• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل بدعت مکفرہ کو اہل قبلہ میں شامل کرنا درست نہیں ۔۔ اہلسنت کا منہج تعامل

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اہل بدعت مکفرہ کو اہل قبلہ میں شامل کرنا درست نہیں
سیدنا ابو ہریرہ؄ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوا ۔ سیدنا ابو بکر؄ خلیفہ بنے اور عرب کے کچھ قبائل مرتدہوگئے'تو سیدنا عمر؄ نے ابوبکر؄ سے کہا :آپ کس طرح لوگوں سے قتال کریں گے جب کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہوا ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہیں ۔جس نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لیا اس نے اسلام کے حق کے علاوہ مجھ سے اپنی جان اور اپنا مال بچا لیا،اور اس کا حساب لینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے ۔''

ابو بکر؄ نے جواب دیا :اللہ کی قسم زکوٰۃ مال کا حق ہے '۔جس نے نماز اور زکوٰۃ کے مابین فرق کیا میں اس سے ضرور لڑوں گا ۔ اگر وہ مجھے ایک رسی کا ٹکڑا دینے سے انکار کر دیں گے جو وہ رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے 'تو میں اس کے انکار پر بھی ان سے لڑوں گا۔ عمر؄ کہتے ہیں :اس سے مجھے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ابو بکر؄ کا سینہ قتال کے لیے کھول دیا ہے 'اور یہی حق ہے ۔''(صحیح بخاری :۶۹۲۵،۶۹۲۴)
اس حدیث سے ثابت ہوا کلمہ پڑھ کر کفراکبر کرنے والے اہل قبلہ میں سے نہیں بلکہ وہ مرتدشمار ہوں گے ۔اسی لیے امام بخاری اس حدیث کو کتاب ﴿ استتابۃِ المرتدین والمعاندین وقتالھم ﴾ اور باب ﴿ قتل من ابی قبول الفرائض ،وما نسبوا الی الردۃ﴾ کے تحت لائے ہیں :

اسی طرح پہلی اور دوسری صدی ہجری کے امام ابو عبید القاسم بن سلام  (جو بڑے بڑے ائمہ کے شاگردہیں جیسے سفیان بن عیینۃ ،یزید بن ھارون ،یحیی بن سعید القطان وغیرہم ) اپنی کتاب ''کتاب الایمان ومعالمہ ،وسننہ ،واستکمالہ ، ودرجاتہ '' (جس کی تحقیق و تخریج علامہ ناصر الدین البانی  نے کی ہے) میں لکھتے ہیں کہ اُن کے خلاف جہاد مشرکین مکہ کے خلاف جہاد جیسا تھا کیونکہ خون بہانے ،اُن کی اولاد کو غلام اور لونڈی بنانے اور اُن کے مال کو مال غنیمت قرار دینے میں فرق نہیں کیا گیا :
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
''فلو أنھم ممتنعون من الزکاۃ عند الاقرار وأعطوہ ذلک بالألسنۃ ، وأقامو الصلاۃ غیر أنھم ممتنعون من الزکاۃ کان ذلک مزیلاً لما قبلہ ، ونا قضاً لأقرار والصلاۃ کما کان اِباء الصلاۃ ِقبل ذلک ناقضاً لما تقدم من الأقرار ،والمصدق لھذا جھاد ابي بکر بالمھاجرین والأنصار علی منع العرب الزکاۃ ،کجھاد رسول اللہ ﷺ أھل الشرک سواء ،لا فرق بینھما في سفک الدماء وسبي الذریۃ واغتنام المال ،فانما کانوا مانعین لھا غیر جاحدین بہا'' (کتاب لایمان ومعالمہ ،وسننہ ،واستکمالہ ،ودرجاتہ :ص:۱۲)

فضیلہ الشیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں :

''آگے بڑھنے سے پہلے یہ دیکھیے کہ یہ جو بعض حضرات نے فرمایا ہے ،یعنی دوسری رائے، کہ سب اہل قبلہ مسلمان ہیں کسی کو کا فر نہیں کہنا چاہیے ۔یہ حضرات عموماً امام ابوحنیفہ کا ایک معروف قول پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ہے :'' لا نکفر اہل القبلۃ''اس کے متعلق سیدنا انس؄ کی روایت سے بھی سہارا لیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:'' من صلی صلاتنا واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذلک مسلم'' (بخاری:۳۹۱)

'' کہ جو ہمارے طریقے پر نماز پڑھتا ہے ،ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرتا ہے ، اور ہمارا ذبیحہ کھاتا ہے ، وہ مسلما ن ہے ۔''

