• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث کے مقلدین کو 7 چیلنج !!!

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
لولی ٹائم بھیا اسکا جواب چاہئیے!8091 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

میرے بھائی یہی تو پوچھ رہا ہوں کہ یہ چلینج کن کی طرف سے ہے - دیوبند حیاتی شریف یا دیوبند مماتی شریف پتا نہیں والوں کی طرف سے - پہلے یہ بتا دیں- اور کتنی عجیب غریب بات ہے کہ چلینج کرنے والوں کو یہ پتا ہی نہیں کہ وہ حیاتی شریف والے ہیں یا مماتی شریف والے -

بھائی چلینج کرنے سے پہلے یہ بھی بتا دیں کہ امام ابو حنیفہ رحم اللہ نے کتنی رکعات تراویح کی نماز پڑھی - جتنی رکعات نماز تراویح پڑھی اس کی دلیل بھی لکھ دیں - اور یہ بھی اپنے علماء شریف سے پتا کر لیں کہ یہ چلینج کن کی طرف سے ہے دیوبند حیاتی شریف یا دیوبند مماتی شریف پتا نہیں والوں کی طرف سے - ابتسامہ

اور ساتھ یہ بھی بتا دیں کہ امام ابو حنیفہ رحم اللہ کون سے دیوبندی تھے - حیاتی شریف والے یا مماتی شریف پتا نہیں والے -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عامر یونس صاحب حدیث عائشہ کو بنیاد بنا کر جناب نے یہ چیلنج لکھے ہیں،باجماعت پورا رمضان مساجد میں تراویح پڑھنے والے اہل حدیث حضرات حدیث عائشہ کی مکمل مخالفت کرتے ہیں اُن کا عمل اس حدیث کے خلاف ہے ۔پہلے اس حدیث کے مطابق اس رمضان المبارک میں اہل حدیث حضرات عمل کر کے دیکھائیں پھر بات کریں ،اس حدیث میں غور کریں!

اسی حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق تراویح سے ہر گز نہیں ہے (1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز ہمیشہ گھر میں پڑھی ہے۔(2) بغیر جماعت کے پڑھی ہے ،(3) رمضان وغیر رمضان میں پڑھی ہے،(4) رات کے پچھلے پہرسو کر اُٹھنے کے بعد پڑھی ہے، (5) چار رکعت پھر چار رکعت کے ساتھ پڑھی ہے، (6)رمضان و غیر رمضان یعنی پورا سال تین رکعت وتر پڑھنا اس حدیث سے ثابت ہے،(7)وتر پڑھنے سے پہلے آپ کا دوبارا سونا اس حدیث سے ثابت ہے۔

اہل حدیث اس حدیث کی مکمل مخالفت کرتے ہیں تو یہ اُن کی دلیل کیسے ہوئی؟ اگر اس حدیث پر عمل کرنا ہے تو تراویح گھر پڑھیں۔ بغیر جماعت کے پڑھیں ۔رًضان و غیر رمضان میں پڑھیں۔رات کے پچھلے پہر سو کر اُٹھنے کے بعد پڑھیں۔چار چار رکعت کر کے پڑھیں دو ،دو کر کے نہیں؟۔پورا سال تین وتر پڑھیں ۔وتر پڑھنے سے پہلے دوبارا سو لیا کریں ۔
دیکھتا ہوں کہ اس رمضان میں اس حدیث پر کون سا اہل حدیث عمل کرتا ہے اور کون سے اس کی مخالفت کرتے ہیں
سابق دیوبندی جو اب الحمدللہ اہل حدیث ہے شیخ ابو ذید ضمیر حفظہ اللہ

تراویح کی کتنی رکعت سنت ہیں -



 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
رمضان المبارك ميں باجماعت نماز تراويح سنت ہے بدعت نہيں

كيا باجماعت نماز تراويح بدعت شمار ہو گى كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور مبارك ميں ايسا نہ تھا، بلكہ سب سے پہلے اسے شروع كرنے والے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ ہيں ؟

الحمد للہ :

يہ كہنا كہ نماز تراويح بدعت ہے، سراسر غلط اور ناانصافى ہے، بلكہ يہ كہا جا سكتا ہے كہ:

كيا يہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كى سنت ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور مبارك ميں ايسا نہيں تھا، بلكہ يہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں ہوا ہے، يا كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ اور سنت ہے ؟!

