• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث قراء کرام کے مشائخ عظام

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَساتذہ کرام
(١) الشیخ احمد عبد الرزاق حجازی رحمہ اللہ
(٢) الشیخ عبد المحسن رحمہ اللہ
(٣) الشیخ عبد القاہر السمیع رحمہ اللہ
(٤) الشیخ حسن علوی رحمہ اللہ
(٥) شیخ القراء محمد سعد اللہ مکی رحمہ اللہ
(٦) امام القراء حضرت قاری عبد المالک رحمہ اللہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تلامذہ
(١) قاری حبیب اللہ میر محمدی رحمہ اللہ
(٢) قاری خلیل الرحمن کاشمیری استاذ قاری محمد ایوب برماوی مدینہ منورہ
(٣) قاری عبد المجید راجہ جھنگ والے
(٤) قاری عبد القیوم جامعہ صدیقیہ لاہور
(٥) قاری علی زمان ہزاروی
(٦) قاری عبد الرؤف مدنی مراکب مسجد نبوی شریف
تاریخ وفات
۲۶ اور۲۷ دسمبر۱۹۹۷ء جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب کو حضرت قاری عبد الوہاب مکی رحمہ اللہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ آپ کو قبرستان میانی صاحب میں سپرد خاک کیا گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦)حضرت قاری فضل کریم رحمہ اللہ

نام و نسب
والدین نے آپ کا نام یحییٰ رکھا۔ پیدائش کے چند ماہ بعد والدہ کا انتقال ہوگیا تو تائی نے انہیں اپنی گود میں لے لیا۔ ان کا ایک لڑکا تھا جس کا نام عبد الکریم تھا۔ اس لیے ان کا نام فضل کریم رکھا گیا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔ اصل نام سب بھول گئے۔ آپ۱۹۰۲ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام مہتاب الدین تھا۔ اجداد ہندو تھے۔ تین چار پشتوں سے اللہ نے اسلام کی توفیق عطا فرمائی۔
چیچک
بچپن میں آپ پر چیچک کے کئی حملے ہوئے۔ اس سے قوت باصرہ، سامعہ اور لامسہ سے محروم ہوگئے۔ آپریشن سے ناک اور کان کے سوراخ کھولے گئے۔ مگر آنکھیں بے نور رہ گئیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے بصارت لے کر بصیرت کی بے انتہا دولت سے مالا مال فرمادیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حصول تعلیم کا سبب
قادر مطلق کی ان کڑی آزمائشوں میں سے گزرنے کے بعد بھی ان کی سوتیلی والدہ محترمہ ان سے شفقت کا سلوک نہ کرتیں۔آپ جب بھی اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے اپنے والد صاحب کے گھر جاتے تو والدہ صاحبہ ان الفاظ سے تواضع فرماتیں کہ حافظ کے لیے کیا مسجد میں جگہ نہیں وہ یہاں کیوں رہتا ہے؟ والدہ کے ان الفاظ نے ان کے دل میں یہ احساس پیدا کردیا کہ میں ان سب گھر والوں پر بوجھ ہوں۔ والد صاحب اچھا سلوک کرتے تھے اور ان کی خوراک لباس کا ہر طرح سے خیال فرماتے تھے۔ یہ بات ان کی سوتیلی والدہ صاحبہ کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی جس کے باعث ان کے والدین میں اکثر و بیشتر لڑائی جھگڑا رہتا۔ قاری صاحب رحمہ اللہ روز روز کے گھریلو جھگڑوں سے تنگ آچکے تھے۔ سوتیلی والدہ کا دیا ہوا تاثر کہ حافظ کے لیے مسجد میں جگہ نہیں؟ انہیں خانہ خدا میں کھینچ لایا اور وہیں سے ان کی دینی لگن کی ابتداء ہوئی اور دینی خدمت کی انتہا تک پہنچی۔اس لحاظ سے ان کی والدہ کا رویہ ان کے لیے نیک فال ثابت ہوا اور یہ دین کے مخلص اور مضبوط خادموں میں شامل ہوئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حفظ
حضرت مولانا قاری خدا بخش کانٹھوی مراد آبادی رحمہ اللہ سے آٹھ دس پارے امرتسر میں ہی حفظ کیے پھر بعد میں حضرت قاری خدا بخش رحمہ اللہ لکھنو چلے گئے تو آپ نے حافظ عبد اللطیف سنبھلی رحمہ اللہ سے مسجد خیر الدین میں پڑھنا شروع کیا اور حفظ کی تکمیل کی۔
