• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل السنۃ والجماعۃ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اہل السنۃ والجماعۃ

دوسری صدی ہجری کے آخر میں یہ اصطلاح صرف ان لوگوں کے لئے مستعمل ہوئی جو منہج صحابہ وتابعین پر قائم رہے اور صرف حدیث وآثار کے تابع رہے۔ سب سے پہلے امام بخاریؒ کے اساتذہ میں سے امام علی بن المدینی رحمہ اللہ نے اہل السنۃ کے ساتھ الجماعۃ کا لفظ اضافہ کیا۔کیوں کہ کچھ لوگ اس زمانہ میں ایسے بھی تھے جو اہل السنۃ ہونے کا دعوی کرتے مگر وہ تقلید سے چمٹ کرجماعت سے ہٹ گئے تھے اور کچھ اس کے برعکس تھے۔حدیث وآثار اور سلف صالحین کی اتباع کا طریقہ واصول پھریہی بنا کہ ہم سنت کی اتباع کرکے جماعت کے ساتھ رہیں گے۔عقائد واعمال میں ہم ان سے الگ نہیں ہوں گے۔اس لئے یہ دونوں لازم وملزوم ہوگئے۔جس کی وجہ یہ حدیث تھی جس میں آپ ﷺنے فرمایا:
سَتَفْتَرِقُ ہٰذِہِ الأُمَّۃُ عَلَی ثَلاَثٍ وَّسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً کُلُّہَا فِی النَّارِ إِلاَّ وَاحِدَۃٌوَہِیَ الْجَمَاعَۃُ۔(سنن ترمذی ۲۶۴۰، سنن ابوداؤد:۴۵۹۶، صححہ العلامۃ الألبانی)
میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے سبھی دوزخ میں جائیں گے سوائے ایک کے۔ اور وہ جماعت ہوگی۔

جماعت سے مراد وہ لوگ ہیں جو متبع سنت رسول ہیں اورجن کا کوئی خاص نام نہیں اورنہ ہی کسی امام کی تقلید اس میں شامل ہے۔یہ حضرات رسول اکرم ﷺ کے اس قول مبارک کو اپنی دلیل بناتے ہیں:
عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِیْ، تَمَسَّکُوْا بِہَا، وَعَضُّوا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ۔۔۔(ابوداؤد: ۴۶۰۷، مسند احمد: ۴؍۱۲۶صححہ العلامۃ الألبانی)
میری سنت اورہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو میرے بعد اختیار کرلو اور اسے تھامے رہو اور ڈاڑھوں سے بھی مضبوطی سے پکڑلو۔

اس جماعت کے بارے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وہ حدیث کے سماع، کتابت یا اس کی روایت پر اکتفاء نہیں کرتی بلکہ اس سے مراد وہ جماعت ہے جو حدیث کی صحیح معرفت حاصل کرکے اس کی بھرپور حفاظت کرے، اس کے ظاہری وباطنی فہم کو حاصل کرے اوراس کی ظاہری وباطنی اتباع بھی کرے۔ یا ان کی یہ اچھی خصلت ضرور ہو کہ ان کے دلوں میں قرآن وحدیث کی محبت گڑی وجمی ہو۔ انہی دونوں میں ہی وہ اپنے شرعی مسائل کو تلاش کریں اور انہی کے معانی ومفاہیم کو وہ سیکھیں اور جو قرآن وحدیث کے مطابق ہو اس کے مطابق عمل کریں۔ فقہاء حدیث ، غیرمحدث فقیہ کی بہ نسبت رسول اکرم ﷺ کے بارے میں زیادہ علم رکھتے تھے۔یہی وہ جماعت تھی جن کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تھا:
مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِیْ۔
جس طریقے پر میں ہوں یا میرے صحابہ۔
یا ایک روایت میں :
ہِیَ الْجَمَاعَۃُ، یَدُ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ۔
یہی جماعت ہے اور اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہی ہوتا ہے۔
(مجموعۃ الفتاوی ۳؍۳۴۵۔۳۴۷)

٭…یہ ایک وعیدبھی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے دی ہے اور ناجیہ فرقہ صرف اسی کو آپ ﷺ نے بتایا ہے جو: مَا أنَا عَلَیْہِ الْیَومَ وَأَصْحَابِیْ والا ہے یعنی جس پر میں اور میرے صحابہ آج قائم ہیں۔ وہی الْجَمَاعَۃُ ہے۔کسی گروہ کا نام لئے بغیر آپ ﷺ نے صرف اس کی ایک خوبی کا ذکر کیا جو مَا أَنَا عَلَیْہِ الْیَوْمَ وَأصْحَابِی میں موجود ہے۔اسی مسلک کے افراد ہی اللہ تعالیٰ کی نظر میں الجماعۃ ہیں۔اس لئے کہ دعوی کو اللہ تعالیٰ نہیں دیکھتے بلکہ عمل اور عقیدہ کو ضرور اہمیت دیتے ہیں۔

