• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل کتاب کو اُن کی عیدوں پر مبارکباد دینا مذاہب اربعہ کے نزدیک حرام ہے

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اہل کتاب کو اُن کی عیدوں پر مبارکباد دینا مذاہب اربعہ کے نزدیک حرام ہے

شیخ عبد اللہ الحسینی الازہری از علمائے بحرین​
الحمد للہ رب العالمین۔ والصلوٰۃ والسلام علیٰ أشرف الخلق أجمعین نبینا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ ومن تبعہم بإحسان إلیٰ یوم الدین، وبعد:
یہ مسئلہ جس پر پچھلے چند ہفتوں سے ہمارے بحرین کے اخبارات و جرائد نے ایک بحث چھیڑ رکھی ہے دراصل شرعی مسائل کے زمرے میں آتا ہے۔ فاضل مشائخ نے اِس پر اپنی آراء ظاہر فرمائی ہیں مگر ہم چاہتے تھے کہ اہل کتاب کے تہواروں پر ان کو مبارک اور تہنیت پیش کرنے کے جواز پر یہ حضرات ہمیں شریعت سے دلائل دیتے اور ہمارے اسلامی فقہی ورثہ سے اس پر کچھ مستند شواہد پیش کرتے! اِس مسئلہ پر گفتگو کے لیے ہمیں کئی ایک امور پر روشنی ڈالنا ہو گی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اولاً۔ تہنیت (مبارکباد) کا مفہوم
اہل لغت کا اتفاق ہے کہ ’’تہنیت‘‘ ضد ہے ’’تعزیت‘‘ کی۔ علامہ بجیرمی فرماتے ہیں:
التَّہْنِءَۃُ ضِدَّ التَّعْزِیَۃَ فَہِیَ الدُّعَاءُ بَعْدَ السُّرُوْرِ، وَالتَّعْزِیَۃُ حَمْلُ الْمُصَابِ عَلَی الصَّبْرِ بِوَعْدِ الأجْرِ وَالدُّعَاءِ لَہ ’’تہنیت ضد ہے تعزیت کی، یعنی یہ خوشی کے موقع پر دی جانے والی ایک دعاء ہوتی ہے(١)
(١)آپ کا کسی کو یہ کہنا کہ ’’مبارک ہو‘‘ دراصل دعائیہ کلمات ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ’’خدا کرے اس میں برکت آئے‘‘۔ پس یہ (مبارکباد) درحقیقت برکت کی دعا ہوتی ہے۔
جبکہ تعزیت کا مطلب ہے
کسی آفت زدہ شخص کو صبر کی تلقین کرنا اُس کو اجر کی یاد دہانی کرانے اور اس کے لیے دعا کرنے کی صورت میں‘‘۔
مالکی فقیہ ابن الحاج کہتے ہیں:
معمول یہ ہے کہ تہنیت اور مبارکباد وغیرہ لوگوں کے ہاں اس وقت پائی جاتی ہے جب ان کے مابین ایک خاص درجہ کی مودت، میل جول اور بھائی چارہ پایا جائے، برخلاف سلام آداب کے جوکہ سب کے لیے مشروع ہے، یعنی یہ (سلام آداب) اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے ہم جانتے ہوں اور اس شخص کو بھی جسے ہم نہ جانتے ہوں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ثانیاً۔ کیا یہ مسئلہ آج پیدا ہوا ہے؟
شاید ہمارا گمان ہو کہ یہ ایک ’عصری‘ مسئلہ ہے، یعنی یہ اُن مسائل میں سے ہے جو آج جا کر پیدا ہوئے ہیں لہٰذا یہ مسائل ہمیں اپنے پرانے اسلامی فقہی ورثے میں تو کہیں ملیں گے ہی نہیں!
لیکن اگر آپ اپنے فقہی مراجع کی تھوڑی سی ورق گردانی کریں تو آپ کا یہ گمان غلط نکلتا ہے۔ اس کے برعکس؛ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ متقدمین اہل علم نے اس مسئلہ پر پوری تفصیل کے ساتھ کلام کیا ہے۔ دعاء ہے کہ اللہ ان سب فقہاء کو ہماری طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔
بنابریں؛ یہ ہرگز ضروری نہیں رہ جاتا کہ اِس مسئلہ پر امت کے لیے ہم آج یکلخت نئے فتاویٰ صادر کریں، جبکہ ہمارے علمائے متقدمین نے ایک اعلیٰ علمی پائے کاحامل ہوتے ہوئے اور نہایت عرق ریزی سے کام لیتے ہوئے اِس موضوع پر جو مقررات ہمیں پہلے سے دے رکھے ہیں وہ ہمارے نزدیک کالعدم ٹھہریں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ثالثاً۔ اِس مسئلہ میں اہل علم کا مذہب
اختصار کے ساتھ میں اِس مسئلہ میں مذاہب اربعہ کے اہل علم کے اہم اہم اقوال آپ کے سامنے رکھوں گا:
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
1۔ ساداتِ حنفیہ کا مذہب
قال أبو حفص الکبیر رحمہ اللہ: لو أن رجلاً عَبَدَ اللّٰہَ تعالیٰ خمسین سنۃً ثم جاء النیروز وأہدی اِلی بعض المشرکین بیضۃ یرید تعظیم ذلک الیوم فقد کفر وحبط عملہ.وقال صاحب الجامع الأصغر: اِذا أہدی یوم النیروز اِلی مسلم آخر ولم یرد بہ تعظیم الیوم ولکن علی ما اعتادہ بعض الناس لا یکفر ولکن ینبغی لہ أن لا یفعل ذلک فی ذلک الیوم خاصۃ ویفعلہ قبلہ أو بعدہ لکی لا یکون تشبیہاً بأولئک القوم، وقد قال ﷺ: ’’ من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘
ابو حفص الکبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کسی آدمی نے پچاس سال تک اللہ تعالیٰ کے لیے عبادت گزاری کی ہو، البتہ وہ نوروز کے تہوار پر کسی مشرک کو صرف ایک انڈہ پیش کرآئے، جس سے اس کا مقصد اس دن کی تعظیم کرنا ہو؛ تو ایسا آدمی کافر ہو جاتا ہے اور اس کا سارا عمل برباد ہوکر رہ جاتا ہے۔
