• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل کتاب کا ذبیحہ

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
پیش کردہ: احقر عابدالرحمٰن غفرلہ مظاہری​
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ’’ذبیحہ اہل کتاب‘‘ سے متعلق والدنا و مرشدنا مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن صاحب نور اللہ مرقدہ کی کتاب '' اسلامی دستورکے بنیادی اور رہنما اصول'' سےایک جامع مضمون جو حضرت مولانا سعید احمدصاحب اکبر آبادی اور محترم والد صاحب ؒکے درمیان ایک طویل علمی مباحثہ پر مبنی ہے بعینہ پیش خدمت ہے جو کہ علم دوست اور باذوق حضرات کے لئے کافی مفید ہے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ذبیحہ بلا تسمیہ
''برہان'' دہلی فروری ۱۹۶۴؁ء کے شمارے میں مولانا سعید احمد صاحب اکبر آبادی نے دیار غرب کے متعلق اپنے تاثرات بیان فرمائے ہیں اسی کے ضمن میں امریکہ اور یوروپ کے ریسٹورنٹوں کا تذکرہ کرتے ہوئے وہاں کے کھانوں کی مدح میں ایک طول قصیدہ پڑھ دیا ہے اور ساتھ ہی وہاں کے حرام گوشت (یہودیوں ،عیسائیوں کے میکینکل طرز پر بلا تسمیہ کے ذبیحہ) کی حلت پر زوردار الفاظ میں ایک فتویٰ صادر فرمادیاہے جس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ مولانا نے اپنے اس فعل نا مشروع کی زبردستی مشروع کرنا چاہا ہے ،اور الفاظ ایسے استعمال فرمائے ہیں جس سے دوسرے کے ابتلاء کا اندیشہ ہے اس لئے مسئلہ پر کچھ سپرد قلم کرنا میں اپنے نزدیک ضروری سمجھتا ہوں ،آئندہ مولانا کے اس پورے مضمون کا جائزہ لیا جائے گا اور ان غیر مشروع چیزوں کی نشان دہی کی جائے گی جن کی مولانا نے تبلیغ فرمائی ہے سطور ذیل میں مضمون کے ایک طویل اقتباس کو پیش کیا جارہا ہے۔​
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
مولانا سعید احمد صاحب کا ارشاد:اس موقع پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہاں گوشت کا انتظام کیا تھا؟اصل یہ ہے کہ امریکہ اور کناڈا میں دو قسم کا گوشت ملتا ہے ایک تووہی عام گوشت جسے میٹ(MEAT) کہتے ہیں یہ عیسائیوں کا ''ذبیحہ'' ہوتا ہےاور اس کے مقابل جو یہودیوں کا ذبیحہ ہوتا ہے وہ'' کوشر''کہلاتا ہے،یہودی اس باب میں بڑے کٹر اور جامد ہوتے ہیں اپنے ذبیحہ کے علاوہ کسی اور کا ذبیحہ جائز نہیں سمجھتے ،لیکن جہاں تک طریقہ ذبح کا تعلق ہے وہ مسلمانوں کے عام رواج کے بر خلاف ایک میکینکل طریقہ ہے وہ ہر جگہ یکساں ہے اور اس لحاظ سے عیسائیوں کے ذبیحہ اور یہودیوں کے ذبیحہ میں کوئی فرق نہیں ہےوہ ہر جگہ یکساں ہے البتہ فرق صرف اس قدر ہے کہ مذبح میں جب یہودیوں کے جانور ذبح ہوجاتے ہیں تو ان کا ایک مذہبی شخص آکر ان جانوروں پر کچھ پڑھ دیتاہے۔ان ملکوں میں بڑے بڑے متقی مسلمانوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ ''کوشر ''کو بڑی بت تکلفی سے کھاتے ہیں مگر عیسائیوںکے ذبیحہ کو چھوتے تک نہیں۔ میری رائے میں اس تفریق کے کوئی معنیٰ نہیںہیں ! کیوں کہ اس سلسلہ میں سب سے پہلے غور طلب بات یہ ہے کہ یوروپ اور امریکہ میں ذبح کا جو طریقہ مروج ہے وہ اسلامی شریعت میں معتبر ہے یا نہیں ؟صلحاء واخیار امت کا تعامل اس بات کی دلیل ہے کہ یہ طریقہ معتبر ہے اس لئے کہ جو حضرات عیسائیوں کا ذبیحہ نہیں کھاتے وہ بھی ''کوشر کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ،حالانکہ جیسا میں نے عرض کی اس خاص اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے ،اسلام میں کسی گوشت کے حلال ہونے کا دارو مدار چار چیزوں پر ہے۔
