• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث مولوی یا کوئی شیعہ ذاکر

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جناب بھائی اس کا جواب میں اب دے دیتا ہوں
نمبر ایک: اس حدیث سے اس بات کی دلیل پکڑی جاتی ہے کہ عبدالرحمٰن بن خالد مدینہ والوں کے امیر تھے تو یہ نہایت عجیب بات ہے، کیا اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ عبدالرحمٰن بن خالد مدین میں سکونت پذیر تھے؟ آپ کی بیشتر زندگی اپنے والد کے انتقال کے بعد شام میں گزری اور یہ تو عرب کا دستور تھا کہ ایک جماعت پر امیر وہی بنتا تھا جو اسی علاقے کا رہائشی ہوتا تھا، تو یہ دلیل بالکل کمزور ہے کیونکہ یہاں صراحتََا تو ناصبیوں کے بزرگ کا ذکر ہے ہی نہیں،
اس بات کا ابھی میرے مدعا سے کوئی تعلق نہیں! آپ سے جو دلیل مطلوب ہے آپ وہ پیش کریں!
نوٹ: خواہ مخواہ کسی کو ناصبی کہہ کر حب اہل بیت کا چورن بیچنے سے گریز کریں!
نمبر دو۔ اس حدیث میں ذکر ہے کہ قسطنطنیہ پر حملہ کیا گیا، تو میرے بھائی قسطنطنیہ پر حملہ تو سب سے پہلے سلطان محمد فاتح نے کیا تھا ، سب سے پہلے وہ اپنے لشکر کے ساتھ قسطنطنیہ میں داخل ہوا تھا،
آپ کا مدعا تو یہ ہو اکہ سب سے پہلا حملہ سلطان محمد فاتح نے کیا، جبکہ آپ نے خود اگلے ہی جملہ میں سیدنا ابو ایوب انصاری کے دفن ہونے کی روایت بھی بیان کردی کہ وہ قسطنطنیہ میں دفن ہوئے؛
حدیث میں الفاظ ہیں "چنانچہ ابو ایوب انصاری اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے ، حتیٰ کہ قسطنطنیہ ہی میں دفن ہوئے۔ تو میرے بھائی ، جب قسطنطنیہ فتح ہی نہیں ہوا تھا تو اس میں کیسے دفن ہو سکتے تھے۔
جی جناب! کسی کے کسی شہر میں دفن ہونے کے لئے اس شہر کا فتح ہونا لازم نہیں ہوتا!
معلوم ہوتا ہے کہ بغض عناد نے عقل کے خلیوں کو متاثر کر دیا ہے!
روایت بالکل درست ہے اور آپ کی اٹکل باطل!
اور یاد رہے کہ شہر کی فصیل کے گرد و نواح کا علاقہ بھی اسی شہر میں شمار ہوتا ہے!
کسی شہر کی فصیل پر حملہ کرنا اس شہر پر حملہ کرنا کیسے ہوسکتا ہے، اس حدیث میں یا ایسی دوسری احادیث میں کہا ذکر ہے کہ قسطنطنیہ کے اندر داخل ہوئے اور شہر پر حملہ کیا ؟؟؟
شہر کی فصیل پر حملہ کرنا تو کیا اس کے گرد و نواح پر حملہ کرنا بھی اس شہر پر حملہ کرنا شمار ہوگا!
سیدنا ابو ایوب انصاری کی وفات والی حدیث میں اس کی صراحت ہے!
آپ اس لشکر سے پہلے کسی لشکر کو ثابت کریں!
یہاں سے باسند ثابت ہوتا ہے کہ قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے اس لشکر کے سپہ سالار یزید ؒ بن معاویہ ﷛ تھے۔
تو جناب یزید ؒ بن معاویہ ﷛ کا قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے والے لشکر میں شامل ہونا ہی نہی،بلکہ اس کا سپہ سالار ہونا ثابت ہو گیا۔
اب اگر آپ کا اگلا مدعا یہ ہو کہ یہ پہلا لشکر نہیں تھا، تو آپ وہ لشکر ثابت کیجئے، جو اس سے قبل قسطنطنیہ پر حملہ آور ہو اہو!
