• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث مولوی یا کوئی شیعہ ذاکر

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197

رہی بات جبر سے بیعت کرنے کی امام ‍‎ذہبی نے یہی لکھا ہے کہ بادشاہ وقت کے سامنے ہار کر حسین اور ابن زبیر رضی اللہ عنھما نے بیعت کی تھی بہرحال میرا مدعا صرف ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اصل موقف بیان کرنا تھا
آپ اس سے جو بھی باتیں اخذ کریں وہ آپ کے ذمہ ہے
ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا کیا اختلاف تھا جس پر وہ بیعت نہیں کرنا چاہتے تھے؟
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
تحریر عصر حاضر کی لکھی گئی کتاب ہے ۔اس کا حوالہ صرف تائیدا دیا جاسکتا اصلا نہیں ۔

ہم طفل مکتب ہیں اور آپ بحر علم ہیں مگر اس(علمی) میدان میں دلیل کی اہمیت ہے اور دلیل آپ نے کوئی پیش نہیں کی میں درج ذیل علتوں کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف کہا تھا۔
(1) عامر بن مسعود مجہول الحال ہے ۔
(2) عبدالرحمن بن معاویہ اور عامر بن مسعود کی ملاقات ثابت نہیں ہے۔
اس کے دلائل میں نے دیئے جس پر آپ نے جو تبصرہ کیا ہے اس کو ترتیب وار بیان کرتے ہیں
(1) تحریر تقریب عصر حاضر اس کا حوالہ تائید کے طور پر دیا جاسکتا ہے اصلا نہیں
یہ تو موصوف فرما رہے ہیں اس کی کوئی دلیل ہے علامہ البانی بھی عصر حاضر کے محدث ہیں اہل علم ان کو تحقیق کو بحثیت اصلا پیش کرتے ہیں اسی طرح اہل علم میں سے تحریر تقریب کو بھی اصلا پیش کرتے ہیں چنانچہ سنابلی صاحب نے اپنی کتاب یزید بن معاویہ پر الزامات کا جائزہ 435( پرانا ایڈیشن) میں اس کا حوالہ اصلا دیا ہے اور عصر حاضر کے ہی محدث احمد شاکر رحمہ اللہ کا حوالہ بھی اصلا دیا ہے ۔
یہ تو میں نے تمہید کے طور پر عرض کر دیا مگر موصوف کو سمجھنا چاہیے کہ میں نے اس کتاب کا حوالہ اصلا نہیں تائید کے طور پر ہی دیا ہے چنانچہ اصول ہے کہ جس روای سے صرف دو رواۃ روایت کریں اور اس کی کوئی توثیق نہ کرے ایسا روای مجھول ہے اس اصول کی تائید میں اس کتاب کا حوالہ دیا گیا تھا اسکین پیش ہے

majhool.png




اور آُپ نے جو لکھا کہ اس کی روایت کی بعض نے تصیح کی ہے تو عرض ہے کہ اس کی حدیث کی تصحیح صرف ابن خذیمہ نے کی ہے اور وہ بھی متساہل ہیں جیسا سنابلی صاحب نے بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے (یزید بن معاویہ پر الزامات کا جائزہ ص 518)

دوئم اس روایت کو البانی صاحب نے صحیح ابن خزیمہ کی تحقیق میں ضعیف قرار دیا ہے اس لئے اگر ان کے علاوہ کسی نے اس کی توثیق کی ہو تو ضرور پیش کریں اس وقت تک یہ راوی مجہول ہے

 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
اورعامربن مسعود جس دور میں کوفہ تھے اسی دور میں ہی اس روایت کو انہوں نے بیان کیا اس بات کا پہلے ثبوت دیجئے پھراعتراض کیجئے۔
اور جدلا مان لیں کہ وہ بوقت بیان روایت ھذا کوفہ میں تھے تو بھی ان کے شاگرد کوفہ میں یہ حدیث نہیں سن سکتے اس کی کیا دلیل ہے؟َ

دوسری بات اپ کو اس کا ثبوت چاہئے عامر بن مسعود جس وقت کوفہ میں تھے اس وقت انہوں نے یہ روایت بیان کی ہے
اس کی دلیل یہ ہے کہ عامر بن مسعود کا 65 ہجری کے بعد کوفے میں رہنا ہی ثابت ہے جیسا سنابلی صاحب نے اپنی کتاب میں اس روایت کی تحیقیق میں نقل کیا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے

سمعت مصعباً الزبيري يقول: له صحبة، يعني عامر بن مسعود، وكان أمير ابن الزبير على الحرب على الكوفة، وكان عبد الله بن يزيد الخطمي على الصلاة.
تو عامر بن مسعود کوفہ میں ہی تھے اور ان سے یہ روایت عبدالرحمن بن معاویہ نے نقل کی ہے اور وہ 70 ہجری میں وہ مدینہ میں تھے کیونکہ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے جنازے میں شرکت کی تھی اور جابر بن عبداللہ کا انتقال مدینہ میں ہواتھا اور 70 ہجری کے پاس ہی عامر بن مسعود کا انتقال ہوا تھا سنابلی صاحب نے ہی عبدالرحمن بن معاویہ کی عمر کم از کم 65 ہجری کے حساب سے 5 سال نقل کی ہے تو جب عامر بن مسعود کا کوفہ میں ہونا ثابت ہے اور عبدالرحمن بن معاویہ کا مدینہ میں ہونا تو اب اپ یہ ثابت کریں کہ عبدالرحمن بن معاویہ کا خاص دلیل سے کوفہ جانا ثابت کریں کیونکہ 5 سال کی عمر میں مدینہ سے کوفہ جانے اور حدیث سننے کے لئے خاص دلیل کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے عامر بن مسعود اور انکے شاگردوں میں انقطاع نقل کیا ہے جب ان کے شاگردوں کا ان سے انقطاع ہے تو پھر عبدالرحمن بن معاویہ کا ان سے اتصال کیسے ہو سکتے ہے جو مدینہ میں تھے اور نہ انہوں نے عامر بن مسعود کی شاگردی اختیار کی تھی۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
جس طرح غلطی سے دو الگ الگ راوی کو ایک سمجھ لیا جاتا ہے اسی طرح غلطی سے الگ الگ نام ہونے پر ایک ہی راوی کو دو سمجھ لیا جاتاہے ۔یہ دونوں ایک ہی راوی ہیں الگ الگ نہیں ہیں ۔ابن حبان نے کہیں نہیں کہا کہ ابوسعید کو عامر بن مسعود سمجھنا غلط ہے۔

اپ نے لکھا کہ یہ ایک ہی راوی ہے جبکہ میں دونوں کے تراجم اگ الگ پیش کر چکا عامر بن مسعود الرزقی کا نام عمار بن سعد یا سعد بن عمار ہے اور یہ شامی تھے اور جمہور محدثین نے ان کو الگ ہی مانا ہے اوران کے تراجم بھی الگ نقل کیے ہیں چند پیش ہیں

عامر بن مسعود بن أمية بن خلف الجمحي.
• قال أبو داود: قلت لأحمد: عامر بن مسعود القرشي، له صحبة؟ قال: لا أدري، قد روى عن النبي - صلى الله عليه وسلم -.
قال أبو داود: سمعت مصعباً الزبيري يقول: له صحبة، يعني عامر بن مسعود، وكان أمير ابن الزبير على الحرب على الكوفة، وكان عبد الله بن يزيد الخطمي على الصلاة.
(مسوعۃ اقوال امام احمد بن حنبل جلد 2 ص 214)

أبو سعيد الزرقي، الأنصاري، ويقال: أبو سعد، قيل: اسمه سعد بن عمارة، وقيل: عمارة بن سعد، وقيل: عامر بن مسعود.
• قال عبد الله بن أحمد: قلت لأبي: حدثني عمرو الناقد. قال: أخبرنا يعقوب بن إسحاق الحضرمي. قال: أخبرني شعبة. قال: أخبرني أبو الفيض، عن عبد الله بن مرة، عن أبي سعد الزرقي، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه سئل عن العزل. فقال أبي: هو ذا أبو سعيد الزرقي. (حوالہ ایضا جلد 2 ص 210)

عَامِرُ بْنُ مَسْعُودٍ الْجُمَحِيُّ عِدَادُهُ فِي الْكُوفِيِّينَ، وَهُوَ عَامِرُ بْنُ مَسْعُودِ بْنِ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفِ بْنِ وَهْبِ بْنِ حُذَافَةَ بْنِ جُمَحَ، ابْنُ أَخِي صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، وَهُوَ وَالِدُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَامِرٍ، كَانَ يَلِي لِعَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَلَى أَهْلِ الْكُوفَةِ، ثُمَّ عَزَلَهُ بِعَبْدِ اللهِ بْنِ يَزِيدَ الْخَطْمِيِّ، مُخْتَلَفٌ فِي صُحْبَتِهِ، حَدِيثُهُ عِنْدَ نُمَيْرِ بْنِ غَرِيبٍ، وَعَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ(معرفۃ الصحابہ ابو نعیم جلد 4 رقم 2065)

سَعْدُ بْنُ عُمَارَةَ الزُّرَقِيُّ أَبُو سَعِيدٍ وَقِيلَ: عُمَارَةُ بْنُ سَعْدٍ(حوالہ ایضا جلد 3 1255)


.

