• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل بدعت کی اس غلط تأویل کا جواب مطلوب ہے؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
صاحب نے پہلے جو مدعا اٹھایا تھا وہ تھا، علم الغیب کے حوالہ سے، جس پر ہم نے درج ذیل آیت کے سرخ رنگ میں ملون حصہ سے ان کے دعوی کی نفی کی تھی؛

قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (سورة الأعراف 188)
کہہ دو میں اپنی ذات کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں مگرجو الله چاہے اور اگر میں غیب کی بات جان سکتا تو بہت کچھ بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے تکلیف نہ پہنچتی میں تو محض ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان دار ہیں۔ (ترجمہ احمد علی لاہوری)
تم فرماؤ میں اپنی جان کے بھلے برے کا خودمختار نہیں مگر جو اللہ چاہے
اور اگر میں غیب جان لیا کرتا تو یوں ہوتا کہ میں نے بہت بھلائی جمع کرلی، اور مجھے کوئی برائی نہ پہنچی میں تو یہی ڈر اور خوشی سنانے والا ہوں انہیں جو ایمان رکھتے ہیں، (ترجمہ احمد رضا خان بریلوی)

تو اب صاحب نے علم الغیب کی بحث کو چھوڑ کر مالک ومختار کی بحث شروع کردی!
اور اوپر سے یہ بھی کہہ دیا کہ
''اس موقع پر ہمارے خلاف اس آیت کو پیش کرنا مسلک اہل سنت سے ناواقفیت یا عدم امتیاز مسلک کی بنا پر ہے''
حالآنکہ ہم نے تو علم الغیب کے حوالہ سے عطائی اور ذاتی دونوں اعتبار سے اسی آیت سے دلیل دی تھی!
اور اب صاحب مالک ومختار کے حوالہ سے فرماتے ہیں، کہ ہمیں ان کے مسلک سے واقفیت نہیں!
حالانکہ معلوم تو یہ ہوتا ہے کہ صاحب کوملکیت واختیار کے حوالہ سے بریلویہ کا عقیدہ یہ نہیں، فرقہ بریلویہ کا ''مالک کل ومختارکل'' کا عقیدہ نہیں معلوم، یا ممکن ہے بھول گئے ہوں، یا شاید جان کر چھپا رہے ہوں!

بہر حال ہم اس آیت میں ملکیت واختیار کی وضاحت بھی کر دیتے ہیں؛
صاحب نے یہاں ''الا ما شاء الله'' سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مالک ومختار کا اثبات کیا ہے!
اس بات سے قطعی انکار نہیں، بلکہ ہمارا یہی عقیدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت واختیار اتنا ہی ہے جو اس آیت میں مذکور ''الا ما شاء الله'' کے تحت ہے!
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر کی کوئی ملکیت واختیار نہیں؟
اور اگر ہے تو کیا وہ ''الا ماشاء اللہ'' کے علاوہ ہے؟
قطعی نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر کی ملکیت واختیار بھی ''الا ماشاء اللہ'' کے تحت ہی ہے!
اور یہ اللہ نے کسی کو کم کسی کو زیادہ عطاء فرمائی!
ملکیت کی تعریف دیکھیئے:
کتب لغت میں لفظ ملک کا معنی ''کسی چیز پرقبضہ اورحق تصر ف ہے''۔
ابن درید کاقول ہے:

والمِلْك: مَا يحويه الإنسانُ من مَاله، فَكَأَن المِلْك دون المُلْك وكل مُلْكٍ مِلْكٌ وَلَيْسَ كل مِلْكٍ مُلْكاً.
ملکیت: انسان کا جس چیز پر قبضہ ہو، وہ اس کی مال (ملکیت) ہے، پس ملکیت ملک کے
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 981 جلد 02 جمهرة اللغة - أبو بكر محمد بن الحسن بن دريد الأزدي (المتوفى: 321هـ) - دار العلم للملايين، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 169 جلد 03 جمهرة اللغة - أبو بكر محمد بن الحسن بن دريد الأزدي (المتوفى: 321هـ) – مجلس دائرة المعارف الكائنة، حيدر آباد الدكن

ابن سیدہ کاقول ہے:
والمِلْك: احتواء الشَّيْء والقُدرة على الاستبداد بِهِ.
کسی چیز کا قبضہ اور اختیار تصرف ملکیت ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 54 جلد 07 المحكم والمحيط الأعظم - أبو الحسن علي بن إسماعيل بن سيده المرسي (المتوفى: 458هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 44 جلد 07 المحكم والمحيط الأعظم - أبو الحسن علي بن إسماعيل بن سيده المرسي (المتوفى: 458هـ) - معهد المخطوطات بجامعة الدول العربية