یاد رہے کہ قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوا ہو، صرف قسطنطنیہ کی طرف روانا ہونا کفایت نہیں کرے گا!
 
Last edited:

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اس بات کا ابھی میرے مدعا سے کوئی تعلق نہیں! آپ سے جو دلیل مطلوب ہے آپ وہ پیش کریں!
نوٹ: خواہ مخواہ کسی کو ناصبی کہہ کر حب اہل بیت کا چورن بیچنے سے گریز کریں!

آپ کا مدعا تو یہ ہو اکہ سب سے پہلا حملہ سلطان محمد فاتح نے کیا، جبکہ آپ نے خود اگلے ہی جملہ میں سیدنا ابو ایوب انصاری کے دفن ہونے کی روایت بھی بیان کردی کہ وہ قسطنطنیہ میں دفن ہوئے؛

جی جناب! کسی کے کسی شہر میں دفن ہونے کے لئے اس شہر کا فتح ہونا لازم نہیں ہوتا!
معلوم ہوتا ہے کہ بغض عناد نے عقل کے خلیوں کو متاثر کر دیا ہے!
روایت بالکل درست ہے اور آپ کی اٹکل باطل!
اور یاد رہے کہ شہر کی فصیل کے گرد و نواح کا علاقہ بھی اسی شہر میں شمار ہوتا ہے!

شہر کی فصیل پر حملہ کرنا تو کیا اس کے گرد و نواح پر حملہ کرنا بھی اس شہر پر حملہ کرنا شمار ہوگا!
سیدنا ابو ایوب انصاری کی وفات والی حدیث میں اس کی صراحت ہے!
آپ اس لشکر سے پہلے کسی لشکر کو ثابت کریں!
سب سے پہلے تو صحیح حدیث سے ثابت کریں نا کہ وہ پہلا ہی لشکر تھا ؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ہم نے باسند صحیح یزید رحمہ اللہ علیہ کا قسطنطنیہ پر لشکر کشی کرنے والے لشکر کا سپہ سالار ثابت کردیا ہے! اور جب اس سے قبل قسطنطنیہ پر کوئی اور حملہ ثابت ہی نہیں ، تو یہی پہلا حملہ ہوا!ٰ
اس مين اور ثابت کرنے والی بات کیا رہ گئی ہے!
کوئی مدعی ہو کہ نہیں اس سے قبل بھی قسطنطنیہ پر حملہ کیا گیا ہے، تو وہ اپنے مدعا پر دلیل دے!
لیکن آپ نے اس کے پہلے کیا آپ تو اس کے صدیوں بعد سلطان محمد فاتح کے حملہ کوپہلا کہہ رہے ہیں! جو کہ بلکل باطل اور صحیح روایت کے خلاف ہے!
 
Last edited:

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ہم نے باسند صحیح یزید رحمہ اللہ علیہ کا قسطنطنیہ پر لشکر کشی کرنے والے لشکر کا سپہ سالار ثابت کردیا ہے! اور جب اس سے قبل قسطنطنیہ پر کوئی اور حملہ ثابت ہی نہیں ، تو یہی پہلا حملہ ہوا!ٰ
اس مين اور ثابت کرنے والی بات کیا رہ گئی ہے!
کوئی مدعی ہو کہ نہیں اس سے قبل بھی قسطنطنیہ پر حملہ کیا گیا ہے، تو وہ اپنے مدعا پر دلیل دے!
لیکن آپ نے نے اس کے پہلے کیا آپ تو اس کے صدیوں بعد سلطان محمد فاتح کے حملہ ک وپہلا کہہ رہے ہیں! جو کہ بلکل باطل اور صحیح روایت کے خلاف ہے!
