• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث مولوی یا کوئی شیعہ ذاکر

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
کفایت اللہ صاحب نے لکھا ہے۔۔۔
"۔۔۔تمام صحابہ بشمول حُسین رضی اللہ عنہ اور تابعین یزید کی بیعت پر متفق تھے۔۔۔۔۔۔"
براہ مہربانی ذرا کسی صحی سند سے ثابت کریں کہ حُسین رضی اللہ عنہ نے اس مُلوک یزید کی بیعت کی تھی؟؟؟
یہ ہے ایک کھُلا جھوٹ۔۔۔ اگر کسی کے پاس اس کی صحیح سند ہے تو براہ مہربانی بتا دے۔۔
جہاں تک بات ہے کہ کفایت اللہ صاحب نے اس کے استدلال میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ والی روایت کا سہارا لیا ہے۔۔۔یہ نافع نے روایت کی ہے۔۔ کوئی یہ بتائے کہ اس روایت میں کہاں یہ لکھا ہوا ہے کہ حُسین رضی اللہ عنہ اور ابن زُبیر رضی اللہ عنہ نے بھی یزید کی بیعت کر لی تھی۔۔۔ کیا حُسین و ابن زبیر رضی اللہ عنہم ، ابن عُمر رضی اللہ عنہ کے عمل کے ماتحت تھے؟؟ یعنی کہ اگر ابن عُمر رضی اللہ عنہ نے بیعت کر لی تو اس کا مطلب حُسین و ابن زبیر کی بیعت تھی؟؟؟
کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں:
"جبکہ بعض روایات یہ بتاتی ہیں کہ یزید کے باقاعدہ خلیفہ بننے کے بعد یزید کے اصحاب جب مدینہ میں حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بیعت کی رسم پوری کرنے کے لیے پہنچے تو انہوں نے بالکل انکار نہیں کیا بلکہ مجمع عام میں یہ رسم پوری کرنے کا وعدہ کیا تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ حُسین رضی اللہ عنہ بھی یزید کے مخالف نہیں ہیں"۔۔۔
اس کی صحیح سند کہاں ہے؟؟
حد ہوتی ہے ایک طرف تو مولانا صاحب خود کہہ رہے ہیں کہ تاریخی روایات خلط ملط ہو گئی ہیں اور طبری کا حوالہ بھی دیا ہے دوسری طرف مولانا صاحب خود طبری کا حوالہ دے رہے ہیں بغیر کسی سند کی تحقیق کے۔۔۔۔ اس روایت کی کوئی صحیح سند موجود ہے جو کہ اس کو صحیح مانا جائے؟؟؟؟
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں:
"جبکہ بعض روایات یہ بتاتی ہیں کہ یزید کے باقاعدہ خلیفہ بننے کے بعد یزید کے اصحاب جب مدینہ میں حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بیعت کی رسم پوری کرنے کے لیے پہنچے تو انہوں نے بالکل انکار نہیں کیا بلکہ مجمع عام میں یہ رسم پوری کرنے کا وعدہ کیا تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ حُسین رضی اللہ عنہ بھی یزید کے مخالف نہیں ہیں"۔۔۔
اس کی صحیح سند کہاں ہے؟؟
حد ہوتی ہے ایک طرف تو مولانا صاحب خود کہہ رہے ہیں کہ تاریخی روایات خلط ملط ہو گئی ہیں اور طبری کا حوالہ بھی دیا ہے دوسری طرف مولانا صاحب خود طبری کا حوالہ دے رہے ہیں بغیر کسی سند کی تحقیق کے۔۔۔۔ اس روایت کی کوئی صحیح سند موجود ہے جو کہ اس کو صحیح مانا جائے؟؟؟؟
پھر مولانا صاحب لکھتے ہیں
"بہرحال اگلے دن وعدہ کے مطابق حسین رضی اللہ عنہ مدینہ میں موجود رہے لیکن حکام دوسری مصروفیات کے باعث ان کی بیعت کا انتظام نہیں کرسکے۔۔۔
"حکام اگلے دن عبداللہ بن زبیر کے سلسلے میں مصروف رہے یہاں تک کے شام ہو گئی، پھر سام کو انہوں نے بعض لوگوں کو حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تو آپ نے فرمایا صبح ہو جائے پھر دیکھیں گے ، چنانچہ یہ لوگ واپس ہو گئے اور حُسین رضی اللہ عنہ سے کوئی اصرار نہیں کیا، پھر حسین رجی اللہ اسی رات مدینہ سے نکل گئے۔ظاہر ہے اس میں حُسین رضی اللہ عنہ کی کوئی کوتاہی نہیں ہے وہ وعدہ کے مطابق اگلے دن مدینہ ہی میں موجود تھے، لیکن حکام حُسین رضی اللہ عنہ کی خواہش کے مطابق ان کی بیعت کا انتظام نہ کرسکے اور شام کو ان کے پاس ان کے شرائط کے خلاف پہنچے اور حُسین رضی اللہ عنہ نے اس بار کوئی وعدہ نہیں کیا بلکہ کہا کہ صبح ہو جانے دو پھر دیکھیں گے، لیکن اسی رات حسین رضی اللہ عنہ مکہ روانہ ہو گئے"۔
بھائیو!!! حکام کو ایسی کون سی دوسری مصروفیات تھیں؟؟ جب مدینہ والوں نے بیعت کر لی تھی تو حکام کس کام میں مصروف تھے؟ کیا وہ یزید کے نام سے لیٹر ہیڈ اور مُہریں بنانے میں مصروف تھے جو انہیں وقت نہیں مل رہا تھا؟ عبداللہ بن زبیر کا معاملہ کیا تھا کہ پورا دن صرف ہو گیا؟؟؟ کفایت اللہ صاحب خود ہی تاریخ کا سہارا لے رہے ہیں۔
