• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل سنت سے اعتقادی اختلاف رکھنے والے فرقوں کے مراتب

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
اہل سنت سے اعتقادی اختلاف رکھنے والے فرقوں کے مراتب
ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ

امت میں بہت سے اعتقادی مسائل میں اختلاف ہوا جس کی بنیاد پر مختلف فرقے وجود میں آئے۔ہر فرقے میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اساسی عقائد میں مسلمانوں سےاختلاف کیا۔علمائے کرام نے ان لوگوں کو کافر اوردائرہ اسلام سے خارج قرار دیا اور ہر فرقے میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے ان امور میں اختلاف نہیں کیا جن کا ضروریات دین سے ہونا قطعی اورحکمی تھا انہوں نے ان ارکان،اصول اور قواعد کو تسلیم کیا جس پر دین اسلام کی عمارت کھڑی ہے،لہٰذا علمائے اہل سنت نے ان کی غیر کفریہ بدعات کی بنا پر اسلام سے خارج نہیں سمجھاالبتہ انہیں اہل سنت سے خارج قرار دیا۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’چنانچہ اگر ایسا ہوجائے کہ تمام گروہوں میں عدوان و زیادتی کے مرتکب لوگوں کو سزا دی جائے اور تمام گروہوں میں سے متقی لوگوں کی شرف و عزت افزائی کی جائے تو یہ اللہ اوررسول اللہﷺکی پسندیدگی اور مسلمانوں کی اصلاح کا سب سے بڑا سبب ہوگا‘‘(الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح:۱/۲۲)
قدریہ

قدریہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہر چیز انسان کے ارادہ اور قدرت کے تابع ہےگویا ان کے نزدیک انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے سب کام انسان اپنے ارادہ اور اختیار سے کرتا ہے اللہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو حوادث کا علم اسی وقت ہوتا ہے جب وہ وقوع میں آتے ہیں،ان اقوال سے ان کا مقصد اللہ کے ازلی علم اور ارادہ کی نفی کرنا تھا۔
شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین رحمہ اللہ’’شرح لمعۃ الاعتقاد‘‘میں قدریہ کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’قدریہ کی دو قسمیں ہیں ایک قسم وہ ہے جنہوں نے کہا کہ اشیاءکے وجود میں آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم نہیں ہوتا ،
دوسری قسم وہ ہے جو کہتے ہیں کہ بندوں کے افعال اللہ تعالیٰ پیدا نہیں کرتابلکہ بندے اپنے افعال کےخودخالق ہیں‘‘
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وہ قدریہ جو اللہ کے ازلی علم اور تقدیر کے لکھے جانے کے انکاری ہیں سلف صالحین نے ان کو کافر کہا اورجنہوں نے اللہ کے ازلی علم کو تو تسلیم کیالیکن اس بات کا انکار کیا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے افعال کا خالق ہے ان کو کافر نہیں کہا‘‘(فتاوی ابن تیمیہ:۳۵۲/۳)
عبداللہ کہتے ہیں:کہ میرے والد احمد سے سوال کیاگیا کہ کیا قدریہ کا قول کہنے والا کافر ہے؟میرے والد نے جواب دیا:جب وہ (اللہ کے ازلی )علم کا انکار کرے(تو کافر ہے)۔(السنۃ للخلال:روایۃ:862)
یحییٰ بن یعمر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے سب سے پہلے تقدیر کا انکار کیا وہ بصرہ کا معبد الجہنی تھا۔میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ملا اور کہا اے ابو عبدالرحمن ہمارے علاقے میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوئے ہیں جو قرآن مجید کو پڑھتے اور عالم ہونے کے دعویدار ہیں لیکن وہ تقدیر کا انکار کرتے ہیں۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا جب تم ان سے ملو تو انہیں بتانا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں۔اللہ کی قسم اگر وہ احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کریں اللہ تعالیٰ ان سے ہرگز قبول نہیں کرے گا یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئیں‘‘(مسلم:۸)
رافضہ

