• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث قراء کرام کے مشائخ عظام

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عربی لہجوں پر عبور
ان تمام زبردست تدریس اور تالیفی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ کو عربی لہجوں پر زبردست عبور تھا۔ طوطی ہند امام القراء حضرت قاری عبد المالک رحمہ اللہ کے تمام لہجوں کے امین تھے۔ اپنے عالی قدر استاذ سے خوب اور بھرپور انداز میں لہجوں کو حاصل کیا۔ اس کے علاوہ شیخ رفعت رحمہ اللہ سے نہایت متاثر تھے۔ آپ ان کی تلاوت بھی سنتے اور پھر فرماتے کہ شیخ رفعت رحمہ اللہ تلاوت بھی فرماتے ہیں اور تفسیر بھی سمجھاتے ہیں، بعض اوقات ایسے بھی ہوا کہ تلاوت سنتے سنتے آپ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ تلاوت میں ویسے تو تمام لہجوں پر عبور تھا مگر ترتیل میں حجازی اور حدر میں مایہ لہجے کو بہت محبوب رکھتے۔ فجر کی نماز میں حسینی اور رکب پڑھتے تھے۔ خوبصورت آواز اور لہجوں کے خود بھی مالک تھے اور خوبصورت لہجوں اور آواز کو محبوب بھی رکھتے تھے۔
حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کے خوبصورت لہجوں کے آپ کے سب رفقاء بھی معترف تھے۔ بروایت قاری محمد ادریس العاصم ﷾آپ کے ایک ساتھی قاری صاحب سے سنا کہ میں حضرت قاری المقری قاری حسن شاہ نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دوران گفتگو لحونِ عربیہ سے متعلق گفتگو میں جب میں نے حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ حضرت قاری اظہار احمدرحمہ اللہ لہجوں سے واقف ہیں۔ حضرت قاری حسن شاہ رحمہ اللہ نے فرمایا بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ہمارے استاذ حضرت قاری عبد المالک رحمہ اللہ کے لہجوں کے امین ہیں اور اپنے تلامذہ کو بھی بہت اچھے پیمانے پر سکھاتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آپ کے نامور شیوخ
(١) مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ پر بہت شفقت فرماتے تھے۔ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کا معمول تھا کہ وہ روزانہ یادداشت کے لیے ایک بسکٹ حضرت تھانوی رحمہ اللہ سے دم کرواتے اور کھالیتے اس کے علاوہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کو اپنی استعمال کی ٹوپی بھی عطاء فرمائی۔
(٢) حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی رحمہ اللہ
(٣) حضرت مولانا مدثر بنگالی رحمہ اللہ
(٤) حضرت مولانا قاری مفتی سعید احمد اجراڑوی رحمہ اللہ
(٥) شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ
(٦) حضرت مولانا عبد الرحمن کیملپوری رحمہ اللہ
(٧) حضرت مولانا خلیفہ اعجاز احمدرحمہ اللہ
(٨) حضرت مولانا محی الدین بنگالی رحمہ اللہ فاضل دارالعلوم دیوبند جو بعد ازاں دارالعلوم ڈھاکہ کے مفتی بھی رہے۔
(٩) حضرت مولانا اسعد اللہ شاہ رحمہ اللہ
(١٠) اور علم تجوید و قراء ت کے بے تاج بادشاہ امام القراء حضرت قاری المقری عبد المالک رحمہ اللہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اکابر ہم عصر قراء کی نظر میں