اور سب سے شروع میں یہ کہہ رہے ہیں کہ حُسین کے حق میں اورمخالف دونوں روایات ملتی ہیں۔۔ براہ مہربانی ان تاریخی روایات کا ذکر ہی کر دیں جو حُسین کے خلاف جارہی ہیں۔ ان کا تو وہ ذکر ہی نہیں کرتے ۔۔۔ واقعات کی اپنے مطلب کی تاویل کرنا اس میں وہ ماسٹر ہیں۔۔۔
لیجئے میں تھوڑی دیر کے لیے مولانا کفایت اللہ بن جاتا ہوں
"ایک روایت ہے کہ جنوں نے حُسین کی شہادت پر نوحہ کیا"
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حُسین کو کسی انسان نے قتل نہیں کیا نہ عُبیدا للہ بن زیاد نے حکم دیا نہ یزید نے ، نہ شمر نے نہ خولی نے حُسین کو قتل کیا بلکہ حُسین کو جنات نے قتل کیا ، اسی لیے جنات ان کی شہادت پر نوحہ کر رہے تھے، وہ اپنے اس فعل پر پچھتا رہے تھے۔ اور حُسین کو جنوں نے کیوں قتل کیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ حُسین نے جب حکام سے اگلے دن بیعت کا وعدہ کیا تو ان کا ارادہ یہ تھا کہ وہ مدینہ سے نکل کر باہر جحفہ کے مقام پر جنوں کی ایک جماعت کو وعظ دیں گے۔ اب وہ پورا دن انتظار کرتے رہے مگر حکام نہ آئے۔ اب حسین نے تو وعدے کے مطابق انتظار کیا مگر چونکہ انہوں نے جنوں کی جماعت سے اگلے دن کا وعدہ کیا ہوا تھا اس لیے وہ رات کی تاریکی میں نکل گئے تاکہ جحفہ پہنچ کر کچھ آرام کرلیں اور صبح صبح اٹھ کی جنوں کی جماعت کو وعظ دیں۔پروگرام کے مطابق جب انہوں نے وعظ شروع کیا تو ایک مخالف جنوں کی جماعت بھی وہاں آگئی اور انہوں نے وعظ سننے والے جنوں کو مار دیا۔ اس اثناء میں سورج طلوع ہو گیا اور جنوں کی جماعت وہاں سے چلی گئی۔ حسین کو پتہ چلا کہ یہ ظالم جنوں کی جماعت کوفہ کے قریب ایک مقام پر رہتی ہے۔۔ حسین نے سوچا کہ پہلے حج کرنا چاہئے اور پھر جنوں کی اس جماعت سے جہاد کرنا چاہئئے وہ مکہ روانہ ہو گئے۔ جب وہ مکہ پہنچے تو ان کو پتہ چلا کہ اگر وہ وقت پر کوفہ کے پاس جنوں کی جماعت سے قصاص لینے نہ پہنچے تو جنوں کی یہ جماعت ہجرت کر کے سکینڈے نیویا چلی جائے گی کیونکہ وہ ایک جگہ پر صرف دو سال قیام کر تے ہیں اور ان کے دو سال پورے ہونے والے ہیں۔ اس لیے وہ حج کئے بغیر نکل آئے اور کربلا کے مقام پر پہنچ گئے۔ جب کوفہ کے گورنر عبیداللہ کو خبر پہنچی تو اس نے اپنا ایک دستہ بھجوایا تاکہ معلوم کرے کہ حسین کیوں آئے ہیں یہ دستہ وہاں پہنچا تو وہاں پر حسین اور ان کے ساتھی ہوا میں تلواریں چلا رہے تھے (چونکہ جن نظر نہیں آتے اس لیے ان کو ایسا ہی لگا)۔ اور ان کے سر کٹ کر گر رہے تھے۔ حسین کا پورا لشکر مارا گیا ۔۔ حسین بھی مارے گئے ۔۔
مگر جنوں کی اس جماعت نے جب شمر اورعمر و بن سعد کو دیکھا تو ان سے پوچھا کہ تم لوگ کیوں یہاں آئے ہو تو انہوں نے کہا کہ ہم حسین کو خوش آمدید کہنے اور ان کا مسئلہ پوچھنے آئے تھے ۔۔ تو جنوں نے نوحہ کرنا شروع کر دیا کہ اب شمر اور عمرو بن سعد کا لشکر ہمیں چھوڑے گا نہیں۔ اس لیے وہ رونا شروع ہو گئے۔ شمر اور عمرو بن سعد کو ان پر رحم آگیا اور انہوں نے انہیں معاف کر دیا ۔۔ انہوں نے حسین اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کو دفنایا او ر کوفہ واپس چلے گئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔۔
لیجئے میں نے مسئلہ حل کردیا۔
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
میرے بھائی تھریڈ کو بے شک بند کردیں۔ اگر ٹھوس دلائل نہیں ہیں آپ کے پاس تو بے شک اس کو لاک کردیں مقفل کردیں جو کچھ مرضی کردیں۔ ٹھوس دلائل پر جو بات کرے اس کے تھریڈز کو اسی طرح بند کردیا کریں تاکہ آپ کو جواب ڈھونڈنے کی زحمت نہ ہو۔۔جواب ہو گا آپ لوگوں کے پاس تو آپ دیں گے نا۔۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@saeedimranx2 صاحب! آپ کو ابھی بہت کچھ سمجھنے کی ضرورت ہے، آپ مدعا سمجھے بغیر گیت گانا شروع کردیتے ہیں!
یزید کا جنگِ قسطنطنیہ میں شرکت کرنا کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔
چلیں اس پر گفتگو کر لیں! مگر اسی پر ٹھہرئیے گا!
آپ کو ان شاء اللہ سند کا مکمل سبق پڑھا دیں گے!
اپنی رضا مندی کا اظہار کیجئے!
 
