• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث قراء کرام کے مشائخ عظام

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شاگرد
حضرت قاری صاحب کے کثیر تعداد میں شاگرد ہیں ان میں سے چند ایک مشہور قراء کے نام درج ذیل ہیں:
(١) حضرت قاری محمد شریف رحمہ اللہ (٢) قاری عبد القوی
(٣) قاری احمد دین (٤) قاری نور محمد
(٥) حضرت قاری صاحب کے بیٹے حافظ قاری محمد ارشاد اللہ
(٦) حضرت قاری صاحب کے بیٹے حافظ قاری محمد فدا اللہ الکندوی
(٧) حضرت قاری صاحب کے بیٹے حافظ قاری پروفیسر محمد امداد اللہ
(٨) مولانا قاری عبد المجید بھاکری (٩) حافظ قاری عبد المتین
(١٠)مولانا قاری محمد عطاء اللہ (١١) قاری سید مقبول شاہ
تصنیفی خدمات
(١) تفہیم التجوید (٢) تفہیم الوقوف
(٣) الأقوال الامدادیۃ علی مقدمۃ الجزریۃ
(٤)أحسن الأقوال علی تحفۃ الأطفال
(٥) قواعد التجوید علی أسلوب الجدید
(٦) قاعدۃ الصبیان (٦) حروف القرآن
وفات:
حضرت قاری اسماعیل رحمہ اللہ۲۴؍ فروری۱۹۸۱ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔اِنَّا ﷲِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ آپ کی نماز جنازہ حضرت مولانا عبد الرحمن اشرفی نے پڑھائی۔ آبائی گاؤں کنڈہ موڑ تحصیل و ضلع صوابی کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣)اُستاذ القراء حضرت مولاناقاری محمد شریف رحمہ اللہ

نام و نسب:
آپ کا نام محمد شریف اور آپ کے والد کا نام مولا بخش تھا۔ آپ۱۳۴۱ھ کولاہور میں پیدا ہوئے۔ شیخ برادری سے آپ کا تعلق تھا اور کپڑے کی تجارت آپ کا خاندانی پیشہ تھا۔
حصولِ تعلیم:
آپ نے نو سال کی عمر میں حضرت قاری خدا بخش کانٹھوی رحمہ اللہ سے پورا قرآن مجید حفظ کیا۔ دورانِ حفظ پانچ سپارے منزل سناتے اور ختم قرآن کے بعد بیس پارے منزل سناتے۔ حفظ قرآن کے بعد حضرت قاری خدا بخش رحمہ اللہ سے ہی فارسی، نحو، ترجمۃ القرآن، کتب تجوید شاطبیہ و رائیہ پڑھیں۔ اس کے علاوہ شاطبیہ آپ نے حضرت قاری محمد اسماعیل رحمہ اللہ سے بھی پڑھی۔ حضرت قاری خدا بخش رحمہ اللہ نے خود ہی ان کو مدرسۃ العالیہ فرقانیہ لکھنؤ میں داخل کردادیا وہاں آپ رحمہ اللہ نے حضرت قاری عبد المعبودرحمہ اللہ سے طیبۃ النشر پڑھ کر اجراء کیا اور قراء ت عشرہ بطریق طیبہ کی تکمیل کرکے سند فراغت حاصل کی۔اسی دوران آپ نے حضرت قاری احمد علی خاں رحمہ اللہ لکھنوی سے مختلف لہجے سیکھے۔جب امام القراء حضرت قاری عبد المالک رحمہ اللہ لاہور تشریف لائے تو آپ رحمہ اللہ نے ان سے دوبارہ شاطبیۃ،رائیۃ اور درۃپڑھیں۔ آپ کے ہم سبق ساتھیوں میں حضرت قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ اور حضرت مولانا قاری حکیم محمد حکیم رحمہ اللہ نمایاں تھے۔
حافظہ اور ذہانت:
آپ کے ہم عصروں کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت قاری محمد شریف رحمہ اللہ کو کمال درجہ کا حافظہ عطا فرمایا تھا اور ذہانت و صلاحیت بے مثال تھی۔ دو تین مرتبہ سنتے ہی آپ کو سبق یاد ہوجایا کرتا تھا۔ عام طلبہ کی طرح وقت ضائع نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کبھی حضرت استاذ محترم اور ہم عصروں کو کسی قسم کی شکایت کا موقعہ دیا جس کی وجہ سے حضرت الاستاذ بھی حد درجہ شفقت اور خصوصی توجہ فرمایا کرتے تھے اور باری تعالیٰ نے ہم عصروں میں بھی عزت واحترام عطا فرمایا تھا۔
آپ کا بچپن