لہذا بعض لوگوں كا دعوى ہے كہ يہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كا طريقہ اور سنت ہے، اور اس كى دليل يہ ديتے ہيں كہ:
عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے ابى بن كعب رضى اللہ
تعالى عنہ اور تميم دارى رضى اللہ تعالى عنہ كو حكم ديا كہ وہ لوگوں كو گيارہ ركعات پڑھائيں، اور ايك رات عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ باہر نكلے تو لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:

" يہ بدعت اور طريقہ اچھا ہے"

يہ اس كى دليل ہے كہ اس سے قبل يہ مشروع نہ تھى .....

ليكن يہ قول ضعيف ہے، اور اس كا قائل صحيحين وغيرہ كى اس حديث سے غافل ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كرام كو تين راتيں قيام كروايا اور چوتھى رات نماز نہ پڑھائى، اور فرمايا: مجھے خدشہ تھا كہ تم پر فرض نہ كر ديا جائے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 872 ).

اور مسلم شريف كے الفاظ يہ ہيں:

" ليكن مجھے يہ خوف ہوا كہ تم پر رات كى نماز فرض كر دى جائے اور تم اس كى ادائيگى سے عاجز آجاؤ"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1271 ).

لہذا سنت نبويہ سے تراويح ثابت ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے تسلسل كے ساتھ جارى نہ ركھنے كا مانع ذكر كيا ہے نہ كہ اس كى مشروعيت كا، اور وہ مانع اور علت فرض ہو جانے كا خدشہ تھا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات سے يہ خوف زائل ہو چكا ہے، كيونكہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو وحى بھى منقطع ہو گئى اور اس كى فرضيت كا خدشہ بھى جاتا رہا، لہذا جب انقطاع وحى سے علت زائل اور ختم ہو چكى جو كہ فرضيت كا خدشہ اور خوف تھا، تو معلول كا زوال ثابت ہو گيا، توپھر اس وقت اس كا سنت ہونا واپس پلٹ آئے گا. اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 78 ).

اور صحيحين ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو كام بھى كرنا پسند كرتے اور اسے صرف اس خدشہ سے ترك كر ديتے تھے كہ لوگ اس پر عمل شروع كردينگے اور يہ ان پر فرض كر ديا جائے گا...
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1060 ) صحيح مسلم صلاۃ المسافرين حديث نمبر ( 1174 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اپنى امت پر مكمل شفقت و مہربانى كا بيان پايا جاتا ہے. اھـ

لہذا يہ كہنا كہ نماز تروايح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت نہيں بلا وجہ اورغلط ہے، بلكہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہے، صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس خدشہ كے پيش نظر اسے ترك كيا تھا كہ كہيں يہ امت پر فرض نہ ہو جائے، اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو يہ خدشہ جاتا رہا.

اور ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ مرتدين كے ساتھ لڑائى اور جنگ ميں مشغول رہے، اور پھر ان كى خلافت كا عرصہ بھى بہت ہى قليل ( دو برس ) ہے، اور جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا دور آيا اور مسلمانوں كے معاملات درست ہو گئے تو لوگ رمضان المبارك ميں اسى طرح نماز تراويح كے ليے جمع ہو گئے جس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ جمع ہوئے تھے.

لہذا عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے جو كچھ كيا ہے وہ زيادہ سے زيادہ يہ ہے كہ انہوں اس سنت كا احياء كيا اور اسے كى طرف واپس گئے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد


http://islamqa.info/ur/ref/21740
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
میرے بھائی یہی تو پوچھ رہا ہوں کہ یہ چلینج کن کی طرف سے ہے - دیوبند حیاتی شریف یا دیوبند مماتی شریف پتا نہیں والوں کی طرف سے - پہلے یہ بتا دیں- اور کتنی عجیب غریب بات ہے کہ چلینج کرنے والوں کو یہ پتا ہی نہیں کہ وہ حیاتی شریف والے ہیں یا مماتی شریف والے -