Last edited:

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
میرے بھائی تھریڈ کو بے شک بند کردیں۔ اگر ٹھوس دلائل نہیں ہیں آپ کے پاس تو بے شک اس کو لاک کردیں مقفل کردیں جو کچھ مرضی کردیں۔ ٹھوس دلائل پر جو بات کرے اس کے تھریڈز کو اسی طرح بند کردیا کریں تاکہ آپ کو جواب ڈھونڈنے کی زحمت نہ ہو۔۔جواب ہو گا آپ لوگوں کے پاس تو آپ دیں گے نا۔۔
جوابات اسی فورم پر موجود ہیں پہلے بھی کہا ہے آپ کو تلاش کریں مل جائیں گے اور آپ کے کتنے ٹھوس دلائل ہیں ان کے جوابات ہیں محترم شیخ خضر حیات حفظ اللہ نے ہاتھ باندھ دئے ہیں ہمارے :)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اگر ٹھوس دلائل نہیں ہیں آپ کے پاس تو بے شک اس کو لاک کردیں مقفل کردیں جو کچھ مرضی کردیں۔ ٹھوس دلائل پر جو بات کرے اس کے تھریڈز کو اسی طرح بند کردیا کریں تاکہ آپ کو جواب ڈھونڈنے کی زحمت نہ ہو۔۔جواب ہو گا آپ لوگوں کے پاس تو آپ دیں گے نا۔۔
محترم بھائی !
آپ اس موضوع پر جو بات صحیح سمجھتے ہیں ، وہ دلائل کے ساتھ ، اور سنجیدگی سے پیش کردیں ،
دوسروں کو للکارنا ، طعن کرنا ، وغیرہ کسی مسئلہ کا کوئی حل نہیں ۔ اسلئے آپ کسی کو نشانہ بنائے بغیر خوب محنت سے اپنا موقف دلیل کے ساتھ سامنے لائیں ،
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@saeedimranx2 صاحب! آپ کو ابھی بہت کچھ سمجھنے کی ضرورت ہے، آپ مدعا سمجھے بغیر گیت گانا شروع کردیتے ہیں!