اسی معنی میں یہ قرآن میں بھی موجود ہے؛
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ ﴿سورة يس 71﴾
اور کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ ہم نے اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے چوپائے ان کے لیے پیدا کیے تو یہ ان کے مالک ہیں، ﴿ترجمہ: احمد رضا خان بریلوی﴾
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے لیے اپنے ہاتھوں سے چار پائے بنائے جن کے وہ مالک ہیں ﴿ترجمہ: احمد علی لاہوری﴾
کیا وه نہیں دیکھتے کہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لئے چوپائے (بھی) پیدا کر دیئے، جن کے یہ مالک ہوگئے ہیں ﴿ترجمہ: محمد جونا گڑھی﴾


ملکیت کی اصطلاحی تعریف:
شہاب الدین احمد القرافی فرماتے ہیں:

الْمِلْكَ إبَاحَةٌ شَرْعِيَّةٌ فِي عَيْنٍ أَوْ مَنْفَعَةٍ تَقْتَضِي تَمَكُّنَ صَاحِبِهَا مِنْ الِانْتِفَاعِ بِتِلْكَ الْعَيْنِ أَوْ الْمَنْفَعَةِ أَوْ أَخْذَ الْعِوَضِ عَنْهُمَا مِنْ حَيْثُ هِيَ كَذَلِكَ.
ملکیت وہ شرعی جواز ہے جس سے انسان کسی چیز کے عین منفعت کا حقدار بن جاتا ہے کہ وہ عین منفعت سے خود مستفید ہو یا اس کا عوض حاصل کرسکے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 347 – جلد 03 الفروق = أنوار البروق في أنواء الفروق - أبو العباس شهاب الدين أحمد بن إدريس بن عبد الرحمن المالكي الشهير بالقرافي (المتوفى: 684هـ) – مؤسسة الرسالة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1009 – جلد 03 الفروق = أنوار البروق في أنواء الفروق - أبو العباس شهاب الدين أحمد بن إدريس بن عبد الرحمن المالكي الشهير بالقرافي (المتوفى: 684هـ) – دار السلام، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 364 – جلد 03 الفروق = أنوار البروق في أنواء الفروق - أبو العباس شهاب الدين أحمد بن إدريس بن عبد الرحمن المالكي الشهير بالقرافي (المتوفى: 684هـ) – دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 232 – جلد 03 الفروق = أنوار البروق في أنواء الفروق - أبو العباس شهاب الدين أحمد بن إدريس بن عبد الرحمن المالكي الشهير بالقرافي (المتوفى: 684هـ) - وزارة الأوقاف السعودية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 232 – جلد 03 الفروق = أنوار البروق في أنواء الفروق - أبو العباس شهاب الدين أحمد بن إدريس بن عبد الرحمن المالكي الشهير بالقرافي (المتوفى: 684هـ) - وزارة الأوقاف السعودية

كمال الدین ابن الھمام حنفی فرماتے ہیں:
فَالْمِلْكُ هُوَ قُدْرَةٌ يُثْبِتُهَا الشَّارِعُ ابْتِدَاءً عَلَى التَّصَرُّفِ فَخَرَجَ نَحْوُ الْوَكِيلِ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 230 جلد 06 شرح فتح القدير على الهداية شرح بداية المبتدي - كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 74 جلد 05 شرح فتح القدير على الهداية شرح بداية المبتدي - كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861هـ) - وزارة الأوقاف السعودية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 74 جلد 05 شرح فتح القدير على الهداية شرح بداية المبتدي - كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861هـ) – الأميرية، مصر

اسی کو ابن نجیم مصری حنفی کچھ تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں:
قَالَ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ: الْمِلْكُ قُدْرَةٌ يُثْبِتُهَا الشَّارِعُ ابْتِدَاءً عَلَى التَّصَرُّفِ، فَخَرَجَ نَحْوُ الْوَكِيلِ (انْتَهَى).
وَيَنْبَغِي أَنْ يُقَالَ: إلَّا لِمَانِعٍ كَالْمَحْجُورِ عَلَيْهِ فَإِنَّهُ مَالِكٌ وَلَا قُدْرَةَ لَهُ عَلَى التَّصَرُّفِ، وَالْمَبِيعُ الْمَنْقُولُ مَمْلُوكٌ لِلْمُشْتَرِي وَلَا قُدْرَةَ لَهُ عَلَى بَيْعِهِ قَبْلَ قَبْضِهِ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 299 جلد 01 الْأَشْبَاهُ وَالنَّظَائِرُ عَلَى مَذْهَبِ أَبِيْ حَنِيْفَةَ النُّعْمَانِ - زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 411 جلد 01 الْأَشْبَاهُ وَالنَّظَائِرُ عَلَى مَذْهَبِ أَبِيْ حَنِيْفَةَ النُّعْمَانِ - زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