بھائی چلینج کرنے سے پہلے یہ بھی بتا دیں کہ امام ابو حنیفہ رحم اللہ نے کتنی رکعات تراویح کی نماز پڑھی - جتنی رکعات نماز تراویح پڑھی اس کی دلیل بھی لکھ دیں - اور یہ بھی اپنے علماء شریف سے پتا کر لیں کہ یہ چلینج کن کی طرف سے ہے دیوبند حیاتی شریف یا دیوبند مماتی شریف پتا نہیں والوں کی طرف سے - ابتسامہ

اور ساتھ یہ بھی بتا دیں کہ امام ابو حنیفہ رحم اللہ کون سے دیوبندی تھے - حیاتی شریف والے یا مماتی شریف پتا نہیں والے -
لولی ٹائم بھیا : اہل باطل کی طرح موضوع سے فرار کی کوشش نہ کریں ،یہاں بات حیات وممات کی نہیں تراویح کی چل رہی ہے اور اس پر بندہ نے اپنے اہل بھائیوں کو صرف ایک چیلنج دیا ہے کہ ہر صدی میں صرف تین ثقہ علماء بارہ سو سال میں صرف 36 ثقہ علماء کرام جنہوں نے اپنی اپنی مساجد میں 8 رکعات نماز تراویح باجماعت پورا رمضان پڑھائی ہوں ۔اسکا کوئی جواب ہے تو دیں ،ادھر اُدھر کی بات نہ کریں۔
حیات وممات پر اگر بات کرنی ہے تو الگ سے دھاگہ بنائیں اور یہی سوال وہاں کریں جناب کے ایسے دانت کھٹے کرونگا زندگی میں کبھی کسی سے یہ سوال نہیں کریں گے؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
لولی ٹائم بھیا : اہل باطل کی طرح موضوع سے فرار کی کوشش نہ کریں ،یہاں بات حیات وممات کی نہیں تراویح کی چل رہی ہے اور اس پر بندہ نے اپنے اہل بھائیوں کو صرف ایک چیلنج دیا ہے کہ ہر صدی میں صرف تین ثقہ علماء بارہ سو سال میں صرف 36 ثقہ علماء کرام جنہوں نے اپنی اپنی مساجد میں 8 رکعات نماز تراویح باجماعت پورا رمضان پڑھائی ہوں ۔اسکا کوئی جواب ہے تو دیں ،ادھر اُدھر کی بات نہ کریں۔
حیات وممات پر اگر بات کرنی ہے تو الگ سے دھاگہ بنائیں اور یہی سوال وہاں کریں جناب کے ایسے دانت کھٹے کرونگا زندگی میں کبھی کسی سے یہ سوال نہیں کریں گے؟
میرے بھائی کیا آپ کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا حوالہ کافی نہیں -

67858_678050428917040_4247988242915159992_n.jpg

رمضان المبارك ميں باجماعت نماز تراويح سنت ہے بدعت نہيں

كيا باجماعت نماز تراويح بدعت شمار ہو گى كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور مبارك ميں ايسا نہ تھا، بلكہ سب سے پہلے اسے شروع كرنے والے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ ہيں ؟

الحمد للہ :

يہ كہنا كہ نماز تراويح بدعت ہے، سراسر غلط اور ناانصافى ہے، بلكہ يہ كہا جا سكتا ہے كہ:

كيا يہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كى سنت ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور مبارك ميں ايسا نہيں تھا، بلكہ يہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں ہوا ہے، يا كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ اور سنت ہے ؟!

لہذا بعض لوگوں كا دعوى ہے كہ يہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كا طريقہ اور سنت ہے، اور اس كى دليل يہ ديتے ہيں كہ:
عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے ابى بن كعب رضى اللہ
تعالى عنہ اور تميم دارى رضى اللہ تعالى عنہ كو حكم ديا كہ وہ لوگوں كو گيارہ ركعات پڑھائيں، اور ايك رات عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ باہر نكلے تو لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:

" يہ بدعت اور طريقہ اچھا ہے"

يہ اس كى دليل ہے كہ اس سے قبل يہ مشروع نہ تھى .....