چلیں اس پر گفتگو کر لیں! مگر اسی بار پر ٹھہرئیے گا!
آپ کو ان شاء اللہ سند کا مکمل سبق پڑھا دیں گے!
اپنی رضا مندی کا اظہار کیجئے!
السلام علیکم ! میرے بھائی ۔۔۔ لکھے ہوئے الفاظ کو آپ کسی بھی رویے کا رنگ دے سکتے ہیں۔ نہ میں نے کسی پر طعن کی ہے نہ میں نے کسی کو للکارا ہے۔ میں نے صرف اور صرف سوالات کیے ہیں اور ایک مثال پیش کی ہے۔۔۔ بات شروع کی تھی میں نے یزید کے جنتی ہونے کے حوالے سے تو اس بارے میں آپ دلائل دیں اور دلائل صرف اور صرف صحیح سند سے دیں اس لیے کہ آج کل صحیح سند صحیح سند کا شور مچا ہوا ۔۔۔ (اصحاب الفیل کا جو واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ابرہہ نے مکہ پر حملہ کیا تھا وہ بھی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے)۔۔ اس لیے میرے سوالات کے جواب صحیح سند کے مطابق ہونے چاہئیں۔ میں تو ایک طالب علم ہوں میرا مطالعہ اتنا نہیں ہے۔ میرا قبلہ درست کردیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
السلام علیکم ! میرے بھائی ۔۔۔ لکھے ہوئے الفاظ کو آپ کسی بھی رویے کا رنگ دے سکتے ہیں۔ نہ میں نے کسی پر طعن کی ہے نہ میں نے کسی کو للکارا ہے۔ میں نے صرف اور صرف سوالات کیے ہیں اور ایک مثال پیش کی ہے۔۔۔ بات شروع کی تھی میں نے یزید کے جنتی ہونے کے حوالے سے تو اس بارے میں آپ دلائل دیں اور دلائل صرف اور صرف صحیح سند سے دیں اس لیے کہ آج کل صحیح سند صحیح سند کا شور مچا ہوا ۔۔۔ (اصحاب الفیل کا جو واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ابرہہ نے مکہ پر حملہ کیا تھا وہ بھی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے)۔۔ اس لیے میرے سوالات کے جواب صحیح سند کے مطابق ہونے چاہئیں۔ میں تو ایک طالب علم ہوں میرا مطالعہ اتنا نہیں ہے۔ میرا قبلہ درست کردیں۔
میں نے کوئی رنگ نہیں دیا، آپ کو ایسا محسوس ہوا ہو تو ہمارا قصور نہیں!
جی اسی مثال پر آپ کے مطالبہ پر ہم اپنا مؤقف باسند اور بادلیل پیش کریں گے!
جی اور یہ سند کی بات بعض الناس پر بہت گراں گزرتی ہے۔
آپ تو ابھی سے خلط مبحث شروع کرنے کو ہو! اس مسئلہ میں @عبدہ بھائی نے تفصیل بیان کردی تھی!
جن معاملات و امور میں باسند کے ہم قائل ہیں، اسے باسند ہیں پیش کریں گے!
اس سے قبل تو آپ نے بڑی ترم خانی سے کام لیا تھا!
اور آپ طالب علم ہیں تو طلب علم اسلوب بھی اپنائیں!

