• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل سنت کا منہج تعامل

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قطع تعلقی میں داعی بدعتی اور غیر داعی بدعتی میں فرق
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[جو شخص مسلمانوں کو اللہ کے دین کی اقامت سے نہیں روکتا اس کے کفر کی زد بھی دوسروں پر نہیں پڑتی بلکہ اپنی حد تک ہی رہتی ہے (وہ سزا کا مستحق نہیں ہوتا)۔ فقہاء اسلام نے اس لئے کہا ہے کہ خلاف کتاب و سنت بدعات کا داعی و مبلغ ایسی سزا کا حق دار ہے جس کا مستوجب ایک خاموش رہنے والا (بدعتی) نہیں ہوتا] (مجموع الفتاویٰ،ج ۲۸ص ۳۵۵)
’’شریعت کا نہایت قیمتی اصول ہے جسے توجہ دینی چاہیے: جس کسی کے گناہ سے دوسروں کے دین یا دنیا کو نقصان پہنچتا ہو اسے دنیا میں سخت سزا دی جائے گی اور جس کا گناہ اُسی کی حد تک رہتا ہے یعنی اس کا نقصان اسی کی اپنی ذات کو ہوتا ہے، اُسے دنیا میں سزا نہیں دی جائے گی اگرچہ آخرت میں اس کی سزا پہلے والے سے زیادہ شدید ہو سکتی ہے۔ جیسے منافق کو دنیا میں مسلمانوں والے حقوق حاصل ہوتے ہیں جبکہ آخرت میں وہ جہنم کے آخری گڑھے میں ہو گا۔ دوسری طرف وہ شخص جو بدعت کا داعی ہے ممکن ہے وہ اجتہاد یا تقلید کی وجہ سے معذور ہو مگر چونکہ اس سے لوگوں کو نقصان ہوتا ہے اس لیے اُسے سزا دی جائے گی۔ داعی الی البدعۃ اور خاموشی اختیار کرنے والے کے مابین فرق کی یہی بنیاد ہے۔‘‘ (فتاویٰ ابن تیمیہ :۳۷۷ ۔ ۳۷۳)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[اگر کوئی شخص نمازیں چھوڑ لیتا ہو یا منکرات کا ارتکاب کرتا ہو اور آدمی دیکھے کہ اس کے ساتھ کوئی ایسا شخص اٹھتا بیٹھتا اور صحبت رکھتا ہے جس کی اپنی دینداری بھی اس کی وجہ سے خراب ہو سکتی ہو تو اس کے سامنے اس کا حال بیان کرنا چاہیے تاکہ وہ اس کی صحبت چھوڑ دے اور اگر وہ شخص بدعتی ہو اور خلاف کتاب و سنت عقائد کا پرچار بھی کرتا ہو یا خلاف کتاب و سنت راستے یا طریقے پر گامزن ہو، اور آدمی کو اندیشہ ہو کہ وہ شخص اس طرح سے لوگوں کو گمراہ کرے گا، تو لوگوں کے سامنے اس کی حقیقت بیان کرنی چاہیے تاکہ وہ اسکی گمراہی سے بچے رہیں اور حقیقت حال سے آگاہ رہیں۔] (مجموع الفتاویٰ، جلد ۲۸ ص ۲۲۱)
أن یکون الرجل مظھرً اللفجور، مثل الظلم والفواحش والبدع المخالفۃ للسنۃ، فاذا أظھر المنکر وجب الانکار علیہ بحسب القدرہ۔۔۔وأن یھجر ویذم علیٰ ذلک۔۔بخلاف من کان مستترًا بذنبہ متسخفیاً، فان ھذا یستر علیہ، لکن ینصح سرًّا۔ ویھجرہ من عرف حالہ لیتوب، ویذکر أمرہ علیٰ وجہ النصیحۃ (مجموع الفتاویٰ ج۲۸ ص۲۱۹-۲۲۰)
[اگر آدمی ظاہراً ایسے منکرات کا ارتکاب کرے تو حسب قدرت اس کا رد و انکار واجب ہے…اس سے کنارہ کشی و روگردانی بھی کرنی چاہیے اور مذمت بھی …جبکہ گناہ کو چھپانے اور خفیہ انداز سے کرنے والے کی صورتحال اس سے برعکس ہو گی۔ ایسے شخص کی پردہ پوشی فرض ہے، تاہم نصیحت اسے بھی کی جائے گی بلکہ جب اس کا حال معلوم ہو جائے تو اس سے ہجر یعنی علیحدگی کی جا سکتی ہے تاکہ توبہ کر لے اور برسبیل نصیحت اس کا ذکر بھی جائز ہے۔]
فأما من کان مسترًا بمعصیۃ او مسرًّ البدعۃ غیر مکفرۃ، فان ھذا لا یھجر، وانما یھجر الداعي الی البدعۃ، اذ الھجر نوع من العقوبۃ، وانما یعاقب من أظھر المعصیۃ قولًا أو عملًا۔
وأما من أظھر لنا خیرًا فانا نقبل علانیتہ ونکل سریرتہ الی اللہ تعالٰی فان غایتہ أن یکون بمنزلۃ المنافقین الذین کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم یقبل علانیتھم، ویکل سرائرھم الیٰ اللہ۔۔ ولھذا کان الامام أحمد وأکثر من قبلہ وبعدہ من الأئمۃ کمالک وغیرہ لا یقبلون روایۃ الداعي الیٰ بدعۃ، ولا یجالسونہ، بخلاف الساکت، وقد أخرج أصحاب ’’الصحیح‘‘ عن جماعات ممن رمي ببدعۃ من الساکتین، ولم یخُرِّجواعن الدعاۃ الی البدع۔ (مجموع الفتاویٰ،ج۲۴ص ۱۷۵)
[تاہم وہ شخص جو ایک معصیت خفیہ کرتا ہے یا کسی بدعت غیر مکفرہ (جس سے آدمی کافر نہیں ہوتا) کو چھپائے رکھتا ہے تو ایسے شخص سے ہجر (کنارہ کشی اور دوری) اختیار نہیں کی جائے گی بلکہ اس کا مستوجب صرف داعی بدعت ہوا کرتا ہے۔ کیونکہ ہجر ایک قسم کی سزا ہے اور سزا صرف اس شخص کو دی جاتی ہے جو قولی یا فعلی لحاظ سے معصیت ظاہر کرتا ہے۔ رہا وہ شخص جو ہمارے سامنے خیر ظاہر کرتا ہے تو ہم ظاہر پر ہی اس سے معاملہ کریں گے اور اس کے پوشیدہ امور اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں گے، کیونکہ زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ منافقین کے درجے میں ہو جن کے ظاہر کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبول کیا کرتے تھے اور اندر کی باتیں اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا کرتے تھے …
یہی وجہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ داعی بدعت کی نہ روایت قبول کیا کرتے تھے اور نہ ہی ہم نشینی پسند کیا کرتے تھے، بخلاف ایسے شخص کے جو خاموش رہتا ہے۔ حدیث کے أئمہ نے بہت سے ایسے لوگوں سے روایت کی ہے جن پر بدعت کا الزام لگا ہے مگر وہ خاموش انداز سے اس کے قائل ہوتے تھے جبکہ داعیان بدعت سے روایت قبول نہیں کی۔

اہل بدعات کی بدعت پر رد کرنا
اہلسنّت والجماعت کے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اہل بدعت کی گمراہی کو واضح کر کے بیان کیا جائے، امت کو ان سے خبردار کیا جائے، مذہب سنت کو غالب اور ظاہر کیا جائے، اور مسلمانوں کو اس کی تعلیم و تبلیغ کی جائے، بدعات کو مٹایا جائے اور ان کے حاملین کے بغی و عدوان سے بچا اور بچایا جائے، مگر یہ سب کچھ عدل و انصاف کے ترازو کے پابند رہتے ہوئے اور کتاب و سنت کی نصوص کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ (آل عمران:۱۰۴)
’’اور تم میں ایک گروہ ہونا چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے یہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص تم میں سے کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے۔ اگر (ہاتھ سے روکنے کی) طاقت نہ ہو تو زبان سے (اس کی برائی واضح کرے) اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے (برا جانے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ (مسلم۔ح۔۴۹)
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسلام جس طرح اجنبی حالت میں شروع ہوا تھا اسی طرح اجنبی حالت میں لوٹ جائے گا۔ اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہو۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول یہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب لوگوں میں فساد برپا ہو گا تو وہ ان کی اصلاح کریں گے۔‘‘ (سلسلہ صحیحہ للالبانی:1273)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جو نبی بھیجے۔ اس کے حواری اور ساتھی ہوتے تھے جو اس کے حکم کی پیروی اور اس کی سنت پر عمل کرتے پھر ایسے ناخلف پیدا ہوئے جو ایسی بات کہتے جو وہ کرتے نہیں تھے اور وہ کام کرتے جس کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا۔ پس جو شخص ان سے ہاتھ سے جہاد کرے گا وہ مومن ہے۔ جو شخص ان سے زبان سے جہاد کرے گا وہ مومن ہے۔ جو شخص ان سے دل سے جہاد کرے گا وہ مومن ہے۔ اور اس کے علاوہ رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں۔" (مسلم:۵۰)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ومثل أئمۃ البدع من اھل المقالات المخالفۃ للکتاب والسنۃ، أوالعبادات المخالفۃ للکتاب والسنۃ، فان بیان حالھم وتحذیر الأُمۃ منھم واجب باتفاق المسلمین……حتیٰ قیل لأحمد بن حنبل: الرجل یصوم ویصلیی ویعتکف أحبٌّ الیک، أو یتکلم في أھل البدع؟ فقال: اذا قام وصلیٰ واعتکف فانما ھو لنفسہ، واذا تکلم في أھل البدع فانما ھو للمسلین، ھذا أفضل۔
فبین أن نفع ھذا عام للمسلیمن في دینھم، من جنس الجھاد في سبیل اللہ اذتطھیر سبیل اللہ ودینہ ومنھاجہ وشرعتہ ودفع بغي ھؤلاء وعدوانھم علیٰ ذلک واجب علیٰ الکفایۃ باتفاق المسلمین، ولولا من یقیمہ اللہ لدفع ضرر ھؤلاء لفسد الدین، وکان فسادہ أعظم من فساد استیلاء العدو من أھل الحرب، فان ھؤلاء اذا استولوا لم یفسدو القلوب ومافیھا من الدین الا تبعًا ،،وأما أولئک فھم یفسدون القلوب ابتداء‘‘
[خلاف کتاب و سنت عقائد یا عبادات کے حاملین ائمہ بدعات کے متعلق یہی ہے کہ ان کے بارے میں لوگوں کو آگاہ اور خبردار کرنا واجب ہے اور اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے حتیٰ کہ جب امام احمد سے دریافت کیا گیا کہ ایک آدمی نماز روزہ اور اعتکاف بکثرت کرتا ہے دوسرا اہل بدعات کا رد کرتا ہے، آپ کے نزدیک کون سا بہتر ہے؟ تو کہنے لگے: ’’اگر کوئی شخص نماز، روزہ اور اعتکاف کرتا ہے تو وہ اس کے اپنے لئے ہے اور اگر اہل بدعات کا رد کرتا ہے تو یہ مسلمانوں کے لئے ہے اور یہی افضل ہے‘‘۔ امام صاحب نے یہاں یہ بات واضح کی ہے کہ موخر الذکر کا نفع و فائدہ تمام مسلمانوں کے لئے ان کے دین کی خاطر ہے جو کہ جہاد کے زمرے میں آتا ہے۔ مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ اللہ کے دین اور منہج و شریعت کو پاک کرنا اور اس پر یہ لوگ جس ظلم و عدوان کے مرتکب ہوتے ہیں اس کا رد کرنا فرض کفایہ ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ اہل بدعت کے پھیلائے ہوئے ضرر اور شر کو رد کرنے کے لئے علمائے حقہ کو کھڑا نہ کرتا تو آج دین برباد ہو چکا ہوتا، اور دین کا فساد اہل حرب جیسے دشمن کے غلبے کے فساد سے کہیں بڑا ہوتا ہے کیونکہ یہ اہل حرب لوگ اگر غلبہ حاصل کر لیں تو دلوں میں فساد پیدا نہیں کریں گے، الا یہ کہ شکست کے نتیجے میں بعد میں ایسا ہو، لیکن اہل بدعت کے فساد کی بنیاد اور ابتداء دلوں سے ہوتی ہے‘‘۔ (مجموع الفتاویٰ، ج ۲۸ ص۲۳۱-۲۳۲)

رد کرنے میں حکمت اختیار کرنا:
حق کا اظہار اور باطل بات کا رد انتہائی ضروری ہے۔ مگر اس میں حکمت کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب ایک غلط بات کو سنا تو فوراً حج کے موقع پر منیٰ کے مقام پر رد کرنا چاہا لیکن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ اس کا رد مدینہ جا کر ہونا چاہیے، تاکہ سمجھدار لوگ بات کو صحیح طور پر سمجھ سکیں تو انہوں نے قبول کیا۔ ملاحظہ فرمائیں:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آخری حج کیا تو ایک آدمی نے کہا کہ اگر امیر المومنین انتقال کر جائیں تو ہم فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لیں گے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آج شام کو کھڑے ہو کر لوگوں کو ڈرائوں گا جو مسلمانوں کے حق کو غضب کرنا چاہتے ہیں۔ سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا آپ ایسا نہ کریں اس لیے کہ حج کا موسم ہے۔ آپ کی مجلس میں زیادہ تر عام لوگ ہوں گے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ لوگ اس کو سن کر صحیح مقام پر نہیں رکھیں گے اور ہر طرف لے اڑئیں گے اس لیے آپ انتظار کریں دار الہجرۃ، دار السنۃ یعنی مدینہ پہنچ کر صرف اصحاب رسول مہاجرین و انصار کو جمع کریں۔ وہ لوگ آپ کی گفتگو کو یاد رکھیں گے اور صحیح مقام پر رکھیں گے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "اللہ کی قسم میں مدینہ پہنچتے ہی سب سے پہلے یہی کہوں گا۔" (بخاری:۷۳۲۳)
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں ایک بدعت ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور انہیں اس سے منع کرنے کی بجائے عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی طرف جاتے ہیں۔ گھر کے باہر بیٹھ کر ان کا انتظار کرتے ہیں۔ جب وہ باہر آتے ہیں تو انہیں بتا کر ان سے رد کرواتے ہیں تاکہ بڑے عالم کے رد سے بدعت کے رد میں زور پیدا ہو۔ ملاحظہ فرمائیں:
عمر بن یحییٰ کے دادا فرماتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے پر صبح کی نماز سے پہلے بیٹھتے تھے، جب آپ باہر آتے تو ہم آپ کے ساتھ مسجد کی طرف جاتے۔ ہمارے پاس ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے کہا: ’’ابو عبدالرحمن (ابن مسعود) ابھی باہر نہیں آئے؟‘‘ ہم نے کہا: ’’نہیں۔‘‘ پھر وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ حتی کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر آئے۔ جب وہ باہر آئے تو ہم سب ان کی طرف کھڑے ہوئے، ان سے ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اے ابو عبدالرحمن! میں نے مسجد میں ابھی ایک کام دیکھا ہے، وہ مجھے برا معلوم ہوا ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’وہ کیا ہے؟‘‘ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اگر آپ زندہ رہے تو اسے دیکھ لیں گے۔ میں نے ایک جماعت کو حلقوں کی شکل میں مسجد میں بیٹھے ہوئے دیکھا۔ وہ نماز کا انتظار کر رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں۔ ہر حلقہ میں ایک آدمی ہے جو کہتا ہے: سو بار ’’لا الہ الا اللہ‘‘ پڑھو تو وہ سو بار "لا الہ الا اللہ" پڑھتے ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے: سو بار ’’سبحان اللہ‘‘ کہو تو وہ سو بار ’’سبحان اللہ‘‘ کہتے ہیں۔‘‘ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’پھر تو نے ان سے کیا کہا؟‘‘ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’میں نے آپ کی رائے کا انتظار کرتے ہوئے، ان سے کچھ نہیں کہا؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’کیا تم نے انہیں حکم نہیں دیا کہ وہ اپنی برائیوں کو شمار کریں؟‘‘ اور ان کو ضمانت دینا تھی اس طرح سے گننے سے ان کی نیکیاں ضائع ہوں گی۔‘‘ پھر وہ چلے اور ہم بھی آپ کے ساتھ چلے۔ حتی کہ آپ ان حلقوں میں سے ایک کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا: ’’یہ کیا ہے، جو میں تمہیں کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’اے ابو عبداللہ! ہم ان کنکریوں کے ساتھ اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ کو شمار کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’اپنی برائیوں کو شمار کرو۔ میں ضامن ہوں کہ نہ گننے سے تمہاری نیکیوں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہو گی۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت! تم پر افسوس ہے کہ تم کتنی جلدی ہلاک ہو رہے ہو۔ یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کثرت سے موجود ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور ان کے برتن ابھی نہیں ٹوٹے۔ مجھے اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یا تو تم ایسے (بدعت والے) طریقے پر ہو جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ سے زیادہ ہدایت ہے یا تم نے گمراہی کا دروازہ کھولا ہوا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’اے ابو عبدالرحمن! اللہ کی قسم! ہم نے تو صرف بھلائی کا ارادہ کیا تھا۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’بہت سے لوگ نیکی کا ارادہ کرتے ہیں مگر انہیں نیکی حاصل نہیں ہوتی۔ (سنن دارمی:۲۱۰)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اہل بدعت سے مناظرہ کرنا
شیخ خالد بن أحمد الزہرانی فرماتے ہیں:
اہل بدعت سے مناظرہ کرنے کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ ممدوح
۲۔ مذموم

۱۔ ممدوح مناظرہ:
ارشاد ربانی ہے:
﴿اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ﴾ (النحل:۱۲۵)
"اے نبی! آپ لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے ایسے طریقہ سے مباحثہ کیجئے جو بہترین ہو۔"
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے مناظرے ذکر فرمائے ہیں جیسے ابراہیم علیہ السلام کا اپنی قوم اور نمرود سے مناظرہ، موسیٰ علیہ السلام کا فرعون سے مناظرہ۔
سلف میں سے بعض کا قول ہے:
ناظروا القدریۃ بالعلم، فان أقرو بہ خصموا، وان جحدوا فقد کفروا (جامع العلوم والحکم :۱/۲۷)
’’قدریہ سے علم کے ساتھ مناظرہ کرو، اگر وہ اللہ کے علم کا اعتراف کریں گے تو ان سے بحث کی جائے گی اور اگر وہ علم الٰہی کا انکار کریں گے تو کفر کریں گے۔‘‘
اسی لیے صحابہ کرام نے گمراہ فرقوں میں سے بعض کے ساتھ مناظرہ کیا۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا خوارج سے مناظرہ کرنا۔

۲۔ مذموم مناظرہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(أبغض الرجال الی اللہ الألد الخصم) (بخاری:۲۴۵۷، مسلم:۲۶۶۸)
’’اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ آدمی وہ ہے جو سخت جھگڑنے والا ہو۔‘‘
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی قوم ہدایت پانے کے بعد اس وقت تک گمراہ نہیں ہوتی جب تک اس میں جھگڑا نہیں شروع ہو جاتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی :
﴿وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ ۚ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ﴾ (زخرف:۵۸)
’’(اور کہنے لگے) کیا ہمارے ’’الہ‘‘ اچھے ہیں یا وہ (عیسیٰ)؟ وہ آپ کے سامنے یہ مثال سراسر کج بحثی کی خاطر لائے ہیں۔ بلکہ یہ ہیں ہی جھگڑالو‘‘ (ترمذی :۳۲۵۳)
عبدالرحمن بن أبی زناد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ادرکنا أھل الفضل والفقہ من خیار أولیۃ الناس یعیبون أھل الجدل والتنقیب و الاخذ بالرأي أشد العیب، و ینھونا عن لقائھم و مجالستھم وحذرونا مقاربتھم أشد التحذیر‘‘ (الابانۃ الکبریٰ:۲/۵۳۲)
’’ہم نے بہترین لوگوں میں سے اہل فضل و فقہ کو دیکھا کہ وہ جھگڑالو، بہت زیادہ کرید کرنے والوں اور اپنی رائے اختیار کرنے والوں کو سخت معیوب سمجھتے تھے اور ہمیں ایسے لوگوں سے ملنے جلنے سے اور ان کی قربت اختیار کرنے سے سختی سے منع کرتے تھے۔‘‘
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فر ماتے ہیں:
’’أصول السنۃ عندنا: التمسک بما کان علیہ أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والاقتداء بھم، وترک البدع، وکل بدعۃ فھي ضلالۃ، ترک الخصومات، والجلوس مع أصحاب الأھواء، وترک المراء والجدل والخصومات في الدین‘‘ (شرح اصول اعتقاد السنۃ:۱/۱۵۶)
’’ہمارے نزدیک سنت کے اصول یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے مسلک کے ساتھ تمسک رکھا جائے ان کی اقتدا اور پیروی کی جائے اور بدعات کو چھوڑ دیا جائے کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے، خواہش پرست اور بدعتی لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھا جائے، دین میں جھگڑوں کو ترک کیا جائے اور بحث و مناظروں سے پرہیز کیا جائے۔‘‘

مناظرے کی شرائط اور مقاصد
۱۔ مخالفین کو حق کی دعوت دینا اور ان کے سامنے انکی بدعت کا بطلان ثابت کرنا۔
۲۔ دین کی حفاظت کرنا، مخالفین کی تحریفات اور تاویلات کی حقیقت کھولنا ۔
۳۔ عام لوگوں کو بدعت میں واقع ہونے سے بچانا۔ اہل بدعت کے شبہات کا ازالہ کرنا
۴۔ مخالفین کی حقیقت لوگوں کے سامنے کھولنا تاکہ لوگ ان کے شر سے بچ جائیں۔
۵۔ لوگوں کو کلمہ توحید پر جمع کرنا۔ ایسا تبھی ممکن ہے جب دین میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کا رد کیا جائے۔
جب مناظرے سے یہ مقاصد پورے ہوتے ہوں تو یہ مناظرہ شرعی کہلائے گا اور اگر یہ مقاصد نہ پائے گئے تو مناظرہ مذموم کہلائے گا۔
مناظرے کے اصول و ضوابط
علم کی بنیاد پر مناظرہ کرنا: مناظرہ کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مخالفین کے ساتھ علم کی اساس پر مناظرہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر علم کے جدال کرنے والوں کی مذمت فرمائی ہے:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّيَتَّبِـعُ كُلَّ شَيْطٰنٍ مَّرِيْدٍ﴾ (الحج:۳)
’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے بارے میں علم کے بغیر بحث کرتے اور ہر سرکش شیطان کی اتباع کرنے لگتے ہیں ۔‘‘
﴿هَا أَنتُمْ هَـٰؤُلَاءِ حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (آل عمران:۶۶)
’’تم وہ لوگ ہو جو ان باتوں میں جھگڑا کرتے ہو جن کا تمہیں کچھ علم ہے مگر ایسی باتوں میں کیوں جھگڑتے ہو جن کا تمہیں کچھ علم ہی نہیں۔‘‘
ابو فروخ رحمہ اللہ نے مالک بن انس رحمہ اللہ کو لکھا: ہمارے علاقے میں بدعات کی بھر مار ہے۔ میں نے بدعتیوں کا رد کرتے ہوئے کچھ لکھا ہے۔ امام مالک نے انہیں جواب دیا:
’’لا یرد علیھم الا من کان ضابطاً عارفاً بما یقول لھم، لا یقدرون أن یعرجوا علیہ، فھذا لا بأس بہ، وأما غیر ذلک، فاني أخاف أن یکلمھم فیخطیٔ فیمضوا علی خطئہ، أو یظفروا و یزدادو اتما دیاً علی ذلک‘‘ (الاعتصام للشاطبی)
’’ان پر رد وہی شخص کرے جو پورے ضبط کے ساتھ ان باتوں کو جانتا ہو جو ان گمراہوں کو کہنا چاہیے تاکہ وہ اس پر غالب نہ آ سکیں، اس صورت میں کوئی حرج نہیں وگرنہ مجھے خدشہ ہے جب وہ ان سے بحث کرے گا تو اس میں خطاء کا شکار ہو گا پھر وہ اپنی خطاء پر قائم ہو جائے گا اس طرح یہ گمراہ لوگ کامیاب ہو جائیں گے اور سرکشی میں بڑھ جائیں گے۔‘‘

۲۔ مخالف کی ہدایت کی طمع کرنا:
ابن عون رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’سمعت محمد بن سیرین ینھي عن الجدال الا رجلًا ان کلمتہ طمعت في رجوعہ‘‘ (الاعتصام:۱/۴۴)
’’میں نے محمد بن سیرین کو سنا وہ مناظرہ کرنے سے منع کرتے تھے، سوائے اُس آدمی سے کہ جس سے جب مناظرہ کیا جائے تو مناظرہ کرنے والا اُس کے حق کی طرف رجوع کرنے کی طمع کرے۔ ‘‘
اگر مناظرہ معاند (ہٹ دھرمی کے ساتھ باطل پر اڑا رہنے والے) سے ہو جائے تب ایسی صورت میں مناظرہ کرنا درست ہے جب اُس سے دوسرے لوگوں کو فائدہ حاصل ہونے کا یقین ہو اور مناظرہ ترک کرنے سے اہل سنت کی بے عزتی کا خدشہ ہو۔ اس قسم کے مناظرے کا تصور سلف کے ہاں بھی ملتا ہے۔ حافظ امام ابو بکر احمد اسماعیلی رحمہ اللہ کے زمانے میں باطنی اسماعیلیوں میں سے ایک شخص نے حاکم وقت سے مناظرے کا مطالبہ کیا۔ امیر نے حافظ ابو بکر اسماعیلی رحمہ اللہ کو مناظرے کے لیے بھیجا۔ یہ مناظرہ ایک مجمع کے سامنے ہوا جس میں حافظ رحمہ اللہ نے اُس اسماعیلی کو عبرتناک شکست دی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الاعتصام:۱/۲۰۳،۲۰۲)

۳۔ مناظرہ کا اسلوب
مناظرے کا اسلوب آداب و اخلاق کے لحاظ سے مناسب ہونا چاہیے۔ مخالف کو اللہ سے ڈراتے ہوئے اُس پر احسن انداز میں حق واضح کرے تاکہ وہ اپنی غلطی سے رجوع کر لے۔
۴۔ مناظرہ کا مقصد حق کی نصرت
مناظرے کا مقصد حق تک پہنچنا اور حق کو اخلاص کے ساتھ بیان کرنا ہو۔ نہ کہ باطل کی نصرت اور حق کا انکار۔ جیسا کہ ہر کافر قوم کا وطیرہ رہا ہے
﴿وَجٰدَلُوْا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوْا بِہِ الْحَــقَّ﴾ (المؤمن:۵)
’’اور انہوں نے ناحق جھگڑا کیا تاکہ باطل سے حق کو شکست دے سکیں۔‘‘
اگر مناظرہ کا مقصد کج بحثی اور جھگڑا کرنا ہو تو یہ مشرکین کا طریقہ ہے
اسی طرح مناظرے کا مقصد اپنے علم و ذہانت کا اظہار کرنا، لوگوں کو اپنی صلاحیتوں سے متاثر کرنا، یا دنیا طلب کرنا نہ ہو یہ سب مذموم مناظرے کی شکلیں ہیں۔

۵۔ مناظرہ بدعت کی شان و شوکت کا باعث نہ ہو۔
مناظرے کی وجہ سے بدعت کی شان و شوکت میں اضافہ اور اسے اہمیت نہ ملتی ہو۔ امام لالکائی رحمہ اللہ مناظروں کا ایک نقصان یہ بیان کرتے ہیں کہ اس سے بدعتیوں کو اہمیت ملتی ہے اور لوگ انہیں حیثیت دیتے ہیں۔ (دعوۃ اھل البدع لشیخ خالد احمد الزہرانی)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اہل بدعت (غیر مکفرہ) کی اقتداء میں نماز کا حکم
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ﴾ (البقرۃ:۴۳)
’’اور نماز پابندی سے ادا کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘
اس لیے اہلسنّت کا شعار ہے کہ جب وہ مسلمانوں کے کسی بھی شہر یا علاقے میں ہوں وہاں جمعہ، جماعت اور عید کی نمازوں میں ان لوگوں کے ساتھ شرکت کرتے اور تعلق و موالات رکھتے ہیں جو اسلام اور ایمان کے دائرہ سے خارج نہیں کیے جا سکتے۔
فضیلہ الشیخ مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اہل علم کا تقریباً اس پر اتفاق ہے کہ فاسق اور اہل بدعت کو امام نہ بنایا جائے۔ اسی طرح اس پر بھی اتفاق ہے کہ فاسق کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔ لیکن اگر وہ امام بنا دئیے گئے ہوں یا بالجبر وہ امام بن گئے ہوں تو ان کے پیچھے نماز درست ہے، اس لیے کہ بدعت فسق ہے اور فاسق و فاجر کے پیچھے نماز جائز ہے۔ ((صلوا خلف کل برّ وفاجر)) کی روایت کے الفاظ ضعیف ہیں، جیسا کہ علامہ ابن جوزی نے العلل المتناھیۃ (ج۱،ص۴۲۱،۴۲۸) میں اس کے طرق نقل کر کے ان پر کلام کیا ہے اور امام احمد، امام دار قطنی اور امام عقیلی سے نقل کیا ہے کہ اس باب کی کوئی روایت ثابت نہیں۔ تاہم صحابہ کرام کا عمل اسی کے مطابق ہے۔ بلکہ ابن قدامہ اور علامہ شوکانی نے تو عصر اول میں اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (نیل الاوطار:ج۳ص۱۷۴)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ حجاج کا ظالم ہونے کے علاوہ اس کا ناصبی (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دینے والا) ہونا بھی کسی پر مخفی نہیں۔
امام بخاری نے التاریخ الکبیر اور امام بیہقی نے السنن الکبری (ج۳ص۱۲۲) میں عبدالکریم البکاء کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’ادرکت عشرۃ من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کلھم یصلی خلف ائمۃ الجور‘‘ میں نے دس صحابہ کرام کو دیکھا وہ سب ائمہ جور کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔
امام بخاری نے صحیح بخاری میں باب امامۃ المفتون والمبتدع قائم کیا اور اس میں امام حسن بصری کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ ’’صل وعلیہ بدعتہ‘‘ بدعتی کے پیچھے نماز پڑھو اس کی بدعت کا وبال اسی پر ہے۔ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف اقدام کرنے والے بلوائیوں سے بڑھ کر فتنہ پرداز اور کون ہو سکتا ہے مگر اس کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ ان کے پیچھے نماز پڑھی جائے تو انہوں نے اثبات میں اس کا جواب دیا اور فرمایا کہ ’’من دعا الیٰ الصلاۃ فاجیبوہ‘‘ جو نماز کی طرف بلاتا ہے اس کی بات کو تم قبول کرو اور صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: ’’الصلاۃ أحسن ما یعمل الناس فاذا أحسن الناس فأحسن معھم، واذا أساء و فاجتنب اساء تھم‘‘
’’لوگ جو اچھا عمل کرتے ہیں نماز ان میں سب سے اچھا عمل ہے۔ جب لوگ اچھا کام کریں تو تم ان کے ساتھ مل کر اچھا کام کرو اور جب کوئی برا کام کریں تو ان کے اس برے کام سے اجتناب کرو۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی یہ باب ذکر کرکے اشارہ کیا ہے کہ گناہ گار اور بدعتی کے پیچھے نماز جائز ہے اور اصول بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے کہ: ’’ان من صحت صلاتہ صحت امامتہ‘‘ جس کی اپنی نماز درست ہے اس کی امامت بھی درست ہے۔ فقہاء کے اختلافی مسائل میں بھی یہی اصول ہے اور فاسق و بدعتی کے بارے میں بھی یہی حکم ہے۔ حدیث نبوی میں امامت کی جو شروط بیان ہوئی ہیں ان میں ’’معصوم عن الخطا‘‘ کا ذکر بہر نوع نہیں۔
علامہ شوکانی نے اس موضوع پر مستقل رسالہ لکھا کہ امام کے لیے عدالت شرط نہیں۔ لیکن بدعتی اگر ایسی بدعت کا مرتکب ہے جو بدعت مکفرہ ہے تو اس کے پیچھے نماز قطعاً جائز نہیں۔ اما م احمد اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایسے امراء اور ائمہ مساجد کے جہل اور تاویل کے عذر کی بنا پر انہیں معذور سمجھتے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ملاحظہ ہو مجموع فتاویٰ ج۷ص۵۰۸۔
علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ اس مسئلہ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد خلاصۃ فرماتے ہیں:
’’حاصل مسئلہ یہ ہے کہ اہل بدعت و فسق وغیرہ کو امام بنانا مکروہ ہے، اور ان کی اقتداء مکروہ تنزیہی ہے۔ اگر ان کے علاوہ دوسروں کے پیچھے نماز ممکن ہو تو یہی افضل ہے، ورنہ ان کے پیچھے نماز پڑھنا اکیلے پڑھنے سے اولی ہے، اور مناسب یہی ہے کہ ان کی اقتداء کی کراہت تب ہے جب کوئی دوسرا امام موجود ہو، اگر ایسا نہیں تو مکروہ بھی نہیں، جیسا کہ اس میں کوئی ابہام نہیں۔‘‘(مقالات تربیت:ص۲۰۵)
٭سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ خارجیوں اور خَشَبیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے۔ (طبقات ابن سعد۱/۱۶۹،۱۷۰، حلیۃ الاولیاء ۱/۳۰۹ وسندہ صحیح )
آپ انہیں سلام بھی کہتے تھے۔ (السنن الکبری للبہقی ۳/۱۲۲، وسندہ صحیح )
٭حجاج بن یوسف کے بارے میں حافظ ذہبی نے کہا:
’’وکان ظلومًا جبارًا ناصبیًا خبیثًا…‘‘
اور وہ ظالم جبار(اور) ناصبی خبیث تھا۔ (سیر اعلام النبلاء ۴/۳۴۳)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ مشہور ظالم حجاج بن یوسف جیسے بدعتی کے پیچھے بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ (السنن الکبری للبہقی ۳/۱۲۱،۱۲۲،وسندہ حسن)
بدعت غیر مکفرہ ہو تو ایسے امام کی اقتداء میں ادا کی گئی نماز درست ہے۔ اس کے چند مزید دلائل ملاحظہ فرمائیں۔
امام کی غلطی اور خطا کاری سے مقتدیوں کی نماز فاسد نہیں ہوتی:
امام بخاری رحمہ اللہ یہ عنوان قائم کرتے ہیں:
’’باب اذا لم یتم الامام واتم من خلفہ۔‘‘
’’ جب امام نے نماز کو کامل طور پر ادا نہیں کیا اور مقتدیوں نے کامل طور پر ادا کیا۔ اور اس عنوان کے تحت یہ حدیث نقل کی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ’’اگر اماموں نے نماز اچھی طرح (ارکان کی تعدیل اور سنتوں کی رعایت کے ساتھ) پڑھائی تو تمہارے لیے بھی ثواب ہے اور ان کے لیے بھی ثواب ہے اور اگر نماز پڑھانے میں خطا کی (یعنی رکوع و سجود کی عدم طمانیت، اور قومے جلسے کے فقدان سے نماز پڑھائی) تو تمہارے (مقتدیوں) کے لیے ثواب ہے اور ان کے لیے وبال ہے۔‘‘ (صحیح بخاری:۶۹۴)
امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی امام بے وضو یا بحالت جنابت نماز پڑھا دیتا ہے تو مقتدیوں کی نماز صحیح اور امام پر نماز کا اعادہ ہے خواہ اس نے یہ فعل ارادتاً کیا ہو یا لا علمی کی بنا پر۔‘‘ (شرح السنۃ)
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیرا کیا حال ہو گا۔ جس وقت تجھ پر ایسے امام (حاکم) ہوں گے جو نماز میں دیر کریں گے یا اس کے وقت سے قضا کریں گے؟‘‘ میں نے کہا کہ آپ مجھے اس حال میں کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’نماز کو اس کے وقت پر پڑھ پھر اگر تو اس نماز (کی جماعت) کو ان کے ساتھ پالے تو (ان کے ساتھ) دوبارہ نماز پڑھ لے تحقیق یہ نماز تیرے لیے نفل ہو گی۔‘‘ (مسلم :۶۴۸)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں نماز کو اس کے وقت سے قضاء کرنے والے ائمہ کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دیا۔
٭امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہم صحابہ میں سے کسی کو نہیں جانتے کہ جو مختار، عبیداللہ بن زیاد، حجاج یا ان سے بڑے کسی فاسق کے پیچھے نماز ادا کرنے سے رکے ہوں۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ (المائدۃ :۲)
’’نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو، گناہ اور سرکشی کے کاموں میں تعاون نہ کیا کرو۔‘‘ (المحلی ،ج ۴،ص۳۰۲)
یہی موقف تابعین اور ان کے بعد آنے والے ائمہ کا ہے۔
٭کسی آدمی نے حسن بصری رحمہ اللہ سے سوال کیا:
’’خوارج میں سے ایک شخص ہماری امامت کرواتا ہے کیا ہم اس کے پیچھے نماز ادا کرلیا کریں؟ آپ نے جواب دیا: ہاں، لوگوں کو اس سے زیادہ شر والوں نے امامت کروائی ہے۔ (أصول السنۃ لابن ابی زمنین: ج:۳؛ص:۲۵۴)
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ کیا خوب فرماتے: ’’فلنا صدقہ وعلیہ بدعتہ‘‘ پس اس کی سچائی ہمارے لئے ہے اور اس کی بدعت اسی پر (وبال) ہے۔ (میزان الاعتدال ۱/۵ ترجمۃ ابان بن تغلب)
علامہ ابن العز رحمہ اللہ لکھتے ہیں: والفاسق والمبتدع صلاتہ فی نفسہا صحیحۃ فاذا صلی المأموم خلفہ لم تبطل صلاتہ‘‘
’’فاسق اور بدعتی کی نماز فی نفسہا صحیح ہے، اگر مقتدی اس کے پیچھے نماز پڑھے گا تو اس کی نماز باطل نہیں ہو گی۔‘‘ (شرح الطحاویہ، ص ۳۷۴ )
امام احمد بن جنبل رحمہ اللہ ’’جہمی‘‘ امراء و حکام کے پیچھے بھی نماز پڑھ لیتے تھے وہ فرماتے تھے کہ ہر جہمی کافر نہیں، یہ دراصل اپنی بے خبری اور جہالت کی بنا پر جہمیوں کے ہاتھ چڑھے ہوئے تھے، وہ درحقیقت جانتے نہ تھے کہ یہ عقیدہ کفر ہے۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ ج۳ص ۵۰۷،۵۰۸)
فضیلہ الشیخ محمد بن صالح العثمین رحمہ اللہ سے جب بدعتی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم پوچھا گیا تو آپ نے فتویٰ دیا:۔
اہل بدعت کی دو قسمیں ہیں۔
1۔ جن کی بدعتیں کفر تک پہنچانے والی ہیں۔
2۔ جن کی بدعتیں کفر تک پہنچانے والی نہیں ہیں۔
ان میں سے پہلی قسم کے اہل بدعت کے پیچھے نماز جائز نہیں کیونکہ وہ کافر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی نماز صحیح نہیں لہٰذا یہ بھی صحیح نہیں کہ وہ مسلمانوں کے امام بنیں۔ اور وہ اہل بدعت جن کی بدعتیں کفر تک نہیں پہنچاتیں تو ان کے پیچھے نماز کا حکم۔ علماء کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ اہل فسق کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں۔ راجح بات یہ ہے کہ اہل فسق کے پیچھے نماز جائز ہے سوائے اس صورت کے کہ ان کے پیچھے نماز ترک کرنے میں مصلحت ہو مثلا: نماز نہ پڑھنے کی صورت میں اگر ان کے لیے تنبیہ ہو اور اس طرح وہ اپنے فسق و فجور کو ختم کر سکتے ہوں تو پھر اس مصلحت کی وجہ سے بہتر یہ ہے کہ ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔ (فتاویٰ اسلامیہ جلد اوّل ص: ۳۸۹)
مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’علماء کے صحیح قول کے مطابق بدعتی، کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والے اور دیگر گناہگاروں کے پیچھے نماز صحیح ہے بشر طیکہ بدعت کفر تک پہنچانے والی نہ ہو اور اگر بدعت کفر تک پہنچانے والی ہو جیسے جہمیہ وغیرہ ایسے بدعتی ہیں جو اپنی کفریہ بدعات کے باعث دائرہ اسلام ہی سے خارج ہیں تو ان کے پیچھے نماز صحیح نہیں۔ لیکن ذمہ دار اصحاب پر یہ واجب ہے کہ امامت کے لیے ایسے لوگوں کو منتخب کریں جو بدعت اور فسق و فجور سے پاک ہوں اور اچھے سیرت و اخلاق کے مالک ہوں کیونکہ امامت ایک عظیم امانت ہے۔ امام مسلمانوں کا قائد ہوتا ہے لہذا اگر اچھے لوگوں کو امامت پر فائز کرنا ممکن ہو تو ایک بدعتی اور فاسق کو امام نہیں بنانا چاہیے۔ (فتاویٰ اسلامیہ جلد اوّل ص:۵۰۰)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:
بدعات پر عمل کرنے والے علاقے میں مقیم شخص کے متعلق کیا حکم ہے؟ اس شخص کا ان کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنا نماز جمعہ ادا کرنا درست ہے یا نہیں؟ یا اسے انفرادی طور پر اپنی نماز ادا کرنی چاہیے اور کیا اس سے نماز جمعہ ساقط ہو جائے گا؟
شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ہر نیک یا فاجر امام کے پیچھے نماز جمعہ ادا کرنا واجب ہے، اگر نماز جمعہ پڑھانے والے امام کی بدعت ایسی نہ ہو جو اسے اسلام سے خارج کر دے تو اس کے پیچھے نماز ادا کی جائے گی۔ امام ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ونری الصلاۃ خلف کل بر وفاجر من أھل القبلۃ ومن مات منھم‘‘ (عقیدۃ طحاویۃ)
’’ہم اہل قبلہ میں ہر نیک و فاجر کے پیچھے نماز ادا کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اسی طرح جو فوت ہو چکے ان کے لیے دعا مغفرت کو بھی درست جانتے ہیں‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اگر مقتدی کو علم ہو کہ امام بدعتی ہے، اور وہ اپنی بدعت کی دعوت دیتا ہے، یا وہ فاسق ہے اور اس کا فسق ظاہر ہے، اور وہ مستقل امام ہے جس کے بغیر نماز پڑھنا ممکن نہیں، مثلا جمعہ اور عیدین کی امامت وہی کرواتا ہے، اور عرفات میں نماز حج وغیرہ کا بھی امام وہی ہے تو عام سلف و خلف کے ہاں مقتدی اس کے پیچھے نماز ادا کرے گا، امام شافعی، امام احمد امام ابو حنیفہ وغیرہ کا یہی مذہب ہے۔ اسی لیے وہ عقائد میں یہ بات ذکر کرتے ہیں: ’’جمعہ اور عید کی نماز ہر نیک یا فاجر امام کے پیچھے پڑھے گا۔ اسی طرح اگر کسی بستی میں صرف ایک ہی امام ہو تو اس کے پیچھے نماز باجماعت ادا کی جائے گی، کیونکہ نماز باجماعت ادا کرنا اکیلے نماز ادا کرنے سے افضل ہے، چاہے امام فاسق ہی ہو۔
جمہور علماء کرام، امام احمد بن حنبل اور امام شافعی وغیرہ کا یہی مذہب ہے۔ بلکہ امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں نماز باجماعت ادا کرنا واجب ہے اور امام احمد وغیرہ کے ہاں جس نے فاجر امام کے پیچھے جمعہ اور نماز با جماعت ترک کی وہ بدعتی ہے۔ صحیح یہی ہے کہ وہ بدعتی کی اقتداء میں نماز ادا کرے گا اور اسے دھرائے گا نہیں،کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز جمعہ اور باجماعت نماز فاجر اماموں کے پیچھے ادا کرتے اور اسے لوٹاتے نہیں تھے، جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما حجاج کے پیچھے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور آپ کے علاوہ دیگر صحابہ ولید بن عقبہ (جو کہ شراب پیتا تھا) کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے۔
فاسق اور بدعتی کی نماز فی نفسہ صحیح ہے، چنانچہ جب اس کے پیچھے مقتدی نماز ادا کرے تو اس کی نماز باطل نہیں، جن علماء نے بدعتی کے پیچھے نماز مکروہ سمجھی ہے تو وہ اس لیے کہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا واجب ہے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جو شخص بدعت یا فسق ظاہر کرتا ہو اسے مسلمانوں کی امامت نہیں دینی چاہیے، کیونکہ وہ تعزیر اور سزا کا مستحق ہے حتی کہ وہ اس سے توبہ کر لے۔ اگر توبہ کرنے تک اس سے بائیکاٹ کرنا ممکن ہو تو یہ بہتر ہے، (کیونکہ) کچھ لوگ جب اس کے پیچھے نماز ادا کرنا ترک کر دیں گے اور کسی دوسرے کی پیچھے نماز پڑھیں گے تو یہ اس پر اثر انداز ہو گا یہاں تک کہ وہ توبہ کر لے یا پھر اسے امامت سے معزول کر دیا جائے، یا اس سزا کو دیکھتے ہوئے لوگ اس طرح کے گناہ سے باز آجائیں۔ اس طرح (کی مصلحت حاصل ہوتی ہو تو) اس میں مصلحت ہے بشرطیکہ مقتدی کی نماز باجماعت اور جمعہ نہیں رہنا چاہیے۔ لیکن اگر اس کے پیچھے نماز ترک کرنے سے مقتدی کا نماز جمعہ اور نماز باجماعت رہ جائے تو تب ان کے پیچھے نماز ترک نہیں کی جائے گی‘‘ (مجموع الفتاویٰ :351-356/23) (مجموع فتاویٰ شیخ ابن باز:303/4)
عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:
سوال: فاسق و فاجر کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: بدعتی فاسق و فاجر جو حد کفر کو نہ پہنچا ہو۔ اس کے پیچھے نماز تو ہو جاتی ہے مگر ایسے شخص کو امام بنانے والے مجرم ہیں کیونکہ حدیث میں آیا ہے۔ اجعلوا ائمتکم خیارکم (دارقطنی) اپنے امام بہتر لوگوں کو بنایا کرو۔ ہاں اگر ایسا شخص جبراً امام بن جائے اور مقتدی ہٹانے پر قادر نہ ہوں تو اس صورت میں مقتدی مجرم نہیں نہ ان کی نماز میں کوئی خلل ہے۔ (فتاویٰ اہلحدیث جلد اول :۵۶۳)

