• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایسے علماء کا فتویٰ کس کام کا جنہوں نہیں کبھی جہاد کی نیت سے ہاتھ میں تلوار (ہتھیار ) نہیں پکڑی

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
اے سی والے ٹھنڈے کمروں میں ٹیبل کرسی پر بیٹھ کر لکھنے والے اللہ کا شکر ہے کسی مسلمان کی عزت نفس کو پریشر یا پیسوں کے لئے مجروح نہیں کر رہے،
اسی لئے یہ کرسی پر بیٹھ کر لکھنے والا جب تکفیر کے اصول و قوانین کے نعرے لگانے والوں کو صرف "تاویل" کی بحث میں لایا تو بڑے بڑے وہاں سے غیر متعلقہ گفتگو کرتے ہوئے بھاگے، الحمدللہ، عوام اتنی اندھی بھی نہیں کہ مزاروں کو تباہ کرنے والوں کو یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ اور طاغوت اکبر کے گلے میں ہار پہنانے والوں کو توحید و سنت کی اشاعت کرنے والا سمجھ لے۔
ارسلان بھائی، جن کے نزدیک داعش وغیرہ کا جہاد ، جہاد نہیں ہے۔ ان کی بات الگ ہے۔ لیکن جن کے نزدیک تو وہ جہاد بھی کر رہے ہیں، خلافت بھی ان کی قائم و دائم ہے اور شرعی ہے۔ تو ایک غیر اسلامی مملکت سے ہجرت کر کے اسلامی مملکت میں تشریف کیوں نہیں لے جاتے؟ فیس بک اور فورمز پر علماء کو بلا دلیل طعنے ، کوسنے دینے کے بجائے یہود و نصاریٰ سے براہ راست جہاد کیوں نہیں کرتے؟ یا یہ علما "مسلمان" بھی نہیں ہیں کہ عام مسلمانوں کی عزت نفس کی اہمیت ہے اور علماء کی کوئی وقعت نہیں؟ جب تک کہ وہ من چاہا فتویٰ نہ دے ڈالیں۔
جس جہاد میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سےلوگ علماء کو کوستے ہیں، اسی میں خود بھی ملوث ہیں۔ جہاد کیا فقط علماء پر فرض ہے یا عوام پر بھی فرض ہے؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ارسلان بھائی، جن کے نزدیک داعش وغیرہ کا جہاد ، جہاد نہیں ہے۔ ان کی بات الگ ہے۔ لیکن جن کے نزدیک تو وہ جہاد بھی کر رہے ہیں، خلافت بھی ان کی قائم و دائم ہے اور شرعی ہے۔ تو ایک غیر اسلامی مملکت سے ہجرت کر کے اسلامی مملکت میں تشریف کیوں نہیں لے جاتے؟ فیس بک اور فورمز پر علماء کو بلا دلیل طعنے ، کوسنے دینے کے بجائے یہود و نصاریٰ سے براہ راست جہاد کیوں نہیں کرتے؟ یا یہ علما "مسلمان" بھی نہیں ہیں کہ عام مسلمانوں کی عزت نفس کی اہمیت ہے اور علماء کی کوئی وقعت نہیں؟ جب تک کہ وہ من چاہا فتویٰ نہ دے ڈالیں۔
جس جہاد میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سےلوگ علماء کو کوستے ہیں، اسی میں خود بھی ملوث ہیں۔ جہاد کیا فقط علماء پر فرض ہے یا عوام پر بھی فرض ہے؟
اپنے ان باعزت اور اہمیت کے حامل علماء کو کہیے کہ اوباما کے گلے میں ہار ڈالنے والے پر کوئی فتویٰ لگا دے ابھی لگ پتہ جاتا ہے یہ کتنے پانی میں ہیں؟ آپ تیار ہیں، جہاد موضوع ہی ایسا ہے جس سے منافق کی منافقت کھل کر واضح ہو جاتی ہے۔ یہود و نصاریٰ سے جہاد ہی تو کر رہے ہیں تو آپ کے من پسند اور اعلیٰ پائے کے مسلمان حکمران پھر ہم پر بمباری کر رہے ہیں، اس بارے میں بھی کچھ ارشاد فرما دیں کہ ایک مسلمان کی جان کی کیا اہمیت ہے؟ اللہ آپ لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے آمین گمراہی کے راستے پر چل پڑے ہیں، اسی لئے کل میں نے کہا تھا کہ اس دنیا میں سب پچ پچا جاتا ہے اصل پتہ تو قیامت والے دن لگے گا ان شاءاللہ، ویسے شاکر بھائی سب اختلاف کرنے والوں سے صرف ایک بچہ ذبح کروانے کی گزارش ہے بس ایک بچہ، سارے اپنا اپنا ایک بچہ ذبح کروا دیں روافض کے ہاتھوں پھر ان شاءاللہ یہ خوارج سے مجاہدین نظر آئیں گے۔ ان شاءاللہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
شاکر بھائی سمیت تمام محدث فورم والوں کو کمر توڑ چیلنج
میرا شاکر بھائی سمیت تمام لوگوں کو چیلنج ہے کہ جس دن ان سعودی حکومت کے ماتحت علماء نے سعودی حکمرانوں کے کالے کرتوت کے خلاف ببانگ دہل فتویٰ دے دیا میں ارسلان ملک پھر ساری زندگی لکھنا چھوڑ دوں گا ان شاء اللہ، بولئے ہے ہمت ان میں۔

