• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث قراء کرام کے مشائخ عظام

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اہل حدیث قراء کرام کے مشائخ عظام

قاری محمد ابو بکر العاصم
نظرثانی: قاری محمد ادریس العاصم​
’’برصغیر پاک و ہند میں تجوید و قراء ات کے آغاز و ارتقاء‘‘ کے ضمن میں ماہنامہ رُشد قراء ات نمبر (حصہ اول) میں شیخ المشائخ قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ اور شیخ القراء قاری محمد ادریس العاصم ﷾کے تفصیلی نگارشات کو پیش کیا گیا تھا، جس کے آخر میں برصغیر پاک و ہند میں اہل حدیث قراء کرام کی تجوید و قراء ات میں خدمات کی بھی تفصیلی وضاحت بطور اضافہ کردی گئی تھی۔ زیر نظر مضمون اُسی سلسلہ میں لکھی گئی دوسری تحریر ہے، جو شیخ القراء قاری محمد ادریس العاصم﷾ کے فرزند اَرجمند قاری ابوبکر العاصم﷾ نے لکھی ہے، جس میں جہاں یہ کوشش کی گئی ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ جماعت اہل حدیث میں یہ علم کس طرح منتقل ہوا، وہیں دیوبندی مکتب فکر کی تجوید و قراء ات کے باب میں خدمات کا بھی ایک مختصر جائزہ پیش کردیا گیا ہے۔
یہ بات شک و شبہ سے بالاہے کہ غیر منقسم ہندوستان ،جو کہ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشہ پر موجود ہے، میں علم تجوید وقراء ات کو منتقل کرنے اور پھر اسے فروغ دینے میں دیوبندی قراء حضرات کی خدمات دیگر مسالک کے مقابلے میں زیادہ نمایاںہیں، جن میں بعدازاں اہل حدیث قراء اور بریلوی مجودین نے بھی اپنا حصہ شامل کیا۔ ان تمام مسالک کی مساعی جمیلہ سے برصغیر پاک وہند میں آج یہ علم پھر سے زندہ ہوگیا ہے، جس کے فروغ میں فرقہ وارانہ تعصبات کو دور رکھ کرتمام مکاتب فکر کی مشترکہ ہمہ جہت کاوشوں کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اللہ وحدہ لاشریک نے اپنے آخری کلام بے مثال یعنی قرآن مجید فرقان حمید میں اپنے بھیجے ہوئے انبیاء و رسل کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ان انبیاء کے واقعات و قصص بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص بھی اللہ کا ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اپنے مقربین میں شمار کرلیتے ہیں چاہے وہ مردوں میں سے ہو یا خواتین میں سے جیسا کہ اللہ وحدہ لاشریک اپنے قرآن میں بیان بھی فرما رہا ہے:
’’نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبِلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ‘‘
یہ حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ آنحضرتﷺ کو مخاطب کرکے فرما رہا ہے کہ
’’ہم آپﷺ کے سامنے بہترین واقعہ پیش کرتے ہیں، اس قرآن سے جو ہم نے آپﷺ کی جانب وحی کے ذریعے نازل کیا ہے اور یقینا آپﷺ اس سے پہلے اس واقعہ سے بے خبر تھے۔‘‘(یوسف:۳)
ایسے ہی مختلف انبیاء علیہم السلام کے واقعات کا تذکرہ قرآن حکیم میں ہوا ہے جیسے:
’’وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰہِیْمَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا‘‘(مریم:۴۱)
یعنی ’’اور اس کتاب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ بیان کریں بے شک وہ بڑے سچے نبی تھے۔‘‘
