حدد اورمتعین تعریفات میں بھی بعض اوقات اور بعض جہتوں میں استثناء ہوتا ہے
پہلے محدد اورمتعین تعریف ہوگی اس کے بعد ہی استثناء کا سوال اٹھ سکتاہے۔
فلان فقہ میں اہل حدیث ہے مگر عقیدے میں اشعری ہے-
یہ میرے لئے ایک نئی بات ہے۔ویسے یہ باتیں توسننے میں آتی رہی ہیں کہ امام نووی ،ابن حجر علماء اہل سنت ہیں صرف عقیدے کے لحاظ سے بدعت میں مبتلاہیں کہ اشعری ہیں لیکن یہ بات پہلی بار سننے میں آئی کہ فقہ میں اہل حدیث اورعقیدے میں اشعری۔
یعنی جوالزام آپ حنفیوں کو اب تک دیتے رہے تھے کہ وہ اپنے امام کو مکمل امام نہیں سمجھتے یاعقیدے میں ان کو قابل اعتناء نہیں سمجھتے اس لئے عقائد میں ان کی پیروی نہیں کرتے ۔اب وہی الزام آپ پر بھی لوٹ رہاہے کہ فلاں صاحب فقہ میں اہل حدیث ہوسکتے ہیں اورعقیدے میں اشعری ہوسکتے ہیں ۔بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
'اہل حدیث کا صرف ایک امام' اور 'کتاب وسنت اہل حدیث کے دواصول' اپنے قائل کے ارادے و عمل کے اعتبار سے صد فیصد صحیح ہیں
کسی قول کا صرف درست ہوناکافی نہیں ہوتا۔بلکہ اس کے اطلاقات اوروسیع تناظر میں اس کاجائزہ لے کر اس کےدرست اورغلط ہونے کا فیصلہ کرناچاہئے۔بسااوقات ایساہوتاہے کہ
کلمۃ حق ارید بھاالباطل کا مصداق ہوتاہے۔خارجی حضرات کا نعرہ تھا
ان الحکم الاللہ ۔کیایہ کوئی غلط قول تھا؟معتزلہ خود کو
اہل العدل والتوحید کہاکرتے تھے کیایہ غلط بات تھی؟مرجئیہ حضرات اپنے کو حق بجانب ٹہرانے کیلئے
آیات رحمت ومغفرت سے استدلال کرتے تھے ۔کیاان آیات نعوذباللہ غلط تھیں؟
لہذا کوئی نعرہ لگادینااورکوئی سلوگن ایجاد کرلیناکسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتا اورنہ ہی اس کو علمی تحقیقی نگاہ میں کوئی مقام حاصل ہے جب کہ وسیع جائزہ میں وہ درست قرارنہ پائے ۔اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مذکورہ نعرہ کسی دوسرے کی نفی کیلئے درپردہ استعمال نہ کیاجائے۔جی
ساکہ ظاہریہ حضرات نے آپ حضرات کی ہی طرح قرآن وحدیث دواصول اورہماراامام صرف حضورپاکؐ کا نعرہ لگایا۔لیکن اس کو انہوں نےبالواسطہ قیاس کے انکار کیلئے استعمال کیا۔یاجس طرح منکرین حدیث حضرات قرآن قرآن کی رٹ لگاتے ہیں لیکن اس کو وہ دراصل حدیث کے انکار کی دلیل بنالیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب
"قرآن وحدیث دواصول" اور
"ہماراامام صرف ایک "کے نعرے لگتے ہیں تواس کے پیچھے تاریخی طورپرقیاس اورفقہاء کی خدمات کے انکار کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔اوریہ بات صاف صاف کیوں نہ کہہ دی جائے کہ آپ حضرات کابھی قیاس کے معاملہ میں رویہ تاحال واضح نہیں ہے ۔بیشتر حضرات سیدھے قیاس مذموم کے تعلق سے بزرگان امت کے ارشادات نقل کرکے ایساتاثر دیتے ہیں جیساکہ نفس قیاس ہی کوئی مذموم شے ہو۔