شیعہ کے بہت سے گروہ ہیں بعض وہ ہیں کہ جو کفر اکبر کے مرتکب اوراسلام سے خارج نہیں۔ان میں سے ایک زیدیہ بھی ہیں جس کے امام زید بن علی بن حسین بن علی بن ابوطالب تھے۔شیعہ کے تمام فرقوں میں سےزیدیہ اہل سنت کے زیادہ قریب ہیں یہ ائمہ کو عام لوگوں کی طرح انسان مانتے ہیں البتہ انہیں رسول اللہﷺکے بعدسب صحابہ سے افضل تسلیم کرتے ہیں یہ اصحاب رسول کی تکفیر بھی نہیں کرتے اور یہ عقیدہ بھی نہیں رکھتے کہ نبی کریمﷺنے نام لے کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو امام مقرر کیاان کے نزدیک امام میں اگرچہ کامل صفات ہونی چاہیے لیکن اگر امت کسی ایسے شخص کو امام چن لے جس میں بعض صفات موجود نہ ہوں اور وہ اس کی بیت کرلیں تو اس کی امامت درست اور بیعت لازم ہو گی یہی وجہ ہوگی کہ زیدیہ کے ہاں سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی امامت صحیح تھی۔زیدیہ فرقہ آج کل بھی یمن میں موجودہے۔
شیعہ کی کئی گروہ ایسے ہیں جو کفراکبر کے مرتکب ہیں۔جیسا کہ آج کل ایران،عراق اور پاکستان میں شیعہ جنہیں امامیہ یا اثنا عشریہ کہتے ہیں۔ان کے ہاں کتب اربعہ مصادر دین کی حیثیت رکھتی ہیں۔یہ کتب اربعہ یہ ہیں۔
1:الکافی،2:التہذیب۔3:الاستبصار۔4:من لایحضرہ الفقیہ
ان کے چند عقائد ملاحظہ کیجیے:
تحریف قرآن کا عقیدہ
قرآن مجید کے بارے میں امامیہ شیعہ کا عقیدہ ہے کہ قرآن جس طرح نازل ہواتھا وہ اس طرح باقی نہ رہا بلکہ نبی کریمﷺکی وفات کے بعدتین یا چار صحابہ کو چھوڑ کرتمام صحابہ مرتد ہوگئے اور انہوں نے قرآن میں کمی اور زیادتی کے جرم کا ارتکاب کیا۔عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ جن صحابہ نےقرآن کریم کو جمع کیاانہوں نے اس میں سے’’علی‘‘اور’’آل‘‘محمد کے الفاظ کوکئی مقامات سے حذف کیا اور اس طرح کئی منافقین کے نام بھی قرآن مجید سے نکال دیے۔(حیات القلوب للمجلسی541/2،تفسیر الصافی،المقدمۃ السادسۃ للکاشانی)
شیعہ مذہب کے مطابق جو قرآن آپﷺپر نازل ہواتھا اس کی آیات کی تعدادایک روایت کے مطابق17ہزار(الکافی۱۳۴/۲)
جبکہ موجودہ قرآنی آیات کی تعداد۶۲۳۶ہے۔(تفسیر مجمع البیان للطبرسی)گویا شیعہ قوم کے نزدیک دو تہائی قرآن ضائع ہو چکا ہے۔شیعہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کے بارے میں ایک سورت نازل فرمائی تھی،جس کانام’’سورہ الولایۃ‘‘تھا۔(فصل الخطاب للنوری180،تذکرۃ الائمۃ لمحمدباقر المجلسی،9۔10)
نظریہ امامت
شیعہ نظریہ کے مطابق جس طرح نبوت اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ایک منصب ہے اسی طرح امامت بھی الہیٰ منصب ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:’’الامامۃ منصب الھی کالنبوۃ‘‘امامت نبوت کی مانند الہی منصب ہے۔(أصل الشیعۃ واصولھا58)امام جعفر فرماتے ہیں۔’’بنی الاسلام علی خمس:علی الصلاۃوالزکوۃ والصوم والحج والولایۃ ولم ینادبشیءکمانودی بالولایۃ‘‘’’اسلام پانچ بنیادوں پر قائم ہے۔1:نماز،2:زکوۃ،3:روزہ،4:حج،5:ولایت اور کسی چیز کی طرف اتنا بلایا نہیں گیا جتنا زیادہ ولایت کی طرف بلایا گیا ہے۔(أصول الکافی2/18)
شیعہ کا عقیدہ ہے کہ ان کے ائمہ اپر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے اور وہ وحی کے بغیر کلام نہیں کرتے۔(بحار الانوار:26/358،17/155،54/234)
چنانچہ خمینی لکھتا ہے:’’وان من ضروریات مذھبنا،ان لائمتنا مقاماً لا یبلغہ ملک مقربً ولا نبی مرسلً‘‘(الحکومۃ الاسلامیہ52)’’اور بے شک ہمارے مذہب کی ضروریات(میں یہ بات شامل ہے)یہ کہ ہمارے ائمہ کے لیے وہ مقام ہے کہ جس تک نہ تو کوئی فرشتہ پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی نبی مرسل‘‘امامیہ’’عصمت ائمہ‘‘کے عقیدے پر متفق ہیں۔اس عقیدے سے ائمہ ہر صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے پاک ہیں۔نہ تو وہ جان بوجھ کر گناہ کرتے ہیں اور نہ ہی ان سے بھول چوک سے گناہ سرزدہوتا ہے۔اسی طرح وہ تاویل میں بھی خطا نہیں کھاتے۔(بحار الانوار،25/211،مرآۃ العقول4/352،أوائل المقالات:276)ان کے نزدئک امام سہو ونسیان میں واقع نہیں ہوتا۔یہ شیعہ کا وہ مسئلہ ہے جن پر ان کا اجماع ہے۔(عقائد الامامیۃ للمظفر:95،صراط الحق لأصف المحیسنی:3/121)
صحابہ کرام کے بارے میں عقیدہ
شیعہ کا عقیدہ ہے کہ صحابہ نبی کریمﷺکی وفات کے بعد مرتد ہوگئے تھے،سوائے تین یا چار کے کوئی بھی ارتداد سے محفوظ نہ رہا۔(السقیفۃ:19،احقاق الحق و ازھاق الباطل:316)صحابہ کرام نبی کریمﷺکے زمانے میں نفاق پر تھے۔(احقاق الحق و ازھاق الباطل:3،تفسیر الصافی:1/4)
ایسے عقائد کے حاملین رافضہ کے متعلق امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جس کسی نے یہ زعم رکھا کہ قرآن کی آیات کم ہوگئی ہیں یا چھپا لی گئی ہیں یا اس زعم میں مبتلا ہوا کہ قرآن کی ایسی باطنی تاویلات ہیں کہ جو مشروع اعمال کو ساقط کر دیتی ہیں تو ایسوں کے کفر میں کوئی اختلاف نہیں اور جس کسی نے یہ زعم رکھا کہ سوائے چند صحابہ کےجو کہ دس اورکچھ کی تعداد کو بھی نہیں پہنچتے باقی تمام صحابہ رسولﷺکے بعد مرتد ہوگئے تھے یا یہ کہ ان کے عام افراد فاسق ہوگئے تھے تو ایسے کے کفر میں بھی کوئی شک نہیں ہے کیونکہ یہ شخص ان آیات کو جھٹلانے والا ہے جس میں صحابہ کرام کی تعریف کی گئی ہے اور اللہ نے صحابہ سے اپنی رضامندی کا اعلان کیا ہے۔ایسے کے کفر میں بھی بھلا کون شک کر سکتا ہے؟اس کا کفر تو متعین ہے۔یہ قول کہنے والاکا خلاصہ یہ ہے کہ کتاب و سنت کو نقل کرنے والےکفار یا فساق ہیں۔یہ قرآن مجید کی اس آیت’’کُنْتُمْ خیر اُمَّۃ۔۔۔۔’’تم بہترین امت ہو‘‘کا صریح انکا ر ہے۔
یقیناً اس امت کا سب سے بہترین حصہ پہلی صدی میں تھا اور اگر یہ مانا جائے کہ ان کے عوام کفار یا فساق تھے(تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ)یہ امت سب امتوں میں بدترین امت ہے اور اس کے پہلےلوگ اس کے شریر ترین تھے۔اس قول کا کفر ہونا ان امور میں آتا ہے کہ جو معلوم من الدین بالضرورۃ ہیں۔(الصارم المسلول587،586)
جاری ہے​
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
اتحادیہ و وجودیہ