(۱)گوشت کسی حلال جانور کا ہو (۲)ذبح کرنے والا مسلمان ہو یا اہل کتاب میں سے ہو(۳) ذبح کا طریقہ عند الشرع معتبر ہو(۴) ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو۔
مسئلہ زیر بحث میں پہلی اور دوسری شرط کے وجود میں تو کوئی کلام ہی نہیں ہوسکتا۔رہی تیسری شرط تو چونکہ اس کو بھی جمہور امت نے تسلیم کر لیا ہے اس لئے اس کے وجود میں بھی کوئی شبہ نہیں رہا۔اب لے دے کے بحث اس پر مرکوز ہو جاتی ہے کہ ذبح کے وقت اللہ کا نام ضروری ہے یا نہیں؟اس بارے میں احناف کا صاف مذہب یہ ہے کہ تسمیہ عند الذبح ضروری ہے اور ان کا استدلال سورہ انعام کی اس آیت سے ہے:
وَلَاتَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ۝۰ۭ
اور جن چیزوں پر اللہ کا نام نہیں لیاگیا تم اس میں سے کچھ بھی نہ کھاؤ۔ (الانعام :۱۲۱)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
لیکن اس کے برخلاف امام شافعی ؒ کا مسلک یہ کہ تسمیہ ذبح کے وقت مستحب ہے واجب یا شرط نہیں ہے جو مذہب امام ابوحنیفہؒ کا ہے وہی امام مالک ؒ اور امام حنبل ؒ کابھی ہے،البتہ اگر کوئی مسلمان بھول چوک کی وجہ سے تسمیہ نہ کرسکے تو کوئی مضائقہ نہیں اس کا ذبیحہ حلال ہوگا ،امام شافعیؒ کا اپنے مسلک کے لئے استدلال یہ ہے کہ:
(۱) مذکورہ بالا آیت میں''مَا لَمْ يُذْكَر'' میں'' ما ''سے مراد گوشت اور غیر گوشت ہر چیز ہوسکتی ہے حالانکہ ایک دو اقوال کو چھوڑ کر کوئی اس کا قائل نہیں ہے کہ جب کبھی کوئی بھی چیز کھائی جائے اس پر اللہ کا نام لینا دیناواجب ہے اس سے معلوم ہواکہ'' ما '' اپنے عموم پر نہیں ہے۔
(۲)اس آیت سے بظاہر تسمیہ عند الاکل کا وجود ثابت ہوتا ہےنہ کہ تسمیہ عند الذبح کا، پھر تسمیہ عند الذبح کے وجوب کے لئے اس سے استدلال درست کیوں کر ہوگا۔
(۳) تیسریدلیل امام شافعیؒ کی یہ ہے کہ اگر اس کاتعلق ذبح سے ہی مانا جائے تب بھی اس سے ان جانوروں کا حرام ہونا ثابت نہیں ہوتاجن کو اللہ کا نام لئے بغیر ذبح کیا گیا ہو اور اس کی وجہ یہ ہےکہ اسی آیت میں ''وانہ لفسق'' ہے اور چونکہ واؤ حالیہ ہے اور فسق کی تشریح سورہ مائدہ کی آیت ''وَمَآ اُہِلَّ لِغَيْرِ اللہِ بِہٖ ''(جو جانورکہ غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو)سے کی گئی ہےاسی بنا ء پر آیت میں ''مَا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ'' سے مراد'' ما ذکر اسم غیر اللہ علیہ''(جس پر غیر اللہ کانام لیاگیا ہو)گویا سورہ مائدہ کی آیت نمبر تین میں محرمات طعام کے سلسلہ میں ''وما اھل لغیر اللہ بہ'' فرماکر جو حکم بیان کیا گیا تھا اسی کا اعادہ سورہ انعام ''ولا تاکلو االاٰیہ''فرماکرکیاگیا۔
