• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل عرب کی اصل گمراہی کیا تھی؟

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
اہل عرب کی اصل گمراہی کیا تھی؟

مشرکین عرب اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ زمین وآسمان کا خالق اللہ ہے وہی دن نکالتا اور رات لاتا ہے اور اسی نے آفتاب و ماہتاب کو وجود بخشا ہے ان میں سے کسی کا بھی یہ عقیدہ نہ تھا کہ یہ کام لات بائبل یا عزی یا کسی اور دیوتا کے ہیں۔
قرآن میں جگہ جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کے بارے میں مشرکین عرب کا کیا عقیدہ تھا ۔ مثال کے طور سورہ زخرف میں ہے:
﴿ وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ ﴾ (سورة الزخرف: 87)
’’ اگر تم پوچھو کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔‘‘
سورہ عنکبوت میں ہے کہ
’’اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کر رکھا ہے تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ۔ اور اگر تم ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا :
﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾ (سورۃ عنکبوت: 61)
اس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلا اٹھایا تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔‘‘
سورہ مؤمنون میں ہے :
’’ ان کہو بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ یہ زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے؟ یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ کی ۔
ان سے کہوں بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے؟ اور کون ہے جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟ تو یہ ضرور جواب دیں گے یہ سب اللہ ہی کے لئے ہے۔‘‘ (سورۃ مؤمنون: 89)
امام احمد رضا خان محدث بریلوی لکھتے ہیں:
’’ عرب گو قریبا سب کےسب بت پرست تھے لیکن اس کےساتھ یہ اعتقاد ان کے دل سے کبھی نہیں گیا کہ اصلی خدائے بر تر اور چیز ہے اور وہی تمام عالم کا خالق ہے اس خالق اکبر کو وہ اللہ کہتے تھے۔
لیکن عموما لوگ بت پرست تھے وہ بتوں کو خدا نہیں سمجھتے تھے بلکہ کہتے تھے کہ بت خدا اتک پہنچنے کےوسیلے ہیں۔
علامہ شبلی نعمانی أپنی تصنیف ’’ سیرۃ النبی‘‘ میں رقمطراز ہیں:
’’ قرآن مجید نے تیرہ سو برس پہلے جس حقیقت کا اظہار کیا آج تحقیقات آثار قدیمہ بھی ان کی تصدیق کرتی ہے مذاہب و اخلاق کی انسائیکلو پیڈیا میں مشہور ہے مستشرق نولد یکی کا جو قول نقل کیا ہے اس کے اقتباسات حسب ذیل ہیں:
اللہ دجو صفا کے کتبوں میں ’’ ہلہ‘‘ لکھا ہوا ہے ، بناتی اور دیگر قدیم باشندگان عرب شمالی کے نام کا ایک جز تھا مثلا ’’ زید اللہی‘‘ بناتی کتباب میں اللہ کا نام بطور ایک علیحدہ مصور کے نہیں ملتا لیکن صنعاء کے کتبات میں ملتا ہے۔ متاخرین مشرکین میں اللہ کا نام نہایت عام ہے، ولباس نے عرب قدیم کے لٹریچر میں بہت سی عبارتیں نقل کی ہیں جن میں اللہ کا لفظ بطور ایک معبود اعظم کے مستعمل ہوا ہے۔ بناتی کتبات میں ہم بار بار کسی دیوتا کا نام پاتے ہیں جس کے ساتھ اللہ کا لقب شامل ہے اس سے ولہاسن نےیہ نتیجہ نکالا ہے کہ اللہ کالقب جو پہلے مختلف معبودوں کے لئے استعمال ہوتا تھا رفتہ رفتہ زمانہ بعد میں صرف ایک عظیم ترین معبود کے لئے بطور علم کے مخصوص ہو گیا۔‘‘ (سیرۃ النبی از شبلی نعمانی: 80، 81)