وحدت الوجود اور حلول جوکہ غالی صوفیہ کی بدعت ہے۔اس کے بارے میں سلف وخلف کا موقف ملاحظہ فرمائیں:
ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’پھر اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ جس کسی نے ابن عربی کے عقیدے کا درست ہونے کا عقیدہ رکھا تو ایسا آدمی بغیر کسی اختلاف کےبالاجماع کافر ہے۔اختلاف اور کلام صرف اسی وقت ہے جب وہ اپنے کلام کی ایسی تاویل کرتا ہو جو اس کے مقصد کے اچھا ہونے کا تقاضا کرتی ہو۔۔۔۔
علامہ ابن المقری رحمہ اللہ نے اس بات کی تصریح کی ہےکہ جس نے یہود ونصاری اور ابن عربی کے طائفہ کے کفر میں شک کیا تو وہ کافر ہے،یہ ایک ظاہری معاملہ اورواضح حکم ہے۔رہی بات اس شخص کی جس نے توقف کیا تو وہ اپنی اس بات میں معذور نہیں ہوگا بلکہ اس کا توقف کرنا اس کے کفر کا سبب ہے۔دارالاسلام کے حکمرانوں پر واجب ہے کہ جو بھی یہ فاسد نظریات اور باطل تاویلات رکھتا ہو اس کو جلا دیں،اسی طرح ان کی لکھی ہوئی کتابوں کو بھی جلانا واجب ہے اور ہرآدمی پر واجب ہے کہ وہ ان کی مخالفت کے فساد کو واضح کرے کیونکہ علماء کا سکوت اور آراء کا اختلاف اس فتنے کے پھیلنے کا سبب بن گیا ہے۔ہم اللہ تعالیٰ سے اچھے خاتمے کا سوال کرتے ہیں۔آمین‘‘(الرد القائلین بوحدۃ الوجود:۱۵۵،۱۵۶)
ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’ابن فارض نے جو قصیدہ میمیّہ لکھا اس کو اگر ظاہری معنی پر محمول کریں تو وہ سب کلمات کفریہ ہیں اور جو شخص مذاق میں بھی کفر کا کلمہ کہے تو وہ کافر ہے‘‘(شرح فقہ اکبر:ص،۲۳۱)
مفسر آلوسی کے نواسے علامہ نعمان آلوسی رحمہ اللہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:ابن عربی کے بارے میں لوگ مختلف اقسام پر ہیں:
پہلی قسم میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے تصریح کی ہے کہ ابن عربی شریعت مخالف باتوں کی وجہ سے کافر ہے اور انہوں نے اس کے بارے میں مختصر اور طویل کتابیں لکھی ہیں جیسے علامہ سخاوی،علامہ سعد تفتازانی،ملاعلی قاری رحمہم اللہ کی اس موضوع پر لکھی گئی کتابیں۔
دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے مستقل کتابیں نہیں لکھیں لیکن اپنی کتابوں کے ضمن میں اس کا تذکرہ کیا جیسے حافظ ابن حجر،ملا علی القاری،ابن دقیق العید،عزالدین اورابوزرعہ ابن العراقی رحمہم اللہ وغیرہ۔علامہ ابو زرعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اگر وفات تک وہ اسی عقیدہ پر مراتو وہ کافر اور مستقل جہنمی ہے۔اور اسی بات کی تصریح شیخ الاسلام سراج الدین بلقینی نے بھی کی ہے کہ ابن عربی کافر ہے‘‘اور یہی بات رضی الدین ابوبکر المعروف بابن الخیاط اور قاضی شہاب الدین احمد اور بہت سے علماء نے کی ہے،پھر فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ میں نے ترتیب کے ساتھ یہ نام محض اللہ کے دین کی خیرخواہی اور کمزور مسلمانوں پر شفقت کرتے ہوئے ذکر کئے ہیں تاکہ مسلمان ان فلاسفہ سے بچیں اور محتاط رہیں جو اللہ اور رسول اللہﷺ پر جھوٹ بولتے ہیں اور عالم کے قدیم ہونے کے قائل ہیں اور موت کے بعد اُٹھائے جانے کا انکار کرتے ہیں اور جاہل لوگ اپنے آپ کو تصوف کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ ایسے لوگوں کی تعظیم کے دلدادہ ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور اس کے پسندیدہ لوگ ہیں‘‘(جلا العینین،ص:۸۶)
امام ذہبی رحمہ اللہ ابن عربی کے متعلق لکھتے ہیں:’’ابن عربی نے وحدۃ الوجودوالوں کے تصوف کے بارے میں بہت کچھ لکھا اوراس کی تصانیف میں سے سب سے گھٹیا تصنیف الفصوص ہے اگر اس میں کفر نہیں تو پھر دنیا میں کہیں کفر ہے ہی نہیں‘‘(سیر اعلام النبلاء۲۳/۴۸)
بعض صوفیاء نے اصطلاح’’وحدۃ الوجود‘‘کو تو قبول کیالیکن اس کے قائلین کو دو گروہوں میں منقسم کیا ہےایک تو وہ جماعت ہے جو وحدۃ الوجود کے شرکیہ مفہوم کو مانتی ہےاسکو جاہل صوفیاءکانام دیا ہےجبکہ دوسری جماعت وحدۃ الوجود کے شرکیہ معنی و مفہوم کا رد کرتے ہوئے درست معنی بیان کرتی ہے ان کو محققین صوفیاء کہتے ہیں۔
وحدت الوجود کے بارے میں دارالافتاءدیوبندانڈیا کا موقف ملاحظہ کریں:
وحدۃ الوجود صوفیاء کی اصطلاح ہےجس کا حاصل یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کا وجود کامل ہےاور اس کے بالمقابل تمام ممکنات کا وجوداتنا ناقص ہےکہ کالعدم ہے۔عام محاورہ میں کامل کے مقابلے میں ناقص کو معدوم سے تعبیر کیاجاتا ہےجیسے کسی بڑے علامہ کے مقابلے میں تعلیم یافتہ کو یاکسی مشہورپہلوان کے مقابلہ میں معمولی شخص کو کہا جاتا ہےکہ یہ تو اس کے سامنےکچھ بھی نہیں،حالانکہ اس کی ذات اور صفات موجود ہیں مگر کامل کے مقابلے میں انہیں معدوم قرار دیا جاتا ہے،اسی طرح اللہ تعالیٰ کے وجود کامل کے مقابلہ میں تمام مخلوق کے وجود کوحضرات صوفیاء معدوم قرار دیتے ہیں،تقریر بالا سے معلوم ہوا کہ وحدت الوجود کے یہ معنی نہیں کہ سب ممکنات کا وجود اللہ تعالیٰ کے وجود سے متحد ہے،بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ وجود کامل صرف واحد ہے بقیہ موجودات کالعدم ہیں جیسے کہ کوئی بادشاہ کے دربار میں درخواست پیش کرے،بادشاہ اسے چھوٹے حکام کی طرف رجوع کا مشورہ دے اوریہ جواب میں کہے کہ حضور آپ ہی سب کچھ ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب حکام آپ سے متحد ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ کے سامنے سب حکام کالعدم ہیں۔(سہ ماہی قافلہ حق کے مصنف مولانا محمد امجد سعید صاحب(دیوبندی)،اشرف الفتاویٰ،ڈاکڑ عبدالواحد مفتی جامعہ مدنیہ لاہور،حتی کی اہل حدیث علماء کرام حافظ محدث عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام ابو الوفأثنااللہ امرتسری رحمہ اللہ نے وحدت الوجود کے یہی معنی بیان فرمائیں ہیں)
قبر پرست