ہم آپ کو درست قبلہ بتلا سکتیں، آپ کا قبلہ درست کرنا ہمارے اختیار میں نہیں، مقلوب القلوب اللہ ہی کی ذات ہے!
آپ نے اپنی رضا مندی کا اظہار نہیں کیا!

آپ بتلائیں، کیا ارادہ ہے؟
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میں نے کوئی رنگ نہیں دیا، آپ کو ایسا محسوس ہوا ہو تو ہمارا قصور نہیں!
جی اسی مثال پر آپ کے مطالبہ پر ہم اپنا مؤقف باسند اور بادلیل پیش کریں گے!
جی اور یہ سند کی بات بعض الناس پر بہت گراں گزرتی ہے۔
آپ تو ابھی سے خلط مبحث شروع کرنے کو ہو! اس مسئلہ میں @عبدہ بھائی نے تفصیل بیان کردی تھی!
جن معاملات و امور میں باسند کے ہم قائل ہیں، اسے باسند ہیں پیش کریں گے!
اس سے قبل تو آپ نے بڑی ترم خانی سے کام لیا تھا!
اور آپ طالب علم ہیں تو طلب علم اسلوب بھی اپنائیں!

ہم آپ کو درست قبلہ بتلا سکتیں، آپ کا قبلہ درست کرنا ہمارے اختیار میں نہیں، مقلوب القلوب اللہ ہی کی ذات ہے!
آپ نے اپنی رضا مندی کا اظہار نہیں کیا!

آپ بتلائیں، کیا ارادہ ہے؟
السلام علیکم! میرے رضامندی کا اظہار انہی الفاظ میں ہے کہ میرا قبلہ درست کرلیں۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں:
"جبکہ بعض روایات یہ بتاتی ہیں کہ یزید کے باقاعدہ خلیفہ بننے کے بعد یزید کے اصحاب جب مدینہ میں حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بیعت کی رسم پوری کرنے کے لیے پہنچے تو انہوں نے بالکل انکار نہیں کیا بلکہ مجمع عام میں یہ رسم پوری کرنے کا وعدہ کیا تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ حُسین رضی اللہ عنہ بھی یزید کے مخالف نہیں ہیں"۔۔۔
اس کی صحیح سند کہاں ہے؟؟
حد ہوتی ہے ایک طرف تو مولانا صاحب خود کہہ رہے ہیں کہ تاریخی روایات خلط ملط ہو گئی ہیں اور طبری کا حوالہ بھی دیا ہے دوسری طرف مولانا صاحب خود طبری کا حوالہ دے رہے ہیں بغیر کسی سند کی تحقیق کے۔۔۔۔ اس روایت کی کوئی صحیح سند موجود ہے جو کہ اس کو صحیح مانا جائے؟؟؟؟
ہمارے پیارے بھائی سعید عمران کو اس پہ اعتراض ہے کہ شاید ایک طرف شیخ کفایت حفظہ اللہ طبری کی تاریخی روایات کی سند پہ بات کرتے ہیں اور دوسری طرف جب اپنا موقف بیان کرتے ہیں تو پھر طبری کی تاریخی روایات کے حوالے دیتے ہیں
تو بھائی جان ایک بات تو یہ ہے کہ جو تاریخی روایات خود انہوں نے تاریخ طبری وغیرہ سے بیان کی ہیں اسکی انہوں نے مکمل تحقیق کی ہو یہ تو وہ خود ہی یا کوئی اور ہمارا بھائی @خضر حیات بھائی @ابن داود بھائی @عدیل سلفی @میاں بھائی وغیرہ بتا سکتے ہیں میرا علم اس سلسلے میں کمزور ہے
دوسری بات یہ ہے کہ تاریخ کے سلسلے میں جو میں نے دوسری جگہ اصول بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ کو سند کی تحقیق کے بغیر آپ بطور اثبات شریعت استعمال نہیں کر سکتے لیکن تاریخ کو تائید شریعت میں استعمال کرنے کی ممانعت نہیں