بیش بہا اوصاف اور کمالات حمیدہ کی بدولت حضرت استاد القراء کو دنیا عرب و عجم نے داد تحسین اور توصیفی کلمات سے نوازا۔
شیخ القراء قاری محمد ادریس العاصم﷾نے فرمایا کہ میرے استاذ مکرم الشیخ القاری المقری عبد الفتاح السید العجمی المرصفی رحمہ اللہ نے فرمایا شیخ اظہار پاکستان کے علامہ اور تجوید و قراء ت کے ماہر ہیں۔
شیخ محمود خلیل الحصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ شیخ اظہار تجوید و قراء ت کے علوم میں پاکستان میں نمایاں نام ہے۔
ملائیشیا کے شیخ حسن الازہری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے حضرت استاذ القراء سے مشق کی اور تجوید و قراء ت کے مسائل میں استفادہ کیا۔ پھر فرمایا کاش میرے پاس اس قدر وقت ہوتا کہ آپ سے باقاعدہ طور پر استفادہ کرسکتا۔ جب حضرت قاری صاحب سعودی عرب بحیثیت جج گئے تو وہاں شیخ الازھری رحمہ اللہ بھی جج بن کر تشریف لائے تھے اس دور میں ان سے استفادہ فرمایا۔
مصر کے تجوید و قراء ت کے مشہور اساتذہ عظام فضیلۃ الشیخ عبد الحی زہران رحمہ اللہ اور فضیلۃ الشیخ عبد الغفور مصری رحمہ اللہ نے حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کو شیخ القراء فی بلاد الباکستانکے لقب سے یاد کیا۔ حضرت امام القراء قاری المقری عبد المالک رحمہ اللہ کی نظر میں حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کا کیا مقام تھا۔یہ حضرت قاری شاکر انوررحمہ اللہ سے بروایت حضرت الشیخ القراء قاری محمد ادریس العاصم ﷾ راقم نے سنا، کہ والد صاحب قبلہ (یعنی حضرت قاری عبد المالک رحمہ اللہ) ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ اگر کچھ بننا ہے تو قاری اظہار احمدرحمہ اللہ کی مانند بنو کہ عالم بھی زبردست ہیں اور قاری بھی شاندار ہیں۔ ایسے ہی حضرت قاری حسن شاہ رحمہ اللہ نے حضرت الشیخ القراء قاری محمد ادریس العاصم﷾ سے فرمایا کہ قاری اظہاررحمہ اللہ ایسی علمی شخصیت ہیں کہ اگر شرح شاطبیہ عربی میں لکھنا چاہیں تو بلا تکلف لکھ سکتے ہیں۔
استاذ القراء والمجودین قاری محمد شریف رحمہ اللہ نے فرمایا کہ فن تجوید و قرآء ت پر قلم اٹھانا درحقیقت قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ کا ہی حق بنتا ہے، کیونکہ ان کو جملہ علوم اور بالخصوص فن تجوید و قراء ت پر کماحقہ عبور حاصل ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ نے استاذ القراء والمجودین شیخ قاری فتح محمد پانی پتی رحمہ اللہ کی رائیہ کی شرح أسہل الموارد میں شیخ موصوف سے کسی تسامح کا ذکر کیا تو انہوں نے جوابی خط میں آپ کی بے حد تحسین فرمائی اور آپ کی تحقیق کو درست قرار دیا۔
حضرت استاذ القراء والمجودین قاری عبد الوہاب مکی رحمہ اللہ نے فرمایاکہ الاستاذ الفاضل مولوی حافظ قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ علوم قرآء ت کے علاوہ دیگر علوم حدیث ، فقہ اور تحریر و تقریر کے فنون پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔
استاذ القراء حضرت قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ جب مدرسہ تجوید القرآن میں تجوید و قراء ت پڑھاتے تھے اس وقت ان کے ساتھ حضرت مولانا بدیع الزمان رحمہ اللہ، فاضل دیوبند، ترجمہ اور عربی کی کتابیں پڑھاتے تھے۔ جب کوئی آدمی مولانا بدیع الزمان رحمہ اللہ سے مسئلہ پوچھتا تو مولانا رحمہ اللہ سب سے پہلے سوال کرتے کہ مولانا اظہار احمد رحمہ اللہ موجود ہیں۔ اگر کہا جاتا کہ موجود ہیں تو فرماتے کہ قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ سے مسئلہ پوچھو اور اگر کہا جاتا کہ موجود نہیں تو مسئلہ بتا دیتے تھے۔
حضرت استاذ القراءرحمہ اللہ کو فن تحریر کے ساتھ فن تقریر پر بھی مکمل عبور تھا اور کیوں نہ ہوتاآپ امیر شریعت حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کے عاشق زار تھے۔ شورش کاشمیری رحمہ اللہ کے ساتھ کام کرتے رہے، لیکن آپ کی تقریر کا انداز حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ سے بہت ملتا تھا۔ نرم لہجے میں انتہائی موثر انداز اختیار کرتے ہوئے ایسا سماں باندھ دیتے کہ سامع اپنے آپ کو اسی ماحول میں متصور کرتے۔ اس کا اعتراف استاذ القراء حضرت مولانا المقری عبدالماجد ذاکر صاحب دامت برکاتہم نے بھی حضرت قاری صاحب کی وفات پر منعقدہ تعزیتی اجلاس ریاض میں کیا تھا کہ حضرت کی تقریر ایسی دلنشین اور پر اثر ہوتی کہ بہت سے لوگوں کو میں نے حضرت کی تقریر کے دوران روتے ہوئے دیکھا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نامور تلامذہ
آپ کے تلامذہ کی تعداد سینکڑوں میں ہے، چند مشہور یہ ہیں:
(١) قاری محمد ادریس العاصم ﷾ (٢) قاری یحییٰ رسول نگری ﷾
(٣) قاری احمد میاں تھانوی﷾ (٤) قاری محمد انور ﷾
(٥) قاری سیف اللہ حافظ آبادی ﷾ (٦) قاری محمد یوسف میر محمدی ﷾
(٧) قاری محمد یوسف سیالوی ﷾ (٨) قاری بزرگ شاہ الازھری ﷾
(٩) قاری عبد الصمد گوجرانوالہ ﷾ (١٠)قاری مومن شاہ ﷾
(١١) قاری محمد فقیر مسعودی﷾ (١٢) قاری کرنل عمیر احمد (فرزند) ﷾
(١٣) قاری عبد الرحمن ڈیروی رحمہ اللہ (١٤) قاری عطاء اللہ ڈیروی رحمہ اللہ
(١٥) قاری عبد الستار برق رحمہ اللہ (١٦) قاری نجم الصبیح تھانوی (فرزند) ﷾
(١٧) قاری تاج افسر ﷾ (١٨) قاری عبد السبوح ﷾
(١٩) قاری محمد فقیر مردانی رحمہ اللہ (٢٠) قاری عبد الباعث سواتی ﷾
(٢١) پروفیسر حافظ عبد اللہ﷾(پنجاب یونیورسٹی ) (٢٢) قاری حاجی محمد مظفر گڑھی﷾
(٢٣) قاری ولی اللہ عثمانی ﷾ (٢٤) قاری محمد ابراہیم میر محمدی ﷾
(٢٥) قاری محمد برخوردار ﷾
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صدارتی تمغہ:
حکومت پاکستان نے حضرت قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ کی تجوید و قراء ت اور دیگر علوم اِسلامیہ میں خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔ ۲۳؍مارچ ۱۹۹۱ء کو حضرت نے بڑے باوقارانداز میں تمغہ حسن کارکردگی وصول کیا۔ اس کے علاوہ ۱۹۶۹ء میں ملائیشیا کے بین الاقوامی مقابلہ حسن قرآء ت میں آپ نے بطورِ جج پاکستان کی نمائندگی کی اور پھر۱۹۸۴ء میں سعودی عرب میں بین الاقوامی مقابلہ حسن قراء ت میں دوبارہ پاکستان کی نمائندگی کی۔