ان کی کئی ایک بدعات کفر ہیں جیسے غیر اللہ کو مشکلات کے حل کے لیے پکارنا،انہیں اللہ رب العزت کی صفات سے متصف کرنا۔
وَ مَنْ يَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهٗ بِهٖ فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ(سورۃ المومنون:۱۱۷)
’’اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے ، جس کے لیے اُس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اِس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے ۔ (لاریب) ایسے کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے‘‘
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس آیت کی ضمن میں فرماتے ہیں:
’’پس جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ قبروں سےمنت ماننااللہ سے مرادیں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے،یا اس سے مصائب دور ہوتے ہیں رزق کھلتا ہے،جان و مال وملک کی حفاظت ہوتی ہے تو وہ مشرک بلکہ کافر ہے‘‘(اصحاب صفہ اور تصوف کی حقیقت:ص۸۱)
قبر میں مدفون بزرگوں کو پکارنے کے مختلف مراتب
علامہ ابوبکر زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
زندہ شخص کا کسی فوت شدہ بزرگ کو پکارنے کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم:
کسی زندہ کا مردے کو پکارنا،اس سے مشکلات میں مدد طلب کرنایہ عمل شرک اکبر ہے جو ایسے ہی ہے جیسے بتوں کی پوجا کرنا اور اللہ کا شریک ٹھہرانا کیونکہ ایسا کرنے والے نے غیر اللہ کی پکار لگائی ہے اور اس سے مدد طلب کی ہےجبکہ اس کا دل بھی اس بزرگ کے ساتھ معلق ہے۔ہم کتاب وسنت سے یہ بات جانتے ہیں کہ استغاثہ عبادت ہے اوراللہ کے سواکوئی مشکل کشا اورحاجت روا نہیں ہے۔اس نے غیر اللہ سے اس بات کی امید لگائی جس پر وہ قادر نہیں،اس لیے یہ شرک کا مرتکب ہے چاہے یہ مردے کو دور سے پکارےیانزدیک سے،اس کی قبر کے پاس حاضر ہو کر پکارےیااس کے دربار کی کھڑکی یا دروازے سے پکارےیادوردرازسے ہر صورت وہ شرک اکبر کا مرتکب ہے،البتہ دور سے پکارنے میں وہ ایک کفریہ بھی کرتا ہے کہ اس ولی کو عالم الغیب قرار دیتا ہے،اس قسم کی مثال میں یہ الفاظ ہیں:’’یا رسول اللہ‘‘’’یا نبی اللہ‘‘’’یا غوث مدد‘‘’’یا علی‘‘’’یا فاطمہ‘‘’’یا حسن‘‘’’یا حسین‘‘’’یا عبدالقادر‘‘میری حاجت روائی کرو،میری مشکل کشائی کرو،میری مدد کرو،مجھ پر رحم کرو،میرے مریض کو شفا دو،اللہ کے ہاں میری سفارش کرو،میں آپ کے ذمے ہوں،میں آپ کی پناہ میں آتا ہوں اور اس طرح کے دیگر صریح الفاظ جن میں غیر اللہ کی پکار لگائی گئی ہو اس قسم میں آتے ہیں۔
دوسری قسم:
زندہ کا مردے کو پکارنا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے دعا کرے۔اس قسم کی مزید دو قسمیں ہیں۔
1:
زندہ شخص مردے کو پکارے جبکہ وہ اس کی قبر سے دور ہو۔
اس قسم کے شرک اکبر ہونے میں بھی مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔یہ وہی شرک ہے جو نصاری نے مریم اور اس کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا،وہ انہیں پکارتے اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ لوگوں کے افعال و حالات سے واقف ہیں۔
2:
زندہ کااللہ سے دعا کروانے کے لیے مردے کو اس کی قبر کے پاس آکر پکارنا۔
جیسے یہ قبر پر جانے والے کا بزرگ کو مخاطب ہو کر یہ کہنا:’’اللہ سے میرے لیے یہ اور یہ دعا کریں‘‘یا یوں کہنا’’میں آپ سے اللہ سے فلاں اور فلاں دعا کرنے کا سوال کرتا ہوں‘‘
مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یہ قسم ایک بدعت ہے اور اللہ کے ساتھ شرک اور غیر اللہ کی پکار تک پہنچانے کا وسیلہ ہے،جس سے لوگوں کے دل اللہ کی بجائے مخلوق سے جڑتے ہیں،البتہ یہ اس وقت شرک اکبر بن جائے گا جب قبر والے کو پکارنے والا مشرکین مکہ کی مانندانہیں اللہ کے ہاں سفارشی اور شرکیہ واسطہ بنائے(وہ اس طرح کہ وہ ان کی عبادت شروع کردے) جیسا کہ ارشادر ربانی ہے:
مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى١ؕ(سورۃ الزمر:۳)
’’ ہم تو اُن کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں‘‘(تصحیح الدعا:251۔248)
اس قسم کے شرک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ممکن ہے بعض احادیث(جیسا فرمایا کہ مردہ دفنانے والوں کے جوتے کی چاپ سنتا ہے)سے کوئی اس غلط فہمی کا شکار ہوجائے کہ مردے کی قبر پر آکراُس سے اللہ سے دعا کی درخواست کی جائے تو وہ میری بات سن سکتا ہے،یہ عمل شرک نہیں البتہ شرک اور غیر اللہ کی پکار تک پہنچانے کا وسیلہ ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ مردے سے دعا کروانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
خوارج