صاحب الجامع الاصغر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نوروز کے دن اگر وہ کسی دوسرے مسلمان کو تحفہ تحائف دے، جبکہ اس سے اس کا مقصد اس دن کی تعظیم کرنا نہ ہو بلکہ رواج کے طور پر ہو تو اس سے وہ کافر تو نہیں ہوتا البتہ اس پر لازم یہی ہے کہ خاص اس روز وہ یہ کام نہ کرے؛ اس سے پہلے کر لے یا اس کے بعد کرلے تاکہ اُس قوم کی مشابہت میں نہ آئے۔ کیونکہ نبی ا کا فرمان ہے: ’’جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ اُنہی میں سے ہو جاتا ہے‘‘۔
وقال فی الجامع الأصغر: رجل اشتری یوم النیروز شیئاً یشتریہ الکفرۃ منہ وہو لم یکن یشتریہ قبل ذلک إن أراد بہ تعظیم ذلک الیوم کما تعظمہ المشرکون کفر، وإن أراد الأکل والشرب والتنعم لا یکفر۔ أھ
فرمایا الجامع الاصغر میں: ایک آدمی نوروز کے دن کوئی ایسی چیز خرید کر لاتا ہے جس کو کافر خریدنے جاتے ہیں، جبکہ اس سے پہلے وہ اس کو خریدنے والا نہ تھا، اس سے اگر اس کا مقصد اُس دن کی تعظیم کرنا ہو جس طرح کہ مشرکین اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو یہ شخص کافر ہو گیا۔ البتہ اگر اس کا مقصد محض کھاناپینا اور نعمت کا حظ اٹھانا ہو تو وہ کافر نہیں ہوتا۔
دیکھئے: البحر الرائق شرح کنز الدقائق للعلامۃ ابن نجیم ج ۸ ص
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔ ساداتِ مالکیہ کا مذہب
(فصل) فی ذکر بعض مواسم أہل الکتاب۔ فہذا بعض الکلام علی المواسم التی ینسبونہا إلی الشرع ولیست منہ۔ وبقي الکلام علی المواسم التی اعتادہا أکثرہم وہم یعلمون أنہا مواسم مختصۃ بأہل الکتاب فتشبہ بعض أہل الوقت بہم فیہا وشارکوہم فی تعظیمہا یا لیت ذلک لو کان فی العامۃ خصوصاً ولکنک تری بعض من ینتسب إلی العلم یفعل ذلک فی بیتہ ویعینہم علیہ ویعجبہ منہم ویدخل السرور علی من عندہ فیالبیت من کبیر وصغیر بتوسعۃ النفقۃ والکسوۃ علی زعمہ بل زاد بعضہم أنہم یہادون بعض أہل الکتاب فی مواسمہم ویرسلون إلیہم ما یحتاجونہ لمواسمہم فیستعینون بذلک علی زیادۃ کفرہم ویرسل بعضہم الخرفان وبعضہم البطیخ الأخضر وبعضہم البلح وغیر ذلک مما یکون فی وقتہم وقد یجمع ذلک أکثرہم، وہذا کلہ مخالف للشرع الشریف ومن العتبیۃ۔
قال أشہب: قیل لمالک: أتری بأسا أن یہدی الرجل لجارہ النصرانی مکافأۃ لہ علی ہدیۃ أہداہا إلیہ؟ قال ما یعجبنی ذلک قال اللہ عزوجل: ’’ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاء تُلْقُونَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ ‘‘۔ (الممتحنۃ:
11) قال ابن رشد رحمہ اللہ تعالی: قولہ مکافأۃ لہ علی ہدیۃ أہداہا إلیہ إذ لا ینبغی لہ أن یقبل منہ ہدیۃ؛ لأن المقصود من الہدایا التودد لقول النبی ﷺ: ’’تہادوا تحابوا وتذہب الشحناء‘‘، فإن أخطأ وقَبِلَ منہ ہدیتہ وفاتت عندہ فالأحسن أن یکافۂ علیہا حتی لا یکون لہ علیہ فضل فی معروف صنعہ معہم۔
وسئل مالک رحمہ اللہ عن مؤاکلۃ النصرانی فی إناء واحد۔ قال: ترکُہ أحب إلي ولا یصادق نصرانیاً۔ قال ابنُ رشد رحمہ اللہ: الوجہ فی کراہۃ مصادقۃ النصرانی بیِّنٌ؛ لأن اللہ عزوجل یقول: ’’لَا تَجِدُ قَوْماً یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ‘‘ (الممتحنۃ:
22)
فواجب علي کل مسلم أن یبغض فی اللہ من یکفر بہ ویجعل معہ إلٰہاً غیرہ ویکذب رسولہ ﷺ، ومؤاکلتہ فی إناءٍ واحد تقتضی الألفۃ بینہما والمودۃ فہی تکرہ من ہٰذا الوجہ وإن علمت طہارۃ یدہ۔

فصل:اہل کتاب کے بعض تہواروں کا بیان۔
یہ کچھ کلام ہوا اُن تہواروں پر جنہیں وہ شرع کی طرف منسوب کرتے ہیں جبکہ وہ شرع سے نہیں۔
البتہ اُن تہواروں پر کلام کرنا ابھی باقی ہے جن کو (ہماری) اکثریت نے معمول بنا لیا ہے یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ یہ خاص اہل کتاب کے تہوار ہیں۔ یوں ہمارے زمانے کا ایک طبقہ اُن کی مشابہت کرنے لگا ہے اور ان دنوں کی تعظیم میں اُن کے ساتھ شمولیت کرنے لگا ہے۔ کاش صرف اتنا ہوتا کہ عوام ہی اس میں گرفتار ہوتے۔
مگر تم دیکھتے ہو علم سے منسوب بعض لوگ بھی اپنے گھروں میں یہ کام کرنے لگے ہیں اور اُن کے مددگار ہونے اور ان (کے اس معمول کو) پسند کرنے لگے ہیں۔
یہ (ان مواقع پر) گھر میں سب چھوٹوں بڑوں کو آسودگی اور راحت پہنچاتے ہیں یعنی اُس دن گھر میں کھانا پینا اور پہناوا اپنے تئیں اچھا کر لیتے ہیں۔ بلکہ بعض تو اس سے بھی بڑھ کر اہل کتاب کو تحفہ تحائف دینے لگے اور ان تہواروں پر ان کو ایسی اشیاء ارسال کرنا شروع کر دیں جن سے (شہ پا کر) وہ اپنے اس کفر میں اور بھی بڑھیں۔