آپ اپنے والد صاحب کے منجھلے فرزند تھے۔ بچپن میں چیچک کا شکار ہوئے اور بینائی سے محروم ہوگئے۔ ایک آنکھ میں البتہ معمولی روشنی تھی جو آخر تک رہی اس سے آپ گھڑی کا وقت دیکھ لیتے، دستخط کرلیتے اور راستہ میں تنہا بھی چل سکتے تھے۔بچپن کے دوستوں اور ساتھیوں کا کہنا ہے کہ آپ ہر وقت پڑھنے ہی میں منہمک رہتے تھے اور کوئی وقت بھی آپ کا فضولیات میں نہیں گزرتا تھا۔ فطری طور پر آپ سنجیدگی اور متانت کے پیکر تھے۔ آپ کی طبیعت ہر قسم کے مذاق سے کوسوں دور تھی اورعام بچوں کی طرح کھیل کود والا ذہن بھی نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے آپ ہردلعزیزتھے اور اِحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ آپ کے منہ سے کبھی کسی نے گالی اور ناشائستہ کلام نہیں سنا۔ حتیٰ کہ کبھی کسی شاگرد کو بھی گرے ہوئے الفاظ سے نہیں پکارا۔ آپ کو قہقہہ سے طبعی طور پر نفرت تھی اگر کوئی آپ کی مجلس میں قہقہہ لگاتا بھی تو آپ فوراً منع فرماتے اور کہتے کہ قہقہہ سے دل مردہ ہوجاتا ہے اور ساتھ ہی یہ آیت پڑھتے: ’’فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلًا وَّلْیَبْکُوْا کَثِیْرًا‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مسجد آسٹریلیا میں تشریف آوری
گڑھی شاہو میں مخالفین کا زور ہونے کی وجہ سے کام پھلا پھولا نہیں جس کی وجہ سے حضرت قاری محمد شریف a محترم سیٹھی کے مشن کے تحت مسجد آسٹریلیا لاہور میں منتقل ہوگئے۔ یہاں کام بہت جلد چمکا اورچند ہی دنوں میں کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔طلبہ کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے قاری اسحاق آپ کے نائب مدرس مقرر ہوگئے۔ حفظ کرنے والے طلبہ ایسا عمدہ پڑھتے تھے کہ بلا مبالغہ وہ رنگ آج کے دور میں روایت حفص میں فارغ ہونے والوں میں بھی نہیں پایا جاتا۔ آسٹریلیا مسجد کو اپنی ہیئت اور محل وقوع کے اعتبار سے مرکزیت پہلے ہی سے حاصل تھی۔ نمازیوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہوتی تھی۔سونے پر سہاگہ یہ کہ حضرت قاری محمد شریف رحمہ اللہ بحیثیت مدرس تشریف لے آئے۔ نیز تراویح میں قرآن حضرت خود پڑھا کرتے تھے مزید یہ کہ رمضان المبارک کے آخری راتوں میں حضرت کے تلامذہ اور آپ خود شبینہ میں پڑھا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے مسجد آسٹریلیا دور دور تک مشہور ہوگئی اور آپ کی ذاتِ گرامی مرجع خلائق بن گئی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تدریسی مصروفیات
حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ بہت ہی محنتی اور لائق استاد تھے۔ آپ کا پڑھانے کا انداز عام فہم تھا۔ طلبہ اس سے انداز سے بہت مستفید ہوتے تھے۔ آپ صبح سے لے کر ظہر تک پڑھاتے پھر ظہر کے بعد سے عصر تک اور عصر سے مغرب تک۔ پھر جب تک حضرت نے تالیفی سلسلہ شروع نہیں فرمایا تھا اس وقت تک مغرب و عشاء اور پھر عشاء کے بعد بھی آپ پڑھاتے۔ شاید ہی کوئی اتنی محنت کرتا ہو۔ خدمت قرآن کا اس درجہ غلبہ تھا کہ مدرسہ کے ابتدائی دور میں خود ہی صرف و نحو اور ترجمہ قرآن پڑھایا کرتے تھے۔ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کو مختلف لہجوں پر عبور حاصل تھا اور آپ طلباء کو خود مشق کرایا کرتے تھے۔ آپ کے بعض تلامذہ بالکل آپ کے لہجے میں پڑھتے تھے۔ جیسے قاری محمد عمر رحمہ اللہ ، قاری محمد فیاض ، قاری محمد عبد الرب ملتانی، قاری محمد صدیق رحمہ اللہ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
طلباء پر شفقت
کسی طالب علم کی تکلیف حضرت سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔ کوئی شاگرد بیمار ہوجاتا یا کوئی حادثہ پیش آجاتا تو علاج کے معاملے میں حضرت بڑی سے بڑی قربانی سے گریز نہیں فرماتے تھے۔ کوئی طالب علم محسوس نہ کرتا تھا کہ میں اپنے گھر میں ہوں یا گھر سے باہر۔ حضرت اپنی اولاد کی طرح شاگردوں کا خیال رکھتے تھے۔ ایسے موقعہ پر مدرسہ کی طرف سے جو اعانت ہوتی سو ہوتی آپ اپنی جیب سے بھی بہت کچھ تعاون اور مدد فرمایا کرتے تھے۔ حضرت کے کئی شاگرد ایسے بھی تھے کہ جنہیں حصولِ تعلیم کا شوق تو تھا مگر حالات زمانہ مخالف تھے اور مالی وسائل نہ تھے۔ حضرت نے ان کی آخر تعلیم تک خفیہ طور پر مدد فرمائی اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ کسی کے ساتھ اِحسان نہیں جتلایا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شاگردوں میں تدریس کا شوق پیدا کرنا