مستور الحال کی اقتداء میں نماز
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ومن أصول أھل السنۃ والجماعۃ أنھم یصلون الجمع والأعیاد و الجماعات، لا یدعون الجمعۃ والجماعۃ کما فعل أھل البدع من الرافضۃ وغیرھم۔
فان کان الامام مستوراً لم یظھر منہ بدعۃ ولا فجور صُلِّي خلفہ الجمعۃ والجماعۃ باتفاق الأئمۃ الأربعۃ وغیرھم من أئمۃ المسلمین، ولم یقل أحد من الأئمۃ: انہ لا تجوز الصلاۃ الا خلف من عُلِم باطن أمرہ، بل مازال المسلمون من بعد نبیھم یصلون خلف المسلم المستور۔۔۔ وأما اذالم یکن الصلاۃ الا خلف المبتدع أو الفاجر کالجمعۃ التي امامھا مبتدع أو فاجر ولیس ھناک جمعۃ أخریٰ فھذہ تصلیٰ خلف المبتدع والفاجر عند عامۃ أھل السنۃ والجماعۃ۔
وکان بعض الناس اذا کثرت الأ ھواء یحب أن لا یصلي الاخلف من یعرفہ علیٰ سبیل الاستحباب، کما نقل ذلک عن أحمد أنہ ذکر ذلک لمن سألہ، ولم یقل أحمد انہ لا تصح الا خلف من أعرف حالہ۔
فالصلاۃ خلف المستور جائزۃ باتفاق علماء المسلمین، ومن قال: ان الصلاۃ محرمۃ أو باطلۃ خلف من لا یُعرَف حالہ۔ فقد خالف اجماع أھل السنۃ والجماعۃ……
فالو جب علیٰ المسلم اذا صارفي مدینۃ من مدائن المسلمین أن یصلي معھم الجمعۃ والجماعۃ ویوالي المؤمنین ولا یعادیھم۔ وان رأیٰ بعضھم ضالاًّ أو غاویًا وأمکن أن یھدیہ ویرشدہ فعل ذلک، والافلا یکلف اللہ نفسًا الا وسعھا۔ واذ کان قادراً علیٰ أن یولي في امامۃ المسلمین الأفضل ولاَّہ، وان قدر أن یمنع من یظھر البدع والفجور منعہ۔ وان لم یقدر علیٰ ذلک فالصلاۃ خلف الأعلم بکتاب اللہ وسنۃ نبیہ الأسبق الیٰ طاعۃ اللہ ورسولہ أفضل، کما قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم في الحدیث الصحیح: ((یؤم القوم أقرأھم لکتاب اللہ، فان کانوافي القراءۃ سواء فأعلمھم بالسنۃ، فان کانوا في السنۃ سواء فأقدمھم ھجرۃ، فان کانوا في الھجرۃ سواء فأقدمھم سنًّا))۔
وان کان في ھجرہ لمظھر البدعۃ والفجور مصلحۃ راجحۃ ھجرہ، کما ھجر النبي صلی اللہ علیہ وسلم الثلاثۃ الذین خُلِّفوا حتیٰ تاب اللہ علیھم۔ وأما اذا وُلِّي غیرہ بغیر اذنہ ولیس في ترک الصلاۃ خلفہ مصلحۃ شرعیۃ کان تفویت ھذہ الجمعۃ والجماعۃ جھلاً وضلالاً، وکان قدرد بدعۃ ببدعۃ۔
’’اہلسنّت والجماعت کے اصول میں ہے کہ وہ جمعہ، عید اور جماعت کی نمازوں میں شرکت کرتے ہیں اور جمعہ و جماعت کو نہیں چھوڑتے، جیسا کہ روافض یا دیگر اہل بدعت کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر امام مستور الحال ہو اور انسان اس کے ہاں کوئی بدعت یا فسق و فجور نہ پائے تو ائمہ اربعہ اور دیگر ائمہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس کے پیچھے جمعہ و جماعت کی نماز ادا کرنی چاہیے۔ ائمہ میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ جب تک آدمی اس کی اصل حقیقت حال نہ جان لے اس وقت تک ان کے پیچھے نماز جائز نہیں، بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے لے کر اب تک مسلمان مستور الحال مسلمان کے پیچھے نماز ادا کرتے آئے ہیں … تاہم جب ایک بدعتی یا فاجر شخص کے پیچھے نماز ادا کرنے کے علاوہ اور کہیں جماعت ممکن نہ ہو مثلاً امام جمعہ بدعتی یا فاجر ہو اور وہاں کہیں دوسرا جمعہ نہ ہوتا ہو تو ایسی صورت میں عام اہلسنّت و الجماعت کے ہاں اسی بدعتی یا فاجر شخص کے پیچھے نماز ادا کی جائے گی۔
تاہم جب اھواء و شہوات کی بھرمار ہوئی تو بعض حضرات بطور استحباب کسی شخص کے بارے میں جان کے ہی اس کے پیچھے نماز ادا کرنا پسند کرتے تھے، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک سائل کو یہ بات کہی تاہم انہوں نے یہ نہیں کہا کہ جب تک کسی کا حال معلوم نہ ہو جائے تب تک اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔
مستور الحال کی اقتدا میں نماز کے جواز پر جملہ مسلمان ائمہ کا اتفاق ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ جس آدمی کے بارے میں علم نہ ہو اس کے پیچھے نماز حرام یا باطل ہے توہ اہلسنّت والجماعت کے اجماع کا مخالف ہے …چنانچہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جب وہ مسلمانوں کے کسی بھی شہر یا علاقہ میں ہو تو وہ ان کے ساتھ جمعہ و جماعت میں شرکت کرے اور مسلمانوں سے تعلق، دوستی اور وفاداری رکھے اور ان سے دشمنی یا بیر نہ رکھے۔ اگر ان میں سے کسی کو گمراہ یا غلط راستے پر پڑا ہوئے دیکھے اور اسے ہدایت اور رشد و نصیحت کا راستہ دکھا سکتا ہو تو یہ کام ضرور کرے، بصورت دیگر اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر مکلف نہیں کرتا۔ امامت کے منصب پر کسی افضل آدمی کو فائز کرانے میں اگر اس کی چلتی ہو تو ضرور ایسا کرے، بدعت اور فسق و فجور عام کرنے والوں کو روکنے کی طاقت رکھتا ہو تو یہ کام بھی ضرور کرے۔ تاہم اگر مذکورہ استطاعت نہ ہو تو ایسے شخص کے پیچھے جو کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم زیادہ رکھتا ہو اور دوسروں سے بڑھ کر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہو نماز ادا کرنا افضل ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں مروی ہے:
یؤم القوم اقرءھم لکتاب ﷲ، فان کانوا فی القراءۃ سواء فاعلمھم بالسنۃ فان کانوا فی السنۃ سواء فاقدمھم بھجرۃ، فان کانوا فی الھجرۃ سواء فاقدمھم سِنًّا……۔
’’کہ امامت وہ کرائے جو کتاب اللہ کا زیادہ قاری ہو، اگر قرأت میں سب برابر ہوں تو ان میں سے جو سنت کا بڑا عالم ہو اور اگر سنت کے علم میں برابر ہوں تو جس نے ہجرت پہلے کی ہو، اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو جو عمر میں سب سے بزرگ ہو۔… ‘‘
بدعت و فجور کے اعلانیہ کرنے والے سے ہجر و کنارہ کشی اور روکجی اختیار کرنے میں کوئی راحج مصلحت ہو تو اس سے یہی رویہ روا رکھے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین صحابیوں سے یہ رویہ رکھا تھا جو جنگ سے پیچھے رہ گئے تھے تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی تاہم جب اس کی رضامندی کے بغیر ایسے شخص کو امام بنایا جائے اور اس کی امامت میں نماز ترک کرنے میں کوئی شرعی مصلحت نہ ہو تو جمعہ اور جماعت کو فوت کرنا جہالت اور گمراہی ہے اور ایسا آدمی بدعت کا جواب بدعت سے دیتا ہے۔ (مجموع الفتاویٰ ،ج۳ ص ۲۸۰-۲۸۶)
الجنۃ الدائمۃ للافتاء سے درج ذیل سوال کیا گیا:
اگر ذبح کرنے والے کے عقیدے کا علم نہ ہو تو اس کا ذبح کیا ہوا گوشت کھانے اور ایسے شخص کے پیچھے نماز ادا کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ’’اگر وہ ظاہراً مسلمان ہو اور انسان اس کے عقیدے کو نہ جانتا ہو‘ اسی طرح اس کے متعلق یہ علم بھی نہ ہو کہ اس کے عقیدہ میں انحراف پایا جاتا ہے، تو ایسے مجہول الحال شخص کے پیچھے نماز ادا کرنا اور اس کا ذبح کیا ہوا گوشت کھانا صحیح ہے۔ (فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ :365/7)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اہل بدعت کے ساتھ مل کر جہاد کرنا
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ولھذا کان من أصول أھل السنۃ والجماعۃ الغز ومع کل بَرّ وفاجر، فان اللہ یؤید ھذا الدین بالرجل الفاجر، وبأقوام لا خلاق لھم، کما أخبر بذلک البني صلی اللہ علیہ وسلم……فانہ لا بد من أحد أمرین: اما ترک الغزو معھم فیلزم من ذلک استیلاء الآخرین الذین ھم أعظم ضررًا في الدین والدنیا۔ واما الغزو مع الأمیر الفاجر فیحصل بذلک دفع الأفجرین۔ واقامۃ أکثر شرائع الاسلام، وان لم یمکن اقامۃ جمیعھا۔ فھذاھو الواجب في ھذہ الصورۃ، وکل ما أشبھھا بل کثیر من الغزو الحاصل بعد الخلفاء الراشدین، لم یقع الاعلیٰ ھذا الوجہ۔‘‘
’’اہلسنّت والجماعت کے اصول میں یہ شامل ہے کہ ہر نیکوکار اور گناہ گار امیر کے ساتھ مل کر جہاد کیا جائے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی مدد ایک گناہ گار یا فاجر آدمی کے ذریعے بھی کر سکتا ہے اور ایسے لوگوں کے ذریعے سے بھی جو نیکی سے تہی دامن ہوں۔ اس لئے دو امور میں سے ایک لازمی طور پر اختیار کرنا پڑے گا یا تو ان امراء کے ساتھ مل کر قتال چھوڑ دیا جائے جس کی بنا پر دوسروں کا غلبہ یقینی ہو گا جو کہ دین اور دنیا دونوں پہلوؤں سے زیادہ بڑے ضرر اور نقصان کے حامل ہیں یا پھر ایک فاجر امیر کے ساتھ مل کر جہاد کیا جائے جس کے نتیجے میں اس سے کہیں زیادہ بڑے فاجروں اور بدکاروں کو پسپا کیا جا سکتا ہے اور اگرچہ مکمل طور پر نہ سہی بیشتر احکام اسلام کا قیام ہو سکتا ہے، اس صورت حال یا اس قسم کے حالات میں یہی واجب ہے بلکہ بیشتر جنگیں جو خلفا راشدین کے بعد لڑی گئی ہیں وہ اسی پہلو اور اسی نقطہ نظر ہی کی بنا پر لڑی گئی ہیں‘‘۔ (مجموع الفتاویٰ، ج۲۸ص ۵۰۶)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((یأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر، علیٰ ما توجبہ الشریعۃ، ویرون اقامۃ الحج والجھاد، والجمع الأعیاد مع الأمراء -ابرارًا کانوا أو فجاراً- ویحافظون علیٰ الجماعات ویدینون بالنصیحۃ للأمۃ، ویعتقدون معنیٰ قولہ صلی اللہ علیہ وسلم ((المؤمن للمؤمن کالبنیان یشد بعضہ بعضاً)) وشبک بین أصابعہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ وقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((ومثل المئومنین في توادھم وتراحمھم وتعاطفھم کمثل الجسد الواحد اذا اشتکی منہ عضو تداعی لہ سائر الجسد بالحمی والسھر))
’’اہلسنّت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرتے ہیں۔ امیر جیسے بھی ہوں، نیکوکار ہوں یا فاجر، اہلسنّت ان کے ساتھ مل کے حج، جہاد جمعہ اور عید وغیرہ کا قیام درست سمجھتے ہیں، ’’جماعت‘‘ کی محافظت اور پاسبانی کرتے ہیں۔ امت کی خیر خواہی کو دین سمجھتے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول پر پورا اعتقاد رکھتے ہیں کہ مومن دوسرے مومن کے لیے اُس عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔ مومنین کی باہم مودت، رحم و ترس اور تعلق و ہمدردی کی مثال بالکل جسد واحد کی سی ہے اگر اس کے ایک عضو میں تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی وجہ سے بخار زدہ اور پریشان رہتا ہے۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ، ج۳ص ۱۵۸)
’’اگر جہاد کسی اور طریقے سے ممکن نہ ہو تو کسی بھی امیر یا گروہ کے ساتھ مل کر یہ فریضہ سر انجام دیا جائے اور اس سلسلے میں وہ گروہ جس کے ساتھ مل کر آدمی قتال کرتا ہے اس کا ایسے کسی بھی معاملے میں ساتھ نہ دے جس میں اللہ تعالیٰ کی معصیت ہو، بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے تحت ان کی اطاعت کرے اور اس کی معصیت میں ان کی اطاعت نہ کرے کیونکہ ((لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق)) خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں۔ امت کے افضل ترین لوگوں کا ماضی و حال ہر زمانے میں یہی طریقہ رہا ہے اور یہ ہر مکلف پر فرض ہے۔ یہ طریق وسط ہے، ایک انتہاء پر حروریہ (خوارج) ہیں جو فاسد زُہد و ورع کے مسلک پر چلتے ہیں اور درحقیقت یہ کم علمی کا نتیجہ ہے جبکہ دوسری انتہاء پر مرجئہ اور اس قسم کے دوسرے لوگ ہیں جو امراء کی اطاعت مطلق کے مسلک پر چلتے ہیں چاہے وہ نیکوکار نہ بھی ہوں۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ ،ج۲۸ ص ۵۰۸)

حکم کے لحاظ سے سنت کی مخالفت میں واقع ہونے والوں کی اقسام
سنت کی مخالفت میں واقع ہونے والے حکم میں برابر نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بعض اجتہادی غلطی پرہوتے ہیں، بعض ایسے ہوتے ہیں جو جاہل اور لا علم ہونے کے باعث معذور ٹھہرتے ہیں، بعض ظالم اور بعض منافق و زندیق ہوتے ہیں اور بعض مشرک اور گمراہ۔ ان میں سے ہر ایک کے الگ الگ احکام ہیں:
1۔ مجتہد مخطی
ارشاد ربانی ہے:
﴿وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ ﴿٧٨﴾ فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ﴾ (الانبیاء :۷۸،۷۹)
’’اور یاد کیجئے جب داود اور سلیمان ایک کھیتی کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے جسے دوسرے لوگوں کی بکریاں چر گئیں تھیں اور جب وہ فیصلہ کر رہے تھے تو ہم دیکھ رہے تھے اس وقت ہم نے سلیمان کو صحیح فیصلہ سمجھا دیا جب کہ ہم نے قوت فیصلہ اور علم سب کو عطا کیا تھا۔‘‘
جب ایک کھیتی کا مالک داود علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے پاس فیصلہ کرانے آیا جس کے کھیت میں رات کے وقت دوسرے لوگوں کی بکریاں داخل ہو گئیں اور اس کی فصل کو اجاڑ دیا۔ داود علیہ السلام نے فیصلہ کیا کہ تمام بکریاں کھیتی کے مالک کو دے دی جائیں کیونکہ بکریوں کے مالک نے کوتاہی سے کام لیا سلیمان علیہ السلام نے اس جھگڑے میں حق کے مطابق فیصلہ سنایا کہ بکریوں کے مالک اپنی بکریاں کھیتی کے مالک کے حوالے کر دیں وہ ان کے دودھ اور اون سے فائدہ اٹھائے اور بکریوں کے مالک کھیت میں اس وقت تک کام کریں جب تک کھیتی اپنی پہلی حالت میں نہ آجائے۔ جب کھیتی اپنی پہلی حالت میں آجائے تو دونوں ایک دوسرے کا مال لوٹا کر اپنا اپنا مال لے لیں۔ (حاکم۲۔۵۸۸ بحوالہ تفسیر ابن کثیر)
یہ فیصلہ سلیمان علیہ السلام کے کمال فہم پر دلالت کرتا ہے۔ اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ جب حاکم کوئی فیصلہ کرتا ہے تو کبھی اس کا فیصلہ حق کے مطابق ہوتا ہے اور کبھی اس سے خطا ہو جاتی ہے۔ اگر کوشش کے باوجود فیصلے میں خطا ہو جائے تو وہ ملامت کا مستحق نہیں۔
امام ابن تیمیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے دونوں انبیاء کی تعریف و ثنا بیان کی ہے کہ دونوں کو علم و حکمت سے نوازا گیا تھا مگر اس مسئلہ میں درست فہم سلیمان علیہ السلام کا تھا۔ اسی طرح علماء میں سے کسی کو درست فہم حاصل نہ ہونا اُس عالم کی مذمت کو لازم نہیں کرتا۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ: ج:۳۳،ص:۲۹)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی بعض اوقات اپنے کئی اجتہادات میں غلطی کھائی جیسے ایک صحابی نے امیر کی اطاعت کے وجوب سے استدلال کیا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو آگ میں کودنے کا حکم دے سکتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن حذافہ انصاری رضی اللہ عنہ کی سپہ سالاری میں ایک لشکر بھیجا اور اہل لشکر کو حکم دیا کہ اپنے سپہ سالار کی اطاعت کریں۔ راستہ میں سپہ سالار کو کسی بات پر غصہ آگیا۔ اس نے لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیا۔ پھر آگ جلائی۔ سپہ سالار نے کہا اس آگ میں داخل ہو جائو۔ بعض لوگوں نے حکم کی تعمیل کا ارادہ کیا اور بعض نے انکار کیا اور دوسروں کو بھی تعمیل کرنے سے روکتے رہے اور کہا کہ ہم آگ ہی سے بھاگ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئے۔ اس بحث میں آگ ٹھنڈی ہو گئی۔ اور سپہ سالار کا غصہ بھی ٹھنڈا ہو گیا۔ جب یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا: اگر تم آگ میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اس میں سے نہ نکلتے اور فرمایا: اطاعت تو صرف معروف کاموں میں ہے۔ (بخاری،۴۳۴۰۔ مسلم،ح۔ ۱۸۴۰)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((اعتقاد الفرقۃ الناجیۃ ھیی الفرقۃ التیی وصفھا النبیی صلی اللہ علیہ وسلم بالنجاۃ حیث قال: ((تفترق أمتی علی ثلاث وسبعین فرقۃ، اثنتان وسبعون في النار وواحدۃ في الجنۃ، وھي ما کان علی مثل ما أنا علیہ الیوم وأصحابي)) فھذا الاعتقاد ھو المأثور عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وأصحابہ رضی اللہ عنھم، وھم ومن اتبعھم الفرقۃ الناجیۃ……ولیس کل من خالف في شيء من ھذا الاعتقاد یجب أن یکون ھالکاً فان المنازع قد یکون مجتھدًا مخطئًا یغفر اللہ خطأہ، وقد لا یکون بلغہ في ذلک من العلم ما تقوم بہ علیہ الحجۃ، وقد یکون لہ من الحسنات ما یمحو اللہ بہ سیئاتہ، واذا کانت ألفاظ الوعید المتناولۃ لہ لا یجب أن یدخل فیھا المتأول، والقانت، وذوالحسنات الماحیۃ، والمغفورلہ وغیر ذٰلک: فھذا أولیٰ))
’’فرقہ ناجیہ کے عقائد اسی فرقہ کے عقائد ہیں جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجات کی پیشینگوئی کی تھی ……یہ عقائد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ماثور ہیں اور یہ حضرات اور ان کے پیچھے چلنے والے ہی فرقہ ناجیہ ہیں۔ مگر ہر اس شخص کا جو ان عقائد میں سے کسی بات کی مخالفت کرتا ہے لازمی طور پر ہلاکت میں پڑنا ضروری نہیں، کیونکہ مخالف بسا اوقات اجتہاد کی بنا پر غلطی کرتا ہے اور ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے یا بعض اوقات یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے ایسی بات کا علم نہ ہوا ہو جس سے اس پر حجت قائم ہو سکے، یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی نیکیاں اس کی برائیوں کو مٹانے کے قابل ہو جائیں۔ جب ایسی صورت ہے کہ کسی وعید کے الفاظ کی زد میں آنے کے باوجود ایک تاویل کرنے والا، خوف اور خشوع رکھنے والا شخص جس کے گناہ اس کی نیکیوں سے مٹ سکتے ہوں جو قابل مغفرت ہو، اس کا وعید میں لازمی اور قطعی طور پر داخل ہونا ضروری نہیں ہے تو ایسا شخص تو ان سے اولی ہے۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ: ج۳ ص۱۷۹)
2۔ جاہل قابل عذر
ارشاد ربانی ہے:
﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا﴾ (سورة الإسراء :۱۵)
’’اور ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیا کرتے جب تک اپنا رسول نہ بھیجیں۔‘‘
ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا جبکہ ان کو معلوم نہ تھا کہ غیر اللہ کو سجدہ تعظیمی بھی حرام ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ شام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو معاذ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا آپ نے پوچھا اے معاذ یہ کیا ہے؟ معاذ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں شام سے آیا اور میں نے وہاں لوگوں کو دیکھا جو اپنے سرداروں کو سجدہ کرتے تھے۔ میرا دل چاہا کہ میں بھی آپ کو سجدہ کروں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو اگر اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (ابن ماجۃ: ۱۸۵۳)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((فمن کان قد آمن باللہ ورسولہ، ولم یعلم بعض ماجاء بہ الرسول، فلم یؤمن بہ تفصیلا: اما أنہ لم یسمعہ، أو سمعہ من طریق لا یجب التصدیق بھا، أواعتقد معنیٰ اَخر لنوع من التأویل الذي یعذر بہ۔ فھذا قد جعل فیہ من الایمان باللہ وبرسولہ، ما یوجب أن یثیبہ اللہ علیہ۔ وما لم یؤمن بہ فلم تقم علیہ الحجۃ التي یکفر مخالفھا))
’’چنانچہ وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایمان لا چکا ہے مگر بعض ایسے امور کا اسے علم نہیں ہوا جنہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کے آئے ہیں۔ اس بنا پر وہ ان امور کے ساتھ ایمان مفصل نہ لا سکا، یا تو اس نے ان کے بارے میں سن ہی نہیں رکھا اگر سنا ہے تو ناقابل اعتماد ذریعہ سے، یا پھر وہ کسی ایسی تاویل وغیرہ کی بناء پر جو قابل عذر ہے کسی اور مطلب و معنی کا اعتقاد رکھتا ہے، تو ایسا شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان والا ہے جس پر اللہ کی طرف سے ثواب کا مستحق ہے اور جن باتوں کے ساتھ وہ ایمان نہیں لا سکا تو اس سلسلے میں اس پر وہ حجت قائم نہیں ہوئی جس کا مخالف کافر قرار پاتا ہے۔ (مجموع الفتاویٰ، ج ۱۲:ص:۴۹۴)
3۔ ’’ظلم‘‘ اور ’’عدوان‘‘ کے مرتکب
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((ومن أھل البدع من یکون فیہ ایمان باطنًا وظاھرًا، لکن فیہ جھل وظلم حتٰی أخطأ ما أخطأ من السنۃ، فھذا لیس بکافر ولامنافق، ثم قد یکون منہ عدوان وظلم یکون بہ فاسقًا أو عاصیًا، وقد یکون مخطئًا متأولاً مغفورًا لہ خطؤہ، وقد یکون مع ذلک معہ من الایمان والتقویٰ ما یکون معہ من ولایۃ اللہ بقدر ایمانہ وتقواہ))
’’بدعات کے حاملین میں بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جن میں باطناً اور ظاہراً ایمان ہوتا ہے مگر جہل اور ظلم کی بنا پر مذہب سنت کی مخالفت کرتے ہیں۔ ایسا شخص نہ تو کافر ہے اور نہ ہی منافق، اس کا ظلم و عدوان، ہو سکتا ہے اس درجے کا ہو کہ اس کی بنا پر زیادہ سے زیادہ فاسق یا عاصی (نافرمان) ٹھہرتا ہو، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ اس میں ایمان اور تقوی اس حد تک ہو کہ اپنے ایمان اور تقوی کے بقدر اللہ کے ساتھ اس کی دوستی و وفاداری اور وابستگی کا رشتہ ہنوز قائم ہو‘‘ (مجموع الفتاویٰ، ج۳ص۳۵۴)
حجاج بن یوسف ایک ظالم حکمران تھا۔ حجاج بن یوسف نے صحابی رسول عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اور ان کی لاش کو مدینہ کی ایک گھاٹی کے ایک درخت سے لٹکا دیا۔ قریشی اور دوسرے لوگ اس کو دیکھتے ہوئے گزرتے تھے۔ جب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس کے پاس سے گزرے تو کھڑے ہو کر فرمایا:
السلام علیک ابا خبیب، السلام علیک ابا خبیب، السلام علیک ابا خبیب۔ اللہ کی قسم میں آپ کو اس سے پہلے بھی روکتا تھا۔ اللہ کی قسم میں نے آپ کی طرح روزہ دار رات کو بندگی کرنے والا اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا… سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد جب حجاج کو اس کلام کی اطلاع ملی تو اس نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی نعش اس گھاٹی سے اتروا کر یہودیوں کے قبرستان میں پھینکوا دی۔ پھر عبد اللہ کی والدہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی لخت جگر ام المومنین عائشہ صدیقہ کی بہن سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی طرف آدمی بھیج کر ان کو بلوایا۔ انہوں نے آنے سے انکار کر دیا تو حجاج نے دوبارہ آدمی بھیجا اور کہا کہ اگر تم نہیں آئو گی تو میں تیری طرف ایسے آدمی کو بھیجوں گا جو تجھے بالوں سے کھینچتا ہوا میرے پاس لائے گا۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا اللہ کی قسم میں تیرے پاس نہیں آئوں گی چاہے تو میری طرف ایسے آدمی کو بھیج جو مجھے بالوں سے کھینچتا ہوا لائے، حجاج جوتیاں پہن کر اکڑتا ہوا سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور کہا تو نے دیکھا میں نے اللہ کے دشمن کے ساتھ کیا کیا؟ آپ نے جواب دیا تو نے اس کی دنیا خراب کر دی اور اس نے تیری آخرت خراب کر دی اور سن مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تو عبد اللہ کو دو کمر بندوں والی کا بیٹا کہتا ہے اللہ کی قسم میں دو کمر بندوں والی ہوں ایک کمر بند سے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کا کھانا باندھا تھا اور دوسرا کمر بند وہی تھا کہ جس کی عورت کو ضرورت ہوتی ہے اور سن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ایک حدیث بیان فرمائی تھی کہ قبیلہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک ظالم ہو گا۔ کذاب کو تو ہم نے دیکھ لیا اور ظالم میں تیرے علاوہ کسی کو نہیں سمجھتی۔ راوی کہتے ہیں کہ حجاج اٹھ کھڑا ہوا اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہ کو کوئی جواب نہیں دیا۔ (مسلم:۲۵۴۵)
لیکن اس ظلم کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عہم نے اسے مسلمان سمجھا اور اس کے پیچھے نمازیں تک ادا کیں۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بعد ایسے امراء ہوں گے جو میری ہدایت سے راہنمائی حاصل نہ کریں گے اور نہ میری سنت کو اپنائیں گے اور عنقریب ان میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے جسموں میں شیطان کے دل ہوں گے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں کیا کروں اگر اس زمانہ کو پائوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امیر کی بات سن اور اطاعت کر اگرچہ تیری پیٹھ پر مارا جائے یا تیرا مال غصب کر لیا جائے پھر بھی ان کی بات سن اور اطاعت کر۔ (مسلم:۱۸۴۷)
5۔ منافق
سنت کی مخالفت کرنے والوں میں منافق بھی ہوتے ہیں یہ لوگ ظاہر میں اسلام کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے کفر کو باطن میں چھپاتے ہیں۔ اس لیے یہ کافروں سے بھی زیادہ بدبخت ہیں۔ منافق یقینا جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں جائیں گے :
﴿إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا﴾ (النساء:۱۴۵)
’’یہ منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے اور آپ انکا کوئی مددگار نہ پائیں گے۔‘‘
یہ منافق دین اسلام سے خارج اور مستقل جہنمی ہیں مگر دنیا میں ان کو مسلمانوں والے حقوق حاصل ہوتے ہیں کیونکہ یہ ظاہراً اسلام اور خیر کا اظہار کرتے ہیں اور اپنی قسموں کو ڈھال بنا کر اپنے کفر کا انکار کر دیتے ہیں:
﴿اِتَّخَذُوْٓا اَيْمَانَہُمْ جُنَّۃً﴾ (المنافقون:۲)
’’انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے‘‘
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک جہاد کے سفر میں میں نے عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ان (صحابہ) پر خرچ نہ کرو یہاں تک کہ یہ بھاگ جائیں اور جب ہم (مدینہ) لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا، ذلیل (صحابہ) کو باہر نکال دے گا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلا کر پوچھا ان لوگوں نے قسم کھائی کہ ہم نے ایسا نہیں کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جھوٹا سمجھا اور ان کو سچا جانا۔ مجھے اس بات کا اتنا صدمہ ہوا کہ اس سے پہلے کسی بات کا اتنا صدمہ نہیں ہوا تھا۔ میں اپنے گھر میں بیٹھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ المنافقون نازل فرمائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا: اے زید! اللہ نے تیری تصدیق کر دی۔‘‘ (بخاری:۴۹۰۱)
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں تو آپ نے فرمایا اس کو چھوڑ دو کہیں لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کر دیتے ہیں۔‘‘ (بخاری :۴۹۰۵)
مال غنیمت کی تقسیم کے موقع پر ذوالخویصرہ التمیمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ نے اس تقسیم میں انصاف نہیں کیا۔ (بخاری:۴۶۶۷) اے محمد انصاف کرو۔ (بخاری:۶۱۶۳) یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ڈرو۔ آپ نے فرمایا: "تو ہلاک ہو، کیا میں روئے زمین پر اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا نہیں ہوں؟" خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں اس کی گردن نہ مار دوں آپ نے فرمایا نہیں ممکن ہے وہ نماز پڑھتا ہو۔ (یعنی ظاہری اسلام کی وجہ سے قتل کا مستحق نہ ہو)
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ بہت سے ایسے نمازی ہیں جو زبان سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتیں۔ (یعنی منافق ہوتے ہیں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے لوگوں کے دل کریدنے اور ان کے پیٹ چاک (کر کے دلی حالت معلوم) کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ (بخاری :۴۳۵۱۔ مسلم :۱۰۶۴)
ہمیں لوگوں کے ظاہر کو دیکھنا ہے اگر وہ ظاہر میں شرک و کفر کا انکار کرتے ہیں اگرچہ ان کے دلوں میں کفر پایا جاتا ہے تو ہم ظاہر کی وجہ سے ان کے ساتھ مسلمانوں والا سلوک کریں گے اور انہیں مسلمانوں والے حقوق دیں گے۔ البتہ آخرت میں یہ لوگ کفار کے ساتھ جہنم میں جمع کر دئیے جائیں گے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((ھذا مع العلم بأن کثیراً من المبتدعۃ منافقون النفاق الأکبر، واولئک کفار في الدرک الأسفل من النار، فما أکثر ما یوجد في الرافضۃ والجھمیۃ ونحوھم زنادقۃ منافقون، بل أصل ھذہ البدع ھو من المنافقین الزنادقۃ، ممن یکون أصل زندقتہ عن الصابئین والمشرکین، فھؤلاء کفار في الباطن، ومن علم حالہ فھو کافر في الظاھر أیضًا))
[بہت سے اہل بدعت منافقین ہوتے ہیں، ان کا نفاق بھی نفاق اکبر ہوتا ہے، اور یہ لوگ کفار ہیں اور جہنم میں درک اسفل ان کا ٹھکانہ ہے۔ روافض اور جہمیہ وغیرہ ایسے فرقوں میں زندیق اور منافقین بہت ہی کثرت سے موجود ہیں۔ بلکہ بدعت کا اصل منبع ہیں، جن کی زندیقیت کے ڈانڈے صائبین اور مشرکین سے جا ملتے ہیں لہٰذا ایسے لوگ باطن میں کفار ہوتے ہیں اور جب ان کے اس حال کا علم ہو جائے (یعنی وہ اپنے کفر و شرک کا کھلم کھلا اظہار کر دیں) تو پھر ظاہر میں بھی وہ کافر ہی قرار دیئے جائیں گے] (مجموع الفتاویٰ،ج۱۲ص ۴۹۷)
6۔ مشرکین
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک میری امت کی ایک جماعت مشرکوں سے نہ جا ملے اور میری امت کے بہت سے لوگ بت پرستی نہ کریں‘‘ [ترمذی: 2219، برقانی نے صحیح کہا]
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
(فمن اعتقد في بشر أنہ الہ، أودعا میتًا، أوطلب منہ الرزق والنصر والھدایۃ، وتوکل علیہ أو سجد لہ، فانہ یستاب، فان تاب والا ضربت عنقہ۔ ومن فضَّل أحداً من (المشایخ) علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم أو اعتقد أن أحد یستغنیی عن طاعۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: استیب، فان تاب والا ضربت عنقہ۔ وکذالک من اعتقد أن احدًا من (أولیاء اللہ) یکون مع محمد صلی اللہ علیہ وسلم کما کان الخضر مع موسیٰ علیہ السلام فانہ یستتاب، فان تاب والا ضربت عنقہ۔۔ ومحمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث الیٰ جمیع الثقلین: انسھم وجنھم، فمن اعتقد أنہ یسوغ لأحد الخروج عن شریعتہ وطاعتہ فھو کافر یجب قتلہ)
[کسی بشر کے بارے میں جو شخص اللہ ہونے کا اعتقاد رکھے یا کسی مردے سے دعا کرے یا اس سے رزق، نصرت یا ہدایت کا طلب گار ہو، اس پر توکل کرے یا اس کو سجدہ کرے، تو ایسے شخص سے توبہ کرائی جائے گی اگر کر لے تو ٹھیک ورنہ اس کی گردن تن سے جدا کر دی جائیگی۔ جو شخص مشائخ میں سے کسی کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر افضلیت کا قائل ہو یا یہ اعتقاد رکھے کہ کوئی شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے مستغنی و بے نیاز ہے، اس سے بھی توبہ کرائی جائے گی ورنہ اس کی بھی گردن ماری جائے گی اسی طرح جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ اولیاء میں سے کسی کی حیثیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسی ہے جیسے موسیٰ کے ساتھ خضر، تو ایسے شخص کو بھی توبہ کرانی چاہیے ورنہ اس کی گردن اڑا دی جائے …محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن و انس کے تمام افراد کی طرف مبعوث ہوئے ہیں اس لئے جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ کوئی بھی شخص آپ کی شریعت اور اطاعت سے خروج کا مجاز ہے تو ایسے اعتقاد کا حامل کافر ہے اور اس کا قتل واجب ہے] (مجموع الفتاویٰ،ج۳ص ۴۲۲)
مزید فرماتے ہیں:
(وھؤلاء الذین یزعم أحدھم أنہ یراہ أي اللہ سبحانہ وتعالیٰ بعیني رأسہ في الدنیا ھم ضُلاَّل کما تقدم، فان ضموا الیٰ ذلک أنھم یرونہ في بعض الأشخاص: أما الصالحین، أو بعض المردان، أو بعض الملوک وغیرھم، عظم ضلالھم وکفرھم، وکانو حینئذ أضل من النصاریٰ الذین یزعمون أنھم رأوہ في صورۃ عیسیٰ ابن مریم۔
بل ھم أضل من أتباع الدجال الذي یکون في آخر الزمان، ویقول للناس انا ربکم!۔۔۔
وھؤلاء قد یسمون (الحلولیۃ) و (الاتحادیۃ) وھم صنفان:
٭(قوم) یخصونہ بالحلول أو الاتحاد في بعض الأشیاء، کما یقولہ النصاریٰ في المسیح علیہ السلام، والغالیۃ في علی رضي اللہ عنہ ونحوہ، وقوم في أنواع من المشائخ، وقوم في بعض الملوک، وقوم في بعض الصور الجمیلۃ، الیٰ غیر ذلک من الاقوال التي ھی شر من مقالۃ النصاریٰ۔
٭و(صنف) یعمون فیقولون بحلولہ واتحادہ في جمیع الموجودات۔
حتی الکلاب والخنازیر والنجاسات وغیرہا۔ کما یقول ذلک قوم من الجھمیۃ ومن تبعھم من الاتحادیۃ: کأصحاب ابن عربي، وابن سبعین، وابن الفارض والتلمساني، والبلیاني، وغیرھم۔۔ فھؤلاء (الضلال الکفار) الذین یزعم أحدھم أنہ یری ربہ بعینیہ۔ وربما زعم أنہ جالسہ وحادثہ أوضاجعہ! وربمایعین أحدھم آدمیَّاً اما شخصا أوصبیًّا أو غیر ذلک ویزعم أنہ کلمھم، ویستتابون فان تابوا والا ضربت أعناقھم وکانوا کفارًا، اذھم أکفر من الیھود والنصاریٰ۔۔
ھذا أکفر من الغالیۃ الذین یزعمون أن علیًّا رضي اللہ عنہ، أوغیرہ من أھل الییت ھو اللہ، وھؤلاء ھم الزنادقۃ الذین حرقھم علي رضي اللہ عنہ بالنار))
[اور یہ لوگ بھی جو بزعم خویش، اللہ تعالیٰ کا دیدار اسی دنیا میں کرتے ہیں، مذکورہ اصناف کی طرح ہی گمراہ ہیں، پھر اگر اس کے ساتھ و ہ یہ بھی شامل کریں کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار وہ بعض اشخاص کی صورت میں کرتے ہیں …یہ اشخاص صالحین ہوں جن ہو یا بادشاہ یا کوئی دوسرا …تو ایسی صورت میں ان کی گمراہی اور کفر دو چند بلکہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اور ایسی صورت میں یہ لوگ ان عیسائیوں سے بھی زیادہ گمراہ اور بدتر ٹھہرتے ہیں جو عیسیٰ ابن مریم کی صورت میں دیدار الٰہی کا اعتقاد رکھتے ہیں بلکہ یہ تو پیروان دجال سے بھی زیادہ گمراہ ہیں جو کہ آخر زمانے میں ظاہر ہو گا اور لوگوں کو کہے گا میں تمہارا رب ہوں…یہ لوگ بسا اوقات حلولیہ اور اتحادیہ ایسے ناموں سے یاد کئے جاتے۔ ان کی دو اصناف ہیں:
ایک گروہ تو ایسا ہے جو خاص چیزوں یا اشخاص کی بابت ہی اللہ تعالیٰ کے حلول یا اتحاد کا اعتقاد رکھتا ہے مثلاً عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں یا غالی فرقے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایسا گمان رکھتے ہیں کچھ لوگ ایک خاص مرتبے پر فائز اولیاء اور مشائخ کے بارے میں، بعض لوگ خاص بادشاہوں میں، بعض کچھ حسین و جمیل صورتوں میں یا اسی طرح کی دیگر اشیاء یا اشخاص کے بارے میں ایسی باتوں کے قائل ہیں جو کہ عیسائیوں کے مذہب سے کہیں بدتر ہیں۔ جبکہ دوسرا گروہ اس کو عام سمجھتا ہے چنانچہ یہ لوگ اللہ رب العزت کی نسبت حلول و اتحاد کا عقیدہ تمام موجودات حتی کہ کتوں، سوؤروں اور نجاستوں تک کی بابت رکھتے ہیں جیسا کہ جہمیہ کا ایک گروہ اور اتحادیہ میں سے ان کے ہم عقیدہ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں، مثال کے طور پر ابن عربی اور اس کے حاشیہ بردار ابن سبعین، ابن الفارض، تلمسانی، بلیانی اور اس طرح کے بہت سے لوگوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔ یہ گمراہ اور کافر لوگ ہیں جو بزعم خویش اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھتے بلکہ اس کے ہم نشین، ہم کلام اور ہم بستر تک بھی ہوتے رہتے ہیں (معاذ اللہ) بسا اوقات کسی شخص، بچے یا کسی کو متعین کر کے اس کی اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا دعویٰ کرتے ہیں ایسے لوگوں سے توبہ کرانی چاہیے، کر لیں تو درست ورنہ ان کی گردنیں اڑا دینی چاہئیں کیونکہ یہ کافر ہیں بلکہ ایسے لوگ یہود و نصاریٰ سے بڑے کافر ہیں…یہ ان غالیوں سے بھی بڑے کافر ہیں جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ یا کسی دیگر اہل بیت کے بارے میں عقیدہ رکھتے تھے کہ وہی اللہ ہیں۔ یہی وہ زنادقہ تھے جن کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے آگ میں جلا کے راکھ کیا تھا] (مجموع الفتاویٰ، ج۳ ص ۳۹۱-۳۹۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اہل سنت سے اعتقادی اختلاف رکھنے والے فرقوں کے مراتب
امت میں بہت سے اعتقادی مسائل میں اختلاف پیدا ہوا جس کی بنیاد پر مختلف فرقے وجود میں آئے۔ ہر فرقے میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اساسی عقائد میں مسلمانوں سے اختلاف کیا۔ علمائے کرام نے ان لوگوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا اور ہر فرقے میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے ان امور میں اختلاف نہیں کیا جن کا ضروریات دین سے ہونا قطعی اور حکمی تھا انہوں نے ان ارکان، اصول اور قواعد کو تسلیم کیا جس پر دین اسلام کی عمارت کھڑی ہے لہذا علمائے اہل سنت نے ان کی غیر کفریہ بدعات کی بنا پر اسلام سے خارج نہیں سمجھا البتہ انہیں اہل سنت سے خارج قرار دیا۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[چنانچہ اگر ایسا ہو جائے کہ تمام گروہوں میں عدوان و زیادتی کے مرتکب لوگوں کو سزا دی جائے اور تمام گروہوں میں سے متقی لوگوں کی شرف و عزت افزائی کی جائے تو یہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدگی اور مسلمانوں کی اصلاح کا سب سے بڑا ذریعہ ہو گا] (الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح :22/1)
چند فرقوں کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔

’’قدریہ‘‘
’’قدریہ‘‘ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہر چیز انسان کے ارادہ اور قدرت کے تابع ہے گویا ان کے نزدیک انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے سب کام انسان اپنے ارادہ اور اختیار سے کرتا ہے اللہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو حوادث کا علم اسی وقت ہوتا ہے جب وہ وقوع میں آتے ہیں۔ ان اقوال سے ان کا مقصد اللہ کے ازلی علم اور ارادہ کے نفی کرنا تھا۔
شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین رحمہ اللہ قدریہ کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’قدریہ کی دو قسمیں ہیں ایک قسم وہ ہے جنہوں نے کہا کہ اشیاء کے وجود میں آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم نہیں ہوتا اور دوسری قسم وہ ہے جو کہتے ہیں کہ بندوں کے افعال اللہ تعالیٰ پیدا نہیں کرتا بلکہ بندے اپنے افعال کے خود خالق ہیں۔‘‘(شرح لمعۃ الاعتقاد)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وہ قدریہ جو اللہ کے ازلی علم اور تقدیر کے لکھے جانے کے انکاری ہیں سلف صالحین نے ان کو کافر کہا اور جنہوں نے اللہ کے ازلی علم کو تو تسلیم کیا لیکن اس بات کا انکار کیا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے افعال کا خالق ہے ان کو کافر نہیں کہا۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ :۳۵۲/۳)
عبد اللہ کہتے ہیں: کہ میرے والد احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا قدریہ کا قول کہنے والا کافر ہے؟ میرے والد نے جواب دیا: جب وہ (اللہ کے ازلی) علم کا انکار کرے۔ (تو کافر ہے) (السنۃ للخلال: روایۃ:862)
یحییٰ ابن یعمر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے سب سے پہلے تقدیر کا انکار کیا وہ بصرہ کا معبد الجھنی تھا۔ میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ملا اور کہا اے ابو عبدالرحمن! ہمارے علاقے میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوئے ہیں جو قرآن حکیم کو پڑھتے اور عالم ہونے کے دعویدار ہیں لیکن وہ تقدیر کا انکار کرتے ہیں۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا جب تم ان سے ملو تو انہیں بتانا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں۔ اللہ کی قسم اگر وہ احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کریں اللہ تعالیٰ ان سے ہرگز قبول نہ کرے گا یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئیں (مسلم: ۸)

’’رافضہ‘‘
شیعہ کے بہت سے گروہ ہیں بعض وہ ہیں کہ جو کفر اکبر کے مرتکب اور اسلام سے خارج نہیں۔ ان میں سے ایک زیدیہ بھی ہیں جس کے امام زید بن علی بن حسین بن علی بن ابو طالب تھے۔ شیعہ کے تمام فرقوں میں سے زیدیہ اہل سنت کے زیادہ قریب ہیں یہ ائمہ کو عام لوگوں کی طرح انسان مانتے ہیں البتہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب صحابہ سے افضل تسلیم کرتے ہیں یہ اصحاب رسول کی تکفیر بھی نہیں کرتے اور یہ عقیدہ بھی نہیں رکھتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو امام مقرر کیا ان کے نزدیک امام میں اگرچہ کامل صفات ہونی چاہیے لیکن اگر امت کسی ایسے شخص کو امام چن لے جس میں بعض صفات موجود نہ ہوں اور وہ اسکی بیعت کر لیں تو اس کی امامت درست اور بیعت لازم ہو گی یہی وجہ ہو گی کہ زیدیہ کے ہاں سیدنا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی امامت صحیح تھی زیدیہ فرقہ آجکل بھی یمن میں موجود ہے۔
شیعہ کے کئی گروہ ایسے ہیں جو کفر اکبر کے مرتکب ہیں۔ جیسا کہ آجکل ایران عراق اور پاکستان میں شیعہ جنہیں امامیہ یا اثنا عشریہ کہتے ہیں۔ ان کے ہاں کتب اربعہ مصادر دین کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ کتب اربعہ یہ ہیں۔
۱۔ الکافی
۲۔ التھذیب
۳۔ الاستبصار
۴۔ من لا یحضرہ الفقیہ
ان کے چند عقائد ملاحظہ فرمائیں:
تحریف قرآن کا عقیدہ
قرآن کریم کے بارے میں امامیہ شیعہ کا عقیدہ ہے کہ قرآن جس طرح نازل ہوا تھا وہ اس طرح باقی نہیں رہا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تین یا چار کو چھوڑ کر تمام صحابہ مرتد ہو گئے اور انہوں نے قرآن میں کمی اور زیادتی کے جرم کا ارتکاب کیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ جن صحابہ نے قرآن کریم کو جمع کیا انہوں نے اس میں سے ’’علی‘‘ اور ’’آل محمد‘‘ کے الفاظ کو کئی مقامات سے حذف کیا اور اسی طرح کئی منافقین کے نام بھی قرآن مجید سے نکال دیے۔ (حیات القلوب للمجلسي :541/2، تفسیر الصافي، المقدمۃ السادسۃ للکاشاني)
شیعہ مذہب کے مطابق جو قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا اس کی آیات کی تعداد ایک روایت کے مطابق 17ہزار (الکافي:134/2) جبکہ موجودہ قرآنی آیات کی تعداد ۶۲۳۶ ہے۔ (تفسیر مجمع البیان للطبرسی)
گویا شیعہ قوم کے نزدیک دو تہائی قرآن ضائع ہو چکا۔ شیعہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کے بارے میں ایک سورت نازل فرمائی تھی۔ جس کا نام ’’سورۃ الولایۃ‘‘ تھا۔ (فصل الخطاب للنوري:180، تذکرۃ الائمۃ لمحمد باقر المجلسي:9,10)
’’نظریہ امامت‘‘
شیعہ نظریہ کے مطابق جس طرح نبوت اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ایک منصب ہے اسی طرح امامت بھی الٰہی منصب ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں
((الامامۃ منصب الھي کالنبوۃ)) ’’امامت نبوت کی مانند الہی منصب ہے‘‘ (أصل الشیعۃ واصولھا:58)
امام جعفر فرماتے ہیں: ((بنی الاسلام علی خمس: علی الصلاۃ والزکاۃ والصوم والحج والولایۃ ولم یناد بشیء کما نودي بالولایۃ)) (أصول الکافی :18/2)
اسلام پانچ بنیادوں پر قائم ہے ۱۔ نماز، ۲۔ زکواۃ، ۳۔ روزہ، ۴۔ حج، ۵۔ ولایت۔ اور کسی چیز کی طرف اتنا زیادہ نہیں بلایا گیا کہ جتنا زیادہ ولایت کی طرف بلایا گیا ہے۔
شیعہ کا عقیدہ ہے کہ ان کے ائمہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے اور یہ کہ وہ وحی کے بغیر کلام نہیں کرتے۔ (بحار الانوار :237/54,155/17,358/26)
چنانچہ خمینی لکھتا ہے: ’’وان من ضروریات مذھبنا، ان لائمتنا مقاماً لا یبلغہ ملک مقربً ولا نبي مرسلً‘‘ (الحکومۃ الاسلامیۃ:52)
’’اور بے شک ہمارے مذہب کی ضروریات (میں یہ بات بھی شامل ہے) یہ کہ ہمارے ائمہ کے لئے وہ مقام ہے کہ جس تک نہ تو کوئی فرشتہ پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی نبی مرسل۔‘‘
امامیہ ’’عصمت ائمہ‘‘ کے عقیدے پر متفق ہیں۔ اس عقیدے سے ائمہ ہر صغیرہ و کبیرہ گناہ سے پاک ہیں۔ نہ تو وہ جان بوجھ کر گناہ کرتے ہیں اور نہ ہی ان سے بھول چوک میں گناہ سرزد ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ تاویل میں بھی خطا نہیں کھاتے۔ (بحار الانوار: 211/25، مرآۃ العقول: 352/4، أوائل المقالات: 276)
ان کے نزدیک امام سہو و نسیان میں واقع نہیں ہوتا۔ یہ شیعہ کا وہ مسئلہ ہے کہ جن پر ان کا اجماع ہے۔ (عقائد الامامیۃ للمظفر: 95، صراط الحق لآصف المحیسنی: 121/3)
شیعہ کا صحابہ کرام کے بارے میں عقیدہ
شیعہ کا عقیدہ ہے کہ صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے تھے۔ سوائے تین یا چار کے کوئی بھی ارتداد سے محفوظ نہ رہا۔ (السقیفۃ: 19، احقاق الحق و ازھاق الباطل: 316)
صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نفاق پر تھے۔ (احقاق الحق وازھاق الباطل: 3، تفسیر الصافی: 4/1)
ایسے عقائد کے حاملین ’’رافضہ‘‘ کے متعلق امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جس کسی نے یہ زعم رکھا کہ قرآن کی آیات کم ہو گئی ہیں یا چھپا لی گئی ہیں یا اس زعم میں مبتلا ہوا کہ قرآن کی ایسی باطنی تاویلات ہیں کہ جو مشروع اعمال کو ساقط کر دیتی ہیں تو ایسوں کے کفر میں کوئی اختلاف نہیں۔
اور جس کسی نے یہ زعم رکھا کہ سوائے چند صحابہ کے جو کہ دس اور کچھ کی تعداد کو بھی نہیں پہنچتے باقی تمام صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتد ہو گئے تھے یا یہ کہ ان کے عام افراد فاسق ہو گئے تھے۔ تو ایسے کے کفر میں بھی کوئی شک نہیں ہے کیونکہ یہ شخص ان آیات کو جھٹلانے والا ہے جن میں صحابہ کرام کی تعریف کی گئی ہے اور اللہ نے صحابہ کرام سے اپنی رضا مندی کا اعلان کیا ہے۔ ایسے کے کفر میں بھی بھلا کون شک کر سکتا ہے؟ اس کا کفر تو متعین ہے۔ یہ قول کہنے والے کا خلاصہ یہ ہے کہ کتاب و سنت کو نقل کرنے والے کفار یا فساق ہیں۔
یہ قرآن کریم کی اس آیت [کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ …] ’’تم بہترین امت ہو‘‘ (آل عمران: ۱۱۰) کا صریح انکار ہے۔
یقیناً اس امت کا سب سے بہترین حصہ پہلی صدی میں تھا اور اگر یہ مانا جائے کہ ان کے عوام کفار یا فساق تھے (تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ) یہ امت سب امتوں میں بدترین امت ہے اور اس کے پہلے لوگ اس کے شریر ترین تھے۔ اس قول کا کفر ہونا ان امور میں آتا ہے کہ جو معلوم من الدین بالضرورۃ ہیں۔ [الصارم المسلول 586,587]

’’اتحادیہ و وجودیہ‘‘
وحدت الوجود اور حلول ابن عربی اور دیگر غالی صوفیاء کی بدعت ہے۔ ابن عربی کے نزدیک کائنات کا وجود اللہ کے وجود سے غیر نہیں مخلوق کا وجود عین وجودِ رب ہے کیونکہ اُس کا کہنا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی چیز موجود ہی نہیں۔ اس کے بارے میں سلف و خلف کا موقف ملاحظہ فرمائیں:
ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’پھر اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ جس کسی نے ابن عربی کے عقیدے کے درست ہونے کا عقیدہ رکھا تو ایسا آدمی بغیر کسی اختلاف کے بالاجماع کافر ہے۔ اختلاف اور کلام صرف اسی وقت ہے جب وہ اپنے کلام کی ایسی تاویل کرتا ہو جو اس کے مقصد کے اچھا ہونے کا تقاضا کرتی ہو…۔
علامہ ابن المقری رحمہ اللہ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ جس نے یہود و نصاریٰ اور ابن عربی کے طائفہ کے کفر میں شک کیا تو وہ کافر ہے، یہ ایک ظاہری معاملہ اور واضح حکم ہے۔ رہی بات اس شخص کی جس نے توقف کیا تو وہ اپنی اس بات میں معذور نہ ہو گا بلکہ اس کا توقف کرنا اس کے کفر کا سبب ہے۔
دار الاسلام کے حکمرانوں پر واجب ہے کہ جو بھی یہ فاسد نظریات اور باطل تاویلات رکھتا ہو اس کو جلا دیں کیونکہ یہ ان لوگوں سے بھی زیادہ نجس ہیں جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے الٰہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور علی رضی اللہ عنہ نے ان کو جلا دیا تھا۔
اسی طرح ان کی لکھی ہوئی کتابوں کو بھی جلانا واجب ہے۔ اور ہر آدمی پر واجب ہے کہ وہ ان کی مخالفت کے فساد کو واضح کرے کیونکہ علماء کا سکوت اور آراء کا اختلاف اس فتنے کے پھیلنے کا سبب بن گیا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اچھے خاتمے کا سوال کرتے ہیں۔ آمین‘‘ (الردعلی القائلین بوحدۃ الوجود :۱۵۵،۱۵۶)
ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ابن فارض نے جو قصیدہ میمیّہ لکھا اس کو اگر ظاہری معانی پر محمول کریں تو وہ سب کلمات کفریہ ہیں اور جو شخص مذاق میں بھی کفر کا کلمہ کہے تو کافر ہے۔‘‘ (شرح فقہ اکبر ،ص :۲۳۱)
امام ذہبی رحمہ اللہ ابن عربی کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ابن عربی نے وحدۃ الوجود والوں کے تصوف کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور اس کی تصانیف میں سے سب سے گھٹیا تصنیف الفصوص ہے اگر اس میں کفر نہیں تو پھر دنیا میں کہیں کفر ہے ہی نہیں۔‘‘ (سیر اعلام النبلاء ۲۳/۴۸)
بعض صوفیا نے اصطلاح ’’وحدۃ الوجود‘‘ کو تو قبول کیا لیکن اس کے قائلین کو دو جماعتوں میں منقسم کیا ہے ایک تو وہ جماعت ہے جو وحدۃ الوجود کے شرکیہ مفہوم کو مانتی ہے اس کو جاہل صوفیوں کا نام دیا ہے جبکہ دوسری جماعت وحدۃ الوجو د کے شرکیہ معنی و مفہوم کا رد کرتے ہوئے درست معنی بیان کرتی ہے ان کو محققین صوفیاء کہتے ہیں
وحدت الوجود کے بارے میں دارالافتاء دارالعلوم دیوبند انڈیا کا موقف
وحدۃ الوجود صوفیہ کی اصطلاح ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود کامل ہے اور اس کے بالمقابل تمام ممکنات کا وجود اتنا ناقص ہے کہ کالعدم ہے۔ عام محاورہ میں کامل کے مقابلہ میں ناقص کو معدوم سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسے کسی بڑے علامہ کے مقابلہ میں تعلیم یافتہ کو یا کسی مشہور پہلوان کے مقابلہ میں معمولی شخص کو کہا جاتا ہے کہ یہ تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں، حالانکہ اس کی ذات اور صفات موجود ہیں، مگر کامل کے مقابلہ میں انہیں معدوم قرار دیا جاتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے وجود کامل کے مقابلہ میں تمام مخلوق کے وجود کو حضرات صوفیہ معدوم قرار دیتے ہیں۔
تقریر بالا سے معلوم ہوا کہ وحدۃ الوجود کے یہ معنی نہیں کہ سب ممکنات کا وجود اللہ تعالیٰ کے وجود سے متحد ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وجود کامل صرف واحد ہے بقیہ موجودات کالعدم ہیں جیسے کہ کوئی بادشاہ کے دربار میں درخواست پیش کرے، بادشاہ اسے چھوٹے حکام کی طرف رجوع کا مشورہ دے اور یہ جواب میں کہے کہ حضور آپ ہی سب کچھ ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب حکام آپ سے متحد ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ کے سامنے سب حکام کالعدم ہیں۔
(سہ ماہی قافلہ حق کے مصنف مولانا محمد امجد سعید صاحب (دیوبندی)، اشرف الفتاویٰ، ڈاکٹر عبدالواحد مفتی جامعہ مدنیہ لاہور، حتیٰ کہ اہل حدیث علما کرام حافظ محدث عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام ابوالوفأ ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے وحدت الوجود کے یہی معنی بیان فرمائےہیں)

قبر پرست
ان کی کئی ایک بدعات کفر ہیں جیسے غیر اللہ کو مشکلات کے حل کے لیے پکارنا، انہیں اللہ رب العزت کی صفات سے متصف کرنا۔ وغیرہ۔
﴿وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ﴾ (المؤمنون: ۱۱۷)
’’اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی اور الہٰ کو پکارتا ہے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل نہیں، تو اس کا حساب اس کے رب کے سپرد ہے۔ ایسے کافر کبھی کامیاب نہ ہوں گے‘‘۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ درج ذیل آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں۔
’’پس جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ قبروں سے منت ماننا اللہ سے مرادیں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، یا اس سے مصائب دور ہوتے ہیں، رزق کھلتا ہے ،جان و مال و ملک کی حفاظت ہوتی ہے تو وہ مشرک بلکہ کافر ہے۔‘‘ (اصحاب صفہ اور تصوف کی حقیقت ص ۸۱)
لیکن قبر میں مدفون بزرگوں کو پکارنے کے مختلف مراتب ہیں جیسا کہ علامہ بکر ابو زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
زندہ شخص کا کسی فوت شدہ بزرگ کو پکارنے کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم : کسی زندہ کا مردے کو پکارنا، اس سے مشکلات میں مدد طلب کرنا یہ عمل شرک اکبر ہے جو ایسے ہی ہے جیسے بتوں کی پوجا کرنا اور اللہ کا شریک ٹھہرانا کیونکہ ایسا کرنے والے نے غیر اللہ کی پکار لگائی ہے اور اس سے مدد طلب کی ہے جبکہ اُس کا دل بھی اُس بزرگ کے ساتھ معلق ہے۔ ہم کتاب و سنت سے یہ بات جانتے ہیں کہ استغاثہ عبادت ہے اور اللہ کے سوا کوئی بھی مشکل کشا اور حاجت روا نہیں ہے۔ اِس شخص نے غیر اللہ سے اُس بات کی امید لگائی جس پر وہ قادر نہیں، اس لیے یہ شرک کا مرتکب ہے۔ چاہے یہ اس مردے کو دور سے پکارے یا قریب سے، اُس کی قبر کے پاس حاضر ہو کر پکارے یا اُس کے دربار کی کھڑکی یا دروازے سے پکارے یا دور دراز سے ہر صورت وہ شرک اکبر کا مرتکب ہے، البتہ دور سے پکارنے میں وہ ایک کفر یہ بھی کرتا ہے کہ اُس ولی کو عالم الغیب قرار دیتا ہے۔ اس قسم کی مثال میں یہ الفاظ ہیں : یا رسول اللہ، یا نبی اللہ، یا غوث مدد، یا علی، یا فاطمہ، یا حسن، یا حسین، یا عبدالقادر میری حاجت روائی کرو، میری مشکل کشائی کرو، میری مدد کرو، مجھ پر رحم کرو، میرے مریض کو شفا دو، میں آپ کے ذمے ہوں، میں آپ کی پناہ میں آتا ہوں اور اس طرح کے دیگر صریح الفاظ جن میں غیر اللہ کی پکار لگائی گئی ہو اس قسم میں آتے ہیں۔
دوسری قسم : زندہ کا مردے کو پکارنا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اُس کے لیے دعا کرے اس قسم کی مزید دو قسمیں ہیں:
۱۔ زندہ شخص مردے کو پکارے جبکہ وہ اُس کی قبر سے دور ہو۔
اس قسم کے شرک اکبر ہونے میں بھی مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے یہ وہی شرک ہے جو نصاریٰ نے مریم اور اس کے بیٹے عیسیٰ علیہما السلام کے ساتھ کیا، وہ انہیں پکارتے اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ لوگوں کے افعال و حالات سے واقف ہیں۔
۲۔ زندہ کا اللہ سے دعا کروانے کے لیے مردے کو اُس کی قبر کے پاس آ کر پکارنا۔
جیسے قبر پر جانے والے کا بزرگ کو مخاطب ہو کر یہ کہنا: ’’اللہ سے میرے لیے یہ اور یہ دعا کریں۔‘‘ یا یوں کہنا ’’میں آپ سے اللہ سے فلاں اور فلاں دعا کرنے کا سوال کرتا ہوں۔‘‘
مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یہ قسم ایک بدعت ہے اور اللہ کے ساتھ شرک اور غیر اللہ کی پکار تک پہنچانے کا وسیلہ ہے، جس سے لوگوں کے دل اللہ کی بجائے مخلوق سے جڑ تے ہیں۔ البتہ یہ اُس وقت شرک اکبر بن جائے گی جب قبر والے کو پکارنے والا مشرکین مکہ کی مانند اسے اللہ کے ہاں سفارشی اور شرکیہ واسطہ بنائے (وہ اس طرح کہ وہ ان کی عبادت شروع کر دے) جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
﴿مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ﴾ (الزمر: ۳)
’’اور ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔‘‘ (تصحیح الدعا :۲۴۸۔۲۵۱)
اس قسم کے شرک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ممکن ہے بعض احادیث (جیسا فرمایا کہ مردہ دفنانے والوں کے جوتے کی چاپ سنتا ہے) سے کوئی اس غلط فہمی کا شکار ہو جائے کہ مردے کی قبر پر آکر اُس سے اللہ سے دعا کی درخواست کی جائے تو وہ میری بات سن سکتا ہے یہ عمل شرک نہیں البتہ شرک اور غیر اللہ کی پکار تک پہنچانے کا وسیلہ ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ مردے سے دعا کروانے کا کتاب و سنت سے کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔

’’خوارج‘‘
وہ سب سے پہلا فرقہ ہے جس نے گمراہی اختیار کی۔ یہ لوگ بہت زیادہ عبادت اور قرآن کی تلاوت کرنے والے تھے۔ ظاہراً ان کا مقصد قرآن مجید کی اتباع تھا مگر قرآن کے مفہوم کی بے جا تاویلات کرتے تھے اور اپنی رائے کو مقدم رکھتے تھے انہوں نے سنت اور فہم صحابہ کو کوئی اہمیت نہ دی قرآن مجید کی آیت کا مفہوم سمجھا اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔ جنہوں نے اس آیت کو ان سے مختلف انداز میں سمجھا انہیں کافر قرار دیا اور انہیں قتل کیا۔ حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا فہم ان کے فہم سے بہتر تھا۔ اور جو کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے سمجھا تھا وہی حق تھا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہ اترے گا۔ یہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔ اگر میں انہیں پائوں تو قوم عاد کی طرح انہیں قتل کروں‘‘ (بخاری ۳۳۴۴۔ مسلم ۱۰۶۴)
عبیداللہ بن ابی رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’خارجیوں نے کہا: لا حکم الا للہ۔ اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’یہ کلمہ حق سے باطل مفہوم اخذ کر رہے ہیں‘‘ (مسلم ۱۰۶۶)
’’خوارج‘‘ لا حکم الا للہ کہہ کر علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما اور ان کے مومن ساتھیوں کو کافر اور واجب القتل قرار دے رہے تھے گویا کلمہ حق سے ایک باطل مفہوم لے رہے تھے۔
ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’خوارج‘‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کرام کو کافر کہتے تھے۔ ان پر سب و شتم کرتے اور انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔ مگر صحابہ کرام انہیں کافر اور مشرک قرار نہیں دیتے تھے۔ خوارج کی شدت کا اندازہ کیجئے کہ سیدنا علی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک اونچی آواز سے کہتا ہے ’’لئن اشرکت لیحبطن عملک‘‘ (اگر آپ شرک کریں گے تو آپ کے اعمال برباد ہو جائیں گے، یعنی اس نے یہ کہا کہ آپ مشرک ہیں اور آپ کی یہ نمازیں کسی کام کی نہیں ہیں)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز ہی میں فرمایا: ’’فاصبر ان وعد اللہ حق‘‘ صبر کرو اللہ کا وعدہ حق ہے۔ (طبری،ج:۵، ص:۵۴، حاکم، ج:۳، ص:۱۴۶)
ان کے بارے میں صحیح بخاری میں منقول ہے کہ
’’لا یجاوز ایمانھم حناجرھم یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ فاینما لقیتموھم فاقتلوھم۔‘‘
ان کا ایمان ان کے نرخرے سے آگے نہیں بڑھے گا، وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ تم انہیں جہاں پائو قتل کر دو۔
صحابہ کرام نے ان کو فرمان نبوی کے مطابق قتل کیا۔ مگر مسیلمہ کذاب کے ساتھیوں کا سا معاملہ ان کے ساتھ نہیں کیا۔ ان کے اموال کی حرمت کو بھی تسلیم کیا اور اس کو تقسیم نہیں کیا۔
بلکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: امشرکون ھم؟ قال: من الشرک فروا، قیل فمنافقون؟ قال ان المنافقین لا یذکرون اللہ الا قلیلا، قیل: فما ھم؟ قال: قوم بغوا علینا فقاتلنا ھم‘‘
’’کہ کیا وہ مشرک ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا شرک سے ہی تو وہ بھاگے ہیں۔ کہا گیا کیا وہ منافق ہیں؟ فرمایا: منافق تو اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں (مگر یہ ایسے نہیں، بڑے عبادت گزار ہیں) پوچھا گیا یہ پھر کون اور کیسے ہیں؟ فرمایا: انہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے اس لیے ہم نے ان سے قتال کیا ہے۔‘‘ (ابن ابی شیبہ رقم۳۷۹۴۲، بیہقی، ج:۸، ص:۱۷۴)
بلکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے قاتل عبدالرحمن بن عمرو بن ملجم الحمیری کے بارے میں فرمایا:
’’لا تقتلوا الرجل فان برئت فالجروح قصاص وان مت فاقتلوہ‘‘ کہ اسے قتل نہ کرنا اگر میں صحت یاب ہو گیا تو زخموں کا بدلہ لیا جائے اور اگر فوت ہو گیا تو پھر قصاص میں قتل کر دینا۔ (ابن ابی شیبہ، بیہقی وغیرہ)
لہٰذا جب صحابہ کرام نے انہیں اتنے جرائم کے باوجود کافر قرار نہیں دیا تو شرک اور کفر صریح کے علاوہ کسی بڑے سے بڑے جرم کی وجہ سے کسی کو کافر و مشرک کہنا اور انہیں خارج از ملت قرار دینا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟ (مقالات تربیت: ص ۱۹۲،۱۹۱)
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب خوارج کے ان مظالم کے باوجود ہمارے آئمہ نے عدل سے کام لیتے ہوئے انہیں کافر نہیں کہا تو ہمیں بھی کسی گروہ کو کافر اس بنیاد پر نہیں کہنا چاہیے کہ اس نے ہمارے علمائے کرام کو شہید کیا یا ہمارے مال کو لوٹا یا ہماری مساجد پر قبضہ کیا یا آگ لگائی، ہمیں عدل و انصاف کا دامن نہیں چھوڑنا ہے، صرف اسے ہی کافر کہنا ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے کافر کہا ہو کیونکہ تکفیر حکم شرعی ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’خوارج‘‘ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال کرنے کا حکم دیا اور امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ عملاً قتال کیا۔
خوارج کے ساتھ قتال پر صحابہ، تابعین اور ان کے بعد آنے والے متفق تھے۔ (لیکن اس کے باوجود) سیدنا علی، سیدنا سعد بن ابی وقاص اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے انہیں کافر قرار نہیں دیا اور انہیں مسلمان ہی سمجھا……یہ لوگ کہ جن کی گمراہی نص اور اجماع کے ذریعے ثابت ہے نیز اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ قتال کا بھی حکم دیا ہے جب یہ کافر قرار نہیں دیے گئے تو پھر اُن اختلاف کرنے والے گروہوں کی تکفیر کیسے درست ہو گی جن پر ایسے مسائل میں حق مشتبہ ہوا ہے کہ جن مسائل میں ان سے زیادہ علم والوں نے بھی غلطی کھائی ہے؟…‘‘ (مجموع الفتاویٰ : جلد۳ص۲۸۲)
امام ابن تیمیہ نے غیر کفریہ بدعت کی طرف دعوت دینے والے کی تکفیر کرنے کو غلط قرار دیا ہے۔ اس بات کی دلیل کے طور پر خوارج کو پیش کیا ہے جو اپنی بدعت کو سب سے زیادہ ظاہر کرنے والے بلکہ اس کی اساس پر قتال کرنے والے تھے مگر اس کے باوجود سیدنا علی اور دیگر صحابہ نے ان کی تکفیر نہیں کی، بلکہ انہیں ظالم اور حد سے نکلے ہوئے مسلمان قرار دیا۔ (مجموع الفتاویٰ: جلد۷، ص۲۱۷)
البتہ ’’خوارج‘‘ میں بھی بعض ایسے گروہ موجود تھے جنہیں علمائے کرام نے کافر اور اسلام سے خارج قرار دیا۔
امام ابو منصور بغدادی رحمہ اللہ نے خوارج کے دو فرقوں کا ذکر کیا جن میں سے ایک یزید بن ابی انیسہ خارجی کے پیروکار تھے جس نے دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ عجمیوں میں ایک رسول بھیجے گا جس پر کتاب نازل فرمائے گا اور وہ شریعت محمدیہ کو منسوخ کر دے گا۔ ان کا ایک فرقہ میمونیہ نے سورت یوسف کے قرآن ہونے کا یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ایسی سورت قرآن کس طرح ہو سکتی ہے جس میں داستان محبت بیان کی گئی ہو (الفرق بین الفرق بحوالہ اسلامی مذاہب)

’’مرجئہ‘‘
مرجئہ اسلام کی طرف منسوب وہ گروہ ہے جسے علمائے اہل سنت اسلام سے خارج قرار نہیں دیتے۔ بلکہ ان کے مختلف گروہ ہیں جن میں بعض شخصیات تو اہل سنت کے ائمہ میں شمار ہوتی ہیں انہیں مرجئہ الفقہاء کہا جاتا ہے، عمومی طور پر ان کے گروہ اہل سنت سے خارج ہیں، البتہ ان کے بعض غالی اسلام سے بھی خارج ہیں۔ تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
مرجئۃ السنۃ :
جنہیں مرجئۃ الفقہا اور مرجئۃ الکوفہ بھی کہا جاتا ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ، ان کے استاد حماد بن ابی سلیمان اور ان کے شاگرد اس گروہ میں شامل ہیں اور یہ گروہ اہل سنت میں سے شمار ہوتا ہے۔ یہ وہ فرقہ ہے جو کہتے ہیں کہ ایمان زبان کے اقرار اور دل کی تصدیق کا نام ہے۔ اور اعمال مثلا نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج ایمان میں سے نہیں ہیں۔ البتہ اعمال تقویٰ اور نیکی ہیں اور یہ مطلوب ہیں اور ان کا ادا کرنا مسلمانوں پر واجب ہے۔ اعمال کے بجا لانے والے کو ثواب اور چھوڑنے والے کو عذاب ہوتا ہے اور کبیرہ گناہ کے مرتکب پر حد قائم کی جائے گی لیکن وہ اس کو ایمان کا نام نہیں دیتے۔
علماء اہل سنت نے مرجئۃ الفقہاء کی جن باتوں کی تردید کی ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
(۱) ان کے نزدیک ایمان دل کی تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے عمل بالجوارح ایمان میں داخل نہیں۔
(۲) وہ کہتے ہیں کہ ایمان نہ کم ہوتا ہے اور نہ زیادہ۔
(۳) ان کے نزدیک کفر کرنے والا اس وقت تک کافر نہیں ہوتا جب تک کہ وہ کفر کا عقیدہ نہ رکھے یا کسی گناہ کو حلال نہ کر لے یا شریعت کی کسی معلوم بات کا انکار نہ کر دے۔
ائمہ اہل سنت نے ’’مرجئۃ الفقہاء‘‘ کا خوب رد کیا۔ اور ثابت کیا کہ عمل ایمان میں داخل ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود کسی نے بھی ان کو اہل سنت و الجماعت سے خارج نہیں کیا۔ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا مرجئۃ الفقہاء اہل سنت و الجماعت سے خارج ہیں؟ آپ فرماتے ہیں: ’’نہیں وہ اہل سنت و الجماعت سے خارج نہیں اسی لیے ان کو مرجئۃ السنۃ یا مرجئۃ اہل السنۃ کہا جاتا ہے۔ اہل سنت سے ان کا اختلاف ان کو دائرہ اہل سنت سے باہر نہیں نکالتا۔ البتہ یہ ان کی خطاء ہے کہ وہ کہتے ہیں عمل ایمان میں داخل نہیں۔‘‘ (الموقع الرسمی لمعالی صالح بن فوزان)

دیگر گروہ
اکثر مرجئہ کی رائے میں عمل ایک بے کار سی چیز ہے جس کا دخول جنت و جہنم سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے ایمان کی حقیقت کو ہی بدل ڈالا۔ ان کے چند گروہ درج ذیل ہیں۔
’’مرجئۃ القدریہ‘‘ :
مرجئہ کا وہ گروہ جنہوں نے قدریہ کے عقائد اختیار کرتے ہوئے تقدیر کا انکار کیا۔
’’مرجئۃ الکرامیہ‘‘ :
ان کا کہنا ہے کہ ایمان صرف زبان سے اقرار کا نام ہے چاہیے دل سے تصدیق نہ بھی کی جائے۔
’’مرجئۃ خالصۃ‘‘ :
اس گروہ نے ’’ارجاء‘‘ کے علاوہ باقی مسائل پر کلام نہیں کیا۔
’’غلاۃ المرجئۃ‘‘ :
ان کا کہنا ہے کہ ایمان صرف دل کی معرفت کا نام ہے چاہے زبان سے تصدیق نہ بھی کی جائے۔ اور جہمیہ کی طرح انسان کو مجبور محض قرار دیا جس میں نہ ارادہ ہے نہ قدرت۔ یہ مرجئہ کا وہ گروہ ہے جو کفر اکبر میں واقع ہوا۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ان کے ہاں ایمان کا تعلق دل سے ہوتا ہے زبان سے کفر کا اعلان کرنے، بتوں کی پوجا کرنے یا صلیب کی عبادت کرنے سے بھی ایمان جوں کا توں رہتا ہے اگر کوئی شخص دارالسلام میں رہتے ہوئے یہودی، عیسائی بن جائے یا وہ تثلیث کا عقیدہ رکھتا ہو اور اسی حالت میں مر جائے تو وہ اللہ کے ہاں کامل مومن ہو گا۔‘‘ (کتاب البرھان للسکسکی ص:۳۳، فصل فی الملل و النحل ابن حزم)
سلف میں سے امام نافع، وکیع، ابو عبید، احمد بن حنبل اور حمیدی رحمھم اللہ نے ان کو کافر کہا۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے فتاویٰ ابن تیمیہ:۷/۱۸۹۔۱۲۰)

’’جہمیہ‘‘
اس فرقے کا بانی ’’جہم بن صفوان‘‘ تھا اس کا عقیدہ تھا کہ انسان اپنے افعال میں مجبور محض ہے نہ اس میں قدرت پائی جاتی ہے نہ ارادہ اور نہ اختیار۔ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ نے انسان کو جبرا گناہوں پر لگا رکھا ہے۔ ایمان کے بارے میں اس کا عقیدہ تھا کہ ایمان صرف معرفت کا نام ہے جو یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف سے با خبر ہیں وہ مومن ہیں یہ فرقہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا منکر تھا۔ یہ کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو ان اوصاف سے متصف نہیں کیا جا سکتا جن کا اطلاق مخلوق پر ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا انکار کرنا توحید ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ’’جو کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ علم و قدرت رکھتا ہے، یا اُسے آخرت میں دیکھا جائے گا، یا یہ کہے کہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل ہونے والا کلام ہے جو مخلوق نہیں، جہمیہ کے نزدیک وہ شخص موحد نہیں بلکہ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دینے والا یعنی مُشَبَّہ ہے۔‘‘ (مجموع الفتاوی:۳/۹۹)
’’جہمیہ‘‘ کا کہنا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تمام صفات مخلوق ہیں، وہ ایک ایسے خیالی خدا پر ایمان رکھتے ہیں جس کا تصور کرنا ذہن ہی میں ممکن ہے کیونکہ حقیقت میں جو بھی چیز وجود رکھتی ہے اُس کی صفات ہوتی ہے۔ صفات سے علیحدہ کسی ذات کا حقیقت میں وجود نہیں ہے۔ صفات کے انکار میں غلو کا یہ حال تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں یہ بھی کہنا جائز نہیں سمجھتے تھے کہ اللہ ایک شيء (چیز) ہے۔
امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جہم‘‘ کا کہنا تھا: اللہ تعالیٰ کو شيء کہنا جائز نہیں، کیونکہ شيء اُس مخلوق کو کہتے ہیں جس جیسا کوئی اور پایا جاتا ہو۔ جبکہ تمام مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ شيء ہے مگر وہ دیگر اشیاء کی مانند نہیں ہے۔‘‘ (مقالات الاسلامیین ۱/۲۵۹)
اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّـهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ﴾ (الانعام :۱۹)
’’پوچھیے سب سے بڑھ کر سچی گواہی کس شَيْءٍ کی ہو سکتی ہے؟ کہہ دیجیے اللہ کی جو میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے۔‘‘
حقیقت میں ’’جہمیہ‘‘ کا اللہ کے اسماء و صفات کا عقیدہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’تعطیل‘‘ کرنے والے ’’جہمیہ‘‘ کا عقیدہ حقیقت میں وہی عقیدہ ہے جو فرعون کے ہاں پایا جاتا تھا۔ وہ خالق، اُس کے کلام اور دین کا انکار کرتا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے:
﴿مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرِيْ﴾ (القصص: ۳۸)
﴿فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى﴾ (النٰزعٰت: ۲۴)
"فرعون ’’جہمیہ‘‘ کی طرح موسی علیہ السلام کے اللہ سے ہم کلام ہونے کا انکاری تھا، اسی طرح وہ اس بات کا منکر بھی تھا کہ آسمانوں کے اوپر موسیٰ علیہ السلام کا کوئی معبود ہے۔" (مجموع الفتاوی۱۳/۱۸۵)
اسی لیے’’جہمیہ‘‘ کے عقیدہ نے حلول کی بنیاد رکھی جو کہ اللہ رب العالمین کے ساتھ صریح کفر ہے :
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’جہمیہ کے جمہور عبادت گزار صوفیاء حلول کے عقیدہ کا اظہار کرتے تھے … اس لیے اللہ کی صفات کی نفی کرنے والے جہمیہ شرک کی ایک قسم میں داخل ہیں۔ ہر معطل (صفات کا انکار کرنے والا) مشرک ہوتا ہے جبکہ ہر مشرک کا معطل ہونا ضروری نہیں ہے، جہمیہ کا عقیدہ تعطیل کو لازم کرتا ہے۔‘‘ (درء التعارض ۱۰/۲۸۸،۲۸۹ )
سلام بن ابی مطیع رحمہ اللہ کہتے ہیں جہمیہ کفار ہیں۔ یزید بن ہارون رحمہ اللہ کہتے ہیں جہمیہ کفار ہیں (الرد علی الجہمیۃ :111)
البتہ وہ لوگ جو ’’جہمی‘‘ عقائد سے متاثر تو ہیں مگر غالی نہیں، ملت اسلام سے خارج نہیں ہیں بلکہ اُن کا شمار ۷۲ گروہوں میں ہوتا ہے۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’امام احمد رحمہ اللہ نے جہمیہ کے (تمام) اعیان کو کافر نہیں کہا، نہ ہر اس شخص کو کافر کہا کہ جس نے یہ کہا کہ وہ جہمی ہے ۔نہ اسے کہ جس نے جہمیہ کی بعض بدعات میں ان کی موافقت کی۔ بلکہ آپ نے (قرآن کو مخلوق کہنے والے) اُن جہمیہ کے پیچھے نماز پڑھی جو اپنی بدعت کی طرف بلانے والے، اس پر لوگوں کا امتحان لینے والے اور جو ان کی موافقت نہ کرے اس کو سخت سزائیں پہنچانے والے تھے۔ آپ ان کو مومن مانتے اور ان کی امارت تسلیم کرتے اور انکے لیے دعا کرتے تھے۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ: 507,508/7)
’’معتزلہ‘‘ نے ان کی ہم نوائی کرتے ہوئے صرف صفت کلام کی نفی کی اور قرآن مجید کو مخلوق کہا۔

’’اشاعرہ‘‘
’’اشاعرہ‘‘ کے عمومی طور پر وہی عقائد ہیں جو اہل سنت والجماعت کے عقائد ہیں البتہ کئی ایک امور میں وہ اہل سنت سے الگ ہوئے ہیں :
٭ کتاب و سنت کو علم الکلام کے قواعد کی بنیاد پر پرکھتے ہیں۔
٭ خبر آحاد کو عقیدہ میں حجت نہیں مانتے۔
٭ اللہ تعالیٰ کی صفات خبریہ کی تاویل کرتے ہیں۔
٭ مسئلہ ایمان میں اعمال کو ایمان سے خارج کیا۔
اللہ تعالیٰ کے علو کا انکار ……جہمیہ اور اشعریہ کے مابین فرق
جہمیہ اللہ کی صفت علوّ (بلند ہونا) کو تسلیم نہیں کرتے اور بعض سلف نے اسی سبب سے ان کے کفر کی تصریح کی ہے۔ اور اشاعرہ نے بھی اس صفت میں غلطی کھائی۔ لیکن ان دونوں کی غلطی میں کچھ بنیادی فرق ہے:
(الف) : جہمیہ کا انکار تعطیل پر مبنی ہے جبکہ اشاعرہ کا انکار تاویل کے ساتھ ہے۔
اشاعرہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو تسلیم کرتے ہیں البتہ بعض صفات کی وہ تاویل کرتے ہیں۔ تاویل کا معنی علماء نے یوں بیان کیا ہے :
((صرف اللفظ عن ظاھرہ)) (شرح عقیدۃ الواسطیہ لابن عثیمین)
’’لفظ کو اس کے ظاہری معنوں سے کسی اور معنی کی طرف پھیرنا۔‘‘
جس طرح اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تاویل کرنا
﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ (طہ:۵)
یہاں ’’استویٰ کا عربی زبان میں معنی ’’بلند ہونے‘‘ اور ’’قرار پکڑنے‘‘ کے ہیں لہٰذا اگر کوئی استویٰ کا معنی بلند ہونے کی بجائے ’’استولیٰ‘‘ غالب ہوا کرتا ہے تو اس کی یہ تاویل ہے اور مذموم ہے کیونکہ اس دوسرے معنی کے مراد لیے جانے پر کوئی شرعی یا لغوی دلیل دلالت نہیں کرتی۔
(ب) : جہمیہ حلول و اتحاد کی طرف گئے ہیں جبکہ اشاعرہ اس کے قائل نہیں۔
جہمیہ کہتے ہیں: اللہ عرش پر نہیں ہے بلکہ وہ ہر جگہ میں ہے، یہ عقیدہ حلول کی بنیاد ہے جبکہ اشاعرہ کا کہنا ہے کہ : اللہ تعالی اُس وقت موجود تھا جب کوئی مکان نہ تھا اور وہ اب بھی اسی حالت میں ہے جس حالت میں مکان کو پیدا کرنے سے پہلے تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے لیے جہت کا اثبات نہ کرنے کے یہ معنی نہیں کہ وہ ہر جگہ میں حلول کر گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جہمیہ کی بدعت کفریہ اور اشاعرہ کی بدعت غیر کفریہ ہے۔
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ اسی مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بدعت یا تو مکفرہ ہوتی ہے پھر مفسقہ جو کہ درجہ کفر تک نہیں پہنچتی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا انکار کر دیتا ہے تو اس کی بدعت یقینا کافر کر دینے والی ہے کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تکذیب ہے۔ پس ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی کسی صفت یا اسم کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہے کیوں کہ وہ اللہ اور اُس کے رسول کو جھٹلانے والا ہے۔
ایک دوسرا آدمی وہ ہے جو اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا تو اقرار کرتا ہے لیکن کہتا ہے کہ استوی کا معنی غلبہ پانا ہے۔ اس کی بدعت مفسقہ ہے یعنی کفر تک نہیں پہنچتی۔ البتہ اگر وہ اس صفت کا صرف یہی معنی جانتا ہے (یعنی اُسے کسی نے اس کا درست معنی نہیں بتلایا اور وہ خود تحقیق کرنے کے بھی قابل نہیں)، یا وہ بحث و تحقیق کے بعد اسی معنی کو حق سمجھتا ہے تب اُسے فاسق بھی نہیں کہا جائے گا۔‘‘ (شرح نُزھۃ النظر لابن عثیمین :۲۵۵)
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اشاعرہ کے صفت علوّ کے انکار میں بہت سارے فاضل علماء نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔ جیسے حافظ ابن حجرؒ، امام نووی وغیرہ۔ اہل علم نے نہ صرف ان کی اس بات پر تکفیر نہیں کی بلکہ ان ائمہ کو عذر دیتے ہوئے ان کی امامت کو تسلیم کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’یہ کہنا کہ ہمارا رب آسمان دنیا کی طرف اترتا ہے۔ اس سے بعض لوگوں نے جہت کو ثابت کیا اور کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کی جہت، بلندی والی ہے۔ اور اس کا جمہور نے انکار کیا ہے۔ اس لیے کہ جہت کے اثبات سے لازم آئے گا کہ اللہ تعالی کو کسی نہ کسی جگہ نے گھیرا ہوا ہے۔ ‘‘(فتح الباری ۔۳۰؍۳)
جیسا کہ ابن بطال کہتے ہیں:
’’اللہ تعالی نہ تو خود جسم ہے اور نہ کسی جگہ کا محتاج ہے کہ جس میں وہ اتر سکے اور قرار پکڑ سکے۔ کیونکہ اللہ تعالی اس وقت بھی موجود تھا جبکہ کوئی جگہ نہ تھی اور اب بھی وہ اسی حالت پر ہی ہے۔ پھر اللہ نے مکان (جگہوں) کو پیدا کیا۔ لہٰذا یہ بات محال ہے کہ وہ مکان کو پیدا کرنے سے پہلے تو اس سے بے نیاز تھا، بعد میں وہ اس کا محتاج ہو گیا۔ یہ ناممکن ہے۔‘‘ (شرح صحیح بخاری لابن بطال۔۱۰؍۴۵۳)
امام شاطبی ’’کتاب الاعتصام‘‘ میں کہتے ہیں:
اللہ کے اعضاء (مثلاً آنکھ، ہاتھ، قدم، چہرہ، محسوسات، جہت وغیرہ جیسی حادث چیزیں جو مخلوقات کے لیے ہوتی ہیں) کو ثابت کرنا ظاہریوں کا مذہب ہے۔ (اور اللہ تعالی نقائص سے پاک ہے) (الاعتصام۔۳۰۵؍۱)
امام ابن حجر، ابن بطال اور امام شاطبی رحمہ اللہ کا یہ کلام اس اعتبار سے درست ہے کہ بے شک اللہ تعالی کو مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں گھیر سکتی بلکہ وہ ہر چیز پر محیط ہے اور اس سے اوپر ہے۔ لیکن اشاعرہ اور ان کے موافقین کی خطأ کا سبب یہ ہے کہ وہ سمجھنے لگے کہ اللہ تعالی اپنے لیے جو صفت علوّ (بلندی) ثابت کرتے ہیں، اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ مخلوق جہات میں سے کسی جہت میں گھرا ہوا ہے۔ چنانچہ انہوں نے صفت علوّ کو اپنے حقیقی معنی سے پھیر دیا۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے گمان کے مطابق تعارض کو دور کر رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے نصوص کے درمیان تطبیق دی ہے۔ حالانکہ اسی دوران وہ ایک زبردست غلطی میں بھی واقع ہو گئے۔ یعنی ایسی چیز کی تاویل کر بیٹھے جس میں تاویل کرنا سنت رسول سے ثابت نہیں۔
قرآن و حدیث کی صریح نصوص میں بار بار ایسی باتیں آئی ہیں جن سے صفت علوّ ثابت ہوتی ہے۔ اور یہ ثبوت ایسا ہے کہ تاویل یا تشکیک کی گنجائش نہیں رہتی۔ چنانچہ اس حالت میں ہمارا فریضہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے لیے ایمان و تسلیم کے ساتھ وہ چیز ثابت کریں جو اللہ تعالی نے بذات خود اپنے نفس کے لیے ثابت کی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی مخلوقات کا محتاج نہیں۔
اشاعرہ کے گمان کے مطابق صفت علوّ کے اثبات سے اللہ کی ہستی کی تحدید، تجسیم اور اس کا جگہ گھیرنا لازم آتا ہے۔ چنانچہ وہ اللہ تعالی کو جہتوں اور جگہوں کے گھیرنے سے پاک قرار دینا چاہتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ علوّ کے وصف کا مطلب یہ ہے کہ کسی جہت نے اللہ کو گھیرا ہوا ہے۔ چنانچہ جو اللہ کی صفت علوّ کو ثابت کرے وہ اس کو فرقہ مجسمہ یا مشبہہ میں سے قرار دیتے ہیں۔
ان کے تاویل کی وجہ یہ کوشش تھی کہ اللہ کو عیبوں سے پاک قرار دیا جائے۔ اور یہی سبب ہے جس کی وجہ سے انہوں نے بعض دیگر صفتوں کی بھی تاویل کی۔
وہ اپنی اس غلطی میں اس لیے واقع ہوئے کہ وہ گمان کرتے تھے کہ اللہ کا فرمان (لیس کمثلہ شیء) تقاضا کرتا ہے کہ ہم اللہ سے ہر اس صفت کی تاویل کریں جو مخلوق کے لیے ثابت ہے اگرچہ قرآن و حدیث سے وہ تاویل صراحۃ ً ثابت نہ بھی ہو اور اس کے وہ معنی بیان کریں جن سے تشبیہ لازم نہ آتی ہو۔
’’اشاعرہ‘‘ نے استواء، ید، عین، رجل وغیرہ جیسی صفات میں تاویل کی ہے ویسے ہی وہ صفت علوّ میں بھی تاویل کرتے ہیں۔ مثلاً وہ اللہ کے قول ﴿ءَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاءِ﴾ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ فرشتہ ہے جس کی ذمہ داری عذاب دینا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اشاعرہ کا صفت علوّ کی تاویل کرنا جہمیہ کی نفی سے مختلف ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ حکم لگانے میں بھی فرق کیا جائے یہی وجہ ہے کہ اشاعرہ کی ان تاویلات کے باوجود علمائے امت نے اُن کی تکفیر نہیں کی البتہ اس مسئلہ میں انہیں اہل سنت سے خارج قرار دیا ہے۔
اگر صفت علوّ میں تاویل کی وجہ سے اشاعرہ کی تکفیر جائز ہوتی تو تمام دیگر صفات کی تاویل پر بھی تکفیر جائز ہوتی، کیونکہ ان میں کوئی فرق نہیں۔ علماء کرام ہمیشہ اشاعرہ پر صفات کی تاویل کے مسئلے میں ردّ کرتے رہے ہیں اور صفات کے اثبات اور ان پر ایمان کے وجوب پر دلائل دیتے رہے ہیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی ان کی تکفیر ذکر نہیں کی۔ بلکہ امام ابن تیمیہ تو اشاعرہ کے بارے میں یہاں تک فرماتے ہیں: ((لیسوا کفارا باتفاق المسلمین)) (مجموع الفتاوی:۳۵/۱۰۱) ’’تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ کافر نہیں ہیں۔‘‘
اسماء و صفات میں ہر گمراہی اور غلطی سے انسان کافر نہیں ہوتا اسی بات کو امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں :
’’قد یغلط في بعض الصفات قوم من المسلمین فلا یکفرون بذلک‘‘
’’مسلمانوں میں سے بعض گروہ بعض صفات باری تعالیٰ میں غلطی کا شکار ہوتے ہیں وہ اس غلطی کی وجہ سے کافر قرار نہیں پاتے۔‘‘ (فتح الباری 604/6)
’’اشاعرہ‘‘ اور ’’ماتریدیہ‘‘ کی بابت علمائے امت کا موقف
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا "اشاعرہ‘‘ اور ’’ماتریدیہ‘‘ اہل سنت میں سے ہیں؟
البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہ اپنے کثیر عقائد میں اہل سنت والجماعت میں سے ہیں لیکن دیگر عقائد میں انہوں نے اہل سنت والجماعت سے انحراف کرتے ہوئے جبریہ یا انعزالیہ وغیرہ کا موقف اپنایا ہے۔ کتاب و سنت کی فہم سلف کے مطابق اتباع کا وہ منہج جس کی طرف ہم دعوت دیتے ہیں وہ اس پر نہیں ہیں۔ بلا شک و شبہ وہ صراط مستقیم سے کم یا زیادہ نکلے ہوئے ہیں، جس پر سلف صالح اور ان کی اتباع کرنے والے گامزن ہیں۔ پھر آپ کہتے ہیں:
أنا لا اریٰ أن نقول: أنھم لیسوا من أھل السنۃ والجماعۃ، اطلاقًا۔ ولا أن نقول اِنھم من أھل السنۃ والجماعۃ اِطلاقًا لأنھم کما قال اللہ عزوجل: ﴿وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّـهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ﴾ (التوبۃ:۱۰۲)
’’میرا خیال نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ وہ مطلق طور پر اہل سنت والجماعت میں سے نہیں ہیں۔ نہ ہی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مطلق طور پر اہل سنت والجماعت میں سے ہیں۔ کیونکہ وہ ایسے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
﴿وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّـهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ﴾ (التوبہ :۱۰۲)
’’کچھ دوسرے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا وہ ملے جلے عمل کرتے رہے کچھ اچھے اور کچھ برے امید ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول کر لے‘‘ (سلسلۃ الھدی والنور، رقم:۶۷۳ بحوالہ ’’التمییز في بیان أن مذھب الاشاعرۃ لیس علی مذھب السلف العزیز :۲۵۴)
علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الفرق المخالفۃ لأھل السنۃ متفاوتون في أخطائھم، فلیس الأشاعرۃ في خطئھم کالخوارج والمعتزلۃ والجھمیۃ بلاشک، ولکن ذلک لا یمنع من بیان خطأ الأشاعرۃ فیما أخطئوا فیہ …(مجموع الفتاویٰ والمقالات :۳/۵۴)
’’اہل سنت کے مخالف فرقوں کی خطائوں میں تفاوت (فرق) پایا جاتا ہے۔ پس بلا شک و شبہ اشاعرہ اپنی غلطی میں خوارج، معتزلہ اور جہمیہ جیسے نہیں ہیں۔ مگر یہ بات ان کی غلطی اور اہل سنت کی مخالفت کو بیان کرنے سے مانع نہیں ہے …‘‘
مزید فرماتے ہیں :
فالمتأول لبعض الصفات کالأشعریۃ لا یخرج بذلک عن جماعۃ المسلمین ولا عن جماعۃ أھل السنۃ فی غیر باب الصفات ،ولکنہ لا یدخل فی جماعۃ أھل السنۃ عند ذکر اثباتھم للصفات وانکارھم للتأویل۔ فالاشاعرۃ قأشباھھم لا یدخلون فی اھل السنۃ فی اثبات الصفات لکونھم قد خالفوھم وسلکوا غیر منھجھم …(تنبیھات ھامۃ علی ما کتبہ محمد علی الصابونی فی صفات اللہ عزوجل :۳۷۔۳۸)
’’اشاعرہ کی طرح اللہ کی بعض صفات میں تاویل کرنے والے نہ تو اسلام سے خارج ہیں اور نہ ہی صفات کے علاوہ بقیہ ابواب میں اہل سنت سے خارج ہیں البتہ تاویل کی وجہ سے اسماء و الصفات کے ابواب میں وہ اہل سنت سے خارج ہیں۔ پس اشاعرہ اور ان جیسوںنے اسماء الصفات کے مسئلہ میں اہل سنت کی مخالفت کی اور ان کے منہج سے ہٹ گئے۔
علامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ: کیا اشاعرہ اہل سنت والجماعت میں سے ہیں؟ آپ نے فرمایا:
الأشاعرۃ من أھل السنۃ فیما وافقوا فیہ أھل السنۃ والجماعۃ، وھم مخالفون لأھل السنۃ والجماعۃ في باب الصفات …فلا ینبغی أن نقول ھم أھل السنۃ علی الاطلاق ولا أن ننفي عنھم کونھم من أھل السنۃ علی الاطلاق، بل نقول ھم من أھل السنۃ فیما وافقوافیہ أھل السنۃ وھم مخالفون لأھل السنۃ فیما خالفوا فیہ أھل السنۃ ۔
فالتفصیل ھو الذي یکون بہ الحق، وقد قال تعالی: ﴿وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ﴾ (الانعام:۱۵۲) فاخراجھم مطلقًا من أھل السنۃ لیس من العدل، وادخالھم في السنۃ باطلاق لیس من العدل أیضًا والو اجب أن یعطی کل ذي حق حقہ ۔(لقاء ات الباب المفتوح :۱/۱۸۱)
’’اشاعرہ جس چیز میں اہل سنت والجماعت کی موافقت کرتے ہیں اسی میں وہ اہل سنت ہیں۔ انہوں نے صفات کے باب میں اہل سنت والجماعت کی مخالفت کی ہے …… ہم علی الاطلاق یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اہل سنت میں سے ہیں اور نہ ہی ہم علی الاطلاق اس کی نفی کر سکتے ہیں …اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
﴿وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ﴾ (الانعام:۱۵۲)
’’اور جب کچھ کہو تو انصاف سے کہو، خواہ بات تمہارے کسی قریبی سے متعلق ہو۔‘‘
انہیں مطلق طور پر اہل سنت سے خارج کرنا عدل کے خلاف ہے اسی طرح انہیں سنت میں مطلق طور پر داخل کرنا بھی عدل نہیں ہے۔ ہر ذی حق کو اس کا حق دینا واجب ہے۔‘‘
شیخ عبدالرزاق عفیفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الأشاعرۃ والماتردیۃ من أھل السنۃ فیما وافقوا فیہ أھل السنۃ لا علی العموم (فتاوی ورسائل الشیخ عبدالرزاق :۳۶۹)
’’اشاعرہ اور ماتریدیہ جن امور میں اہل سنت سے موافقت کرتے ہیں اُن میں وہ اہل سنت میں سے ہیں نہ کہ علی العموم۔‘‘
جو لوگ سلفیوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اشاعرہ کی تکفیر کرتے ہیں ان کا رد کرتے ہوئے فضیلۃ الشیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
أنَّ قولہ في الذین زعم نصحَھم أنھم یتَّھمون المسلمین بالشرک۔ وأنھم یُکفرون الصوفیۃ کافۃ والأشاعرۃ ھو افتراء ھم علیھم، وھم بُراء من ذلک، وعقیدتھم ھي عقیدۃ اھل السنۃ والجماعۃ، وأنھم لا یکفرون الا من کفَّرہ اللہ ورسولہ (الرد علی الرفاعی والبوطی :۳۸)
’’(بوطی کا) یہ کہنا کہ سلفی عام مسلمانوں کو مشرک کہتے ہیں اور وہ تمام صوفیوں اور اشعریوں کی تکفیر کرتے ہیں تو یہ اس کا سلفیوں پر جھوٹا الزام ہے۔ وہ اس تہمت سے بری ہیں۔ ان کا عقیدہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔ وہ اسی کی تکفیر کرتے ہیں جس کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تکفیر کی ہے۔‘‘
شیخ صالح المنجد ’’ماتریدیہ‘‘ کے بارے میں اہل سنت کا موقف یوں بیان فرماتے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ امت تہتر گروہوں میں بٹ جائے گی، ان میں سے ایک گروہ کے سوا باقی سب جہنمی ہیں اور اس الفرقہ الناجیہ سے مراد وہ جماعت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلے گی۔
یہ بات شک و شبہ سے بالا ہے کہ اہل سنت والجماعت ہی علمی اور عملی طور پر کتاب وسنت کو تھامنے والے ہیں اور یہی جماعت الفرقہ الناجیہ ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے منہج پر صحیح کاربند ہونے کا وصف انہی لوگوں میں نمایاں اور سب سے بڑھ کر ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کسی فرد یا جماعت کے فرقہ ناجیہ ہونے کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ محض اپنی نسبت سنت سے جوڑ لے اور اس کے بعد صحابہ وتابعین کے منہج اور طریقے کی مخالفت کرتا پھرے بلکہ فرقہ ناجیہ میں شمولیت کے لیے ضروری ہے کہ علم و عمل، فکر و تصور اور سلوک و تصوف ہر شعبے میں انہی کے منہج پر کاربند رہنے کی کوشش کی جائے۔
’’ماتریدیہ‘‘ ایسا گروہ ہے جس کے اقوال اور لٹریچر میں حق، باطل اور سنت مخالف باتیں موجود ہیں۔ اس قبیل کے دیگر گروہوں کی بھی یہی حالت ہے کہ حق سے قرب و بُعد میں وہ سب ایک دوسرے سے مختلف مراتب پر ہیں تو جو سنت کے زیادہ قریب ہے وہی حق کے زیادہ قریب ہے۔ ان میں سے کچھ نے دین کے بڑے اور بنیادی اصولوں میں سنت کی خلاف ورزی کی ہے اور کچھ نے دقیق امور میں۔ ان میں سے وہ بھی ہیں جنہوں نے اپنے علاوہ دیگر ایسے گروہوں کے باطل نظریات کی تردید کی ہے جو ان کی نسبت حق سے دور تھے تو باطل کی تردید اور حق بات کہنے کا ان کا یہ عمل قابل ستائش ہے۔ بسا اوقات یہ بھی ہوا ہے کہ تردید باطل میں عدل سے تجاوز کرتے ہوئے انہوں نے حق کی بعض باتوں کا انکار کر دیا اور کچھ غلط باتوں کا بھی اظہار کیا۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو گویا انہوں نے ایک بڑی بدعت کی تردید اس سے نسبتاً چھوٹی بدعت سے کی اور باطل کا ردّ ایسے باطل سے کیا ہے جو اس کی نسبت ہلکا اور معمولی ہے۔ یہ مؤخر الذکر حالت اکثر اہل کلام کی ہے جو خود کو اہل سنت والجماعت کہلاتے ہیں۔
اہم مسئلہ باقی رہ گیا کہ ماتریدیہ اور دیوبندیوں کی طرح عقائد میں ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کے حوالے سے ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
تو اس کا جواب مختلف اشخاص (اور جماعتوں) کے حوالے سے مختلف ہے، جو ان میں سے متعصب اور اپنی بدعت و گمراہی کا داعی ہے اس سے بچنا اور اس کی گمراہی کو عوام کے سامنے بیان کرنا ضروری ہے، البتہ جو شخص اس عقیدے کا حامل ہے مگر داعی نہیں اور اس کے قول و عمل سے حق بات کو تلاش کرنے اور اپنانے کی جھلک نظر آتی ہے تو اس کو نصیحت کی جائے گی، اس عقیدے کا بطلان اور فساد واضح کیا جائے گا اور احسن طریقے سے اسے راہِ حق کی رہنمائی مہیا کی جائے گی۔ شاید اللہ تعالیٰ اس کو حق کا راستہ دکھا دے۔ یہ خیر خواہی اور نصیحت و ارشاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی فرمان میں شامل ہے: ’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘ صحابہ نے عرض کی کس کے لیے؟ فرمایا: ’’اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلم حکمرانوں اور عام مسلمانوں کے لیے۔‘‘ (مسلم:۵۵) (الاسلام سوال و جواب:4248)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
معاصر تنظیموں سے تعامل کے حوالے سے چند ضوابط
کفر و شرک سے پاک معاصر جماعتیں اسلام سے خارج نہیں:
اللجنۃ الدائمۃ سعودی عرب سے عصر حاضر کی جماعتوں کے بارے میں سوال کیا گیا:
سوال:
اس وقت جو جماعتیں اور فرقے موجود ہیں، مثلاً الاخوان المسلمون کی جماعت، تبلیغی جماعت، انصار السنۃ المحمدیہ کی جماعت، جمعیۃ شرعیہ سلفی اور جو التکفیر و الہجرۃ والے کہلاتے ہیں، یہ سب اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سی جماعتیں مصر میں موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان سے متعلق ایک مسلمان کا کیا موقف ہونا چاہئے؟ کیا سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ان پر صادق آتی ہے کہ ان تمام فرقوں سے الگ رہو اگرچہ درخت کی جڑ چبانی پڑے، حتیٰ کہ موت آجائے اور تو اسی حال میں ہو۔
جواب :
الحمد للہ وحدہ والصلوۃ والسلام علیٰ رسولہ وآلہ وصحبہ وبعد:
ان تمام فرقوں میں حق اور باطل اور غلط اور صحیح پایا جاتا ہے، ان میں بعض دوسروں کی نسبت حق سے زیادہ قریب ہیں، ان میں خیر زیادہ اور فائدہ وسیع ہے۔ آپ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ صحیح کام میں تعاون کریں اور جو غلطی نظر آئے اس کے بارے میں نصیحت کریں اور مشکوک چیز کو چھوڑ کر غیر مشکوک کو اختیار کریں۔ وباللہ التوفیق وصلیٰ اللہ علیٰ نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم۔ (اللجنۃ الدائمۃ، فتاویٰ دارالافتاء سعودی عرب، جلد2، ص:158)

