منحرف شخص یا پارٹی کے معاملے میں – ’’اہل قبلہ‘‘ ہونے کے ناطے – اصل یہ ہےکہ آپ کی اُس سے سازگاری ہو؛ خصوصاً ’’غیر اہلِ قبلہ‘‘ کے مقابلے پر۔ تاہم کچھ خاص شرعی موجبات کے زیرِ تقاضا (مثلاً یہ کہ اُس کی بدعت پر اُس کو سرزنش ہو تاکہ وہ اس سے باز آئے اور بدعت پر چلنے والے باقی لوگوں کو اس سے سبق ہو، نیز معاشرے پر سنت کی ایک دھاک بیٹھے) آپ اُس کو مجلس سے ذلیل کرکے اٹھا دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ درشت انداز اختیار کرتے اور اس کو کسی قسم کی توقیر دینے سے عمداً احتراز کرتے ہیں۔ اس کے پیچھے نماز یا اس کا جنازہ پڑھنے کے روادار نہیں ہوتے۔ تو یہ سب صحیح ہے۔ مگر یہ اصلقاعدے سے ہٹ کر اور کسی خصوصی دلیل سے ہوا ہے۔ اس کی دلیل آپ نے جہاں سے لی وہ یہ کہ اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرنے سے معاشرے میں سنت کو نصرت و تقویت اور بدعت کو شکست و پسپائی ہوگی۔ بغور دیکھیں تو یہ مصلحت اور مفسدت کا موازنہ ہے، اور بالکل صحیح ہے؛ جس کی بنا پر آپ نے کسی بدعتی شخص یا بدعتی ٹولے کی اہانت کو دین کےلیے فائدہ مند پایا۔ تاہم کسی بہت بڑے بحران کے وقت، یا ایک ماحول میں خود آپ ہی کے کمزور اور سرزنش کی پوزیشن میں نہ ہونے کے باعث، اگر آپ کا یہ فعل دین کےلیے فائدہ مند نہیں ہے تو اس حالت میں یہ فعل مشروع نہیں رہے گا اور معاملہ اپنے اصل پر برقرار رہے گا۔ کیونکہ ایسا کرنے کی دلیل آپ نے جہاں سے لی تھی وہ ’’سنت کی نصرت‘‘ تھی۔ تو پھر جس وقت اس عمل سے ’’سنت کی نصرت‘‘ نہ ہو رہی ہوبلکہ اس کا الٹا اثر ہو رہا ہو… تو اُس وقت یہ دلیل نہیں رہے گی۔

یہ ہے وہ ڈائنامزم dynamism جو مدرسۂ اہل سنت آپ کے اصلاحی وتحریکی عمل کو عطا کرتا ہے اور ہر قسم کی صورتحال میں سنت کو جیت دلوانے کےلیے ایک نہایت واقعاتی pragmatic اور مؤثرترین the most effective حکمت عملی اختیار کرنے کی جانب آپ کو ایک بھرپور بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اصل چیز دیکھنے کی یہ رہ جاتی ہے کہ سنت عقیدہ اور ایجنڈا کےلیے آپ کے ہاں جنونیت dedication اور بےچینی کس درجہ کی پائی جاتی ہے اور ماحول کو سمجھنے اور حالات کو بھانپنے کی استعداد کس معیار کی۔