اما شافعی کے قول کی تائید بخاری ،نسائی ،اور ابن ماجہ، کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو حضرت عائشہؓ سے مروی ہےاور جس میں فرمایاگیا ہےکہ چند لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا''ہمارے پاس لوگ گوشت لیکر آتے ہیں جس کے متعلق ہمیں بالکل علم نہیں ہوتا کہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے یا نہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ''تو تم گوشت پر اللہ کانام لواور کھا جاؤ''اس سے ثابت ہوا کہ تسمیہ عند الذبح شرط یا واجب نہیں ہے اور اس بنا پر اگر عند الذبح نہ غیر اللہ کانام لیاجائے اور نہ اللہ کا نام لیاجائے تو وہ ذبیحہ حرام نہیں ہوگا۔
یا در کھنا چاہئے کہ ّیت زیر بحث کی مذکورہ بالا تاویل میں امام شافعیؒ منفرد نہیں ہیں بلکہ ابن جریر الطبری نے بھی اس آیت کی تفسیر میں مختلف روایات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے ''اور درست یہ کہنا معلوم ہوتا ہےکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی مراد ان جانوروں کا گوشت حرام قرار دینا ہے جو بتوں دیوی دیوتاؤں کے نام پر ذبح کئے گئے ہوں یا ان کو ذبح ایسے شخص نےکیا ہوجس کاذبیحہ اسلام میں جائز نہیں ہے''۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
اما م شافعیؒ اور بعض فقہا ء کے اسی مسلک کی بنیاد پر غالباًمصر وشام میں سب سے پہلے مفتی محمد عبدہ نے خاص انگریزوں کے ذبیحہ کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا تو مصر میں شور مچ گیا اور اخبار میں مخالفانہ مضامین شائع ہونے لگے،ادھر سے مفتی صاحب کے فتوے کی تائید میں ان کے تلمیذ رشید ''رضا'' نے ''مجلہ المنار ''(جلد ششم)میں مضامین لکھنے شروع کئے ،یہ مضامین اس درجہ مدلل اور پر زور تھے کہ مصر اور شام تیونس کے بعض علماء نے ان کی تائید میں خطوط لکھے مضمون کے ساتھ یہ خطوط چھپتے رہے اس کا مجموعی اثر یہ ہوا کہ فضا بدلی اور مفتی محمد عبدہ کی مخالفت کا جوش ختم ہوگیا۔اسی سلسلہ میں خاص اس مسئلہ پر غور کرنے کے لئے جامعہ ازہر مصر میں فقہ کے مسالک اربعہ کے لماء اور فقہاء کاایک نمائندہ ااجتماع ہوا ،اور انہوں نے ایک رسالہ لکھا جس میں مفتی صاحب کے فتوے کی تائید اپنے اپنے مذہب کی روشنی میں کی تھی ،شیخ عبد الحمید حمروش جو اس زمانہ میں ازہر کے مشہر عالم اور مصر کے قاضی شرع تھے انہوں نے یہ رسالہ چھاپا تھا ،اس کے علاوہ شیخ محمد بیرم الخامس جو حنفی فقہ کے بہت بڑے عالم اور مبصر ہیں ،انہوں نے بھی اپنی کتاب'' صفوۃ الاعتبار'' میں اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی ہے ،اور خود علماء حنفیہ کے اقوال سے یہ بات ثابت کی ہے کہ یوروپ کا ذبیحہ چونکہ اہل کتاب کا ذبیحہ ہے اس لئے وہ مطلقاً حلال ہے اور وہ نہ ''تو موقوذہ '' کی تعریف میں آتا ہے اور نہ ''منخنقہ'' و''نطیحہ'' کی تعریف میں۔(مولانا سعید صاحب)
(نوٹ):۔