چنانچہ بعض لوگ اِن تہواروں پر اُن کو باقاعدہ دنبے بھیجتے ہیں، بعض تربوز کا ہدیہ کرتے ہیں اور بعض کھجوروں کا یا جو چیز اُس موسم میں پائی جاتی ہو۔اکثریت تو اب یہ سبھی کام کر لینے لگی ہے۔ یہ سب کام شرع شریف کے خلاف ہیں اور قابل مذمت۔
اشہب رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:
امام مالک سے پوچھا گیا: کیا آپ اس میں کوئی حرج پاتے ہیں کہ آدمی اپنے عیسائی ہمسائے کو تحفہ دے جس سے مقصد یہ ہو کہ اُس کے کسی تحفہ کا حساب برابر کردیا جائے جو وہ اس سے پہلے کبھی اس کو دے کر گیا ہو؟ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: میں اس کو پسند نہیں کرتا؛ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو! مت بناؤ دوست میرے دشمن کو اور خود اپنے دشمن کو، کہ پیش کش کرو تم ان کو مودت و قرب خواہی کی‘‘
ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:
اوپر جو بات ہوئی کہ ’’مقصد اُس کے کسی تحفہ کا حساب برابر کرنا ہو جو وہ اس سے پہلے کبھی اس کو دے کر گیا ہو‘‘ (امام مالک کا اس کے جواب میں ’’نہیں‘‘ کہنا) اس لیے کہ اس کے لیے یہی جائز نہیں کہ وہ اس سے تحفہ قبول کرے؛ کیونکہ تحفہ تحائف سے مقصد مودت کو بڑھانا ہوتا ہے جیسا کہ نبی ا کا فرمان ہے: ’’تحفے دیا لیا کرو؛ تمہاری باہمی محبت میں اضافہ ہونے لگے گا اور آپس کی کدورت جاتی رہے گی‘‘۔ تاہم اگر وہ اُس سے تحفہ قبول کرنے کی غلطی کر چکا ہے اور وہ تحفہ اس کے ہاں باقی بھی نہیں رہا ہے تو پھر بہتر یہ ہے کہ وہ اسکا حساب برابر کر دے تاکہ اُسکا کوئی فضل اور احسان باقی نہ رہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا:
کیا عیسائی کے ساتھ ایک برتن میں کھایا جا سکتا ہے؟ فرمایا: ایسا نہ کرنا میرے نزدیک بہتر ہے؛ عیسائی سے دوستی ہی مت رکھے۔
ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:
عیسائی سے دوستی کی کراہت نہایت بیّن ہے اِس لیے کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ’’تم نہ پاؤ گے ایسے لوگوں کو جن کا ایمان ہو اللہ اور یوم آخرت پر اور وہ محبت رکھیں ان لوگوں سے جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف محاذ آرا ہوں‘‘
پس ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ کی خاطر بغض کرے ایسے شخص سے جو اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا ہو اور اُس کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ ٹھہراتا اور اُس کے رسول ا کی تکذیب کرتا ہو۔ جبکہ اُس کے ساتھ ایک برتن میں کھانا دونوں کے مابین الفت اور مودت کا متقاضی ہوگا؛ لہٰذا یہ اس پہلو سے ناپسندیدہ ہے، اگرچہ ہمیں معلوم بھی ہو کہ اس (کافر) کا ہاتھ ناپاک نہیں ہے۔

ومن مختصر الواضحۃ: سئل ابن القاسم عن الرکوب فی السفن التی یرکب فیہا النصاریٰ لأعیادہم۔ فَکَرِہَ ذٰلک مخافۃ نزول السخط علیہم لکفرہم الذی اجتمعوا لہ۔
قال: وکرہ ابن القاسم للمسلم أن یہدی إلی النصرانی فی عیدہ مکافأۃ لہ۔ ورآہ من تعظیم عیدہ وعوناً لہ علی مصلحۃ کفرہ۔ ألا تری أنہ لا یحل للمسلمین أن یبیعوا للنصاریٰ شیئاً من مصلحۃ عیدہم لا لحماً ولا إداماً ولا ثوباً ولا یعارون دابۃً ولا یعانون علی شیء من دینہم لأن ذٰلک من التعظیم لشرکہم وعونہم علیٰ کفرہم وینبغی للسلاطین أن ینہوا المسلمین عن ذلک، وہو قول مالک وغیرہ، لم أعلم أحداً اختلف فی ذٰلک۔ انتہیٰ
ویمنع التشبہ بہم کما تقدم لما ورد فی الحدیث ’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘ ومعنیٰ ذٰلک تنفیر المسلمین عن موافقۃ الکفار فی کل مااختصوا بہ۔ وقد کان علیہ الصلاۃ والسلام یکرہ موافقہ أہل الکتاب فی کل أحوالہم حتی قال الیہود إن محمداً یرید أن لا یدع من أمرنا شیئا إلا خالفنا فیہ۔
وقد جمع ہؤلاء بین التشبہ بہم فیما ذکر والإعانۃ لہم علیٰ کفرہم فیزدادون بہ طغیاناً إذ أنہم إذا رأوا المسلمین یوافقونہم أو یساعدونہم، أو ہما معاً، کان ذٰلک سبباً لغبطتہم بدینہم ویظنون أنہم علی حق وکثر ہٰذا بینہم۔أعنی المہاداۃ حتی إن بعض أہل الکتاب لیہادون ببعض ما یفعلونہ فی مواسمہم لبعض من لہ ریاسۃ من المسلمین فیقبلون ذٰلک منہم ویشکرونہم ویکافؤنہم۔ وأکثر أہل الکتاب یغتبطون بدینہم ویسرون عند قبول المسلم ذٰلک منہم، لأنہم أہل صور وزخارف فیظنون أن أرباب الریاسۃ فی الدنیا من المسلمین ہم أہل العلم والفضل والمشار إلیہم فی الدین وتعدی ہٰذا السمُّ لعامۃ المسلمین فسری فیہم فعظموا مواسم أہل الکتاب وتکلفوا فیہا النفقۃ) ا۔ھ