یار مفتی ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں، مفتی تو ہارون الرشید کے پاس بھی بہت بیٹھے تھے اتنی تعداد میں مفتی کہہ رہے تھے کہ قرآن مخلوق ہے، لیکن ان کی بات کی کوئی اہمیت نہیں تھی، ہاں ایک شخص کو کوڑے مارے جا رہے تھے، وہ شخص احمد بن حنبل اس کفریہ عقیدے کا انکاری تھا، لیکن لوگوں کی نظر اس شخص کے فتویٰ پر ہی تھی، کیونکہ

وہ درباری نہیں تھا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اپنے ان باعزت اور اہمیت کے حامل علماء کو کہیے کہ اوباما کے گلے میں ہار ڈالنے والے پر کوئی فتویٰ لگا دے ابھی لگ پتہ جاتا ہے یہ کتنے پانی میں ہیں؟ آپ تیار ہیں، جہاد موضوع ہی ایسا ہے جس سے منافق کی منافقت کھل کر واضح ہو جاتی ہے۔ یہود و نصاریٰ سے جہاد ہی تو کر رہے ہیں تو آپ کے من پسند اور اعلیٰ پائے کے مسلمان حکمران پھر ہم پر بمباری کر رہے ہیں، اس بارے میں بھی کچھ ارشاد فرما دیں کہ ایک مسلمان کی جان کی کیا اہمیت ہے؟ اللہ آپ لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے آمین گمراہی کے راستے پر چل پڑے ہیں، اسی لئے کل میں نے کہا تھا کہ اس دنیا میں سب پچ پچا جاتا ہے اصل پتہ تو قیامت والے دن لگے گا ان شاءاللہ، ویسے شاکر بھائی سب اختلاف کرنے والوں سے صرف ایک بچہ ذبح کروانے کی گزارش ہے بس ایک بچہ، سارے اپنا اپنا ایک بچہ ذبح کروا دیں روافض کے ہاتھوں پھر ان شاءاللہ یہ خوارج سے مجاہدین نظر آئیں گے۔ ان شاءاللہ
ارسلان بھائی جہاد سے کس کو محبت نہیں ھم سب کو دکھ ہوتا ہے کہ وہاں پر ظلم ہو رہا ہے مگر ھم سب آپس میں اختلاف کرنے لگے تو فائدہ کس کا ہو گا -