’’وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مُوْسٰٓی اِنَّہٗ کَانَ مُخْلَصًا وَّ کَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا‘‘(مریم:۵۱)
یعنی ’’اور اس کتاب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیجئے جو بڑے مخلص رسول اور نبی تھے۔‘‘
’’وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِوَ کَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا‘‘ (مریم:۵۴)
یعنی ’’اور اس کتاب میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تذکرہ کیجیے وہ بڑے وعدے کے سچے رسول اور نبی تھے۔‘‘
’’وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا‘‘(مریم:۵۶)
یعنی ’’اور اس کتاب میں حضرت ادریس علیہ السلام کا ذکر کیجئے وہ بھی بڑے صادق پیغمبر تھے۔‘‘
ان آیات بینات سے ثابت ہوا کہ یہ اللہ رب العزت کا حکم ہے کہ نیک لوگوں کاتذکرہ کیا جائے ، کیونکہ یہ حضرات اپنے کارناموں کی وجہ سے اور اپنے اعمال صالحہ کی وجہ سے زندہ ہیں جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے
الجاہلون فموتی قبل موتہم
والعالمون وان مّا توفا حیاء​
یعنی ’’جہلاء تو مرنے سے پہلے ہی مردوں میں شمار ہوتے ہیں اور علماء کرام مرنے کے بعد بھی زندہ ہوتے ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح ایک اور شعر ہے:
افو العلم حي خالد بعد موتہ
وأوصالہ تحت التراب رحیم​
یعنی ’’عالم مرنے کے بعد بھی جب کہ اس کی ہڈیاں تک مٹی میں مل چکی ہوتی ہیں زندہ رہتا ہے۔‘‘
ماہنامہ ’الرشد‘ کے پچھلے شمارے (جو قراء ات نمبر کی جلد اوّل تھی) میں مسلک اہل حدیث کے بعض نامور قراء اور علماء کا تذکرہ کیا گیا جو تجوید و قراء ت کے ماہر تھے، اس علم سے شغف رکھتے تھے ،اس کو محبوب جانتے تھے اور اس علم کی ترویج و اشاعت میں ہر دم کوشاں رہتے تھے۔ اسی ضمن میں راقم الحروف کچھ مزید نام بیان کرنا چاہے گا۔
بطل حریت حضرت مولاناسیّد محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے چینیاں والی مسجد میں تقسیم ہند سے قبل ہی تجوید و قراء ت کا مدرسہ قائم کیا تھا۔ مدرسہ تجوید القرآن چینیاں والی لاہور کا قدیم ترین ادارہ تھا اور اس سے پہلے لاہور میں تجوید و قراء ت کا کوئی ادارہ نہیں تھا۔اس عظیم مرکز سے مسلک اہل حدیث اور غیر اہل حدیث مسالک میں بہت جلیل القدر قراء کرام پیدا ہوئے جن کا تذکرہ گذشتہ شمارے میں ہوچکا ہے۔اس عظیم الشان مرکز تجوید و قراء ت سے حضرت مولانا قاری فضل کریم رحمہ اللہ، حضرت مولانا قاری محمد شریف رحمہ اللہ، حضرت قاری محمد اسماعیل رحمہ اللہ اور استاذ القراء والمجودین قاری المقری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ جیسے نامور قراء وابستہ رہے اور شاندار علمی خدمات انجام دیں۔
اسی طرح استاذ القراء قاری عبد الوہاب مکی رحمہ اللہ جامعہ رحمانیہ میں کئی سال تجوید و قراء ت پڑھاتے رہے جہاں ان سے بہت بڑی تعداد میں طلباء اور طالبات نے استفادہ کیا۔
