• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل بدعت کے شبہات کا رد

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پہلا سبب
پہلی چیز جو مجھ کو مجدد الف ثانی کے وقت سے شاہ صاحب اور انکے خلفاء تک کے تجدیدی کام میں کھٹکی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے تصوف کے بارے میں مسلمانوں کی بیماری کا پوار اندازہ نہیں لگایا اور نادانستہ ان کو پھر وہی غذا دے دی جس سے مکمل پرہیز کرنے کی ضرورت تھی۔ حاشا کہ مجھے فی نفسہ اس تصوف پر اعتراض نہیں ہے جو ان حضرات نے پیش کیا وہ بجائے خود اپنی روح کے اعتبار سے اسلام کا اصلی تصوف ہے اور اس کی نوعیت احسان سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ لیکن جس چیز کو میں لائق پرہیز کہہ رہا ہوں وہ متصوفانہ رموز و اشارات اور متصوفانہ طریقہ سے مشابہت رکھنے والے طریقوں کو جاری رکھنا یہ ظاہر ہے کہ حقیقی اسلامی تصوف اس خاص قالب کو محتاج نہیں ہے اس کے لیے دوسرا قالب بھی ممکن ہے اس کے لیے زبان بھی دوسری اختیار کی جاسکتی ہے۔ رموز و اشارات سے بھی اجتناب کیا جاسکتا ہے۔ پیری مریدی اور اس سلسلے کی تمام عملی شکلوں کو بھی چھوڑ کر دوسری شکلیں اختیار کی جاسکتی ہیں پھر کیا ضرورت ہے اس پرانے قالب کو اختیار کرنے پر اصرار کیا جائے جس میں مدتہائے دراز سے جاہلی تصوف کی گرم بازاری ہورہی ہے اسکی کثرت اشاعت نے مسلمانوں کو جن سخت اعتقادی و اخلاقی بیماریوں میں مبتلا کیا ہے وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اب حال یہ ہوچکا ہے کہ ایک شخص خواہ کتنی بھی تعلیم دے بہرحال یہ قالب استعمال کرتے ہی وہ تمام بیماریاں پھر عود کر آتی ہیں جو صدیوں کے رواج عام سے اسکے ساتھ وابستہ ہوگئی ہیں۔
پس جس طرح پانی جیسی حلال چیز بھی اس وقت ممنوع ہوجاتی ہے جب وہ مریض کے لیے نقصان دہ ہو اسی طرح یہ قالب بھی مباح ہونے کے باوجود اس بناء پر قطعی چھوڑ دینے کے قابل ہوگیا ہے اس کے لباس میں مسلمانوں کو افیون کا چسکا لگا گیا ہے اور اس کے قریب جاتے ہی ان مزمن مریضوں کو پھر وہی چینا بیگم یاد آجاتی ہے جو صدیوں ان کو تھپک تھپک سلاتی رہی ہیں بیعت کا معاملہ پیش آنے کے بعد کچھ دیر نہیں لگتی کہ مریدوں میں وہ ذہنیت پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہے جو مریدی کے ساتھ مختص ہوچکی ہے یعنی سجادہ رنگین کن گرتے پیر مغاں کوید۔ والی ذہنیت جس کے بعد پیر صاحب میں اور اربان من دون اللہ میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ فکرونظر مفلوج قوت تنقید ماوف علم وعقل کا استعمال موقوف اور دل و دماغ پر بندی شیخ کا ایسا مکمل تسلط کہ گویا شیخ ان کا رب ہے اور یہ اس کے مربوب پھر جہاں کشف و الہام کی بات شروع ہوئی معتقدین کی ذہنی غلامی کے بند اور زیادہ مضبوط ہونے شروع ہوجاتے ہیں اس کے بعد صوفیانہ رموز و اشارات کی باری آتی ہے جس سے مریدوں کی قوت واہمہ کو گو تازیانہ لگ جاتا ہے اور وہ انہیں لے کر ایسی اڑتی ہے کے بے چارے ہر وقت عجائبات و طلسمات ہی کے عالم میں سیر کرتے رہتے ہیں واقعات کی دنیا ٹہرنے کا موقع غریبوں کو کم ملتا ہے۔ مسلمانوں کے اس مرض سے نہ حضرت مجدد ناواقف تھے نہ شاہ صاحب دونوں کے کلام میں اس پر تنقید موجود ہے مگر غالبا اس مرض کی شدت کا انہیں پورا اندازہ نہ تھا یہی وجہ ہے کہ دونوں بزرگوں نے ان بیماروں کو پھر وہی غذا دے دی جو اس میں مہلک ثابت ہوچکی تھی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ دونوں کا حلقہ پھر اسی پرانے مرض سے متاثر ہوتا چلا گیا اگرچہ مولانا اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ کر وہی روش اختیار کی جو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کی تھی لیکن شاہ ولی اللہ کے لٹریچر میں تو یہ سامان موجود ہی نہ تھا جس کا اشارہ شاہ اسماعیل شہید کی تحریروں میں بھی باقی رہا اور پیری مریدی کا سلسلہ بھی سید صاحب کی تحریک میں چل رہا تھا اس لیے مرض صوفیت کے جراثیم سے یہ تحریک پاک نہ رہ سکی حتی کہ سید صاحب کی شہادت کے بعد ہی ایک گروہ وہ ان کے حلقہ میں ایسا پیدا ہو گیا جو شیعوں کی طرح ان کی غیبوبیت کا قائل ہوا اور اب تک ان کے ظہور ثانی کا منتظر ہے۔
