• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہلِ حدیث کے صفاتی نام پراجماع – پچاس حوالے از حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
تحریر:حافظ زبیر علی زئی
سلف صالحین کے آثار سے پچاس (۵۰) حوالے پیشِ خدمت ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اہل حدیث کا لقب اور صفاتی نام بالکل صحیح ہے اور اسی پر اجماع ہے۔
۱: بخاری : امام بخاری نے طائفۂ منصورہ کے بارے میں فرمایا :
“یعني أھل الحدیث” یعنی اس سے مراد اہل الحدیث ہیں۔
(مسألۃ الاحتجاج بالشافعی للخطیب ص ۴۷ و سندہ صحیح ، الحجۃ فی بیان المحجۃ ۲۴۶/۱)
امام بخاریؒ نے یحییٰ بن سعید القطان سے ایک راوی کے بارے میں نقل کیا :
“لم یکن من أھل الحدیث…..” وہ اہل الحدیث میں سے نہیں تھا۔
(التاریخ الکبیر ۴۲۹/۶، الضعفاء الصغیر : ۲۸۱)
۲: مسلم : امام مسلم مجروح راویوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
“ھم عند أھل الحدیث متھمون” وہ اہلِحدیث کے نزدیک متہم ہیں۔
(صحیح مسلم ، المقدمہ ص ۶ (قبل الباب الاول) دوسرا نسخہ ج ۱ص ۵)
امام مسلم ؒ نے مزید فرمایا:
“وقد شرحنا من مذھب الحدیث و أھلہ…..” ہم نے حدیث اور اہلِ حدیث کے مذہب کی تشریح کی ۔ (حوالہ مذکورہ)
امام مسلمؒ نے ایوب السختیانی ، ابن عون، مالک بن انس، شعبہ بن الحجاج ، یحییٰ بن سعید القطان ، عبدالرحمٰن بن مہدی اور ان کے بعد آنے والوں کو “من أھل الحدیث” اہل حدیث میں سے قرار دیا۔(صحیح مسلم، المقدمہ ص ۲۲ (باب صحۃ الاحتجاج بالحدیث المعنعن) دوسرا نسخہ ۲۶/۱ تیسرا نسخہ ۲۳/۱)
۳: شافعی : ایک ضعیف روایت کے بارے میں امام محمد بن ادریس الشافعی فرماتے ہیں :
“لا یثبت أھل الحدیث مثلہ” اس جیسی روایت کو اہل حدیث ثابت نہیں سمجھتے ۔(السنن الکبریٰ للبیہقی ۲۶۰/۱ و سندہ صحیح)
امام شافعیؒ نے فرمایا :”إذا رأیت رجلاً من أصحاب الحدیث فکأني رأیت النبي ﷺ حیاً” جب میں اصحاب الحدیث میں سے کسی شخص کو دیکھتاہوں تو گویا میں نبی ﷺ کو زندہ دیکھتا ہوں۔ (شرف اصحاب الحدیث للخطیب : ۸۵ و سندہ صحیح)
۴: احمد بن حنبل: امام احمد بن حنبلؒ سے طائفۂ منصورہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : “إن لم تکن ھذہ الطائفۃ المنصورۃ أصحاب الحدیث فلا أدري من ھم؟” اگر یہ طائفہ منصورہ اصحاب الحدیث نہیں ہیں تو پھر میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں؟(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ص ۲ رقم: ۲ و سندہ حسن، و صححہ ابن حجر فی فتح الباری ۲۹۳/۱۳تحت ح ۷۳۱۱)