  1. چنانچہ اِس مدرسہ کے صدیوں پر محیط طرزعمل نے ہمیں کچھ ایسے پیرامیٹرز دے دیے ہیں جن سے معلوم ہو کہ: باطل جماعتوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں امت کے حالات، خصوصاً اہل سنت کا ضعف یا قوت میں ہونا، یا خود اُن فِرقوں کا ضعف یا قوت میں ہونا… غرض زمانوں اور خطوں کا یہ تغیُّر اس معاملہ میں سلباً یا ایجاباً کہاں تک مؤثر ہے۔ بنابریں؛ ایک ہی چیز کسی ایک وقت میں کرنے کی ہوگی تو کسی دوسرے وقت میں کرنے کی نہ ہوگی۔ کیونکہ اصل مقصود ملت کو فتح اور سنت کو جیت دلانا ہے نہ کہ اپنی کوئی ضد یا رِیت پوری کرانا۔[2] یہاں سے؛ باطل فرقوں کے ساتھ معاملہ کرنے کا ’’تنوع‘‘ سامنے آیا۔ بلکہ امت کے ادوارِ مغلوبیت میں اور کچھ بڑےبڑے بحرانات کے وقت، خصوصاً مسلمانوں کے سرحدی و مقبوضہ خطوں کے اندر، امت کے کچھ عظیم تر اہداف کے سلسلہ میں باطل فرقوں کو ایک درجے میں ساتھ چلانے سے متعلق پوری ایک فقہ سامنے آگئی۔
چنانچہ ایک ملی جلی صورتحال میں بیک وقت:

  1. امت کے کھلے دشمن کو شکستِ فاش دلوانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے؛ جوکہ ملت کا تحفظ ہے (خود ’’سنت کی نصرت‘‘ بھی ’’ملت کے تحفظ‘‘ سے باہر نہیں؛ ظاہر ہے ملت رہے گی تو ہی سنت بھی بچے گی)۔ پھر ’’سنت‘‘ کے روایتی مباحث خود یہی کہتے ہیں کہ دشمن کے چڑھ آنے ایسی ایک سنگین و غیرمعمولی صورتحال میں… ملت کے وجود کو بچانا دین کی سب سے بڑی ترجیح مانی جائے گی۔
) وہ حضرات جو امت کو درپیش کسی درہم برہم صورتحال میں بھی، اور ایک کھلے دشمن کے عالم اسلام پر چڑھ آنے کے وقت بھی، یہاں بدعتی ٹولوں کے ہی عیب لے کر بیٹھنا دین کا اہم ترین کام سمجھتے ہیں… جو ایک ایسی غیرمعمولی صورتحال میں بھی کچھ ایسی جماعتوں کے ساتھ دشمنی نبھانے کو جنہیں وہ ’بدعتی‘ سمجھتے ہیں،اپنی ’اولین ترجیح‘ رکھتے ہیں، اور کیا بعید ایسا کرتے ہوئے یہ خود کو اپنے عہد کا ’احمد بن حنبل‘[3] بھی باور کرتے ہوں!… اسے ایک ماؤف ذہنیت کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا؛ ایسے ’مخلصین‘ ملت کے انہدام کا ایک یقینی ذریعہ ہوا کرتے ہیں اور دوست سے زیادہ دشمن کے کام آتے ہیں۔ ’’منہج اہل سنت‘‘ کو اِس بندذہنی سے کچھ علاقہ نہیں(۔