٭…جب اہل السنۃ کا لفظ اکیلا مستعمل ہو تو اہل علم اسے شیعہ وروافض کے مقابل میں استعمال کرتے ہیں۔اسی طرح حدیث وآثار صحابہ وتابعین کے متبعین کے لئے بھی یہی اصطلاح متداول ہے۔اس میں الجماعۃ لفظ کے اضافے کا مقصد یہ ہے کہ وہ صحابہ وتابعین کے منہج والی ہو۔آج ہر کوئی اہل السنۃ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے تاکہ اپنے خیالات ونظریات کا ابلاغ ودفاع کر سکے۔ ہر دور میں War of Terminology رہی ہے اس لئے ان اصطلاحات کے بارے میں محتاط رہنا ہوگا۔

٭…خرابی عقیدہ کے اعتبار سے محدثین نے ہر مدعی سنت کو اہل السنہ میں شامل نہیں کیا بلکہ یہ شرط لگادی کہ جو کچھ وہ کہتا یا کرتاہے کیاوہ اسلاف سے صحیح مروی بھی ہے؟ ورنہ وہ مُحْدِث(Inventor) اور زائغ(Deviant) ہے جس کی بات قبول کرنا تو کجا اس کی طرف کان دھرنابھی غلط ہے۔ اہل السنہ میں وہ بھی شامل ہیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کوآسمانوں سے بھی عالی وبلندسمجھتے ہیں اور اس کے عرش پر مستوی ہونے کو بھی۔سنی تسلیم کرتا ہے کہ حروف قرآن مخلوق نہیں اور اللہ تعالیٰ حرف وصوت میں بات کرتا ہے۔وہ یہ بھی مانتا ہے کہ اہل ایمان اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو جنت میں دیکھیں گے نہ یہ کہ اللہ تعالیٰ دیکھنے والے کے قلب میں علم کا اضافہ کردے گا۔ وہ ایمان کو صرف تصدیق نہیں بلکہ قول وعمل کو بھی ایمان کا لازمی جزو سمجھتا ہے۔یہی سنت کی صحیح تعبیر تھی مگر اس کی غلط تعبیر کی وجہ سے بہت سے فرقے بنے اوراہل بدعت کہلائے۔ کچھ تو ماضی کا قصہ بن گئے اور کچھ کی باقیات ہیں۔انہی فرقوں کی وجہ سے دین کے ہر اہم عقیدہ وعمل میں انحرافی خیالات نے ایسی جگہ بنائی کہ قرآن کریم اور رسول اکرم ﷺ کی اصل تعلیمات زیرو ہوگئیں۔بلکہ افکار واشارات ترجیح پا گئے۔ اور اس آیت{کُلُّ حِزْبٍ بِمَالَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ} کا مصداق سبھی گروہ بن گئے۔

٭…مختلف مذاہب وفرقوں پر لکھی تصنیفات میں علماء ،سنی بمقابل شیعی کا لفظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ شیعہ مدعی تھے کہ ہم اہل بیت کی اتباع کرتے ہیں اور یہ علم ہم نے انہی سے لیا ہے جب کہ اہل السنہ اہل بیت کے سربراہ کی اتباع کرتے اور انہی سے علم لیتے ہیں۔ اہل سنت کے عقائد وہ نہیں جو اہل تشییع کے ہیں بلکہ ان میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔اہل سنت چند صحابہ کو چھوڑ کر نعوذ باللہ باقی کو کفار نہیں بلکہ سبھی کومومن سمجھتے ہیں۔اور ان پر تبراکرنا اور انہیں گالیاں دینا حرام اور خلاف اسلام سمجھتے ہیں۔ ایمان باللہ والرسول کے بعد ولایت یعنی سپورٹ اور محبت بھی صرف انہی کے لئے جائز سمجھتے ہیں اورکسی تیسرے سے براء ت کا اعلان۔اس لئے کہ اِبْنُ اللّٰہِ، یا نَحْنُ أَبْنَائُ اللّٰہِ جیسے الفاظ کہنا یا انہیں ماننا وہ شرک وکفر سمجھتے ہیں۔ دلیل کے طور پر یہ آیت{ وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ فَإنَّہُ مِنْہُمْ} ہمیشہ ان کے پیش نظررہتی ہے۔

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 
Top