مختصر الواضحہ میں آتا ہے: ابن القاسم (تلمیذِامام مالک) سے پوچھا گیا:
ایسے بحری جہازوں میں سوار ہونا کیسا ہے جن میں عیسائی اپنے تہواروں پر روانہ ہوتے ہوں؟ جواب میں، آپ نے اس بات کو ناپسند فرمایا؛ کہ کیا بعید ان پر قہر نازل ہو اس کفر کے باعث جس کے لیے وہ جمع ہوئے ہیں۔
نیز کہا کہ:
ابن القاسم رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمان کے لیے ناپسند ٹھہرایا ہے کہ وہ ایک نصرانی کو اُس کی عید کے دن تحفہ دے اُس کے کسی تحفہ کا حساب برابر کرنے کے لیے۔ ابن القاسم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو نصرانیوں کی عید کی تعظیم باور کیا اور اس کے کفر پر اُس کو اعانت دینے میں شمار کیا۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ مسلمانوں کے لیے تو یہ جائز نہیں کہ وہ نصاریٰ کو اُن کی عید کی مناسبت سے کوئی بھی چیز فروخت کریں، نہ گوشت، نہ سالن، نہ کپڑا۔ اور نہ سواری کا جانور اُن کو عاریہ کیا جائے گا۔ غرض اُن کے دین کے معاملہ میں اُن کی کوئی معاونت نہ ہو گی؛ کیونکہ یہ اُن کے شرک کی تعظیم میں آجاتا ہے اور اُن کے کفر پر اُن کو مدد دینا شمار ہوتا ہے۔ مسلمان سلاطین پر فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کو اِس سے روکیں۔ امام مالک کا بھی یہی مذہب ہے اور دیگر فقہاء کا بھی۔ میرے علم میں کوئی ایک بھی فقیہ نہیں جس نے اِس معاملہ میں اختلاف کیا ہو۔
اُن کے ساتھ مشابہت منع ہے ، جیسا کہ پیچھے گزرا، کیونکہ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے‘‘ جس سے آپ ﷺ کا مقصود کہ مسلمانوں کو کفار کی موافقت سے دور رکھنا ہے ہر اُس چیزمیں جو کفار کا خاصہ ہے۔ خود آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا معمول تھا کہ کفار کی موافقت سے جملہ امور میں کراہت فرماتے، یہاں تک کہ یہود یہ کہنے لگے کہ محمدﷺ کوئی ایک بھی معاملہ ہماری مخالفت کیے بغیر رہنے نہیں دینا چاہتے۔
پیچھے جو حال بیان ہوا، تو یہ (مسلمان) ہر دو برائی کو جمع کرتے ہیں: کفار کی مشابہت اور اُنکے کفر پر اُنکی اعانت؛ جس سے وہ اپنی سرکشی میں اور بھی بڑھتے ہیں۔ کیونکہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ مسلمان اُن کی موافقت یا اُن کی مدد کرنے میں لگے ہیں، یا یہ دونوں کام کرنے میں لگے ہیں، تو وہ اپنے باطن میں خوب اتراتے ہیں اور اپنے آپ کو حق پر جاننے لگتے ہیں۔ اب یہ چیز مسلمانوں اور کفار کے مابین بہت بڑھ گئی ہے۔ میرا مقصد ہے ان کے مابین تحفہ تحائف۔ یہاں تک نوبت آچکی کہ اہل کتاب کے بعض لوگ اپنے تہواروں پر تیار ہونے والی اشیاء میں سے کچھ سوغات مسلمانوں کے اہل اقتدار طبقوں کی نذر کرنے آتے ہیں جسے یہ قبول کر لیتے ہیں اور اس پر انکے شکرگزار ہوتے اور پھر اس کے جواب میں انکو تحائف دیتے ہیں۔ اکثر اہل کتاب کا یہ حال ہے کہ ایک مسلمان جب ان سے یہ سب کچھ قبول کرتا ہے تو وہ اپنے دین پر فخر کرتے اور خوشی سے بے حال ہونے لگتے ہیں۔ چونکہ وہ ظاہری صورت اور نقش ونگار پہ جانے والے لوگ ہیں ، اس لیے وہ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ مسلمانوں کے دنیوی اربابِ اقتدار ہی مسلمانوں کا اہل علم وفضل طبقہ اور دین میں مسلمانوں کیسربرآوردہ لوگ ہیں۔ یہی زہر حکمرانوں سے گزر کرعامۃ المسلمین میں سرایت کر گیا ہے، اور اب یہ بھی اہل کتاب کے تہواروں کو کوئی چیز جاننے لگے ہیں اور اس پر خرچہ پانی بھی کرنے لگے ہیں۔(2)
(2) فقہائے مالکیہ کا یہ بیان ایک طرح سے اسلامیانِ اندلس کا ’’نوحہ‘‘ بھی ہے! ابن رشد (الجد) رحمۃ اللہ علیہ جن کا ابن الحاج اوپر کے اقتباس میں باربار حوالہ دیتے ہیں اور خود ابن الحاج رحمۃ اللہ علیہ دونوں چھٹی صدی ہجری کے مالکی فقیہ ہیں اور سرزمین اندلس کے فرزند۔ اندلس جہاں اسلام اور صلیب کے معرکے پر ایک سے ایک بڑھ کر سنسی خیز موڑ آیا.. اور بالآخر وہاں سے اسلام کا پودا ہی اکھاڑ پھینکا گیا۔ چنانچہ فقہائے مالکیہ یہاں مسلم عوام کا بھی رونا رو رہے ہیں، مسلم حکمرانوں کا بھی اور اپنی ’اسلامی قیادتوں‘ کا بھی جن کو __ بالآخر __ اِس نام نہاد ’’رواداری‘‘ نے بھولی بسری داستان بنا ڈالا۔
داستانِ اندلس کا یہ کم ازکم حق ہے کہ ہمارا ہر دور اور ہر خطہ اِس ’’آئینے‘‘ میں اپنی صورت دیکھتا رہے!