ليكن يہ قول ضعيف ہے، اور اس كا قائل صحيحين وغيرہ كى اس حديث سے غافل ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كرام كو تين راتيں قيام كروايا اور چوتھى رات نماز نہ پڑھائى، اور فرمايا: مجھے خدشہ تھا كہ تم پر فرض نہ كر ديا جائے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 872 ).

اور مسلم شريف كے الفاظ يہ ہيں:

" ليكن مجھے يہ خوف ہوا كہ تم پر رات كى نماز فرض كر دى جائے اور تم اس كى ادائيگى سے عاجز آجاؤ"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1271 ).

لہذا سنت نبويہ سے تراويح ثابت ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے تسلسل كے ساتھ جارى نہ ركھنے كا مانع ذكر كيا ہے نہ كہ اس كى مشروعيت كا، اور وہ مانع اور علت فرض ہو جانے كا خدشہ تھا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات سے يہ خوف زائل ہو چكا ہے، كيونكہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو وحى بھى منقطع ہو گئى اور اس كى فرضيت كا خدشہ بھى جاتا رہا، لہذا جب انقطاع وحى سے علت زائل اور ختم ہو چكى جو كہ فرضيت كا خدشہ اور خوف تھا، تو معلول كا زوال ثابت ہو گيا، توپھر اس وقت اس كا سنت ہونا واپس پلٹ آئے گا. اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 78 ).

اور صحيحين ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو كام بھى كرنا پسند كرتے اور اسے صرف اس خدشہ سے ترك كر ديتے تھے كہ لوگ اس پر عمل شروع كردينگے اور يہ ان پر فرض كر ديا جائے گا...
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1060 ) صحيح مسلم صلاۃ المسافرين حديث نمبر ( 1174 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اپنى امت پر مكمل شفقت و مہربانى كا بيان پايا جاتا ہے. اھـ

لہذا يہ كہنا كہ نماز تروايح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت نہيں بلا وجہ اورغلط ہے، بلكہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہے، صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس خدشہ كے پيش نظر اسے ترك كيا تھا كہ كہيں يہ امت پر فرض نہ ہو جائے، اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو يہ خدشہ جاتا رہا.

اور ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ مرتدين كے ساتھ لڑائى اور جنگ ميں مشغول رہے، اور پھر ان كى خلافت كا عرصہ بھى بہت ہى قليل ( دو برس ) ہے، اور جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا دور آيا اور مسلمانوں كے معاملات درست ہو گئے تو لوگ رمضان المبارك ميں اسى طرح نماز تراويح كے ليے جمع ہو گئے جس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ جمع ہوئے تھے.

لہذا عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے جو كچھ كيا ہے وہ زيادہ سے زيادہ يہ ہے كہ انہوں اس سنت كا احياء كيا اور اسے كى طرف واپس گئے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد


http://islamqa.info/ur/ref/21740
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
لولی ٹائم بھیا : اہل باطل کی طرح موضوع سے فرار کی کوشش نہ کریں ،یہاں بات حیات وممات کی نہیں تراویح کی چل رہی ہے اور اس پر بندہ نے اپنے اہل بھائیوں کو صرف ایک چیلنج دیا ہے کہ ہر صدی میں صرف تین ثقہ علماء بارہ سو سال میں صرف 36 ثقہ علماء کرام جنہوں نے اپنی اپنی مساجد میں 8 رکعات نماز تراویح باجماعت پورا رمضان پڑھائی ہوں ۔اسکا کوئی جواب ہے تو دیں ،ادھر اُدھر کی بات نہ کریں۔
حیات وممات پر اگر بات کرنی ہے تو الگ سے دھاگہ بنائیں اور یہی سوال وہاں کریں جناب کے ایسے دانت کھٹے کرونگا زندگی میں کبھی کسی سے یہ سوال نہیں کریں گے؟

کیوں ناراض ھو رھے ہیں میرے بھائی - میں صرف یہی پوچھا ہے کہ یہ چلینج دیوبند حیات شریف کا ہے یا دیوبند ممات شریف کا ۔ پہلے یہ فیصل کر لیں - دانت کھٹے کرنے سے کچھ نہیں ہوتا -

