• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل الحدیث اور اصحاب الرائے کے مابین فرق

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ان ادوار پرشاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا تاریخی تبصرہ اور علمی محاکمہ حجۃ اللہ البالغۃ ۱؍۲۷۴

اہل الحدیث اور اصحاب الرائے کے مابین فرق

آگاہ رہئے! امام سعید بن المسیب ، ابراہیم نخعی اور زہری یا امام مالک وسفیان جیسے ائمہ معتبرین کے زمانہ میں ۔۔یا ان کے بعد کے ادوار میں۔۔ علماء حق رائے زنی کو پسند نہیں کرتے تھے اور فتوی دینے یا استنباط سے بھی گھبراتے تھے۔ہاں بہت ضروری ہوتا تو فتوی دیا کرتے۔ ان ادوار میں ایسے علماء کا سب سے زیادہ اہم کام حدیث رسول ﷺ کی روایت کا تھا جو فتوی ہوتا ۔

رائے کے بارے میں سلف کے اقوال:
سیدنا عبد اللہؓ بن مسعود سے کسی شے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمانے لگے: مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں ایک شے کو جسے اللہ نے تم پر حرام کیا ہو حلال کردوں یا جو حلال کی ہو اسے حرام کردوں۔

سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لوگو! ابتلاء کے نازل ہونے سے قبل اسے جلدی مت مانگو کیونکہ مسلمانوں میں کچھ لوگ مسلسل رہیں گے جن سے جب کچھ پوچھا جائے گا تووہ جلدی سے اسے بیان کردیں گے۔ یہی بات سیدنا عمر، علی، ابن عباس، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے سے بھی مروی ہے۔

سیدنا ابن عمر ؓ نے جابر بن زید سے فرمایا:
تم بصرہ کے فقہاء میں شمار ہوتے ہو۔ تم سوائے قرآن ناطق کے یا سنت ماضیہ کے کوئی فتوی نہ دینا۔اگر تم نے ان کے علاوہ کچھ بھی فتوی دیا تو خود بھی ہلاک ہوگے اور دوسروں کو بھی کروگے۔

ابوالنصر کہتے ہیں:
جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ بصرہ تشریف لائے تو میں اور حسن آپ سے ملنے آئے۔ حسن سے آپ نے فرمایا: تم حسن ہو؟ بصرہ میں مجھے سب سے زیادہ تمہیں ملنے کی خواہش تھی۔جس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے سنا ہے تم اپنی رائے سے فتوے دیتے ہو۔ اپنی رائے سے فتوے مت دو۔ ہاں اگر سنت رسول اللہ ﷺ سے ہو یا کتاب منزل سے ہو تو۔

ابن المنکدر کہتے ہیں:
عالم، اللہ اور اس کے بندوں کے مابین ہوا کرتا ہے۔ عالم اپنی جان کا مخرج بھی ضرور تلاش کرلے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رائے سے فتوی دینا مکروہ:
امام شعبی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: جب آپ جیسے علماء سے سوال کیا جاتا تو ان کا رد عمل کیا ہوتا؟ فرمانے لگے: تم واقف حال سے ہی مسئلہ دریافت کررہے ہو۔ جب عالم سے سوال کیا جاتا تو وہ اپنے ساتھی عالم سے کہتا: انہیں فتوی دو۔ تو یہی بات آگے گھوم کر پہلے کے پاس لوٹ آتی۔امام شعبیؒ فرماتے ہیں: یہ لوگ جب تمہیں رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کریں اسے لے لو اور جو اپنی رائے سے کہیں اسے گند خانے میں پھینک دو۔ ان تمام آثار کو امام دارمی ؒنے روایت کیا ہے۔