عقیدہ ’’ولاء و براء‘‘ مسلم تاریخ میں جہاں کہیں بھی نظرانداز ہوا مسلمانوں کو اپنی تاریخ کے بدترین دن دیکھنا پڑے۔ خود ہند میں ہماری عزت اور سیادت کے دن اِسی ’’رواداری‘‘ کی نذر ہوئے؛ کفار کے ساتھ قربت باہمی اور ’وحدتِ ادیان‘ ایک جانب برصغیر کی صوفی شاعری (جوکہ ان آخری صدیوں میں عروج پر تھی) کا مرکزی مضمون رہا، اور دوسری جانب اُدبائے زندقہ کا ترجیحی موضوع۔ اور ہر دو کی اصل زد شریعت پر! مغل سلاطین، الحاد کی اِس ہرد دجہت کی سرپرستی فرماتے رہے۔ اِس کی طرح اکبر اپنے ہاتھ سے ڈال کر گیا جوکہ چند وقفوں کو چھوڑ کر نہ صرف جاری رہی بلکہ عروج بھی پاتی رہی۔ اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ ہمارے عقیدہ ’’ولاء وبراء‘‘ اور ’’اقامتِ شریعت‘‘ کا وہ آخری منارہ ہے جسے ہند کے شرق و غرب کو روشن کرنا نصیب ہوا؛ اور اس کے بعد گھپ اندھیرا ہوتا چلا گیا۔ تاآنکہ جب مسلم اقتدار کا چراغ ہی گل کر دیا گیا۔۔۔ تو یہاں مسلمانوں میں دو رجحان تقویت پانے لگے: ایک وہ جو انگریز کے ہاں عزت تلاش کر رہا تھا (أیَبْتَغُؤنَ عَنْدَہُمُ الْغِزَّۃَ ؟) اور انہی کے اصولوں میں ہدایت۔ دوسرا ہندو کے ہاں عزت وشان کا متلاشی ہوا۔ البتہ اب جا کر اِن پر کھلا کہ یہ عزت و شان انگریز اور ہندو ہردو کے ہاں تلاش کرنے میں کیا عیب ہے! بلکہ اپنے دین کو چھوڑ کر کہیں بھی ڈھونڈنے میں کیا حرج ہے!
سبحان اللہ۔ چند ہزار نفوس پر مشتمل ایک قوم جو اپنی موحدانہ شان کے بل پر اور اپنے عقیدہ ’’ولاء وبراء‘‘ کے دم سے پورے ہند کو اپنی مٹھی میں رکھتی ہے.. اپنی اس دولت سے محروم ہوتی ہے تو کروڑوں میں ہوکر ہندو سے جوتے کھاتی اور ’محفوظ خطوں‘ میں پناہ ڈھونڈتی ہے؛ اور ذلت ہے کہ مسلسل اس کا پیچھا کرتی ہے!
دیکھئے : المدخل لابن الحاج المالکی ج ۲ ص ۴۶ ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
3۔ ساداتِ شافعیہ کا مذہب
امام دمیری رحمۃ اللہ علیہ فقہ شافعی کی مشہور کتاب ’’المنہاج‘‘ کی شرح کرتے ہوئے، فصل ’’تعزیر‘‘ کے اختتام پر ایک تتمہ باندھتے ہیں:
(تتمۃ: یُعَزَّرُ من وافق الکفار فی أعیادہم، ومن یمسک الحیۃ، ومن یدخل النار، ومن قال لذمی: یا حاج، ومن ہنَّأَہ بعیدٍ، ومن سمّیٰ زائر قبور الصالحین حاجاً، والساعی بالنمیمۃ لکثرۃ إفسادہا بین الناس، قال یحییٰ بن أبی کثیر: یفسد النمَّام فی ساعۃٍ ما لا یفسد الساحر فی سنۃٍ) أھ
تتمہ: ایسے شخص کو تعزیر (دُرّے وغیرہ) لگائے جائیں گے جو کفار کے ساتھ اُن کی عیدوں میں موافقت کرے، یا جو (تماشے کے طور پر) سانپ پکڑ کر دکھائے، یا جو آگ میں داخل ہو کر دکھائے، یا جو ذمی کو ’حاجی صاحب‘ کہہ کر مخاطب کرے، یا جو ذمی کو اُس کی عید پر مبارکباد دے، یا جو صالحین کی قبروں کی زیارت کرنے والے کو حاجی کا لقب دے، یا جو لوگوں میں لگائی بجھائی کرتا پھرے (یعنی نمام)۔ یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں: نمام ایک ساعت میں وہ فساد برپا کر لیتا ہے جو ساحر پورے سال میں نہ کر سکے۔
دیکھئے: النجم الوہاج فی شرح المنہاج للعلامۃ الدمیری ج ۹ ص ۲۴۴۔
واضح رہے، کتاب المنہاج ہی کی ایک دوسری شرح مغنی المحتاج إلیٰ معرفۃ معانی ألفاظ المنہاج میں (ج ۴ ص ۱۹۱ پر) علامہ الخطیب الشربینی بھی یہی بات کہتے ہیں۔
شافعی فقیہ علامہ ابن حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ ’’باب الرِّدَّۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:
ثم رأیت بعض أئمتنا المتأخرین ذکر ما یوافق ما ذکرتہ فقال: ومن أقبح البدع موافقۃ المسلمین النصاریٰ فی أعیادہم بالتشبہ بأکلہم والہدیۃ لہم وقبول ہدیتہم فیہ وأکثر الناس اعتناء بذلک المصریون وقد قال ﷺ: ’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘۔ بل قال ابن الحاج لا یحل لمسلم أن یبیع نصرانیاً شیئاً من مصلحۃ عیدہ لا لحماً ولا أدماً ولا ثوباً ولا یعارون شیئا ولو دابۃ إذ ہو معاونۃ لہم علیٰ کفرہم وعلیٰ ولاۃ الأمر منع المسلمین من ذلک۔ ومنہا اہتمامہم فی النیروز بأکل الہریسۃ واستعمال البخور فی خمیس العیدین سبع مرات زاعمین أنہ یدفع الکسل والمرض وصبغ البیض أصفر وأحمر وبیعہ والأدویۃ فی السبت الذی یسمونہ سبت النور وہو فی الحقیقۃ سبت الظلام۔ ویشترون فیہ الشبث ویقولون إنہ للبرکۃ ویجمعون ورق الشجر ویلقونہا لیلۃ السبت بماءٍ یغتسلون بہ فیہ لزوال السحر ویکتحلون فیہ لزیادۃ نور أعینہم ویدہنون فیہ بالکبریت والزیت ویجلسون عرایا فی الشمس لدفع الجرب والحکۃ ویطبخون طعام اللبن ویأکلونہ فی الحمام إلیٰ غیر ذلک من البدع التی اخترعوہا ویجب منعہم من التظاہر بأعیادہم۔ أ ھ