۵:یحییٰ بن سعید القطان : امام یحییٰ بن سعید القطان نے سلیمان بن طرخان التیمی کے بارے میں فرمایا: “کان التیمي عندنا من أھل الحدیث”تیمی ہمارے نزدیک اہل حدیث میں سے ہیں۔ (مسند علی الجعد ۵۹۴/۱ح ۱۳۵۴ و سندہ صحیح، دوسرا نسخہ: ۱۳۱۴، الجرح و التعدیل لا بن ابی حاتم ۱۲۵/۴ و سندہ صحیح)
ایک راویٔ حدیث عمران بن قدامہ العمی کے بارے میں یحییٰ القطان نے کہا:
“ولکنہ لم یکن من أھل الحدیث” لیکن وہ اہلِ حدیث میں سے نہیں تھا۔
(الجرح والتعدیل ۳۰۳/۶ و سندہ صحیح)
۶: ترمذی: امام ترمذیؒ نے ابو زید نامی ایک راوی کے بارے میں فرمایا :
“وأبو زید رجل مجھول عند أھل الحدیث” اور اہل حدیث کے نزدیک ابو زید مجہول آدمی ہے ۔ (سنن الترمذی : ۸۸)
۷: ابو داود : امام ابوداود السجستانی نے فرمایا :
“عند عامۃ أھل الحدیث” عام اہل حدیث کے نزدیک
(رسالۃ ابی داود الیٰ مکہ فی وصف سننہ ص ۳۰، و مخطوط ص ۱)
۸: نسائی: امام نسائیؒ نے فرمایا:
“ومنفعۃً لأھل الإسلام ومن أھل الحدیث و العلم والفقہ والقرآن”
اور اہلِ اسلام کے لئے نفع ہے اور اہلِ حدیث ، علم و فقہ و قرآن والوں میں سے۔
(سنن النسائی ۱۳۵/۷ ح ۴۱۴۷، التعلیقات السلفیۃ: ۴۱۵۲)
۹: ابن خزیمہ : امام محمد بن اسحاق بن خزیمہ النیسابوری نے ایک حدیث کے بارے میں فرمایا :
“لم نرخلافاً بین علماء أھل الحدیث أن ھذا الخبر صحیح من جھۃ النقل”
ہم نے علمائے اہل حدیث کے درمیان کوئی اختلاف نہیں دیکھا کہ یہ حدیث روایت کے لحاظ سے صحیح ہے ۔ (صحیح ابن خزیمہ ۲۱/۱ ح ۳۱)
۱۰: ابن حبان : حافظ محمد بن حبان البستی نے ایک حدیث پر درج ذیل باب باندھا :

“ذکر خبر شنّع بہ بعض المعطلۃ علی أھل الحدیث، حیث حرموا توفیق الإصابۃ لمعناہ”

اس حدیث کا ذکر جس کے ذریعے بعض معطلہ فرقے والے اہل حدیث پر تنقید کرتے ہیں کیونکہ یہ (معطلہ) اس کے صحیح معنی کی توفیق سے محروم ہیں۔صحیح ابن حبان، الاحسان : ۵۶۶ دوسرا نسخہ: ۵۶۵)
ایک دوسرے مقام پر حافظ ابن حبان نے اہل حدیث کی یہ صفت بیان کی ہے :

“ینتحلون السنن و یذبون عنھا و یقمعون من خالفھا”

وہ حدیثوں پر عمل کرتے ہیں، ان کا دفاع کرتے ہیں اور ان کے مخالفین کا قلع قمع کرتے ہیں۔ (صحیح ابن حبان، الاحسان : ۶۱۲۹، دوسرا نسخہ: ۶۱۶۲) نیز دیکھئے الاحسان (۱۴۰/۱ قبل ح ۶۱)
۱۱: ابو عوانہ: امام ابوعوانہ الاسفرائنی ایک مسئلے کے بارے میں امام مزنی کو بتاتے ہیں:
“اختلاف بین أھل الحدیث” اس میں اہل حدیث کے درمیان اختلاف ہے ۔ (دیکھئے مسند ابی عوانہ ج ۱ص ۴۹)

۱۲: عجلی : امام احمد بن عبداللہ بن صالح العجلی نے امام سفیان بن عینیہ کے بارے میں فرمایا: “وکان بعض أھل الحدیث یقول: ھو أثبت الناس في حدیث الزھري…..”