حدیث واثر کی کتابت:
بلادِ اسلامیہ میں حدیث واثر کی تدوین عام ہوگئی۔ بہت سے صحیفے اور نسخے لکھے گئے۔ اہل روایت میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے اپنی اس اہم ضرورت کیلئے صحیفہ یا نسخہ کی تدوین نہ کررکھی ہو۔اس علم کے پیاسے پھر حدیث کے افاضل ہستیوں کے پاس بلادِ حجاز، شام وعراق، مصر ویمن اور خراسان تک گئے۔انہوں نے ان کی کتب کو جمع کیا، نسخوں کو ایک دوسرے سے کھنگالااور ان میں غریب الحدیث یا نادر روایت کو بغور پڑھا ۔ان ہستیوں کی کاوشوں سے حدیث وآثار کا اتنا مواد جمع ہوگیا جو ظاہر ہے ان سے پہلے کسی کے پاس نہیں تھا۔اور جو آسانی انہیں میسر آئی وہ اسلاف کو نہ آسکی۔ احادیث کی اسانید ان نسلوں کے پاس اتنی زیادہ ہوگئیں کہ کچھ کے پاس تو ایک ہی متن کی سو سے زیادہ اسانید ہوتیں اور وہ انہیں فخریہ روایت کرتے۔اس طرح ان اسانید کے ذریعے بعض ضعیف اسانید یا متون کا انکشاف بھی ہوا۔جن سے وہ حدیث میں غرابت یا شہرت کا موقع ومحل بھی پہچان لیتے۔اور متابعات وشواہد پر بھی ان کی نظر پڑتی۔ اس طرح انہیں ان احادیث میں بے شمار ایسی صحیح احادیث مل گئیں جو ان سے پہلے اہل فتوی پر ظاہر نہ ہوسکی تھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اہل الحدیث ہی سب سے زیادہ اہل علم ہوا کرتے ہیں:
امام شافعی رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ سے ایک بار فرمایا: آپ لوگ ہماری نسبت صحیح احادیث کا زیادہ علم رکھتے ہیں۔ جب بھی کوئی حدیث صحیح ہو خواہ وہ کوفی سند والی ہو یا بصری وشامی سند والی ، مجھے بھی بتادیا کیجئے تاکہ میں اسی کے مطابق اپنی فقہ کو ڈھال لیا کروں۔ابن الہمام اس کے راوی ہیں۔یہ اس لئے کہا: کہ کتنی صحیح احادیث ہیں جنہیں مخصوص علاقوں کے لوگ جیسے شامی اور عراقی یا صرف اہل بیت ہی روایت کرتے ہیں جیسے: برید کا وہ نسخۂ حدیث جو ابی بردہ عن ابی موسیٰ کی سند سے ہے۔اسی طرح عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کا نسخہ۔یا کوئی کم روایت کرنے والے گم نام صحابی سے جس سے سوائے چند ایک لوگوں کے کسی نے حدیث بیان نہیں کی۔ عام اصحابِ فتوی اکثرایسی احادیث سے ناواقف ہوتے ہیں۔

ان محدثین نے ہر شہر کے فقیہ صحابی وتابعی کے آثار جمع کئے۔ان سے قبل آدمی صرف اپنے شہر اور علماء شہر کی احادیث کو جمع کرنے کی ہمت کرتا تھا۔ شروع میں راویوں کے ناموں کی پہچان، ان کے مراتب عدالت، محدثین کے تمام مشاہدات پر اور راوی پر ان کی کی گئی تحقیق پر لوگ اعتماد کرلیا کرتے تھے۔ محدثین نے اس فن کی گہرائی میں اتر کر اسے باقاعدہ تحقیقی اور تدوینی مقام دیا۔اور ان راویوں کے صحیح وغیر صحیح ہونے میں باہمی تبادلہ ٔخیال ومناقشہ کو بھی جاری رکھا۔اس تدوین اور باہمی مناقشہ کی بدولت ان پر ہر روایت کا پوشیدہ حال عیاں ہوجاتا کہ آیا وہ حدیث متصل ہے یا منقطع ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مدون احادیث کی کثرت:
امام سفیان ثوری اور امام وکیع رحمہما اللہ اور ان کے ہم پایہ دیگر محدثین، حدیث کی تحقیق وتفتیش میں حد درجہ محنت کیا کرتے ۔ حدیث مرفوع متصل صرف اسی سے لیتے جس نے تقریباً ہزار احادیث کو جمع کررکھا ہو جیسا کہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اپنے رسالۃ إلی أہل مکۃ میں لکھا ہے۔