پھر میں نے دیکھا ہمارے بعض متاخرین ائمہ نے بھی وہ چیز ذکر کی جو میری ذکر کردہ بات کے موافق ہے۔ چنانچہ اِن ائمہ نے ذکر کیا ہے: قبیح ترین بدعات میں یہ چیزیں آتی ہیں: مسلمانوں کا نصاریٰ کی عیدوں میں اُن کی موافقت کرنا جس کی صورت یہ ہے کہ کھانوں میں اُن کی مشابہت ہو، ان کو تحفے دیے جائیں اور ان کے تحفے قبول کئے جائیں۔ اس کا سب سے زیادہ اہتمام مصریوں کے ہاں ہونے لگا ہے، جبکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے: ’’جس نے کسی قوم کی مشابہت کی و ہ انہی میں سے ہوا‘‘۔ ابن الحاج نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ ایک نصرانی کو اُس کی عید کی ضروریات تک بیچے، نہ گوشت، نہ سالن اور نہ کپڑا۔ نہ ان کو کوئی چیز عاریہ کی جائے گی خواہ وہ سواری کا جانور ہی کیوں نہ ہو؛ کیونکہ یہ اُن کو اُن کے کفر پر معاونت کرنا ہے۔ مسلم حکمرانوں پر واجب ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس چیز سے منع کریں۔ اسی میں مسلمانوں کا نوروز کو ہریسہ ایسے پکوان کا اہتمام کرنا آتا ہے۔ نیز ان کے تہوار ’’خمیس العیدین‘‘ پر سات سات اگربتیاں لگانا، یہ تصور کرتے ہوئے کہ یہ فعل ان سے سستی اور بیماری کو دفع کرنے کا باعث ہے۔ اسی طرح اُس روز انڈے کو زرد یا سرخ رنگ میں رنگ کر فروخت کرنا۔ اور ان کے سبت پر پنسار لگانا، جس کو وہ ہفتۂ روشنی بولتے ہیں اور جوکہ درحقیقت ہفتۂ ظلمت ہوتا ہے۔ نیز وہ اس تہوار پر اجوائن کے پتے خرید کر لاتے ہیں کہ یہ باعث برکت ہے۔ علاوہ ازیں درختوں کے پتے جمع کر کے رکھتے ہیں پھر سبت کی شب وہ اس کو پانی میں ڈال کر اس سے غسل کرتے ہیں کہ یہ جادو کا اثر زائل کرتا ہے۔ اس روز سرمہ ڈالتے ہیں کہ اس سے آنکھوں کی روشنی بڑھتی ہے، اور گندھک اور تیل کی مالش کرتے ہیں اور غسل آفتاب لیتےہیں کہ اس سے جلد کی بیماری اور خارش چلی جاتی ہے۔ اس روز کڑھی پکاتے ہیں اور اس کو غسل خانے میں لے جا کر کھاتے ہیں۔ غرض اسی طرح کی دیگر بدعات جو ان لوگوں نے گھڑ لی ہیں۔ واجب یہ ہے کہ کفار کو بھی اس بات سے روکا جائے کہ ہمارے ہاں وہ اپنے یہ تہوار سرعام منائیں۔
دیکھئے: الفتاویٰ الفقہیۃ الکبریٰ للعلامۃ ابن حجر الہیتمی ج ۴ ص ۲۳۸ ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
4۔ ساداتِ حنابلہ کا مذہب
(و) یکرہ (التعرض لما یوجب المودۃ بینہما) لعموم قولہ تعالیٰ ’’لَا تَجِدُ قَوْماً یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ‘‘ (الممتحنۃ: ۲۲)
(وإن شمَّتَہ کافرٌ أجابہ)؛ لأن طلب الہدایۃ جائزٌ للخبر السابق۔
(ویحرم تہنئتہم وتعزیتہم وعیادتہم)؛ لأنہ تعظیمٌ لہم أشبہ السلام۔
(وعنہ تجوز العیادۃ) أی: عیادۃ الذمی (إن رجی إسلامہ فیعرضہ علیہ واختارہ الشیخ وغیرہ) لمارویٰ أنس ’’أن النبی ﷺ عاد یہودیاً، و عرض علیہ الإسلام فأسلم فخرج وہو یقول: الحمد للہ الذی أنقذہ بی من النار‘‘ رواہ البخاری ولأنہ من مکارم الأخلاق۔
(وقال) الشیخ (ویحرم شہود عید الیہود والنصاری) وغیرہم من الکفار (وبیعہ لہم فیہ)۔ وفی المنتہیٰ: لا بیعنا لہم فیہ (ومھاداتہم لعیدہم) لما فی ذلک من تعظیمہم فیشبہ بدائتھم بالسلام۔
(ویحرم بیعہم) وإجارتہم (ما یعملونہ کنیسۃ أو تمثالاً) أی: صنماً (ونحوہ) کالذی یعملونہ صلیباً؛ لأنہ إعانۃٌ لہم علیٰ کفرہم۔ وقال تعالیٰ: ’’وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ‘‘ (و) یحرم (کل ما فیہ تخصیصٌ کعیدہم وتمییزٌ لہم وہو من التشبہ بہم، والتشبہ بہم منہیٌّ عنہ إجماعاً) للخبر (وتجب عقوبۃ فاعلہ) أ ھ
