• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث قراء کرام کے مشائخ عظام

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤)استاذ القراء قاری سیّد حسن شاہ رحمہ اللہ

نام و نسب
آپ کا نام سید حسن شاہ بن سید عالم شاہ رحمتہ اللہ علیہ تھا۔ آپ یکم اکتوبر۱۹۲۷ء بمقام داتہ تحصیل و ضلع مانسہرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق سیّد خاندان سے ہے۔ آپ سیّد جلال الدین بخاری سرخ پوش رحمہ اللہ(اُوچ شریف) کی اولاد سے ہیں۔
ابتدائی تعلیم
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ میں حاصل کی۔ پرائمری داتہ سے اور بانڈھی ڈھونڈاں سے مڈل کیا۔ دورانِ تعلیم آپ کے والد صاحب نے فرمایاکہ بیٹا ہم رسول اللہﷺ کی اولاد میں سے ہیں۔اس نسبت سے قرآن اور دین متین کے وارث ہیں۔ لہٰذا تم سکول کی تعلیم ترک کرکے دینی تعلیم حاصل کرو۔۱۹۴۰ء میں جامعہ فتحیہ مسجد جٹاں اچھرہ لاہور سے آپ نے اپنی دینی تعلیم کا آغاز کیا۔ پھر اسی کو آگے بڑھانے کے لیے جہلم اور سرگودھا تشریف لے گئے۔۱۹۴۳ء میں بھین ضلع جہلم مولانا کرم دین رحمہ اللہ سے ترجمہ قرآن پڑھا۔ موہڑا ضلع جہلم مولانا عابد رحمہ اللہ سے کافیہ پڑھی۔ پھر جامعہ فتحیہ لاہور تشریف لے آئے اور وہاں دورہ حدیث تک مولانا حافظ مہر محمد رحمہ اللہ سے پڑھا۔ ۱۹۵۴ء میں جامعہ اشرفیہ لاہور سے آپ نے دوبارہ دورۂ حدیث کیا اور وہاں سے اکابر علما دیوبند سے استفادہ کیا۔
حفظ:
دورانِ درس نظامی آپ نے چھ ماہ کے عرصہ میں حفظ قرآن مکمل کیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم قراء ت کی تحصیل
تجوید کی ابتدائی تعلیم استاد القراء قاری عبد العزیز شوقی رحمہ اللہ سے دارالعلوم اسلامیہ پرانی انارکلی سے حاصل کی پھر امام القراء قاری عبد المالک رحمہ اللہ سے روایت حفص میں سند حاصل کی۔ قراء تِ سبعہ میں آپ کے ساتھی حضرت مولاناقاری استاذ القراء اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ، مولانا حکیم عبد الحکیم رحمہ اللہ، حافظ محمد دین کیمل پوری رحمہ اللہ، حافظ عبد الرحمن کیمل پوری رحمہ اللہ اور مولانا راز محمد ایرانی رحمہ اللہ تھے۔ حضرت امام القراء قاری عبد المالک رحمہ اللہ نے آپ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ حسن شاہ تم شاطبی میں شریک کیوں نہیں ہوتے؟آپ نے عرض کیا جیسے آپ کا حکم ہو۔ قاری حسن شاہ رحمہ اللہ غضب کے لائق اور محنتی تھے۔ اسی لیے امام القراء قاری عبد المالک رحمہ اللہ نے آپ کے اندر موجود صلاحیتوں کو دیکھ کر تعلیم جاری رکھنے کا حکم فرمایا۔ آپ نے اپنے استاد سے تمام لہجوں میں عبور حاصل کیا ۔آپ بڑے خوبصورت انداز میں تلاوت کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حسن تجوید، حسن صوت، حسن لہجہ اور حسن صورت و سیرت سب سے نوازا تھا۔ امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ سے ملاقات کے لیے جب بھی قاری صاحب رحمہ اللہ تشریف لے جاتے تو امیر شریعت خود بھی بڑے اہتمام کے ساتھ قرآن پاک سنتے اور اہل خانہ کو بھی پردے کے پیچھے تلاوت سننے کی تاکید کرتے۔ آپ نے۱۹۵۵ء کے جلسہ دستار بندی کے موقع پر سند حاصل کی۔ اس موقع پر مولانا محمد طیب قاسمی رحمہ اللہ کی تقریر سے پہلے تلاوت آپ رحمہ اللہ نے کی تھی جس کی تعریف بعد میں مولانا صاحب موصوف رحمہ اللہ نے اپنی تقریر کے دوران اس طرح کی کہ ایک جید قاری قرآن مجید کی تلاو ت کر رہے تھے اور یوں محسوس ہورہا ہے جس طرح قرآن اتر رہا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تدریسی خدمات