کیا صریحاََ کسی جگہ مذکور ہے یا نہیں؟؟ کیا آپ سے پہلے اس زمانے کے محدثین یا علام نے یہ بات قبول کی ہے کہ وہ پہلا لشکر تھا؟؟ یا 1400 سال بعد آپ کو کوئی آثار قدیمہ ملا ہے جس کو کھود کر آپ نے کوئی دستاویز نکالی ہے جس میں یہ لکھا ہے؟ ذرا سلف کا فہم بتائیں پہلے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کیا صریحاََ کسی جگہ مذکور ہے یا نہیں؟؟ کیا آپ سے پہلے اس زمانے کے محدثین یا علام نے یہ بات قبول کی ہے کہ وہ پہلا لشکر تھا؟؟ یا 1400 سال بعد آپ کو کوئی آثار قدیمہ ملا ہے جس کو کھود کر آپ نے کوئی دستاویز نکالی ہے جس میں یہ لکھا ہے؟ ذرا سلف کا فہم بتائیں پہلے۔
ہم نے با سند ثابت کیا ہے! یہ کتب متواتر موجود رہی ہیں!
آپ یزید رحمہ اللہ سے قبل کسی لشکر کا قسطنطنیہ پر حملہ آورہونے کا ثبوت رکھتے ہوں تو پیش کریں!
یہ آخری موقع ہے آپ کے لئے!
اس کے بعد ہم آپ پر کلام کریں گے!
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
کیا صریحاََ کسی جگہ مذکور ہے یا نہیں؟؟ کیا آپ سے پہلے اس زمانے کے محدثین یا علام نے یہ بات قبول کی ہے کہ وہ پہلا لشکر تھا؟؟ یا 1400 سال بعد آپ کو کوئی آثار قدیمہ ملا ہے جس کو کھود کر آپ نے کوئی دستاویز نکالی ہے جس میں یہ لکھا ہے؟ ذرا سلف کا فہم بتائیں پہلے۔
یزیدی پارٹی کا کوئی بھی شخص آج تک کوئی ایسی صحیح و حسن روایت نہیں پیش کر سکا جس میں صراحتََا ذکر ہو کہ قسطنطنیہ یا مدینہ قیصر پر کئے گئے تمام حملوں میں یزید شریک تھا یا سب سے پہلے حملے میں یزید شریک تھا۔ ان لوگوں کا صحیح بُخاری کی حدیث سے استدلال دررست نہیں ہے۔ سنن ابی داود والی حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یزید والے حملہ سے پہلے بھی قسطنطنیہ پر حملہ ہوا ہے جس میں جماعت کے امیر عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید تھے۔ چونکہ یہ حدیث ان لوگوں کے لیے زبردست رکاوٹ ہے جو یزید کو بخشا ہوا ہونا ثابت کرنا چاہتے ہیں اس لئے وہ اس روایت کے جواب میں یہ توجیح پیش کرتے ہیں کہ : ابو داود کے سوا کسی کتاب میں عبدالرحمیں کے قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے والی فوج کے قائد ہونے کا ذکر نہیں۔ حالانکہ درج ذیل کتابوںمیں بھی صحیح سند کے ساتھ اس حملہ آور فوج کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید ہی مذکور ہے۔ اس میں جامع البیان فی تفسیر القرآن (جلد 2 صفحہ 118-119)، تفسیر ابن ابی حاتم الرازی (جلد 1 صفحہ 330-331)، احکام القران للجصاص (جلد 1 صفحہ 326، 327)، مستدرک الحاکم (جلد 2 صفحہ 84-85) ، اسے حاکم اور ذہبی دونوں نے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ ابو داود والی روایت بھی بالکل صحیح اور محفوظ ہے (حافظ زبیر علی زئی)۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ اس لشکر میں مصریوں کے امیر سیدنا عقبہ بن عامر، شامیوں کے امیر سیدنا فضالہ بن عبید تھے ، پورے لشکر کے امیر سیدنا عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید تھے۔ تاریخ سے بھی ثابت ہو تا ہے کہ سیدنا معاویہ نے رومیوں کی زمین پر سولہ مرتبہ فوج کشی کی ، ایک لشکر سردیوں میں اور دوسرا گرمیوں میں حملہ آور ہوتا تھا۔ بلکہ ان تمام لشکروں سے پہلے بھی قسطنطنیہ پر ایک لشکر کے حملے کا ثبوت ملتا ہے جس میں سیدنا معاویہ بھی شاملہ تھے۔ یہ حملہ 32 ھجری میں ہوا تھا ۔ (تاریخِ طبری ج 4 ص 304)، العبر للذہبی ( ج1 ص24)، المنتظم ابن الجوزی (ج5 ص9 طبع 1992)، البدایہ والنہایہ (ج7 ص 159، ج9 ص 126)۔ اس وقت یزید کی عمر چھ سال تھی۔
صرف اس ایک دلیل سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے لشکر میں یزید کو فٹ کرنا صحیح نہیںہے۔ یزید بن معاویہ کے آخری حملوں سے پہلے قسطنطنہ پرسابقہ حملوں کے علاوہ ایک اور حملہ بھی ہوا ہے۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: اور معاویہ نے سفیان بن عوف کو قسطنطنیہ پر صیفی حملوں میں امیر بنایا اور آپ ان کی تعظیم کرتے تھے۔ محمد الخفیری کی محاضرات الامم والاسلامیہ میں ہے: اور 4 ھجری میں معاویہ نے قسطنطنیہ کی فتح کے لیے ایک عظیم لشکر بھیجا جس کے امیر سفیان بن عوف تھے۔
یزیدی پارٹی مزید یہ بھی کہتی ہے کہ عبدالرحمٰن بن خالدصرف مدینہ والی جماعت کے امیر تھے۔ تو جناب کیا عرب کا جنگی دستور یہی تھا کہ ایک بندہ جس نے ایک شہر میں کبھی زندگی گُزاری ہی نہ ہو تو اس شہر کے لشکر پر امیر بنا دیا جائے؟؟؟ عبدالرحمٰن بن خالد کی یرموک کے بعد ساری زندگی شام میں گُزری، یرموک کی جنگ کے وقت آپ کی عمر سترہ ، اٹھا رہ سال تھی۔ اور اس کے بعد آپ اپنے والد خالد بن ولید کے ساتھ ملک شام میں ہی رہے اور آپ کی جائداد کے وارث بنے۔ معاویہ کے دور میں آپ حمص کے گورنر بھی رہے اور کہیں سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ نے مدینہ میں سکونت اختیار کی ہو۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک شہر والوں کی جماعت پر اس شخص کو امیر بنا دیا جائے جو اپنی جماعت کے لوگوں کو اور ان کی جنگی قابلیت کو جانتا ہی نہیں ہے۔
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
روم کا پادری تھیوفانس دی کنفیسر660-61 عیسوی کے واقعات میں لکھتا ہے:
"اس سال بادشاہ نے قسطنطنیہ چھوڑ دیا اور سسلی میں سیراکوس کی طرف گیا، اس کا ارادہ تھا کہ وہ شاہی دارلحکومت کو روم میں منتقل کر دے۔ اس نے حکم بھیجا کہ اس کی بیوی اور تین بچوں (قسطنطین، ہیراکلس اور طبریاس ) کو بھی لایا جائے۔ لیکن بازنطیہ کے باشندوں نے ایسا نہ کیا" تھیوفانس دی کنفیسر کے کرانیکل صفحہ 486