حضرت مولاناسیّد محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی اپنی یہ کیفیت تھی کہ قرآن مجید کو بڑے صحیح اور تجوید کے قواعد کے مطابق اور بڑے سوزو گداز سے پڑھتے تھے اور آپ کا قرآن سن کر سننے والوں کی آنکھیں پُر نم ہوجاتی تھیں۔ اسی طرح آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا سیّد ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ حضرت قاری فضل کریم رحمہ اللہ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ وہ بھی قرآن حکیم بڑا عمدہ اور قواعد تجوید کے مطابق پڑھا کرتے تھے اور ان کی تلاوت بھی دلوں میں اترتی چلی جاتی تھی۔
چینیاں والی مسجد کے امام حافظ محمد بشیر بھوجیانوی جو کہ حافظ محمد یحییٰ عزیز میر محمدی رحمہ اللہ کے رشتہ دار تھے بہت خوبصورت اور تجوید کے مطابق قرآن پڑھا کرتے تھے۔حافظ بشیر صاحب کے استاذ محترم حافظ محمد سلیمان بھوجیانوی رحمہ اللہ بڑا عمدہ ، خوبصورت اور تجوید کے مطابق قرآن پڑھا کرتے تھے۔
چینیاں والی مسجد اور لسوڑیوالی مسجد دونوں مساجد میں ایک صاحب حافظ محمد شریف رحمہ اللہ امام رہے ہیں۔ یہ حافظ محمد شریف رحمہ اللہ بھی قرآن کو تجوید کے قواعد کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ بڑی خوبصورت آواز کے مالک تھے اور لوگ بڑی دور دور سے ان کے پیچھے نماز ادا کرنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ حافظ محمد شریف رحمہ اللہ کی عمدہ پڑھت کی تعریف اہل حدیث حضرات تو کرتے ہی تھے دیوبندی اور بریلوی حضرات بھی ان کی خوبصورت آواز اور ادا کے معترف تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
میر محمد ضلع قصور کو بہت نامور قراء کرام کا مسکن ہونے کا شرف حاصل ہے جن میں استاذ القراء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی﷾ ، فخر القراء قاری محمد سلمان میر محمدی﷾ ، قاری محمد صہیب میر محمدی﷾ ، قاری محمد عمران یوسف میر محمدی﷾اور ان کے والد ماجد جناب قاری محمد یوسف میر محمدی رحمہ اللہ بڑے نمایاں نام ہیں۔ قاری محمد یوسف میر محمدی رحمہ اللہ استاذ القراء حضرت قاری المقری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ کے بڑے لاڈلے شاگرد تھے۔ ان کا جوانی میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔ بڑے خوبصورت، خوب سیرت اور خوش گلو قاری تھے۔
بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ یہ میر محمد تقسیم ہندوستان سے پہلے بھی تجوید و قر اء ت کا ایک بڑا اہم مرکز تھا جس میں حضرت حافظ محمد میر محمدی رحمہ اللہ طالب علموں کو قرآن کریم اور تجوید و قراء ت کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ بڑے بڑے علماء کرام قرآن اور تجوید و قراء ت کی تعلیم کے لیے میر محمد تشریف لاتے تھے۔ انہی مشہور و معروف علماء میں ایک نام شیخ الحدیث حافظ محمد عبد اللہ بڈھیمالوی رحمہ اللہ کا بھی ہے جو کہ استاذ القراء حافظ محمد میر محمدی رحمہ اللہ سے میر محمد میں استفادہ کرتے رہے ہیں۔
تجوید و قراء ت پر تصنیفی و تحقیقی کام میں بھی گذشتہ اَدوار سے ہی علماء اہل حدیث سرگرم رہے ہیں ان میں شیخ الحدیث محمد عبدہ الفلاح رحمہ اللہ نے علوم القرآن اور خصوصاً تجوید و قراء ت پر مختلف رسائل و جرائد میں بڑے تحقیقی اور علمی مضامین تحریر کیے۔ اسی طرح علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدرحمہ اللہ نے بھی تجوید اور اس کی اہمیت سے متعلق مضامین تحریر کیے جو مختلف جرائد و رسائل میں طبع ہوئے۔ لازمی امر ہے کہ یہ کام وہی شخص کرے گا جو تجوید سے محبت اور شغف رکھتا ہوگا۔