اب جس کسی کو تجدید دین کے لیے کام کرنا ہو اس کے لیے لازم ہے کہ متصوفین کی زبان و اصطلاحات سے رموز و اشارات سے لباس و اطوار سے پیری مریدی سے اور ہر اس چیز سے جو اس طریقہ کی یاد تازہ کرنے والی ہو مسلمانوں کو اس طرح پرہیز کرئے جیسے ذیابطیس کے مریض کو شکر سے پرہیز کرایا جاتا ہے۔ (تجدید و احیائے دین ص 114-122 ملخص)۔
اہل تصوف جو خود کو اہل حقیقت کہتے ہیں انکی اور اہل حق کی یہ چپقلش تا حال جاری ہے اس سلسلہ کی ایک کڑی پیش نظر کتاب:انسانی عظمت کی حقیقت، ہے یہ دراصل علامہ سید بدیع الدین شاہ صاحب رحمہ اللہ کا لکھا ہوا مقدمہ ہے اسکی تفصیل کچھ یوں ہے کہ مولوی عبدالکریم بیر شریف کی ایک متصوفانہ تقریر بزبان سندھی انسان کی عظمت تھی اس کا جواب ایک حنفی المسلک جناب محمد حیات لاشاری صاحب نے لکھا اور اس پر شاہ صاحب سے مقدمہ لکھوایا ( بعد میں لاشاری صاحب اہلحدیث ہوگئے) لاشاری صاحب کی اصل کتاب تو کسی وجہ سے مفقود ہو گئی مگر شاہ صاحب رحمہ اللہ کا تحریر کردہ مقدمہ علیحدہ مسودہ کی صورت میں موجود رہا جسے سندھی زبان میں شائع کرایا گیا اور علماء نے اسے قبول عام بخشا موضوع اور کتاب کی افادیت کے پیش نظر والدارالرشیدیہ نے اپنی شاندار روایات کے مطابق اسکو اردو میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا ترجمہ کی اہم ذمہ داری حافظ عبدالحمید گوندل صاحب نے احتیاط سے بحسن و خوبی نبھائی ہے راقم کو مقدمہ لکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی چونکہ شاہ صاحب رحمہ اللہ کا انداز نہایت علمہ ہوتا ہے اسلیے عوام الناس ان کی کتب سے کما حقہ استفادہ کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اسلیے راقم نے حتی الوسع موضوع کو عوام الناس کے لیے آسان فہم بنانے کی غرض سے تفصیلی مقدمہ لکھا ہے اگرچہ تصوف کی تردید و تحقیق پر مزید کام ہونا چاہیے اور ان شاء اللہ علمائے حق کرتے رہیں گے یہ کتاب اس سلسلہ کی اہم کڑی ہے امید ہے کہ اہل حق عوام اس سے استفادہ کریں گے مزید تحقیق و تنقید کے لیے کتاب "انسانی عظمت کی حقیقت" ایک سنگ میل کا کردار ادا کرے گی ان شاء اللہ۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ مصنف رحمہ اللہ کی اعلی مترجم، ناشر اور راقم کی ادنی سی کوششوں کو اپنے دربار میں قبول فرمائے اور تمام معاونین کیلیے ذریعہ نجات اخروی بنائے۔ آمین۔
عبدالعظیم حسن زئی​
استاد جامعہ ستاریہ اسلامیہ کراچی​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مقدمۃ المولف
الحمد للہ تعالی شانہ کما وصفہ العادلون۔ ھو الواحد الاحد الذی علا کل شئ وقھرہ وکل لدیہ داخرون۔ یحمدہ کل شئ ویسبح بہ ویسجد وکل لہ قانتون۔ یسبح الرعد بحمدہ والملئکۃ من خیفتہ لا احصی ثناء علیہ ھو کما اثنی علی نفسہ لا کما توھم لہ الملحدون الماکرون۔ ھو علی عرشہ والقاھر فوق عبدہ لہ نومن و نسجد والیہ نحفد وعلیہ نتوکل وندعوہ ونحن لہ عابدون۔ یھلک من یشاء ویبقی من یشاء الی ما یشاء بامرہ وقدرتہ و رادتہ وحکمتہ لا کما وھمہ المارقون الظانون۔ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ولا مثیل لہ ولو کرہ الکافرون۔ و نشھد ان افضل الخلق محمد عبدہ ورسولہ اتانا بالحق الذی انزل الیہ من فوق وسبع سموات نزل بہ الروح الامین والملکئکۃ شاھدون۔ ففتح اللہ بہ اذانا صما واعینا عمیا وقلوبا غلفا فھم علی سبیل الصدق سالکون۔ یومنون کما امروا یقرون بما اخبروا بہ من صفات ربھم بلا تعطیل ولا تکییف ولا تمثیل بل ھم مسلمون لا جاحلون۔ ولا یتبعون الا ھواء التی یوحیھا الشیطن الی اولیاء ھم من التاویلات والھفوات بل ھم عنھا ساکتون۔ اولئک اھل القرون المشھود لھم بالخیر الصحابۃ فاتباعھم والتابعون۔ رضی اللہ عنھم ورضوانہ و من اھتدی بھدیھم واقتفی آثارھم اولئک ھم الفائزون۔ اللھم صل علیہ وسلم وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعہ الی یوم تجمع بین الفریقین فیخسر المبطلون ویفلح الصالحون۔
اما بعد
رسالہ "انسان کی عظمت" کا مضمون قرآن وحدیث اور عقل وفطرت کے خلاف ہے صفحہ 33 پر ایک روایت نقل کی گئی ہے جس کی صحت بذمہ ناقل ہے کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو حالت سجدہ میں تھے اور انگلی اوپر کی جانب اٹھائی ہوئی تھی کہ سجدہ صرف اللہ کے لیے ہے کسی اور کے لیے ہرگز نہیں۔
اگر یہ روایت صحیح سند سے ثابت ہے تو پھر "استواء علی العرش" والے عقیدے کو فطری کہیں گے کیونکہ ایسا نوزائیدہ بچہ جسے ابھی نہ پڑھایا گیا ہے اور نہ سمجھایا گیا ہے وہ اوپر اشارہ کرتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ اشارہ علی تقریر الثبوت قبل النبوت تھا۔
جبکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
مَا كُنتَ تَدْرِ‌ي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ
(الشوری:52)
"آپ نہ تو یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ہی یہ کہ ایمان کیا ہے"
اس فطری عقیدے کیخلاف یہ ساری تقریر لغو اور لایعنی ہے سچ ہے کہ
دروغ ورا حافظ نہ باشد
سرخیل تابعین امام محمد بن قاسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ان اللہ عزوجل اعاننا علی الکذبین بالنسیان۔
اخرجہ العقیلی فی الضعفاء ص6-7 ج1 قلمی
"اللہ تعالی ان جھوٹوں پر ہماری مدد اس طرح کی ہے کہ ان کا حافظہ نہیں ہوتا"۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رسالہ "انسان کی عظمت" میں مندرجہ ذیل قابل اعتراض باتیں ہیں:
الف: اس پورے رسالے میں اسلام کے خلاف عقیدہ پیش کیا گیا ہے (تفصیلی ذکر بعد میں آئے گا ان شاء اللہ)
ب: اللہ تعالی کے لیے اس کی مخلوق میں سے مثالیں دی گئی ہیں جبکہ حکم یہ ہے کہ:
فَلَا تَضْرِ‌بُوا لِلَّـهِ الْأَمْثَالَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿٧٤﴾ النحل
"لوگو! اللہ کے بارے میں (غلط) مثالیں نہ بناو (صحیح مثالوں کا طریقہ) اللہ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے"۔
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ ﴿١١﴾ الشوری
"اس (اللہ) جیسی کوئی بھی چیز نہیں ہے"۔
یہ آیات مثالوں کی تردید کرتی ہیں اور مثالیں دینے والوں کی تنبہہ کے لیے کافی ہیں۔
ج: اسی رسالے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید مخلوق ہے (نعوذباللہ) ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
د: رسالے میں اللہ تعالی کی صفات کو ایسے طریقے سے معطل رکھا گیا ہے کہ ان کی کیفیت اور تشبیہ لازم آتی ہے یا پھر بالکل بے معنی رہ جاتی ہیں ایسے تمام عقائد ایک دوسرے سے بڑھ کر باطل ہیں۔
ھ: اللہ کی ذاب مقدس کو متجزی مانا گیا ہے یا اس جواز کے لیے حیلہ بنایا گیا ہے۔
و: جاہلانہ طریقے سے قرآن مجید کی آیات کا انکار کیا گیا ہے چنانچہ لکھتا ہے کہ اگر وہ (اللہ) درخت پر نازل ہو تو درخت بولے۔ انی انا اللہ۔۔۔۔۔۔۔الخ ص25