سوال:
موجودہ دور میں کئی جماعتیں اور پھر آگے ان کی کئی شاخیں موجود ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہ ’’فرقہ ناجیہ‘‘ میں شامل ہے۔ ہمیں معلوم نہیں ان میں سے کون حق پر ہے کہ اس کی اتباع کریں، جناب سے امید ہے کہ آپ ہمیں بتائیں گے ان میں سے بہتر زیادہ اچھی جماعت کون سی ہے تاکہ ہم حق کی پیروی کر سکیں، اس کے ساتھ دلائل بھی بیان فرما دیں۔
جواب:
الحمد للہ وحدہ والصلوۃ والسلام علیٰ رسولہ وآلہ وصحبہ وبعد:
یہ سب جماعتیں دائرہ اسلام میں شامل ہیں۔ سوائے ان کے جو کسی ایسے کفریہ عقیدہ یا عمل کے مرتکب ہوں جو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہو، لیکن ان کے درجات مختلف ہیں جس طرح حق کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے اور دلائل کے سمجھنے میں غلطی کرنے اور کوتاہیوں میں وہ مختلف درجات پر ہیں۔ ان میں سے زیادہ ہدایت یافتہ وہ ہے جس نے دلیل کو زیادہ بہتر طور پر سمجھا اور بہتر طور پر اس کے مطابق عمل کیا لہٰذا ان کے نقطہ ہائے نظر کو سمجھیں اور اس کا ساتھ دیں جو حق کا زیادہ متبع اور زیادہ اختیار کرنے والا ہے اور دوسرے مسلمان بھائیوں پر زیادتی نہ کریں کہ ان کا جو مسئلہ صحیح ہو اس کو بھی رد کریں۔ بلکہ حق کی پیروی کریں وہ جہاں بھی ہو، اگرچہ سچی بات اس شخص کی زبان سے ظاہر ہو جو بعض مسائل میں آپ سے اختلاف رکھتا ہو۔ حق مومن کا رہنما ہوتا ہے اور حق و باطل میں فیصلہ کرنے والی چیز قرآن و سنت کی دلیل ہی ہے۔ وباللہ التوفیق وصلیٰ اللہ علیٰ نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم۔ (اللجنۃ الدائمہ، فتاویٰ دارالافتاء سعودی عرب، جلد 2، ص: 159)
کسی جماعت کی طرف منسوب شخص کے بدعت یا کفر میں واقع ہونے سے اس کی جماعت پر فتویٰ نہ لگایا جائے۔
ارشاد ربانی ہے:
﴿وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ﴾ (الانعام:۱۶۴)
’’اور جو کوئی برا کام کرے گا اس کا بار اسی پر ہو گا، کوئی شخص کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔‘‘
ڈاکٹر زیدبن عبدالکریم زید حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’کسی جماعت کو اس لیے تنقید کا نشانہ بنانا کہ اس جماعت کی طرف منسوب فلاں شخص غلطی میں واقع ہوا ہے درست نہیں۔ یہ غلطی اس جماعت کے رئیس یا کسی بڑے سے ہی سرزد کیوں نہ ہوئی ہو اِس غلطی کو جماعت کی غلطی قرار دینا عدل کے منافی ہے۔ کیونکہ وہ اس کے ہر قول و فعل کی ذمہ دار نہیں ہے۔ اس کا ذمہ دار وہ خود ہے۔ جو شخص کسی اسلامی جماعت میں اس کے بعض کارکنان کی غلطی کی وجہ سے عیب نکالتا ہے اس کی مثال اُن لوگوں جیسی ہے جو مسلمانوں کی غلطیوں کی وجہ سے اسلام میں عیب نکالتے ہیں۔ اس لیے لوگوں کو کیا ہم یہ جواب نہیں دیتے کہ اسلام کے دعویداروں کی بجائے اُس اسلام کو دیکھو کہ جسے قرآن و سنت پیش کرتا ہے۔‘‘ (ضوابط رئیسیۃ في تقویم الجماعات الاسلامیہ)
شیخ ابو ابراہیم العدنانی حفظہ اللہ اس پر تعلیق لگاتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اگر وہ جماعت اپنے قائد یا کارکن کی غلطی سے برأت کرتی ہے اور اسے ٹوکتی ہے تب جماعت پر اُس کے لیڈر یا کارکن کی غلطی کا وبال نہیں بصورت دیگر جماعت خاموش رہنے کے سبب مجرم ہے۔‘‘
اجتہاد یا تاویل کرنے والے مسلمان عالم کے بارے میں اہلسنّت کا مسلک
اہلسنّت والجماعت جہاں اہل بدعات کو فرداً فرداً کافر یا فاسق کہنے میں جلدی کرنے سے احتیاط برتتے ہیں تاآنکہ ان پر قیام حجت اور ازالہ شبہات نہ ہو جائے، وہاں وہ کسی مسلمان عالم کو کسی بنا پر غلط اجتہاد یا دور کی تاویل کی وجہ سے کافر یا فاسق حتیٰ کہ مرتکب گناہ قرار دینے کو بھی روا نہیں سمجھتے خاص طور پر اگر تاویل ان مسائل میں کی گئی ہو جو ظنیات اور اختلافی ہوں۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[وہ مسلمان علماء جو علم کلام میں اجتہاد کر لیتے ہیں ان میں سے اگر کسی کے کلام میں غلطی سرزد ہو گئی ہے تو بھی اس کی تکفیر جائز نہیں ہے…چنانچہ جاہلوں کو مسلمان علماء کی تکفیر کا کام سونپ دینا بہت ہی بڑا جرم ہے۔ اصل میں اس کی بنیاد خوارج اور روافض سے جا ملتی ہے جو اپنے تئیں امور دین میں کچھ غلطیوں کی بنا پر ائمہ مسلمین کی تکفیر کرتے ہیں۔ اہلسنّت والجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ علماء امت کی محض کسی غلطی یا لغزش کی بنا پر تکفیر جائز نہیں بلکہ سوائے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر کسی کی بات لی بھی جا سکتی ہے اور ترک بھی کی جا سکتی ہے اور وہ عالم جس کی کسی غلطی کی بنا پر اس کی کوئی بات ترک کرنے کے قابل ہو، ضروری نہیں کہ وہ کافر یا فاسق یا گنہگار ہو…] (مجموع الفتاویٰ ،ج ۳۵ ص ۱۰۰)
قبوری شرک میں مبتلا لوگوں کی بابت صحیح موقف یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں رہنے والوں کو اس شرک اکبر کے ارتکاب پر عذر نہیں دیا جائے گا۔ مگر جو لوگ انہیں جہالت کا عذر دیتے ہیں ان کی غلطی اجتہادی نوعیت کی ہے جس کی بنا پر انہیں کافر کہنا غلط ہے۔ اللجنۃ الدائمہ سعودی عرب قبر پرستوں کو ان کی جہالت کی وجہ سے مسلمان سمجھنے والے موحدین کو کافر کہنے والوں کا رد کرتے ہوئے کہتی ہے:
الحمد للہ وحدہ والصلوۃ والسلام علیٰ رسولہ وآلہ وصحبہ وبعد:
کسی شخص کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا کہ دینی مسائل میں اسے لا علمی کی بنیاد پر معذور قرار دیا جائے یا نہیں اس کا دار و مدار اس بات پر بھی ہے کہ اسے یہ مسئلہ کما حقہ پہنچا بھی ہے یا نہیں اور اس بات پر بھی کہ یہ مسئلہ کس حد تک واضح ہے اور کس حد تک اس میں غموض اور اخفاء پایا جاتا ہے اور اس بات پر بھی کہ کسی شخص میں اس بات کو سمجھنے کی استعداد کس حد تک ہے۔ اس لیے جو شخص کسی تکلیف یا مصیبت کو دور کرنے کے لیے قبروں میں مدفون افراد سے فریاد کرتا ہے اسے وضاحت سے بتانا چاہئے کہ یہ شرک ہے اور اس پر اس حد تک اتمام حجت ہونا چاہئے کہ تبلیغ کا فرض ادا ہو جائے اس کے بعد بھی اگر وہ شخص قبر پرستی پر اصرار کرے تو وہ مشرک ہے اس سے دنیا میں غیر مسلموں والا سلوک کیا جائے اور اگر اسی عقیدہ پر مرجائے تو آخرت میں سخت عذاب کا مستحق ہو گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّـهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا﴾ (النساء:165)
’’(ہم نے) خوشخبری دینے اور تنبیہ کرنے کے لیے رسول (بھیجے) تاکہ رسولوں (کے آنے) کے بعد لوگوں کے پاس (حق کو قبول نہ کرنے کی) کوئی حجت باقی نہ رہے اور اللہ تعالیٰ غالب و حکمت والا ہے ۔‘‘
﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا﴾ (بنی اسرائیل:۱۵)
’’اور ہم عذاب نہیں بھیجتے حتیٰ کہ رسول بھیج دیں۔‘‘
﴿وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ﴾ (الانعام:۱۹)
’’(اے نبی! آپ فرما دیں) میری طرف یہ قرآن وحی کے ذریعے بھیجا گیا ہے تاکہ اس کے ساتھ میں تم کو (اللہ کے عذاب سے) ڈرائوں اور (ان کو بھی) جن تک یہ (پیغام) پہنچے۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اس امت میں سے جو یہودی یا عیسائی میرے بارے میں سن لے (یعنی اسے معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے) پھر وہ اس (دین) پر ایمان لائے بغیر مر جائے جو (دین) مجھے دے کر بھیجا گیا ہے، وہ شخص (ضرور) جہنمی ہو گا۔‘‘ (مسلم :۱۵۳)
اس کے علاوہ بھی بہت سی آیات اور احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مواخذہ تبھی ہو سکتا ہے جب کسی کو وضاحت سے خبر دی جا چکی ہو اور اس پر حجت قائم ہو چکی ہو۔ اگر کوئی شخص کسی ایسے ملک میں رہتا ہو جہاں وہ اسلام کی دعوت کے متعلق سنتا ہے، پھر وہ ایمان نہیں لاتا نہ اہل حق سے مل کر حق معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ایسے ہی ہے کہ جیسے اسے دعوت پہنچی ہو اور پھر وہ کفر پر اڑا ہوا ہو۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ مذکورہ بالا حدیث اس مسئلہ کی تائید میں پیش کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا وہ قصہ بھی دلیل بن سکتا ہے جب سامری نے انہیں گمراہ کر دیا تھا اور وہ بچھڑا پوجنے لگے تھے۔ حالانکہ موسیٰ علیہ السلام اللہ سے ہم کلام ہو نے کے لیے جاتے وقت اپنے پیچھے ہارون علیہ السلام کو اپنا نائب بنا کر گئے تھے۔ جب ہارون علیہ السلام نے انہیں بچھڑے کی پوجا سے منع کیا تو انہوں نے کہا:
﴿قَالُوا لَن نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عَاكِفِينَ حَتَّىٰ يَرْجِعَ إِلَيْنَا مُوسَىٰ﴾ (طہ:۹۱)
’’ہم تو اسی پر جمے بیٹھے رہیں گے حتیٰ کہ موسیٰ ہمارے پاس واپس آ جائے۔‘‘
انہوں نے شرک کی طرف بلانے والے کی دعوت مان لی اور توحید کی دعوت دینے والے کی بات ماننے سے انکار کر دیا اللہ تعالیٰ نے انہیں شرک اور دھوکے کی بات مان لینے میں معذور قرار نہیں دیا کیونکہ توحید کی دعوت موجود تھی اور موسیٰ علیہ السلام کی دعوت توحید پر بھی طویل زمانہ نہیں گزرا تھا۔ قرآن مجید میں اللہ تعا لیٰ نے شیطان کے جہنمیوں سے جھگڑے اور شیطان کا ان سے اظہار براءت کا واقعہ بیان کیا ہے، اس سے بھی مذکورہ بالا موقف کی تائید ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّـهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ (ابراہیم:22/14)
’’جب معاملے کا فیصلہ ہو جائے گا تو شیطان کہے گا بے شک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا اور پھر وعدہ خلافی کی۔ میرا تم پر کوئی زور نہیں تھا مگر میں نے تمہیں (گمراہی کی طرف) بلایا، تم نے میری بات مان لی۔ تو (اب) مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ کو ملامت کرو۔ میں تمہیں مصیبت سے چھڑا سکتا ہوں نہ تم مجھے چھڑا سکتے ہو۔ اس سے پہلے (دنیا میں) تم جو مجھے (اللہ کا) شریک بناتے رہے ہو (کہ اللہ کے احکام کو چھوڑ کر میری باتیں مانتے رہے ہو) میں اس کا انکار کرتا ہوں۔ بے شک ظالموں کے لیے ہی اذیت ناک سزا ہے۔‘‘
انہوں نے شیطان کے وعدے کو سچ مان لیا تھا، شیطان نے ان کے سامنے جھوٹ کو سچ کے رنگ میں پیش کیا اور شرک جیسے گھناؤنے جرم کو خوبصورت بنا کر پیش کیا اور وہ اس کے پیچھے لگ گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اس معاملے میں معذور قرار نہیں دیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر اس شخص کے لیے عظیم ثواب کا سچا وعدہ موجود تھا جو اس وعدے کی تصدیق کر کے اس کی شریعت قبول کر لے اور اس کے مطابق سیدھے راستے پر گامزن ہو جائے۔ جن علاقوں میں مسلمانوں کی کثیر تعداد موجود ہے، ان کے حالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے رہنے والوں کو دو گروہ اپنی اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک گروہ طرح طرح کی شرکیہ اور غیر شرکیہ بدعات کی طرف بلا رہا ہے۔ وہ لوگوں کو دھوکا دینے اور اپنی بدعت کو عام کرنے کیلیے ضعیف حدیثوں اور عجیب قصے کہانیوں کا سہارا لیتا ہے اور انہیں دلکش انداز میں بیان کر کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ دوسرا گروہ حق اور ہدایت کی طرف بلاتا ہے اور اس کے بارے میں کتاب اللہ اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دلائل پیش کرتا ہے اور فریق مخالف کے دعووں کی غلطی اور فریب کو واضح کرتا ہے۔ اس فریق نے حق کو واضح کرنے اور خاص و عام تک پہنچانے میں جو کوششیں کی ہیں، وہ قیام حجت کے لیے کافی ہیں، اگرچہ اس فریق کی افرادی تعداد کم ہی ہو۔ کیونکہ حق بیان کرنے میں دلیل کا اعتبار ہوتا ہے کثرت تعداد کا نہیں۔ جو شخص سمجھ بوجھ رکھتا ہے اور اس قسم کے علاقے میں رہائش پذیر ہے، وہ اہل حق کی باتیں سن کر حق کو پہچان سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ تلاش حق کی کوشش کرے، خواہشات نفسانی اور عصبیت سے بچ کر رہے، دولت مندوں کی دولت اور سرداروں کی سرداری دیکھ کر دھوکہ میں نہ آئے۔ اس کے غور و فکر کا معیار درست ہو، عقل و فہم سے دست بردار نہ ہو چکا ہو۔ وہ ان لوگوں میں شامل نہ ہو جن کی کیفیت ان آیات مبارکہ میں بیان ہوئی ہے:
﴿إِنَّ اللَّـهَ لَعَنَ الْكَافِرِينَ وَأَعَدَّ لَهُمْ سَعِيرًا ﴿٦٤﴾ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ لَّا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا ﴿٦٥﴾ يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّـهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا ﴿٦٦﴾ وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا ﴿٦٧﴾ رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا﴾ (الاحزاب:۶۴-۶۸)
’’اللہ نے کافروں کو یقیناً دھتکار دیا ہے اور ان کے لیے بھڑکتی آگ (جہنم) تیار کی ہے، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے انہیں کوئی دوست ملے گا نہ مددگار۔ جس دن آگ میں ان کے چہرے ادھر ادھر (الٹ پلٹ) کیے جائیں گے۔ (اس دن) وہ کہیں گے ’’کاش! ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی اور کہیں گے، اے ہمارے مالک! ہم نے اپنے سرداروں اور بزرگوں کی اطاعت کی تو انہوں نے ہمیں راہ راست سے بے راہ کر دیا، اے ہمارے رب! انہیں دگنا عذاب دے اور انہیں بڑی لعنت کر‘‘۔
البتہ جو شخص غیر اسلامی ملک میں رہتا ہے اور اس نے اسلام، قرآن اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کچھ نہیں سنا، تو اگر فرض کریں کہ ایسا کوئی شخص موجود ہے تو اس کا حکم اہل فترت کی طرح ہے (جو ایسے زمانے میں تھے کہ سابقہ نبی کی تعلیمات فراموش کی جا چکی تھیں اور نیا نبی ابھی مبعوث نہیں ہوا تھا) مسلمان علماء کا فرض ہے کہ اسے دین اسلام کے عقائد اور اعمال کی تعلیم دیں تاکہ اس پر حجت قائم ہو اور اس کا عذر ختم ہو جائے۔ قیامت کے دن ایسے شخص سے وہی معاملہ کیا جائے گا جو ان افراد سے کیا جائے گا جو دنیا میں جنون اور کم سنی کی وجہ سے مکلف ہی نہیں تھے۔ باقی رہے وہ شرعی احکام جو عام لوگوں کے لیے واضح نہیں ہوتے۔ مثلاً ان میں وجہ دلالت بہت خفی ہے یا دلائل باہم متعارض ہیں اور ترجیح میں علماء مختلف آراء رکھتے ہیں۔ تو اس قسم کے مسائل میں اختلاف کرنے والے پر ایمان یا کفر کا حکم نہیں لگایا جاتا۔ بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے صحیح کہا اور اس سے غلطی ہوئی وہ عند اللہ معذور ہے اور اسے اجتہاد کا ثواب بہر حال ملے گا اور جس کا اجتہاد صحیح ہوا اسے دگنا ثواب ملے گا۔ اس قسم کے مسائل سمجھنے کی صلاحیت میں تفاوت پایا جاتا ہے، قرآن و حدیث کی نصوص سے واقف ہونے، صحیح اور ضعیف احادیث میں امتیاز اور ناسخ و منسوخ کی پہچان وغیرہ میں بھی سب علماء برابر نہیں ہوتے۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو اہل توحید قبر پرستوں کو کافر سمجھتے ہیں، ان کے لیے یہ درست نہیں کہ اپنے ان اہل توحید بھائیوں کو کافر کہیں جو قبر پرستوں کو کافر قرار دینے میں تامل کا شکار ہیں۔ اصل میں ان کے سامنے فتویٰ لگانے میں یہ شبہ ہے کہ وہ ان قبر پرستوں کو کافر قرار دینے سے پہلے ان پر اتمام حجت کرنا ضروری ہے، بخلاف غیر مسلموں کے مثلاً : یہودی، عیسائی یا کمیونسٹ کہ ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں اور جو انہیں کافر نہیں سمجھتا اس کا کفر بھی واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کے حالات درست فرمائے اور دین کی سمجھ عطا فرمائے۔ ہمیں اور انہیں نفس کے شر اور گناہوں کی شامت سے محفوظ رکھے اور ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم بغیر علم کے اللہ تعالی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کچھ نہ کہیں۔ یہ سب اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اور وہی قادر ہے۔ وباللہ التوفیق وصلیٰ اللہ علیٰ نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم۔ (اللجنۃ الدائمہ، فتاویٰ دارالافتاء سعودی عرب، جلد2، ص،101)
علماء کرام کا یہ فتویٰ بالکل درست ہے کہ کوئی غلط فہمی کی بنا پر منافق یا کافر کو مسلم سمجھ کر اس کی حمایت کرے تو وہ خود کافر نہیں ہو گا اس کی دلیل واقعہ افک ہے۔ جس میں عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی اور مدینہ میں اس بات کو بنیاد بنا کر خوب پروپیگنڈا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی اذیت پہنچائی کہ ایک دفعہ آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’کون اس شخص سے میرا بدلہ لے گا جس نے میرےگھر والی کے مسئلہ میں مجھے ایذا پہنچائی؟
سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا حکم دیجئے اگر وہ میرے قبیلہ کا فرد ہے، میں اس کی گردن مار دیتا ہوں۔ اگر وہ خزرج قبیلہ کا فرد ہے تو جو آپ کا حکم ہو گا وہی ہم کریں گے۔ یہ سن کر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے وہ خزرج کے سردار تھے، وہ نیک آدمی تھے لیکن ان پر قومی حمیت غالب آگئی اور کہنے لگے اللہ کی قسم تم اسے قتل نہیں کرو گے اور نہ تم اسے قتل کر سکتے ہو۔ سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے تم جھوٹ بولتے ہو اللہ کی قسم ہم اسے ضرور قتل کریں گے۔ پس تم منافق ہو اسی لیے منافقوں کی طرف سے جھگڑا کرتے ہو۔ اوس اور خزرج کے دونوں قیبلے آپس میں جھگڑنے لگے قریب تھا کہ وہ آپس میں لڑ پڑیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے ہوئے تھے اور آپ ان کو خاموش کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ (بخاری :۴۷۵۰)
سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے اگرچہ عبداللہ بن ابی کی حمایت کی لیکن اس کے باوجود وہ خود منافق نہیں ہوئے۔
اگر کوئی عالم دین بدعت کا مرتکب ہو یا کسی بدعتی کی موافقت کرتا ہو تو کیا وہ بھی ان میں شامل ہو گا؟
شیخ صالح المنجد حفظہ اللہ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
الحمد للہ: ہم نے یہ سوال شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کے سامنے پیش کیا تو ان کا جواب تھا: ’’نہیں وہ ان میں شامل نہیں ہو گا اور نہ ہی ان کی جانب منسوب کیا جائے گا، اس لیے کہ وہ تو صرف کسی ایک مسئلہ میں موافق ہوا ہے لہٰذا اسے مطلقاً ان کی طرف منسوب کرنا صحیح نہیں۔ اس کی مثال اس طرح ہے:
جو شخص امام احمد کے مسلک پر ہو لیکن اس نے کسی ایک مسئلہ میں امام مالک کا مسلک اختیار کیا تو کیا ہم اسے مالکی کہیں گے؟ نہیں اسے مالکی نہیں کہا جائے گا۔ تو اسی طرح اگر کوئی فقیہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک پر ہو اور وہ کسی معین مسئلہ میں شافعی مسلک پر عمل کرے تو کیا ہم اسے شافعی کہیں گے؟ نہیں اسے شافعی نہیں کہا جائے گا۔ چنانچہ اگر ہم کسی معتبر اور نصیحت میں معروف عالم دین کو اہل بدعت کا کوئی مسئلہ لیتے ہوئے دیکھیں تو یہ صحیح نہیں کہ ہم کہیں وہ بھی ان بدعتیوں میں شامل ہو گیا ہے اور ان کے طریقہ پر ہے بلکہ ہم یہ کہیں گے: ہم ان سے کتاب اللہ، سنت رسول اور اللہ کے بندوں کی خیر خواہی دیکھتے ہیں اور جب وہ اس مسئلہ میں غلطی کر بیٹھے تو ان کی یہ غلطی اجتھاد کی بنا پر ہے کیونکہ اس امت کا اجتھاد کرنے والا اگر صحیح اجتھاد کرے تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے اور اگر غلطی کر بیٹھے تو اسے ایک اجر حاصل ہو تا ہے۔
اور جو کوئی شخص کسی ایک غلط کلمہ کی بنا پر سارا حق ہی رد کر دے تو وہ گمراہ ہے، خاص کر جب یہ غلطی جسے وہ غلط خیال کرتا ہے غلط نہ ہو، اسے غلط بلکہ گمراہ یا بعض اوقات تو اسے کافر قرار دیتے ہیں۔ اللہ اس سے محفوظ رکھے ایسا کرنا بہت ہی برا اور غلط ہے۔ اور جو کسی دوسرے کو کسی سبب یا معصیت کی بنا پر کافر قرار دے تو اس کا یہ مسلک تو خوارج سے بھی زیادہ شدید ہو گا کیونکہ خوارج تو مرتکب کبیرہ کو کافر قرار دیتے ہیں نہ کہ کسی بھی معصیت کی بنا پر … …(لقاء الشہری للشیخ محمد بن صالح العثیمین:ص۱۵ ) (الاسلام سوال جواب:فتویٰ :۹۷۸۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پاک و ہند کے احناف ’’اشاعرہ‘‘ و ’’ماتریدیہ‘‘
’’المھند علی المفند‘‘ ایک ایسی تاریخی دستاویز ہے جس پر ماضی اور حال کے بہت سے جید علماء دیوبند کے دستخط ہیں۔ یہ علماء اس کتاب کو اپنے عقائد کی کتاب قرار دیتے ہیں۔ اس میں اپنی جماعت کا تعارف یوں کرواتے ہیں:
’’ہماری جماعت فروع میں امام ابو حنیفہ، عقائد اور اصول میں امام ابو الحسن اشعری اور امام ابو جعفر منصور ماتریدی کی پیروی کرتی ہے اور صوفیہ کے طریقوں میں نقشبندیہ، چشتیہ قادریہ اور سہروردیہ کی طرف نسبت کرتی ہے۔‘‘ (المھند علی المفند)
علامہ شمس الدین افغانی رحمہ اللہ کی نظر میں ’’ماتریدیہ‘‘ کی درجہ بندی
علامہ شمس الحق افغانی رحمہ اللہ ان کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ باب اس بات کو واضح کرنے کے لیے ہے کہ اس کتاب میں کس کا رد مقصود ہے؟ اور میری تنقید کا نشانہ کون ہے؟
علم کلام کی بدعت میں شدت اور اس میں لت پت ہونے کے اعتبار سے ماتریدیہ کی تین اقسام ہیں:
پہلی قسم:۔
انتہائی غالی اور معطلہ محض، اپنی بدعت میں انتہائی ڈوبے ہوئے جہمیہ کی فکری پود اور شبیہ، خلق قرآن کے قائل، رحمن کے علو کے منکر، اللہ کی کثیر صفات کا انکار کرنے والے اور اس باب میں وارد نصوص اور کلمات کی تحریف کرنے والے، عقیدہ سلفیہ اور ائمہ اہل سنت پر طعن کرنے والے، یہ لوگ ہیں تو ایک چھوٹا گروہ لیکن وہی ہمارا مقصود مذمت ہیں۔ انہیں پر میرے تیروں کی بوچھاڑ ہے اور میری کاٹ کر دینے والی تلوار سے یہی مضروب ہیں۔ تو مجھے ان پر رد کرتے ہوئے ایک مجاہد، بہادر اور لڑاکا شیر پائے گا…
دوسری قسم :
انصاف والے لوگ جیسا کہ ان (ماتریدیہ) کے اکثر اہل علم اور طالب علم ہیں۔ یہ وہ مخلص لوگ ہیں جو علم کلام سے متاثر اور ان کے مقلد ہیں اور وہ ماتریدیہ کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں۔ یہ امت کے سلف سے محبت رکھنے والے ہیں اگرچہ خود ماتریدیہ کی بعض بدعات میں ملوث ہیں جس کا سبب ان کا ماتریدی علماء سے علم حاصل کرنا اور ان کی شاگردی اختیار کرنا اور ان کی کتابیں پڑھنا ہے۔ ان لوگوں کو اگر نصیحت کی جائے تو غور کرتے ہیں اور تائب ہوتے ہیں۔ ان کے معاملے میں آپ مجھے مصالحانہ، مسالمانہ انداز اختیار کرنے والا اور نرمی کرنے والا پائیں گے۔ آپ دیکھیں گے میں انتہائی ٹھنڈے انداز میں ان کو نصیحت کرتا ہوں اور بہت ہی نرمی سے درگزر کرنے والا طریقہ اختیار کرتا ہوں۔
تیسری قسم :
یہ احناف کے عوام ہیں۔ جو صرف نام کے اعتبار سے ماتریدیہ کی طرف منسوب ہیں۔ جیسے بہت سارے طلبا، علماء اور احناف کی ساری عوام مرد ہو یا عورت۔ یہ ایسے ہیں کہ ان کے دل میں کبھی جہمیہ یا ان کی پود ماتریدیہ کی کفریات کا تصور بھی نہیں آتا۔ یہ لوگ ماتریدیہ کی گمراہی کے حامل نہیں ہیں خواہ وہ اپنے آپ کو حنفیہ کی طرف منسوب کریں۔ ہاں ان کو جہمیہ اور ماتریدیہ کی گمراہی سے ڈرانا اور نرمی سے نصیحت کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح انہیں ماتریدیہ کی طرف نسبت کرنے سے بھی ڈرانا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا بدعت ہے۔ (عداء الماتریدیہ للعقیدہ السلفیہ، ج1ص: 20,21,22 للشمس الحق افغانی)
فضیلۃ الشیخ علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ تبلیغی جماعت میں مختلف عقیدہ و عمل کے افراد کے وجود کا اثبات کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’تبلیغی جماعت‘‘ مصر کی جماعت ’’اخوان المسلمین‘‘ کی طرح ہے۔ وہ دعویٰ تو یہی کرتے ہیں کہ ان کی دعوت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر مبنی ہے مگر یہ صرف دعویٰ ہے ان کے عقائد قرآن و سنت کے خلاف ہیں۔ کوئی ’’ماتریدی‘‘ ہے تو کوئی ’’اشعری‘‘، ایک صوفی ہے تو دوسرا کسی اور فرقہ کا پیروکار۔ یہ ایک جم غفیر ہے جس میں تہذیب و ثقافت اور علم نام کی کوئی چیز نہیں۔ پس تبلیغی جماعت کسی علمی منہج پر نہیں، ان کا منہج مقام و مکان کی مناسبت سے بدل جاتا ہے۔‘‘ (الفتاویٰ الأماراتیہ للألبانی :۷۳/۳۸)
پہلی قسم بدعت مکفرہ کے حاملین:
غالی گروہ جو کہ ایک چھوٹا گروہ ہونے کے باوجود انتہائی خطرناک عقائد کا حامل ہے۔
بدعت مکفرہ کے حامل اس گروہ کے عقائد کی تفصیل درج ذیل کتب میں ملاحظہ فرمائیں:
شیخ ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ کی کتاب ’’امام صحیح العقیدہ ہونا چاہیے‘‘ اور استادِ محترم شیخ پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ کا رسالہ ’’اہل حدیث کی نماز غیر اہل حدیث کے پیچھے‘‘ اور سید طالب الرحمن حفظہ اللہ کی کتاب ’’الدیوبندیہ‘‘۔ ڈاکڑ محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ کی نظر ثانی سے شائع شدہ ڈاکڑ ابو عدنان سہیل حفظہ اللہ کی کتاب "اسلام میں بدعت و ضلالت کے محرکات۔"
تصوف کی طرف میلان ہونے کی وجہ سے ان میں سے بعض وحدۃ الوجود تک کے قائل ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
1۔ عقیدہ وحدۃ الوجود
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب لکھتے ہیں کہ: ’’اس مرتبہ میں خدا کا خلیفہ ہو کر لوگوں کو اس تک پہنچاتا ہے اور ظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا ہو جاتا ہے اس مقام کو برزخ البرازخ کہتے ہیں۔‘‘ (کلیات امدادیہ، ص:۳۶/ضیاء القلوب، ص ۳۵،۳۶)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’بندہ قبل از وجود باطنا خود خدا تھا اور خدا ظاہر بندہ۔ اس پر حدیث قدسی دلالت کرتی ہے ’’کنت کنزًا مخفیا‘‘ خالق کی اس کی مخلوق کے ساتھ مثل گٹھلی کی درخت کے ساتھ کی ہے کیونکہ درخت اپنے پتوں ٹہنیوں اور پھولوں سمیت گٹھلی میں پوشیدہ تھا جب گٹھلی نے اپنا باطن ظاہر کیا تو خود چھپ گئی۔ چنانچہ دیکھنے والا درخت کو دیکھتا ہے گٹھلی کو نہیں۔‘‘ (شمائم امدادیہ ص:۲۸)
مولانا انور شاہ کشمیری نے اپنی کتاب ’’فیض الباری‘‘ شرح بخاری میں جو کچھ لکھا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
’’حدیث مبارک میں ہےـ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ فرائض کی پابندی سے جو قرب حاصل کرتا ہے اُس جیسا اور کوئی قرب نہیں،پھر میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرنے میں کوشاں رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو جب میں اسے پسند کر لیتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔
علمائے ظواہر نے اس حدیث کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ بندہ کے اعضاء جوارح اللہ کی رضا کے تابع ہو جاتے ہیں ان سے وہی حرکت ہوتی ہے جو اللہ کو پسند ہو اور اس کے تمام اعضاء کی انتہاء اور غایت ذات باری تعالیٰ ہو تو یہ کہنا درست ہو گا کہ وہ بندہ سنتا ہے تو خدا کیلئے، گویا اللہ تعالیٰ اُس بندے کے کان اور آنکھیں بن گیا ہے۔ میں کہتا ہوں یہ معنی لینا حدیث کے الفاظ سے پھر جانا ہے حدیث میں صیغہ متکلم استعمال ہوا ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ جو بندہ نوافل سے قرب الہٰی حاصل کر چکا ہو، جسم اور صورت کے بغیر اس کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی اور اس میں تصرف کرنے والا رب العالمین ہی ہے یہ وہ مقام ہے جس کو صوفیاء فنا فی اللہ کہتے ہیں یعنی خواہشات کے دواعی سے وہ شخص نکل جاتا ہے۔ اور اس میں صرف اللہ کا تصرف رہ جاتا ہے۔‘‘ (فیض الباری شرح بخاری بحوالہ دلائل السلوک ص۳۳)
’’صوفیاء نے فرمایا کہ قرب فرائض میں بندہ اعضائے خدا تعالیٰ بنتا ہے اور قرب نوافل میں خدا تعالیٰ اعضائے بندہ بن جاتا ہے۔‘‘(فیض الباری ۴:۴۲۷ بحوالہ دلائل السلوک ص۳۶)
2۔ غیر اللہ سے استمداد ملاحظہ فرمائیں:
حاجی امداد اللہ مکی صاحب اشعار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشکل کشا کہہ کر آپ کو مدد کے لیے پکارتے ہیں
یا رسول کبریاء فریاد ہے، یا محمد مصطفیٰ فریاد ہے
آپ کی امداد ہو، میرا یا نبی حال ابتر ہوا، فریاد ہے
سخت مشکل میں پھنسا ہوں آجکل
اے میرے مشکل کشا فریاد ہے
(کلیات امدادیہ ص۹۰،۹۱)
حاجی امداد اللہ اپنے مرشد شاہ نور محمد کو یوں مخاطب کرتے ہیں کہ :
آسرا دنیا میں ہے از بس تمہاری ذات کا
تم سوا اوروں سے ہرگز کچھ نہیں ہے التجا
بلکہ دن محشر کا ہو گا جس وقت قاضی خدا
آپ کا دامن پکڑ کر یہ کہوں گا برملا
اے شہ نور محمد وقت ہے امداد کا
(شمائم امدادیہ :۸۴، امداد المشتاق ص۱۲۲ )
محمد قاسم نانوتوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ما فوق الاسباب پکارتے ہیں کہ میری مدد کریں:
مدد کر اے کرم احمدی کہ تیرے سوا
نہیں ہے قاسم بے کس کا کوئی حامی کار
جو تو ہی ہم کو نہ پوچھے تو کون پوچھے گا
بنے گا کون ہمارا تیرے سوا غم خوار
(قصائد قاسمی ص۸)
علامہ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ ان اشعار کا حوالہ دینے کے بعد کہتے ہیں اس قسم کا عقیدہ صریحاً شرک ہے۔ العیاذ باللہ (امام صحیح العقیدہ ہونا چاہیے :22)
3۔ مولوی زکریا صاحب فضائل حج میں لکھتے ہیں :
’’ابدال میں سے ایک شخص نے خضر علیہ السلام سے دریافت کیا کہ تم نے اپنے سے زیادہ مرتبہ والا بھی کوئی ولی دیکھا؟ فرمانے لگے ہاں دیکھا ہے میں ایک مرتبہ مدینہ طیبہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں حاضر تھا۔ میں نے امام عبدالرزاق محدث کو دیکھا کہ وہ احادیث سنا رہے ہیں اور مجمع ان کے پاس احادیث سن رہا ہے اور مسجد کے ایک کونے میں ایک جوان گھٹنوں پر سر رکھے علیحدہ بیٹھا ہے۔ میں نے اس جوان سے کہا کہ تم دیکھتے نہیں کہ مجمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سن رہا ہے تم ان کے ساتھ شریک نہیں ہوتے؟ اس جوان نے نہ تو سر اٹھایا اور نہ ہی التفات کیا اور کہنے لگے اس جگہ وہ لوگ ہیں جو رزاق کے عبد (عبدالرزاق) سے حدیثیں سنتے ہیں اور یہاں وہ بھی ہیں جو رزاق (اللہ تعالیٰ) سے سنتے ہیں نہ کہ اس کے عبد سے۔ خضر نے فرمایا اگر تمہارا کہنا حق ہے تو بتاؤکہ میں کون ہوں؟ اس نے سر اٹھایا اور کہنے لگا کہ اگر فراست صحیح ہے تو آپ خضر ہیں۔ خضر فرماتے ہیں اس سے میں نے جانا کہ اللہ تعالیٰ کے بعض ولی ایسے بھی ہیں جن کے علو مرتبہ کی وجہ سے میں ان کو نہیں پہچانتا۔ حق تعالیٰ ان سے راضی ہو اور ہم کو بھی ان سے نفع پہنچائے آمین (فضائل حج صفحہ 840)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شریعت کے احکام سے آزاد ہو کر بھی ولی بنا جا سکتا ہے حالانکہ علماء اسلام کے نزدیک ایسا سمجھنا اسلام کے منافی امور میں سے ہے۔
4۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنے شیخ ابو رضا محمد کے تصرفات اور قلبی خیالات پر مطلع ہونے کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں:
’’آپ کے خدام میں سے ایک شخص برے فعل کا مرتکب تھا۔ حضرت والا نے کئی مجلسوں میں رمز و اشارہ سے اسے برے فعل سے منع فرمایا مگر وہ نہ چونکا اور نہ ہی اس فعل سے باز آیا۔ حضرت والا نے اسے خلوت میں طلب فرمایا اور کہا میں نے تجھے کئی مرتبہ اشاروں کنایوں سے سمجھایا لیکن تو نے پرواہ نہ کی۔ تیرا خیال ہے کہ ہم تیرے کرتوتوں سے بے خبر ہیں۔ اگر چیونٹی زمین کے سب سے نچلے طبقے میں ہو اور اس کے دل میں سو خیالات آئیں تو میں ان میں سے ننانوے خطرات کو جانتا ہوں اور حق سبحانہ وتعالیٰ پورے خطرات کا عالم ہے۔ پس اس شخص نے توبہ کی۔‘‘ (انفاس العارفین، ص:۱۵۰)
شاہ اسماعیل دہلوی نے فوت شدہ بزرگوں کی روحوں سے ملاقات اور لوح محفوظ سے کسی بات کی دریافت کا طریقہ لکھا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: ’’آسمانوں کے حالات کے انکشاف، ملاقات ارواح و ملائکہ، بہشت و دوزخ کی سیر، اس مقام کے حقائق کی اطلاع، اس جگہ کے مکانوں کی دریافت اور لوح محفوظ سے کسی امر کے انکشاف کے لیے یا حی یا قیوم کا ذکر کیا جاتا ہے۔‘‘ (صراط مسقیم، صفحہ: ۲۲۵۔)
کتنے افسوس کی بات ہے کہ بعض حضرات ایسے شرکیہ نظریات پر مبنی کتابوں کی بھی تعریف کرتے ہیں۔ جیسا کہ تبلیغی جماعت ان کتابوں میں سے بعض کو اپنے نصاب میں شامل کیے ہوئے ہے اور ان کے مکتبوں سے ان کی اشاعت ہوتی ہے۔ اسی طرح عبدالمجید سوہدروی ایڈیٹر اخبار اہل حدیث سوہدرہ منصب امامت اور صراط مستقیم کو مواعظ حسنہ میں شمار کرتے ہیں [حقانیت مسلک اہلحدیث ،ج:۱،ص۷۶] مکتبہ سلفیہ اہل حدیث شیش محل روڈ لاہور نے بھی صراط مستقیم فارسی زبان میں شائع کی ہے۔ لیکن علمائے حق اس شرک سے برأت کا اظہار کرتے ہیں، الحمدللہ علماء اہل حدیث نے ان کے عقائد کا احسن انداز میں رد کیا جیسا کہ ڈاکٹر لقمان سلفی حفظہ اللہ کی نظرثانی سے شائع شدہ ڈاکٹر ابو عدنان سہیل حفظہ اللہ کی کتاب ’’اسلام میں بدعت و ضلالت کے محرکات‘‘ اور مولانا عبدالرحمان کیلانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’روح، عذاب قبر اور سماع موتی‘‘ میں شاہ ولی اللہ اور شاہ اسماعیل کی طرف منسوب کتابوں میں بیان شدہ عقائد کا خوبصورت رد ہے۔
یاد رہے ہمارا مقصود ان شخصیات کی تکفیر کرنا نہیں، ممکن ہے وہ حضرات ان تحریروں سے توبہ کر کے دنیا سے گئے ہوں، یا کسی اور نے یہ باتیں ان کی کتابوں میں لکھ دی ہوں، یا ان میں تحریف کی ہو، یا وہ ان باتوں کی ایسی عجیب و غریب تاویل کریں کہ بات صریح کفر نہ رہے البتہ ان باتوں کو کفر کہنا ہم پر واجب ہے۔
دُوسری قسم: بدعت غیر مکفرہ کے حاملین
یہ "ماتریدیہ" کے اکثر اہل علم اور طالب علم ہیں۔ یہ امت کے سلف سے محبت رکھنے والے ہیں یہ خود "ماتریدیہ" کی بعض بدعات میں ملوث ہو سکتے ہیں البتہ کفر و شرک کا ارتکاب نہیں کرتے ہیں جیسے:
اسماء و صفات میں تاویل کرنا
اس مسئلہ میں بہت سے اشاعرہ کے مسلک پر ہیں کئی ایک ایسے بھی ہیں جو بعض صفات میں اشاعرہ کی سی تاویل کرتے ہیں اور بعض میں سلف کے منہج کو اپناتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ ﴿الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی﴾ (طہ:۵) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’استواء علی العرش‘‘ کے متعلق صحیح بے غبار وہی بات ہے جو جمہور سلف صالحین سے منقول ہے کہ اس کی حقیقت و کیفیت کسی کو معلوم نہیں۔ متشابہات میں سے ہے۔ عقیدہ اتنا رکھنا ہے کہ ’’استواء علی العرش‘‘ حق ہے اُس کی کیفیت اللہ جل شانہ کی شان کے مطابق و مناسب ہو گی جس کا ادراک دنیا میں کسی کو نہیں ہو سکتا۔‘‘ (معارف القرآن، جلد ششم :۶۵)
اسی طرح آپ اللہ تعالیٰ کیفیت "المجی والأتیان" کو ثابت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
﴿هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّـهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ﴾ (البقرۃ:۲۱۰)
’’اور یہ واقعہ کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے بادل کے سائبانوں میں اُن کے پاس آجائیں قیامت میں پیش آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کا اس طرح آنا متشابہات میں سے ہے، جس کے متعلق جمہور صحابہ و تابعین اور اسلاف اُمت کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے مضمون کے حق و صحیح ہونے کا اعتقاد و یقین رکھے اور کیفیت کہ کس طرح یہ کام ہو گا اس کی دریافت کی فکر میں نہ پڑے۔‘‘ (معارف القرآن، جلد اول :۵۰۰)
البتہ بعض صفات جیسے ’’ید‘‘، ’’عین‘‘ میں مولانا نے’’اشاعرہ‘‘ کے موقف کو اپنایا ہے۔ ایسے علماء مجموعی طور پر اشاعرہ کی نسبت سلفیت کے زیادہ قریب ہیں۔
پاک و ہند کے احناف میں بہت سے اہل علم ایسے بھی ہیں کہ جو معتزلہ و اشاعرہ کی تاویلات کی نفی کرتے ہیں، البتہ اہل سنت کی مانند صفات ثابت کرنے میں انہوں نے غلطی کھائی ہے جیسے محمد ادریس کاندھلوی صاحب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ اکبر کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے وجہ، ید، نفس اور عین کا ذکر کیا ہے وہ سب اللہ کی صفات ہیں۔ یہ نہ کہنا چاہیے کہ ید سے اللہ کی نعمت یا قدرت مراد ہے، اس لیے کہ اس طور سے اللہ کی صفات کو باطل کرنا لازم آتا ہے اور یہ قول معتزلہ کا ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ید اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے جو کم و کیف سے پاک و منزہ ہے اور حقیقت اس کی اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔‘‘ (عقائد اسلام :۷۸)
لیکن افسوس ادریس کاندھلوی صاحب ان تاویلات باطلہ کا رد کرنے کے باوجود اہل سنت کی طرح اللہ سے تشبیہ و تمثیل کی نفی اور ان صفات کی کیفیت کو اللہ کے سپرد کرتے ہوئے ان کے معنی کو ثابت نہیں کرتے بلکہ وہ اسے گمراہی قرار دیتے ہیں
ایمان کی کمی بیشی کا مسئلہ
برصغیر کے احناف نے اس مسئلہ میں اہل سنت اور مرجئہ الفقہاء کے قول کے مابین تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ محمد ادریس کاندھلوی صاحب امام ابو حنیفہ کے اس فرمان ’’ایمان بڑھتا اور کم نہیں ہوتا‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’امام اعظم رحمہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایمان کہ جو تمام اہل ایمان میں قدر مشترک ہے اور جس پر ایمانی اخوت کا دار و مدار ہے اور جس ایمان کی بنا پر تمام مسلمان رشتہ اخوت سے منسلک ہوتے ہیں۔ یہ ایمان زیادہ اور کم نہیں ہوتا، البتہ طاعات اور حسنات کے اعتبار سے ایمان میں کمی اور بیشی ہوتی ہے جس قدر طاعات زیادہ ہوں گی اسی قدر ایمان زیادہ کامل ہو گا۔ پس عام مومنوں کا ایمان حضرات انبیاء کرام کے ایمان جیسا نہ ہو گا اور نہ ہو سکتا ہے … …ایمان کو سمجھئے کہ ایمان کی حقیقت میں کمی اور زیادتی نہیں ہوتی اس کی صفات میں کمی اور زیادتی ہوتی ہے کسی کا ایمان نورانی اور روشن ہے اور کسی کا ظلمانی اور مکدر اور زنگ آلود ہے اب اس تقریر سے مخالفین کا یہ شبہ زائل ہو گیا کہ ایمان کے کم و بیش نہ ہونے سے عام مؤمنوں کے ایمان کا معاذاللہ انبیاء کرام کے ایمان کے برابر ہونا لازم آتا ہے۔‘‘ (عقائد اسلام :۲۰۹،۲۱۰)
حیات النبی کا عقیدہ علماء دیوبند کے عقائد میں داخل ہے
’’المہند علیٰ المفند‘‘ علمائے دیوبند کے عقائد کی ایسی مستند کتاب ہے جس پر بہت سے علماء دیوبند کی تصدیقات موجود ہیں، اس میں یہ عقیدہ لکھا ہوا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا جیسی ہے برزخی نہیں ہے۔‘‘ (المہند فی عقائد علماء دیوبند صفحہ ۷۰۔)
معروف دیوبندی عالم اخلاق حسین قاسمی صاحب لکھتے ہیں:
’’حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب جو ہمارے اکابر میں ہیں حضرت محمد قاسم نانوتوی کے علوم و معارف کے بہترین شارح ہیں اس مسئلہ پر تحریر فرماتے ہیں: ’’حضور کی حیات برزخی ہے مگر اس قدر قوی ہے کہ بلحاظ آثار وہ دنیوی بھی ہے… یہی وجہ ہے کہ بعد وفات حضور کے ہونٹوں کو حرکت ہوئی، جنازہ میں کلام فرمایا اور قبر میں کلام فرمایا جس کو بعض صحابہ نے سنا، یہ تو وفات کے فوری بعد ہے کہ روح نے جسم کو کلیتہ نہیں چھوڑا، لیکن بعد میں تا حشر بھی روح کا وہی تعلق بدن سے قائم رہے گا جیسا کہ بنص حدیث اجساد انبیاء کا مٹی پر حرام ہونا ثابت ہے۔ اگر ان ابدان میں کوئی روح نہیں ہے تو انہیں گل جانا چاہیے، پھر حیات کا یہ اثر عالم برزخ میں ہے، عالم دنیا میں یہ ہے کہ ان کے اموال میں میراث جاری نہیں ہوتی، ان کی ازواج پر بیوگی نہیں آتی، ان کے نکاح حرام ہوتے ہیں نہ صرف عظمت انبیاء کی وجہ سے بلکہ حقیقتاً حیات کی وجہ سے کہ وہ بیوہ ہی نہیں ہیں، پس انبیاء کی یہ برزخی حیات جسمانی و از قبیل دنیوی بھی ہے کہ اجساد میں حس و حرکت بھی ہے، قبروں میں عبادت بھی ہے، کلام بھی ہے، امت کی طرف توجہ بھی ہے، پھر یہی حیات از قبیل حیات برزخی بھی ہے کہ نگاہوں سے اوجھل ہے، ان کی آواز ان کانوں میں نہیں آتی اور کلام ان حسی کانوں میں نہیں پڑتا، نیز امت کے حال کی طرف توجہ اور رخ کا پھیرنا ان آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا، سو اس میں ہماری کمزوری کو یعنی ضعف قوی کو دخل ہے نہ کہ ان آثار کے موجود نہ ہونے یا قابل وجود نہ ہونے کا، بالفاظ مختصر دونوں حیاتیں اس طرح جمع ہیں کہ حیات برزخی اصل ہے اور حیات دنیوی اس کے تابع، یعنی وہ عیناً موجود ہے اور یہ آثارًا موجود ہے۔ اسی طرح دونوں حیات جمع ہو جاتی ہیں نہ استعارۃً بلکہ حقیقتاً۔‘‘ (حیاۃ النبی از اخلاق حسین قاسمی ص ۱۳)
وفات کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو دنیاوی قرار دینے کا عقیدہ بلا شک وشبہ باطل ہے۔ شیخ سلیمان بن سمحان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک میں زندگی دنیاوی نہیں ہے کہ جس میں انسان کو کھانے، پینے، لباس اور نکاح وغیرہ کی حاجت ہوتی ہے۔ بلکہ آپ کی زندگی برزخی ہے۔ آپ کی روح شریف رفیق اعلی کے پاس ہے۔‘‘ (الصواعق المرسلۃ الشھابیۃ ۸۲)
عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صورتیں ہیں
۱۔ شرک : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر مبارک میں زندہ ماننے کے بعد آپ سے مدد طلب کرنا، آپ کو عالم الغیب، مختار کل سمجھ کر پکارنا۔ یہ صورت شرک اکبر ہے۔
أحمد سعید کاظمی لکھتے ہیں:
"انبیائے کرام اپنی قبر میں زندہ ہیں۔ وہ چلتے پھرتے ہیں۔ نماز پڑھتے اور کلام کرتے ہیں اور مخلوق کے معاملات میں تصرف فرماتے ہیں۔‘‘ (حیات النبی، ص ۳ ط ملتان)
بریلوی عالم احمد یار لکھتے ہیں:
"ہمارے علماء نے فرمایا کہ حضور علیہ السلام کی زندگی اور وفات میں کوئی فرق نہیں۔ اپنی امت کو دیکھتے ہیں اور ان کے حالات و نیات اور ارادے اور دل کی باتوں کو جانتے ہیں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بالکل ظاہر ہیں۔ ان سے پوشیدہ نہیں۔ (جاء الحق ص ۱۵۱‘۱۵۰)
۲۔ بدعت : قبر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کو دنیاوی قرار دینا اور اُس کے برزخی ہونے کا انکار کرنا بشرطیکہ آپ سے استعانت طلب نہ کی جائے اور نہ آپ کو اللہ کی صفات جیسے عالم الغیب اور مختار کل، متصرف الامور وغیرہ سے متصف کیا جائے۔ یہ صورت شرک نہیں بلکہ بدعت ہے۔
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ حدیث ((الانبیاء أحیاء في قبورھم یُصلون)) کی تشریح میں فرماتے ہیں:
’’اس حدیث میں انبیاء علیہم السلام کے لیے جو زندگی ثابت کی گئی ہے وہ برزخی زندگی ہے۔ اس لیے اس پر دنیاوی زندگی سے تشبیہ و تمثیل دیے بغیر ایمان لانا چاہیے۔ اپنے قیاس اور رائے سے اہل بدعت کی طرح کسی بات کا اضافہ نہیں کرنا چاہیے جن کا حال یہاں تک جا پہنچا ہے کہ وہ آپ کی قبر میں زندگی حقیقی قرارد یتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ اپنی قبر میں کھاتے، پیتے بلکہ اپنی بیویوں سے جماع تک کرتے ہیں (نعوذ باللہ)۔‘‘ (السلسلۃ الصحیحۃ 120/2)
ان بدعات کی بنا پر یہ کہنا درست ہے کہ یہ لوگ سلف کے منہج پر نہیں ہیں اور عام لوگوں کو کتاب و سنت کی تعلیم کے لیے ان کی طرف رجوع نہیں کرنا چاہیے بلکہ کتاب و سنت کو علی منہج سلف جاننے والے اہل علم کے ساتھ تمسک کرنا چاہیے۔

