ان سوالات سے یاد آیا کہ ایک مرتبہ میں نے ان سوالات پر مشتمل کتابچہ جس کا عنوان ’’ضرب محمدی‘‘ تھا اپنے ایک دفتر کے دیوبندی ساتھی کو دیا تاکہ وہ ان سوالات پر غورو فکر کرے۔ دوسرے یا تیسرے دن جب اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا کہ میں نے پوری کتاب پڑھ لی ہے اس میں تو ایک بھی سوال کا جواب نہیں ہے اسکے جوابات کہاں ہیں؟ میں نے اسے کہا کہ میرے بھائی جوابات آپ نے دینے ہیں۔
اب اس بیچارے کو کیا پتا تھا کہ جن سوالات کا معقول جواب ان کا کوئی اکابر بھی نہ دے سکا اس کا جواب یہ جاہل مقلد کیا دے گا۔