علمائے ازہر کا کسی ایک مسئلہ پر متفق ہوجانا عالم اسلام کے لئے حجت نہیں بن سکتا عالم اسلام پر نافذ کرنے کے لئے عالم اسلام کا اتفاق ضروری ہے اسی کا نام اجماع ہے اور اگر کسی نے بھی اختلاف کردیا تو اس کو اجماع نہیں کہا جا سکتا ہے ،اس لئے اس سے استدلال ہی سرے سے غلط ہے آئندہ سطور میں علمائے ازہر کے فتاویٰ کی حقیقت سے بحث کی جارہی ہے۔(عزیزالرحمٰن)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
بحث کا خلاصہ:مندرجہ اقتباس کا ہمارے نزدیک یہ تجزیہ ہوسکتا ہے :
(۱) یوروپ اور امریکہ میں جن میکینکل طریقوں پر جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے ،اور چونکہ اس پر صلحاء امت کاتعامل ہےاس لئے یہ گوشت حلال ہےاور یہ طریقہ عند الشرع معتبر ہے اور جمہوریت نے اس کو تسلیم کر لیا ہے اس لئے اس کے وجوب میں کوئی شبہ نہیں ہے۔
(۲) تسمیہ عند الذبح شرط یا واجب نہیں اور اس بناء پر اگر عند الذبح نہ غیر اللہ کا نام لیاجائے اور نہ اللہ کا تو وہ ذبیحہ حرام نہیں ہوگا۔
(۳) حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث سے بھی ثابت ہے کہ صرف کھاتے وقت تسمیہ کہنا کافی ہے۔
لہٰذا یوروپ اور امریکہ کے ہوٹلوں میں جو حلال جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے وہ حلال ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
مولانا کے دلائل پر ایک نظر: مولانا نے اپنے مضمون میں مندرجہ بالا مسئلہ پرکلام کرتے ہوئے جو دلائل بیان فرمائے ہیں ان پر کلام کرنے سے پیشتر یہ عرض کرنا مناسب معلوم ہورہا ہے کہ میں مولانا کے مضمون کے بارے میں عرض کردوںکہ انہوں نے اپنے مضمون میں تلبیس سے کا م لیا ہےاور بعض شرعی دلائل کو خلاف واقعہ اور غلط بیان کیا ہےجو ان کے عالمانہ مرتبہ کے یکسر خلاف ہے۔
شریعت کے نزدیک ذبح کے لئے جو طریقہ معتبر ہے اس کے متعلق آئندہ سطور میں مفصل بیان کیا جائے گا،ہاں اس قدر عرض کیا جارہا ہے کہ میکینکل طریقہ سے ذبح کرنے کو جمہور امت نے تسلیم نہیں کیا ہے،یہ مولاناکی ذمی داری ہے کہ وہ حوالوں کے ذریعہ سے اس کوجمہور کامسلک ثابت کریںاس طریقہ سے ذبح شدہ گوشت کوآج تک صلحاء اور اخیار امت نے بالکل ہاتھ نہیں لگایا ہے،ہاں'' مولانا سعید احمدصاحب اکبرآبادی''اس سے مستثنیٰ ہیں!۔
مجھے جہاں تک علم ہے متقی اور پرہیز گارقسم کے حضرات کاجب ان ہوٹلوں میں گذر ہوتا ہے تو وہ مچھلی اور انڈے وغیرہ غیر مذبوح اشیاء کواستعمال کرتے ہیںوہ تو اس گوشت کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے،اگر مولانا کے علم میں دوچارصلحاءاور اخیار امت ہوں تووہ ان کے نام بتلائیںتاکہ ان سےاستفسار کیاجاسکے۔
(۲) تسمیہ عند الذبح کہنا واجب ہے اور شرط ہے الا یہ کہ بھول جائےورنہ عمداً ترک کرنے سے گوشت حرام ہوجائے گا اور اس کاکھانا جائز نہ ہوگا۔
(۳) حدیث حضرت عائشہ صدیقہؓ کو خلاف واقعہ بیان کیا ہے جو مولانا کے محل استدلال سے بالکل الگ ہے لہٰذایوروپ اور امریکہ کے ہوٹلوں یا اسی طرز کے دوسرے ہوٹلوں میں غیر شرعی طور پر جو گوشت تیار کیاجاتا ہےمسلمان کے لئے اس کا کھانا حلال نہیں،نیز اس وجہ سے بھی کہان ہوٹلوں میں سور کا گوشت بھی تیار کیاجاتاہےاور گوشت چلانے کے ظروف میں کوئی احتیاظ نہیں برتی جاتی کہ سور کے گوشت کے چمچے وغیرہ کو دوسرے سالن میں نہ ڈالتے ہوں،اس لئے اس گوشت سے مسلمانوں کو اجتناب کرناچاہئے۔اس کے بعد اس مسئلہ پر تفصیلی کلام کیاجاتا ہےسب سے پہلے بحث کومختصر کرنے کے لئے آخری دلیل حضرت عائشہ صدیقہؓکی حدیث پر کلام کیاجارہا ہےتاکہ مسئلہ بہت زیادہ طویل نہ ہوجائے۔