ز: قرآن مجید کی لفظی تحریف کی گئی ہے یہ یہودیوں کی پرانی عادت ہے۔
ح: معنوی تحریف بھی کی گئی ہے مثلا درخت کیسے کہے گا کہ میں خود اللہ ہوں یہ خدشات مقرر کے ذہن میں بھی آئے ہوں گے اس لیے تو اس جملے کا ترجمہ نہیں کیا گیا۔
ط: تمام روایات یا تو موضوع ہیں یا پھر ضعیف۔ یہ اہل علم کا وطیرہ نہیں ہے۔
ف: خصوصا عقائد کے متعلق ان کی اپنی عقیدے کی کتاب میں لکھا ہے:
ان خبر الواحد علی تقدیر اشتمالہ علی جمیع الشرائط المذکور فی اصول الفقہ لا یفید الا الظن ولاعبرۃ بانظن فی باب الاعتقادیات۔ شرح العقائد النسفیۃ:67
اگر خبر واحد ان تمام شروط پر مشتمل ہو جو اصول فقہ میں مذکور ہیں تو ایسی خبر واحد ظن کے سواء کوئی فائدہ نہیں دیتی جبکہ عقائد میں ظن کا کوئی اعتبار ہی نہیں کیا جاتا۔
ک: عکس کی مثال دے کر ختم نبوت کے عقیدے کو ضرب لگائی ہے اور مرزا قادیانی کی جھوٹی بنوت کے لیے چور دروازے کھولے ہیں۔
ل: اللہ تعالی کے بارے میں ایسی باتیں کی گئی ہیں جن کا ثبوت نہ قرآن مجید میں ہے اور نہ ہی احادیث مبارکہ میں۔
ایسی باتیں علم کے بغیر اور ذہنی اختراع سے کہی گئی ہیں یہ تمام حرام کاموں میں سب سے بڑا حرام کام ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
قُلْ إِنَّمَا حَرَّ‌مَ رَ‌بِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ‌ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِ‌كُوا بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٣٣﴾اعراف
کہہ دو کہ میرے پروردگار نے بے حیائی کی باتوں کو چاہے ظاہر ہوں یا پوشیدہ، حرام قرار دیا ہے اور اس کو بھِ کہ تم اللہ کے ساتھ شریک بناو جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس کو بھی حرام قرار دیا ہے کہ تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالی کی صفات مقدسہ میں نقص کا جواز پیدا کیا ہے جو وحدت کو مستلزم ہے۔
سبحانہ وتعالٰی عما تصفون۔
ن: رسالہ پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انسانوں کا وجود بھی لافانی ہے (ص28-29)
اس طرح اللہ تعالی کی وحدانیت کو ختم کیا گیا ہے۔
س: وہاں سے کروڑوں کی تعداد میں نور کی شعاعیں (rays) پھوٹی ہیں وہ شعاعیں انتہائی باریک ذرات پر مشتمل ہوتی ہیں اور وہ ذرے ہم تک پہنچتے پہنچتے فنا ہوجاتے ہیں مگر ان ذرات کے پیچھے ایسی زبردست امداد آرہی ہے کہ ان ذرات کا فنا ہونا محسوس نہیں ہوتا۔ مداروبیان ایسا ہے کہ دہریوں کا عقیدہ معلوم ہوتا ہے۔
وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ‌
اور کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا ہی کی ہے یہیں مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں تو زمانہ مار دیتا ہے
اگر وہ نور کے ذرے فانی ہیں تو پھر ان کو نور کے ذرے کیوں کہتا ہے؟
كَبُرَ‌تْ كَلِمَةً تَخْرُ‌جُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ۚ إِن يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا ﴿الکھف :٥﴾
"بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے اور (اور کچھ شک نہیں کہ) یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ محض جھوٹ ہو"۔
اللہ تعالی کی صفات کو فانی کہنا مسلمانوں کا عقیدہ نہیں ہے۔
ک: اللہ تعالی کی صفات مبارکہ سمع، بصر، کلام وغیرہ کا ہم پر واقع ہونا، ہمارا سننا، دیکھنا اور بات کرنا ہے۔ یہ عقیدہ حلولین کا ہے سلف میں سے کسی مسلمان سے یہ عقیدہ منقول نہیں ہے۔
ص: صفات الہی کی بھی توہین کی گئی ہے کہتا ہے کہ کئی سننے والے کان بری باتیں سنتے ہیں اور کئی آنکھیں ناجائز، حرام اور قبیح منظر دیکھتی ہیں کئی زبانیں جھوٹ بولتی ہیں غیبت کرتی اور گالیاں بکتی ہیں۔