وفات:
استاذالاساتذہ قاری المقری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ ۱۰جمادی الثانی ۱۴۱۲ھ بمطابق ۱۷ دسمبر ۱۹۹۱ء بروز منگل کو بوقت تہجد اس فانی دنیا سے رحلت فرماگئے۔ آپ کی نماز جنازہ مولانا عبد اللہ رحمہ اللہ، والد محترم مولانا عبد الرشید غازی شہیدرحمہ اللہ نے اسلام آباد میں اور قاری محمد رفیع رحمہ اللہ نے چوبرجی کوارٹر پارک لاہور میں پڑھائی۔ اس جگہ شیخ القراء قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ نماز عید پڑھایا کرتے تھے۔ شیخ القراء قاری محمد ادریس العاصم﷾اور قاری ظہور الحسن﷾ نے آپ کا جسد خاکی قبر میں اتارا۔ نیز قاری محمد ادریس العاصم﷾نے دوسرے دن مسجد لسوڑیاں والی لاہور میں بعد از نمازِ جمعہ آپ کی غائبانہ نماز جنازہ تیسری بارپڑھائی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تعزیتی بیانات
حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کی شخصیت علمی لحاظ سے ایک بین الاقوامی مسلمہ حیثیت کی حامل تھی۔ آپ کی وفات جہاں اہل پاکستان کے لیے عظیم صدمہ تھی وہیں دیگر اِسلامی ممالک کے علماء کرام نے بھی تعزیت کا اِظہار فرمایا۔ جن میں شیخ یوسف القرضاوی وائس چانسلر اسلامی یونیورسٹی کویت، شیخ عبد الغفور مصطفی جامعہ ازہر ،شیخ حسن کبار البنان، ڈاکٹر محمد حسان شافعی وائس چانسلر اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد جیسے اکابرین شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دلی طور پر دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے شیخ محترم رحمہ اللہ پر اپنی رحمتوں اور برکتوں کانزول فرمائے اور روزِ محشر آپ کو ان تمام درجات عالیہ سے نوازے جن کے دینے کا وعدہ اللہ رب العالمین نے اپنے قرآن کے خدام سے کیا ہے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت امام القراء قاری عبد المالک رحمہ اللہ کی وفات پر حضرت قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ نے ان اشعار کے ذریعے نذرانہ عقیدت پیش کیا۔
قد مضی شیخنا عن الدنیا
لحق اﷲ فی حجاب النور

یا من انبث ذکرہ فی الدہر
قدس اﷲُ قبر المعمور

کنت فی الوقت ثانی الجزری
جبلا شاہقا وراء صخور

سار تحت التراب من ھو
عاش نظیفًا معطَرًا ذا نور

فدخلا الیوم مسند التجوید
فاظ شیخ مجود مغفور​
(۱۳۷۹ھ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢)اُستاذ القراء حضرت قاری محمد اسماعیل رحمہ اللہ

نام و نسب
محمد اسماعیل بن محمد گل بن شاہ گل بن باز گل بن رحیم گل بن میاں کریم داد بن ملا عبد الحکیم ۔ آپ کی پیدائش صوبہ سرحد میں ضلع صوابی کے قصبہ کنڈہ محلہ عزیز خیل میں ۱۹۰۸ء میں ہوئی۔
ابتدائی تعلیم:
ابتدائی تعلیم آپ نے قصبہ کنڈہ محلہ عزیز خیل کے ملا منیررحمہ اللہ سے حاصل کی اور ناظرہ قرآن مجید سے فراغت پائی۔ ملا منیر رحمہ اللہ سے قصبہ کنڈہ کے دیگر کئی بزرگوں نے بھی کسب فیض کیا ہے۔ ان کا تقویٰ و ورع اور خلوص لوگوں کو ان کی طرف کھینچ لاتا تھا۔