سلفی العقیدہ علماء احناف
امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ کی عقیدہ پر لکھی جانے والی کتاب ’’عقیدہ طحاویہ‘‘ اور اس کی شرح (جو امام صدر الدین ابن العز حنفی رحمہ اللہ نے کی) آج اہل سنت کے عقیدہ کی بنیادی کتاب شمار ہوتی ہے۔ اس شرح پر محدث العصر ناصر الدین البانی، مفتی اعظم ابن باز، ابن عثمین اور صالح الفوزان رحمۃ اللہ علیہم نے تعلیقات لکھیں۔
اور آج اہل حدیث مدارس میں امام ابن العز الحنفی کی ’’شرح عقیدہ طحاویہ‘‘ پڑھائی جاتی ہے۔ آج بھی برصغیر کے علماء احناف میں وہ علمائے کرام موجود ہیں جو عقیدہ طحاویہ سے عقیدہ کے مسائل کو اخذ کرتے ہیں اور علم الکلام کی کتب پر رد کرتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ محمد انور بدخشانی حفظہ اللہ جو الجامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون میں استاد ہیں۔ انہوں نے امام ابن العزحنفی رحمہ اللہ کی کتاب شرح العقیدۃ الطحاویہ کی تلخیص فرمائی ہے۔ کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ایمان اور عقیدہ کی اصلاح میں کوئی کمی نہ چھوڑے لیکن افسوس ہمارے مدارس اور جامعات میں کوئی ایسی کتاب نہیں جو کتاب و سنت سے ماخوذ خالص اسلامی عقیدہ پر مشتمل ہو بلکہ ہمارے علاقوں میں مدت سے جو کتاب معروف ہے اور جس پر ہم فخر کرتے ہیں۔ وہ علامہ تفتازانی کی کتاب شرح عقائد النسفیہ ہے …علامہ صاحب علم الکلام، بلاغہ و معقول کے امام تھے …
اس کتاب میں کتاب و سنت پر دلالت کرنے والے خالص اسلامی عقائد نہیں ہیں بلکہ اس میں فلسفی عقائد ہیں … فلسفی عقائد وہ ہیں جو علم الکلام کے علماء نے معتزلہ اور فلاسفہ کے ساتھ مناظروں میں اختیار کیے تھے … پس میں نے اللہ کی توفیق سے کتاب و سنت سے ثابت شدہ ضروری عقائد جمع کیے ہیں جن پر اس امت کے سلف کا اجماع ہے۔‘‘ (تلخیص شرح العقیدہ الطحاویہ)
شیخ یوسف العیری رحمہ اللہ کے ایک سوال کے جواب میں مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عموما دیوبندی اشعری اور ماتریدی ہیں لیکن ان میں اہل سنت بھی پائے جاتے ہیں۔ میں لوگوں کے سامنے حق منہج کو واضح کرتا ہوں جو کہ سلف کا منہج ہے اور میں خلف کے منہج سے انہیں ڈراتا ہوں… طالبان کے مفتی اعظم میرے شاگردوں میں سے ہیں اور اسی طرح عبداللہ ذاکری جو کہ بڑے علماء میں سے ہیں وہ بھی اسی منہج پر ہیں۔ ہم حق بات بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ (المیزان لحرکۃ الطالبان)
سماحۃ الشیخ غلام اللہ رحمتی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’رہے ملا عمر نہ تو وہ دیوبندی ہیں نہ حنفی بلکہ وہ ایک عام مسلمان ہیں۔ ممکن ہے وہ جانتے بھی نہ ہوں کہ ’’اشعریت‘‘ اور ’’ماتریدیت‘‘ کیا ہے؟وہ کہا کرتے تھے ’’میں وہ حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں جو نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں قائم کی تھی۔ اس حکومت کی بنیاد کتاب و سنت پر ہو گی۔ ’’ملا عمر‘‘ خود عالم نہیں ہیں بلکہ وہ علماء کے فتاویٰ پر عمل کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’علماء کا کام فتویٰ دینا ہے اور میرا کام تطبیق کرنا ہے۔ وہ نہ صوفی ہے نہ دیوبندی بلکہ وہ سلفیت سے محبت کرنے والے انسان ہیں۔ (مجلۃ البیان سعودی عرب)
مسئلہ ’’وحدۃ الوجود‘‘ کے بارے میں علمائے احناف کا موقف
یہ علماء وحدۃ الوجود اور دیگر کفریات کا صریحاً رد کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ نے وحدۃ الوجود کے رد میں ایک کتاب تحریر فرمائی جس کا نام ’’الرد علی القائلین بوحدۃ الوجود‘‘ رکھا اپنی کتاب کے آخر میں لکھتے ہیں:
’’پھر اگر تم سچے مسلمان اور پکے مومن ہو تو ابن عربی کی جماعت کے کفر میں شک نہ کرو اور اس گمراہ قوم اور بے وقوف گروہ کی گمراہی میں توقف نہ کرو، پھر اگر تم پوچھو: کیا انہیں سلام کہنے میں ابتدا کی جا سکتی ہے؟ میں کہتا ہوں: نہیں اور نہ ان کے سلام کا جواب دیا جائے بلکہ انہیں وعلیکم کا لفظ بھی نہیں کہنا چاہیے کیونکہ یہ یہودیوں اور نصرانیوں سے زیادہ برے ہیں اور ان کا حکم مرتدین کا حکم ہے … ان لوگوں کی لکھی ہوئی کتابوں کو جلانا واجب ہے اور ہر آدمی کو چاہیے کہ ان کی فرقہ پرستی اور نفاق کو لوگوں کے سامنے بیان کرے کیونکہ علماء کا سکوت اور بعض راویوں کا اختلاف اس فتنے اور تمام مصیبتوں کا سبب بنا ہے …(الرد علی القائلین بوحدۃ الوجود ص۱۵۵،۱۵۶)
مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاون) فرماتے ہیں:
’’صوفیہ میں سے بعض تو وہ ہیں جو صحیح راستے پر گامزن ہیں۔ یہ اس راستہ پر ہیں کہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا راستہ ہے۔ یہ دنیا سے بے رغبتی اور احسان کے مرتبہ کا راستہ ہے۔ البتہ جو لوگ ابن عربی وغیرہ کے راستہ پر ہیں جو کہ وحدت الوجود کا عقیدہ رکھتا تھا تو یہ تصوف باطل ہے۔ یہ عقیدہ طالبان کے ہاں نہیں پایا جاتا بلکہ وہ تو ایسے نظریات کے خلاف برسر پیکار ہے۔‘‘ (المیزان لحرکۃ الطالبان)
(۱) حکیم میاں عبدالقادر فاضل دیوبند لکھتے ہیں:
’’وحدۃ الوجود خود کو خدائی مسند پر جلوہ افروز ہونے والوں کا باطل عقیدہ و عمل ہے۔‘‘ (تنزیہ الہٰ ص۱۸۵، مطبوعہ بیت الحکمت لوہاری منڈی لاہور)
(۲) خان محمد شیرانی پنج پیری دیوبندی (زوب بلوچستان) نے وحدۃالوجود کے رد میں ’’کشف الجحود عن عقیدۃ وحدۃ الوجود‘‘ نامی کتاب لکھی ہے جس کے ٹائٹل پر لکھا ہوا ہے کہ ’’اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جن لوگوں کا وحدۃ الوجود اور حلولی کا عقیدہ ہوتا ہے۔ وہ صحیح نہیں ہے۔‘‘ (بحوالہ الحدیث : شمارہ نمبر ۴۹ ص ۲۰)
جامع الفتاویٰ میں یہ فتویٰ مذکور ہے:
سوال: جو مسلمان عاقل و بالغ وحدۃ الوجود کا عقیدہ رکھے، اور یہ کہے کہ ’’سب وہی اللہ تعالیٰ ہے‘‘ تو اس کلام سے وہ مسلمان کافر ہو جائے گا یا نہیں؟
جواب: وحدۃ الوجود کا ظاہر معنی خلاف شرع ہے، جو شخص اس کا قائل ہو، اگر اس کا اعتقاد ہو کہ حق تعالیٰ نے تمام چیزوں میں حلول فرمایا ہے، یا اس شخص کا عقیدہ ہو کہ تمام اشیاء اس ذات مقدس کے ساتھ متحد ہیں، تو اس کلام سے کفر لازم آتا ہے، اور اگر اس کی مراد یہ ہے کہ تمام چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفتوں کا ظہور ہے، تو ایسی حالت میں اس کے کلام سے کفر لازم نہیں آتا، لیکن اس کلام سے ایسے امر کا گمان ہوتا ہے، جو خلاف شرع ہے، اس واسطے یہ کلام عام مجلسوں میں شائع کرنا مناسب نہیں۔ (فتاویٰ عزیزی، ص۶۷ بحوالہ جامع الفتاویٰ، جلد اول، ص۲۷۴)
مسئلہ تقلید
تقلید کی دو قسمیں ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل میں بیان کی جارہی ہے۔
تقلید شرکیہ:
تقلید بعض اوقات شرکیہ ہو جاتی ہے۔ جب مقلد قرآن و حدیث کے مقابلے میں کسی عالم کی بات کو مانے اور قرآن و حدیث سے یکسر اعراض کرے۔ قرآن مجید کو صرف تبرک کے لیے پڑھے لیکن عملاً اس کو ’’دستور حیات‘‘ ماننے سے انکار کرے اور یہ گمان کرے کہ ہمارے امام سے غلطی اور خطا ناممکن ہے اور اس کا ہر قول حق اور صواب ہے اور اپنے دل میں یہ بات جما رکھے کہ ہم اپنے امام کی تقلید ہرگز نہ چھوڑیں گے اگرچہ ہمارے مذہب کے خلاف قرآن و حدیث سے دلیل قائم بھی ہو جائے۔ ایسی تقلید شرکیہ تقلید ہوتی ہے۔
مولانا سرفراز خاں صفدر لکھتے ہیں :
’’کوئی بدبخت اور ضدی مقلد دل میں یہ ٹھان لے کہ میرے امام کے قول کے مخالف اگر قرآن و حدیث سے بھی کوئی دلیل قائم ہو جائے تو میں اپنے مذہب کو نہیں چھوڑوں گا تو وہ مشرک ہے‘‘۔ ہم بھی کہتے ہیں، لا شک فیہ (اس میں کوئی شک نہیں)۔‘‘ (الکلام المفید ،ص:۳۱۰)
مگر افسوس ایسی تقلید کے اثرات علماء کرام تک میں موجود ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
شیخ الہند محمود الحسن صاحب خیار مجلس (البیعان بالخیار ما لم یتفرقا) کے مسئلہ میں لکھتے ہیں:
’’الحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسئلۃ و نحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفہ۔‘‘
’’حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے مگر ہم ابو حنیفہ کے مقلد ہیں ہم پر ان کی تقلید واجب ہے۔‘‘ (تقریر ترمذی، ص:۳۹)
تقلید غیر شرکیہ:
شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ:
’’حنفیہ تقلید کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اسے واجب کہتے ہیں اور اہل حدیث تقلید کی مذمت کرتے ہیں اور اسے حرام کہتے ہیں تو پھر اتحاد کیسے؟
جواب: حرمت اور وجوب کے قائل دو قسم کے لوگ ہیں:
(۱) غالی : جن کے درمیان نزاع حقیقی ہے۔
(۲) محققین: دراصل ان میں نزاع لفظی ہے۔
جس تقلید کی اہلحدیث مذمت کرتے ہیں اور اس کو حرام کہتے ہیں ان کے ادلہ کو اگر دیکھا جائے تو ایسی تقلید کی حرمت و مذمت کا محققین حنفیہ بھی اقرار کرتے ہیں۔ اور جس تقلید کو حنفیہ واجب کہتے ہیں اس کے دلائل کو اگر دیکھا جائے تو ایسی تقلید سے اہلحدیث کو بھی مفر نہیں۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ دین میں تین قسم کی تقلید حرام ہے۔
۱۔ استحسان تربیت کی وجہ سے ’’تقلید آباء‘‘ پر اکتفاء کرنا اور قوت فکر اور دلیل کی طرف رجوع نہ کرنا یعنی قرآن و سنت سے اعراض اور جدی طریق پر جمود۔
۲۔ ایسے شخص کی تقلید کرنا جو قابل اتباع نہیں۔
۳۔ قیام حجت کے بعد بھی سابق طریق پر اڑے رہنا۔
تقلید کے جواز یا وجوب کی صورت
جب مکلف خود مسئلہ کی تحقیق نہ کر سکے اور اس کو تفصیل معلوم نہ ہو تو اس صورت میں بعض دفعہ تقلید جائز اور بعض دفعہ واجب ہو جاتی ہے۔ مگر جو تقلید کی مطلق مذمت کرتے ہیں وہ اس صورت کو تقلید نہیں کہتے اور جو جائز یا واجب کہتے ہیں وہ اسے تقلید کی قسم قرار دیتے ہیں۔ (الاصلاحص۱۵۹)
مولانا محمد تقی عثمانی نے تقلید کی شرعی حیثیت بیان کرتے ہوئے جو کچھ لکھاہے اس کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
’’اس بات سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہو سکتا کہ دین کی اصل دعوت یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی اس لیے واجب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے احکامِ الہٰی کی ترجمانی فرمائی ہے۔ کونسی چیز حلال ہے؟ کونسی چیز حرام؟ کیا جائز ہے؟ ان تمام معاملات میں خالصۃً اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنی ہے، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی بجائے کسی اور کی اطاعت کرنے کا قائل ہو‘ اور اس کو مستقل بالذات مُطاع سمجھتا ہو وہ یقینا دائرہ اسلام سے خارج ہے، لہٰذا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن سنت کے احکام کی اطاعت کرے۔ ……(ص :۷)
دین کے بنیادی عقائد میں تقلید ہمارے نزدیک جائز نہیں ہے، تمام اصولِ فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے کہ تقلید عقائد اور ضروریات دین میں نہیں ہوتی، کیونکہ یہ مسائل نہ اجتہاد کا محل ہیں‘ نہ تقلید کا ۔……(ص۱۱۶)
مولانا تقی عثمانی صاحب علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:
’’شرعی احکام کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ احکام ہیں جن کا جزوِ دین ہونا بداہیۃً ثابت ہے۔ مثلا پانچ نمازیں، زکوٰۃ، رمضان کے روزے، حج، زنا اور شراب نوشی کی حرمت اور اسی جیسے دوسرے احکام، تو اس قسم میں تقلید جائز نہیں، کیونکہ ان چیزوں کا علم تمام لوگوں کو ہوتا ہی ہے لہٰذا اس میں تقلید کے کوئی معنی نہیں اور دوسری قسم وہ ہے جس کا علم فکر و نظر اور استدلال کے بغیر نہیں ہو سکتا، جیسے عبادات و معاملات اور شادی بیاہ کے فروعی مسائل، اس قسم میں تقلید درست ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَاسْاَلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ نیز اس لئے کہ اگر ہم دین کے ان فروعی مسائل میں تقلید کو ممنوع کر دیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہر شخص باقاعدہ علومِ دین کی تحصیل میں لگ جائے، اور لوگوں پر اس کو واجب کرنے سے زندگی کی تمام ضروریات برباد ہو جائیں گی اور کھیتیوں اور مویشیوں کی تباہی لازم آئے گی، لہٰذا ایسا حکم نہیں دیا جا سکتا۔‘‘……
’’پھر اس تقلید کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ تقلید کے لئے کسی خاص امام و مجتہد کو معین نہ کیا جائے، بلکہ اگر ایک مسئلہ میں ایک عالم کا مسلک اختیار کیا گیا ہے تو دوسرے مسئلہ میں کسی دوسرے عالم کی رائے قبول کر لی جائے اس کو "تقلید مطلق" یا "تقلید عام" یا "تقلید غیر شخصی" کہتے ہیں۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ تقلید کے لئے کسی ایک مجتہد عالم کو اختیار کیا جائے، اور ہر مسئلہ میں اسی کا قول اختیار کیا جائے، اُسے "تقلید شخصی" کہا جاتا ہے۔ تقلید کی ان دونوں قسموں کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ ایک شخص براہِ راست قرآن و سنت سے احکام مستنبط کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ جس مجتہد کو قرآن و سنت کے علوم کا ماہر سمجھتا ہے اس کی فہم و بصیرت اور اس کے تفقہ پر اعتماد کر کے اس کی تشریحات کے مطابق عمل کرتا ہے۔ ……(ص ۱۵)
’’تقلید کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ جو شخص براہِ راست، قرآن و حدیث کا مطلب سمجھنے، ان کے ظاہری تعارض کو رفع کرنے، یا ناسخ و منسوخ وغیرہ کا فیصلہ کرنے کی اہلیت اپنے اندر نہیں پاتا وہ کسی مجتہد سے تفصیلی دلائل کا مطالبہ کئے بغیر اس کے علم پر اعتماد اور اس کے فتوے پر عمل کر لیتا ہے، لہٰذا تقلید کے مفہوم میں یہ بات ہرگز داخل نہیں ہے کہ مجتہد کے فتوے پر عمل کرنے کے بعد قرآن و حدیث کا علم حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کی جائے، بلکہ یہ دروازہ تقلید کے بعد بھی کھلا رہتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں مقلدین نے کسی امام کی تقلید شخصی کرنے کے باوجود قرآن کریم کی تفسیریں اور احادیث کی شروح لکھی ہیں، اور اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے علم کو بڑھانے اور تحقیق و نظر کا سلسلہ جاری رکھا ہے، اور اگر اس تحقیق کے دوران کسی مسئلے میں قطعی طور سے واضح ہو گیا ہے کہ کوئی حدیثِ صریح مجتہد کے قول کے خلاف ہے، اور اس کے معارض کوئی قوی دلیل موجود نہیں‘ تو اس مسئلہ میں اپنے امام کی بجائے حدیثِ صریح پر عمل کیا ہے۔ لہٰذا اگر کسی مقلد کو اپنے امام کا کوئی قول کسی حدیث کے خلاف معلوم ہوتا ہے تو اس حدیث کی تحقیق کرنا تقلید کے خلاف نہیں ہے۔ (ص:۴۶)
مولانا تقی عثمانی مقلد حضرات کا عقیدہ و عمل خلاصۃً یوں بیان کرتے ہیں:
(۱) دین کے بنیادی عقائد میں تقلید نہیں ہوتی،
(۲) جو احکام شریعت تواتر و بداہت سے ثابت ہیں ان میں کسی کی تقلید نہیں کی جاتی،
(۳) قرآن و سنت کی جو نصوص قطعی الدلالۃ ہیں، اور جن کا کوئی معارض موجود نہیں ان میں کسی امام کی تقلید کی ضرورت نہیں،
(۴) تقلید صرف اس غرض کے لئے کی جاتی ہے کہ قرآن و سنت سے اگر مختلف باتوں کا اثبات ممکن ہو تو کسی ایک معنی کو معین کرنے کے لئے اپنے ذہن کی بجائے کسی مجتہد کی فہم پر اعتماد کیا جائے۔
(۵) مجتہدین امت کسی کے نزدیک معصوم اور خطاؤں سے پاک نہیں ہیں بلکہ ان کے ہر اجتہاد میں غلطی کا امکان موجود ہے ۔
(۶) ایک متبحّر عالم اگر مجتہد کے کسی قول کو کسی صحیح اور صریح حدیث کے خلاف پائے، اور اس کا کوئی معارض موجود نہ ہو تو اس کے لئے (ان شرائط کے ساتھ جن کا ذکر ’’متبحّر عالم کی تقلید‘‘ کے عنوان کے تحت گزر چکا ہے) مجتہد کے قول کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کرنا ضروری ہے۔ (تقلید کی شرعی حیثیت از محمد تقی عثمانی ص:۱۲۱)
شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’الاصلاح‘‘ میں اہلحدیث اور حنفیہ میں نہ اصولی اختلاف ہے نہ فروعی کے نام سے ایک عنوان قائم کرتے ہیں اور اس عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’’اہلحدیث کے اصول کتاب و سنت، اجماع اور اقوال صحابہ ہیں۔ یعنی جب کسی ایک صحابی کا قول ہو اور اس کا کوئی مخالف نہ ہو، اگر اختلاف ہو تو ان میں سے جو قول کتاب و سنت کے زیادہ قریب ہو، اس پر عمل کیا جائے اور اس پر کسی عمل، رائے یا قیاس کو مقدم نہ سمجھا جائے اور بوقت ضرورت قیاس پر عمل کیا جائے قیاس میں اپنے سے اعلم پر اعتماد کرنا جائز ہے یہی مسلک امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، دیگر ائمہ اہلحدیث کا ہے۔
شیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کتاب ہذا کے مقدمے میں حافظ محمد رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا قول کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’حافظ صاحب کا یہ بیان ان کے نہایت گہرے مطالعہ اور وسعت کا مظہر ہے اور وہ اس طرح کہ جہاں تک امام ابو حنیفہ اور ان کے جلیل القدر تلامذہ (امام محمد اور قاضی ابو یوسف وغیرہ) کا اور ان کا سا طرز فکر و عمل اختیار کرنے والوں کا تعلق ہے، اس کو اگر سامنے رکھا جائے تو واقعی اہلحدیث اور احناف کے اصولوں میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔‘‘ (ص۱۴)
شیخ صلاح الدین یوسف صاحب حفظہ اللہ احناف کو تین گروہ میں تقسیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’پہلا گروہ امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردان رشید امام محمد اور امام ابو یوسف رحمھم اللہ اور ان کا سا طرز عمل اختیار کرنے والوں پر مشتمل ہے۔ ان سے اہلحدیث کا اصولی طور پر اختلاف نہیں۔ حضرت حافظ صاحب گوندلوی رحمہ اللہ نے احناف سے اصول و فروع میں اختلاف کی جو نفی کی ہے اس کا تعلق اسی گروہ سے ہے۔‘‘ (ص۱۵)
’’امام ابو حنیفہ نے اپنی تلامذہ کی تربیت ایسے انداز میں فرمائی کہ قرآن و حدیث کی نصوص کا احترام اور ان کا تسلیم کرنا ضروری ہے اور یوں ان کو فقہی جمود سے بچنے کا درس دیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام صاحب کے خصوصی تلامذہ امام محمد اور امام ابو یوسف رحمہما اللہ نے اپنے استاد سے بے شمار مسائل میں اختلاف کیا یہاں تک کہ ان کی تعداد دو تہائی بیان کی گئی ہے۔‘‘ (ص۱۷)
’’انہی کے نقش قدم پر چلنے والے وہ بعض علماء ہیں جنہوں نے احادیث صحیحہ کی بنیاد پر فقہ حنفی کے بہت سے مسائل یا بعض کو چھوڑ دیا اور احادیث کو ترجیح دی جیسے مولانا عبدالحی لکھنوی وغیرہ۔‘‘ (ص۱۸)
مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب سابق جج وفاقی شرعی عدالت پاکستان جو ایک بہت بڑی حنفی عالم، مولانا مفتی شفیع مرحوم کے جلیل القدر صاحبزادے ہیں اور خود بھی اپنے علم و فضل کے اعتبار سے موجودہ علمائے احناف میں ایک نہایت ممتاز مقام کے حامل ہیں اور اپنے والد گرامی کی قائم کردہ دارالعلوم کراچی میں تدریس حدیث اور افتاء و تحقیق کے منصب عالیہ پر فائز ہیں وہ مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ’’الحیلۃ الناجزہ فی الحلیلۃ العاجزہ‘‘ کے دیپاچے میں فقہ حنفی سے خروج کا جواز تسلیم کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ فقہ حنفی میں عورتوں کو پیش آنے والی مشکلات کا کوئی حل نہیں ہے۔
وہ لکھتے ہیں: ’’ ……حکیم الامت نے بیشتر مسائل میں مالکی مذہب کے مطابق فتویٰ دیا ہے۔‘‘
فقہاء احناف سے صراحت کی ہے کہ اس طرح کرنے سے کوئی شخص تقلید امام کے دائرہ سے نہیں نکلتا جیسا کہ پاک و ہند کے احناف، مالکی مسلک اپنانے کی وجہ سے حنفیہ سے خارج نہیں ہوئے۔ مولانا عبدالحی لکھنوی، شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز اور دیگر بہت سے افراد نے احادیث کی بنا پر فقہ حنفی کے بعض مسائل کو چھوڑ دیا … حقیقت یہ ہے کہ یہ وہی طرز فکر و عمل ہے جو امام ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ نے اختیار کیا اور اس میں کوئی خرابی نہیں بلکہ یہ نہایت پسندیدہ، مستحسن اور ایک مسلمان سے مطلوب ہے اور احناف کا یہی وہ گروہ ہے جس کی بابت زیر نظر کتاب میں کہا گیا کہ ان کے اور اہل حدیث کے مابین نہ کوئی اصولی اختلاف ہے اور نہ فروعی۔‘‘ (الاصلاح ص۲۹)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فقہی مسائل میں اختلاف کی شرعی حیثیت
ان مسائل میں اختلاف کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ اختلاف تنوع
۲۔ اختلاف تضاد
اختلاف تنوع
بعض مسائل ایسے ہیں جن میں دو مختلف اقوال ہوتے ہیں اور دونوں ہی شریعت سے ثابت ہوتے ہیں آدمی کو اختیار ہے کہ جو مرضی عمل اختیار کرے مثلاً نماز میں دعائے استفتاح، رکوع اور سجدے کی تسبیحات اور تشہد کی دعائیں، سفر میں روزے کا رکھنا یا نہ رکھنا۔
"بنو نضیر" سے جنگ کے موقع پر جب صحابہ کرام نے کافروں کے کچھ درخت کاٹے اور کچھ چھوڑ دیئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دونوں عمل کو درست قرار دیتے ہوئے فرمایا:
﴿مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّـهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ﴾ (الحشر:۵)
’’تم نے کھجور کے جو بھی درخت کاٹے یا انہیں اپنی جڑوں پر قائم رہنے دیا تو یہ اللہ ہی کے حکم سے تھا اور تاکہ اللہ فاسقوں کو رسوا کرے ۔‘‘
اسی طرح انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ’’کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں جہاد کا سفر کیا ہم میں سے بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے نہیں رکھا۔ روزہ دار روزہ نہ رکھنے والے پر اعتراض نہ کرتا تھا اور نہ ہی روزہ نہ رکھنے والا روزہ دار پر اعتراض کرتا تھا۔‘‘ (بخاری ۱۹۴۷، مسلم ۱۱۱۸)
اسی اختلاف میں افضل اور مفضول کا اختلاف بھی ہے جیسے کہ عورت کی نماز اگرچہ گھر میں افضل ہے لیکن مسجد میں جا کر نماز پڑھنا اس کے لیے جائز ہے۔ حج و عمرہ کے بعد اگرچہ سر کے بال منڈوانا افضل ہے مگر بال کٹوانا بھی جائز ہے۔
بعض اوقات آیت یا حدیث کے دو مفہوم نکلتے ہیں اور دونوں ہی معانی پر عمل کرنا جائز ہیں۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خندق کے بعد فرمایا "تم میں سے ہر شخص عصر کی نماز 'بنو قریظہ' میں جا کر پڑھے۔ اب نماز کا وقت راستے میں ہو گیا تو بعض نے کہا کہ جب تک ہم "بنو قریظہ" پہنچ نہ لیں عصر کی نماز نہیں پڑھیں گے اور بعضوں نے کہا ہم نماز پڑھ لیتے ہیں کیونکہ آپ کا یہ مطلب نہ تھا کہ ہم نماز قضا کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس امر کا ذکر کیا گیا۔ آپ نے کسی پر خفگی نہیں کی۔ (بخاری: ۴۱۱۹ مسلم: ۱۷۷۰)
گویا بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے یہ سمجھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ عام ہیں جن کا منشا یہ ہے کہ نماز بنو قریظہ کے ہاں جا کر ہی ادا کرنی چاہیے۔ اگرچہ ایسا کرنے میں نماز کا وقت ہی کیوں نہ چلا جائے۔ اور بعض نے ان کے الفاظ کا یہ مطلب سمجھا کہ وہاں جلد پہنچ کر ’’بنو قریظہ‘‘ کا محاصرہ کر لینا چاہیے۔
یہ اس قسم کا اختلاف ہے جس میں دونوں طریقے صحیح ہوتے ہیں البتہ قابل مذمت بات یہ ہے کہ ان مسائل میں اختلاف کی بنا پر جھگڑا کیا جائے۔
اختلاف تضاد
اس امت کے اہل علم میں فقہی عملی مسائل میں اختلاف ہمیشہ رہا ہے ان مسائل میں حق اگرچہ ایک ہی بات ہوتی ہے اور باقی سب اقوال غلط ہوتے ہیں اس لیے یہ کہنا تو غلط ہے کہ جس اہل علم کا قول چاہو اختیار کر لو بلکہ ان مسائل میں کتاب و سنت کو ہی دیکھنا ہو گا اگر یقین ہو جائے کہ فلاں قول قرآن و سنت کے مطابق ہے تو اسے اختیار کرنا واجب ہے اور باقی اقوال کو چھوڑ دیا جائے گا۔
فقہی اختلافات کی بنیاد پر افتراق کرنا درست نہیں
مسائل کے ان اختلافات کی بنیاد پر آپس میں دشمنی اور افتراق کرنا درست نہیں۔ کیونکہ فقہی اور اجتہادی امور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا بھی اختلاف ہوا۔ کسی مسئلہ میں قرآن و حدیث کی صریح نص نہ ہونے کی وجہ سے ان کے اجتہادات مختلف ہوئے اور بعض اوقات اللہ اور اس کے رسول کی بات کا مفہوم سمجھنے میں اختلاف ہوا مگر ان میں وحدت اور اخوت برقرار رہی سلف کے مابین باہمی محبت و ہمدردی اور آپس کے تعلقات کی گرمجوشی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ البتہ اگر مجتہد کوشش کے باوجود صحیح فیصلہ پر نہیں پہنچا تو اس کے لیے غلطی کے باوجود اجر ہے:۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کوئی حاکم اجتہاد کرتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے اور صحیح نتیجے پر پہنچتا ہے تو اسے دوگنا ثواب ملتا ہے اور جب وہ اجتہاد کرتے ہوئے غلط فیصلہ کرتا ہے تو بھی اسے اکہرا ثواب مل جاتا ہے‘‘۔ (بخاری: ۷۳۵۲ مسلم: ۱۷۱۶)
اس اختلاف میں مجتہد مخطئی کے لیے بھی ایک اجر ہے مگر غلطی میں اس کی پیروی نہیں کی جائے گی اور جو شخص یہ جانتا ہو کہ اس مسئلہ میں اس عالم نے خطائخطا کی اور اس کے باوجود وہ اس کی اس مسئلہ میں پیروی کرتا ہے تو وہ گنہگار ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: جمہور علماء نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ اجتہاد کرتے ہوئے خطا کرنے والا گنہگار نہیں کیونکہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں گروہوں میں سے کسی کو بھی گنہگار قرار نہیں دیا اور اگر مجتہد مخطی گنہگار ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس کی پکڑ کرتے‘‘ (فتح الباری ۷/۴۱۰)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین، تابعین، ائمہ حدیث اور فقہا کرام رحمۃ اللہ علیہم کا اختلاف اسی قسم کا ہے۔ آج جہالت کے پھیل جانے کی وجہ سے امت مسلمہ میں اختلاف کی نوعیت اور اس کی نسبت سے سمجھ اور اس پر عمل یعنی شرعی رویہ مفقود ہے۔ اس کی جگہ افراط و تفریط کے انفرادی اور اجتماعی اسلوب اپنائے جا رہے ہیں۔
بعض لوگ حق کو کسی ایک فقہی مذہب یا اپنے امام کی فقہ تک محدود کر لیتے ہیں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے کی بجائے اس کی تأویلات ہی کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیتے ہیں بلکہ پچھلی چند صدیوں کے بزرگوں سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ان کی ہر بات حتمی سمجھی جا رہی ہے۔ پچھلی تین، چار سو سالوں کے بزرگوں کے نظریات کی پابندی کی اور کروائی جا رہی ہے۔
دوسری طرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ، احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور ائمہ حدیث رحمۃ اللہ علیہم کے بعض فقہی اختلافات کا ذکر کر کے انہیں کتاب و سنت کے مخالف قرار دیتے ہوئے اسلام ہی سے خارج قرار دیا جا رہا ہے انہیں فرقہ پرست اور شرک فی الرّسالت کا مرتکب گردانا جا رہا ہے حالانکہ ان ائمہ کرام کے وہی عقائد ہیں جو کتاب و سنت نے بیان کیے اور جس پر صحابہ اور تابعین کرام تھے۔ الحمد للہ ان ائمہ اربعہ اور ان جیسے اہل علم کے درمیان اصول دین میں کوئی نزاع نہیں ہے۔ بلکہ یہ اختلافات ان امور میں ہوتے ہیں جو کہ اجتہادی ہیں۔ فروعات کے فہم کا اختلاف صحابہ تک میں ہوا۔ امت کے بڑے بڑے محدثین، مفسرین اور فقہا خود حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور اہل حدیث کا مذہب رکھتے تھے۔ ان امور میں ان کے درمیان کوئی تعصب نہیں تھا۔
افسوس کہ آج فقہی امور پر بحث و مناظرہ کرتے ہوئے علماء کرام کی عزت و آبرو کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی۔ ایک مسلمان عالم کی ذمہ داری ہے کہ فقہی امور میں تنقید کرتے وقت احسن انداز اختیار کرے۔ ان فقہی امور میں اختلاف کرنے والوں سے وہ رویہ نہ رکھے جو ایک ملحد، کافر و مشرک یا کلمہ پڑھنے کے بعد اسلام کے منافی امور کے مرتکب شخص سے رکھنا واجب ہے۔
امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اجتہادی مسائل میں اختلاف صحابہ کے دور سے لے کر آج تک واقع ہوتا آیا ہے۔ سب سے پہلے جو اختلاف ہوا وہ خلفائے راشدین مہدیین کے زمانے میں ہوا پھر صحابہ کے سب ادوار میں رہا۔ پھر تابعین میں ہوا۔ ان میں سے کسی نے بھی اس پر کسی کو معیوب نہ جانا۔ صحابہ کے بعد والوں میں بھی اسی طرز پر اختلاف ہوا اور اس میں توسیع بھی ہوئی۔ (الاعتصام از امام ابو اسحاق الشاطبی ۸۰۹)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((وأما لاختلاف في (الأحکام) فأکثر من أن ینضبط ولو کان کل ما اخلتف مسلمان في شيء تھاجرا۔ لم یبق بین المسلین عصمۃ ولا أخوۃ)) (فتاوی ابن تیمیہ ۲۴/۱۷۳)