جن کو یہ نہیں پتا کہ امام ابو حنیفہ رحم للہ دیوبند حیاتی شریف تھے یا دیوبند مماتی شریف وہ کس منہ سے یہاں بات کر رھے ہیں - جاؤ پہلے اپنے علماء سے پوچھ کر آ و کہ امام ابو حنیفہ رحم اللہ نے کتنی رکعات تراویح پڑھی ہیں - کس مسجد میں پڑھی ہیں - امام صاحب رحم اللہ نے جتنی پڑھی ہیں - اس کی دلیل بھی پیش کریں -

شرم آنی چاہیے آپ لوگوں کو جن کو یہ بھی پتا نہیں کہ امام صاحب رحم اللہ نے کتنی پڑھی ہیں- اور پوچھ ہم سے رھے ہیں کہ

ہر صدی میں صرف تین ثقہ علماء بارہ سو سال میں صرف 36 ثقہ علماء کرام جنہوں نے اپنی اپنی مساجد میں 8 رکعات نماز تراویح باجماعت پورا رمضان پڑھائی ہوں ۔اسکا کوئی جواب ہے تو دیں ،ادھر اُدھر کی بات نہ کریں۔
آپ ہم سے تین ثقہ علماء بارہ سو سال میں صرف 36 ثقہ علماء کرام جنہوں نے اپنی اپنی مساجد میں 8 رکعات نماز تراویح باجماعت پورا رمضان پڑھائی ہوں ۔اسکا جواب مانگ رھے ہیں -

ہم آپ سے صرف یہ کہ رھے ہیں امام ابو حنیفہ رحم اللہ نے کتنی تراویح پڑھی ہیں - اور کس کس مسجد میں پڑھی یا پڑھائی ہیں یہ بتا دیں - اور پورا رمضان با جماعت پڑھی ہیں یا پڑھائی ہیں -
اور ساتھ میں صحیح سند سے دلیل بھی پیش کر دیں -
 
Last edited:
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
میرے بھائی کیا آپ کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا حوالہ کافی نہیں -

8093 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
رمضان المبارك ميں باجماعت نماز تراويح سنت ہے بدعت نہيں

كيا باجماعت نماز تراويح بدعت شمار ہو گى كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور مبارك ميں ايسا نہ تھا، بلكہ سب سے پہلے اسے شروع كرنے والے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ ہيں ؟

الحمد للہ :

يہ كہنا كہ نماز تراويح بدعت ہے، سراسر غلط اور ناانصافى ہے، بلكہ يہ كہا جا سكتا ہے كہ:

كيا يہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كى سنت ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور مبارك ميں ايسا نہيں تھا، بلكہ يہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں ہوا ہے، يا كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ اور سنت ہے ؟!

لہذا بعض لوگوں كا دعوى ہے كہ يہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كا طريقہ اور سنت ہے، اور اس كى دليل يہ ديتے ہيں كہ:
عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے ابى بن كعب رضى اللہ
تعالى عنہ اور تميم دارى رضى اللہ تعالى عنہ كو حكم ديا كہ وہ لوگوں كو گيارہ ركعات پڑھائيں، اور ايك رات عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ باہر نكلے تو لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:

" يہ بدعت اور طريقہ اچھا ہے"

يہ اس كى دليل ہے كہ اس سے قبل يہ مشروع نہ تھى .....

ليكن يہ قول ضعيف ہے، اور اس كا قائل صحيحين وغيرہ كى اس حديث سے غافل ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كرام كو تين راتيں قيام كروايا اور چوتھى رات نماز نہ پڑھائى، اور فرمايا: مجھے خدشہ تھا كہ تم پر فرض نہ كر ديا جائے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 872 ).

اور مسلم شريف كے الفاظ يہ ہيں:

" ليكن مجھے يہ خوف ہوا كہ تم پر رات كى نماز فرض كر دى جائے اور تم اس كى ادائيگى سے عاجز آجاؤ"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1271 ).

لہذا سنت نبويہ سے تراويح ثابت ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے تسلسل كے ساتھ جارى نہ ركھنے كا مانع ذكر كيا ہے نہ كہ اس كى مشروعيت كا، اور وہ مانع اور علت فرض ہو جانے كا خدشہ تھا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات سے يہ خوف زائل ہو چكا ہے، كيونكہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو وحى بھى منقطع ہو گئى اور اس كى فرضيت كا خدشہ بھى جاتا رہا، لہذا جب انقطاع وحى سے علت زائل اور ختم ہو چكى جو كہ فرضيت كا خدشہ اور خوف تھا، تو معلول كا زوال ثابت ہو گيا، توپھر اس وقت اس كا سنت ہونا واپس پلٹ آئے گا. اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 78 ).