میرے بھائی جہاد جذبات سے نہیں بلکہ حکمت سے لڑا جاتا ہے-
شام کی ہی مثال لےلے کہ وہاں پر نوجوانوں نے علماء کے بغیر شام کی حکومت کے خلاف خروج کیا جس کا نقصان آپ سب کے سامنے ہیں کہ کس طرح اس نے اہلسنت و الجماعت کا خون بہایا ہیں وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے -

میرے بھائی دین کے کسی بھی مسلے میں ھم اہل حق علماء کے محتاج ہے - اور کوئی بھی قدم انکے بغیر نہ اٹھائے -

اس سلسلے میں نے ایک درس سنا تھا جو کہ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ کا تھا - اگر مجھے وہ ملتا ہے تو اس کا لنک آپ سے شیئر کرتا ہو
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
شاکر بھائی اک ذرا رکیئے کیاآپ اس صھیوبی (صھیونی جمع عربی) حملے کی حمایت کرتے ہیں؟؟؟
اگر نہیں تو کیا جو لا تقف ما لیس لک بہ علم کے خلاف یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ(دولۃ الاسلامیۃ) زندیق ملحد اللہ رسول کے منکر ہیں ان کے بارے کیا کہتے ہیں؟؟؟
آخر یہ کونسا دین ہے کہ حکام کے تو کفر پر بھی پردہ ڈال دیں مسلمان کے خلاف اقوام متحدہ کو بلا لیا جائے مسجد حرام سے بھی کفار کو دعوت دی جائے کلمہ گو مسلمان کے قتل کی؟؟؟
کیا علماء نجد زندہ ہوتے تو اسے ارتداد نہ کہتے؟؟؟
باقی یہ یاد رکھئیے کہ ھجرت کیلئے کئی لوگ بیتاب ہیں کچھ تو ایرانی افواج کی گولیں سے جام شھادت پی جاتے ہیں کچھ چھلنی بدن لیئے واپس آ جاتے ہیں لیکن حوصلہ جوان ہے اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو زاد راہ کے منتظر کچھ کسی راہبر کے منتظر ہوتے ہیں اور یہ اے سی میں بیٹھے بھی کفر کے سینے کی پھانس بنے ہوتے ہیں کہ دولاویوں کا میڈیا بہت تیز ہے
لا یجرمنکم شنان قوم علی الا تعدلوا اعدلوا ھو اقرب للتقوی
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
عامر بھائی مصیبت یہ ہے کہ کچھ نوجوان ہوتے ہیں جو چار لفظ پڑھ لیتے ہیں تکفیر کے اور پھر وہ کافر نہیں چل بے تو بھی کافر یہ سبب بنتے ہیں علماء کو متنفر کرنے کے اور کچھ وہ دنیا کے پجاری ہوتے ہیں جن کی جان نکل جاتی ہے یہ سن کر کے حضرت چلیئے میدان جھاد میں آپ کو شرعی مسوول بناتے ہیں ھماری راہنمای کیجئے
بہر کیف دیکھنا تو یہ ہے کہ عصر حاضر کی کتنی جھادی تحریکوں میں علماء نے کردار ادا کیا اور وہ کتنے تھے اور کتنے ہی دوسرے محلے میں پڑتی آزمائش کو دیکھ کر قلابازی لگا گئے پچھلے سارے مواقف سے
اللھم لا تجعل الدنیا مبلغ علمنا و لا تضغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا و ثبتنا بالقول الثابت فی الحیوۃ الدنیا و فی الاخرہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ارسلان بھائی جہاد سے کس کو محبت نہیں ھم سب کو دکھ ہوتا ہے کہ وہاں پر ظلم ہو رہا ہے مگر ھم سب آپس میں اختلاف کرنے لگے تو فائدہ کس کا ہو گا -

میرے بھائی جہاد جذبات سے نہیں بلکہ حکمت سے لڑا جاتا ہے-
شام کی ہی مثال لےلے کہ وہاں پر نوجوانوں نے علماء کے بغیر شام کی حکومت کے خلاف خروج کیا جس کا نقصان آپ سب کے سامنے ہیں کہ کس طرح اس نے اہلسنت و الجماعت کا خون بہایا ہیں وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے -

میرے بھائی دین کے کسی بھی مسلے میں ھم اہل حق علماء کے محتاج ہے - اور کوئی بھی قدم انکے بغیر نہ اٹھائے -

اس سلسلے میں نے ایک درس سنا تھا جو کہ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ کا تھا - اگر مجھے وہ ملتا ہے تو اس ک لنک آپ سے شیئر کرتا ہو
اوہ بھائی ان کے بچے مر رہے ہیں علماء چپ بیٹھے ہیں
ان کی عورتوں کی عزتیں لٹ رہی تھیں علماء چپ بیٹھے تھے
ان کے نوجوانوں کو بشار کا کفریہ کلمہ نہ پڑھنے پر زندہ جلایا جا رہا تھا علماء چپ بیٹھے تھے
ان کو عمر نام رکھنے پر زندہ جلایا جا رہا تھا علماء چپ بیٹھے تھے
اوباما کے گلے میں ہار ڈالا جا رہا تھا علماء چپ بیٹھے تھے
محمد المحیسنی کو امریکہ کی بربادی کی بددعا کرنے پر جیل ڈالا جا رہا تھا علماء چپ بیٹھے تھے

اب جب وہ ظلم کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں، تب علماء بول اٹھے ہیں، اور بولے بھی ان کے خلاف ہی ہیں۔

چلو جو ہو گیا سو ہو گیا، اب جو بمباری ہو رہی ہے، کیا علماء اس پر راضی ہیں اگر راضی ہیں تو پھر یوم القیامۃ ان شاءاللہ، اگر راضی نہیں ہیں تو پھر اپنا کردار ادا کریں اور آئیں میدان میں اور کہیں آل سعود کو کہ مت لڑو وہ جیسے کیسے صحیح ہیں تو کلمہ گو، اگر خلافت ان کی قبول نہیں یا اختلاف ہے تو ہم دلائل کی بنیاد پر داعش کو غلط ثابت کر دیتے ہیں ، بس اتنی سی بات تھی، یا چھوڑو یار اتنا تو کہہ سکتے تھے کہ آل سعود تم ہٹ جاؤ داعش اور امریکہ کو لڑنے دو آپس میں۔ کیا خیال ہے عامر بھائی یہ سب کچھ ہوا؟

آپ علماء کی بات کر رہے ہیں یہی علماء آپ کو 68 سال سے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر جمہوریت کے ذریعے اسلام لانے کی بات کر کے آپ کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں، یہ لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ ہمیں علماء کی عزت کا نہیں پتہ، سب پتہ ہے اور اللہ کا شکر ہے ان سے زیادہ عزت کرتے ہیں، لیکن دینی غیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے، اندھا مقلد نہیں بن جایا جاتا، اللہ نے کان، آنکھ، زبان، دل دیا ہے تو سوچنے سمجھنے اور حق بات سننا چاہئے ناکہ اعتماد کے نام پر اندھا دھند تقلید کرنی چاہئے، شاکر بھائی کا حال بھی یہی ہے کہ یہ صرف جذباتی باتیں کر سکتے ہیں لیکن جو چیلنج میں نے اب دیا ہے یہ کبھی اس کو پورا نہیں کر سکتے، اس سے آگے ان کا علم زیرو ہے، اللہ ان سب کو ہدایت عطا فرمائے آمین اور ہمیں دین کو صحیح سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

مختصر یہ کہ علمی اختلاف ضرور کریں، لیکن مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرنے سے گریز کریں یہ نواقض اسلام ہے، باقی ہمیں یہ طعنہ دینے کی ضرورت نہیں، ہم بے بس لوگوں کو جب اللہ نے جہاد کی توفیق دی ہم ضرور کریں گے، لیکن افسوس تیل کی دولت سے مالا مال اپنے عیاش حکمرانوں کو یہود و نصاریٰ کے خلاف جہاد کی بات کرنے کی شاکر بھائی کبھی جراءت نہیں کر سکتے، لیکن نہتے لوگوں پر طعنے کسنے میں شیر ہیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
خوارج کی پہچان اور عقائد کا تعارف / قسط نمبر 1