آپ نے فراغت کے بعد ۱۹۵۷ء سے لے کر ۱۹۶۲ء تک جامعہ رحیمیہ نیلا گنبد مسجد میں پڑھایا۔ ۱۹۸۴ء سے ۱۹۹۰ء تک مدرسہ رنگ محل تجوید القرآن، لاہور میں شعبہ تجوید و قراء ت میں فرائض سر انجام دیے۔ اسی دوران بعد از ظہر جامعہ دارالعلوم اسلامیہ، کامران بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن،لاہور میں بھی تدریس کی۔ ایوب دور میں آپ کو لاہور بدر کردیا گیا تو آپ شرقپور تشریف لے گئے اور وہاں کچھ عرصہ پڑھایا۔ جہلم میں مولانا حبیب الرحمنaکے مدرسہ میں درسی کتب اور تجوید بھی پڑھائی۔ طالب علمی کے دور (دورہ حدیث) میں بھی آپ نے جامعہ فتحیہ میں ابتدائی کتب پڑھائیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تصنیفی خدمات
حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے خلاصۃ الترتیل ایک کتاب لکھی اور اسی طرح مقدمۃ الجزریۃ کا ترجمہ کیا یہ دونوں مطبو عہ ہیں، البتہ شاطبیہ کا ترجمہ غیر مطبوعہ ہے۔
نامور تلامذہ
آپ کے پانچ بیٹے ہیں اور ماشاء اللہ پانچوں ہی قاری ہیں۔ آپ کے تلامذہ کی لسٹ ذیل میں دی جارہی ہے:
(١) قاری سید منظور الحسن شاہ بخاری (٢) قاری مسعود الحسن شاہ بخاری
(٣) قاری ریاض الحسن شاہ بخاری (٤)قاری انوار الحسن شاہ
(٥) قاری محمد اسلم رحمہ اللہ (گوجرانوالہ ) (٦) قاری محمد رمضان (جامع مدنیہ لاہور)
(٧) قاری شاہ محمد ربانی (٨) قاری عبد الصمد (گوجرانوالہ )
(٩) قاری نصر اللہ (صدر مدرس جامعہ عالمگیریہ بادشاہی مسجد لاہور)
(١٠) قاری یوسف صدیقی (لاہور) (١١) قاری محمد انوار (حال مدینہ طیبہ )
(١٢) قاری نور محمد دارالعلوم اسلامیہ (لاہور) (١٣) قاری عطاء الرحمن (مدینہ طیبہ )
(١٤) قاری محمد اکرم احرار ائر پورٹ (لاہور) (١٥)قاری منظور احمد نعمانی(بہاولپور )
(١٦) مولانا قاری عبد الحی عابد مدظلہ (لاہور) (١٧)قاری سیف الدین دارالعلوم اسلامیہ
(١٨) قاری خلیل الرحمن (لاہور) (١٩) قاری خلیل الرحمن (گوجرانوالہ )
(٢٠) قاری سراج الدین شاہ جمال(لاہور)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مدینہ منورہ سے محبت
حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ جب بھی مدینہ سے لوٹتے تو عجیب کیفیت ہوتی تھی۔ کئی کئی روز تک روتے رہتے۔ فرماتے معلوم نہیں آئندہ کب جاؤں گا۔ راقم الحروف نے شیخ القراء قاری محمد ادریس العاصم﷾سے سنا کہ جب وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں پڑھتے تھے تو حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ تشریف لاتے تو میں ان کو اپنے ہاں کھانے کی دعوت دیا کرتا تھا۔ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ شفقت فرماتے ہوئے دعوت قبول کرتے۔ ایک مرتبہ میں نے حضرت سے کہا کہ حضرت کچھ آیات تلاوت ریکارڈ کروادیں تو حضرت نے کچھ آیات حدر میں اور کچھ آیات ترتیل میں اور کچھ آیات تدویر میں ریکارڈ کروائیں۔ ایک دن کھانے پر تشریف لائے تو فرمانے لگے کہ آج تمام کام ہوگئے، لیکن جنت البقیع کی زیارت نہ ہوسکی۔ ان دنوں کسی مسئلہ کی وجہ سے جنت البقیع میں داخلہ بند تھا تو میں نے کہا کہ حضرت کوئی مسئلہ نہیں میں نے کھڑکی کھولی تو سامنے جنت البقیع نظر آرہا تھا۔ میں نے کہا کہ حضرت،یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی قبر ہے اور یہ فلاں صحابی کی قبر ہے۔ یہ فلاں صحابی کی قبر ہے تو حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے وہیں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا شروع کردی اور کافی دیر تک دعا کرتے رہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑی عقیدت رکھتے تھے اور جب بھی کسی صحابی کا نام لیتے تو بہت ہی عقیدت سے لیتے۔ فرمانے لگے کہ قاری ادریس آج آپ نے میرا بوجھ ہلکا کردیا۔ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ مستجاب الدعوات تھے۔ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے دعا کی تھی کہ اے اللہ مجھے مدینہ طیبہ میں موت نصیب ہو اور میرا جنازہ مسجد نبوی میں پڑھا جائے اور جنت البقیع میں دفن کیا جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمام دعاؤں کو قبول فرمالیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
طریقہ امتحان
راقم الحروف نے خود شیخ القراء قاری ادریس العاصم مدظلہ سے سنا کہ جہاں حضرت کے پڑھانے کا انداز بڑا عام فہم تھا، طلبا بہت جلد سبق سمجھ جایا کرتے تھے وہاں حضرت کا امتحان لینے کا انداز بڑا عمدہ تھا ۔ فرماتے ہیں کہ میں نے خود حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کو سبعہ کا امتحان دیا۔ حضرت قاری صاحب نے شاطبیہ میں سے چار پانچ جگہ سے اشعار کا ترجمہ پوچھا اور تین چار جگہ سے عقیلہ کے اشعار کا ترجمہ اور تشریح پوچھی اور پانچ آیتوں کا اجراء جمع الجمع میں سنا۔
وفات
آپ مدینہ طیبہ میں۲۴؍اپریل ۱۹۹۴ء ہفتہ کے دن اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اِنَّا ﷲِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اور آپ کا جنازہ مسجد نبوی میں پڑھایا گیا اور آپ کو جنت البقیع میں ہی دفن کیا گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥)شیخ القراء حضرت قاری عبد الوہاب مکی رحمہ اللہ

نام و نسب
آپ کا نام عبد الوہاب اور والد کا نام شیخ عبد اللطیف تھا آپ بنو زہرہ کی شاخ قبیلہ عوف سے تعلق رکھتے تھے۔
ولادت
۲۹؍ دسمبر ۱۹۲۷ء کو بیت عوف محلہ شامیہ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔
حصولِ تعلیم
آپ رحمہ اللہ نے مدرستہ الفلاح مکہ مکرمہ ہی میں تعلیم حاصل کی۔ قراء ات سبعہ عشرہ کی تکمیل شیخ احمد عبد الرزاق الحجازی رحمہ اللہ رئیس القرآن المقرئین فی المملکتہ السعودیہ سے۱۳۵۵ھ میں کی۔ آپ نے شیخ عبد الغفور مکاوی رحمہ اللہ سے بھی پڑھا بلکہ یہ آپ کے بنیادی اَساتذہ میں سے ہیں۔دینی علوم کی تحصیل باب العمرہ،جو مدرسہ شرعیہ ہے، میں کی۔
اَساتذہ میں شیخ عبد الحمید الخطیب رحمہ اللہ، شیخ عبد المحسن رحمہ اللہ، عمر حمدان رحمہ اللہ، شیخ عبد الملک المراد رحمہ اللہ اور عبد القاہر السمع رحمہ اللہ خطیب حرم شامل ہیں۔ فراغت ۱۳۵۹ھ میں ہوئی۔۱۹۴۶؍۱۹۴۷ء ء میں سعودیہ سے بمبئی آتے جاتے رہے۔
حضرت قاری عبد المالک رحمہ اللہ کی شاگردی کا فخر آپ کو اس وقت حاصل ہوا جب آپ ٹنڈوالہ یار میں تھے پھرآپ نے لاہور میں قراء ت عشرہ میں کتاب النشر فی القرء ات العشر کے اصول بالاستیعاب حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ سے پڑھے۔ قاری صاحب رحمہ اللہ کے حکم پر فوائد مکیہ اور دیگر کتب کا درس تاحیات دیتے رہے۔ حضرت قاری عبد المالک رحمہ اللہ نے بھی قراء ات سبعہ عشرہ کی سندآپ کو عطا فرمائی۔ قاری مکی رحمہ اللہ کے پڑھنے کا انداز حضرت قاری عبد المالک رحمہ اللہ کو بہت محبوب تھا۔ آپ کے تلامذہ ہزاروں کی تعداد میں ملک اور بیرون ملک تدریس اور علمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تدریس:
آپ نے مولانا محمد صادق رحمہ اللہ کے مدرسہ مظہر العلوم کھڈہ کراچی میں ایک سال پڑھایا اسی دوران آپ سے حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمہ اللہ نے بھی استفادہ کیا۔ پھر مدرسہ اشرفیہ جیکب لائن میں تین سال تدریس کی۔ ایک سال مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کے مدرسہ میں پڑھایا۔ اس دوران مولانا محمد تقی عثمانی اور مولانا محمد رفیع عثمانی بھی آپ سے پڑھتے رہے۔ ایک سال سکھر میں بھی پڑھایا۔ مکھڈ کیمل پور میں ایک سال تدریس کی۔ استاذ القراء قاری محمد عبد الوہاب مکی رحمہ اللہ نے جامعہ رحمانیہ میں بھی کئی سال تجوید و قراء ت پڑھائی اور یہاں آپ سے بہت طلباء و طالبات نے تجوید و قراء ت میں استفادہ کیا۔
المدرسۃ الکریمیۃمسلم مسجد کے صدر مدرس کے طور پر۱۹۵۹ء میں چارج لیا اور ۱۹۶۸ء تک اعلیٰ تدریس کی خدمات انجام دیں۔۱۹۷۱ء میں محکمہ اَوقاف سے متعلق ہوئے اور مدارس کی تعلیم و ضبط کے نگران رہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَنداز تدریس
حضرت قاری صاحب تجوید و قراء ت کی جو کتابیں پڑھاتے وہ مختصر اور عام فہم انداز میں طلبا کو پڑھاتے اور آخر میں سبق کا خلاصہ بڑے اچھے طریقے سے بیان کرتے اور جن طلبا کو مشق کرواتے وہ طلبا انہی کے انداز میں تلاوت کرتے اور بہت ہی اچھی طرح پڑھتے۔ ان کی ادا بہت اعلیٰ ہوتی اور ان کے تلامذہ جو تلاوت کرتے انہی کے طریقہ میں کرتے۔
حضرت قاری عبد الوہاب مکی رحمہ اللہ امام القراء حضرت قاری عبد المالک رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو حضرت امام القراء ان کو عرب صاحب کہہ کر پکارتے۔ بعض دفعہ ان کے لیے دودھ اور جلیبی منگواتے۔ قاری عبد الوہاب مکی رحمہ اللہ عرض کرتے حضرت آپ بھی تناول فرمائیں تو حضرت امام القراء رحمہ اللہ فرماتے آپ کھالیں اگر بچ جائیں گی تو میں بھی کھالوں گا۔
جامعہ مسجد چینیانوالی میں جب حضرت قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ کے فارغین کا پہلا جلسہ تقسیم اسناد ہوا تو اس میں حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ، قاری عبد الوہاب مکی رحمہ اللہ اور قاری فضل کریم رحمہ اللہ کو مدعو کیا۔ اس وقت تلاوت قاری عبد الوہاب مکی رحمہ اللہ نے کی تو تمام حاضرین پر سکتہ طاری ہوگیا اور حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ، حصرت مولانا قاری فضل کریم رحمہ اللہ اور حصرت مولانا داؤد غزنوی سب حضرات کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت قاری صاحب کا ایک عظیم کارنامہ:
’التیسیر‘حضرت علامہ دانی رحمہ اللہ کی قراء ت سبعہ کی عظیم کتاب ہے، جس کو علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے نظم کیا ہے۔ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے علامہ دانی رحمہ اللہ کی کتاب التیسیر کو پاکستان میں شائع کیا ۔قاری مکی رحمہ اللہ کا یہ مطبوعہ نسخہ سعودیہ میں جب استاذ القراء والمجوِّدین الشیخ عبد الفتاح السید عجمی المرصفی رحمہ اللہ کو پیش کیا گیا تو انہوں نے اس کتاب کا مطالعہ کرکے فرمایا کہ یہ اس کتاب کا اَصح ترین مطبوعہ ہے۔
حضرت قاری عبد الوہاب رحمہ اللہ شافعی المسلک تھے اور نماز میں رفع الیدین کرتے تھے۔ عید کی نماز اکثر حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کے پیچھے پڑھتے تھے۔
 
Top