فرقہ بریلویہ کے حکیم الامت احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مالک دوجہاں ہونے کا نہ تو یہ مطلب ہے کہ رب تعالیٰ کسی چیز کا مالک نہ رہا اور نہ یہ مطلب کہ حضور علیہ السلام رب تعالیٰ کی مثل ہیں۔ جس سے لازم آجائے کہ عالم کے دو مستقل مالک ہیں۔ بلکہ رب تعالیٰ کی ملکیت حقیقی قدیم اور ازلی وابدی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ملکیت عطائی اور حادث ہے جیسے دنیوی بادشاہ اپنی سلطنت کے مالک ہم لوگ اپنے گھر بار کے مالک ہیں حضرت سیلمان روئے زمین کے مالک ہوئے اس کا مطلب یہ نہیں کہ رب تعالیٰ ان چیزوں کا مالک نہ رہا بلکہ وہ حقیقی مالک ہے ہم مجازی اس کی ملکیت فانی ہے ہماری عطائی ہے۔ اسی طرح حضور علیہ السلام کی ملکیت خدا تعالیٰ کی نسبت سے ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 15 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی - ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 18 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی – مکتبہ اسلامیہ، لاہور

اب دیکھتے ہیں کہ فرقہ بریلویہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مالک ومختار ہونے سے متعلق کیا عقیدہ ہے:
فرقہ بریلویہ کے حکیم الامت احمد یار کان نعیمی فرماتے ہیں:

یعنی دائمی اور حقیقی ملکیت رب تعالیٰ کی ہے اس کے بعض بندے مجازی عارضی مالک ہیں، جیسے ہم اپنے گھر کے بادشاہ تمام ملک کا، حضور ساری خدائی کے مالک۔ رب فرماتا ہے۔ انا اعطيناك الكوثر
ملاحظہ فرمائیں صفحہ 790 (حاشیہ 01، آيۃ 85 سورۃ الدخان) تفسیر نور العرفان علی کنز الایمان – احمد یار خان نعیمی – نعیمی کتب خانہ، گجرات - پاکستان

بدر الدین احمد قادری رضوی فرقہ بریلویہ کے بانی احمد رضا خان بریلوی کی سوانح میں فرماتے ہیں:
حضرت مولانا شاہ کرامت اللہ خانصاحب نے 21 جمادی الاخرہ 1311 ہجری مطابق 21 دسمبر 1893 عیسوی کو دہلی سے اعلیٰحضرت کی خدمت بابرکت میں استفتاء بھیجا آپ نے اس کے استفتاء کا جواب دیتے ہوئے رسالہ مبارکہ ''الامن والعلیٰ'' تحریر کیا جس میں آیات واحادیث سے چمکتے ہوئے موتیوں کی طرح مندرجہ ذیل باتیں روشن طور پر ثابت فرمائیں۔
اللہ ورسول جل جلالہ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دولت مند کردیا اللہ ورسول نگہبان ہیں۔ اللہ ورسول بے والیوں کے والی ہیں۔ اللہ ورسول مالوں کے مالک ہیں، اللہ ورسول زمین کے مالک ہیں۔ اللہ ورسول کی طرف توبہ اللہ ورسول کی دہائی اللہ ورسول دینے والے ہیں۔ اللہ ورسول سے دینے کی توقع اللہ ورسول نے نعمت دی اللہ ورسول نے عزت بخشی (جل جلالہ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی امت کے حافظ ونگہبان ہیں حضور کی طرف سب کے ہاتھ پھیلے ہیں حضور کے آگے سب گڑگڑا رہے ہیں۔ حضور ساری زمین کے مالک ہیں۔ حجور سب آدمیوں کے مالک ہیں حضور تمام امتیوں کے مالک ہیں۔ دنیا کی ساری مخلوق حضور کے قبضہ میں ہے مدد کی کنجیاں حضور کے ہاتھ میں ہیں۔ نفع کی کنجیاں حضور کے ہاتھ میں ہیں۔ جنت کی کنجیاں حضور کے ہاتھ میں ہیں دوزخ کی کنجیاں حضور کے ہاتھ میں ہیں۔ آخرت میں عزت دنیا حضور کے ہاتھ ہے قیامت میں کل اختیار حضور کے ہاتھ ہے حضور مصیبتوں کے دور فرمانے والے حضور سختیوں کے ٹالنے والے ابو بکر صدیق اور عمر فاروق حضور کے بندے حضور کے خادم رزق آسان کرتے ہیں۔ حضور کے خادم بلائیں ہٹاتے ہیں حضور کے خادم بلندی مرتبہ دیتے ہیں۔ حضور کے خادم تمام کاروبار عالم کی تدبیر کرتے ہیں۔ اولیاء کے سبب بلا دور ہوتی ہے اولیاء کے سبب روزی ملتی ہے۔ اولیاء کے سبب مدد ملتی ہے اولیاء کے سبب بارش ہوری ہے۔ اولیاء کے سبب زمین قائم ہے۔
یہ اور ان سب جیسی بیسیوں باتیں آپ نے قرآن وحدیث سے لکھی ہیں چونکہ یہ سب باتیں کتاب وسنت سے ثابت ہوئی ہیں۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 206 – 207 سوانح امام احمد رضا خان – بدر الدین احمد قادری رضوی – مکتبہ نوریہ رضویہ، سکھر
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 199 – 200 سوانح امام احمد رضا خان (سوانح اعلیٰحضرت) – بدر الدین احمد قادری رضوی – دار لعلوم بدر ملت