اس واقعے سے تو پتہ چلتا ہے کہ قسطنطنیہ تو قیصر کا شہر ہی نہیں رہا تھا (یہ معاویہ کی حکومت کا چھٹا سال تھا)۔ آگے جا کر 661-662 ھجری کے واقعات میں وہ لکھتا ہے
اس سال عربوں نے رومیوں کے خلاف ایک مہم بھیجی اور انہوں نے بہت ساری جگہوں پر حملہ کیا اور بہت ساروں کو قیدی بنا لیا (صفحہ 486)"
یہاں پر کرانیکلز پر تحقیق کرنے والے نے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ،( یا تو) یہ حملہ 42 ھجری والا حملہ جس کی قیادت بُصر بن ارطاۃ نے کی تھی۔
آگے جا کر 663-664 عیسوی کے واقعات میں تھیوفانس لکھتا ہے کہ:" عبدالرحمٰن ، خالد کے بیٹے نے ، روم پر حملہ کیا اور سرما میں یہاں قیام کیا اور بہت سارے علاقوں پر حملے کئے۔ سلاوینیوں نے خالد کا ساتھ دیا اور اس کے ساتھ شام واپس چلے گئے۔ وہ پانچ ہزار تھے جو کہ اپامیہ میں سیلیوکوبولس میں سکونت پذیر ہوئے"۔ (صفحہ 487)
مزید آگے چل کر تھیوفانس 664-65 عیسوی اور سیدنا معاویہ کے دسویں سال کی بپتا لکھتا ہے:"اس سال بصر نے روم پر حملہ کیا۔۔۔۔۔۔۔پھر 665 -66 عیسوی میں بھی یہی ذکر کرتا ہے کہ بصر نے اس سال پھر حملہ کیا۔ (صفحہ 487-488)
سال 666-67 میں سرجئیس کی بغاوت اور اس کا سیدنا معاویہ کے پاس جانا اور اینڈریو کا سرجیئس کی مخالفت میں معاویہ سے ناکام بات چیت کرنا ذکر ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ سرجئیس کی مدد کے لئے عرب جنرل فضالہ کو بھیجا گیا۔ یہ سیدنا معاویہ کی حکومت کا بارہواں سال تھا۔ (صفحہ 488-490)
سال 669-70 عیسوی کے واقعات میں فضالہ کے حملے کا ذکر ہے اور 670-71 میں ایک بار پھر بصر کے حملے کا ذکر ہے (صفحہ 492)
سال 671-72 عیسوی کے واقعات بہت اہم ہیں اس میں ذکر ہے کہ مسیح کے نہ ماننے والے (یعنی مسلمان) ایک بڑے بحری لشکر کے ساتھ سیلیسا کے پاس سے گزرے اور محمد بن عبداللہ نے سمرنا میں قیام کیا جبکہ قیس نے سلیسیا اور لائسیا میں قیام کیا۔ حاشیہ میں لکھا گیا ہے کہ یہ نام صحیح نہیں لگتے شاید یہ محمد بن عبدالرحمٰن ، محمد بن مالک اور عبطداللہ بن قیس ہیں۔ (صفحہ 493)
اب سب سے اہم واقعہ آتا ہے جو کہ صفحہ 493 پر 672-73 کے واقعات میں ہے۔ لکھا جاتا ہے کہ: خُدا کے دشمنوں کا یہ بحری بیڑا سفر کرتا ہوا تھریس کے علاقے میں داخل ہوا۔ہر روز جنگ ہوتی تھی، گولڈن گیٹ اور ککلوبین کے درمیان ۔۔ دشمن نےیہ حملے اپریل سے ستمبر تک جاری رکھے۔ پھر وہ واپس کزیکوس چلے گئے جہاں انہوں نے سرما بسر کیا اور پھر موسم بہار میں پھر اسی طرح عیسائیوں کے خلاف اکٹھے ہوئے ۔ سات سال تک وہاں رہنے کے بعد اور خُدا کی مدد سے شرمندہ ہو کر اور اپنے بہت سارے جنگجو ضائع کرنے کے بعد یہ بحری بیڑہ واپسی کے لیے نکلا اورطوفان کا شکار ہو گیا۔