حدیث عائشہ صدیقہ ؓ : حضرت عائشہ صدیقہؓ کی یہ حدیث بخاری شریف میں ''باب ذبیحۃ الاعراب ونحوہم'' میں موجود ہے
( عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کیا ہے :أَنَّ قَوْمًا قَالُوا لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم إِنَّ قَوْمًا يَاْتُوْنَا بِاللَّحْمِ لَا نَدْرِي أَذُکِرَ اسْمُ اﷲِ عَلَيْهِ أَمْ لَا؟ فَقَالَ : سَمُّوا عَلَيْهِ أَنْتُمْ وَکُلُوهُ. قَالَتْ : وَکَانُوا حَدِيثِي عَهْدٍ بِالْکُفْرِ.'' کچھ لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ ہم ایسے لوگ ہیں جن کے پاس گوشت آتا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ اس پر اﷲ کا نام لیا گیا ہے یا نہیں؟ (اس کا کیا حکم ہے، کھائیں یا نہ کھائیں) ارشاد ہوا کہ تم اس پر بسم اﷲ پڑھ کر کھا لیا کرو۔ حضرت صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ یہ زمانہِ کفر کے قریب کی بات ہے۔ '' ''حاشیہ'')
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
اس کے متعلق علمائے کرام اور محققین عظا م کی تشریحات ملاحظ فرمائیں۔
علامہ بدرالدین عینی شارح بخاری فرماتے ہیںکہ جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال ابتدائے اسلام میں کیا گیا تھا اور سوال کرنے والے بھی مسلمان تھے کہ:
''ہمارے پاس کچھ دیہاتی گوشت لاتے ہیں معلوم نہیں انہوں نے اس کو تسمیہ کہہ کر ذبح کیا ہے یا نہیں (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ تم اس پر بسم اللہ پڑھ لیا کرواور کھا لیا کرو''
حضرے عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ لوگوں کو یہ شک اس وجہ سے ہوا تھا یہ دیہاتی لوگ نئے نئے اسلام لائے تھے۔
وَکَانُوا حَدِيثِي عَهْدٍ بِالْکُفْر اور یہ زمانہ کفر کے قریب کی بات ہے(بخاری)
یعنی انہیں ابھی مسلمان ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا،امام مالک ؒ نے اس جگہ ''الاسلام'' کا لفظ زیادہ کیا ہے خود امام بخار ی ؒ نے ترجمۃ الباب ہی اسی عنوان سے باندھا ہےجس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ دیہاتی مسلمانوں کے ذبیحہ کے بارے میں سوال کیا جارہا ہے ۔امام مالک ؒ نے ''اہل البادیہ ''کے عنوان سے ذکر کیا ہےکیا ان تصریحات کی موجودگی میں حضرات صحابہؓ کے سوال اور جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کو عمومیت پر محمول کیا جائے گایاخصوصیت پر(عمدۃ القاری:۱۱۸:ج:۲۱)
(۲) حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ جو حضرت مولانا سعید احمد صاحب اکبر آبادی کے بھی استاذ ہوتے ہیں اور میرے خیال میںموصوف کو حضرت شاہ صاحب ؒ کی علمیت تسلیم ہوگی فرماتے ہیں۔