فرقہ بریلویہ کے حکیم الامت مزید فرماتے ہیں:
سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم بحکم پروردگار کونین کے مالک ومختار ہیں زمان کے مالک آسمان کے مالک، اپنے رب کی عطا سے حجیم کے مالک جہاں کے مالک، رب کے احکام کے مالک، انعام کے مالک ؂
خالق کل نے آپ کو مالکِ کل بنا دیا!
دونوں جہاں ہیں آپ کے قبضۂ اختیار میں
جس کو چاہیں اپنے رب کی عطا سے عطا فرمادیں جس کو جس سے محروم کردیں۔ اور جس کے لئے جو چاہیں حلال فرما دیں اور جو چاہیں حرام۔ غرضیکہ دونوں جہاں کے شہنشاہ کونین کے مالک ومولیٰ ہیں ؂
حکم نافظ ہے ترا سیف تری خامۂ ترا
دم میں جو چاہیں کرے دَور ہے شاہا تیرا

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 14 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی - ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 17 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی – مکتبہ اسلامیہ، لاہور

حضور مالک احکام ہیں اور کوئی عبادت بارگاہ الہٰی میں اسوقت تک قبول نہیں جب تک حضور علیہ السلام اس کو پسند نہ فرمائیں۔ اور حضور علیہ السلام حرام وحلال کے مالک ومختار ہیں۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 17 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی - ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 21 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی – مکتبہ اسلامیہ، لاہور

حضور کونین کے مالک ہیں دو وجہ سے ایک تو اس لئے کہ مرنے کے بعد کسی کا ایمان قبول نہیں ہوتا اور وقت کے بعد نماز ادا نہیں سوسکتی۔ مگر اس سلطان کی حکومت کے صدقہ دقربان کہ اپنے ماں باپ کو ان کی وفات کے بعد ایمان دے کر انہیں صحابی بنا دیا۔ اور رب نے قبول فرمالیا اور علی کی گئی ہوئی نماز ادا کرادی اور پھر لطف یہ کہ حضرت علی کے سوا جن لوگوں نے نماز عصر پہلے پڑھ لی تھی ان سے اعادہ نہ کرایا گیا۔ یہ ایک ہی وقت حضرت علی کے لئے عصر ہے۔ اور دُوسروں کے لئے نہیں۔
هكذا في الشامي في هذا المقام.
مصطفےٰ تیری شوکت پہ لاکھوں سلام
دُوسرے اس لئے کہ آفتاب آسمان پر رہتا ہے اور مُردوں کی رُوح عالم کی ایک چڑیا ہے مگر حضور کی بادشاہت ان پر بھی جاری ہے کہ ادھر سے اشارہ ہوا ادھر سے اطاعت ہوئی کہ سورج ڈوبا ہوا لوٹا اور والدین کی روح اس عالم سے واپس آئی ؂
اشارے سئ چاند چیر دیا
چھپے ہوئے خورشید کو پھیر دیا
گئے ہوئے دن کو عصر کیا
یہ تاب وتواں تمہارے لئے