یہ ایک مختصر سا مضمون ذہن میں محفوظ کچھ یادوں سے ترتیب دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے قرآن کی خدمت میں ہمہ وقت مشغول رکھے اور روز محشر ہمیں خادمین قرآن میں شمار کرے۔ آمین یا رب العالمین
بعد اَزاں عرض کرتا ہوں کہ جیسا کہ تذکرہ کیا گیاکہ نامور اساتذہ تجوید و قراء ات مسلک اہل حدیث کے مدارس سے وابستہ رہے اور انہوں نے وہاں بڑی شاندار خدمات انجام دی ہیں۔ انہی نامور قراء کرام کے حالات کا آئندہ صفحات میں تذکرہ ہوگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١)شیخ المشائخ قاری اظہار حمد تھانوی رحمہ اللہ

نام و نسب
آپ کا نام اظہار احمد بن اعجاز احمد بن منشی ابراہیم احمد تھانوی تھا۔آپ۹؍ذیقعدہ بروز منگل بمطابق ۱۹۳۰ء کو مشہور قصبے تھانہ بھون میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم
چھ سال کی عمر میں ابتدائی تعلیم مدرسہ امداد العلوم جو خانقاہ امدادیہ میں واقع تھا،سے شروع کی۔ سب سے پہلے قرآن پاک حفظ کیا۔ پھر نحو و صرف کی کتب ، تاریخ، سیرت، اَدب، منطق، فقہ کی ابتدائی کتب کافیہ، فصول اکبری اور نفخۃ الیمن اور اس کے علاوہ عربی کتب بھی پڑھیں۔
مظاہر علوم سہارنپور میں حصول تعلیم
مدرسہ امداد العلوم تھانہ بھون سے فراغت کے بعد آپ مزید تعلیم کے لیے مظاہر العلوم سہارنپور تشریف لے گئے۔ وہاں اپنے وقت کے نامور اَساتذہ سے استفادہ فرمایا اور دورہ حدیث کیا۔مظاہر العلوم میں دورہ حدیث کرنے کے دوران آپ مدرسہ تجوید القرآن سہارنپور میں استاذ القراء قاری عبد الخالق رحمہ اللہ کی خدمت میں بھی حاضر ہوتے رہے اور ان سے بھی مشق، حدر اور تجوید میں استفادہ فرمایا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پاکستان آمد
جولائی ۱۹۴۷ء میں آپ مظاہر العلوم سے فارغ ہوئے اور بعد اَزاں قیام پاکستان کے فوراً بعد پاکستان تشریف لے آئے۔یہاں آکر سب سے پہلے آپ نے جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد میں تدریس کی اور بعد ازاں دارالعلوم اسلامیہ پرانی انارکلی میں درس نظامی کی کتب پڑھانا شروع کیں۔ اس کے علاوہ آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل اور اَدیب فاضل کے امتحانات بھی نمایاں طور پر پاس کیے۔
اَدبی ذوق
حضرت قاری صاحب میں ادبی ذوق اور صحافتی طرزِ نگارش حضرت مولانا اسعد اللہ شاہ رحمہ اللہ کی صحبت میں پروان چڑھا تھا۔ اسی لیے مختلف ملکی اور غیر ملکی اخبارات اور جرائد میں مضامین لکھنے کا سلسلہ تمام زندگی جاری رہا۔ روزنامہ انقلاب میں تو سنڈے ایڈیشن کے انچارج بھی رہے۔ اس کے علاوہ آپ کے مضامین ’دارالعلوم دیوبند‘، ’الحق‘ ’الاعتصام‘ ،’التجوید‘، ’اُردو ڈائجسٹ‘ اور اخبارات میں روزنامہ ’نوائے وقت‘، ’جنگ‘ اور ’انقلاب‘ وغیرہ میں چھپتے رہے۔ اس کے علاوہ بعض مضامین مثلاً حرف ضاد کی صحیح اَدائیگی سے متعلق مضامین سعودی عرب کے اَخبارات میں بھی چھپتے رہے۔