''باب ذبیحۃ الاعراب سے مراد جہلائے عرب ہیں جن کے بارے میں یہ وہم ہوسکتا تھا کہ انہوں نےتسمیہ پڑھنا چھوڑ دیا ہوگا یا وہ مسائل سے زیادہ واقف نہیں تھےان کے ذبح شدہ گوشت کو کھایا جائے یا نہیں ۔یہ معنٰی ہرگز نہیں ہیں کہ بلاتسمیہ کے ذبح گوشت کو کھالینا چاہئے،کیوں کہ تسمیہ پڑھنا واجب نہیں ہے! بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دیہاتیوں کے حال کو اعدال احوال پر محمول کرلینا چاہئے (آگے چل کر فرماتے ہیں ) ظاہر ہے کہ وہ تسمیہ عند الذبح ضرور پڑھ لیتے ہوں گے''
(فتح الباری ،ص:۳۴۱:ج۴)
امام نسائی ؒ نے اس واقعہ کو اعراب کے متعلق بیان کیا ہےاور علامہ جلال الدین سیوطی ؒ نے اپنی تفسیر ''درالمنثور'' میں ''مصنف عبد الرزاق''اس طرح نقل کیا ہے :
''جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کچھ دیہاتی مسلمان ہوئے وہ مدینہ ،منورہ گوشت بیچنے لایا کرتے تھےحضرات صحابہ کرامؓ نے از راہ تقویٰ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ان کا ذبیحہ کھایا جائے یا نہ کھایا جائے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا'' (اوجز ،ص: ۱۶۷:ج۱)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
علامہ باجی ؒ فرماتے ہیں:۔
حضرات صحابہ کرامؓ کو یہ خیا ل اس وجہ سے ہوا تھاکہ یہ لوگ دیہاتی ہیں اور دیہاتیوں سے اس قسم کی بھول چوک ممکن ہے (اوجز،ص:۱۶۷:ج۴)
اس قسم کی عبارتیں اس حدیث شریف کے متعلق حدیث کی تمام کتابوں شروحات اور حاشیوں میں موجود ہیں ،جن سے صرف ایک مخصوص واقعہ کی طرف نشان دہی ہو رہی ہےلیکن مولانا نے اس طرح حدیث سے استدلال کیا ہے کہ پڑھنے والا واقعتاً اس خلجان میں مبتلا ہوجاتا ہےکہ تسمیہ عندالذبح ضروری نہیں ہے بلکہ کھاتے وقت بسم اللہ پڑھ لینا کافی ہے۔کافر کے علاوہ اس کو مسلمان نے ذبح کیا ہو یا اہل کتاب نے اور چاہے عمداً ہی اس پر تسمیہ کہنا چھوڑدیا ہو،حالانکہ امام شافعیؒ کے علاوہ جمہور علمائے امت میں سے کسی نے بھی اس کو حلال قرار نہیں دیا ،علامہ ابن تیمیہ ؒ تک نے فرمادیا ہے کہ تسمیہ عندالذبح مطلقاً واجب ہے اور اسی پر اکثریت ہے۔(فتاویٰ ابن تیمیہ ،ص:۲۹۱ج:۱)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
تسمیہ عند الذبح:
اصل مسئلہ یہ ہے (جس پرمولانانے مذکورہ حدیث سے استدلال کیا ہے)وہ حلال جانور جس کو کسی مسلمان نے یااہل کتاب نےذبح کیا ہے ۔ذبح کے وقت اللہ کانام لیناشرط اور واجب ہے یہی جمہور ائمہ کا مسلک ہے ۔امام احمد،امام مالکؒ یہی فرماتے ہیں،امام بخاری ؒ کا فیض الباری مین شاہ صاحب ؒ نے یہی مسلک نقل کیا ہےسرف امام شافعیؒ اس مسئلہ میں اتنی تشریح فرمائی ہئ کہ اگر مسلمان تسمیہ عندالذبح بھول گیا تو یہ گوشت حلال ہے ۔کیوں کہ ایک حدیث میں موجود ہے
''جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ متروک التسمیہ ناسیاً کو کھانا چاہئے یا نہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کھاؤ اس لئے کہ اللہ کا نام ہر مسلمان کے قلب میں موجودہوتا ہے۔
اس بنا پر امام صاحب ؒ کے نزدیک بھولنے والا تارک تسمیہ نہیں۔(روح المعانی،ص:۱۵؛ج:۷)