اور صحيحين ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو كام بھى كرنا پسند كرتے اور اسے صرف اس خدشہ سے ترك كر ديتے تھے كہ لوگ اس پر عمل شروع كردينگے اور يہ ان پر فرض كر ديا جائے گا...
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1060 ) صحيح مسلم صلاۃ المسافرين حديث نمبر ( 1174 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اپنى امت پر مكمل شفقت و مہربانى كا بيان پايا جاتا ہے. اھـ

لہذا يہ كہنا كہ نماز تروايح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت نہيں بلا وجہ اورغلط ہے، بلكہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہے، صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس خدشہ كے پيش نظر اسے ترك كيا تھا كہ كہيں يہ امت پر فرض نہ ہو جائے، اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو يہ خدشہ جاتا رہا.

اور ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ مرتدين كے ساتھ لڑائى اور جنگ ميں مشغول رہے، اور پھر ان كى خلافت كا عرصہ بھى بہت ہى قليل ( دو برس ) ہے، اور جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا دور آيا اور مسلمانوں كے معاملات درست ہو گئے تو لوگ رمضان المبارك ميں اسى طرح نماز تراويح كے ليے جمع ہو گئے جس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ جمع ہوئے تھے.

لہذا عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے جو كچھ كيا ہے وہ زيادہ سے زيادہ يہ ہے كہ انہوں اس سنت كا احياء كيا اور اسے كى طرف واپس گئے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد


http://islamqa.info/ur/ref/21740
عامر بھائی :
الشیخ محمد صالح المنجد کا یہ فتوی بھی غور سے پڑھیں :
نماز تراویح میں آٹھ رکعت سے زيادہ کے عدم جواز کے قائلین کے پاس مندرجہ ذيل حدیث دلیل ہے :

ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں میں نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ کی رمضان میں نماز کیسی تھی ؟

توعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگيں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اورغیررمضان میں گیارہ رکعت سے زيادہ ادا نہيں کرتے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاررکعت ادا کرتے تھے آپ ان کی طول اورحسن کےبارہ میں کچھ نہ پوچھیں ، پھر چار رکعت ادا کرتے آپ ان کے حسن اورطول کے متعلق نہ پوچھیں ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت ادا کرتے ، تومیں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ وترادا کرنے سے قبل سوتے ہیں ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل نہيں سوتا ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1909 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 738 )

ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث رمضان اورغیررمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی ہمیشگی پر دلالت کرتی ہے ۔

علماء کرام نے اس حدیث کے استدلال کورد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے اور فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا ۔

رات کی نماز کی رکعات کی تعداد مقیدنہ ہونے کے دلائل میں سب سے واضح دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :

ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارہ میں سوال کیا تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( رات کی نماز دو دو رکعت ہے اورجب تم میں سےکوئي ایک صبح ہونے خدشہ محسوس کرے تو اپنی نماز کے لیے ایک رکعت وتر ادا کرلے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 946 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 749 ) ۔

اس مسئلہ میں علماء کرام کے اقوال پر نظر دوڑانے سے آپ کو یہ علم ہوگا کہ اس میں وسعت ہے اورگیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے میں کوئي حرج نہيں ، ذیل میں ہم معتبرعلماء کرام کے اقوال پیش کرتے ہیں :

آئمہ احناف میں سے امام سرخسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

ہمارے ہاں وتر کے علاوہ بیس رکعات ہیں ۔

دیکھیں : المبسوط ( 2 / 145 ) ۔

اورابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :


ابوعبداللہ ( یعنی امام احمد ) رحمہ اللہ تعالی کے ہاں بیس رکعت ہی مختار ہيں ، امام ثوری ، ابوحنیفہ ، امام شافعی ، کا بھی یہی کہنا ہے
، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں کہ چھتیس رکعت ہیں ۔

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 1 / 457 ) ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