تکمیل حفظ القرآن، قراء ات سبعہ و ثلاثہ
حفظ قرآن کی تکمیل حضرت قاری کریم بخش شاہجہانپوری رحمہ اللہ اور حضرت قاری خدا بخش کانٹھوی رحمہ اللہ کے پاس کی۔ بعد ازاں قراء ات سبعہ حضرت قاری کریم بخش رحمہ اللہ سے پڑھی۔ بقیہ تین قراء ات آپ نے مراد آباد میں حضرت قاری محمد عبد اللہ مراد آبادی رحمہ اللہ سے پڑھیں۔ نیز امروہہ ضلع مراد آباد میں حضرت قاری نذر محمدرحمہ اللہ سے سبعہ قراء ات کی مشہور منظوم کتاب حرز الأمانی کا مزید مطالعہ کیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
درس نظامی اور دورہ تفسیر
دورہ تفسیر آپ نے مفتی محمد حسن رحمہ اللہ(بانی جامعہ اشرفیہ لاہور) سے امرتسر ہی میں کیا اور مفتی صاحب ہی کے مدرسہ نعمانیہ امرتسر میں درس نظامی سے فراغت حاصل کی۔
منصب تدریس
آپ کی خداداد قابلیت کو دیکھ کر حضرت قاری کریم بخش رحمہ اللہ اور حضرت قاری خدا بخش رحمہ اللہ نے اسی مدرسہ تجوید القرآن ملحقہ شیخ بڈھے کی مسجد موری گنج امرتسر میں بطورِ مدرس آپ کی تقرری فرمادی اور اپنے شفیق استاذوں کے لیے دست راست بن کر آپ نے حفظ اور تجوید کا کام شروع فرمایا،جب بعض وجوہات کی بنا پر یہ مدرسہ مسجد کوتوال چوک فریدامرتسر منتقل ہوا تو آپ بھی اپنے اَساتذہ کرام کی معیت میں اس مدرسہ میں منتقل ہوگئے۔ اپنے اَساتذہ کی دعاؤں اور بفضل رب جلیل، مدرسہ تجوید القرآن امرتسر میں حفظ کا اتنا گرانقدر کام کیا کہ مختصر مدت میں حفاظ و قراء کرام کی ایک معتدبہ کھیپ تیار ہوگئی۔
پاکستان میں تدریس کے کام کا آغاز
پاکستان تشریف لانے کے بعد پہلے آپ راولپنڈی میں حکمت کا کام کرتے رہے مگر استاذ القراء حضرت قاری کریم بخش رحمہ اللہ کے ایک خط نے ان کی ذہنی کایا پلٹ دی۔ ایک گفتگو میں حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے اس خط کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ استاذ محترم نے مجھے فرمایا :اسماعیل کیا میں نے تجھے اس لیے پڑھایا تھا کہ دوائیں بیچتے پھرو؟ اب کیا تھا حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے راولپنڈی کو خیر باد کہا اور لاہور میں چینیانوالی مسجد کے مدرسہ میں جو حفظ قرآن و تجوید اور قراء ت کے صف اوّل کے مدارس میں شمار ہوتا تھا اور جس کی سرپرستی مشہور اہل حدیث عالم مولانا داؤد غزنوی a فرما رہے تھے بطور مدرس آپ کی تقرری ہوگئی اور آپ نے مدرسہ کو بام عروج تک پہنچایا۔
لاہور میں حضرت قاری عبد المالک رحمہ اللہ کی تشریف آوری سے پہلے حضرت قاری محمد شریف رحمہ اللہ کی برکتوں سے حفظ قرآن مجید کا کام اتنا عروج کو پہنچ چکا تھا کہ لاہور کی گلی گلی کوچہ کوچہ میں مدرسہ تجوید القرآن کے پڑھے ہوئے طلبا اور بچوں کا چرچا تھا۔ادھر مسجد چینیانوالی میں حضرت قاری محمد اسماعیل رحمہ اللہ کی انتھک محنتیں رنگ لارہی تھیں۔ اس زمانے میں یہی تین حضرات بڑے تھے یا پھر ان کے شاگرد تھے۔
حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے اگست۱۹۵۷ء میں بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر مسجد چینیانوالی کے مدرسہ تجوید القرآن کو داغ مفارقت دینے کے بعد جامع مسجد تکیہ سادھواں کے زیر انتظام مدرسہ ترتیل القرآن میں حفظ اور تجوید و قراء ت کا کام شروع کیا۔ ایک مختصر مدت گھاس منڈی سرکلر روڈ کے مدرسہ ضیاء القرآن میں شمع تعلیم قرآن کو فروزاں رکھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مدرسہ دار التجوید والقراء ت
یہاں تک کہ میوہ منڈی لاہور کے چند معززین نے برلب سرکلر روڈ’’ XE "روڈ " ‘‘شاہ عالم گیٹ کے جنوب میں اڈہ آزاد پاکستان گڈز کے متصل ایک قطعہ اَراضی محض اِشاعت قرآن حکیم کے لیے حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کے نام وقف کیا جو صرف ایک ہال پر مشتمل تھا۔یہاں چند مخلص رفقاء کی معیت میں ناظرہ حفظ اور تجوید و قراء ات کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہوا۔پہلے سال کے اَساتذہ کرام میں قاری محمد تراب،قاری مظفر ، قاری عبد القوی،قاری غازی اللہ،قاری عبد الرحمان، حافظ غلام محمد، سرفہرست ہیں اور شعبہ نظامت میں قاری محمود الحسن اور قاری صاحب الحسن نے ادارہ کو شہرہ آفاق مقام عطا کیا۔ جس کے نتیجے میں اندرون شہر سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے علاوہ مدرسہ کے دار الاقامہ میں باوجود رہائش کی تنگی کے پچاس طالب علم رہائش پذیر تھے۔ جن میں سوڈان کے چار اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے دو طالب علم شامل تھے اور اسی خلوص کا نتیجہ ہے کہ مدرسہ مرکزی دار التجوید و و القراء ات کا فیض الحمد للہ تاہنوز جاری ہے حالانکہ کام کو باقی رکھنا اس کے وجود سے بھی زیادہ کٹھن ہوا کرتا ہے۔
حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کے اَساتذہ کرام
’’ XE "حضرت قاری صاحب رحمتہ اللہ علیہ’’ XE "حضرت قاری صاح" ‘‘
(١) قاری کریم بخش امرتسری رحمہ اللہ (٢) حضرت قاری خدا بخش رحمہ اللہ
(٣) حافظ قاری محمد نذیر امروہی رحمہ اللہ (٤) حضرت مولانا شاہ عبد الغفور العباسی مدنی رحمہ اللہ
(٥) حکیم نور الدین رحمہ اللہ (٦) حضرت قاری عبد اللہ مراد آبادی رحمہ اللہ
عجز و اِنکساری کا بے مثال مظاہرہ
آپ جب دار العلوم دیوبندکے صد سالہ پروگرام میں شرکت کے تشریف لے جارہے تھے۔ گاڑی ابھی لاہور ریلوے اسٹیشن سے روانہ نہیں ہوئی تھی کہ اسی اثناء میں قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ تشریف لائے اور حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کی سیٹوں کے بالمقابل سیٹ پر تشریف فرما ہوگئے۔ حضرت قاری اسماعیل رحمہ اللہ کی نظر ان پر پڑھی اور ان کی نظر حضرت قاری اسماعیل رحمہ اللہ پر پڑی۔ اگلے ہی لمحے میں حضرت قاری اسماعیل صاحب رحمہ اللہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود ان کے پاس گئے اور ان سے مصافحہ اور معانقہ کیا اور ہر طرح کے حجابات کو توڑتے ہوئے یوں فرمایا قاری صاحب السلام علیکم، اور اس وقت اس مقولے کا معنی بخوبی سمجھ میں آیا کہ، مَنْ تَوَاضَعَ ﷲِ رَفَعَہُ اﷲُ
 
Top