۱۹۵۳ء میں امام القراء حضرت مولاناقاری المقری عبد المالک رحمہ اللہ ٹنڈوالہ یار سے لاہور تشریف لائے اور دارالعلوم اسلامیہ میں تدریس کا آغاز فرمایا۔ حضرت قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ آپ کے اوّل دن سے جانثار خدام میں شامل ہوئے اور آپ سے مسلسل سات سال تک استفادہ فرماتے رہے اور تجوید و قراء ت سبعہ و عشرہ کی تکمیل فرمائی اور فن تجوید و قراء ت میں مہارت تامہ حاصل کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تدریسی خدمات دارالعلوم اسلامیہ
اسی دوران آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ آپ نے اپنے استاد گرامی کے نائب کے طور پر کام کیا۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قابل فخر استاذ کو اپنے لائق ترین شاگرد پر کس قدر اعتماد تھا اور یہ اعتماد بے جا بھی نہ تھا، کیونکہ دراصل امام القراء نے حضرت قاری صاحب میں موجود گوہرپوشیدہ کو بھانپ لیا تھا۔ انہیں اپنی خداداد بصیرت کی بدولت معلوم ہوگیا تھا کہ آگے چل کر حضرت استاذ محترم پاکستان میں تجوید و قراء ت کے فروغ میں زبردست کردار اَدا کریں گے، لہٰذا حضرت امام القراء نے اسی نہج و خطوط پر آپ کی سات سال تک تربیت کی اور اپنی نگرانی میں تدریس کا کام کروایا۔ وگرنہ تجوید و قراء ت کے نصاب سے فراغت تو پانچ سال کے عرصہ میں ہوجاتی ہے۔۳۰؍دسمبر ۱۹۵۹ء بروز منگل کو حضرت امام القراء قاری المقری عبد المالک رحمہ اللہ اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حضرت قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ اپنے استاذکا بے حد احترام کرتے تھے۔ آپ دارالعلوم اسلامیہ میں تقریباً نو سال پڑھانے کے بعد مدرسہ تعلیم القرآن مکھڈ تشریف لے گئے۔ یہاں حضرت نے ایک سال کا عرصہ گزارا لیکن اپنی اہلیہ کی علالت کی بنا پر چھوڑ دیا۔جب یہاں سے عید کی چھٹیاں ہوئیں تو حضرت نے دو عدد جانور خریدے اور وہاں سے لاہور تشریف لے آئے۔ ایک جانور آپ نے اپنے لیے رکھا اور ایک اپنے استاد محترم امام القراء حضرت قاری عبد المالک رحمہ اللہ کو تحفتاً پیش کیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مدرسہ تجوید القرآن مسجد چینیانوالی لاہور
حضرت مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ آپ کے پاس مدرسہ زینت القرآن پرانی انارکلی میں تشریف لے گئے اور حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کو مسجد چینیاانوالی میں آنے کی دعوت دی۔ قاری صاحب رحمہ اللہ نے مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی شخصیت کو عزت بخشتے ہوئے وہاں تشریف آوری کا وعدہ فرمایا۔ اس وعدہ کو پورا کرتے ہوئے آپ۱۹۵۸ء میں مسجد چینیاانوالی میں جلوہ افروز ہوئے اور۱۹۶۲ء تک پانچ سال کے عرصہ میں بڑی دل جمعی سے خدمات قرآن سرانجام دیں۔یہاں سے آپ کے بے شمار تلامذہ تیار ہوئے۔ بعد ازاں آپ نے ۱۹۶۳ء سے ۱۹۸۱ء تک تقریباً ۱۸سال کا عرصہ مدرسہ تجوید القرآن موتی بازار لاہور میں پڑھایا۔ یہ مدرسہ ہذا کا زریں اور روشن ترین دور ہے اور اسی دور میں مدرسہ مذکورہ کا نام علم و فن کے لحاظ سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگا اور بعد ازاں ۱۹۸۱ء سے ۱۹۹۱ء تک بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی ، اسلام آباد میں تجوید و قراء ت، حدیث و فقہ اور تفسیر کی تدریسی خدمات سر انجام دیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تصانیف