’’مسائل احکام میں تو اس قدر اختلاف ہوا ہے کہ اس کا ضبط میں آنا ممکن نہیں۔ اگر کہیں ایسا ہوتا کہ جب بھی کبھی دو مسلمانوں میں کسی مسئلے کی بابت اختلاف ہو تو ایک دوسرے سے قطع تعلقی اختیار کر لیتے تو مسلمانوں میں کسی عصمت یا اخوت کا نام تک باقی نہ رہتا‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ مدینہ میں ام المومنین عائشہ صدیقہ، زید بن ثابت اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم اجمعین لوگوں کو دین سکھلانے لگے، تابعین کے دور میں سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر پھر امام زھری اور یحییٰ بن سعید آئے۔ پھر امام مالک رحمہ اللہ نے ان سب کا علم مدون کر دیا۔ مکہ مکرمہ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے دینی حلقہ قائم کیا۔ ان سے عکرمہ، مجاہد اور عطاء رحمہ اللہ نے دین سیکھ کر پھیلایا۔ پھر سفیان بن عیینہ اور مسلم بن خالد آئے اور آخر کار محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ نے ان سے منقول شدہ احادیث اور فتاویٰ جمع کر دیئے۔ عراق اور کوفہ میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین نے اللہ کے دین کو روشن کیا۔ ان کے شاگرد علقمہ بن قیس اور قاضی شریح نے ابراہیم نخعی اور پھر حماد بن سلیمان سے ہوتے ہوئے امام ابو حنیفہ نعمان اور ان کے شاگرد امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ وغیرہ تک وہ فتاویٰ آئے۔
جب خلیفہ منصور نے امام مالک رحمہ اللہ سے مشورہ کیا کہ مؤطا مالک کو سب مسلم خطوں میں نافذ کر دیا جائے تو امام مالک رحمہ اللہ نے جو جواب دیا وہ ہمارے لیے قابل غور ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ امام مالک کے الفاط یوں نقل کرتے ہیں:
’’اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملکوں کے اندر بکھر گئے تھے۔ اب ہر قوم ان کے علم سے وہ چیز لے چکی ہے جو ان کو صحابہ کرام سے پہنچی تھی۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ: ج۳۰، ص:۷۹)
امام ذہبی یوں نقل کرتے ہیں:
’’اے امیر المومنین ایسا مت کیجئے کیونکہ اس سے قبل لوگوں کے ہاں اقوال پہنچے ہوئے ہیں۔ ان کو احادیث اور روایات ملی ہوئی ہیں۔ اصحاب رسول اور دیگر اہل علم کے اختلاف سے ہر قوم کو جو چیز پہنچی وہ اس کو لے چکی اور اس کو معمول بنا کر بطور دین اختیار کر چکی۔ اب لوگ جس بات کے قائل ہو چکے اس سے ان کو ہٹانا شدید بات ہے۔ لہٰذا لوگوں کو اب ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ ہر ملک کے لوگوں نے جو کچھ اختیار کیا ہے ان کو اسی پر رہنے دیجئے۔‘‘ (سیر اعلام النبلاء، ج:۸، ص۷۸)
اجتہادی اختلاف کی بنا پر تکفیر نہیں کرنی چائیے
اجتہادی مسائل کا اختلاف کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو کبھی صحابہ نے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کی۔ دیکھیے عائشہ، معاویہ اور علی رضی اللہ عنہم اجمعین کے مابین اختلاف نے کتنی شدت اختیار کی مگر اس کے باوجود انہوں نے ایک دوسرے کو مسلمان ہی سمجھا۔ ملاحظہ فرمائیں:
((عن رباح بن الحارث قال: انا لبواد، وان رکبتي لتکاد تمس رکبۃ عماربن یاسر اذ أقبل رجل فقال: کفر واللہ أھل الشام۔ فقال عمار: لا تقل ذلک، فقبلتنا واحدۃ، ونبینا واحد، ولکنھم قوم مفتونون، فحق علینا قتالھم حتی یرجعوا الی الحق))
رباح بن حارث رحمہ اللہ کہتے ہیں ہم عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک وادی میں تھے (عمار بن یاسر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی تھے اور آپ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی تھی کہ آپ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ چنانچہ آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔) ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا اللہ کی قسم! اہل شام (معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھی) کافر ہو گئے۔ عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسا مت کہو، ہمارا قبلہ ایک ہے، نبی ایک ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ وہ فتنہ زدہ لوگ ہیں جن سے قتال کرنا ہم پر واجب ہے یہاں تک کہ وہ حق کی طرف لوٹ آئیں۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ((لا تقولوا: کفر أھل الشام قولوا: فسقوا، قولو: ظلموا)) (منھاج السنۃ ۵/۲۴۶)
"یہ نہ کہو کہ اہل شام نے کفر کیا، کہو انہوں نے فسق کیا، ظلم کیا"
یاد رہے کہ جنگ جمل و صفین میں گنتی کے چند صحابہ نے شرکت کی تھی۔ اُن کا مقصد بھی جنگ کرنا نہیں تھا بلکہ ان دو گروہوں میں اصلاح کروانا تھا۔ ان جنگوں کو بھڑکانے میں اصل کردار منافقین اور سبائی پارٹی کا تھا۔
قال عبداللہ بن الامام أحمد: ((حدثنا أبي، حدثنا اسماعیل یعنی ابن علیۃ، حدثنا أیوب السختیاني، عن محمد بن سیرین، قال: ھاجت الفتنۃ وأصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشرۃ آلاف، فما حضرھا منھم مائۃ، بل یبلغوا ثلاثین)) (السنۃ للخلال۱/۴۴۶)
’’محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب مسلمانوں کے مابین قتال ہوا تب اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعداد دس ہزار تھی لیکن ان جنگوں میں ان میں سے ۱۰۰ افراد بھی شامل نہ ہوئے بلکہ ان کی تعداد ۳۰ کو بھی نہ پہنچتی تھی۔‘‘
امام ابن تیمیہ اس روایت کی سند کے بارے میں فرماتے ہیں:
((وھذا الاسناد من أصح اسناد علی وجہ الأرض)) (منھاج السنۃ ۶/ ۲۳۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ائمہ کے مابین اختلافات کے اسباب
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’رفع الملام عن الائمۃ الاعلام‘‘ میں ان وجوہات کا ذکر کیا ہے جس کی بنا پر ہمارے ائمہ کرام نے فقہی امور میں اختلاف کیا۔ جس کا مطالعہ انتہائی مفید ہے:
اگر کسی امام کا قول صحیح حدیث کے خلاف ہو تو اس کی درج ذیل وجوہات میں سے کوئی وجہ ہو سکتی ہے۔
(۱) امام تک حدیث کا نہ پہنچنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی بات فرماتے یا کوئی عمل کرتے تو اس محفل میں موجود صحابہ کرام اس بات کو یاد رکھتے اور جہاں تک ممکن ہوتا اس بات کو دوسروں تک پہنچاتے اور بعض اوقات ایک مجلس میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو جن باتوں کا علم ہوتا دوسری مجلس والے ان سے محروم رہتے۔ لہذا کوئی عالم بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے تمام احادیث رسول کا احاطہ کر لیا ہے اور جب کسی عالم کو حدیث نہ ملے تو وہ اس پر کیسے عمل کر سکتا ہے؟ شرعاً بھی وہ اس حدیث پر عمل کرنے کا مکلف نہیں۔ اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں
(1) سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ (جو سفر و حضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے تھے) سے پوچھا گیا کہ کیا میراث میں دادی کا حصہ ہے تو آپ نے فرمایا کہ ’’اللہ کی کتاب میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں اور میرے علم کے مطابق سنت رسول میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں البتہ میں لوگوں سے پوچھوں گا۔ پھر مغیرہ بن شعبہ اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دادی کو چھٹا حصہ میراث دلوائی‘‘۔ (ترمذی: ۲۱۰۰، امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے)
(2) سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان معلوم نہ تھا کہ جب تم میں سے کوئی تین بار اجازت مانگے اور اس کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہ ملے تو وہ واپس چلا جائے۔ ابو سعید خدری اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہما نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کی خبر دی (بخاری: ۶۲۴۵، مسلم: ۲۱۵۳) حالانکہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا علمی مقام دیگر صحابہ سے بہت بلند ہے۔
(3) سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ شام جا رہے تھے راستہ میں انہیں معلوم ہوا کہ شام میں طاعون پھیلا ہوا ہے۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مشورہ کیا۔ کسی کو بھی حدیث رسول معلوم نہ تھی یہاں تک کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی کہ ’’جب کسی علاقہ میں طاعون پھیل جائے اور تم وہاں موجود ہو تو وہاں سے بھاگنے کی کوشش نہ کرو اور جب تمہیں پتہ چلے کہ کسی علاقہ میں طاعون پھیل چکا ہے تو وہاں مت جاؤ۔ (بخاری: ۵۷۲۹.)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اس امت کے سب سے بڑے عالم، فقیہ اور صاحب تقویٰ تھے وہ بھی بعض دینی احکام و مسائل سے آگاہ نہ تھے اس طرح ہر امام کو تمام صحیح احادیث معلوم نہ تھیں کیونکہ کتب احادیث اس وقت لکھی گئیں جب ان ائمہ کا دور ختم ہو چکا تھا اور مجتہد کے لیے ضروری نہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال و اعمال کا علم رکھتا ہو۔ اس کے لیے اکثر دینی احکام و مسائل سے آگاہ ہونا کافی ہے۔
2۔ حدیث کی صحت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ مختلف علاقوں اور شہروں میں پھیل گئیں ان میں بکثرت احادیث ایسی بھی تھیں جو بعض علما تک ضعیف سند کے ساتھ پہنچیں اور انہوں نے اس حدیث کی صحت کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ اس کی سند میں ان کے نزدیک کوئی راوی مجہول الحال ہوتا ہے یا اسے وہ روایت منقطع سند سے پہنچتی ہے۔ جبکہ دیگر علماء کو وہی روایت اسناد صحیحہ مرفوعہ کے ساتھ پہنچیں ان کو اس مجہول راوی کا پتہ ہوتا ہے کہ وہ ثقہ راوی ہے یا اس حدیث کے ایسے شواہد و متابعات پائے جاتے ہوں جن سے وہ روایت صحیح بن جاتی ہے یہ وہ اہم وجہ ہے جس کی بنا پر ایک عالم کسی حدیث صحیح کو قبول نہیں کرتا کیونکہ اسے وہ حدیث ضعیف سند سے پہنچتی ہے۔
3۔ سند میں موجود راویوں کے حالات پر اختلاف
بعض اوقات حدیث کے کسی راوی کو ایک امام ثقہ قرار دیتا ہے اور دوسرا ضعیف کہتا ہے۔ حدیث کو ثقہ قرار دینے والا یہ سمجھتا ہے کہ حدیث کے ضعیف ہونے کی جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ درست نہیں۔ بعض اوقات حدیث کے راوی کا بڑھاپے میں حافظہ خراب ہو جاتا ہے یا اس کی کتب جل جاتی ہیں۔ بعض محدثین یہ معلوم کر لیتے ہیں کہ اس نے یہ حدیث کس دور میں بیان کی اور وہ کتب کے جل جانے سے پہلے کی بیان کردہ روایات کو ثقہ قرار دیتے ہیں جبکہ دوسرے محدثین اس علم کے نہ ہونے کی بنا پر اسے ضعیف سمجھتے ہیں۔
4۔ راوی کا بھول جانا
بعض اوقات خود راوی کو حدیث یاد نہیں رہتی۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ اگر کوئی شخص سفر کی حالت میں جنبی ہو جائے، پانی دستیاب نہ ہو تو وہ نماز کیسے ادا کرے۔ فرمایا جب تک پانی نہ ملے نماز ادا نہ کرے۔ یہ سن کر سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا۔ اے امیر المومنین کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ اونٹوں کے ریوڑ میں مقیم تھے اور ہم جنبی ہو گئے۔ میں مٹی میں ایسے لوٹا جیسے چوپایا لوٹتا ہے (پھر نماز ادا کر لی) مگر آپ نے نماز ادا نہ کی اور یہ ماجرا بارگاہ نبوت میں عرض کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا ’’تمہارے لیے صرف یہ کافی تھا۔ پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ان دونوں سے اپنے منہ اور ہتھیلیوں پر مسح کیا۔ یہ سن کر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا ’’اے عمار اللہ سے ڈرو‘‘۔ عمار نے کہا اگر آپ فرمائیں تو میں یہ حدیث بیان نہ کیا کروں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرا مطلب یہ نہیں۔ جب تم نے اس کی ذمہ داری اپنی ذات پر ڈالی ہے تو ہم بھی اسے تم پر ڈالتے ہیں۔ (بخاری ۳۴۵ مسلم ۳۶۸)
گویا سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کے یاد دلانے پر بھی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو وہ واقعہ یاد نہ آیا لیکن آپ نے عمار کو جھوٹا قرار نہ دیا بلکہ اس حدیث کو بیان کرنے کی اجازت دی۔
5۔ کسی حدیث سے غلط مفہوم لینے کا خوف
بعض اوقات ائمہ دیکھتے ہیں کہ لوگ کسی حدیث کا غلط فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ وہ لوگوں کی اصلاح کے لئے اس مباح کام سے روک دیتے ہیں ملاحظہ فرمائیں:
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ مجھے بتائیے کہ اگر مجھے نہانے کی حاجت ہو اور پانی نہ ملے تو میں کیا کروں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ جب تک پانی نہ ملے نماز نہ پڑھو۔ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ عمار کی روایت کا کیا جواب ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرے لیے (مٹی سے تیمم) کافی ہے تو فرمانے لگے کہ عمر فاروق نے اسے کافی نہ سمجھا۔ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہنے لگے آپ اس آیت (المائدہ:۶) کا کیا کریں گے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو سمجھ میں نہ آیا کہ کیا جواب دیں۔ وہ کہنے لگے کہ ہم اگر لوگوں کو اس معاملہ میں اجازت دے دیں تو جس کو پانی ٹھنڈا لگے گا وہ تیمم کر لے گا۔‘‘ (بخاری :۳۴۶)
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دور خلافت میں اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک تین طلاقیں ایک طلاق ہی شمار ہوتی تھیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگوں نے ایسے معاملہ میں جلدی کی جس کے لیے انہیں سہولت دی گئی تھی، پس چاہیے کہ ہم اسے نافذ کر دیں لہٰذا آپ نے اسے ان پر جاری کر دیا (یعنی تین طلاقوں کے بیک وقت تین واقع ہونے کا حکم دے دیا) (مسلم :۱۴۷۲)
6۔ غریب الاستعمال الفاظ
بعض اوقات ایک عالم غلطی میں اس لیے مبتلا ہوتا ہے کہ وہ ان میں استعمال ہونے والے الفاظ کا صحیح مفہوم سمجھ نہیں پاتا مثلاً :-
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
﴿وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ﴾ (البقرۃ :۱۸۷)
’’اور تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے واضح طور پر نمایاں ہو جائے۔‘‘
تو میں نے دو دھاگے لیے ایک سیاہ اور ایک سفید۔ میں نے دونوں دھاگے اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیے اور ان کو دیکھتا رہا۔ جب سفید دھاگا نظر آنے لگا تو کھانا بند کر دیا۔ صبح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ماجرا عرض کیا۔ آپ نے فرمایا تمہارا تکیہ تو بڑا وسیع ہے (جو پوری کائنات پر محیط ہے) یاد رکھو سفید دھاگے سے مراد دن کی سفیدی اور سیاہ دھاگے سے مراد رات کا اندھیرا ہے (یعنی جب دن کی سفیدی رات کے اندھیرے سے ممتاز ہو جائے یعنی فجر صادق تو کھانا پینا بند کر دو) (بخاری ۴۵۰۹ مسلم ۱۰۹۰)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع الحصاۃ اور بیع الغرر سے منع فرمایا (مسلم ۱۵۱۳)
بیع الحصاۃ اور بیع الغرر اور اس طرح کے دیگر نادرالاستعمال الفاظ کی تشریح میں علماء کرام کا اختلاف ہو جاتا ہے۔
*7۔ حدیث کے الفاظ کے مفہوم میں اختلاف*
بعض اوقات ایک عالم حدیث پر اس لیے عمل نہیں کرتا کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ حدیث زیر بحث مسئلہ پر دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ حدیث میں جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ مجمل ہے اس کا مفہوم واضح نہیں یا یہ لفظ کئی معانی میں استعمال ہوتا ہے اور اس موقع پر کوئی قرینہ ایسا نہیں جس سے پتہ چلے کہ یہاں کون سے معنی مراد ہیں یا ایک امام ایک معنیٰ اور دوسرا کوئی اور سمجھتا ہے۔
*8۔ دو متعارض احادیث میں تطبیق*
بعض اوقات ایک عالم ایک حدیث کو قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے اس کے پاس ایک ایسی (قرآن و سنت کی) دلیل ہے جس کی بنا پر اس مسئلہ پر اس حدیث سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ دو مختلف اقوال کے تعارض کو دور کرنا اور بعض کو بعض پر ترجیح دینا آسان کام نہیں مثلاً: ایک عام دلیل کسی خاص دلیل کے خلاف ہو۔ یا مطلق اور مقید کے مابین اختلاف پایا جاتا ہو۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خندق کے بعد فرمایا: تم میں سے ہر شخص عصر کی نماز بنو قریظہ میں جا کر پڑھے۔ اب نماز کا وقت راستے میں ہو گیا تو بعض نے کہا کہ جب تک ہم ’’بنو قریظہ‘‘ پہنچ نہ لیں عصر کی نماز نہیں پڑھیں گے اور بعضوں نے کہا ہم نماز پڑھ لیتے ہیں کیونکہ آپ کا یہ مطلب نہ تھا کہ ہم نماز قضا کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس امر کا ذکر کیا گیا۔ آپ نے کسی پر خفگی نہیں کی۔ (بخاری: ۴۱۱۹ مسلم: ۱۷۷۰)
گویا بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے یہ سمجھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ عام ہیں جن کا منشا یہ ہے کہ نماز بنو قریظہ کے ہاں جا کر ہی ادا کرنی چاہیے۔ اگرچہ ایسا کرنے میں نماز کا وقت ہی کیوں نہ چلا جائے۔ اور بعض نے ان کے الفاظ کا یہ مطلب سمجھا کہ وہاں جلد پہنچ کر ’’بنو قریظہ‘‘ کا محاصرہ کر لینا چاہیے۔
بعض اوقات احادیث میں تعارض ہوتا ہے اس تعارض کو ایک فقیہ جس طریقہ سے حل کرتا ہے دوسرا فقیہ اس سے اتفاق نہیں کرتا وہ اس کو دوسرے طریقے سے حل کرتا ہے۔ سیدنا عمر اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کا اختلاف ملاحظہ فرمائیں:
(1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے بدر کے روز قریش کے سرداروں کی لاشوں کو بدر کے ایک گندے کنویں میں پھینک دی گئیں۔ آپ کنویں پر کھڑے ہو گئے پھر انہیں ان کا اور ان کے باپ کا نام لے لے کر پکارنا شروع کیا۔ اے فلاں بن فلاں! کیا تمہیں یہ بات اچھی لگتی ہے کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی؟ ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے ہم نے برحق پایا، کیا تم نے اسے برحق پایا جس کا تم سے تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ایسے جسموں سے کیا باتیں کر رہے ہیں جن میں روح ہی نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے میں جو کچھ کہہ رہا ہوں تم لوگ اسے ان سے زیادہ نہیں سن رہے۔ ایک روایت میں ہے تم لوگ ان سے زیادہ سننے والے نہیں لیکن یہ لوگ جواب نہیں دے سکتے۔‘‘ (بخاری:۱۳۷۱، مسلم:۹۳۲)
جب یہ بات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتائی گئی تو انہوں نے اس بات کو قرآنی آیات کے مخالف سمجھا اور قرآن مجید کی دو آیات تلاوت فرمائیں:
﴿اِنَّكَ لَا تُسْمِـــعُ الْمَوْتٰى﴾ (النمل:۸۰)
’’کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو (بات) نہیں سنا سکتے۔‘‘
﴿وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ﴾ (فاطر:۲۲)
’’تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے۔‘‘
اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ بے شک یہ جان چکے ہیں کہ جو کچھ میں انہیں کہتا تھا وہ حق ہے۔ (مسلم:۹۳۲)
(2) اسی طرح جب ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنایا گیا کہ میت کو اس کے اہل و عیال کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کبھی نہیں کہا بلکہ آپ نے یوں فرمایا کہ بے شک کافر کو اس کے اہل عیال کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ اور فرمایا کہ تمہارے لیے قرآن مجید کافی ہے:
﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾ (فاطر:۱۸)
’’اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ (مسلم :۹۲۹)
ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ابو عبدالرحمن کی مغفرت فرمائے انہوں نے جھوٹ نہیں بولا البتہ وہ بات بھول گئے یا انہوں نے سمجھنے میں غلطی کی۔ (مسلم:۹۳۲)
ان دونوں روایات پر غور فرمائیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے قول رسول کو تسلیم نہیں کیا حالانکہ انہیں بیان کرنے والا صحابی رسول ہے۔ لیکن انہوں نے وہ مسئلہ شریعت کی کلیات (یعنی قرآن و سنت) ہی کی طرف لوٹایا۔ ایسی ہی بعض اوقات ایک عالم ایسی حدیث کو جو اس کے نزدیک غیر واضح اور قابل تأویل ہے وہ اسے شریعت کی واضح، محکم اور ناقابلِ تأویل آیات و حدیث کی طرف لوٹاتا ہے اسے حدیث کا منکر کہنا ظلم ہے!
امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس مسئلہ کی اصل سلف صالحین کے ہاں موجود ہے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حدیث ((ان المیت لیعذب ببکاء اھلہ)) ’’یقیناً مردے کو اپنے گھر والوں کے رونے کے سبب سے عذاب ہوتا ہے۔‘‘ کو رد کیا تو وہ اسی اصل کی بنیاد پر، کیونکہ قرآن میں اللہ کا فرمان ہے: ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾ (فاطر:۱۸) ’’اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ (مسلم :۹۲۹)
نیز سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے شب اسراء کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے دیدارِ کرنے سے متعلق حدیث کو رد کیا، اس آیت کی بنا پر کہ ﴿لَا تُدْرِكُہُ الْاَبْصَارُ﴾ (الانعام :۱۰۳) ’’آنکھیں اس کو پا نہیں سکتیں۔‘‘
نیز سیدہ عائشہ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اجمعین دونوں نے سیدنا ابو ہریرہ کی اس خبر کو رد کیا جس میں ہاتھوں کو برتن میں ڈالنے سے پہلے دھونے کا حکم ہے۔
9۔ حدیث مخالف کو منسوخ سمجھنا
بعض اوقات ایک عالم ایک حدیث پر عمل نہیں کرتا کیونکہ اس کے خیال میں ایک دوسری حدیث ہے اور زیر بحث روایت ضعیف ہے یا منسوخ ہے یا اس میں تأویل کی گنجائش ہے۔ حالانکہ زیر بحث حدیث جسے وہ عالم ضعیف سمجھتا ہے سند اور متن کے اعتبار سے بلحاظ صحت و ثقاہت ثابت ہے۔ یا وہ حدیث جس کو وہ ناسخ جانتا ہے وہ حقیقت میں منسوخ ہے یا اسے تأویل کرنے میں غلطی لگی ہو اور اس نے اس کے وہ معانی بیان کئے ہیں جن کی اس کے الفاظ میں سرے سے گنجائش ہی نہیں۔ یا وہ عالم سمجھتا ہے کہ اس مسئلے میں اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت کچھ اور کہتی ہے جیسے ابو اسحاق رحمہ اللہ نے فرمایا ’’میں بڑی مسجد میں اسود بن یزید کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ہمارے ساتھ امام شعبی رحمہ اللہ بھی تھے امام شعبی نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی روایت بیان کی کہ ان کو ان کے خاوند نے تین طلاقیں دیں۔ انہوں نے ان کے اہل و عیال سے نفقہ کا مطالبہ کیا ان کے انکار پر وہ رسول اللہ کے پاس گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لیے (تین طلاقوں کے بعد خاوند کے ذمے) نہ تو نان نفقہ ہے اور نہ رہائش ہے‘‘ اسود رحمہ اللہ نے کنکریاں پکڑ کر امام شعبی کو ماری اور فرمایا تم یہ حدیث بیان کرتے ہو حالانکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ ہم ایک عورت کے کہنے پر اللہ کی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں چھوڑ سکتے معلوم نہیں کہ اس خاتون کو واقعہ یاد بھی رہا یا نہیں اس لیے سیدنا عمر نے (تین طلاقوں والی) عورت کو عدت کے دوران رہائش اور خرچہ دلوایا سیدنا عمر نے اس آیت سے استدلال کیا: ﴿لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ﴾ (الطلاق:۱) ’’نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وه (خود) نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وه کھلی برائی کر بیٹھیں‘‘۔ (مسلم 1480)
علماء کا طرز عمل:
بعض اوقات عالم اپنی دلیل بیان کرتا ہے اور بعض اوقات وہ کوئی دلیل بیان ہی نہیں کرتا اور جب وہ دلیل بیان کرتا ہے تو کبھی وہ دلیل ہم تک پہنچتی ہے اور کبھی نہیں پہنچتی۔ کبھی ہم ان کے انداز استدلال کو سمجھتے ہیں اور کبھی نہیں سمجھتے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی بیان کردہ دلیل درست ہے یا غلط۔ یہ ان وجوہات میں سے چند ہیں کہ جن کی بنا پر ہمارے سلف صالحین میں اجتہادی مسائل میں اختلاف ہوا اور بعض علماء نے بعض احادیث پر عمل نہیں کیا اور ترک حدیث کے باوجود یہ علماء اہل سنت کے امام مشہور ہوئے۔ انہوں نے اجتہاد کیا۔ اگر انہوں نے اجتہاد میں خطاء کی تو بھی ان کے لیے ایک اجر ہے۔
جو شخص کسی حدیث پر عمل نہیں کرتا تو اس کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں۔
1۔ بلا جواز: یہ اسی شخص کا کام ہے جو خواہشات نفسانی سے مغلوب ہو کر باطل کی حمایت کرے جو شخص باطل کو پہچان کر اس کی تائید کرے جبکہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو وہ مجرم ہے۔ رہے ہمارے ائمہ تو یہ ممکن نہیں کہ کوئی عالم بلا وجہ یا بلا جواز حدیث پر عمل کرنا ترک کرے۔
2۔ سہل انگاری: علماء کرام سے یہ اندیشہ تو ہے کہ وہ پیش آنے والے مسئلہ کا شرعی حکم معلوم کرنے میں سہل انگاری اور سستی کریں۔ معمولی غور و فکر کے بعد فتویٰ دے دیں اور استدلال کرنے میں بھی کوتاہی سے کام لیں اور اس بات کو پیش نظر نہ رکھیں کہ ان کے فتویٰ کے خلاف دلیل موجود ہے یا وہ اس بات کی فکر ہی نہ کریں کہ ان کے اجتہاد کا کیا نتیجہ نکلے گا؟
اسی لیے ہمارے ائمہ فتویٰ دینے سے بچنے کی کوشش کرتے تھے کیونکہ مسئلہ کی تحقیق میں جس محنت کی ضرورت ہے وہ نہ کر سکیں گے۔ البتہ یہ سہل انگاری گناہ ہے مگر علماء حقہ سے جب ایسا گناہ ہو جائے تو وہ توبہ استغفار، اعمال صالحہ کرنے سے، آنے والی مصیبتوں، بیماریوں، شفاعت اور رحمت الٰہی کی بنا پر گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
3۔ جائز اور درست وجہ: اگر کسی مسئلہ میں شرعی حکم معلوم کرنے اور فتویٰ دینے کی ضرورت ہو اور قرآن و سنت سے مسئلہ اخذ کرنے کے لیے کسی سستی اور سہل انگاری سے کام نہ لیا جائے اور اسکے باوجود صحیح فیصلہ نہ ہوا ہو تو یہ ترک عمل جائز اور درست ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ان مسائل میں راجح بات تو بیان کی جائے گی، مگر امت میں ان مسائل کی بنا پر دشمنی پیدا نہیں کی جائے گی جیسا کہ آج کل رکوع کی رکعت، امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا، نماز جنازہ سری یا جہری پڑھنا، غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا اور ایسے ہی بہت سے مسائل کی بنا پر ایک دوسرے کی تکفیر تک کر دی جاتی ہے۔ یقیناً یہ روش درست نہیں۔
رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہاتھوں کو باندھنے پر اختلاف کے جواب میں مفتی اعظم الشیخ ابن باز لکھتے ہیں:
’’افضل یہ ہے کہ ہاتھوں کو سینہ پر باندھا جائے خواہ وہ قیام رکوع سے پہلے ہو یا بعد میں……لیکن یاد رہے کہ ہاتھوں کو باندھنا یا چھوڑ دینا ان مسائل میں سے نہیں کہ جن کی وجہ سے امت میں اختلاف اور دشمنی پیدا کی جائے بلکہ مسلمانوں کے لیے واجب ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں، اللہ تعالیٰ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کریں، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کریں خواہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے یا چھوڑنے جیسے فروعی مسائل میں اختلاف ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ہاتھوں کو باندھنا سنت ہے واجب نہیں، جو شخص ہاتھوں کو باندھ کر نماز پڑھے یا چھوڑ کر اس کی نماز صحیح ہے ہاں البتہ ہاتھوں کو باندھنا افضل اور مشروع ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے مطابق ہے (فتاویٰ اسلامیہ جلد اوّل ۴۱۰)
شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فاتحہ خلف الامام کو فروعی مسئلہ قرار دیتے ہوئے محدث حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کا قول یوں نقل کرتے ہیں:
’’ہمارا تو مسلک ہے کہ فاتحہ خلف الامام کا مسئلہ فروعی اختلافی ہونے کی بنا پر اجتہادی ہے پس جو شخص حتی الامکان تحقیق کرے اور یہ سمجھے کہ فاتحہ فرض نہیں خواہ نماز جہری ہو یا سری اپنی تحقیق پر عمل کرے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی۔‘‘ (توضیح الکلام فی وجوب القراۃ خلف الامام، ص:۷۳)