اور بعض اہل حدیث کہتے تھے کہ وہ زہری کی حدیث میں سب سے زیادہ ثقہ ہیں۔ (معرفۃ الثقات ۴۱۷/۱ت ۶۳۱، دوسرا نسخہ: ۵۷۷)
۱۳: حاکم : ابو عبداللہ الحاکم النیسابوری نے امام یحییٰ بن معین کے بارے میں فرمایا:
“إمام أھل الحدیث” اہل حدیث کے امام (المستدرک ۱۹۸/۱ ح ۷۱۰)
۱۴: حاکم کبیر : ابو احمد الحاکم الکبیر نے ایک کتاب لکھی ہے:
“شعار أصحاب الحدیث” اصحاب الحدیث کا شعار
یہ کتاب راقم الحروف کی تحقیق اور ترجمے سے چھپ چکی ہے ۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث ۹ ص ۴ تا ۲۸۔
۱۵: فریابی : محمد بن یوسف الفریابی نے کہا:
“رأینا سفیان الثوري بالکوفۃ و کنا جماعۃ من أھل الحدیث”
ہم نے سفیان ثوری کو کوفہ میں دیکھا اور ہم اہل حدیث کی ایک جماعت تھے۔ (الجرح و التعدیل ۶۰/۱ و سندہ صحیح)
۱۶: فریابی : جعفر بن محمد الفریابی نے ابراہیم بن موسیٰ الوزدولی کے بارے میں کہا:
“ولہ ابن من أصحاب الحدیث یقال لہ : إسحاق”
اس کا بیٹا اصحاب الحدیث میں سے ہے ، اسے اسحاق کہتے ہیں۔
(الکامل لا بن عدی ۲۷۱/۱ دوسرا نسخہ ۴۴۰/۱ و سندہ صحیح)
۱۷: ابوحاتم الرازی : اسماء الرجال کے مشہور امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں:
“واتفاق أھل الحدیث علی شئ یکون حجۃ”
اور کسی چیز پر اہل حدیث کا اتفاق حجت ہوتا ہے ۔ (کتاب المراسیل ص ۱۹۲ فقرہ: ۷۰۳)
۱۸: ابو عبید: امام ابوعبید القاسم بن سلام کے ایک اثر کے بارے میں فرماتے ہیں:
“وقد يأخذ بھذا بعض أھل الحدیث” بعض اہل حدیث اسے لیتے ہیں۔
(کتاب الطہور لا بی عبید : ۱۷۴، الاوسط لابن المنذر ۲۶۵/۱)
۱۹: ابوبکر بن ابی داود: امام ابوداود السجستانی کے صدوق عندالجمہور صاحب زادے ابوبکر بن ابی داود فرماتے ہیں:
“ولا تک من قوم تلھو بدینھم فتطعن في أھل الحدیث و تقدح”
اور تو اس قوم میں نہ ہونا جو اپنے سے دین سے کھیلتے ہیں (ورنہ) تو اہل حدیث پر طعن و جرح کر بیٹھے گا۔ (کتاب الشریعۃ لمحمد بن الحسین الآجری ص ۹۷۵ و سندہ صحیح)
۲۰: ابن ابی عاصم: امام احمد بن عمرو بن الضحاک بن مخلد عرف ابن ابی عاصم ایک راوی کے بارے میں فرماتے ہیں:
“رجل من أھل الحدیث ثقۃ” وہ اہل حدیث میں سے ایک ثقہ آدمی ہے۔
(الآحادو المثانی ۴۲۸/۱ح ۶۰۴)
۲۱: ابن شاہین : حافظ ابو حفص عمر بن شاہین نے عمران العمی کے بارے میں یحییٰ بن القطان کا قول نقل کیا :”ولکن لم یکن من أھل الحدیث” لیکن وہ اہلحدیث میں سے نہیں تھا۔
(تاریخ اسماء الثقات لا بن شاہین : ۱۰۸۴)
۲۲: الجوزجانی : ابواسحاق ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی نے کہا:
“ثم الشائع في أھل الحدیث…..” پھر اہل حدیث میں مشہور ہے۔
(احوال الرجال ص ۴۳ رقم: ۱۰) نیز دیکھئے ص ۲۱۴
۲۳: احمد بن سنان الواسطی: امام احمد بن سنان الواسطی نے فرمایا:
“لیس فی الدنیا مبتدع إلا وھو یبغض أھل الحدیث”
دنیا میں کوئی ایسا بدعتی نہیں ہے جو کہ اہل حدیث (اہل الحدیث ) سے بغض نہیں رکھتا۔
(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ص ۴، رقم : ۶ و سندہ صحیح)
معلوم ہوا کہ جو شخص اہل حدیث سے بغض رکھتا ہے یا اہل حدیث کو برا کہتا ہے تو وہ شخص پکا بدعتی ہے۔
۲۴: علی بن عبداللہ المدینی: امام بخاریؒ وغیرہ کے استاد امام علی بن عبداللہ المدینی ایک روایت کی تشریح میں فرماتے ہیں:
“یعني أھل الحدیث” یعنی وہ اہل حدیث (اصحاب الحدیث) ہیں۔
(سنن الترمذی: ۲۲۲۹، عارضۃ الاحوذی ۷۴/۹)
۲۵: قتیبہ بن سعید : امام قتیبہ بن سعید نے فرمایا:
“إذا رأیت الرجل یحب أھل الحدیث….. فإنہ علی السنۃ”
اگر تو کسی آدمی کو دیکھے کہ وہ اہل الحدیث سے محبت کرتا ہے تو یہ شخص سنت پر (چل رہا ) ہے ۔
(شرف اصحاب الحدیث للخطیب : ۱۴۳ و سندہ صحیح)
۲۶: ابن قتیبہ الدینوری: المحدث الصدوق امام ابن قتیبہ الدینوری (متوفی ۲۷۶؁ھ) نے ایک کتاب لکھی ہے :
“تأویل مختلف الحدیث فی الرد علی أعداء أھل الحدیث”
اس کتاب میں انہوں نے اہل الحدیث کے دشمنوں کا زبردست رد کیا ہے۔
۲۷: بیہقی: احمد بن الحسین البیہقی نے مالک بن انس، اوزاعی ، سفیان ثوری، سفیان بن عینیہ، حماد بن زید، حماد بن سلمہ ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہم کو “من أھل الحدیث” اہل حدیث میں سے، لکھا ہے ۔ (کتاب الاعتقاد و الہدایۃ الی سبیل الرشاد للبیہقی ص ۱۸۰)
۲۸: اسماعیلی: حافظ ابوبکر احمد بن ابراہیم اسماعیلی نے ایک راوی کے بارے میں کہا:
“لم یکن من أھل الحدیث” وہ اہل حدیث میں سے نہیں تھا۔
(کتاب المعجم ۴۶۹/۱ ت ۱۲۱، محمد بن جبریل النسوی)
۲۹: خطیب : خطیب بغدادی نے اہل حدیث کے فضائل پر ایک کتاب
“شرف أصحاب الحدیث” لکھی ہے جو کہ مطبوع ہے۔
خطیب کی طرف “نصیحۃ أھل الحدیث” نامی کتاب بھی منسوب ہے ۔ نیز دیکھئے تاریخ بغداد (۲۲۴/۱ ت ۵۱)
۳۰: ابو نعیم الاصبہانی : ابو نعیم الاصبہانی نے ایک راوی کے بارے میں کہا :
“لا یخفی علی علماء أھل الحدیث فسادہ”
علمائے اہل حدیث پر اس کا فساد مخفی نہیں ہے ۔ (المستخرج علیٰ صحیح مسلم ج ۱ ص ۶۷ فقرہ: ۸۹)
ابو نعیم الاصبہانی نے کہا :”وذھب الشافعي مذھب أھل الحدیث”
اور شافعی اہل حدیث کے مذہب پر گامزن تھے۔ (حلیۃ الاولیاء ۱۱۲/۹)
۳۱: ابن المنذر: حافظ محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری نے اپنے ساتھیوں اور امام شافعیؒ وغیرہ کو “اہل الحدیث” کہا۔ دیکھئے الاوسط (۳۰۷/۲ تحت ح : ۹۱۵)
۳۲: الآجری : امام ابوبکر محمد بن الحسین الآجری نے اہل حدیث کو اپنا بھائی کہا :
“نصیحۃ لإخواني من أھل القرآن و أھل الحدیث و أھل الفقہ وغیرھم من سائر المسلمین” میرے بھائیوں کے لئے نصیحت ہے ۔ اہل قرآن، اہل حدیث اور اہل فقہ میں (جو ) تمام مسلمانوں میں سے ہیں ۔ (الشریعۃ ص ۳، دوسرا نسخہ ص ۷)
تنبیہ: منکرینِ حدیث کو اہل قرآن یا اہل فقہ کہنا غلط ہے ۔ اہل قرآن، اہل حدیث اور اہل فقہ وغیرہ القاب اور صفاتی نام ایک ہی جماعت کے نام ہیں۔ الحمد للہ
۳۳: ابن عبدالبر: حافظ یوسف بن عبداللہ بن محمد بن عبدالبر الاندلسی نے کہا:
“وقالت طائفۃ من أھل الحدیث”
اہل حدیث کے ایک گروہ نے کہا : (التمہید ج ۱ ص ۱۶)
۳۴: ابن تیمیہ: حافظ ابن تیمیہ الحرانی نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا:
“الحمد للہ رب العالمین، أما البخاري و أبو داود فإما مان فی الفقہ من أھل الإجتھاد۔ و أما مسلم و الترمذي و النسائي و ابن ماجہ و ابن خزیمۃ و أبو یعلی و البزار و نحوھم فھم علی مذھب أھل الحدیث، لیسوا مقلدین لواحد بعینہ من العلماء ولا ھم من الأئمۃ المجتھدین علی الإطلاق…..”