اب عوف کے چھوٹے بیٹے سُفیان نے فلورس ، پیٹروناس اور شپریئین کے ساتھ جنگ میں شمولیت اختیار کی جو کہ رومی فوج کا اہم حصہ تھے۔ 30000 ہزار عرب مارے گئے۔ یہاں یہ بھی ذخر ہے کہ عرب فوج کی شکست کی سب سے بڑی وجہ گریک فائر تھی۔

جناب اوپر جن حوالوں کا میں نے ذکر کیا ۔۔ یہ غیر مسلم تھیوفانس دی کنفیسر کے حوالے ہیں۔ جسے نہ سیدنا معاویہ سے نفرت تھی نہ یزید سے محبت۔۔۔ مسلمان ان کے دشمن تھے اور اس نے اپنی تاریخ میں جو کچھ لکھا ہے۔۔۔ اس پر تو جانبداری کا الزام لگ ہی نہیں سکتا ۔
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
روم کا پادری تھیوفانس دی کنفیسر660-61 عیسوی کے واقعات میں لکھتا ہے:
"اس سال بادشاہ نے قسطنطنیہ چھوڑ دیا اور سسلی میں سیراکوس کی طرف گیا، اس کا ارادہ تھا کہ وہ شاہی دارلحکومت کو روم میں منتقل کر دے۔ اس نے حکم بھیجا کہ اس کی بیوی اور تین بچوں (قسطنطین، ہیراکلس اور طبریاس ) کو بھی لایا جائے۔ لیکن بازنطیہ کے باشندوں نے ایسا نہ کیا" تھیوفانس دی کنفیسر کے کرانیکل صفحہ 486
اس واقعے سے تو پتہ چلتا ہے کہ قسطنطنیہ تو قیصر کا شہر ہی نہیں رہا تھا (یہ معاویہ کی حکومت کا چھٹا سال تھا)۔ آگے جا کر 661-662 ھجری کے واقعات میں وہ لکھتا ہے
اس سال عربوں نے رومیوں کے خلاف ایک مہم بھیجی اور انہوں نے بہت ساری جگہوں پر حملہ کیا اور بہت ساروں کو قیدی بنا لیا (صفحہ 486)"
یہاں پر کرانیکلز پر تحقیق کرنے والے نے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ،( یا تو) یہ حملہ 42 ھجری والا حملہ جس کی قیادت بُصر بن ارطاۃ نے کی تھی۔
آگے جا کر 663-664 عیسوی کے واقعات میں تھیوفانس لکھتا ہے کہ:" عبدالرحمٰن ، خالد کے بیٹے نے ، روم پر حملہ کیا اور سرما میں یہاں قیام کیا اور بہت سارے علاقوں پر حملے کئے۔ سلاوینیوں نے خالد کا ساتھ دیا اور اس کے ساتھ شام واپس چلے گئے۔ وہ پانچ ہزار تھے جو کہ اپامیہ میں سیلیوکوبولس میں سکونت پذیر ہوئے"۔ (صفحہ 487)
مزید آگے چل کر تھیوفانس 664-65 عیسوی اور سیدنا معاویہ کے دسویں سال کی بپتا لکھتا ہے:"اس سال بصر نے روم پر حملہ کیا۔۔۔۔۔۔۔پھر 665 -66 عیسوی میں بھی یہی ذکر کرتا ہے کہ بصر نے اس سال پھر حملہ کیا۔ (صفحہ 487-488)
سال 666-67 میں سرجئیس کی بغاوت اور اس کا سیدنا معاویہ کے پاس جانا اور اینڈریو کا سرجیئس کی مخالفت میں معاویہ سے ناکام بات چیت کرنا ذکر ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ سرجئیس کی مدد کے لئے عرب جنرل فضالہ کو بھیجا گیا۔ یہ سیدنا معاویہ کی حکومت کا بارہواں سال تھا۔ (صفحہ 488-490)