حالانکہ شارحین نے لکھا ہے کہ اس سے صرف یہ تین عمل نہیں بلکہ تمام شعائر اسلام مراد ہیں اور تین کا ذکر اس لیے ہے کہ یہ شعائر اسلام میں پیش پیش اور عام ہیں اور آسان طریقے کے ساتھ دوسرے ادیان سے امتیاز کا باعث ہیں۔ کہ اہل اسلام کے علاوہ کوئی بھی نہ مسلمانوں کی طرح نماز پڑھتے ہیں نہ ہمارا قبلہ مانتے ہیں ،نہ ہمارا ذبیحہ قبول کرتے ہیں۔اس کا یہ مقصد تو قطعاً نہیں کہ جو ان تین باتوں پر عمل پیرا ہو وہ مسلمان ہے اگرچہ وہ کسی نبی کا انکار کر دے، اسے سب و شتم کا نشانہ بنائے ،قرآن پاک کی آیات کا انکار کرے، زکوٰۃ دینے سے انکار کر دے،یا دعویٰ نبوت ہی کر دے،یا قرآن پاک میں تحریف کا قائل ہو یا ایمان کے لیے تیسری شہادت کو بھی لازمی اور ضروری قرار دے۔سیدنا ابو بکر صدیق؄ کا مانعین زکاۃ کے خلاف جہاد کا فیصلہ اس پر برہان ہے۔صرف زکاۃ کا انکار تھا جبکہ نہ انہوں نے نماز کا انکار کیا نہ ہی کسی اور قبلہ کو انہوں نے اپنا قبلہ بنایا، اور نہ ہی مسلمانوں کے ذبیحہ سے انحراف کیا۔ اس لیے اس حدیث سے یہ سمجھنا کہ جو ان تین باتوں کا معترف ہے ، وہ مسلمان ہے کافر نہیں ہو سکتا قطعاً غلط ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اہل قبلہ ایک خالص دینی اور علمی اصطلاح ہے جس کی تفصیل عقائد اور فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔

چنانچہ علامہ ملاعلی قاری لکھتے ہیں'' اعلم ان المراد باھل القبلۃ الذین اتفقوا علی ما ھو من ضروریات الدین۔''
''کہ تمہیں یہ بات خو ب جان لینی چاہیے کہ اہل قبلہ سے وہ لوگ مراد ہیں جو تمام ضروریات دین پر متفق ہیں۔''(شرح الفقہ الاکبر،ص ۱۵۴)

اسی طرح علامہ طحاوی کھتے ہیں:
ونسمی اھل قبلتنا مسلمین مومنین ما داموا بما جاء بہ النبی ﷺ معترفین ولہ بکل ما قالہ وأخبر مصدقین'''' ہم اہل قبلہ کو مسلمان و مومن کہیں گے جب وہ ہر اس چیز کا اعتراف کریں گے جو نبی کریم ﷺ لائے ہیں اور جو کچھ آپ نے فرمایا ہے اور جو آپ نے خبر دی ہے اس کی تصدیق کریں۔ گویا آپ کی کامل تصدیق اور تعمیل کا نام ایمان و اسلام ہے اور یہی اہل قبلہ سے مراد ہے ۔(عقیدہ طحاویہ مع شرح،ص:۳۱۳)

علامہ ملا علی قاری  مزید لکھتے ہیں:

''ولا یکفی ان المراد بقول علمائنا:'' لانجوّز تکفیر اھل القبلۃ بذنب'' لیس مجرد التوجہ الی القبلۃ،فان الغلاۃ من الروافض الذین یدّعون أن جبریل ؈ غلط فی الوحی فان اللہ تعالیٰ أرسلہ الی علی؄ وبعضہم قالوا:'' انہ الٰہ'' وان صلو الی القبلۃ لیسوا بمؤمنین ھذا ھو المراد بقولہ ﷺ من صلی صلاتنا واستقبل قبلتنا ...''
ہمارے علماء کے قول '' ہم اہل قبلہ کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر کہنا جائز نہیں سمجھتے'' سے صرف قبلہ کی طرف منہ کرنا، مراد لینا کافی نہیں۔روافض میں ایسے غالی بھی ہیں جو اس بات کے مدعی ہیں کہ جبرائیل امین ؈ نے وحی لانے میں غلطی کی، اللہ تعالیٰ نے انہیں رسالت کے لیے سیدنا علی؄ کی طرف بھیجا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ سیدنا علی؄ معبود ہیں ،یہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھیں تب بھی مومن نہیں۔

اور رسول اللہ ﷺ کے فرمان: من صلی صلاتنا واستقبل قبلتنا سے یہ مراد نہیں ہے ۔لہٰذا مطلقا اہل قبلہ سے تکفیر کی نفی قطعا صحیح نہیں۔(شرح الفقہ الاکبر ،ص:۱۶۲)

علامہ ابن ہمام  لکھتے ہیں:'' الاتفاق علی ان ما کان من اصول الدین وضروریاتہ یکفر المخالف فیہ''
'' اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص اصول دین اور ضروریات دین کی مخالفت کرتا ہے اس کی تکفیر کی جائے گی۔''(مسائرہ،ج:۲،ص:۲۱۲).....

علامہ ابن دقیق العیدرقم طراز ہیں:
''والحق انہ لا یکفر احد من اہل القبلۃ الا بانکار متواتر من الشریعۃ عن صاحبھا فانہ حینئذ یکون مکذبا للشرع......الخ۔''
حق بات یہ ہے کہ کسی اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کی جا سکتی تاوقتیکہ وہ کسی ایسی چیز کا انکار نہ کرے جو تواتر کے ساتھ صاحب شریعت (محمد رسول اللہ ﷺ) سے ثابت ہو ، کیونکہ اس صورت میں وہ شرع کی تکذیب کرنے والا ہو گا۔(احکام الاحکام ج۲،ص،۸۲)

اسی قسم کی وضاحت دیگر علماء کرام نے بھی کی ہے مگر یہاں استیعاب مقصود نہیں۔صرف ضرورۃً مسئلہ کی وضاحت مطلو ب ہے کہ اہل قبلہ سے کیا اور کون مراد ہیں۔'' (مقالات تربیت،ص:۱۸۷ تا ۱۸۹)
 
Top