الحمد للہ رب العالمین، بخاری اور ابوداود تو فقہ کے امام (اور ) مجتہد (مطلق) تھے۔ رہے امام مسلم، ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ ، ابن خزیمہ ، ابو یعلیٰ اور البزار وغیرہم تو وہ اہل حدیث کے مذہب پر تھے، علماء میں سے کسی کی تقلید معین کرنے والے ، مقلدین نہیں تھے اور نہ مجتہد مطلق تھے۔ (مجموع فتاویٰ ج ۲۰ ص ۴۰)
تنبیہ: ابن تیمیہ کا ان کبائر ائمۂ حدیث کے بارے میں یہ کہنا کہ “نہ مجتہد مطلق تھے” محلِ نظر ہے۔
۳۵: ابن رشید: ابن رشید الفہری (متوفی ۷۲۱؁ھ) نے امام ایوب السختیانی وغیرہ کبار علماء کےبارے میں فرمایا : “من أھل الحدیث” (وہ) اہل حدیث میں سے (تھے)۔ (السنن الابین ص ۱۱۹، نیز دیکھئے السنن الابین ص ۱۲۴)
۳۶: ابن القیم: حافظ بن القیم نے اپنے مشہور قصیدے نونیہ میں کہا:
“یا مبغضاً أھل الحدیث و شاتماً أبشر بعقد و لا یۃ الشیطان”
اے اہل حدیث سے بغض کرنے والے اور گالیاں دینے والے، تجھے شیطان سے دوستی قائم کرنے کی بشارت ہو۔ (الکافیۃ الشافیۃ فی الانتصار للفرقۃ الناجیۃ ص ۹۹ افصل فی ان اہل الحدیث ہم انصار رسول اللہ ﷺ و خاصۃ)
۳۷: ابن کثیر: حافظ اسماعیل بن کثیر الدمشقی نے سورهٔ بنی اسرائیل کی آیت نمبر : ۷۱ کی تفسیر میں فرمایا: “وقال بعض السلف: ھذا أکبر شرف لأصحاب الحدیث لأن إمامھم النبي ﷺ” بعض سلف (صالحین) نے کہا: یہ (آیت) اصحاب الحدیث کی سب سے بڑی فضیلت ہے کیونکہ ان کے امام نبی ﷺ ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر ۱۶۴/۴)
۳۸: ابن المنادی : امام ابن المنادی البغدادی نے قاسم بن زکریا یحییٰ المطرز کے بارے میں کہا: “وکان من أھل الحدیث و الصدق” اور وہ اہل حدیث میں سے (اور ) سچائی والوں میں سے تھے۔ (تاریخ بغداد ۴۴۱/۱۲ ت ۶۹۱۰ و سندہ حسن)
۳۹: شیرویہ الدیلمی: دیلم کے مشہور مؤرخ امام شیرویہ بن شہردار الدیلمی نے عبدوس (عبدالرحمٰن ) بن احمد بن عباد الثقفی الہمدانی کے بارے میں اپنی تاریخ میں کہا:
“روی عنہ عامۃ أھل الحدیث ببلدنا و کان ثقۃ متقناً”
ہمارے علاقے کے عام اہل الحدیث نے ان سے روایت بیان کی ہے اور ثقہ متقن تھے۔
(سیر اعلام النبلاء ۴۳۸/۱۴ والا حتجاج بہ صحیح لأن الذہبی یروی من کتابہ)
۴۰: محمد بن علی الصوری: بغداد کے مشہور امام ابو عبداللہ محمد بن علی بن عبداللہ بن محمد الصوری نے کہا:
“قل لمن عاند الحدیث و أضحی عائباً أھلہ ومن یدعیہ
أبعلم تقول ھذا، أبنِ لي أم بجھلٍ فالجھل خلق السفیہ
أیعاب الذین ھم حفظوا الدین من الترھات و التحویہ”
حدیث سے دشمنی اور اہل حدیث کی عیب جوئی کرنے والے سے کہہ دو کیا تو علم سے یہ کہہ رہا ہے ؟ بتا دے ۔اگر جہالت سے تو جہالت بیوقوف کی عادت ہے ۔ کیا ان لوگوں کی عیب جوئی کی جاتی ہے جنہوں نے دین کو باطل اور بے بنیاد باتوں سے بچایا ہے؟۔
(تذکرۃ الحفاظ للذہبی ۱۱۱۷/۳ ت ۱۰۰۲ وسندہ حسن، سیر اعلام النبلاء ۶۳۱/۱۷، المنتظم لابن الجوزی ۳۲۴/۱۵)