سال 669-70 عیسوی کے واقعات میں فضالہ کے حملے کا ذکر ہے اور 670-71 میں ایک بار پھر بصر کے حملے کا ذکر ہے (صفحہ 492)
سال 671-72 عیسوی کے واقعات بہت اہم ہیں اس میں ذکر ہے کہ مسیح کے نہ ماننے والے (یعنی مسلمان) ایک بڑے بحری لشکر کے ساتھ سیلیسا کے پاس سے گزرے اور محمد بن عبداللہ نے سمرنا میں قیام کیا جبکہ قیس نے سلیسیا اور لائسیا میں قیام کیا۔ حاشیہ میں لکھا گیا ہے کہ یہ نام صحیح نہیں لگتے شاید یہ محمد بن عبدالرحمٰن ، محمد بن مالک اور عبطداللہ بن قیس ہیں۔ (صفحہ 493)
اب سب سے اہم واقعہ آتا ہے جو کہ صفحہ 493 پر 672-73 کے واقعات میں ہے۔ لکھا جاتا ہے کہ: خُدا کے دشمنوں کا یہ بحری بیڑا سفر کرتا ہوا تھریس کے علاقے میں داخل ہوا۔ہر روز جنگ ہوتی تھی، گولڈن گیٹ اور ککلوبین کے درمیان ۔۔ دشمن نےیہ حملے اپریل سے ستمبر تک جاری رکھے۔ پھر وہ واپس کزیکوس چلے گئے جہاں انہوں نے سرما بسر کیا اور پھر موسم بہار میں پھر اسی طرح عیسائیوں کے خلاف اکٹھے ہوئے ۔ سات سال تک وہاں رہنے کے بعد اور خُدا کی مدد سے شرمندہ ہو کر اور اپنے بہت سارے جنگجو ضائع کرنے کے بعد یہ بحری بیڑہ واپسی کے لیے نکلا اورطوفان کا شکار ہو گیا۔
اب عوف کے چھوٹے بیٹے سُفیان نے فلورس ، پیٹروناس اور شپریئین کے ساتھ جنگ میں شمولیت اختیار کی جو کہ رومی فوج کا اہم حصہ تھے۔ 30000 ہزار عرب مارے گئے۔ یہاں یہ بھی ذخر ہے کہ عرب فوج کی شکست کی سب سے بڑی وجہ گریک فائر تھی۔

جناب اوپر جن حوالوں کا میں نے ذکر کیا ۔۔ یہ غیر مسلم تھیوفانس دی کنفیسر کے حوالے ہیں۔ جسے نہ سیدنا معاویہ سے نفرت تھی نہ یزید سے محبت۔۔۔ مسلمان ان کے دشمن تھے اور اس نے اپنی تاریخ میں جو کچھ لکھا ہے۔۔۔ اس پر تو جانبداری کا الزام لگ ہی نہیں سکتا ۔
باقی آپ کی مرضی آخری موقع دو یا نہ دو۔۔۔فورم آپ کا اپنا "حق کی زبان " پر بے شک پابندی لگا دو۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
باقی آپ کی مرضی آخری موقع دو یا نہ دو۔۔۔فورم آپ کا اپنا "حق کی زبان " پر بے شک پابندی لگا دو۔
محترم کم از کم کلام سمجھنے کا ملکہ پیدا کریں. یا پھر آنکھوں کا علاج کرا لیں. الزام تراشی میں آپ 'جیسے' لوگ اول نمبر پر ہیں.
یہ آخری موقع ہے آپ کے لئے!
اس کے بعد ہم آپ پر کلام کریں گے!
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
محترم کم از کم کلام سمجھنے کا ملکہ پیدا کریں. یا پھر آنکھوں کا علاج کرا لیں. الزام تراشی میں آپ 'جیسے' لوگ اول نمبر پر ہیں.
کریں کلام کسی نے منع کیا ہے کیا۔۔۔میں نے توکافی سارے دلائل دے دیے ۔۔۔اب آپ کلام کریں ۔۔آپ کا کلام عارفانہ ہی ہو گا
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top