یہ صفات عالیہ کا کمال کہلائیں گی؟ (نعوذ باللہ)
ق: پھر ہماری جو دوسری صفتیں ہیں مثلا کھانا، پینا، بول وبراز، تواد وتناسل، ان کے بارے میں کیا کہیں گے۔
خود کہتا ہے کہ "قدیر کی تجلی نے بدن میں قوت دی" الخ (ص:38)
نعوذ باللہ من ھذہ العقیدہ الخبیثہ
ر: اللہ تعالی کے نور کی شعاعیں زمین پر گر رہی ہیں۔ (ص:38)
پھر دنیا کیسے سلامت ہے کیونکہ قرآن مجید میں ہے:
فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَ‌بُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ‌ مُوسَىٰ صَعِقًا ۚ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ ﴿ الاعراف :١٤٣ ﴾
"جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی ڈالی تو (انوار ربانی نے) اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسی (علیہ السلام) بیہوش ہو کر گر پڑے"۔
اس طرح تو دنیا میں کوئی بھی سلامت نہیں رہے گا نہ مولوی رہے گا اور نہ ہی ایسی تقریریں کرے گا۔
ش: بجلی کی مثال دے کر اللہ تعالی کی شان پر زبردست حملہ کیا گیا ہے (ایضا) لالٹین یا بلب خود کسی کے جلانے کے محتاج ہوتے ہیں اگرچہ ان کے جلنے سے اردگرد روشن ہوجائے کیا یہ مثال خالق کل شئی کے لیے صحیح ہے؟۔
ت: لقائل ان یقول۔ کہ ہمارا وجود ہے اگر یہ ہمیشہ باقی رہے۔۔۔۔۔الخ (ص:37)
تو پھر اللہ تعالی کے نور کی شعائیں گرنے کا کیا فائدہ؟
ث: اور اگر انکے آگے پردہ آ جائے تو پھر ہمارا وجود ختم ہوجائے (ص:37)
اللہ تعالی کی طرف سے آنیوالی روشنی کو کوئی روک سکتا ہے؟ "من یھدی اللہ فلا مضل لہ" کے کیا معنی ہوں گے؟


جاری۔۔۔۔۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
خ: اللہ تعالی کو موجودات کا ٹھکانہ بتایا گیا ہے۔
اس کا معنی مستقر کرو یا منتہی لیکن قرآن اس عقیدے کے خلاف کہتا ہے۔
الی رب یومئذن المستقر، القیامہ 12
"اس روز پروردگار ہی کے پاس ٹھکانہ ہے"۔
ان الی ربک المنتھی، النجم123
"تمہارے پروردگار ہی کے پاس پہنچنا ہے"۔
یعنی اللہ تعالی کے پاس مستقر یا منتہی ہے نہ کہ اللہ خود ہمارا مستقر یا منتہی ہے۔ (معاذاللہ)۔
بہ بین فرق از کجا است تا بکجا​
ذ: کہتا ہے کہ اگر خالق موجودات پر تیری نظر نہ پڑی تو پھر تیری نظر کسی پر نہ پڑی اور تو نے کچھ نہ نہیں دیکھا۔ (ص42)
یہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ بتی اور جو چیزیں اس کی روشنی میں نظر آتی ہیں وہ سب ممکنات اور مرئیات میں سے ہیں اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے فرمایا:
"لن ترانی" پروردگار نے کہا کہ تم مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکتے۔ اور فرمایا:
"ولکن انظر الی الجبل"(الاعراف:123)
"ہاں پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو"
ایک ہی شخص یعنی موسی علیہ السلام پہاڑ کو جو بقول صوفیہ اللہ تعالی ہی کا مظہر ہے دیکھ رہا ہے مگر اللہ تعالی کو نہیں دیکھ سکتا۔
ض: انہ کان ظلوما جھولا کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اس کے بارے میں بتائے کہ ظلوم اورجھول ظرف ہیں یا مظروف؟ یہ آیت مدح کے بیان میں ہے مذمت کے اور یہ کہ کان تامہ ہے یا ناقصہ۔ مولانا کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی تفسیر بصورت تحریف پر نظر ثانی کریں۔
ظ: منکرین تقدیر کی ہمت افزائی کی گئی ہے اگر ہماری ساری قوتیں اس کی قوت کے تابع ہیں تو پھر گناہ کرنے میں ہمارا کیا قصور؟
تمہارے ہی بزرگ نے کہا ہے:
الرب حق والعبد حق
لیت شعری من المکلف
ان قلت عبد فذاک رب
وان قلت رب انی یکلف

رب بھی حق ہے اور بندہ بھی حق
کاش کہ مجھے پتہ ہو کہ مکلف کون ہے
اگر تو کہے کہ بندہ ہے یہ تو رب ہے
اگر کہے کہ رب ہے تو وہ مکلف کیسے؟