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين أما بعد

خوارج ایک ایسا فرقہ ہے جسےدین میں ظاہری دینداری سے مزین لوگوں نے ایجاد کیا، اوریہ وہ زمانہ تھاجو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا تھااوران کووہ روایتیں ازبر تھیں جوان کی شرست کی وضاحت کے لئے کافی تھیں ،لیکن اس کے باوجوداس گروہ نے اسلامی تعلیمات کے اندرکاری ضرب لگانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ، اور اپنے مفادکے لئے حتی الوسع متوفروسائل کوبروئے کارلائے ،جس کے نتیجے میں اسلامی صف میں جواتحاداوراتفاق مطلوب تھا بکھرتاہوانظرآنے لگا۔

یہ فرقہ اپنے غیرمعمولی تدین کے باوجوداپنے عقائدکے اعتبارسے بھٹکاہواہے ، ولی الامرکی اطاعت سے نکلنا، صحابۂکرام رضی اللہ عنہم کوشب وشتم کرنا، مرتکب کبیرہ کی تکفیر، حجیت سنت کا انکاراورصفات باری تعالی کی تاویل وتعطیل یہ ایسےعقائد ہیں جوکسی بھی فرقہ کی گمراہی کے لئے کافی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ان سے دوری اختیارکی اوران سےقتال کرنے میں پس وپیش سے کام نہیں لیا ۔

قابل ذکربات یہ ہے کہ یہ روایت حدیث میں ثقہ ترین لوگوں میں سے تھے ان کی بعض روایتیں صحیح ترین سندوں میں شمارکی جاتی ہیں ،

جیساکہ خطیب بغدادی نے امام ابوداؤدکا قول نقل کیاہے کہ :

" بدعت پرستوں میں سےخوارج کی روایتوں سے زیادہ صحیح رمایتیں کسی کی نہیں ہوتیں "

اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کےبقول :

"خوارج جان بوجھ جھوٹ بولنے والوں میں سے نہیں تھے یہاں تک کہاجاتاہے کہ ان کی حدیثیں صحیح ترین ہواکرتی تھیں لیکن یہ جہالت کی وجہ ہے اپنی بدعت میں گمراہ ہوگئے ، اوران کی بدعت الحادوزندقیت کی بنیادپرنہیں تھی بلکہ قرآن کریم کے فہم سے جہالت وگمراہی کی بنیاد پر تھی "۔
(منہاج السنہ النبویہ :1/68)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام عبید اللہ بن ابی رافع بیان کرتے ہیں کہ:
(
( أَنَّ الْحَرُوْرِیَّۃَ لَمَّا خَرَجَتْ وَھُوَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ رضی اللہ عنہ قَالُوْا: لَا حُکْمَ
إِلاَّ لِلّٰہِ۔ قَالَ عَلِيُّ: کَلِمَۃُ حَقٍّ أُرِیْدُ بِھَا بَاطِلٌ، إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَصَفَ نَاسًّا إِنِّيْ لَأَعْرِفُ صِفْتَھُمْ فِيْ ھٰؤُلَائِ، یَقُوْلُوْنَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِھِمْ لَا یَجُوْزُ ھٰذَا مِنْھُمْ ــ وَأَشَارَ إِلیٰ حَلْقِہِ ــ مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اللّٰہِ إِلَیْہِ۔ ))
أخرجہ مسلم في کتاب الزکاۃ، باب: التحریض علی قتل الخوارج، رقم: ۲۴۶۸۔
ترجمہ:

’’ حروریہ جب نکلے اور میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، تو حروریہ نے کہا:

لا حکم الا للہ (یعنی اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں)۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

یہ کلمہ حق ہے مگر ان کا ارادہ باطل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کے وصف بیان کیے تھے، یقینا میں ان میں ان کی صفات کو بخوبی پہچانتا ہوں اپنی زبانوں سے حق کہیں گے مگر حق اس جگہ سے تجاوز نہیں کرے گا اور اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا (یعنی حلق سے تجاوز نہیں کرے گا) اللہ کی مخلوق میں سے سب سے زیادہ مبغوض اللہ کے ہاں یہی ہیں۔‘‘

روایت کی شرح :

خوارج جمع ہے خارجۃ کی بمعنی گروہ، مراد وہ بدعی قوم ہے جن کو دین سے اور مسلمانوں کی جماعت اور امرائے اسلام کے خلاف خروج کرنے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا۔

ان کی اصلی بدعت امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف تھی پھر یہ عقیدہ بنا لیا کہ جن لوگوں کے عقائد ہمارے جیسے نہیں وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور ان کے مال و دولت اور گھر والے حلال ہیں۔

چنانچہ بالفعل ایسا کام کیا اور جو مسلمان ان کے پاس سے گزرتے انہیں بے دریغ قتل کرتے رہے۔

ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے مقرر کردہ اس علاقہ کے گورنر عبد اللہ بن خباب بن ارت اپنی حاملہ لونڈی کے ساتھ ان کے پاس سے گزرے تو انہوں نے عبد اللہ کو قتل کردیا اور لونڈی کا پیٹ پھاڑ دیا بچہ اور ماں دونوں ہی مرگئے۔
چنانچہ یہ بات حضرت علی کو پہنچی تو لشکر لے کر نہروان کے مقام پر ان کو جا پکڑا۔مسلمانوں کے قریباً دس آدمی شہید ہوئے اور خارجیوں کے دس سے کم آدمی باقی بچے۔

خوارج علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں روپوش رہے اور اپنی قوت جمع کرتے رہے حتیٰ کہ ان کا ساتھی عبد الرحمان بن ملجم، جس نے علی رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا، وہ صبح کی نماز میں مسجد میں ہی تھا مگر کسی کو پہچان نہ ہوسکی اور جب حضرت معاویہ اور حضرت حسن کی صلح ہوئی تو ایک گروہ نے پھر سر اٹھایا۔ چنانچہ ’’ نجیلہ ‘‘ کے مقام پر شامی لشکر نے جنگ کرکے انہیں پھر روپوش ہونے پر مجبور کردیا۔

جب تک معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے یزید کی حکومت رہی اور عراق کا گورنر زیاد اور اس کا بیٹا عبید اللہ رہا

تو اس وقت تک چھپے رہے، اسی دوران زیاد اور اس کے بیٹے نے خارجیوں کے ایک گروہ پر حملہ کیا اور انہیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا اور لمبی لمبی قیدیں سنائیں۔

یزید کی وفات کے بعد اختلاف ہوا اور خلافت کی زمام عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے ہاتھ آئی چنانچہ بعض شامیوں کے علاوہ باقی سب شہروں نے ان کی اطاعت کو قبول کیا لیکن مروان نے حملہ کرکے شام کا پورا علاقہ مصر تک فتح کرلیا۔ اسی اثناء میں عراق میں خارجی نافع بن ازرق اور یمامہ میں نجدہ بن عامر کی قیادت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔

نجدہ نے خارجیوں کے عقائد میں اس عقیدے کا اضافہ کردیا کہ اگرچہ کوئی انسان ہمارے عقائد کا حامل ہو مگر وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیتا تو وہ کافر ہے نیز چور کا ہاتھ بغل تک کاٹا جائے گا، حیض کے دنوں کی رہی ہوئی نمازیں عورت کو بعد میں پڑھنا ہوں گی اور انسان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر قادر ہونے کے باوجود نہیں کرتا تو وہ کافر ہے اور جو قدرت نہیں رکھتا وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے۔ان کے نزدیک کبیرہ کا مرتکب بھی کافر ہی ہے۔