(یہ بالکل ایساہی ہے کہ جیساکہ اہل حدیث حضرات نے نفس حلالہ کو ہی ایسابناکر پیش کردیاہے کہ گویاوہ دنیا کا سب سے بڑاجرم اورمبغوض عمل ہو حالانکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی ایک جائز بلکہ ایک پسندیدہ شکل بھی موجود ہے۔)
اگرکوئی صاحب بہت مہربانی کرتے ہیں توامام شافعی کا قیاس کے سلسلے میں حوالہ دے کر اتنافرماتے ہیں کہ قیاس اسی طرح عندالضرورت جائز ہے جیساکہ ضرورت کے وقت مردار حلال ہوجاتاہے۔حالانکہ جس نے بھی امام شافعی کی الرسالہ ،الام وغیرہ کا مطالعہ کیاہے وہ بخوبی جانتاہے کہ وہ کس کثرت سے قیاس کرتے ہیں اوران کے مناظرے استدلالات میں75فیصد قیاس کی آمیزش ہوتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ نعرہ اورسلوگن کی ضرورت نہیں محدد اورمتعین تعریف چاہئے اگرکوئی تعریف ہے ۔
غیر نبی کے بنائے ہوئے اصول یا قول کیلئےکتاب وسنت کی دور از کار تاؤیلات نہیں کرتے
یہ تواپنی اپنی نظرکی بات ہے جوچیز آپ کو اپنے بزرگوں کی قابل مدح نظرآئے گی وہ دوسروں کی نگاہ میں قابل ذم ہوگااپنے علماء کی جن تاویلات پر آپ سردھنتے نظرآئیں گے وہی چیز دوسروں کے یہاں دورازکارتاویلات ہوں گی۔جن تاویلات کو آپ شرح حدیث اورتفسیر حدیث سے تعبیر کریں گے کسی کی رائے میں وہ حدیث کی تحریف ہوگی۔تواس چیز کو تواٹھاکر طاق نسیاں میں رکھ دیجئے کہ اس سے کسی بحث کا فیصلہ ہونے والانہیں ہے۔
مجھ کو توتم پسند ہواپنی نظرکوکیاکروں
باقی مالک، الشافغی، احمد، دونوں سفیان وغیرھم اہل حدیث کے آئمہ ہیں- اور فقہ کے دوسرے اضول کتاب وسنت سے مستنبط ہیں-
یہی چیز الجھن کا باعث بنتی ہے۔ایک میں سانس میں آپ فرماتے ہیں کہ
"اہل حدیث کاصرف ایک امام اپنے قائل کے ارادے اورعمل کے اعتبار سے صدفیصد صحیح"اوردوسری سانس میں یہ فرمان ذیشان نکلتاہے کہ "
باقی مالک، الشافغی، احمد، دونوں سفیان وغیرھم اہل حدیث کے آئمہ ہیں"
توامام ایک کہاں رہےمالک شافعی اوراحمد یہ تین ہوگئے اوروغیرہم میں پتہ نہیں کتنے ہوں سینکڑوں ہزاروں۔اس پر بھی اگرکوئی نعرہ زن ہو کہ اہل حدیث کاصرف ایک امام تواس پر مخاطب سے سوائے اس کے اورکیاکہاجاسکتاہے کہ وہ اقبال کی اس نصیحت پر عمل کرے
دورنگی چھوڑدے یک رنگ ہوجا
سراپا سنگ ہویاموم ہوجا
باقی اس الزام یاآپ کی نگاہوں میں اتہام کےدفعیہ کیلئے جوآپ فرمائیں گے کہ ہم
"ایک امام"والی بات دوسرے تناظرمیں اور