کبار محدثین کا طبقہ :
اس طبقے کے علماء حدیث ، چالیس ہزار احادیث یا اس سے ملتی جلتی تعداد میں احادیث روایت کرتے تھے۔ بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں تو یہ درست منقول بھی ہے کہ انہوں نے اپنی صحیح بخاری کو چھ لاکھ احادیث سے چن کر مختصر اًلکھا۔ یہی حال سنن ابو داؤد کا بھی ہے جو پانچ لاکھ احادیث سے منتخب کی گئی۔

امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند کو ایک میزان قرار دیا کہ اسی کتاب میں آئی ہوئی احادیث کے ذریعہ دیگر احادیث کو پہچانا جائے ۔جو حدیث اس کتاب میں ہو، خواہ اس کی سند ایک ہی ہو تو اس کی کوئی نہ کوئی اصل وبنیاد ہے ورنہ اس کی کوئی اصل نہیں۔حدیث کے بڑے بڑے ماہرین میں عبد الرحمن بن مہدی، یحییٰ بن سعید القطان، یزید بن ہارون، عبد الرزاق صنعانی، ابوبکر بن ابی شیبہ، مسدد بن مسرہد، ہناد بن السری، احمد بن حنبل، اسحق بن راہویۃ، الفضل بن دکین، علی بن المدینی اور ان کے دیگر ساتھی شامل ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
طبقات محدثین کے سرخیل:
یہ ایسا طبقہ ہے جو طبقات محدثین کا سرخیل ہے۔ ان کے محقق علماء روایت کے سسٹم کو مستحکم کرنے اور مراتب حدیث کی معرفت کے بعد فقہ کی طرف پلٹے۔ باوجود یکہ انہیں علم تھا کہ احادیث وآثار ہرمذہب کے اور ہر مذہب حدیث کے مخالف ومتناقض ہے اس لئے ان کی کوئی ایسی انفرادی رائے بھی نہ بن سکی کہ ماضی کے کسی شخص کی تقلید پر اجماع کیا جائے۔ یہ فقہاء محدثین احادیث ِرسول کو اور مجتہد صحابہ وتابعین کے آثار کو ایسے قاعدوں اور اصولوں پر ٹٹولتے جو انہوں نے خود بنائے تھے۔جن کی وضاحت درج ذیل ہے:

ترجیح کے مسلمہ قاعدے:
۱۔ یہ قاعدہ ان کے پاس تھا کہ جب بھی کسی مسئلہ میں قرآن ناطق ہوتو اس سے ہٹ کر کسی اور طرف دیکھنا وہ جائز نہیں سمجھتے تھے ۔

۲۔ اگر قرآن کی آیت یا اس کا کوئی لفظ مختلف احتمالات رکھتا تو اس سنت کو اختیار کرتے جو اس احتمال کا فیصلہ کرتی۔

۳۔ اگر وہ کتاب اللہ میں اسے نہ پاتے تو سنت رسول اللہ ﷺ کو پکڑلیتے خواہ وہ فقہاء کرام کے نزدیک مشہور وعام ہویا کسی مخصوص علاقے کے لوگوں کے ہاں متداول ہو یا اہل بیت کے ہاں ہو یا مخصوص سند سے وہ مروی ہو۔اور خواہ اس پر صحابہ کرام وفقہاء عظام نے عمل کیا ہو یا نہ کیا ہو۔

۴۔جب بھی کسی مسئلے میں حدیث ہوتی تو اس کے مقابلے میں کوئی اثری اختلاف یا کسی مجتہد کے اجتہاد کی پیروی نہ کی جاتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جب کوئی مسئلہ قرآن کریم یا سنت رسول ﷺ میں نہ ہوتا تو صحابہ کرام کی رائے کو تسلیم کیا جاتا:
۱۔ احادیث کو بخوبی ٹٹولنے سے جب فقہاء محدثین فارغ ہوتے اور کسی مسئلہ میں حدیث نہ پاتے تو صحابہ وتابعین کی جماعت کے اقوال کو لے لیا کرتے۔اس سلسلے میں وہ ایک کو چھوڑ کر دوسرے کے قیدی نہیں بنتے تھے اور نہ ہی کسی شہر کے۔بلکہ اسی طرح کرتے جیسا کہ ان کے اسلاف نے کیا ۔