وہ سب سے پہلا فرقہ ہے جس نے گمراہی اختیا ر کی،یہ لوگ بہت زیادہ عبادت اور قرآن کی تلاوت کرنے والے تھے۔ظاہراً ان کا مقصد قرآن مجید کی اتباع تھا مگر قرآن کے مفہوم کی بے جا تاویلات کرتے تھے اور اپنی رائے کو مقدم رکھتے تھے۔انہوں نے سنت اور فہم صحابہ کوکوئی اہمیت نہ دی قرآن مجید کی آیت کا مفہوم سمجھا اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔جنہوں نے اس آیت کو ان سے مختلف انداز میں سمجھا انہیں کافر قرار دیا اور انہیں قتل کیا۔حالانکہ صحابہ کرامکا فہم ان کے فہم سےبہتر تھا اور جوکچھ صحابہ نے سمجھاتھا وہی حق تھا۔اس لیے
رسول اللہﷺنے فرمایا:’’یہ لوگ قرآن پڑھیں گے مگرقرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہ اترے گا،یہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔اگر میں انہیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح انہیں قتل کروں‘‘(صحیح بخاری:۳۳۴۴،صحیح مسلم:۱۰۶۴)
عبید اللہ بن ابی رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ’’خارجیوں نے کہالا حکم الا للہ،اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں ہے۔علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا’’یہ کلمہ حق سے باطل مفہوم اخذ کررہے ہیں‘‘(مسلم:۱۰۶۶)
خوارج لاحکم الاللہ کہہ کر علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما اور ان کے مومن ساتھیوں کو کافر اور واجب القتل قرار دے رہے ہیں گویا کلمہ حق سے ایک باطل مفہوم لے رہے ہیں۔
ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
خوارج سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کو کافر کہتے تھے۔ان پر سب و شتم کرتے اور انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے مگرصحابہ کرام انہیں کافر اور مشرک قرار نہیں دیتے تھے۔خوارج کی شدت کا اندازہ کیجیے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نماز پڑھ رہےتھے کہ ایک اونچی آواز سے کہتا ہے’’لئن اشرکت لیحبطن عملک‘‘(اگرآپ شرک کریں گے توآپ کے اعمال برباد ہو جائیں گے،یعنی اس نے یہ کہا کہ آپ مشرک ہیں اور آپ کی یہ نمازیں کسی کام کی نہیں ہیں)سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز میں ہی فرمایا:’’فاصبر ان وعد اللہ حق‘‘صبر کرو اللہ کا وعدہ حق ہے۔(طبری جلد5،ص:54،حاکم جلد:3ص146)
ان کے بارے میں صحیح بخاری میں منقول ہے کہ
’’لا یجاوز ایمانھم حناجرھم یمرقون من الدین کمایمرق السھم من الرمیۃ فاینما لقیمتموھم فاقتلوھم‘‘ان کا ایمان ان کے نرخرہ سے آگے نہیں بڑھے گا،وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے،تم انہیں یہاں پاؤ قتل کردو‘‘صحابہ کرام نے ان کو فرمان نبوی کےمطابق قتل کیامگر مسیلمہ کذاب کے ساتھیوں کا سا معاملہ ان کے ساتھ نہیں کیا،ان کے اموال کی حرمت کو بھی تسلیم کیا اور اس کو تقسیم نہیں کیا بلکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا:
أَهْلِ النَّهْرِ أَهُمْ مُشْرِكُونَ؟ قَالَ : " مِنَ الشِّرْكِ فَرُّوا "، قِيلَ : فَمُنَافِقُونَ هُمْ؟ قَالَ : " إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا "، قِيلَ لَهُ : فَمَا هُمْ؟ قَالَ : " قَوْمٌ بَغَوْا عَلَيْنَا "
’’کہ کیا وہ مشرک ہیں؟سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا شرک سے ہی تو وہ بھاگے ہیں۔کہا گیا کہ کیا وہ منافق ہیں؟فرمایا:منافق تو اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں(مگر یہ ایسے نہیں بڑے عبادت گزار ہیں)پوچھا گیایہ پھر کون اور کیسے ہیں؟فرمایا:انہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے۔اس لیے ہم نے ان سے قتال کیا ہے‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ:37942،بیہقی:ج:8،ص:174)
بلکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے قاتل عبدالرحمن بن عمرو بن ملجم الحمیری کے بارے میں فرمایا:’’کہ اسے قتل نہ کرنا اگر میں صحت یاب ہو گیا توزخموں کا بدلہ لیا جائے اوراگر فوت ہو گیا تو قصاص میں قتل کر دینا(ابن ابی شیبہ،بیہقی وغیرہ)
لہذا جب صحابہ کرام نے انہیں اتنے جرائم کے باوجود کافر قرار نہیں دیا تو شرک اور کفر صریح کے علاوہ کسی بڑے سے بڑے جرم کی وجہ سے کسی کو کافر و مشرک کہنا اور انہیں خارج از ملت قرار دینا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔(مقالات تربیت:ص191،192)
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب خوارج کے ان مظالم کے باوجود ہمارے آئمہ نے عدل سے کام لیتے ہوئے انہیں کافر نہیں کہا تو ہمیں بھی کسی گروہ کو کافر اس بنیاد پر نہیں کہنا چاہیے کہ اس نے ہمارے علماءکرام کو شہید کیایا ہمارے مال کو لوٹایا ہماری مساجد پر قبضہ کیایا آگ لگائی،ہمیں عدل و انصاف کا دامن نہیں چھوڑنا ہے،صرف اسے ہی کافر کہنا ہے جسے اللہ اور اس کے رسولﷺنے کافر کہا ہو کیونکہ تکفیر حکم شرعی ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’خوارج کے ساتھ نبی کریمﷺنے قتال کرنے کا حکم دیا اور امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ عملاً قتال کیا۔خوارج کے ساتھ قتال پر صحابہ ،تابعین اور ان کے بعد آنے والے متفق تھے۔(لیکن اس کے باوجود)سیدنا علی،سیدنا سعد ابن ابی وقاص اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے انہیں کافر قرار نہیں دیا اور انہیں مسلمان ہی سمجھا۔۔۔۔یہ لوگ جن کی گمراہی نص اور اجماع کے ذریعے ثابت ہےنیز اللہ اور اس کے رسولﷺنے ان کے ساتھ قتال کرنے کا حکم بھی دیا ہےجب یہ کافر قرار نہیں دے گئے تو ان اختلاف کرنے والے گروہوں کی تکفیر کیسے درست ہو گی جن پر ایسے مسائل میں حق مشتبہ ہوا ہے کہ جن مسائل میں ان سے زیادہ علم والوں نے بھی غلطی کھائی ہے؟۔۔۔۔(مجموع الفتاویٰ:جلد۳ص۲۸۲)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے غیر کفریہ بدعت کی طرف دینے والے کی تکفیر کو غلط قرار دیا ہے۔اس بات کی دلیل کے طور پر خوارج کو پیش کیا ہےجواپنی بدعت کو سب سے زیادہ ظاہر کرنے والےبلکہ اس کی اساس پر قتال کرنے والے تھے مگر اس کے باوجود سیدنا علی اور دیگر صحابہ نے ان کی تکفیر نہیں کی،بلکہ انہیں ظالم اور حد سے نکلے ہوئے مسلمان قرار دیا (مجموع الفتاوی:جلد۷ص۲۱۷)
البتہ خوارج میں بھی بعض ایسے گروہ موجود تھے جنہیں علمائے کرام نے کافر اور اسلام سے خارج قرار دیا۔
امام ابو منصور بغدادی رحمہ اللہ نے خوارج کے دو فرقوں کاذکر کیا جن میں سے ایک یزید بن ابی انیسہ کے پیروکار تھے جس نے دعوی کیا کہ اللہ تعالیٰ عجمیوں میں سے ایک رسول بھیجے گا جس پر کتاب نازل فرمائے گا اور وہ شریعت محمدیہ کو منسوخ کر دے گا۔ان کا ایک فرقہ میمونیہ نے سورت یوسف کے قرآن ہونے کا یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ایسی سورت قرآن طرح ہو سکتی ہے جس میں داستان محبت بیان کی گئی ہو(الفرق بین الفرق بحوالہ اسلامی مذاہب)
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
مرجئہ​
مرجئہ اسلام کی طرف منسوب وہ گروہ ہے جسے علمائے اہل سنت اسلام سے خارج قرار نہیں دیتے بلکہ ان کے مختلف گروہ ہیں جن میں بعض شخصیات تو اہل سنت کے ائمہ میں شمار ہوتی ہیں انہیں مرجئہ الفقہاء کہا جاتا ہے عمومی طور پر ان کے گروہ اہل سنت سے خارج ہیں،البتہ ان کے بعض غالی اسلام سے بھی خارج ہیں۔تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
مرجئۃ السنۃ:

جنہیں مرجئۃ الفقہاء اور مرجئۃ الکوفہ بھی کہا جاتا ہے۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،ان کے استاد حماد بن ابی سلیمان اور ان کے شاگرد اس گروہ میں شامل ہیں اور یہ گروہ اہل سنت میں شمارہوتا ہے۔
یہ وہ فرقہ ہے جو کہتے ہیں کہ ایمان زبان کے اقرار اور دل کی تصدیق کا نام ہےاور اعمال مثلاًنماز،روزہ،زکوۃ اور حج ایمان میں سے نہیں ہیں البتہ اعمال تقوی اور نیکی ہیں اور یہ مطلوب ہیں اور ان کا ادا کرنا مسلمانوں پر واجب ہے۔اعمال کے بجا لانے والے کو ثواب اورچھوڑنے والے کو عذاب ہوتا ہے اور کبیرہ گناہ کے مرتکب پر حد قائم کی جائے گی لیکن وہ اس کو ایمان کا نام نہیں دیتے۔

علماء اہل سنت نےمرجئۃ الفقہاءکی جن باتوں کی تردید کی ان میں چند ایک درج ذیل ہیں۔
(1)ان کے نزدیک ایمان دل کی تصدیق اور زبان سے اقرار کانام ہے،عمل بالجوراح ایمان میں داخل نہیں
(2)وہ کہتے ہیں کہ ایمان نہ تو کم ہوتا ہے اور نہ زیادہ
(3)ان کے نزدیک کفر کرنے والا اس وقت تک کافر نہیں ہوتا جب تک کہ وہ کفر کا عقیدہ نہ رکھےیا کسی گناہ کو حلال نہ کرلےیا شریعت کی کسی معلوم بات کا انکار نہ کردے

آئمہ اہل سنت نے مرجئۃ الفقہاء کا خوب رد کیا ہے اور ثابت کیا کہ عمل ایمان میں داخل ہے ان عقائد کو اہل بدعت کے عقائد قرار دئیے لیکن اس سب کے باوجود کسی نے بھی ان کو کافر نہیں کہا۔
الشیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے پوچھا گیا کہ مرجئۃ الفقہاء اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں؟آپ فرماتے ہیں:’’نہیں وہ اہل سنت والجماعت سے خارج نہیں اس لیے ان کو مرجئۃ السنۃیا مرجئۃ اہل السنۃ کہا جاتا ہے۔اہل سنت سے ان کا اختلاف ان کو دائرہ اہل سنت سے باہر نہیں نکالتا البتہ یہ ان کی خطا ہے کہ وہ کہتے ہیں عمل ایمان میں داخل نہیں(الموقع الرسمی لمعالی صالح بن الفوزان)
دیگر گروہ
اکثر مرجئہ کی رائے میں عمل ایک بے کار سی چیز ہے جس کا دخول جنت و جہنم سے کوئی تعلق نہیں،انہوں نے ایمان کی حقیقت کو ہی بدل ڈالا۔ان کے چند گروہ درج ذیل ہیں۔
مرجئۃ القدریہ:

یہ مرجئہ کا وہ گروہ جنہوں نے قدریہ کے عقائد اختیار کرتے ہوئے تقدیر کا انکار کیا​
مرجئۃ الکرامیہ:

ان کاکہنا ہے کہ ایمان صرف زبان سے اقرار کا نام ہےچاہے دل سے تصدیق نہ بھی کی جائے​
مرجئۃ خالصۃ:

اس گروہ نے ارجاء کے علاوہ باقی مسائل پر کلام نہیں کیا​
غلاۃ المرجئہ:

ان کا کہنا ہے کہ ایمان صرف دل کی معرفت کا نام ہے چاہے زبان سے تصدیق نہ بھی کی جائے اور جہمیہ کی طرح انسان کو مجبور محض قرار دیا جس میں نہ ارادہ ہےنہ قدرت۔یہ مرجئہ کا وہ گروہ ہےجوکفر اکبر میں واقع ہوا۔
امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ان کے ہاں ایمان کا تعلق دل سے ہوتا ہے زبان سے کفر کا اعلان کرنے،بتوں کی پوجا کرنےیا صلیب کی عبادت کرنے سے بھی ایمان جوں کا توں رہتا ہےاگر کوئی شخص دارالسلام میں رہتے ہوئےیہودی،عیسائی بن جائےیا وہ تثلیث کا عقیدہ رکھتا ہو اور اسی حالت میں مرجائے تو وہ اللہ کے ہاں کامل مومن ہوگا۔(کتاب البرھان للسکسکی،ص:۳۳،فصل الملل والنحل ابن حزم)
سلف میں سے امام نافع،وکیع،ابوعبید،احمد بن حنبل اور حمیدی رحمۃ اللہ علیہم نے ان کو کافر کہا ہے۔(تفصیل کے لیے دیکھیں فتاوی ابن تیمیہ رحمہ اللہ۷/۱۲۰۔۱۸۹)
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
جہمیہ
اس فرقے کا بانی جہم بن صفوان تھا اس کا عقیدہ تھا کہ انسان اپنے افعال میں مجبور محض ہےنہ اس میں قدرت پائی جاتی ہےنہ ارادہ نہ اختیار۔ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ نے انسانوں کو جبراً گناہوں پر لگارکھا ہے۔ایمان کے بارے میں اس کا عقیدہ تھا کہ ایمان صرف معرفت کا نام ہے جو یہودی نبیﷺکی صفات سے باخبر ہیں وہ مومن ہیں یہ فرقہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا منکر تھا۔یہ کہتا تھاکہ اللہ تعالیٰ کو ان صفات سے متصف نہیں کیا جا سکتا جن کااطلاق مخلوق پر ہوتا ہے۔ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا انکار کرنا توحید ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
’’جو کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ علم و قدرت رکھتا ہے یا اسے آخرت میں دیکھا جائے گایا یہ کہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کلام ہے جو مخلوق نہیں،جہمیہ کے نزدیک وہ شخص موحد نہیں بلکہ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دینے والا مُشَبَّہ ہے۔(مجموع الفتاوی:۳/۹۹)
جہمیہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات مخلوق ہیں،وہ ایک ایسے خالی خدا پر ایمان رکھتے ہیں جس کا تصور کرنا ذہن میں ہی ممکن ہے کیونکہ حقیقت میں جو بھی چیز وجود رکھتی ہےاُس کی صفات ہوتی ہیں۔صفات سے علیحدہ کسی ذات کا حقیقت میں وجود نہیں ہےصفات کے انکار میں غلو کا یہ حال تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں یہ کہنا جائز نہیں سمجھتے تھے کہ اللہ ایک شئی(چیز)ہے۔
امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جہم کا کہنا تھا:اللہ تعالیٰ کو شئیء کہنا جائز نہیں،کیونکہ شئیءاس مخلوق کو کہتے ہیں جس جیسا کوئی اور پایا جاتا ہو۔جبکہ تمام مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ شئیء ہےمگر وہ دیگر اشیاء کی مانند نہیں ہے‘‘(مقالات الاسلامیین:۱/۲۵۹)
اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
قُلْ اَيُّ شَيْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً قُلِ اللّٰهُ شَهِيْدٌۢ بَيْنِيْ وَ بَيْنَكُمْ١۫(سورۃ الانعام:۱۹)
’’پوچھیے سب سے بڑھ کر سچی گواہی کس شئیءکی ہوسکتی ہے؟کہہ دیجیے اللہ تعالیٰ کی جو میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے‘‘
حقیقت میں جہمیہ کااللہ کے آسماء وصفات کا عقیدہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تعطیل کرنے والے جہمیہ کا عقیدہ حقیقت میں وہی عقیدہ ہےجو فرعون کے ہاں پایا جاتا تھاوہ خالق،اس کے کلام اور دین کا انکار کرتا تھا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے:
مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْ(سورۃ القصص:۳۸) اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى ٞۖ(سورۃ النازعات:۲۴)فرعون جہمیہ کی طرح موسی علیہ السلام کے اللہ سے ہم کلام ہونے کا انکاری تھا،اسی طرح وہ اس بات کا بھی منکر تھا کہ آسمانوں کے اوپر موسی علیہ السلام کاکوئی معبود ہے‘‘(مجموع الفتاوی۱۳/۱۸۵)
اسی لیے جہمیہ کے عقیدے نے حلول کی بنیاد رکھی جو کہ اللہ رب العالمین کے ساتھ صریح کفر ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جہمیہ کے جمہور عبادت گزارصوفیا حلول کے عقیدے کا اظہار کرتے تھے۔۔۔۔اس لیے اللہ کی صفات کی نفی کرنے والے جہمیہ شرک کی ایک قسم میں داخل ہیں۔ہر معطل(صفات کا انکار کرنے والا)مشرک ہوتا ہے جبکہ ہر مشرک کامعطل ہونا ضروری نہیں ہے۔جہمیہ کا عقیدہ تعطیل کا لازم کرتا ہے‘‘(درءالتعارض۱۰/۲۸۹۔۲۸۸)
سلام بن ابی مطیع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:جہمیہ کفار ہیں۔یزید بن ہارون رحمہ اللہ کہتے ہیں جہمیہ کفار ہیں(الرد علی الجہمیۃ:111)
البتہ وہ لوگ جو جہمی عقائد سے متاثر تو ہیں مگر غالی نہیں،ملت اسلام سے خارج نہیں ہیں بلکہ ان کا شمار۷۲گروہوں میں ہوتا ہے۔
چنانچہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’امام احمد نے جہمیہ کے (تمام)اعیان کو کافر نہیں کہا،نہ ہر اس شخص کو کافر کہا کہ جس نے یہ کہا کہ وہ جہمی ہے نہ اسے کہ جس نے بعض بدعات میں ان کی موافقت کی،بلکہ آپ نے(قرآن کو مخلوق کہنے والے)اُن جہمیہ کے پیچھے نماز پڑھی جو اپنی بدعت کی طرف بلانے والے،اس پر لوگوں کا امتحان لینے والے اور جو ان کی موافقت نہ کرےاس کو سخت سزائیں پہنچانے والے تھے،آپ ان کو مومن مانتےاوران کی امارت تسلیم کرتےاوران کے لیے دعا کرتے تھے(مجموع الفتاوی:۷/۵۰۸۔۵۰۷)
معتزلہ نے ان کی ہمنوائی کرتے ہوئے صرف صفت کلام کی نفی کی اور قرآن مجید کو مخلوق کہا
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
اشاعرہ
اشاعرہ کے عمومی طور پر وہی عقائد ہیں جو اہل سنت والجماعت کے عقائد ہیں البتہ کئی ایک امور میں وہ اہل سنت سے الگ ہوئے ہیں:
کتاب و سنت کو علم الکلام کے قواعد کی بنیاد پر پرکھتے ہیں۔
خبرآحاد کو عقیدہ میں حجت نہیں مانتے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات خبریہ کی تاویل کرتے ہیں
مسئلہ ایمان میں اعمال کو ایمان سے خارج کیا
اللہ تعالیٰ کے علو کا انکار۔۔۔۔جہمیہ اور اشعریہ کے درمیان فرق
نمبر1:
جہمیہ اللہ تعالیٰ کی صفت علوّ(بلند ہونا)کو تسلیم نہیں کرتے اور بعض سلف نے اسی سبب سے ان کے کفر کی تصریح کی ہے اور اشاعرہ نے بھی اس صفت میں غلطی کھائی،لیکن ان دونوں کی غلطی میں بنیادی فرق ہے۔
(الف):
جہمیہ کا انکار تعطیل پر مبنی ہےجبکہ اشاعرہ کا انکار تاویل کے ساتھ ہے۔
اشاعرہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو تسلیم کرتے ہیں البتہ بعض صفات کی وہ تاویل کرتے ہیں۔تاویل کا معنی علماء نے یوں بیان کیا ہے:
((صرف اللفظ عن ظاھرہ))(شرح عقیدۃ الواسطیہ لا بن عثیمین)
’’لفظ کو اس کے ظاہری معنوں سے کسی اور معنی کی طرف پھیر دینا‘‘
جس طرح اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تاویل کرنا
اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى(سورۃ طہ:۵)
یہاں’’استویٰ کا عربی زبان میں معنی’’بلند ہونے‘‘اور’’قرارپکڑنے‘‘کے ہیں۔لہذا اگر کوئی استویٰ کا معنی بلند ہونے کی بجائے’’استولیٰ‘‘غالب ہوا کرتا ہے تواس کی یہ تاویل ہے اور مذموم ہے کیونکہ اس دوسرے معنی کے مرادلیے جانے پر کوئی شرعی یا لغوی دلیل دلالت نہیں کرتی۔
(ب)
جہمیہ حلول و اتحاد کی طرف گئے ہیں جبکہ اشاعرہ اس کے قائل نہیں۔
جہمیہ کہتے ہیں کہ اللہ عرش پر نہیں ہےبلکہ وہ ہر جگہ میں ہے،یہ عقیدہ حلول کی بنیاد ہےجبکہ اشاعرہ کا کہنا ہے کہ:اللہ تعالیٰ اس وقت موجود تھا جب کوئی مکان نہ تھا اور وہ اب بھی اسی حالت میں ہے جس حالت میں مکان کو پیدا کرنے سے پہلے تھا۔وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے جہت کا اثبات نہ کرنے کے یہ معنی نہیں کہ وہ ہر جگہ میں حلول کر گیا ہے،دوسرے لفظوں میں جہمیہ کی بدعت کفریہ اور اشاعرہ کی بدعت غیر کفریہ ہے۔
یہ تاویل اہل سنت کے بعض ائمہ نے بھی کی جیسے ابن حجر،امام شاطبی اور امام نووی رحمہم اللہ وغیرہ اہل علم نے نہ صرف ان کی اس بات پر تکفیر نہیں کی بلکہ ان ائمہ کو عذر دیتے ہوئے ان کو امامت کو تسلیم کیا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’یہ کہنا کہ ہمارا رب آسمان دنیا کی طرف اترتا ہے اس سے بعض لوگوں نے جہت کو ثابت کیا اور کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جہت بلندی والی ہےاوراس کا جمہور نے انکار کیا ہے اس لیے کی جہت کے اثبات سےلازم آئے گاکہ اللہ تعالیٰ کو کسی نہ کسی جگہ نے گھیرا ہو ہے‘‘(فتح الباری:3/30)
جیسا کی ابن بطال کہتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نہ تو خود جسم ہےاورنہ کسی جگہ کا محتاج ہےکہ جس میں وہ اتر سکےاورقرارپکڑ سکے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس وقت بھی موجود تھا جبکہ کوئی جگہ نہ تھی اور اب بھی وہ اسی حالت پر ہی ہے۔پھر اللہ تعالیٰ نے مکان(جگہوں)کو پیدا کیا لہذا یہ بات محال ہےکہ وہ مکان کو پیدا کرنے سے پہلے تو اس سے بے نیاز تھا بعد میں اس کا محتاج ہو گیا،یہ ناممکن ہے(شرح صحیح بخاری لابن بطال:۱۰/۴۵۳)
امام شاطبی کتاب الا عتصام میں کہتے ہیں:
اللہ کے اعضاء(مثلاًآنکھ،ہاتھ،قدم،چہرہ،محسوسات،جہت وغیرہ جیسی حادث چیزیں جو مخلوقات کے لیے ہوتی ہیں)کو ثابت کرنا ظاہریوں کا مذہب ہے(اور اللہ نقائص سے پاک ہے)(الاعتصام:۱/۳۰۵)
یہ کلام اس اعتبار سے درست ہےکہ بے شک اللہ تعالیٰ کو مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں گھیر سکتی بلکہ وہ ہر چیز پر محیط ہے اور اس سے اوپر ہے لیکن اشاعرہ اور ان کے موافقین کی خطا کا سبب یہ ہےکہ وہ سمجھنے لگےکہ اللہ تعالیٰ اپنے لیے جو صفت علوّ(بلندی)ثابت کرتے ہیں،اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ مخلوق جہات میں سے کسی جہت میں گھراہوا ہے۔چنانچہ انہوں نے صفت علوّ کو اپنے حقیقی معنی سے پھیر دیا،ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے گمان کے مطابق تعارض کو دور کررہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے نصوص کے درمیان تطبیق دی ہے حالانکہ اسی دوران وہ ایک زبردست غلطی میں بھی واقع ہوگئے یعنی ایسی چیز کی تاویل کر بیٹھے جس میں تاویل کرنا سنت رسولﷺسے ثابت نہیں۔
قرآن و حدیث کی صریح نصوص میں بار بار ایسی باتیں آئی ہیں جس نے صفت علوّ ثابت ہوتی ہےاور یہ ثبوت ایسا ہےکہ تاویل یا تشکیک کی گنجائش نہیں رہتی۔
چنانچہ اس حالت میں ہمارا فریضہ یہ ہےکہ ہم اللہ کے لیے ایمان وتسلیم کے ساتھ وہ چیز ثابت کریں جو اللہ تعالیٰ نے بذات خود اپنے نفس کے لیے ثابت کی ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوقات کا محتاج نہیں۔
اشاعرہ کے گمان کے مطابق صفت علوّ کے اثبات سےاللہ کی ہستی کی تحدید،تجسیم اور اس کا جگہ گھیرنا لازم آتا ہے،چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ کو جہتوں اور جگہوں کے گھیرنے سے پاک قرار دینا چاہتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ علوّ کے وصف کا مطلب یہ ہے کہ کسی جہت نے اللہ تعالیٰ کوگھیرا ہوا ہے۔چنانچہ جو اللہ کی صفت علوّ کو ثابت کرے وہ اس کو فرقہ مجسمہ یا مشبہہ میں سےقرار دیتے ہیں۔
چنانچہ ان کے انکار کی وجہ یہ کوشش تھی کہ اللہ تعالیٰ کو عیبوں سے پاک قرار دیا جائے اور یہی سبب ہے جس کی وجہ سے انہوں نے بعض دیگر صفتوں کا بھی انکار کیا۔وہ اپنی اس غلطی میں اس لیے واقع ہوئے کہ وہ گمان کرتے تھے کہ
اللہ کا فرمان(لیس کمثلہ شیء)تقاضا کرتا ہےکہ ہم اللہ سے ہر اس صفت کی نفی کریں جو مخلوق کے لیے ثابت ہےاگرچہ اس کی نفی قرآن و حدیث سے صراحتاً ثابت نہ بھی ہواوراسکے وہ معنی بیان کریں جن سے تشبیہ لازم نہ آتی ہو۔