(1342) عامر بن مسعود الجمحي،
روى عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الصوم في الشتاء الغنيمة الباردة. روى عنه نمير بن عريب.(الاستیعاب رقم 1342)

(948) سعد بن عمارة، أبو سعيد الزرقي،
هو مشهور بكنيته، واختلف في اسمه،
فقيل: سعد بن عمارة. وقيل: عمارة بن سعد، والأكثر يقولون سعد بن عمارة.
روى عنه عبد الله بن مرة، وعبد الله بن أبي بكر، وسليمان بن حبيب المحاربي، ويحيى بن سعيد الأنصاري.

(الاستیعاب رقم 948)

عامر بْن مسعود بْن أمية بْن خلف بن وهب بْن حذافة بْن جمح، القرشي الجمحي.
مختلف في صحبته، قال أَبُو داود: قلت لأحمد بْن حنبل:
عامر بْن مسعود القرشي، له صحبة؟ قال: لا أدري، وقد روى عن النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وقال أَبُو داود: وسمعت مصعبًا الزبيري، يقول: له صحبة، وهو والد إِبْرَاهِيم بْن عامر، الذي روى عنه الثوري، وشعبة.(اسد الغابہ ابن اثیر)
سعد بن عمارة الزرقي
ب ع س: سعد بْن عمارة وقيل: عمارة بْن سعد أَبُو سَعِيد الزرقي، وهو مشهور بكنيته، واختلف في اسمه، والأكثر يقولون: سعد بْن عمارة.
روى عنه عَبْد اللَّهِ بْن مرة، وعبد اللَّه بْن أَبِي بكر، وسليمان بْن حبيب المحاربي، ويحيى بْن سَعِيد الأنصاري.(اسد الغابہ ابن اثیر)

أبو سعيد الزرقي صحابي عنه عبد الله بن مرة ومكحول(الکاشف 6650)


عامر بن مسعود بن أمية بن خلف اختلف في صحبته وله حديث في صوم الشتاء عنه عبد العزيز بن رفيع وغيره(الکاشف رقم 2546)
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
امام البانی کا یہ اصول بھی ہے کہ تصحیح سے بھی توثیق ہوتی ہے اس اصول سے یہ راوی ثقہ ہے۔
امام البانی کا یہ اصول بھی ہے کہ جس کی ابن حبان نے توثیق کی ہے اور کئی ثقہ نے ان سے روایت کیا وہ ثقہ ہے اس اصول سے بھی یہ ثقہ روی ہے اس سے کئی نے روایت کیا ہے اور آپ کی تفریق مان لینے پر بھی کم از کم دو ثقہ نے اس سے روایت کیا ہے نمیر بھی ثقہ ہی اور اسی اصول پر۔

اور رہی اس کے البانی صاحب کے اصول پر ثقہ ہونے کی تو یہ اپ کی غلط فہمی ہے البانی صاحب متعدد ثقہ سے روایت کرنے والے کو ثقہ مانتے تھے صرف دو راوی جس سے روایت کریں اس کو ثقہ نہیں مانتے تھے اور دو راوی متعدد نہیں ہوتے اور نمیر البانی صاحب کے نذدیک خود مجہول ہے جیسا میں نے نقل کیا تھا اگر یہ نمیر البانی صاحب کے اصول پر ثقہ ہوتا تو البانی صاحب اس کو مجہول نہ کہتے اس نمیر کی ابن حبان کے سوا کسی نے بھی توثیق نہیں کی ہے اور امام ذہبی نے الکاشف میں اس وثق کہا یعنی انہوں نے اس کی توثیق کی نفی کی ہے اور وہ اس کو ضیعف مانتے ہیں اور امام ابن ابی حاتم نے بھی اس کو غیر معروف کہا ہے تو نہ نمیر ثقہ ہے اور نہ عامر مبں مسعود ثقہ ہے