آپ نے پاکستان کے مدارس کے لیے عام فہم، جامع اور دلکش تجوید و قراء ت کی نصابی کتب پر کام کیا اور سالہا سال کی طویل محنت کے بعد طلباء کی تعلیمی ضروریات کو مدنظر رکھ کر کتب تالیف فرمائیں جو کہ درج ذیل ہیں:
(١) جمال القرآن مع حواشی جدیدہ
(٢) تیسیر التجوید مع حواشی مفیدہ
(٣) مقدمۃ الجزریہ وتحفۃ الاطفال کا اردو ترجمہ
(٤) خلاصتہ التجوید
(٥) مجموعہ نادرہ
(٦) الجواہر النقیہ شرح مقدمۃ الجزریہ
(٧) الحواشی المفھمۃ فی شرح المقدمۃ جو کہ علامہ جزریaکے بیٹے کی کتاب ہے اس کا ترجمہ کیا
(٨) شرح شاطبیہ مفصلاً (اُردو)
(٩) أمانیہ شرح شاطبیۃ (اردو)
(١٠) توضیح المرام فی وقف حمزۃ وہشام
(١١) تنشیط الطبع فی إجرء السبع محشی (اردو)
(١٢) الدراری شرح الدرۃ
(١٣) إیضاح المقاصد شرح عقیلہ
(١٤) شجرۃ الاساتذہ فی أسانید القراء ات العشر المتواترۃ
(١٥) المرشد فی مسائل التجوید والوقف
(١٦) اَخلاق محمدی
(١٧)پیغام رمضان (اردو)
(١٨) تقاریر ابوداؤد شریف (اردو)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
طریقہ تدریس
حضرت قاری صاحب تدریس میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ آپ بہت آسان اور عام فہم انداز میں کتب تجوید پڑھاتے۔ شاطبیہ،درۃ اور رائیۃ کا پہلے لفظی ترجمہ کرتے پھر بامحاورہ ترجمہ کرتے، پھر صرفی نحوی ترکیب، پھر تشریح و توضیح، پھر قراء ت کا بیان اور بعض مواقع پر جہاں ضروری ہوتا قراء ت اور رسم کی توجیہات بھی بیان کرتے۔ قراء ت پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کا بھرپور انداز میں دلائل کے ساتھ رد کرتے۔ غرض آپ کا اسلوب تدریس بھی ایک شاہکار ہوتا۔آپ مسجد چینیاانوالی میں جب پڑھاتے تو اردو کے علاوہ بعض طلباء جو ایران اور افغانستان سے آتے تو ان کو فارسی میں پڑھاتے اور جب اسلام آباد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں تشریف لے گئے تو وہاں عربی میں پڑھایا کرتے تھے۔ ۱۹۵۰ء سے۱۹۹۱ء تک بارہا المقدمۃ الجزریۃ، الشاطبیۃ، الدرۃ، الوجوہ المسفرۃ،ناظمۃ الزہر، رائیۃ اور طیبۃ النشر طلبا کو پڑھائیں ۔
آپ سے پڑھنے والے طلبہ کتاب پڑھنے کے بعد دل سے آپ کے حق میں دعا کرتے۔ تجوید و قراء ت کی تدریس کے علاوہ آپ نے حدیث فقہ تفسیر اور صرف و نحو کی کتب بھی پڑھائیں۔ اگر یہ کہا جائے توبے جا نہ ہوگا کہ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ ایک بلند پایہ محدث تھے۔ اس لیے کہ آپ نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں صحیح مسلم اور سنن ترمذی کا درس دیا۔ عظیم فقیہ تھے۔ اس لیے کہ آپ نے قدوری، کنز اور ہدایہ متعدد بار پڑھائیں۔ لاجواب نحوی تھے کہ آپ نے متعدد بار ہدایۃ النحو ،کافیہ، شافیہ اور شرح جامی پڑھائیں اور زبردست مفسر تھے کہ تقریباً تیس پینتیس سال تک تفسیر قرآن کا درس دیا۔ جو لاہور کے کچھ نہایت علمی دروس میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تفسیر ابن کثیر بھی اسلامک یونیورسٹی میں پڑھائی۔
آپ اردو عربی اور فارسی کے قادر الکلام شاعر تھے۔ فی البدیہہ اشعار کہہ ڈالنا آپ کا مخصوص طرۂ امتیاز تھا۔
 
Top