پیر محمد کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں:
’’ اپنے بتوں کے بارے میں کفار کا جو عقیدہ تھا آیات قرآنی نے اسے جا بجا وضاحت سے بیان کر دیاہے پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ اپنے بتوں کو الہ مانتے تھے یہ چیز ان کی سمجھ میں نہ آتی تھی کہ ایک ذات کائنات کے گوناگوں، ان گنت امور کا احاطہ کیونکہ کر سکتی ہے۔ نظام عالم کو چلانے کےلئے ان کے نزدیک یہ ضروری تھا کہ متعدد خداؤں کو تسلیم کرے کوئی تخلیق و آفرینش کا کام کرے، کوئی رزق رسانی کی ذمہ داری سنبھالے ، کوئی بیماروں کو صحت دے، کوئی مفلسوں کو غنی کرے، کوئی کمزوروں کو طاقت ور بنائے۔ کسی کی ذمہ داری جنگوں کا فیصلہ کرنا، کسی کو شکست دسے دوچار کرنا اور کسی کو فتح وکامرانی سے ہم کنار کرنا ہو کوئی خدا بارش برسانے والا ہو کوئی کھیت اگانے والا ہو اور کوئی اولاد دینے والا ہو ، کوئی خدا زمین کے ہر لحظہ تغیر پذیر احوال پر نظر رکھنے والا ہو اور کوئی عالم بالا کے نظم ونسق کو برقرار رکھنے والا ہو ان کے نزدیک یہ بات عقل کے خلاف تھی کہ ایک ہی ذات ان متنوع اور متضاد قسم کی ذمہ داریوں اور فرائض کی انجام دہی سے عہدہ بر آ ہو سکتی ہے۔
چنانچہ سورہ ص میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ ہادی برحق نے جب کفار عرب کو دعوت توحید دی تو انہوں نے اپنی حیرت و استعجاب کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
﴿ أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ ﴾ (سورۃ ص: 5)
’’ کیا بنا دیا ہے اس بہت سے خداؤں کی جگہ ایک خدا بے شک یہ بڑی عجیب وغریب بات ہے۔‘‘
اب اگر کوئی شخص کفار عرب کی طرح اللہ تعالی کی ذات کے سوا کسی کو الہ تسلیم کرتا ہے خواہ وہ شخصیت، کوئی جلیل القدر انسان ہو یا رفیع المرتبت فرشتہ ہو تو ایسا شخص عقیدہ توحید سے محروم اور دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ (صفاء النبی از پیر کرم شاہ: 321۔322)
محمد رفيق ڈوگر اپنی تصنیف ’’ الامین ‘‘ میں رقمطرازہیں:
’’ عربوں کے تحت الشعور میں یہ احساس موجود تھا کہ ان کا اصل دین دین ابراہیمی ہی ہے ر سول اکرم  کی بعثت کے قریب کے زمانہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو توحید کے متلاشی تھے۔ ایک جماعت تو دین حنیف کے حوالہ باقاعدہ حلفا کہلاتی تھی، کتابوں میں اس جماعت کے بہت سے لوگوں کے نام درج ہیں۔جو مشرکین کے دین سے لاتعلقی کا اعلان کرتے تھے اور اسے آپ دین حنیف کا پرو کہتے تھے ان اہل توحید میں سے ابوکرب اسعد حمیری تو آپ کی بعثت سے سات سو سال پہلے آپ پر ایمان لائے تھے ان منسوب اشعار کا ترجمہ ہے:
’’ اگر میری زندگی نے آپ کی آمد تک وفا کی تو میں آپ کا وزیر اور چچا زاد بھائی ہو ں گا۔‘‘