علماء کرام کے اجماع میں نماز تراویح سنت ہیں ، اورہمارے مذہب میں یہ دس سلام م کے ساتھ دو دو رکعت کرکے بیس رکعات ہیں ، ان کی ادائيگي باجماعت اورانفرادی دونوں صورتوں میں ہی جائز ہیں ۔

دیکھیں : المجموع للنووی ( 4 / 31 ) ۔

نماز تراویح کی رکعات میں مذاہب اربعہ یہی ہے اورسب کا یہی کہنا ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت سے زيادہ ہے ،اورگيارہ رکعت سے زيادہ کے مندرجہ ذیل اسباب ہوسکتے ہیں :

1 - ان کے خیال میں حدیث عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا اس تعداد کی تحدید کی متقاضی نہيں ہے ۔

2 - بہت سے سلف رحمہ اللہ تعالی سے گیارہ رکعات سے زيادہ ثابت ہیں

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ ( 2 / 604 ) اورالمجموع ( 4 / 32 )

3 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ادا کرتے تھے اوریہ رکعات بہت لمبی لمبی ہوتی جو کہ رات کے اکثر حصہ میں پڑھی جاتی تھیں ، بلکہ جن راتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو نماز تراویح کی جماعت کروائي تھی اتنی لمبی کردیں کہ صحابہ کرام طلوع فجر سے صرف اتنا پہلے فارغ ہوئے کہ انہيں خدشہ پیدا ہوگيا کہ ان کی سحری ہی نہ رہ جائے ۔

صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کرنا پسند کرتے تھے اوراسے لمبا نہيں کرتے تھے ، توعلماء کرام نے کا خیال کیا کہ جب امام مقتدیوں کو اس حدتک نماز لمبی پڑھائے تو انہيں مشقت ہوگی ، اورہوسکتا ہے کہ وہ اس سے نفرت ہی کرنے لگیں ، لھذا علماء کرام نے یہ کہا کہ امام کو رکعات زيادہ کرلینی چاہیے اور قرآت کم کرے ۔

حاصل یہ ہوا کہ :

جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہی گیارہ رکعت ادا کی اورسنت پر عمل کیا تو یہ بہتر اوراچھا اورسنت پر عمل ہے ، اورجس نے قرآت ہلکی کرکے رکعات زيادہ کرلیں اس نے بھی اچھا کیا لیکن سنت پر عمل نہيں ہوا ، اس لیے ایک دوسرے پر اعتراض نہيں کرنا چاہیے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اگرکوئي نماز تراویح امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک رحمہ اللہ تعالی کے مسلک کے مطابق چھتیس رکعات ادا کرے یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا ، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ، تورکعات کی کمی اورزيادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہوگي ۔

دیکھیں : الاختیارات ( 64 ) ۔

امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

ان صحیح اورحسن احادیث جن میں رمضان المبارک کے قیام کی ترغیب وارد ہے ان میں تعداد کی تخصیص نہیں ، اورنہ ہی یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح بیس رکعت ادا کی تھیں ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی راتیں بھی نماز تروایح کی جماعت کروائی ان میں رکعات کی تعداد بیان نہیں کی گئي ، اورچوتھی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز تراویح سے اس لیے پیچھے رہے کہ کہيں یہ فرض نہ ہوجائيں اورلوگ اس کی ادائيگي سے عاجز ہوجائيں ۔

ابن حجر ھیثمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

یہ صحیح نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےنماز تراویح بیس رکعات ادا کی تھیں ، اورجویہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعت ادا کیا کرتے تھے "

یہ حدیث شدید قسم کی ضعیف ہے ۔

دیکھیں : الموسوعۃ الفقھیۃ ( 27 / 142 - 145 ) ۔

اس کے بعد ہم سائل سے یہ کہيں گے کہ آپ نماز تراویح کی بیس رکعات سے تعجب نہ کریں ، کیونکہ کئي نسلوں سے آئمہ کرام بھی گزرے وہ بھی ایسا ہی کرتے رہے اور ہر ایک میں خیر وبھلائي ہے ۔سنت وہی ہے جواوپر بیان کیا چکا ہے ۔

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب
http://islamqa.info/ur/9036
 
Top