نمير بن عريب الهمداني روى عن عامر بن مسعود روى عنه أبو إسحاق الهمداني سمعت أبي يقول ذلك و [سمعته - 1] يقول: لااعرف نمير بن عريب الافى حديث: الصوم في الشتاء.(جرح التعدیل ابن ابی حاتم رقم 2277)
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
امام بخاری کے لفظ منقطع کا وہ مطلب ہی نہیں جو جہالت میں آپ نے پیش کیا ہے یا جھوٹ سے کام لیا ہے۔
امام بخاری عامر بن مسعود کی روایت کو منقطع بتلارہے ہیں عامربن مسعود سے ان کے شاگردوں کی روایت کو منقطع نہیں بتلارہے ہیں۔
امام بخاری منقطع سے ارسال مراد لے رہے ہیں کہ عامربن مسعود کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت مرسل یعنی منقطع ہے۔اوریہی بات دوسرے محدثین نے بھی کہی ہے۔


اپ کی آخری بات میں نے جہالت کی وجہ سے امام بخاری کے قول کو غلط سمجھا ہے اور بقول اپ کے اس میں امام بخاری عامر بن مسعود اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے انقطاع بتایا ہے
اپ کی معصومیت پر ہنسی آتی ہے موصوف اگر تاریخ الکبیر کا تھوڑا بہت مطالعہ کر لیتے تو یہ نہ ہوتا امام بخاری کی پوری کتاب میں یہی اسلوب ہے اگر وہ کسی کے صحابی ہونے کا انکار کرتے ہیں اور اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت کو مرسل مانتے ہیں تواس کو واضح نقل کرتے ہیں اور ترجمہ میں وہ عامر بن مسعود کے شاگردوں کا ہی انقطاع مان رہے ہیں اور اسی کو بیان کیا ہے اور اس جیسی متعدد امثال تاریخ الکبیر میں موجود ہیں چند اپ کی آنکھیں کھولنے کے لئے پیش ہیں جن میں یزید فاسق کی محبت اتنی بس گئی کہ صحیح غلط بھی نہیں دیکھ پاتی ہیں
hasan bn abd mursal(bukhari jild 3 s 31).png


suleman alelaf mursal.png





 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71


اس میں تمام امثال موجود ہیں مرسل عن اور عنہ وغیرہ ان کو دیکھ کر آپ کی کافی وشافی تسلی ہو گئی ہو گی
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
اس میں دو جھوٹ ہیں۔
ایک : یزید کے فاسق ہونے پر اجماع کا دعوی
دوسرا: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف یہ منسوب کرنا کہ انہوں نے یزید کو فاسق کہا ہے ۔
یہ دونوں باتیں جھوٹ کے سوائے کچھ نہیں ۔
اور روافض کا دین ہی جھوٹ بولنے پر ٹکا ہے۔



اور جو اپ نے مجھ پر یہ رافضی اور چھوٹے ہونے کا الزام لگایا ہے اس کے لئے یہ پڑھ لیں
امام ابن تیمیہ نے میں یزید کو فاسق کہا ہے

أَنَّ الْقَوْلَ فِي لَعْنَةِ يَزِيدَ كَالْقَوْلِ فِي لَعْنَةِ أَمْثَالِهِ مِنَ الْمُلُوكِ الْخُلَفَاءِ وَغَيْرِهِمْ، وَيَزِيدُ خَيْرٌ مِنْ غَيْرِهِ: خَيْرٌ مِنَ الْمُخْتَارِ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ الثَّقَفِيِّ أَمِيرِ الْعِرَاقِ، الَّذِي أَظْهَرَ الِانْتِقَامَ مِنْ قَتَلَةِ الْحُسَيْنِ ; فَإِنَّ هَذَا ادَّعَى أَنَّ جِبْرِيلَ يَأْتِيهِ. وَخَيْرٌ مِنَ الْحَجَّاجِ بْنِ يُوسُفَ ; فَإِنَّهُ أَظْلَمُ مِنْ يَزِيدَ بِاتِّفَاقِ النَّاسِ.
وَمَعَ هَذَا فَيُقَالُ: غَايَةُ يَزِيدَ وَأَمْثَالِهِ مِنَ الْمُلُوكِ أَنْ يَكُونُوا فُسَّاقًا
(منھاج السنہ جلد 4 ص567)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top