حکیم عرب قیس بن مساعدہ بھی اسی جماعت سے تعلق رکھتے تھے جو نہ صرف توحید اور یوم حساب پر خودایمان رکھتے تھے ، بلکہ غلط عکاظ کے میلے میں اونٹ پر سوار ہو کر اس کی تبلیغ بھی کیا کرتے تھے وہ حضرت عمر  کے چچازاد بھائی اور عشرہ مبشرہ میں سے حضرت سعید کے والد گرامی تھے۔ زید بن عمرو ان چار آدمیوں سے میں سے ایک تھے جنہوں نے مکہ میں ایک بت کے میلے کے دوران بت پرستی سے لا تعلقی اور نفرت کا عہد کیا تھا۔ ابن اسحاق کے مطابق ان چار وں نے مشرکوں سے الگ ہو کر میٹنگ کی اور آپس میں کہا تھا کہ تمہیں معلوم ہے تمہاری قوم مذہب کی پابند نہیں انہوں نے دین ابراہیمی کو چھوڑ دیا ہے او ر بتوں کی پوجا میں مبتلا ہو گئے ہیں جو نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں کسی کا نقصان کر سکتے یہں اور نہ کسی کو نفع پہنچا سکتے ہسیں ہم ان پتھروں کا کیونکر طواف کریں ۔ دو ستو ٖٖآؤ مل کر دین حق کی تلاش کریں۔ بخدا یہ دین جس پر ہم چل رہے ہیں دین حق نہیں ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق وہی زید بن عمرو ایک روز کعبہ کے ساتھ پیٹھ لگا کر کھڑے تھے اور اعلان کر رہے تھے اے قریش کی جماعت! بخدا آج میرے سوا تم میں سے کوئی بھی ابراہیم علیہ السلام کے دین پر نہیں ہے، وہ بتوں کے نام پر ذبیحہ کا گوشت بھی نہیں کھاتے تھے صرف وہی گوشت کھاتے تھے جس پر ذبح کے وقت اللہ تعالی کا نام لیا گیا ہو۔ (الامین از محمد رفیق ڈوگر: ص 154)
مولاناشبلی نعمانی لکھتے ہیں:
’’ابن ہشام نے بت پرستی کی مخالفت کرنے والوں میں انہی چاروں کا نام لکھا ہے اور تاریخی شہادتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب میں متعدد اہل نظر پیدا ہو گئے تھے جنہوں نے بت پرستی سے توبہ کی تھی ان میں سب سے زیادہ مشہور شخص عرب کا نامور خطیب قیس بن ساعدہ الابادی ہے۔ اس کا تذکرہ آگے آتا ہے ایک شخص قیس بن شبہ تھا جس کی نسبت حافظ ابن حجر نے اصابہ میں لکھا ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں خدا پرست ہو چکا تھا اور آنحضرت  کی بعثت پر مشرف بہ اسلام ہوا۔‘‘( )
ایسے بہت سے اہل توحید کے نام اور واقعات بیان کیے جا سکتے ہیں، لیکن یہاں مقصد ان کی فہرست لکھنا نہیں، یہ بتانا مقصود ہے کہ اتنا طویل عرصہ گذر جانے باوجود مکہ او رخطہ عرب کے مختلف حصوں میں اہل توحید موجود تھے اگر چہ وہ دین حنیف کی تفصیلات سے واقف نہیں تھے مگر وہ یہ جانتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے اصل دین کو لانے والے تھے اور قریش مکہ جس دین کی پیروی کرتے ہیں وہ دین ابراہیمی نہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری ’’ سیرۃ الرسول‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ طلوع اسلام سے قبل عرب مختلف مذاہب اور خود ساختہ اقدار کو سینے سے لگائے ہوئے تھے کہیں بت پرستی ہو رہی تھی اور کہیں آتش پرستی سے سکون قلب کا سامان مہیا کیا جا رہا تھا۔ کہیں سورج کی پرستش ہو رہی تھی اور کہیں انسان جسےاشرف المخلوقات بنایا گیا تھا، ستاروں کے آگے سربسجود تھا۔‘‘ (سیرۃ النبی: 1/ 85)
مولانا مودودی لکھتے ہیں:
’’اگرچہ مشرکین مکہ اس بات سے انکار کرتے تھے کہ یہ ساری نعمتیں اللہ کی دی ہوتی ہیں اور ان نعمتوں کا احسان ماننے سے بھی انہیں انکار نہ تھا لیکن جو غلطی وہ کرتے تھے وہ یہ تھی کہ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ ان بہت سی ہستیوں کا شکریہ بھی زبان اور عمل سے کرتے تھے جن کو انہوں نے بلا کسی ثبوت اوربلا کسی سند کے اس نعمت بخشی میں دخیل اورحصہ دار ٹھہرا رکھا تھا۔