اور اس بات کی کراہت ہے کہ کوئی بھی ایسا کام اختیار کیا جائے جو مسلمان اور کافر کے مابین مودت کا موجب ہو۔ اس آیت کے عموم کی رُو سے:
’’اے ایمان والو! مت بناؤ دوست میرے دشمن کو اور خود اپنے دشمن کو، کہ پیش کش کرو تم ان کو مودت و قرب خواہی کی‘‘۔
کافر اگر مسلمان کو چھینک لینے پر یرحمک اللہ کہے تو اس کا جوا دینا جائز ہے، کیونکہ اس کے لیے ہدایت مانگنا جائز ہے جیسا کہ پیچھے حدیث میں گزر چکا۔
اور حرام ہے ان کو مبارکباد دینا اور ان سے تعزیت کرنا اور ان کی عیادت کرنا؛ کیونکہ یہ ان کی ایسی تعظیم بنتی ہے جو سلام سے متشابہ ہے۔
امام احمد سے ایک روایت ہے کہ ذمی کی عیادت کر لینا جائز ہے اگر اسلام لے آنے کی امید ہو تو وہ اسلام کو اُس پر پیش کرے جس کو شیخ اور دیگر اصحابِ مذہب نے اختیار کیاہے؛ کیونکہ انسؓ سے روایت ہے کہ نبی ا نے ایک یہودی
کی عیادت فرمائی اور اس پر اسلام کو پیش کیا اور وہ مسلمان ہو گیا تو آپ ﷺ یہ فرماتے ہوئے وہاں سے نکلے کہ
’’حمد اللہ کی جس نے اُس کو میرے ذریعے آگ سے بچا لیا‘‘ (بروایت بخاری)
نیز اس لیے بھی کہ یہ مکارم اخلاق میں آتا ہے۔
فرمایا: یہود، نصاریٰ اور دیگر کفار کی عید کے مقام پر حاضر ہونا حرام ہے۔ اور اس موقع پر اُن کو چیزیں بیچنا۔ کتاب المنتہیٰ میں ہے:
ان کی عید پر پر نہ ان کو ہم بیع کریں کریں گے اور نہ ان کے ساتھ تحفہ تحائف کریں گے، کیونکہ اس میں ان کی تعظیم ہے تو یہ اُن کو سلام میں پہل کرنے سے مشابہ ہے۔
اور حرام ہے ان کو فروخت کرنا یا کرائے پر دینا جس قطعہ زمین کو یہ گرجا یا بت خانہ بنائیں گے۔ یعنی جس میں یہ کوئی بت یا صلیب وغیرہ نصب کریں گے۔ یہ اس لیے بھی حرام ہے کہ یہ اعانت ہے ان کی کفر کرنے میں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور مت تعاون کروگناہ میں اور زیادتی کے کام میں ‘‘۔ نیز حرام ہے ہر وہ چیز جو اُن (کفار) کے ساتھ خاص ہے، مثلاً ان کی عید۔ نیز وہ چیز جس کے ذریعے سے وہ ممیز ہوتے ہیں جس میں ان کی مشابہت اختیار کرنا آتا ہے؛ جبکہ ان کے ساتھ مشابہت کے منع ہونے پر اجماع پایا جاتا ہے ، بنا بر حدیث۔ اور واجب ہے کہ ایسا کام کرنے والے شخص کو سزا دی جائے۔
دیکھئے: کشف القناع عن متن الإقناع للعلامۃ البہوتی ج ۳ ص
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فضیلت مآب علی محفوظ الازہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ایک مصیبت جس میں مسلمان گرفتار ہو چکے ہیں اور وہ عوام و خواص میں سرایت کر گئی ہے، یہ ہے کہ اہل کتاب یہود و نصاری کے بہت سے تہواروں میں آنا جانا شروع ہو گیا ہے۔ اسی طرح ان کی بہت سی روایات کو مستحسن جانا جا رہا ہے۔ جبکہ ہمارے نبی ا ہر معاملے میں اہل کتاب کی موافقت سے دور رہتے، یہاں تک کہ یہودی یہ کہنے لگے کہ محمد ﷺکوئی معاملہ ہماری مخالفت کیے بغیر رہنے نہیں دینا چاہتے۔ ادھر اپنا حال دیکھ لیجئے یہاں کفار کے تہواروں اور ان کے خاص مواقع پر کیا کچھ ہوتا ہے ۔ اُن کے تہواروں پر مسلمان اپنے صنعت و حرفت کے معمولات موقوف کر لیتے ہیں، تعلیمی سرگرمیاں معطل کر لیتے ہیں، اور ان تہواروں کو ایسے ایام کے طور پر لیا جاتا ہے کہ ان میں خوب شغل میلہ اور راحت و آسودگی ہو اور ان کو اچھے اچھے رنگ برنگے پہناووں کا موقع بنا دیا جائے۔ مسلمانوں کے گھروں میں یہودونصاریٰ ہی کی طرح انڈے رنگے جا رہے ہوتے ہیں۔ یہ اور اس طرح کے دیگر واقعات درحقیقت نبی ا کی اس حدیث کا مصداق بن رہے ہیں:
’’لَتَتْبَعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْراً بِشِبْرٍ وَذِرَاعاً بِذِرَاعٍ، حَتّیٰ لَوْ دَخَلُوْا جُحْرَ ضَبِّ لَتَبِعْتُمُوْہُمْ‘‘ قلنا: یا رسول اللہ، الیہودو والنصاریٰ؟ قال: ’’فَمَنْ غَیْرُہُمْ‘‘ (رواہ البخاری عن أبی سعید الخدری)
’’تم ضرور اپنے سے پہلووں کے طور طریقے اپناؤ گے، کوئی ایک بالشت یا ایک ہاتھ برابر فرق نہ رہنے دو گے، یہاں تک کہ اگر وہ سانڈے کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کے پیچھے تک جاؤ گے‘‘ ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کی مراد ہے یہود و نصاریٰ؟ آپ نے فرمایا: تو اور کون‘‘