"مالک وشافعی واحمدوغیرہم کے ائمہ ہونے کی بات"تیسرے تناظر میں کہہ رہے ہیں تودھیان رہے کہ کہیں یہ بات خود دورازکارتاویلات نہ ہوجائیں۔
ویسے کبھی اس پر بھی غورکرناچاہئے کہ جوتناظرآپ کیلئے جائز ہے دوسرااورتیسراتناظر کیاوہ حنفیوں،شافعیوں مالکیوں اورحنابلہ کیلئے درست نہیں ہوسکتا۔وہ اپنے ائمہ کو ایک تناظر میں اورامام الانبیاء کو دوسرے تناظر میں امام مانتے ہوں۔لیکن ظاہر سی بات ہے کہ اس کیلئے انسان کو محاسبہ نفس کرناپڑتاہے اورجانبداری کو دماغ سے کھرچ کرسوچناپڑتاہے اورشدت پسندی کے جذبات پر اعتدال اوررقت ورافت کی پھوارڈالنی پڑتی ہے۔لیکن اتناوقت اوراتنی فرصت شاید آپ کو میسر نہ ہو۔کیونکہ اوربھی توغم ہیں زمانے میں اس ایک کام کے سوا۔
جہاں تک میں سمجھا ہوں دیوبندی حضرات ہندوپاک کے اہل حدیث کو اھلحدیث گردانتے ہی نہیں- یہی بات آپ نے اپنے ادبی ذوق کیساتھ بیان فرمائی- اگر میں بدگمانی کا مرتکب ہوا ہوں تو معذرت قبول فرماکر میری تصحیح کردیں-
میں دوسروں کی ذمہ داری نہیں لیتا لیکن اپنی حد تک صاف صاف یہ عرض کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا (اگرکسی کو ٹھیس پہنچے توپیشگی معذرت لیکن اس کیلئے میں اپنی رائے پرخوبصورت الفاظ کاپردہ نہیں ڈال سکتا)
کہ برصغیر کے ہی نہیں بلکہ اس وقت پوری دنیا کےسلفی،اہل اثر،اہل حدیث حضرات کس بنیاد پر خود کو ان القاب کا مستحق قراردے کر دوسروں کواس سے محروم سمجھتے ہیں؟وہ کون سی ان کی امتیازی صفت ایسی ہے جس کی بنیاد پر یہ خود کو ان القاب کا مستحق سمجھت ہیں۔(اگرچہ القاب اوربڑے نام بذات خود کوئی اثر نہیں رکھتے جب تک اس کے پیچھے عمل موجود نہ ہوجیساکہ حضرت سلمان فارسی نے مدینہ منورہ میں مقیم ایک صحابی کو خط لکھ کرکہاتھاان الارض لایقدس احدا زمین کسی کومتبرک نہیں بناتی بلکہ آدمی کے اپنے اعمال کسی کو اونچے مقام تک پہنچاتے ہیں)لیکن بہرحال نام کی حد تک بھی یہ سوال برقرارہے۔
بہرحال میرے نزدیک برصغیر پاک وہند ،بنگلہ دیش اورپوری دنیا میں اس وقت جومسلک اہل حدیث کے نام سے مشہور ہے اس کو بس میں ایک قسم کا
"ہپی ازم"سمجھتاہوں۔مجھے میری اس رائے کیلئے معاف رکھیں۔یاپھرادبی زبان میں ہی سنناچاہیں تو یہ ترقی پسندی کی تحریک ہے جس نے اردوادب کو کچھ دیایانہ دیا ہو لیکن اردوزبان وادب کو نقصان بہت پہنچایا۔عوامی جذبات کی نمائندگی کے بہانے اردو میں غلط العوام کا سیلاب برپاکردیااوراس طرح کی شاعری معرض وجود اورمنصہ شہود میں آنے لگی
سورچ کو چونچ میں لئے مرغاکھڑارہا
کھڑکی کے پردے کھینچ دیئے رات ہوگئی
اب اورزیادہ کیاعرض کروں ۔حدادب مانع ہے۔والسلام