اور اس بات کی کراہت ہے کہ کوئی بھی ایسا کام اختیار کیا جائے جو مسلمان اور کافر کے مابین مودت کا موجب ہو۔ اس آیت کے عموم کی رُو سے:
’’اے ایمان والو! مت بناؤ دوست میرے دشمن کو اور خود اپنے دشمن کو، کہ پیش کش کرو تم ان کو مودت و قرب خواہی کی‘‘۔
کافر اگر مسلمان کو چھینک لینے پر
یرحمک اللہ کہے تو اس کا جوا دینا جائز ہے، کیونکہ اس کے لیے ہدایت مانگنا جائز ہے جیسا کہ پیچھے حدیث میں گزر چکا۔
اور حرام ہے ان کو مبارکباد دینا اور ان سے تعزیت کرنا اور ان کی عیادت کرنا؛ کیونکہ یہ ان کی ایسی تعظیم بنتی ہے جو سلام سے متشابہ ہے۔
امام احمد سے ایک روایت ہے کہ ذمی کی عیادت کر لینا جائز ہے اگر اسلام لے آنے کی امید ہو تو وہ اسلام کو اُس پر پیش کرے جس کو شیخ اور دیگر اصحابِ مذہب نے اختیار کیاہے؛ کیونکہ انسؓ سے روایت ہے کہ نبی ا نے ایک یہودی
کی عیادت فرمائی اور اس پر اسلام کو پیش کیا اور وہ مسلمان ہو گیا تو آپ ﷺ یہ فرماتے ہوئے وہاں سے نکلے کہ
’’حمد اللہ کی جس نے اُس کو میرے ذریعے آگ سے بچا لیا‘‘ (بروایت بخاری)
نیز اس لیے بھی کہ یہ مکارم اخلاق میں آتا ہے۔
فرمایا: یہود، نصاریٰ اور دیگر کفار کی عید کے مقام پر حاضر ہونا حرام ہے۔ اور اس موقع پر اُن کو چیزیں بیچنا۔ کتاب المنتہیٰ میں ہے:
ان کی عید پر پر نہ ان کو ہم بیع کریں کریں گے اور نہ ان کے ساتھ تحفہ تحائف کریں گے، کیونکہ اس میں ان کی تعظیم ہے تو یہ اُن کو سلام میں پہل کرنے سے مشابہ ہے۔
اور حرام ہے ان کو فروخت کرنا یا کرائے پر دینا جس قطعہ زمین کو یہ گرجا یا بت خانہ بنائیں گے۔ یعنی جس میں یہ کوئی بت یا صلیب وغیرہ نصب کریں گے۔ یہ اس لیے بھی حرام ہے کہ یہ اعانت ہے ان کی کفر کرنے میں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور مت تعاون کروگناہ میں اور زیادتی کے کام میں ‘‘۔ نیز حرام ہے ہر وہ چیز جو اُن (کفار) کے ساتھ خاص ہے، مثلاً ان کی عید۔ نیز وہ چیز جس کے ذریعے سے وہ ممیز ہوتے ہیں جس میں ان کی مشابہت اختیار کرنا آتا ہے؛ جبکہ ان کے ساتھ مشابہت کے منع ہونے پر اجماع پایا جاتا ہے ، بنا بر حدیث۔ اور واجب ہے کہ ایسا کام کرنے والے شخص کو سزا دی جائے۔