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 24 – 25 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی - ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 28 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی – مکتبہ اسلامیہ، لاہور

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور سے رومہ کنوئیں کے بدلے جنت خریدلی اور حضور نے بیچ دی اور جنت وہی بیچے گا جو جنت کا مالک ہو گا یا مالک کا مختار۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 26 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی - ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 30 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی – مکتبہ اسلامیہ، لاہور

حضور صلی اللہ علیہ وسلم احکام کے مالک ہیں جس کے لئے جو چاہیں حلال فرمائیں حرام اور جس کے لئے جو چاہیں قرآنی احکام کو بدل دیں (صلی اللہ علیہ وسلم)

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 27 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی - ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 17 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی – مکتبہ اسلامیہ، لاہور

دنیا وآخرت کی ہر چیز کے مالک حضور ہیں۔ سب کچھ ان سے مانگو عزت مانگو، جنت مانگو، اللہ کی رحمت مانگو۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 34 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی - ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 38 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی – مکتبہ اسلامیہ، لاہور

سارے عالم ملوکت، عالم ارواح، عالم اجسام اور عالم امکان غرضکہ ساری مخلوق میں حضور کی بادشاہی ہے ؂
خالق کل نے آپ کو مالک کُل بنا دیا
دونوں جہاں ہیں آپ کے قبضۂ اختیار میں

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 35 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی - ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 38 - 39 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی – مکتبہ اسلامیہ، لاہور

لفظ محمد کے حرفوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور دونوں جہاں کے ہمیشہ سے مالک ہیں اور رحمت والے مالک ہیں کیونکہ اس میں ایک ح ہے اور ایک دال دو میم ہیں۔ دو میموں سے مراد دونوں ملکوں کی بادشاہت اور دال سے مراد دوام یعنی ہمیشہ کی بادشاہت اور ح سے مراد رحمت یعنی رحمت والی بادشاہت ہے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 37 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی - ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 41 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی – مکتبہ اسلامیہ، لاہور

مکان ولامکاں حضور کے حکم میں ہیں کیونکہ حضور سلطان کونین ہیں اور حضور کو ہر وقت معراج اور عالم بالا کی سیر ہوتی رہتی ہے کہ کبھی خواب میں اور کبھی نماز میں اور کبھی ویسے ہی جنت ودوزخ وغیرہ کو ملاحظہ فرماتے ہیں

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 38 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی - ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 42 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی – مکتبہ اسلامیہ، لاہور

سب کو معلوم ہے کہ موت کے وقت ملک الموت کو دیکھ کر ایمان لانا قبول نہیں اور زندگی میں جس وقت بھی ایمان لائے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرے قبول ہے یعنی مرنے والے کے لیے موت کا وقت توبہ کے دروازے بند ہونے کا ہوتا ہے اور موت سے پہلے یہ دروازہ کھلا ہوا ہے۔ لیکن حضور کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ جس کے لیے چاہیں اس کی زندگی ہی میں توبہ کا دروازہ بند کردیں کہ وہ توبہ کرے اور قبول نہ ہو جس کے لئے چاہیں بعد موت بھی دروازہ کھول دیں اور اس کو زندہ فرما کر مسلمان کر دیں۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 42 - 43 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی - ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 46 - 47 سلطنت مصطفی در مملکت کبریا جلّ وعلا – احمد یار خان نعیمی – مکتبہ اسلامیہ، لاہور

عقیدہ 50: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم، عزوجل کے نائبِ مطلق ہیں، تمام جہان حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے تحتِ تصّرف کردیا گیا، جو چاہیں کریں، جسے جو چاہیں دیں، جس سے جو چاہیں واپس لیں، تمام جہان میں اُن کے حکم کا پھیرنے والا کوئی نہیں، تمام جہان اُن کا محکوم ہے اور اپنے رب کے سوا کسی کے محکوم نہیں، تمام آدمیوں کے مالک ہیں، جو اُنھیں اپنا مالک نہ جانے حلاوتِ سنّت سے محروم رہے، تمام زمین میں اُن کی مِلک ہے، تمام جنت اُن کی جاگیر ہے، ملکوت السٰمواتَ والارض حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زیر فرمان، جنت ونار کی کنجیاں دستِ اقدس میں دیدی گئیں، رزق اور خیر ہر قسم کی عطائیں حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں، دنیا وآخرت حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عطا کا ایک حصہ ہے، احکامِ تشریعیہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قبضہ میں کردیے گئے، کہ جس پر جو چاہیں حرام فرمادیں اور جس کے لیے جو چاہیں حلال کردیں اور جو فرض چاہیں معاف فرما دیں۔