غ: اس طرح ساری شریعت، احکام اور قواعد الہیہ بیکار ہیں (نعوذ باللہ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسلاف کا عقیدہ

1- امام قتیبہ بن سعد فرماتے ہیں:
ھذا قول الائمۃ فی الاسلام والسنۃ والجماعۃ نعرف ربنا فی السماء السابعۃ علی عرشہ کما قال جل جلالہ الرحمن علی العرش الستوی (العلو للعلی الغفارص 128 طبع المدینۃ المنورۃ)
"یہ ائمہ اسلام اور اہل سنت والجماعۃ کا قول ہے کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمارا رب ساتویں آسمان پر اپنے عرش پر مستوی ہے" جیسا کہ خود فرمایا کہ رحمٰن تو عرش پر مستوی ہے۔
2- امام اسحٰق بن راہویہ فرماتے ہیں:
اجمع اھل العلم انہ فوق العرش استوی، ویعلم کل شیئ فی اسفل الارض السابعۃ(العلو ص123)
"تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالی عرش پر مستوی ہے اور زمین کی پاتال تک ہر چیز سے با خبر ہے"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- امام ذھبی رحمہ اللہ نے "کتاب المصرٰ" میں امام ابوالحسن الاشعری ابو عمرالطلمنکی، ابو بکر اسماعیلی اور دیگر ائمہ دین سے یہ قول نقل کیا ہے کہ "اس عقیدے پر اسلاف کا اجماع اور اتفاق رہا ہے۔
4- وکذالک یقولون فی جمیع الصفات التی نزل بذکرھا القرآن ووردت بھا الاخبار الصحاح من السمع والبصر والعین والوجہ والعلم والقوۃ والقدرۃ والعزۃ والعظمۃ والارادۃ والمشیئۃ والقول والکلام والرض والسخط والحیاۃ والیقظۃ والفرح والضحک وغیرھا من غیر تشبیہ لشئی من ذلک بصفات المربوبین المخلوقین بل ینتھون فیھا الی ماقالہ اللہ تعالی وقالہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من غیر زیادۃ علیہ ولا اضافۃ الیہ ولاتکییف لہ ولاتشبیہ ولا تحریف ولا تبدیل ولا تغییر ولا ازالۃ للفظ الخبر مما تعرفہ العرب و تضعہ علیہ بتاویل منکر ویجرونہ علی الظاھر ویکلون علمہ الی اللہ تعالی یقرون بان تاویلہ لا یعلمہ الا اللہ کم اخبر اللہ عن الراسخین فی العلم انھم یقولونہ وقولہ تعالی (والرسخون فی العلم یقولون امنا بہ کل من عند ربنا وما یذکر الا اولوا لالباب) ویعتقد اھل الحدیث ویشھدون ان اللہ سبحانہ وتعالی فوق سبع سموات علی عرشہ کما نطق بہ کتابہ فذکر الایات یثبون لہ من ذلک ما اثبتہ اللہ تعالی ویومنون بہ ویصدقون الرب جل جلالہ فی خبرہ ویطلقون ما اطلقہ سبحانہ و تعالی من استوائہ علی العرش و یمرون علی ظاھرہ ویکلون علمہ الی اللہ (الرسائل المنیریہ ج1ص107-110)
کہ عقیدہ اہل سنت والجماعت اس طرح ہے اور اسی طرح وہ اس کی ان صفات کے بارے میں کہتے ہیں جو قرآن مجید میں نازل ہوئیں یا احادیث صحیحہ میں مذکور ہیں مثلا سننا، دیکھنا، آنکھ، چہرہ، علم ، قوت، قدرت، عزت ، عظمت، ارادہ، مشیت، قول، کلام، رضامندی، ناراضگی، خوشی، زندہ ہونا، جاگنا، اور ہنسنا وغیرہ ان صفات میں سے کسی ایک کی بھی مخلوق کے ساتھ تشبیہ دیئے بغیر ایمان لاتے ہیں بلکہ ان کی آخری بات وہی ہوتی ہے جو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہو نہ اس میں کوئی زیادتی کرتے ہیں اور نہ ہی کمی نہ اس کی کوئی کیفیت متعین کرتے ہیں اور نہ ہی اس کو کسی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں اور نہ اس میں کوئی تبدیلی اور تغیر کرتے ہیں اور نہ اہل عرب کے بیان کردہ معنی کے خلاف کوئی غلط تاویل کرتے ہیں بلکہ اس کو ظاہر پر محمول کرتے ہیں کہ ان کی تاویل اللہ کے سواء کوئی نہیں جانتا جیسا اللہ تعالی نے پختہ علم والوں کے بارے میں کہا ہے کہ بھی ویسا ہی کہتے ہیں اللہ تعالی فرماتا ہے ( جو لوگ علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب آیات ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقلمند ہی قبول کرتے ہیں ) اہل حدیث کا یہ عقیدہ ہے اور وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالی ساتوں آسمان کے اوپر اپنے عرش پر ہے جیسا کہ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔
نیز اللہ تعالی کےلیے ہر اس صفت کو ثابت مانتے ہیں جو اللہ تعالی نے بیان کی اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی اس خبر کی تصدیق کرتے ہیں اور جسے اللہ نے مطلق کہا ہے اسے مطلق مانتے ہیں اور اس کے عرش پر مستوی ہونے کو ظاہر پر محمول کرتے ہیں اور اس کا علم اللہ تعالی کے سپرد کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- امام بیہقی کتاب الاسماء والصفات ص291 طبع ہند میں فرماتے ہیں:
اخبرنا ابو عبداللہ الحافظ قال اخبرنی ابو عبداللہ محمد بن علی الجوھری ببغداد قال ثنا ابراھیم بن الھیثم قال ثنا محمد بن کثیر المصیصی قال سمعت الاوزاعی یقول کنا والتابعون متوافرون نقول ان اللہ تعالی ذکرہ فوق عرشہ ونومن بما وردت السنۃ بہ من صفاتہ جل و علا۔
محمد بن کثیر مصیصی بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام اوزاعی رحمہ اللہ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ ہم اور دیگر بہت سارے تابعین کہتے تھے کہ اللہ تعالی عرش پر ہے اور ہم ان تمام صفات پر ایمان لاتے ہیں جو احادیث میں بیان ہوئیں۔
اس مسئلہ کی مزید وضاحت کے لیے کتب سلف مثلا کتاب الرد علی الجھمیۃ، امام عثمان بن سعید دارمی کی کتاب الرد علی بشر المریسی، امام عبداللہ بن احمد حنبل کی کتاب السنہ، امام ابن خزیمہ کی کتاب التوحید، امام ابوبکر اجری کی کتاب الشریعہ اور امام بیہقی کی کتاب الاسماء والصفات اور کتاب اعتقادوالسلف وغیرہ ضرور دیکھنی چاہیے۔
شیخ کبیر عالم ربانی شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں:
نقول اما معرفۃ الصانع عزوجل بالایات والدلالات علی وجہ الاختصار فھی ان یعرف و یتیقن انہ واحد فرد صمد لم یلد ولم یولد ولم کن لہ کفوا احد۔ لیس کمثلہ شیء وھو السمیع البصیر لاشبیہ لہ ولانظیر ولا عون ولاشریک ولا ظھیر ولا وزیر ولا ند ولا مشیر لہ لیس جسم فیمس ولا بجوھر یحس ولا عرض فیقضی ولا ذی ترکیب او آلۃ و تالیف وماھیۃ و تحدید وھو اللہ للسماء رافع ولارض واضع لا طبیعۃ من الطبایع ولا طالع من الطوالع ولا ظلمۃ تظھر ولا نور یظھر حاضر الاشیاء علما شاھد لھا من غیر مماسۃ عزیز قاھر حاکم قادر راحم غافر ساتر معز ناصر رؤف خالق فاطر اول آخر ظاھر باطن فرد معبود حی لا یموت ازلی لا یفوت ابدی المکوت سرمدی الجبروت قیوم لا ینام عزیز لا یضام منیع لا یرام فلہ الاسماء العظام المواھب الکرام قضی بالفناء علیٰ جمیع الانام فقال کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام وھو بجھۃ العلو مسوی علی العرش محتو علی الملک محیط علمہ بالشیاء (غنیۃ الطالبین ص52 ج1)
اس مقام پر ہم اختصار کے ساتھ صانع عالم کی معرفت کی آیتیں اور دلیلیں عرض کرتے ہیں۔ انسان کو یہ معرفت اور یقین ہونا چاہیے کہ اللہ یکتا ہے اور بے نیاز ہے نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا اور نہ ہی کوئی اس کا ہم سر ہے۔ اور کوئی بھی چیز اس جیسی نہیں ہے وہ سنتا اور دیکھتا ہے (یعنی کسی کی ذات یا صفت یا کوئی فعل اللہ کی ذات، صفت اور فعل جیسا نہیں ہو سکتا) اور نہ کوئی اس کے مشابہ ہے۔ اسی طرح کوئی اس کا مددگار ہے نہ شریک، نہ سہارا دینے والا ہے نہ وزیر مدمقابل ہے نہ مشیر اور نہ تو وہ جسم ہے کہ اسے چھوا جاسکے اور نہ وہ جوہر ہے کہ اسے محسوس کیا جاسکے اور نہ عرض ہے کہ ختم ہو سکے۔ مرکب آلہ یا اجزاء کا مجموعہ بھی نہیں ہے۔ نہ ہی اس کی ماہیت ہے اور نہ ہی جدا جداہے۔ اللہ وہ ہے جس نے بلند آسمان بنایا اور زمین کو بچھایا۔ نہ تو وہ طبیعت ہے اور نہ ہی طالع اور وہ ایسا اندھیرا یا روشنی نہیں کہ ظاہر ہوجائے ہر چیز کا علم اس کے پاس ہے کوئی بھی چیز اسے چھو نہیں سکتی، وہ بڑا ذی وقار سب پر غال سب کا حاکم ، ہر چیز پر قادر، رحم کرنے والا، نرمی والا، سب کا خالق اول وآخر ظاہر وباطن ہے وہ بالکل اکیلا اور لائق عبادت ہے ہمیشہ زندہ رہنے والا زندہ جاوید ہے وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہے گا اس کی بادشاہت دائمی ہے اور اس نے کائنات عالم کا نظام سنبھالا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ میں زمین کا نظام بھی ہے اسے نیند نہیں آتی وہ ایسے غلبے والا ہے کہ کوئی بھی اس پر ظلم نہیں کرسکتا وہ اتنا محفوظ ہے کہ کوئی بھی اس پر حملہ نہیں کرسکتا۔ اس کے بڑے عظیم نام ہیں ہر قسم کی نعمتیں وہی تو دیتا ہے اسی نے تمام مخلوق کےلیے فیصلہ فرمایا ہے وہ فرماتا ہے"جو(مخلوق) زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے اور تمہارے پروردگار کی ذات بابرکت جو صاحب جلال و عظمت ہے باقی رہے گی"۔ اللہ تعالی بلند اور عرش پر مستوی ہے سارا جہاں اس کے احاطہء قدرت میں اور ہر چیز اس کے دائرہ علم میں ہے۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نیز صفحہ 56 پر فرماتے ہیں:
وھو منزہ عن مشابھۃ خلقہ ولا یخلوا من علمہ مکان ولا یجوز و صفہ بانہ فی کل مکان بل یقال انہ فی السماء علی العرش کما قال جل ثناءہ الرحمن علی العرش استوی قولہ ثم استوی علی العرش الرحمن وقال تعالی: الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ والنبی صلی اللہ علیہ وسلم حکم باسلام الامۃ لما قال لھا این اللہ فاشارت الی السماء
وہ اللہ اس بات سے منزہ ہے کہ اسے مخلوق کے ساتھ تشبیہ دی جائے اس کے علم سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے اللہ کی یہ صفت بیان کرنا کہ "وہ ہر جگہ پر حاضر ہے" جائز نہیں ہے بلکہ اس بارے میں یوں کہا جائے کہ وہ (اللہ ) عرش پر مستوی ہے جیسا کہ اللہ نے خود فرمایا "رحمٰن تو عرش پر مستوی ہے" اور دوسری جگہ ارشاد ہے "پھر رحمٰن عرش پر مستوی ہوا" ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے "اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتے ہیں"۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی کے بارے میں کہا کہ یہ مسلمان ہے جس سے پوچھا گیا کہ اللہ کہاں ہے؟ تو اس نے جوابا آسمان کی طرف اشارہ کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قارئین!
بنظر انصاف ملاحظہ فرمائیں کہ اللہ تعالی کے متعلق سلف صالحین کا کیا عقیدہ تھا اور صاحب کتاب کیا کہہ رہے ہیں؟ ایک طرف قرآن و حدیث، صحابہ، تابعین اور سلف صالحین ہیں تو دوسری طرف صاحب کتاب۔ دراصل پائیداری اور یقین والا طریقہ وہی ہے جو سلف صالحین نے اختیار کیا اور جو طریقہ صاحب کتاب نے اختیار کیا ہے اس میں سوائے بربادئ وقت کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔
امام فخر الدین الرازی عمر کے آخری حصے میں یہ شعر کہتے رہے:
نھایۃ اقدام العقل عقال
واکثر سعی العالمین ضلال
و ارواحنا فی وحشۃ من جسومنا
وغایۃ دنیانا اذی و وبال
ولم نستفد من بحثنا طول عمرنا
سوی ان جمعنا فیہ قیل و قالوا

(الفتویٰ المجمویۃ لابن تیمیہ ص91)
علامہ عبد العزیز علامہ محمد حیات علامہ عبداللہ علامہ عبدالغفار ان جیسے دوسرے علماء قابل تحسین ہیں کہ جنہوں نے ہر فتنے کے زمانے میں بغیر کوئی دقیقہ فروگذاشت کیے باطل کی دھجیاں بکھیر دیں اور حق کے علم کو بلند رکھا۔ اللہ انہیں اس کا اچھا بدلا نصیب فرمائے۔ آمین۔
 
Top