مسئلہ فاتحہ خلف الامام کے بارے میں مشہور تابعی امام قاسم بن محمد رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں اور اسے حسن قرار دیتے ہیں:
’’کہ اگر تم (امام کے پیچھے فاتحہ) پڑھو گے تو تمہارے لیے صحابہ کرام میں نمونہ ہے اور اگر تم نہ پڑھو گے تو بھی تمہارے لیے صحابہ کرام میں نمونہ ہے۔‘‘
پھر فرماتے ہیں کہ اس میں اشارہ ہے کہ یہ مسئلہ صحابہ کرام سے مختلف فیہ ہے۔ (توضیح الکلام فی وجوب القراۃ خلف الامام، ص:۴۹۴)
فاتحہ خلف الامام میں صحابہ کرام کے دو مختلف عمل ملاحظہ فرمائیں:
(۱) ابو سائب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کہ جس نے نماز پڑھی اور اس میں فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ سے کہا گیا کہ ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آہستہ سے پڑھا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم: ۳۹۵)
(۲) جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے ’’کہ جس نے ایسی رکعت پڑھی جس میں اس نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس نے گویا نماز پڑھی ہی نہیں سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔‘‘ (ترمذی:۳۱۳)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اختلافی مسائل میں مخالف پر رد کرنا
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اختلافی مسائل میں مخالف پر رد نہیں کیا جائے گا۔ جو جیسے کرتا ہے اُسے ویسے کرنے دو، یہ بھی سنت ہے اور وہ بھی سنت ہے۔ یہ طرز عمل قرآن و سنت اور فہم سلف کے مخالف ہے۔ صحابہ کرام کے درج ذیل واقعات اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔
٭ عبدالرحمن بن زید انصاری سے روایت ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب عراق سے واپس آئے تو آپ کی ملاقات کے لیے ابو طلحہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہما تشریف لائے۔ انس رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کے لیے آگ سے پکا ہوا کھانا پیش کیا۔ ان سب نے کھانا کھایا اس کے بعد انس رضی اللہ عنہ اٹھے اور انہوں نے وضو کیا آپ کو وضو کرتا دیکھ کر ابو طلحہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کیا تم نے کھانا کھا کر وضو کرنا عراق سے سیکھا ہے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کاش میں وضو نہ کرتا۔ ابو طلحہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے وضو کیے بغیر نماز پڑھی۔ (موطا امام مالک ،ح:۲۶)
٭ ابو وائل بیان کرتے ہیں کہ میں شیبہ کے پاس مسجد میں بیٹھا ہوا تھا تو انہوں نے کہا میرے پاس عمر رضی اللہ عنہ تمہاری اسی بیٹھنے کی جگہ میں بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں یہاں (خانہ کعبہ میں) سونا چاندی کچھ بھی نہ چھوڑوں بلکہ اس کو مسلمانوں میں بانٹ دوں۔ میں نے کہا آپ ایسا نہیں کر سکتے انہوں نے کہا کیوں؟ میں نے کہا اس لیے کہ آپ کے دونوں ساتھیوں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ) نے ایسا نہیں کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: وہ دونوں ایسے تھے جن کی اقتدا کی جاتی ہے۔ (بخاری،ح:۷۲۷۵)
ایک روایت میں ہے آپ اسی طرح کھڑے ہو گئے جس طرح بیٹھے تھے اور مسجد سے نکل گئے۔ (فتح الباری :۳/۴۵۶)
احناف کے پیچھے نماز
فضیلۃ الشیخ ابو بصیر الطرطوسی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
ائمہ مساجد تین اقسام کے ہوتے ہیں:
(۱) عادل فرمانبردار امام :
اس کی اقتداء میں نماز کے جائز ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔
(۲) گنہگار (فاسق) امام:
اس کا گناہ اور انحراف جتنا زیادہ ہو گا اتنا ہی اس سے قطع تعلقی کرنا اور اس کو چھوڑ کر کسی ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا زیادہ افضل ہو گا جو اس سے کم منحرف ہو اور اس سے زیادہ دین دار ہو۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنے سے جمعہ کی نماز یا جماعت کی نماز کو چھوڑنا نہ پڑے۔ اور اگر اس سے قطع تعلقی کرنے سے جمعہ اور جماعت رہ جاتی ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا واجب ہو جاتا ہے۔
(۳) کافر و مرتد امام:
وہ امام جس کا کفر اور ارتداد یقینی دلیل سے ثابت ہو جائے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں اس بات میں قطعا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (فتویٰ نمبر:۹۴۳)
* جس امام کے متعلق معلوم ہو کہ یہ کفر و شرک کا عقیدہ رکھتا ہے تو چونکہ اس کی اپنی نماز باطل ہے اس لئے اس کی اقتدا میں پڑھی گئی نماز درست نہیں جیسا کہ شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کی کتاب ’’امام صحیح العقیدہ ہونا چاہیے‘‘، حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ کی کتاب ’’اہل حدیث کی نماز غیر اہل حدیث کے پیچھے‘‘ میں شرکیہ و کفریہ نظریات رکھنے والے دیوبندی کے پیچھے نماز نہ ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ اور جس امام کے عقیدہ کے متعلق معلوم نہ ہو یعنی مجہول الحال ہو تو اس بارے میں گزشتہ صفحات میں تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
رہا وہ امام جو غیر شرکیہ بدعات میں ملوث ہے یا فقہی مسائل میں کسی مذہب کا مقلد ہے تو اس کی اقتداء میں نماز ادا کرنا درست ہے۔
فضیلہ الشیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
’’امت میں باہمی اختلاف کا ایک پہلو فقہی و فروعی اور استنباط و استخراج مسائل کا ہے، اور یہ اختلاف صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ کرام سے چلا آرہا ہے مگر اس کے باوجود سلف میں کوئی تفریق و انتشار نہ تھا۔ چنانچہ صحابہ کرام و تابعین میں مَس ذکر سے وضو ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کا اختلاف تھا، آگ سے پکی ہوئی چیز کے کھانے سے وضو ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کا اختلاف تھا اور اس میں بھی اختلاف تھا کہ خون کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں لیکن اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے اور ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے حج کے دوران چار رکعتیں پڑھائیں تو سیدنا عبداللہ بن مسعود وغیرہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے ان سے اس بارے میں اختلاف تو کیا مگر ان کے پیچھے خود چار رکعتیں ہی پڑھیں۔ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے چار رکعتیں پڑھائیں تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے افضل عمل چھوڑنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ’انا للہ وانا الیہ راجعون‘ پڑھا۔ (مسلم :ج۱ص۲۴۳)
ان سے کہا گیا کہ آپ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر اعتراض تو کرتے ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ ان کے ساتھ چار رکعتیں بھی پڑھتے ہیں تو انہوں نے فرمایا: ’’الخلاف شر‘‘ اختلاف برا ہے (أبو داؤد، رقم:۱۹۶۰) اور بیہقی کے الفاظ ہیں ’’انی لأکرہ الخلاف‘‘ میں اختلاف کو برا جانتا ہوں …۔
اسی طرح امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص قرآن کا حافظ ہے مگر رفع الیدین نہیں کرتا، اور دوسرا وہ ہے جو رفع الیدین کرتا ہے مگر قرآن کا حافظ نہیں کس کو امام بنایا جائے؟ امام احمد صاحب نے جواب دیا جو قرآن کا حافظ ہے وہ امامت کرائے اور اُسے چاہیے کہ وہ رفع الیدین کرے کیونکہ یہ سنت ہے۔ (مسائل أحمد بروایۃ عبداللہ ج ۱ ص ۲۳۶)
اسی نوعیت کی متعدد مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خیر القرون میں ایسے فقہی مسائل میں اختلاف کے باوجود سلف ایک دوسرے کا احترام کرتے اور ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے، ان میں کوئی افتراق و انتشار نہ تھا …اس کے برعکس تقلید و جمود کے دور میں جو کچھ کہا گیا اور اجتہادی مسائل کی بنیاد پر ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے جو فتوے داغے گئے حتی کہ عین خانہ کعبہ میں چار چار جماعتیں ہونے لگیں۔ اقتداء خلف المخالف کا مسئلہ فقہائے متاخرین کی کتابوں میں عموماً پایا جاتا ہے… بلکہ متاخرین کی اسی تنگ نظری کی بنیاد پر باہم جنگ و جدال تک کی نوبت آتی رہی ہے جس کی تفصیل تاریخ کے اوراق میں موجود ہے۔ ’’اسباب اختلاف فقہاء: حقیقی و مصنوعی عوامل‘‘ میں ہم نے اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ مگر یہ صورت حال قطعاً محمود نہیں۔ ہر دور میں درد مند دل رکھنے والے علماء نے سلف کے طریقے کو پسند فرمایا اور ان فروعی، فقہی مسائل کو باہم انتشار و افتراق کا باعث بننے سے روکا۔ (مقالات تربیت ۱۷۹۔۱۸۲)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ان مسائل میں اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے پیچھے نماز جائز ہے جیسا کہ صحابہ کرام، تابعین عظام اور ان کے بعد ائمہ اربعہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ ان میں سے کسی نے نہیں کہا کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے، جو اس کا انکار کرتا ہے وہ بدعتی، گمراہ اور کتاب و سنت اور سلف امت اور ان کے ائمہ کے اجماع کے مخالف ہے‘‘۔ (مجموع الفتاوی،ج ۲۳ص۳۷۴)
جن دیوبندیوں کی مساجد کے ائمہ بعض بدعات میں ملّوث ہیں اور ان کے ہاں کفر و شرک نہیں پایا جاتا علمائے اہلحدیث نے ان کے پیچھے نماز کے جائز ہونے کے فتاویٰ دئیے ہیں ملاحظہ فرمائیں:
(۱) حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ
سوال: حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی مسلمان ہیں یا نہیں؟مقلدین کے پیچھے نماز اہلحدیث کو جائز ہے یا نہیں؟ اگر یہ فرقے مسلمان ہیں تو اہل سنت والجماعت میں شامل ہیں یا نہیں؟ مقلد کو اپنی لڑکی کا رشتہ دینا اور لینا جائز ہے یا نہیں؟ مقلد کی منکوحہ سے نکاح حلال ہے یا حرام؟
جواب: احناف دیوبندی اہل سنت میں شامل ہیں اور اہل سنت کے کئی فرقے ہیں جن میں سے بعض ہر مسئلہ میں ترجیح رکھتے ہیں وہ جماعت اہل حدیث ہے اگر کوئی دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھ لے تو ہو جائے گی لیکن ترجیح اہل حدیث کو ہے اگر امام مقرر کرنا ہو تو اہل حدیث کی کوشش کرنی چاہیے۔ باقی باتوں کے جوابات بھی اس کی تحت آگئے۔ اس طرح نکاح پر نکاح بھی صحیح نہیں۔‘‘ (فتاویٰ اہلحدیث، ص:۶)
سوال : یہاں اہلحدیث کی کوئی مسجد نہیں۔ ہم جامعہ مسجد اہل احناف میں نماز پنچگانہ ادا کرتے ہیں مگر یہ تمام اوقات نماز پنچگانہ گرا کر نماز پڑھتے ہیں مثلاً ظہر دو بجے عصر ساڑھے چار بجے۔ خاص کر فجر کی نماز کو یہ لوگ بہت دیر کر کے پڑھتے ہیں۔ لہذا ان اوقات پر کیا ہم بھی ان کے ساتھ ہی نماز باجماعت ادا کرتے رہیں یا اول وقت علیحدہ اپنے گھروں میں نماز پڑھ لیا کریں۔
جواب: جو اوقات آپ نے نمازوں کے لکھے ہیں۔ ان میں بعض میں زیادہ دیر ہے مثلاً آج کل عصر وہاں ساڑھے چار بجے زیادہ تاخیر سے ہوتی ہے اسی طرح ظہر میں کچھ زیادہ تاخیر ہے۔ سو آپ جس نماز کو وہ زیادہ تاخیر سے پڑھیں اکیلے پڑھ لیا کریں۔ اگر دوبارہ ان کے ساتھ موقعہ ملے پڑھ لی ورنہ پہلی کافی ہے۔ (فتاویٰ اہلحدیث جلد اول: ۵۵۸)
(۲) مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں بالعموم یہ کہنا کہ غیر مقلد کی نماز مقلد کے پیچھے نہیں ہوتی صحیح نہیں!
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ غیر مقلد کی نماز مقلد کے پیچھے ہوتی ہے یا نہیں اور مقلد کی نماز غیر مقلد کے پیچھے ہوتی ہے یا نہیں؟
(۲) امام اعظم کی تقلید کرنا شرک ہے یا نہیں؟
(۳) جو شخص یہ کہے کہ غیر مقلد کی نماز مقلد کے پیچھے نہیں ہوتی، اس کے لیے حکم شارع کیا ہے؟ مندرجہ بالا سوالات کے جوابات حدیث سے ہونے چاہئیں۔
الجواب: ہر مسلمان کے پیچھے نماز ہوتی ہے، وہ مقلد ہو یا غیر مقلد، بشرطیکہ مشرک اور مبتدع ببدعت مکفرہ نہ ہو، اس واسطے کہ مشرک کے پیچھے نماز نہیں ہوتی اور نہ ہی ایسے مبتدع کے پیچھے نماز ہوتی ہے، جس کی بدعت مکفرہ ہو، پس جو مقلد مشرک نہیں، اور مبتدع ببدعت مکفرہ بھی نہیں ہے، اس کے پیچھے نماز بلا شبہ جائز و درست ہے اور ہاں واضح رہے بعض مقلدین کی تقلید مفضی الی الشرک (شرک تک پہنچانے والی) ہوتی ہے، سو ایسے مقلدین کے پیچھے نماز جائز نہیں، اور تقلید مفضی الی الشرک یہ ہے کہ کسی ایک خاص مجتہد کی اس طرح تقلید کرے کہ جب کوئی صحیح حدیث غیر منسوخ اپنے مذہب کے خلاف پاوے تو اس کو قبول نہ کرے اور یہ سمجھے بیٹھا ہو، کہ ہمارے امام سے خطا اور غلطی ناممکن ہے اور اس کا ہر قول حق اور صواب ہے، اور اپنے دل میں یہ بات جما رکھی ہو کہ ہم اپنے امام کی تقلید ہرگز نہیں چھوڑیں گے اگرچہ ہمارے مذہب کے خلاف قرآن و حدیث سے دلیل قائم ہو، پس جس مقلد کی تقلید ایسی ہو وہ مشرک ہے …
(۲) امام اعظم صاحب کی تقلید اگر مفضی الی الشرک ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا، تو بے شک امام اعظم صاحب کی یہ تقلید شرک ہے، والا فلا۔ (اور اگر ایسی نہیں تو مشرک نہیں ہے)
(۳) اس شخص کا علی الاعلان یہ کہنا صحیح نہیں ہے ہاں اگر اس شخص کے کہنے سے یہ مراد ہو کہ مقلد مشرک (یعنی جس کی تقلید مفضی الی الشرک ہو) کے پیچھے غیر مقلد کی نماز نہیں ہوتی تو اس کا یہ کہنا صحیح ہے، واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب (فتاویٰ نذیریہ، کتاب التقلید والاجتھاد: ج۱، ص: 168,169)
…… مولانا سید نذیر حسین مرحوم و مغفور (ان شا اللہ) دہلی کی جامع مسجد اور عید گاہ میں جا کر حنفی امام کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے، ان کا یہ طرز عمل خبر متواتر سے ثابت اور معلوم و مشہور ہے۔ (الاعتصام، ۲۵ جون تا یکم جولائی، ص:۲۱)
(۳) شیخ الاسلام مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ
سوال: ایک شخص حنفی المذہب کہتا ہے کہ ایک وتر پڑھنا گمراہی ہے۔ کیا ایسے شخص کے پیچھے نماز درست ہے؟
جواب: ایک وتر پڑھنا حدیث شریف میں آیا ہے (بخاری شریف) جو شخص جان بوجھ کر حدیث کو گمراہی کہے وہ خود گمراہ ہے۔ امام احمد کا قول ہے کہ ایک رکعت وتر زیادہ ثابت ہے۔ نماز بحکم قرآن و حدیث ہر مسلمان کے پیچھے جائز ہے۔ (۲۴جون ۱۹۳۸؁ء) (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول: 554)
سوال: جو شخص جماعت اہلحدیث کو گمراہ اور جہنمی قرار دیتا ہے اور علمائے اہل حدیث کے پیچھے نماز ناجائز قرار دیتا ہے۔ ایسے شخص پر منجانب قرآن و احادیث نبویہ کوئی حرف اطلاق ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اور ایسے شخص کے پیچھے نماز ہوتی ہے یا نہیں؟ الخ
جواب: ایسے شخص کی وہی سزا ہے جو حدیث میں آئی ہے کہ جو شخص کسی کو کافر یا فاسق کہے اور وہ اصل میں نہ ہو تو وہ الفاظ اس پر لوٹ پڑتے ہیں۔ لیکن ایسے شخص کو امام نہیں بنانا چاہیے۔ اگر نماز پڑھا رہا ہو تو اقتداء جائز ہے۔ صحیح بخاری میں باب امامۃ المفتون والمبتدع ملاحظہ ہو۔ (۵نومبر ۱۹۳۷؁ء) (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول: 222)
سوال: مقلدین کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہو گی یا نہیں ؟
جواب: ہر کلمہ گو غیر مشرک کو شفاعت نصیب ہو گی۔ مقلدین بھی اس میں داخل ہیں۔ (۶ نومبر ۱۹۳۷؁ء) (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول: ۱۸۶)
(۴) مولانا ثنا اللہ امرتسری، مولانا ابو القاسم سیف بنارسی اور مولانا عبدالوہاب آروی اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ جمیعت علماء ہند کی مجالس شوریٰ میں شرکت کے موقع پر مفتی کفایت اللہ صاحب اور دوسرے اکابر علماء احناف کی اقتداء میں نماز بلا کراہت ادا کرتے تھے۔ (ہفت روزہ الاعتصام، ۲ تا ۸ جولائی، ص۱۵)
(۵) شیخ الحدیث حافظ ثنا اللہ مدنی حفظہ اللہ
سوال: کیا دیوبندیوں، بریلویوں وغیرہ کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟
جواب: غیر اللہ کو حاجت روا، مشکل کشا سمجھنے والے مشرک بریلوی امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا ناجائز ہے۔
قرآن میں ہے ﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ﴾ (التوبہ:۲۸)
اور دیوبندی غیر متعصب امام کے پیچھے بوقت ضرورت نماز پڑھی جا سکتی ہے تاہم مستقلاً اپنا علیحدہ بندوبست کرنا چاہیے کسی بھی مخصوص مقام کو مسجد قرار دیا جا سکتا ہے۔ حدیث میں ہے: ((جعلت لی الارض مسجدًا وطھورًا))
(۶) مولانا عبدالقہار صاحب دہلوی رحمہ اللہ۔ مفتی جماعت غرباء اہلحدیث پاکستان
سوال: [۱] حنفی مسلک و عقائد کے حامل دیوبندی کے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ اگر نماز اسے ایسا سمجھتے ہوئے پڑھ لی تو کب اس نماز کو دھرانا واجب ہے؟
[۲] کیا انہیں ہم مشرک یا بدعتی کہہ سکتے ہیں؟
[۳] کسی دینی تحریک میں ان کا ساتھ دینا کیسا ہے؟ ازراہ کرام مذکورہ سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں۔ (سائل: قاری محمد)
جواب: ۱۔ صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ شرعا ’’امام عقیدہ و اخلاق اور معاملات میں مقتدیوں سے بہتر ہونا چاہیے جیسا کہ حدیث شریف میں مروی مذکور ہے:
اجعلو ائمتکم خیارکم…رواہ الدارقطنی (نیل الاوطار للشوکانی)
عام حالات میں ان اوصاف مذکورہ بالا کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ عارضی طور پر اور بحالت مجبوری بدعتی فاسق و فاجر کے پیچھے نماز پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ: امام بخاری نے باب امامۃ المفتون والمبتدع میں تابعی حضرت حسن بصری کا قول نقل کیا ہے:
وقال الحسن: صل و علیہ بدعتہ ’’تو بدعتی امام کے پیچھے نماز پڑھ لے اس کی بدعت کا وبال اسی پر ہو گا اور پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی موقوف حدیث بیان کی ہے ‘عبید اللہ بن عدی بن الخیار رحمہ اللہ نے پوچھا تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ امام العوام ہیں اور مشکل میں مبتلا ہیں، اور ہمیں امام فتنہ نماز پڑھا رہے ہیں، کیا ہم گناہ گار تو نہیں ہوں گے؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:
’’الصلاۃ احسن ما یعمل الناس فاذا احسن الناس فاحسن معہم واذا اساؤا فاجتنب اسائتھم۔‘‘
’’کہ نماز لوگوں کا بہترین عمل ہے، وہ اچھا عمل کریں تو تم ان کے ساتھ شریک ہو جاؤ اور اگر وہ برائی کریں تو تم ان کے ساتھ برائی کرنے میں شریک نہ ہو‘‘
اور امام بخاری رحمہ اللہ اپنی تاریخ میں تحریر فرماتے ہیں کہ عبدالکریم البکاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو پایا وہ سب ائمہ جور کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔
اسی طرح حدیث ہے: صلو خلف من قال: لا الہٰ الا اللہ۔ رواہ الدار قطنی باسناد ضعیف‘ اور حدیث: الصلاۃ واجبۃ علیکم خلف کل مسلم برا کان او فاجراً وان عمل الکبائر… رواہ ابو داؤد باسناد منقطع‘ اس سے مجبوری و معذوری کی حالت میں ‘فاسق و فاجر‘ بدعتی وغیرہ کے پیچھے نماز پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے‘ بہرصورت امام عالم و موحد اور صحیح العقیدہ کے پیچھے ہی نماز پنجگانہ اداء کرنا چاہیے۔
۲۔ شرک کرنے والے کو مشرک اور بدعت کے کام کرنے والے کو بدعتی کہتے ہیں، مشرک اور بدعتی کہنے کی بجائے انہیں حسن اخلاق کے ساتھ صحیح بات بتانی اور سمجھانی چاہیے۔ اور ان کے حق میں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اور تقلید و بدعت سے انہیں نکال دے۔ آمین
۳۔ کسی دینی تحریک اور نیک کام میں ہر شخص کا ساتھ دیا جا سکتا ہے کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ لقولہ تعالی: ﴿وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ (المائدہ:۲) واللہ سبحانہ اعلم۔
(کتبہ محمد ادریس سلفی [نائب مفتی جماعت] الجواب صحیح عبدالقہار عفی عنہ [مفتی جماعت]) (فتاویٰ ستاریہ، ج۲ ص۱۲۸)
(۷) سماحۃ الشیخ علامہ صالح المنجد حفظہ اللہ
آپ 1380/12/3 ہجری کو پیدا ہوئے۔ سعودیہ عرب کے دارلحکومت الریاض میں آپ نے ابتدائی اور انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی اس کے بعد آپ شہر ’’ظہران‘‘ منتقل ہو گئے جہاں آپ نے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کی۔ آپ کے درج ذیل اساتذہ ہیں۔
سماحۃ الشیخ عبد العزیز عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ۔ ان سے آپ نے ۱۵ سال تک علم حاصل کیا۔ فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ، فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن جبرین رحمہ اللہ، فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن بن ناصر البراک حفظہ اللہ۔ فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ، فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن محمد الغنیمان حفظہ اللہ، فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن بن صالح المحمود حفظہ اللہ، ان کے علاوہ بھی آپ نے دیگر کئی اساتذہ سے علم حاصل کیا۔
اس وقت آپ سعودیہ کے شہر خبر میں جامع مسجد عمر بن عبد العزیز کے امام اور خطیب ہیں جہاں آپ دروس کی صورت میں کئی کتابوں کی تعلیم دیتے ہیں۔ اسی طرح آپ اسلام سوال و جواب نامی ویب سائٹ کے مدیر ہیں جہاں آپ سینکڑوں سوالات کے جواب دے چکے ہیں۔ آپ کے یہ فتاویٰ اس ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ اسی طرح آپ بیسیوں کتابوں کے مولف بھی ہیں۔ امت مسلمہ اور خاص کر کے سلف صالحین کے منہج پر گامزن دنیا آپ کے فتاویٰ اور علمی کاشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان اور زندگی میں برکت عطا فرمائے اور آپ کو مزید اسلام کی خدمت کی توفیق بخشے۔ آمین۔
سوال: محترم شیخ! میں ایسے علاقے میں رہتا ہوں جہاں حنفی مذہب کے پیروکار اور دیوبندی حضرات کثرت سے رہتے ہیں اور اس علاقے میں سلفیوں کی مساجد انتہائی قلیل ہیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ میں کام کاج میں مصروف ہوتا ہوں اور نماز عصر کا وقت آپہنچتا ہے۔ اب میرے نزدیک کوئی سلفی مسجد نہیں ہے کہ جہاں میں جا کر نماز ادا کر سکوں۔ اب کیا میرے لیے جائز ہے کہ میں حنفیوں کی مسجد میں جو کہ میرے قریب ہی ہے نماز ادا کروں جبکہ وہ لوگ نماز عصر کو انتہائی تاخیر کے ساتھ ادا کرتے ہیں، وہ اسے اتنا لیٹ کرتے ہیں کہ مغرب کی نماز میں ایک گھنٹہ اور کچھ منٹ ٹائم باقی رہ جاتا ہے؟ کیا ایسی حالت میں مجھے نماز کو موخر کرتے ہوئے ان کے ساتھ جماعت میں شامل ہو کر ادا کرنا چاہیے یا پھر مجھے اپنی ڈیوٹی کی جگہ پر ہی اسے اول وقت میں ادا کرنا چاہیے؟
جواب: نماز عصر کا مختار وقت اس وقت شروع ہوتا ہے کہ جب کسی چیز کا سایہ اس کی مثل سے بڑھ جائے، اس وقت ظہر کی نماز کا ٹائم ختم ہو جاتا ہے، عصر کا یہ وقت سورج کے زرد ہونے تک باقی رہتا ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
’’نماز ظہر کا وقت نماز عصر کے آغاز تک رہتا ہے اور نماز عصر کا آخری وقت سورج کی رنگت زرد ہو جانے تک رہتا ہے‘‘ (مسلم: ح: ۶۱۲)
اس لیے اس وقت سے زیادہ نماز میں تاخیر کرنا درست نہیں الا یہ کہ کوئی مجبوری ہو۔
سورج کی رنگت کا زرد ہونا مختلف موسموں میں مختلف ہوتا ہے، لیکن اگر عصر کی نماز مغرب سے ایک گھنٹہ پہلے ادا کر لی جائے تو یہ سورج کے زرد ہونے سے پہلے کا ہی ٹائم ہوتا ہے۔ یہ بات جاننی چاہیے کہ جمہور فقہاء کے نزدیک ظہر کی نماز کا آخری وقت وہ ہے کہ جب کسی چیز کا سایہ اس کی مثل ہو جائے جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ ظہر کا آخری وقت کسی چیز کے سایہ کے اس کے دو مثل ہونے تک باقی رہتا ہے۔ بعض حنفیہ نے بھی امام صاحب کی اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے جمہور کے موقف کو اپنایا ہے ان میں امام صاحب کے دونوں ساتھی ابو یوسف اور محمد بھی شامل ہیں، اسی طرح امام صاحب سے بھی ایک روایت اس موقف کی تائید میں ملتی ہے …… حاصل کلام یہ ہے کہ سورج کے زرد ہونے سے پہلے تک عصر کی نماز کو موخر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ بہتر پہلا وقت ہے۔ لیکن اس وجہ سے جماعت نہیں چھوڑی جا سکتی۔
دوسری بات: دیوبندی عقیدہ میں ماتریدی ہیں اور ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو صوفیاء کے سلسلوں جیسے نقشبندی، سہروردی، قادری اور چشتی کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں۔ بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں راجح قول یہ ہے کہ جب کسی کا مسلمان ہونا ثابت ہے اس کے پیچھے نماز بھی درست ہے۔ اور جس کی بدعت کفریہ ہو کہ جس سے وہ کافر قرار پاتا ہو اس کی اقتداء میں نماز درست نہیں ہے۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا۔ کیا اہل سنت والجماعت کے عقیدے کے مخالف کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز ہے جیسے کوئی اشعری ہو؟
آپ نے جواب دیا: ’’ہر وہ شخص جسے ہم مسلمان قرار دیتے ہیں اس کے پیچھے نماز ادا کرنا درست ہے اور جس پر ہم اسلام کا حکم نہیں لگاتے اُس کے پیچھے نماز بھی درست نہیں ہے۔ نافرمان (عاصی) کے پیچھے نماز کے درست نہ ہونے کا قول مرجوح ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکام کے پیچھے نماز ادا کرنے کی اجازت دی ہے اور امراء میں کثیر عاصی تھے۔ چنانچہ ابن عمر، انس اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک جماعت نے حجاج کے پیچھے نماز ادا کی جو کہ لوگوں میں سب سے بڑا ظالم تھا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ایسے بدعتی کے پیچھے نماز ادا کرنا درست ہے کہ جس کی بدعت اسے اسلام کے دائرہ سے نہیں نکالتی۔ اسی طرح ایسے فاسق کی اقتداء میں نماز بھی درست ہے کہ جس کا فسق اسے اسلام سے نہیں نکالتا۔ لیکن سنت والے کو امام بنانا چاہیے۔ اسی طرح جب کوئی گروہ جمع ہو تو اسے اپنے میں سے افضل شخص کو آگے کرنا چاہیے۔‘‘ (فتاوی شیخ ابن باز : 426/5)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ بعض اسلامی ممالک میں پائے جانے والی ان مساجد میں نماز ادا کرنے کا کیا حکم ہے کہ جہاں امامت اشعری عقیدے کا حامل امامت کرواتا ہے؟
آپ نے جواب دیا کہ ان کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز ہے۔
میں نے شیخ سے سوال کیا اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اس کا عقیدہ اشعری ہے؟
شیخ نے جواب دیا: اس کے پیچھے نماز جائز ہے کیونکہ میں کسی کو نہیں جانتا کہ جس نے اشاعرہ کی تکفیر کی ہو۔ (ثمرات التدوین لدکتور احمد بن عبد الرحمن القاضی)
اللجنۃ الدائمہ فتویٰ کمیٹی سعودی عرب کے علماء کا کہنا ہے :
’’بدعتیوں کے پیچھے نماز ادا کرنے کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر تو ان کی بدعت شرکیہ ہو مثلاً غیر اللہ کو پکارنا اور غیر اللہ کے لیے نذر و نیاز دینا اور ان کا اپنے مشائخ اور بزرگوں کے متعلق وہ اعتقاد رکھنا کہ جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے بارے میں نہیں رکھا جا سکتا جیسے ان کے بارے میں کمال علم اور غیب کے علم کو جاننے کا عقیدہ رکھنا یا ان کے کائنات میں متصرف ہونے کا یقین رکھنا تو ان کے پیچھے نماز ادا کرنا صحیح نہیں۔
اور اگر ان کی بدعت شرکیہ نہیں، مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ ذکر کو اجتماعی طور پر اور جھوم جھوم کر کرنا تو ان کے پیچھے نماز ادا کرنا صحیح ہے۔ لیکن ایک مسلمان کو غیر بدعتی امام کے پیچھے نماز ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاکہ اس کے اجر و ثواب میں زیادتی ہو اور گناہ میں کمی ہو۔‘‘ (فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ :353/7)
اس بنیاد پر ہم کہتے ہیں: اگر امام مسجد کا شرکیہ امور میں واقع ہونا ثابت نہ ہو تو اس کی اقتداء میں نماز ادا کرنا درست ہے، چاہے وہ نماز عصر کو تاخیر سے ہی کیوں نہ پڑھتے ہوں جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے۔ اس سبب سے جماعت کو ترک کرنا جائز نہیں ہے۔ (اسلام سوال جواب، سوال نمبر :150090)
 
Top