۲۔پھر اگر جمہور خلفاء وفقہاء کسی شے پر متفق ہوجاتے تو اسی پر قناعت کرتے اور اگر ان میں اختلاف ہوتا تو اس محدث کی روایت کو قبول کرلیتے جو ان میں بڑا عالم، متقی اور ضابط ہوتا ۔

۳۔ ورنہ جومشہور روایت ان سے ہوتی اسے لے لیتے۔

۴۔ اگر وہ کوئی ایسی شے پالیتے جس میں دو قول ہوں یا دونوں برابر درجہ رکھتے ہوں تو یہ دو اقوال والا مسئلہ بن جاتا۔

۵۔اگر اس مسئلے میں بھی فیصلہ کرنے سے عاجز آجاتے تو پھر کتاب وسنت کے عمومات(generally)، اشارات اور اقتضا ء ات میں غور وخوض کرتے۔ اور جواب میں مسئلہ کی نظیر کو اس کے سامنے لاتے ۔بشرطیکہ مسئلہ اور نظیر بظاہر متقارب ہوتے۔ ایسی صورت میں وہ اصول وقواعد کی پابندی نہ کرتے۔مگروہ حل چاہتے جو واقعی فہم میں آجائے اور دلی اطمینان ہو۔ جیسے متواتر میں تعداد رواۃ کا اور ان کے حال کا کوئی میزان نہیں مگر لوگوں کے دلوں میں اسے سننے کے بعد یقین آجاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تمام اصول دورِ اول میں ہی مستخرج ہوئے:
یہ انہی علماء صحابہ و تابعین کا کارنامہ ہے جنہوں نے ان اصولوں کی تصریحات تک کردی ہیں۔میمون بن مہران کہتے ہیں: سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جب بھی کوئی اہم مسئلہ پیش آتا تو وہ کتاب اللہ میں اس کا حل تلاش کرتے۔اگر مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ دے دیتے۔ ورنہ وہ سنت رسول کو دیکھتے اور اس کے مطابق فیصلہ کردیتے۔ سنت رسول بھی اگر خاموش ہوتی تو وہ باہر نکلتے اور مسلمانوں سے یہ کہتے ہوئے دریافت فرماتے: مجھے یہ مشکل پیش آئی ہے کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ دیا ہے؟ کبھی کبھی مسلمان آپ کے گرد اکٹھے ہوجاتے اور انہیں بتاتے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس مسئلے کو یوں حل کیا ہے۔ تو سیدنا ابوبکرؓ فرماتے:۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ فِیْنَا مَنْ یَّحْفَظُ عَلٰی نَبِیِّنَا۔
اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء جس نے ہمارے درمیان ایسے لوگوں کو بھی رکھا جو ہمارے نبی ﷺ کے ہر بات کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

اگر صحابۂ رسول سے بھی کوئی حل نہ ملتا تو پھر اہل علم اور قابل افراد کو اکٹھا فرماتے۔ ان سے مشورہ طلب کرتے جب ان کی رائے اتفاقیہ ہوجاتی تو اس کے مطا بق فیصلہ فرمادیتے۔

قاضی شریح کوسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا خط مبارک :
قاضی شریح خود فرماتے ہیں: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا: اگر تمہارے پاس کوئی بھی معاملہ ایسا آئے جو کتاب اللہ میں ہو تو اسی کی مطابق فیصلہ کرو۔ لوگ تمہیں اس سے مڑنے نہ دیں۔ اور اگر وہ کتاب اللہ میں نہ ہو تو سنت رسول علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھواور اس کے مطابق فیصلہ کردواور اگر وہ دونوں میں موجود نہ ہو اور نہ ہی اس معاملے میں کسی نے پہلے گفتگو کی ہو تو دو باتوں میں جو تمہیں بہتر لگے اختیار کرلو۔ چاہو تو اپنی رائے سے اجتہاد کرو اور آگے بڑھو اور آگے بڑھتے جاؤ اور چاہو تو پیچھے ہٹ جاؤ اور پیچھے ہٹتے جاؤ۔ اور میں تمہارے لئے پیچھے ہٹنا ہی بہتر سمجھتا ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سیدنا عبد اللہ بن مسعود کی قاضیوں کو نصیحت:
وہ فرماتے ہیں: ہم پر وقت ایسا آگیا ہے کہ نہ ہم فیصلے کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس مقام پر اپنے آپ کو سمجھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہی یہی تھا کہ ہم وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں تم دیکھتے ہو۔جسے آج کے بعد قاضی بننے کی پیشکش کی جائے تو وہ قاضی بننے کے بعد جو کچھ کتاب اللہ میں ہے اس کے مطابق فیصلے کرے پھرمعاملہ اگر ایسا ہو کہ اس کا حل کتاب اللہ میں نہیں تو سنت رسول اللہ ﷺ سے حل کرلے۔ اور اگراس معاملے کا حل نہ کتاب اللہ میں ہو اور نہ ہی سنت رسول اللہ میں تو پھر جیسے سلف صالحین نے فیصلے کئے ویسے ہی کرے۔ اور یہ مت کہے کہ مجھے ڈر لگتا ہے یا میری رائے یہ ہے۔کیونکہ حرام بھی واضح ہے اور حلال بھی ۔ہاں ان کے درمیان کچھ مشتبہ معاملات ہیں تو انہیں چھوڑ کر یقینی معاملات کی طرف وہ آجائے۔