تاریخ کے بطور دلیلِ شریعت انکار

اور

تاریخ کے بطور تائیدِ دلیلِ شریعت کے اقرار

میں فرق

بھائی جان اسکو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں
صحیح بخاری خالی حدیث کی کتاب ہی نہیں بلکہ فقہ کی بھی کتاب ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے باب باندھ کر فقہی مسائل بیان کیے اور ہر باب کے تحت مندرجہ ذیل دو طرح کی احادیث لے کر آئے ہیں
۱۔صحیح متصل سند کے ساتھ احادیث (انکو وہ دلیلِ شریعت کے طور پہ لا کر آئے ہیں
۲۔معلق، منقطع، بے سند اقوال و روایات وغیرہ ( یہ تب لائے ہوتے ہیں جب اوپر والی متصل صحیح سند والی حدیث (جو اس فقہی مسئلہ میں اصل دلیل شریعت ہوتی ہے) بیان کر دیں اور انکو لانے کا مقصد صرف دلیل شریعت کی تائید ہی ہوتی ہے

پس میرے علم کے مطابق آج تک کسی سلیم الفطرت صاحب علم شخص نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ جب ایک طرف امام بخاری رحمہ اللہ کی احادیث کی اسناد کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے تو پھر یہ دو رخی وہ کیوں کرتے ہیں
اس لئے ہر سلیم الفطرت صاحب علم دلیل شریعت اور تائید دلیل شریعت میں فرق کو خوب سمجھتا ہے

پس میرے بھائی یزید کے معاملے میں صحیح احادیث اور صحابہ کے تعامل کو مجموعی طور پہ ملا کر دیکھتے ہوئے شیخ کفایت حفظہ اللہ نے جو نتیجہ نکالا اسکے مطابق تاریخی روایات کو بغیر سند کے بھی درست مان لیا ہو مگر وہ پھر تائید میں ہوں گی دین کے ثبوت میں نہیں ہوں گی یعنی ان تاریخی روایات کو انہوں نے ممکنہ احتمالات کے نکالنے یا کشید کرنے کے لئے استعمال کیا ہو اور درست احتمال کے متعین کرنے کے لئے استعمال نہ کیا ہو واللہ اعلم

نوٹ: ممکنہ احتمالات کو نکالنا یا کشید کرنا اور درست احتمال کو متعین کرنے میں فرق پہ میں نے دوسری جگہ پہ کچھ لکھا ہوا ہے تھوڑا یہاں بتا دیتا ہوں کہ کوئی انسان جب کوئی کام کرتا ہے تو اسکے احتمالات مختلف ہو سکتے ہیں مثلا کوئی کسی ولی کی قبر پہ ہاتھ اٹھا کر دل ہی دل میں کچھ مانگ رہا ہو تو اسکا ایک احتمال یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس قبر والے کے لئے مغفرت کی دعا مانگ رہا ہو جو عین سنت ہے دوسرا یہ کہ وہ اس قبر والے کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا مانگ رہا ہو جو بدعت ہے یا پھر وہ قبر والے سے ہی مانگ رہا ہو جو شرک ہے یہ تو ممکنہ احتمالات نکالنے کا معاملہ ہو گیا اب درست احتمال کو متعین کرنے کے لئے ہمیں اس شخص کی باقی زندگی کو دیکھنا ہو گا اگر دوسری زندگی میں ہمیں وہ شرک کے خلاف باتیں کرتا ہوا ملتا ہے تو سمجھو کہ تیسرا احتمال غیر متعین ہو گیا یعنی وہ قبر والے سے نہیں مانگ رہا ہو گا اسی طرح وہ اپنے آپ کو اہل حدیث کہلواتا ہو تو زیادہ چانس ہے کہ دوسرا احتمال بھی غیر متعین ہو گیا اسی طرح ہم درست احتمال کو متعین کریں گے
بالکل اسی طرح جنگ جمل و صفین و کربلا وغیرہ کے معاملے میں تاریخ واقعات کو ہم مختلف ممکنہ احتمالات کو نکالنے کے لئے ہم استعمال کر سکتے ہیں اس حد تک تاریخ کو پڑھنا تو درست ہے
لیکن آگے پھر درست احتمال کو متعین کرنے کے لئے ہمیں پھر عقل اور قرآن و حدیث کے عمومی اصولوں اورصحابہ کے اس جنگ پہ تعامل اور ان پہ ردعمل کا سہارا لینا پڑے گا واللہ اعلم
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top