تجوید
آپ نے تجوید حضرت قاری کریم بخش رحمہ اللہ سے پڑھی۔
تدریس
لاہور میں سب سے پہلے مال روڈ پر ڈاکٹر عزیز الدین کے ہاں کچھ عرصہ پڑھایا۔ پھر ضلع گورداس پور میں بعد ازاں چینیانوالی مسجد لاہور میں تقریباً۲۰ سال پڑھایا۔
تجوید القرآن
آپ رحمہ اللہ نے مسجد نور کوچہ کندیگراں میں اگست ۱۹۵۰ء میں مدرسہ تجوید القرآن کی بنیاد رکھی۔ پھر۱۷؍اکتوبر ۱۹۵۶ء /۱۲ ربیع الاوّل۱۳۷۲ھ کو موجودہ عمارت کی بنیاد رکھی گئی۔ جس میں حضرت قاری فضل کریم رحمہ اللہ، حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ، حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ، مولانا ابوالحسنات رحمہ اللہ، حضرت قاری کریم بخش رحمہ اللہ اور استاذ القراء حضرت قاری عبد المالک رحمہ اللہ کو مدعو کیا اور تمام حضرات نے مدرسہ کی سنگ بنیاد رکھی اور دعا فرمائی۔ حضرت قاری فضل کریم تاحیات اس مدرسہ میں خدمت قرآن میں مشغول رہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رعب و دبدبہ
باوجودیکہ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ ظاہری بصارت سے موصوف نہ تھے، لیکن طالب علموں پر ان کا کچھ ایسا رعب چھایارہتا تھا کہ کیا مجال کہ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ درس گاہ میں موجود ہوں اور کوئی طالب علم دوسرے سے آواز سے بات کرسکے بلکہ اکثر ایسا دیکھا گیا کہ طلباء شور کر رہے ہیں اور حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کو دور سے آتے دیکھ کر ان پر ایسا سناٹا طاری ہوگیا کہ گویا ان کے منہ میں زبان ہی نہیں اور ان کی جماعت پر کچھ ایسی متانت اور سنجیدگی چھاگئی گویا کہ وہ بچے ہی نہیں ہیں۔ البتہ بڑھاپے میں یہ کیفیت کسی حد تک ملاطفت اور شفقت کے ساتھ بدل گئی تھی۔ بلکہ بعض دفعہ طلبا سے کچھ بے تکلفی بھی فرمالیا کرتے تھے مگر اس حد تک نہیں کہ اس سے تعلیم و انتظام کا کام متاثر ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ذہانت
حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کی بیٹی کہتی ہیں کہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ طالب علم قرآن پاک زبانی سناتے سناتے اِدھر ادھر متوجہ ہوکر بیٹھے ہی بیٹھے ہاتھوں سے کھیلنے لگتے۔ حالانکہ آواز ایک رتی بھی پیدا نہ ہوتی مگر انہیں علم ہوجاتا کہ وہ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ اشاروں کنایوں میں مصروف ہیں۔ میں نے ایک دفعہ جب بچے جاچکے تو ان سے پوچھاآپ کو کیسے علم ہوجاتا ہے؟ تو فرمانے لگے کہ آواز کا رخ بدل جاتا ہے چہرہ دوسری طرف کرنے سے آواز کی سمت بدل جاتی ہے۔
اسی طرح اگر کوئی شاگرد (حفظ کا) دیکھ کر سنانا شروع کردیتا تاکہ سبق یاد نہ ہونے کے باعث ڈانٹ ڈپٹ سے بچ جائے تو حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کو علم ہوجاتا شاید سبق یاد نہ ہونے کی صورت میں تو سبق یاد کروادیتے مگر دھوکہ بازی کے باعث بچے سرزنش سے نہیں بچا کرتے تھے۔ ایک اور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ ایک صاحب فرمانے لگے کہ میں اگر آپ کے پاس سے کچھ حالت بیداری میں چرا کر لے جاؤں تو آپ کبھی گرفت نہ کرسکیں گے۔ مذاق میں انہوں نے کچھ اشیاء لاکر رکھ دیں۔ مختلف اطراف میں چیزیں پڑی تھی۔ اس صاحب نے جونہی اشیاء پر ہاتھ مارا حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے ان کا ہاتھ پکڑلیا۔ وہ اس قدر بوکھلائے کہ انہیں کچھ سوجھتا ہی نہ تھا۔ پھر انہوں نے اصرار کرکے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا چلا ؟آپ نے فرمایا کہ اشیا میں مکھیاں بیٹھ گئی تھیں۔ آپ کے ہاتھ مارنے سے مکھیاں اڑیں تو میں نے سمت کا اندازہ لگایا اور یوں آپ پکڑے گئے۔ وہ ہمیشہ ہاتھوں کی بناوٹ سے احباب کو پہچان لیتے تھے۔
حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ اپنے کمرے میں تشریف فرما ہوتے تو وہاں بیٹھے یہ بتادیتے کہ فلاں نمبر کمرے میں اُستاذ موجود نہیں ہے۔ اگر کوئی آدمی حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کو کافی دیر بعد ملتا تو آپ اس سے مصافحہ کرتے ہی پہچان جاتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حسن تدریس
ایک بہت ہی اعلیٰ اور مبارک وصف اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کو یہ عطا فرمایا تھا کہ ان کی خواہش ہوتی تھی کہ میرے شاگرد بالکل میری طرح ہی پڑھنے لگیں۔ طلبا کو تجوید کے موافق پڑھنے کی بڑی سختی کے ساتھ ہدایت فرماتے اور ایک ایک لفظ پر نگاہ رکھتے تھے اور روک ٹوک فرماتے۔ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کے جوانی کے شاگرد آج کل کے عام قاریوں سے اچھا پڑھتے تھے۔ چنانچہ قاری محمد شاہد لکھنوی رحمہ اللہ لاہور تشریف لائے، حضرت قاری صاحب کے شاگردوں کا سن کر بہت خوش ہوئے اور حسن تدریس پر اپنا تاثر ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ صحت لفظی کا اس قدر خیال تو ہمارے مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنو کے اساتذہ بھی نہیں رکھتے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بزرگوں اور اَساتذہ کا احترام:
حضرت قاری صاحب میں جہاں اور خوبیاں تھیں ان میں ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ بزرگوں اور اساتذہ کا حد درجہ احترام فرماتے تھے۔ حضرت قاری کریم بخش رحمہ اللہ بلحاظ عمر حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ سے کوئی اتنے بڑے نہ تھے۔ بارہا ایسا دیکھا گیا کہ حضرت قاری کریم بخش رحمہ اللہ آپ کو مدرسہ تجوید القرآن میں شاگردوں کے سامنے ڈانٹ رہے ہیں اور وہ تسلیم و رضا کا پیکر بنے اس طرح کھڑے ہیں جیسا کوئی چھوٹا بچہ ہو اور اف تک نہیں کرتے ۔ اسی تواضع کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کو ہر ایک کی نگاہ میں معزز بنا دیا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہمہ گیر شخصیت:
حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کی طبیعت باوجود اعتقاد و عمل کی پختگی کے ملنسار اور ہمہ گیر واقع ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مدرسہ تجوید القرآن کی بنیاد رکھتے وقت آپ نے اہل سنت کے مکاتب ثلاثہ یعنی دیوبندی، اہل حدیث اور بریلوی تینوں مکاتب فکر کے مقتدر اور ممتاز ترین علما کو اس تقریب میں مدعو فرمایا۔ چنانچہ دیوبندی مکتب فکر کی طرف سے راس الاولیاء شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کو، اہل حدیث مکتب فکر کی طرف سے حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کو اور بریلوی مکتب فکر کی طرف سے حضرت مولانا ابوالحسنات رحمہ اللہ کو شرکت کی دعوت دی اور یہ تینوں حضرات تشریف لائے مگر عین بنیاد رکھنے کے وقت ان تینوں حضرات نے امام القراء حضرت عبد المالک رحمہ اللہ کو اپنا نمائندہ چن لیا۔ اس طرح بنیاد کی پہلی اینٹ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے رکھی۔
 
Top