محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۰ۥۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۹۲ كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَاۗءِيْلُ عَلٰي نَفْسِہٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىۃُ۰ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىۃِ فَاتْلُوْھَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۹۳
۲؎ خدا کا دین چونکہ فطرتِ انسانی کی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر تجویز کیا گیا ہے، اس لیے اس میں کوئی بات بھی مضر یا غیر مرغوب نہیں، البتہ بعض وقت علماء فکر ونظر اپنی طرف سے اس میں بعض تفاصیل ایسی پیدا کردیتے ہیں جو آئندہ چل کر دین کی سہولت وشگفتگی کے لیے مضر پڑتی ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں توضیح فرمادی کہ اصل دین میں یہودیوں کے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال تھیں اور کھانے پینے کے معاملہ میں کوئی ناجائز پابندی نہ تھی مگر انھوں نے از راہِ احتیاط بعض چیزیں تقشف اورزہد کو بڑھانے کے لیے اپنے اوپر حرام قرار دے لیں۔ مثلاً اونٹ کا گوشت حضرت یعقوب علیہ السلام عرق النساء کی وجہ سے استعمال نہیں فرماتے تھے مگر ان لوگوں نے مطلقاً اس سے احتراز مناسب سمجھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے حلال قرار دیا تھا۔فرمایا۔ اس نوع کی زیادتیاں افترا علی اللہ کے مترادف ہیں اور وہ شخص ظالم ہے جو زہد وتقشف کے نام پر خواہ مخواہ دین میں دشواریاں پیدا کرتا ہے۔
۳؎ یہودیوں کومسلک ابراہیمی پرگامزن ہوجانے کی تلقین کی ہے جو توحید وفطرت کی راہ ہے ۔ جس میں شرک وبدعات کی رسوم کو قطعاً دخل نہیں۔ واضح، سہل اور بالکل صحیح مذہب ہے ۔
جب تک تم اپنی پیاری چیزوں میں سے خرچ نہ کرو، بھلائی کو ہرگز حاصل نہیں کرسکتے اور جو تم خرچ کرتے ہو، وہ اللہ کو معلوم ہے۔۱؎(۹۲)تورات نازل ہونے سے پہلے بنی اسرائیل کو سب کھانے حلال تھے۔ سواان کے جو یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی جان۲؎ پر آپ حرام کرلیے تھے۔توکہہ تورات لاؤ اور اس کو پڑھو۔ اگرتم سچے ہو۔۳؎ (۹۳)
۱؎ محبت کا اشتقاق حَبَّۃٌ سے کیا گیا ہے جس کے معنی سودائے قلب کے ہیں، اس لیے اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ خدا کی راہ میں وہ چیزیں دو جنھیں تم دل کی گہرائیوں سے چاہتے اور عزیز رکھتے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب آیت نازل ہوئی توصحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے مختلف طریق ایثار کے استعمال کئے۔ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یارسول اللہ! مجھے ہر بیربیرحاء زیادہ پسند ہے ۔ اسے قبول فرمائیے۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے میری لونڈی مرجانہ بہت مرغوب ہے ، اسے آزاد کئے دیتا ہوں اورزید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے اپنے گھوڑے سبل سے عشق ہے ۔ یہ مجاہدین کے لیے صدقہ ہے ۔ گویا جو جن کے پاس تھا، وہ خدا کی راہ میں دے دیا گیا۔آیت کا مفہوم بھی یہی ہے کہ بلا کسی تخصیص کے ہر محبوب اور عزیز شے اس قابل ہے کہ خدا کی راہ میں اسے دے دیاجائے۔مقام بروتقویٰ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مال ودولت،عزت وجاہ ہرچیز کو اس کے حصول کے لیے وقف کردیاجائے۔؎ایثار
۲؎ خدا کا دین چونکہ فطرتِ انسانی کی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر تجویز کیا گیا ہے، اس لیے اس میں کوئی بات بھی مضر یا غیر مرغوب نہیں، البتہ بعض وقت علماء فکر ونظر اپنی طرف سے اس میں بعض تفاصیل ایسی پیدا کردیتے ہیں جو آئندہ چل کر دین کی سہولت وشگفتگی کے لیے مضر پڑتی ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں توضیح فرمادی کہ اصل دین میں یہودیوں کے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال تھیں اور کھانے پینے کے معاملہ میں کوئی ناجائز پابندی نہ تھی مگر انھوں نے از راہِ احتیاط بعض چیزیں تقشف اورزہد کو بڑھانے کے لیے اپنے اوپر حرام قرار دے لیں۔ مثلاً اونٹ کا گوشت حضرت یعقوب علیہ السلام عرق النساء کی وجہ سے استعمال نہیں فرماتے تھے مگر ان لوگوں نے مطلقاً اس سے احتراز مناسب سمجھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے حلال قرار دیا تھا۔فرمایا۔ اس نوع کی زیادتیاں افترا علی اللہ کے مترادف ہیں اور وہ شخص ظالم ہے جو زہد وتقشف کے نام پر خواہ مخواہ دین میں دشواریاں پیدا کرتا ہے۔
۳؎ یہودیوں کومسلک ابراہیمی پرگامزن ہوجانے کی تلقین کی ہے جو توحید وفطرت کی راہ ہے ۔ جس میں شرک وبدعات کی رسوم کو قطعاً دخل نہیں۔ واضح، سہل اور بالکل صحیح مذہب ہے ۔
{البر} بھلائی۔ کامل نیکی {حِلٌّ}حَلَالٌ۔ جائز درست۔حل لغات