ہر وہ شخص جس کو اپنے دین اور اپنی آبرو کی سلامتی مطلوب ہے اس کو چاہیے کہ جس وقت گلی محلوں میں ایسے تہوار کی نحوست زوروں پر ہو، اپنے گھر کی چاردیواری میں رہے اور اپنے بال بچوں اور ہر ایسے شخص کو جو اس کے زیر اختیار ہے باہر جانے سے روکے تاکہ وہ نہ تو یہود و نصاری کے تہواروں میں شرکت کا گناہ لے اور نہ اُن کے ساتھ شریک فاسقوں کی رونق میں اضافہ کا باعث ہو؛ بلکہ وہ اس سے اجتناب کرکے اللہ کے فضل و احسان کا حقدار بنے۔ (اختصار از کتاب الإبداع فی مضار الابتداع ص ۲۷۴ ۔ ۲۷۶)
اِس مسئلہ کی یہ علمی حیثیت جب ہم دیکھ چکے تو پھر کچھ عجب نہیں کہ محققِ بے مثال ابن قیم الجوزیہؒ اپنی کتاب أحْکَامُ أہلِ الذِّمَّۃ میں اہل کتاب کی عیدوں پر اُن کو مبارکباد دینے کی حرمت پر فقہاء کا اتفاق نقل کریں اور پھر اِن شدید الفاظ میں اس فعل کی شناعت بیان کریں:
وأما التہنءۃ بشعائر الکفر المختصۃ بہ فحرام بالاتفاق، مثل أن یہنۂم بأعیادہم وصومہم فیقول: عید مبارک علیک أو تہنأ بہٰذا العید ونحوہ، فہٰذا إن سَلِمَ قائلُہ من الکفر فہو من المحرمات وہو بمنزلۃ أن یہنۂ بسجودہ للصلیب بل ذلک أعظم إثماً عند اللہ وأشد مقتاً من التہنءۃ بشرب الخمر وقتل النفس وارتکاب الفرج الحرام ونحوہ وکثیر ممن لا قدر للدین عندہ یقع فی ذٰلک ولا یدری قُبْحَ ما فعل، فمن ہنأ عبداً بمعصیۃٍ أو بدعۃٍ أو کفرٍ فقد تعرض لمقت اللہ وسخطہ۔
وقد کان أہل الورع من أہل العلم یتجنبون تہنءۃ الظلمۃ بالولایات وتہنءۃ الجہال بمنصب القضاء والتدریس والإفتاء تجنباً لمقت اللہ وسقوطہم من عینہ وإن بلی الرجل بذٰلک فتعاطاہ دفعاً لشرٍ یتوقعہ منہم فمشی إلیہم ولم یقل إلا خیر ودعا لہم بالتوفیق والتسدید فلا بأس بذٰلک وباللہ التوفیق۔ ا ھ

ایسے شعائر پر جو کفر کے ساتھ خاص ہوں مبارکباد پیش کرنا بالاتفاق حرام ہے مثلاً کفار کو اُن کی عیدوں یا اُن کے روزوں پر تہنیت پیش کرنا۔ مثال کے طور پر ان کو کہنا کہ تمہیں یہ تہوار مبارک ہو وغیرہ۔ ایسا شخص اگر کفر کے ارتکاب سے بچ بھی گیا ہو تو محرمات کا مرتکب تو بہرحال ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ یہ اُسے صلیب کو سجدہ کر آنے پر مبارکباد دے! یہ چیز اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے کہ آدمی کسی شخص کو شراب پینے پر یا ناحق قتل پر یا حرام شرمگاہ کے ساتھ بدکاری کرنے پر مبارکباد پیش کرے۔ یا اسی طرح کے کسی کام پر تہنیتی الفاظ بولے۔ بہت سے لوگ جو دین کی شان سے ناشناس ہیں اس حرکت کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہ جانتے تک نہیں کہ وہ کیسا گھناؤنا فعل کر بیٹھے ہیں۔ لہٰذا وہ شخص جو کسی کو مبارکباد دے خدا کی نافرمانی پر، یا بدعت پر، یا کفر پر، تو دراصل وہ خدا کے غضب اور قہر کو دعوت دے رہا ہوتا ہے۔
ادھر خداخوفی رکھنے والے اہل علم کا یہ حال رہا ہے کہ کسی ظالم شخص کو کوئی اعلیٰ عہدہ ملتا یا کسی جاہل شخص کو قضاء یا تدریس یا اِفتاء ایسا کوئی منصب تفویض ہوتا تو یہ اُس کو مبارکباد دینے سے بچتے اللہ کے غضب سے بچنے کے لیے اور اس لیے کہ وہ اللہ کی نگاہ سے گرے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ایسی صورت میں پھنس ہی جائے اور اس کو اپنے سر سے مصیبت ٹالنے کے لیے دو لفظ بولنا ہی پڑیں تو بھی اُس (عہدہ دار) کے پاس جاکر خیر ہی کی کوئی بات کہے اور اس کے لیے توفیق اور سیدھا رہنے کی دعا کر دے۔ اور توفیق دینے والا اللہ ہے دیکھئے:
احکام اھل الذمۃ مؤلفہ امام ابن القیم۔ ج ۱ ص ۴۴۱ ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اسی کے ساتھ یہ بات شامل کر لی جائے جو پیچھے امام ابن القاسمؒ (امام مالکؒ کے شاگرد) کے کلام میں گزری ہے کہ وہ کوئی ایسا فقیہ نہیں جانتے جس نے اِس مسئلہ میں اختلاف کیا ہو۔ خود میں نے اپنی اِس تحقیق کے دوران فقہی مراجع کے اندر کسی ایسے فقیہ یا عالم کی بات نہیں دیکھی جو اِس مسئلہ میں تساہل کا قائل ہو۔ ہاں معاملہ اس کے برعکس ضرور پایا ہے؛ جیساکہ ان میں سے بہت سے فقہاء اس مسئلہ کو تعزیر اور ارتداد ایسے ابواب میں زیربحث لے کر آئے ہیں!
 
Top