سیدنا ابن عباس کس طرح فتوے دیا کرتے؟
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جب کوئی مسئلہ پوچھاجاتاتو اگر اس کا حل قرآن میں ہوتا تو اسی کے مطابق جواب عنایت فرماتے۔ اور اگر قرآن کی بجائے سنت رسول میں ہوتا تو اس کے مطابق۔اور اگر سنت رسول میں بھی نہ ہوتا تو سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے فیصلوں کے مطابق۔ اور اگر ان سے بھی اس کا حل نہ ملتا تو پھر اس میں اپنی رائے دیتے۔آپ ؓ فرمایا کرتے: تم سزا وعذاب سے نہیں ڈرتے یا زمین میں دھنس جانے سے خائف نہیں ہو کہ تم یوں کہو: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور فلاں نے کہا۔

امام قتادۃ فرماتے ہیں:
ابن سیرین نے ایک شخص کو رسول اکرم ﷺ کی حدیث بیان کی تو اس نے کہا: فلاں نے تو یہ یہ کہا ہے؟ ابن سیرین اسے فرماتے ہیں: میں تمہیں رسول اکرم ﷺ کی حدیث بیان کررہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ فلاں نے یہ یہ کہا ہے؟

جو قرآن میں نازل ہوا اس کے بارے میں کسی کی رائے نہیں چل سکتی:
امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے لکھا: کسی کی رائے کتاب اللہ کی مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ائمہ کرام نے رائے اس مسئلہ میں دی ہے جو قرآن پاک میں نہیں اترا اور سنت رسول ﷺ نے کچھ نہیں کہا۔ اسی طرح جس سنت کو رسول اللہ ﷺ نے سنت قرار دیا ہوا اس کے مقابلے میں کسی کی رائے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔

امام اعمش سے روایت ہے امام ابراہیم کہا کرتے:
مقتدی امام کے دائیں طرف کھڑا ہو۔ تو میں نے انہیں سمیع الزیات عن ابن عباس کی حدیث سنائی کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنے دائیں جانب کھڑا کیا۔