۴۱: سیوطی: آیتِ کریمہ ﴿یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِہِمۡ ۚ﴾ (بنی اسرآئیل : ۷۱)
کی تشریح میں جلال الدین السیوطیؒ فرماتے ہیں:
“لیس لأھل الحدیث منقبۃ أشرف من ذلک لأنہ لا إمام لھم غیرہﷺ”
اہل حدیث کے لئے اس سے زیادہ فضیلت والی اور کوئی بات نہیں ہے کیونکہ آپ ﷺ کے سوا اہل حدیث کا کوئی امام نہیں ہے ۔ (تدریب الراوی ۱۲۶/۲، نوع ۲۷)
۴۲: قوام السنہ: قوام السنہ اسماعیل بن محمد بن الفضل الاصبہانی نے کہا:
“ذکر أھل الحدیث و أنھم الفرقۃ الظاھرۃ علی الحق إلی أن تقوم الساعۃ”
اہل حدیث کا ذکر اور وہی قیامت تک حق پر غالب فرقہ ہے ۔
(الحجۃ فی بیان المحجۃ و شرح عقیدۃ اہل السنۃ ۲۴۶/۱)
۴۳: رامہرمزی : قاضی حسن بن عبدالرحمٰن بن خلاد الرامہرمزی نے کہا:
“وقد شرف اللہ الحدیث و فضل أھلہ” اللہ نے حدیث اور اہل حدیث کو فضیلت بخشی ہے ۔ (المحدث الفاصل بین الراوی و الواعی ص ۱۵۹ رقم:۱)
۴۴: حفص بن غیاث : حفص بن غیاث سے اصحاب الحدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا :”ھم خیر أھل الدنیا” وہ دنیا میں سب سے بہترین ہیں۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ص ۳ ح ۳ و سندہ صحیح)
۴۵: نصر بن ابراہیم المقدسی : ابو الفتح نصر بن ابراہیم المقدسی نے کہا:
“باب: فضیلۃ أھل الحدیث” اہل حدیث کی فضیلت کا باب (الحجۃ علیٰ تارک المحجۃ ج ۱ ص ۳۲۵)
۴۶: ابن مفلح: ابو عبداللہ محمد بن مفلح المقدسی نے کہا:
“أھل الحدیث ھم الطائفۃ الناجیۃ القائمون علی الحق”
اہل حدیث ناجی گروہ ہے جو حق پر قائم ہے ۔ (الآداب الشرعیۃ ۲۱۱/۱)
۴۷: الامیر الیمانی : محمد بن اسماعیل الامیر الیمانی نے کہا:
“علیک بأصحاب الحدیث الأفاضل تجد عندھم کل الھدی و الفضائل”
فضیلت والے اصحاب الحدیث کو لازم پکڑو، تم ان کے پاس ہر قسم کی ہدایت اور فضیلتیں پاؤ گے ۔
(الروض الباسم فی الذب عن سنۃ ابی القاسم ج ۱ ص ۱۴۶)
۴۸: ابن الصلاح: صحیح حدیث کی تعریف کرنے کے بعد حافظ ابن الصلاح الشہرزوری لکھتے ہیں:
“فھذا ھو الحدیث الذي یحکم لہ بالصحۃ بلا خلاف بین أھل الحدیث”
یہ وہ حدیث ہے جسے صحیح قرار دینے پر اہل حدیث کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ (علوم الحدیث عرف المقدمۃ ابن الصلاح مع شرح العراقی ص ۲۰)
۴۹: الصابونی : ابو اسماعیل عبدالرحمٰن بن اسماعیل الصابونی نے ایک کتاب لکھی ہے:
“عقیدۃ السلف أصحاب الحدیث” سلف : اصحاب الحدیث کا عقیدہ
اس میں وہ کہتے ہیں:”و یعتقد أھل الحدیث و یشھدون أن اللہ سبحانہ و تعالیٰ فوق سبع سموات علی عرشہ” اہل حدیث یہ عقیدہ رکھتے اور اس کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر عرش پر ہے ۔ (عقیدہ السلف اصحاب الحدیث ص ۱۴)
۵۰: عبدالقاہر البغدادی: ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر بن محمد البغدادی نے شام وغیرہ کی سرحدوں پر رہنے والوں کے بارے میں کہا: “کلھم علی مذھب أھل الحدیث من أھل السنۃ” وہ سب اہل سنت میں سے اہل حدیث کے مذہب پر ہیں۔