اشاعرہ نے جیسے استواء،ید،عین،رجل وغیرہ جیسی صفات میں تاویل کی ہےویسے ہی وہ صفت علوّ میں تاویل کرتے ہیں۔
مثلاً وہ اللہ کے قول(أأمنتم من فی السماء)کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ فرشتہ ہے جس کی ذمہ داری عذاب دینا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہےکہ اشاعرہ کا صفت علوّ کی نفی کرنا جہمیہ کی نفی سے مختلف ہے۔چنانچہ ضروری ہے کہ حکم لگانے میں بھی فرق کیا جائے
یہی وجہ ہے کہ اشاعرہ کی ان تاویلات کے باوجود علمائے امت نے ان کی تکفیر نہیں کی البتہ اس مسئلہ میں انہیں اہل سنت سے خارج قرار دیا ہے۔
اگر صفت علوّ میں تاویل کی وجہ سے اشاعرہ کی تکفیر جائز ہوتی تو تما م دیگر صفات کی تاویل پر بھی تکفیر جائز ہوتی کیونکہ ان میں کوئی فرق نہیں،علماءکرام ہمیشہ اشاعرہ پرصفات کی تاویل کے مسئلے میں رد کرتے آئے ہیں اور صفات کی اثبات اور ان پر ایمان کے وجوب پر دلائل دیتے رہے ہیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی ان کی تکفیر ذکر نہیں کی بلکہ
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تو اشاعرہ کے بارے میں یہاں تک فرماتے ہیں:
لیسوا کفارا باتفاق المسلمین(مجموع الفتاوی:۳۵/۱۰۱)’’تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ کافر نہیں ہیں‘‘

اسماء و صفات میں ہر گمراہی اورغلطی سے انسان کافر نہیں ہوتا
اسی بات کو امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں:
قد یغلظ فی بعض الصفات قوم من المسلمین فلا یکفرون بذلک
’’مسلمانوں میں سے بعض گروہ بعض صفات باری تعالیٰ میں غلطی کا شکار ہوتے ہیں،وہ اس غلطی کی وجہ سے کافر قرار نہیں پاتے‘‘(فتح الباری:6/604)
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اشاعرہ کی صفت علوّ کے انکار میں بہت سارے فاضل علماء نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔جیسے حافظ ابن حجر،امام نووی وغیرہ۔اہل علم نے صرف ان کی اس بات پر تکفیر نہیں کی بلکہ ان ائمہ کو عذر دیتے ہوئے ان کی امامت کو تسلیم کیا ہے۔
اہل بدعت اور معاصر اسلامی تحریکوں سے تعامل،از ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ
 
Top