اسی چیز کو قرآن ’’ اللہ کے احسان کا انکار‘‘ قرار دیتا ہے قرآن میں یہ بات بطور ایک قاعدہ کلیہ کے پیش کی گئی ہے کہ محسن کے احسانات کا شکریہ غیر محسن کو ادا کرنا اور اصل محسن کے احسان کا انکار کرنا ہے اسی طرح قرآن یہ بات بھی اصول کے طور پر بیان کرتا ہے کہ محسن کے متعلق بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے یہ گمان کر لینا کہ اس نے خود اپنے فضل وکرم سے یہ احسان نہیں کیا بلکہ فلاں شخص کے طفیل یا فلاں کی رعایت سے یا فلاں کی سفارش سے یا فلاں کی مداخلت سے کیا ہے یہ بھی در اصل اس کے احسان کا انکار ہی ہے۔ (سیرۃ الرسول از ڈاکٹر علامہ طاہر القادری : ص 67۔68 )
اصحاب قبور کی پرستش:
سورۃ نحل آیت نمبر 21 میں خاص طور پر جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی گئی ہے وہ فرشتے یا شیاطین یا لکڑ پتھر کی مورتیاں نہیں بلکہ اصحاب قبور میں اس لئے کہ فرشتے اور شیاطین تو زندہ ہیں ان پر اموات غیر أحیاء کے الفاظ کا اطلاق نہیں ہو سکتا اور لکڑی پتھر کی مورتیوں کے معاملے میں بعث بعد الموت کا کوئی سوال نہیں ہے اس لیے مایشعرون ایان یبعثون کے الفاظ انہیں بھی خارج از بحث کر دیتے ہیں۔ اب لا محالہ اس آیت میں الذین یدعون من دون اللہ سے مراد وہ انبیاء ، اولیاء، شہداء، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں جن کو معتقدین داتا، مشکل کشا، فریاد رس، غریب نواز، گنج بخش اور نہ معلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کے لئے پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے جواب میں اگر کوئی یہ کہے کہ عرب میں اس نوعیت کے معبود نہیں پائے جاتے تھے، تو ہم عرض کریں گے کہ یہ جاہلیت عرب کی تاریخ سے اس کی ناواقفیت کا ثبوت ہے۔
تقدیر کا بہانا:
ان خباثتوں پر ٹوکا جانا تو تقدیر کا بہانا پیش کر تے ہیں کہ اللہ ہمارے اس کام کو پسند نہ کرتا تو ہم ان بتوں کی پر ستش کر سکتے تھے حالانکہ اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند معلوم ہونے کا ذریعہ اس کی کتابیں ہیں نہ کہ وہ کام جو دنیا میں اس کی مشیت کے تحت ہو رہے ہیں۔ مشیت کے تحت ایک بت پرستی ہی نہیں ، چوری، زنا، ڈاکہ، قتل سب ہی کچھ ہو رہا ہے۔ کیا اس دلیل سے ہر اس برائی کو جائز و برحق قرار دیا جائے گا جو دنیا میں ہو رہی ہے دنیا کے کسی کا م کا مشیت کے تحت ہونا یہ معنی نہیں رکھتا کہ اس کام کو اللہ کی رضا بھی حاصل ہے۔
باپ دادا کی اندھی تقلید:
پوچھا جاتا ہے کہ اپنے اس شرک کے لئے تمہارے پاس اس غلط دلیل کے سوا کوئی اور سند بھی ہے تو جواب دیتے ہیں کہ باپ دادا سے یہ کام یونہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔ گویا ان کے نزدیک مذہب کے حق ہونے کے لئے یہ کافی دلیل تھی۔ حالانکہ ابراہیم علیہ السلام جن کی اولاد ہونے پر ہی ان کے سارے فخر و امتیاز کا مدار تھا، باپ دادا کے مذہب کو لات مار کر گھر سے نکل گئے تھے اور انہوں نے اسلاف کی ایسی اندھی تقلید کو رد کر دیا تھا۔
قرآن اس بارے میں یوں کہتا ہے:
﴿ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلاَ يَهْتَدُونَ ﴾ (سورة البقرة: 170 )
’’ اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) اللہ نے نازل فرمائی ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں (نہیں) بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے أپنے باپ دادا کو پایا۔ بھلا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اور نہ سیدھے راستے پر ہوں ( تب بھی انہیں کی تقلید کئے جائیں گے۔‘‘
 
Top