(اصول الدین ص ۳۱۷)
ان پچاس حوالوں سے ثابت ہوا کہ مسلمانوں کا مہاجرین ، انصار اور اہل سنت کی طرح صفاتی نام اور لقب اہل حدیث ہے اور اس لقب کے جواز پر امت مسلمہ کا اجماع ہے ۔ کسی ایک امام نے بھی اہل حدیث نام و لقب کو غلط، ناجائز یا بدعت ہرگز نہیں کہا لہذا بعض خوارج اور ان سے متاثرین کا اہل حدیث نام سےنفرت کرنا، اسے بدعت اور فرقہ وارانہ نام کہہ کر مذاق اڑانا اصل میں تمام محدثین اور امت مسلمہ کے اجماع کی مخالفت کرنا ہے ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے حوالے ہیں جن سے اہل حدیث یا اصحاب الحدیث وغیرہ صفاتی ناموں کا ثبوت ملتا ہے ۔ محدثین کرام کی ان تصریحات اور اجماع سے معلوم ہوا کہ اہل حدیث ان صحیح العقیدہ محدثین و عوام کا لقب ہے جو بغیر تقلید کے کتاب و سنت پر فہم سلف صالحین کی روشنی پر عمل کرتے ہیں اور ان کے عقائد بھی کتاب و سنت اور اجماع کے بالکل مطابق ہے ۔ یاد رہے کہ اہل حدیث اور اہل سنت ایک ہی گروہ کے صفاتی نام ہیں۔
بعض اہل بدعت یہ کہتے ہیں کہ اہل حدیث صرف محدثین کو کہتے ہیں چاہے وہ اہل سنت میں سے ہوں یا اہل بدعت میں سے ، ان لوگوں کا یہ قول فہم سلف صالحین کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ اہل بدعت کے اس قول سے یہ لازم آتا ہے کہ گمراہ لوگوں کو بھی طائفۂ منصورہ قرار دیا جائے حالانکہ اس قول کا باطل ہونا عوام پر بھی ظاہر ہے ۔ بعض راویوں کے بارے میں خود محدثین نے یہ صراحت کی ہے وہ اہل حدیث میں سے نہیں تھے۔ (دیکھئے فقرہ: ۵،۲۱،۲۸)
دنیا کا ہر بدعتی اہل حدیث سے نفرت کرتا ہے تو کیا ہر بدعتی اپنے آپ سے بھی نفرت کرتا ہے.
حق یہ ہے کہ اہل حدیث کے اس صفاتی نام و لقب کا مصداق صرف دو گروہ ہیں:
  1. حدیث بیان کرنے والے (محدثین )
  2. حدیث پر عمل کرنے والے (محدثین اور ان کے عوام)
حافظ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:​
ونحن لا نعني بأھل الحدیث المقتصرین علی سماعہ أو کتابتہ أو روایتہ، بل نعني بھم: کل من کان أحق بحفظہ و معرفتہ و فھمہ ظاھراً و باطناً، واتباعہ باطناً و ظاھراً، و کذلک أھل القرآن۔اہل حدیث کا ہم یہ مطلب نہیں لیتے کہ اس سے مراد صرف وہی لوگ ہیں جنہوں نے حدیث سنی ، لکھی یا روایت کی ہے بلکہ اس سے ہم یہ مراد لیتے ہیں کہ ہر آدمی جو اس کے حفظ ، معرفت اور فہم کا ظاہری و باطنی لحاظ سے مستحق ہے اور ظاہری و باطنی لحاظ سے اس کی اتباع کرتا ہے اور یہی معاملہ اہل قرآن کا ہے ۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ۹۵/۴) حافظ ابن تیمیہ کے اس فہم سے معلوم ہواکہ اہل حدیث سے مراد محدثین اور ان کے عوام ہیں۔ آخر میں عرض ہے کہ اہل حدیث کوئی فرقہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک نظریاتی جماعت ہے ۔ ہر وہ شخص اہل حدیث ہے جو قرآن و حدیث و اجماع پر سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں عمل کرے اور اسی پر اپنا عقیدہ رکھے۔ اپنے آپ کو اہل حدیث (اہل سنت) کہلانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اب یہ شخص جنتی ہوگیا ہے ۔ اب اعمال صالحہ ترک، خواہشات کی پیروی اور من مانی زندگی گزاری جائے بلکہ وہی شخص کامیاب ہے جس نے اہل حدیث (اہل سنت) نام کی لاج رکھتے ہوئے اپنے اسلاف کی طرح قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزاری۔ واضح رہے نجات کے لئے صرف نام کا لیبل کافی نہیں ہے بلکہ نجات کا دارومدار قلوب و اذہان کی تطہیر اور ایمان و عقیدے کی درستی کےساتھ اعمالِ صالحہ پر ہے ۔ یہی شخص اللہ کے فضل و کرم سے ابدی نجات کا مستحق ہوگا۔ ان شاء اللہ (۲۹ رجب ۱۴۲۷؁ھ)
اس تحقیقی مضمون میں جن علماء کے حوالے پیش کئے گئے ہیں ان کے ناموں کی ترتیب درج ذیل ہیں:
  1. ابن ابی عاصم (متوفی ۲۸۷؁ھ)
  2. ترمذی (متوفی ۲۷۹؁ھ)
  3. ابن تیمیہ (متوفی ۷۲۸؁ھ)
  4. جعفر بن محمد الفریابی (متوفی۳۰۱؁ھ)
  5. ابن حبان (متوفی ۳۵۴؁ھ)
  6. جوزجانی(متوفی۲۵۹؁ھ)
  7. ابن خزیمہ (متوفی ۳۱۱؁ھ)
  8. حاکم صاحب مستدرک(متوفی۴۰۵؁ھ)
  9. ابن رشید(متوفی ۷۲۱؁ھ)
  10. حاکم کبیر(متوفی۳۷۸؁ھ)
  11. ابن شاہین (متوفی ۳۸۵؁ھ)
  12. حفص بن غیاث(متوفی۱۹۴؁ھ)
  13. ابن الصلاح(متوفی ۸۰۶؁ھ)
  14. خطیب بغدادی (متوفی۴۶۳؁ھ)
  15. ابن عبدالبر (متوفی ۴۶۳؁ھ)
  16. رامہرمزی(متوفی۳۶۰؁ھ)
  17. ابن قتیبہ(متوفی ۲۷۶؁ھ)
  18. سیوطی(متوفی۹۱۱؁ھ)
  19. ابن القیم(متوفی ۷۵۱؁ھ)
  20. شافعی(متوفی۲۰۴؁ھ)
  21. ابن کثیر(متوفی ۷۷۴؁ھ)
  22. شیرویہ الدیلمی(متوفی۵۰۹؁ھ)
  23. ابن مفلح(متوفی ۷۶۳؁ھ)
  24. عبدالرحمٰن الصابونی(متوفی۴۴۹؁ھ)
  25. ابن المنادی (متوفی ۳۳۶؁ھ)
  26. عبدالقاہر بن طاہر(متوفی۴۲۹؁ھ)
  27. ابن المنذر (متوفی ۳۱۸؁ھ)
  28. عجلی(متوفی۲۶۱؁ھ)
  29. ابوبکر بن ابی داود (متوفی ۳۱۶؁ھ)
  30. علی بن عبداللہ المدینی(متوفی۲۳۴؁ھ)
  31. ابو حاتم الرازی (متوفی ۲۷۷؁ھ)
  32. قتیبہ بن سعید (متوفی۲۴۰؁ھ)
  33. ابوداود (متوفی ۲۷۵؁ھ)
  34. قوام السنۃ(متوفی۵۳۵؁ھ)
  35. ابو عبیدہ (متوفی ۲۲۴؁ھ)
  36. محمد بن اسماعیل الصنعانی(متوفی۸۴۰؁ھ)
  37. ابو عوانہ (متوفی ۳۱۶؁ھ)
  38. محمد بن الحسین الآجری (متوفی۳۶۰؁ھ)
  39. ابو نعیم الاصبہانی (متوفی ۴۳۰؁ھ)
  40. محمد بن علی الصوری(متوفی۴۴۱؁ھ)
  41. احمد بن حنبل(متوفی ۲۴۱؁ھ)
  42. محمد بن یوسف الفریابی(متوفی۲۱۲؁ھ)
  43. احمد بن سنان (متوفی ۲۵۹؁ھ)
  44. مسلم(متوفی۲۶۱؁ھ)
  45. اسماعیلی (متوفی ۳۷۱؁ھ)
  46. نسائی(متوفی۳۰۳؁ھ)
  47. بخاری(متوفی ۲۵۶؁ھ)
  48. نصر بن ابراہیم المقدسی(متوفی۴۹۰؁ھ)
  49. بیہقی(متوفی ۴۵۸؁ھ)
  50. یحییٰ بن سعید القطان(متوفی۱۹۸؁ھ)
 
Top