حضرت عبداللہ بن عباس ؒ نے بخاری شریف کے باب التسمیہ عند الذبح میں یہی بات فرمائی ہےجس امام صاحب کے مسلک کی تائید ہورہی ہے حضرت ابن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:۔
والناسی لا یسمیٰ فاسقاً(بخاری)بھالنے والا فاسق نہیں ہے
اس کے علاوہ امام صاحب فرماتے ہیں عامداً تسمیہ ترک کردینا جائز نہیں ہے اگر ترک کردیا تو گوشت حلال نہ ہوگا اس کے متعلق امام ابو یوسف ؒ فرماتے ہیں:۔
متروک التسمیۃ عامداً لایسع فیہ الاجتھاد ولو قضی الالقاضی بجواز بیعہ لاینفذ لکونہ مخالفا للاجماع (ہدایہ)
متروک التسمیہ عامداً کی حلت میں اجتہاد جائز نہیں اور اگر قاضی نے ایسے گوشت کی بیع پرجواز کا حکم دیدیا تو اس کی قضا نافذ نہ ہوگی کیون کہ یہ خلاف اجماع ہے۔
اب مولانا(سعید احمد صاحب)کے الفاظ مندرجہ بالا حدیث کے ذیل میں ملاحظہ فرمائے:
''اس سے ثابت ہوا کہ تسمیہ عند الذبح شرط یا واجب نہیں اور اس بناء پر اگر عندالذبح نہ غیر اللہ کا نام لیاجائے اور نہ اللہ کا تو وہ ذبیحہ ھرام نہ ہوگا''
اور آخر میں (مولانا سعیدصاحب)فرماتے ہیں:۔
''اور خود علمائے حنفیہ کے اقوال سے یہ ثابت کیا ہے کہ یوروپ کا ذبیحہ چونکہ اہل کتاب کا ذبیحہ ہے اس لئے وہ مطلقاً حلال ہے''
اور اس کے آخر میں (مولانا سعید صاحب)فرماتے ہیں:۔
''وہ یقیناً حرام نہیں ہے'' یعنی اہل کتاب کا ذبیحہ خواہ انہوں نے تسمیہ عند الذبح ناسیاً(بھول کر) یا عامداً(جان بوجھ کر)وہ حلال ہے اور وہ یقیناً حرام نہیں ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
میرے (مفتی عزیزالرحمٰن صاحب)نزدیک یہ جسارت ہے اور ایسی جسارت کہ جس میں قطعیت کا انکار کردیا گیا ہے،کیا مولانا علمائے احناف کی کتابوں سے اس طرح کے اقوال پیش کرنے کی زمہ داری قبول فرمائیں گے،نہایت حیرت کی بات ہےکہ مولانا نے ایک قطعی مسئلہ میں اتنا کمزور اجتہاد فرمایا ہےاور یوروپ وامریکہ کے اخیار وصلحاء کے تعامل سے استدلال کیا،کیا نصوص شرعیہ قطعیہ کو کسی کے تعامل سے رد کیا جاسکتا ہے،کیا استدلال کے میدان میں عمل کو دلیل بنایا جا سکتا ہےاگر اس کاکہیں ثبوت ہےتو مولانا کے ذمہ اس کی نشاندہی کرنا ضروری ہے۔
علمائے ازہر کا فتویٰ:رہا علمائے ازہر کے فتوے سے استدلال یہ کوئی استدلال نہیں اور نہ کسی نے اس کو قبول کیا خود علمائے ازہر کے فتاویٰ پر تنقید کرتے ہوئے'' ڈاکٹر مصطفےٰ احدزرقا''نے ان کے اجتہاد پر لعنت ملامت کی ہے ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:۔
''جامع ازہر کے فضلاءنے ایسی کتابیں اور فتاویٰ شائع کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنا قلم دشمنان اسلام کے ہاتھ گروی رکھ دیا ہے اور اسلام کی بنیادیں اس طرح ڈھادیناچاہتے ہیں کہ جس طرح دشمن بھ نہیں ڈھاسکتے اس قسم کے لوگوں کا دین سے کیا تعلق ہوسکتا ہے،یہ تو منافق اور سازشی قسم کے لوگ ہیںجو اجتہاد اور آزادی رائے اور حریت فکر کے پردے میں دین کے ساتھ خیانت اور مذاق کر رہے ہیں اور اس سازش اور خیانت کا بڑا معاوضہ مل رہا ہے اور اللہ کی لعنت سے بے پرواہ ہوکر بڑے بڑے دنیوی منافع حاصل کر رہے ہیں۔ '' (معارف دسمبر ۶۰؁ء)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top