  1. البتہ کھلے دشمن (مانند صلیبی، صہیونی، ہندو، کمیونسٹ، سیکولر وغیرہ) کے خلاف امت کے سب یا بیشتر طبقوں کے ساتھ مل کر کئے جانے والے کسی ’’مشترکہ عمل‘‘ کے دوران ہی… بڑی حکمت اور دانائی کے ساتھ، اس بات کی بھی کوشش کی جاتی ہے کہ زمامِ کار یہاں اہل سنت طبقوں کے ہاتھ میں آجائے نہ کہ بدعتی و بےدین ٹولوں کے پاس رہنے دی جائے۔ یا یہ کہ امت کی ایسی کسی مشترکہ پیش قدمی سے اہل سنت ایجنڈا کےلیے زیادہ سے زیادہ فوائد وصول کیے جائیں۔ یوں امت کو درپیش ایک فوری ہدف بھی سر ہوا، اور وہ تو اپنی جگہ بےحد ضروری تھا؛ مگر اس کے ساتھ ہی امت کو درپیش کچھ دُوررَس اہداف کےلیے بھی گنجائش نکال لی یا زمین ہموار کر لی گئی۔
[1] ابن تیمیہؒ اس کی مثال اس قرآنی وعید سے دیتے ہیں:إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا (النساء: 10) ’’جو لوگ یتیموں کا مال ناجائز طور پر کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔ اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے‘‘۔ اب اس سے یہ تو ہمیں لازماً سمجھنا ہے کہ یتیم کا مال ناحق کھانے والے کی سزا دوزخ ہے۔ ایسا کام کرنے والےکو یہ وعید سنانا بھی درست، تاکہ وہ اس سے تائب ہو۔ یہ دونوں کام بلاشبہ ہمارے کرنے کے ہیں۔ لیکن یتیم کا مال کھانے والے ایک آدمی کو معیّن کرکے کہنا کہ یہ دوزخ میں گیا، ہمارے کرنے کا نہیں؛ ہمیں کیا معلوم اُس کے حق میں وہ وعید ٹل گئی ہے یا نہیں (ایک معیّن شخص کے حق میں وعید ٹلنے کے متعدد موجبات ہو سکتے ہیں، جن میں سے چند اوپر بیان ہوئے ہیں)۔ علاوزہ ازیں، یتیم کا مال کھانا چونکہ آدمی کو ’’مشرک‘‘ اور ’’دین سے خارج‘‘ کردینے والا نہیں، لہٰذا اگر دوزخ میں جانے کی وہ وعید اس آدمی کے حق میں پوری بھی ہوجائے تو ضروری نہیں یہ دائمی دوزخ ہو، یہ آدمی آخرکار جنت کا امیدوار پھر بھی ہے۔
[2] ائمۂ سنت نے اس پر جابجا تنبیہ فرمائی ہے کہ آدمی بسا اوقتا اپنے مؤید کو سراہتا اور مخالف کو سرزنش کرتا ہے، تو وہ اس میں اپنے نفس کا حظ پورا کر رہا ہوتا ہے؛ جبکہ بزعم خویش وہ سنت کی نصرت اور بدعت کی سرکوبی کر رہا ہوتا ہے۔ یہاں؛ اپنے ذاتی احساسات و جذبات سے بالاتر ہوجانا (اللہ کےلیے تجرد و اخلاص) توحید کا ایک بہت بڑا باب ہے، اور مشکل بھی۔ (بسلسلہ شیخ سفرالحوالی کے رسالہ میں حاشیہ 18)
[3] اور یہ کیا جانیں احمد ابن حنبلؒ کی شان! کیا واقعہ نہیں ہے کہ وہی ’’بدعتی‘‘ خلیفہ جو احمد بن حنبلؒ کو سنت عقیدہ رکھنے پر کوڑے مار مار کر لہولہان کرتا ہے… احمد بن حنبل﷫ اس کے ساتھ مل کر دشمن کے خلاف جہاد کے بھی قائل رہتے ہیں(بیرونی محاذ) اور جمعہ جماعت کے بھی (اندرونی سالمیت)۔ یعنی نہ ابھی بیرون سے کوئی دشمن چڑھ آیا ہے اور نہ اندرون میں مسلم وحدت کے تاروپود بکھرے ہیں، پھر بھی احمد بن حنبلؒ کسی نقصان کے امکان ہی کو دفع کردیتے ہیں۔ اِدھر وہ نقصان فی الواقع ہو رہے ہیں بلکہ اس سے کہیں بھیانک نقصانات کی نوبت بڑی دیر سے آچکی ہوئی ہے، حتیٰ کہ ہماری نسلیں الحاد کے دھانے پر کھڑی ہیں… پھر بھی اِن حضرات کی سوچ کافر اور کفر کے خلاف مزاحمت کی بجائے اُسی ’بدعتیوں‘ والے پوائنٹ پر اٹک گئی ہوئی ہے۔
 
Top