ملاحظہ فرمائیں: بہار شریعت صفحہ 79 – 85 جلد 01 (حصہ الف) – محمد امجد علی اعظمی – مکتبۃ المدینہ، کراچی
کیا ساری باتیں ''الا ماشاء الله'' سے ثابت ہوتی ہیں؟
اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث جو کہ اللہ کی طرف سے وحی ہے، اس پر عمل کرنے اور اس کے موافق عقائد رکھنے کا کہا جاتا ہے، تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ملکیت واختیار کو بھول کر، اور رد کرتے ہوئے حدیث کو قرآن پر زیادتی قرار دیتے ہوئے انکار کر دیتے ہیں، اور نہ ہی تنسیخ وتخصیص قبول کرتے ہیں! کہ خبر واحد ہے، اور اپنے خود ساختہ عقیدہ کے لیئے ضعیف وموضوع روایت بھی ان کے ہاں دلیل بن جاتی ہے!
نوٹ: اہل سنت والجماعت یعنی اہل الحدیث کا یہ مؤقف ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے جو حکم و اختیار و ملکیت حاصل ہے، اس پر ہمارا ایمان ہے، کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے حکم کے مطابق تخصیص ، و تنسیخ وغیرہ فرماتے تھے۔ نہ کہ از خود بلاوحی اپنی خواہش پر!
 
Last edited:
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
در اصل اہل بدعت "مثل " کا مطلب نہیں سمجھتے یا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت سے متعلق ان کو اپنے کسی بھی عقیدہ پر اعتماد و بھروسہ نہیں ہے اسی لئے دیگر عقائد کی طرح اس معاملے میں بھی ان کی باتیں متضاد ہیں ایک زمانہ تھا اہل بدعت نبی کی بشریت کا نام سن کر بھڑک جاتے تھے حالانکہ ان کے امام نے اپنے ایک فتویٰ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مٹی ہونے کی بات بھی کی ہے چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک حدیث کا ترجمہ یہ کیا ہے" میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ایک ہی مٹے سے بنے ہیں (فتاوی افریکہ :100) اور جب اہل حدیث علماء نے ان کی کتابوں سے وہ سب باتیں دکھائیں اور بیان کیں جن کے ذریعے یہ دوسروں کو مورد الزام ٹھہرایا کرتے تھے تو ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا لیکن شیطان کی طرح اعتراف کی بجائے غرور و تکبر اور نفرت کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے اور اس کے لئے جاہل عوام کو بہلانے کے لیے ایک جھوٹ اہل حدیثوں کی طرف خود بنایا اور اس کی بنیاد پر نفرت پھیلانے لگے اور وہ جھوٹ ہے کہ اہل حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جیسا بشر کہتے ہیں (اور ان کے یہاں "جیسا" کا ایک خاص مفہوم ہے جس سے اہل حدیث بری ہیں) جبکہ معاملہ یہ کہ اہل حدیث کے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان ہیں ورنہ درجات اور تخلیق میں کوئی بھی انسان کسی دوسرے کے مشابہ نہیں ہوتا ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان کی انگلیوں کے نشانات دوسرے انسان سے الگ ہوتے ہیں اور درجات کا بھی یہی معاملہ ہے انبیاء سے بہتر کوئی مخلوق نہیں اور انبیاء میں بھی درجات کا تفاوت ہے آخری نبی سب سے افضل ہیں
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
انسان کو جو کچھ بھی ملا ہے سب اللہ کی عطا ہے اس کا ذاتی کچھ بھی نہیں اور یہ ایسی حقیقت ہے جس کا انکار کوئی بھی عقل مند نہیں کر سکتا جب یہ بات سمجھ میں آگئی تو ایک بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگر انسان سے کسی چیز کی نفی اللہ کرتا ہے تو اس سے نفی عطا کی ہی ہوگی ذاتی کی نہیں کیوں کہ ذاتی تو اس کا کچھ ہے ہی نہیں اس لئے اہل بدعت کا ذاتی اور عطائی کی تقسیم کرنا بالکل غلط ہے اہل بدعت سے گذارش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات وغیرہ کی فہرست تیار کریں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے عطاء کے بغیر ذاتی طور پر حاصل ہے؟
 
Top