انہوں نے شعبی سے بھی سنا کہ ان کے پاس ایک شخص آیا کوئی سوال اس نے کیا تو امام شعبی نے اسے فرمایا: سیدنا ابن مسعود ؓ اسکے بارے میں یہ فرماتے ہیں۔ اس نے کہا: آپ مجھے اپنی رائے دیجئے۔ تو شعبی فرمانے لگے: لوگو! اس شخص پر تم تعجب نہیں کرتے ۔ میں اسے کہہ رہا ہوں ابن مسعود نے یہ فرمایا ہے اور یہ مجھ سے میری رائے پوچھ رہا ہے۔ بخدا میں اگر ایک گانا گا لوں وہ میرے لئے شاید زیادہ بہتر ہو بہ نسبت اس کے کہ میں اپنی رائے دوں۔یہ آثار سنن الدارمی میں مردی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ارشادِ رسولﷺہوتے ہوئے کسی کی رائے یا فکر کوئی حیثیت نہیں رکھتی:
امام ترمذی نے سائب بن یزید سے روایت کی ہے جو کہتے ہیں ہم امام وکیع کے پاس بیٹھے تھے تو انہوں نے ایک شخص کو ۔۔۔جو رائے کو ہی اہم سمجھتا تھا۔۔۔کہا: رسول اکرم ﷺ نے اشعار کیا مگر ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ یہ مثلہ ہے؟اس آدمی نے کہ امام ابوحنیفہ نے اپنے شیخ ابراہیم النخعی سے روایت کی ہے کہ وہ کہا کرتے: اشعار مثلہ ہے۔ ابو السائب کہتے ہیں: یہ سنتے ہی امام وکیع کو شدید غصہ آیا اور فرمانے لگے: میں تمہیں کہہ رہا ہوں : اللہ کے رسول نے فرمایا اور تم مجھے کہتے ہو: ابراہیم نے کہا۔میں یہی سمجھتا ہوں کہ تمہیں قید کردیا جائے پھر اس وقت تمہیں رہائی ملے جب تک تم اپنی یہ بات واپس نہ لے لو۔سیدنا ابن عباسؓ، امام عطاء، مجاہد اور مالک بن انس رحمہم اللہ سب یہ کہا کرتے: رسول اللہ ﷺ کے سوا سب کی بات یا کلام کو رد کیا جاسکتا ہے یا اس کا مواخذہ بھی ہو سکتا ہے۔

نوٹ: اس لئے امام وکیع ؒ کے مواخذات میں یہ بات ملتی ہے کہ وہ صرف کوفی نبیذ پینے کے بارے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے۔ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
کَانَ یُفْتِیْ بِقَوْلِ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ۔
وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے۔اس بیان سے یہ غلط فہمی ہوئی کہ وہ شاید حنفی تھے۔امام ابن معینؒ کی مراد مخصوص فتوی تھا نہ کہ عام۔ ورنہ عام فتاوی میں تو ان کا یہ حال تھا جو اوپر مثلہ کے بارے میں گذر چکا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ہر مسئلے کا حل محدثین نے حدیث یا اثر میں ضرور پایا ہے:
الغرض جب محدثین نے فقہ کو ان قواعد پر استوار کیاتو کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا جس میں ان کے اسلاف نے کوئی گفتگو نہ فرمائی اور پھر وہ مسئلہ ان کے اپنے زمانہ میں بھی ابھرا ہوتو انہوں نے اس میں کوئی نہ کوئی حدیث ۔۔مرفوع، متصل، یا مرسل یا موقوف۔۔ کو نہ پایا ہو۔ خواہ وہ صحیح تھی یا حسن یا اعتبار کرنے کے لائق تھی۔ یا پھر انہوں نے شیخین کا کوئی نہ کوئی اثر نہ پایا یا تمام خلفاء اور بلادِ اسلامیہ کے قضاۃ ومختلف علاقوں کے فقہاء کا کوئی نہ کوئی اثر انہیں نہ ملا ہو۔یا کوئی نہ کوئی استنباط جو عمومی ہو یا اس میں کوئی اشارہ ہو یا کوئی تقاضا۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے سنت پر عمل کرنا آسان بنادیا۔

محدثین فقہاء کے طبقہ میں روایت وعلم کے اعتبار سے سب سے بڑے امام ، احمد بن حنبل ہیں:
طبقہ فقہاء محدثین میں ان کامقام سب سے بڑا، روایت کے اعتبار سے سب سے وسیع، مرتبۂ حدیث پہچاننے کے اعتبار سے سب سے اونچا اور فقہ کے اعتبار سے سب سے عمیق تھا۔ احادیث وآثار کی جمع شدہ بڑی تعداد ایسی فقہ کی ترتیب پر موقوف تھی۔امام احمد رحمہ اللہ سے اس بارے سوال بھی کیا گیا: فتوی دینے کے لئے کیا عالم کے لئے ایک لاکھ احادیث کے علم کا ہونا کافی ہے؟ فرمایا: نہیں۔حتی کہ انہیں کہا گیا : پانچ لاکھ احادیث کافی ہوں گی؟ فرمانے لگے: چلو کم سے کم اتنی سہی۔فتوی دینے کی اہلیت ان کے نزدیک یہی تھی۔
 
Top