حضرت کی شروع سے ہی یہ عادت مبارکہ تھی کہ شاگردوں کو مختلف طریقوں سے شوق دلاتے تھے۔ تکمیل تعلیم کے ساتھ ساتھ حضرت کی تعلیمات سے متاثر ہوکر طلباء ذہنی طور پر تدریس کے لیے تیار ہوجایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت کے شاگردوں میں اکثریت مدرسین کی ہے۔
آپ کا طریقہ امتحان
آپ طلباء تجوید کا امتحان اس طرح لیتے کہ چار پانچ جگہ سے مشق سنتے اسی طرح حدر بھی مختلف پانچ جگہ سے سنتے اور تمام قواعد کا اجراء پوچھتے اور جتنی کتب طالب علم نے پڑھی ہوتی ان سب کتب سے مختلف اور کافی تعداد میں سوال کرتے۔ تقریباً ڈھائی سے تین گھنٹے ایک لڑکے سے امتحان لیتے رہتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَساتذہ کرام
(١) امام القراء قاری عبد المالک رحمہ اللہ (٢) قاری خدا بخش کانٹھوی رحمہ اللہ
(٣) قاری فضل کریم رحمہ اللہ (٤) قاری عبد الشکور رحمہ اللہ
(٥) قاری احمد علی خان رحمہ اللہ (٦) قاری محمد اسماعیل رحمہ اللہ
(٧) قاری عبد المعبودرحمہ اللہ (٨) مولانا قاری عبد الرحمن ہزاروی رحمہ اللہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نامور تلامذہ
(١) قاری فیاض الرحمن علوی (٢) قاری عبد الحنان ہزاروی
(٣) قاری عبد القوی (٤)قاری محمد دین
(٥) قاری غلام مرتضیٰ بٹ لاہوری (٦) قاری عبد السبحان ڈیروی
(٧) قاری عبد المجید سعودیہ (٨) قاری محمد مشتاق لاہور
(٩) قاری عبید اللہ سواتی (١٠) قاری محمد سلیم کراچی
(١١) قاری شجاع الملک کشمیری (١٢) قاری محمد نسیم گوجرانوالہ
(١٣) قاری محمد نذیر مکی مسجد لاہور (١٤) قاری محمد سعید جیا موسیٰ
(١٥) قاری نور الحق ہزاروی (١٦) قاری حاجی محمد مظفر گڑھی
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تصانیف:
(١) معلم التجوید للمتعلم المستفید
(٢) التبیان فی ترتیل القرآن
(٣) زینت القرآن
(٤) سبیل الرشاد فی تحقیق تلفظ الضاد
(٥) التقدمۃ الشریفیہ فی شرح المقدمۃ الجزریۃ
(٦) ترجمہ (المقدمۃ الجزریۃ وتحفۃ الاطفال)
(٧) توضیحات مرضیہ حاشیہ فوائد مکیۃ
(٨) إیضاح البیان حاشیۃ جمال القرآن
(٩) قواعد ہجاء القرآن مع طریقۃ الصبیان
(١٠) اَشرفی قرآنی قاعدہ
(١١) مکمل قرآنی قاعدہ
(١٢) الکلام المفید فی إجراء التجوید
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وفات
آپ رحمہ اللہ نے۱۰؍اکتوبر ۱۹۷۸ء کو وفات پائی۔ آپ کی نماز جنازہ حضرت کی وصیت کے مطابق حضرت قاری حافظ محمد رفیع رحمہ اللہ نے پڑھائی۔ آپ لاہور کے مشہور قبرستان میانی صاحب میں مدفون ہیں۔
وہ مدارس جن میں حضرت قاری صاحب پڑھاتے رہے:
مسجد آسٹریلیا اسٹیشن لاہور، جامعہ مسجد اہل حدیث چییناانوالی لاہور، مدرسہ تجوید القرآن موتی بازار لاہور، مدرسہ دار القراء ماڈل ٹاؤن لاہور۔
۲۳؍جنوری ۱۹۵۲ء کو مدرسہ تجوید القرآن موتی بازار لاہور کے شعبہ تجوید کا افتتاح ہوا اور آپ صدر مدرس مقرر کیے گئے۔ آپ نے وہاں۴؍ مارچ۱۹۶۲ء تک اعلیٰ تدریسی خدمات انجام دیں۔ شعبان ۱۳۸۱ھ میں آپ نے دار القراء بی بلاک ماڈل ٹاؤن لاہور کی بنیاد رکھی اور زندگی کی آخری گھڑیوں تک یہیں پڑھاتے رہے اور تلامذہ کی کثیر تعداد تیار کی جو آج ملک اور بیرون ملک تدریسی خدمات انجام دینے میں مصروف ہے۔
آپ کی اولاد
اولاد میں آپ کے تین فرزند قاری محمد اشرف، حافظ خالد محمود، حافظ فاروق اور دو بچیاں ہیں۔
 
Top