ان لوگوں نے ذمیوں کے مال و دولت کو اور مشرکین سے قتال کو چھوڑ دیا اور جو لوگ اسلام کی طرف نسبت رکھتے تھے ان سے لڑنا اور جھگڑنا شروع کردیا، ان کو قتل کرنا، قیدی بنانا اور مال لوٹنا درست قرار دیا۔ خارجیوں پر کڑے وقت آتے رہے حتیٰ کہ مہلب بن ابی صفرہ کو ان کے خلاف لشکر دے کر بھیجا گیا، مقابلہ ہوا اور خارجیوں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا، جس کی وجہ سے ان کی تعداد آٹے میں نمک کی طرح رہ گئی لیکن بعد میں یہ لوگ پھر آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوگئے اور خارجیوں سے کئی فرقوں نے جنم لیا۔

چنانچہ ابن حزم کا بیان ہے:

ان کے سردار نجدہ بن عامر کے عقائد حسب ذیل تھے:

(۱) جو صغیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اسے آگ کے علاوہ کوئی اور سزا دی جائے گی

(۲) جس نے چھوٹے گناہ پر ہمیشگی کی تو اس کی سزا کبیرہ گناہ والے کی طرح ہمیشہ آگ میں رہنا ہے اور بعض خارجی تو اپنے فاسد عقائد میں اتنے بڑھ گئے کہ نمازوں کا انکار کر بیٹھے، صرف صبح اور شام کی نماز پڑھنے کے قائل رہے، بعض خارجیوں نے اپنی پوتی، بھتیجی اور بہن سے نکاح تک جائز قرار دیا۔ بعض نے قرآنی سورت یوسف کا انکار کردیا اور ان کے ہاں جس نے زبان سے لا الہ الا اللہ کہا خواہ وہ دل سے کفریہ عقائد رکھتا ہو تو وہ اللہ کے ہاں مومن شمار ہوگا۔
فتح الباری ص ۲۸۳۔ ۲۸۶، ۱۲/ نووی شرح مسلم ص ۱۶۹۔۱۷۰، ۷۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی احادیث میں خارجیوں کا تذکرہ کیا چنانچہ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے درمیان مال غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ ایک آدمی دھنسی ہوئی آنکھوں والا، پھولے رخساروں والا، بلند پیشانی، گھنی داڑھی والا اور سر مونڈا ہوا، آیا اور کہنے لگا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ سے ڈرو۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( عَنْ أَبِی سَعِیدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ بَعَثَ عَلِیٌّ رضی اللہ عنہ إِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم بِذُہَیْبَۃٍ فَقَسَمَہَا بَیْنَ الْأَرْبَعَۃِ الْأَقْرَعِ ابْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِیِّ ثُمَّ الْمُجَاشِعِیِّ وَعُیَیْنَۃَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِیِّ وَزَیْدٍ الطَّائِیِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِی نَبْہَانَ وَعَلْقَمَۃَ بْنِ عُلَاثَۃَ الْعَامِرِیِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِی کِلَابٍ فَغَضِبَتْ قُرَیْشٌ وَالْأَنْصَارُ قَالُوا یُعْطِی صَنَادِیدَ أَہْلِ نَجْدٍ وَیَدَعُنَا قَالَ إِنَّمَا أَتَأَلَّفُہُمْ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَیْنَیْنِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَیْنِ نَاتِیُٔ الْجَبِینِ کَثُّ اللِّحْیَۃِ مَحْلُوقٌ فَقَالَ اتَّقِ اللَّہَ یَا مُحَمَّدُ فَقَالَ مَنْ یُطِعِ اللَّہَ إِذَا عَصَیْتُ أَیَأْمَنُنِیَ اللَّہُ عَلَی أَہْلِ الْأَرْضِ فَلَا تَأْمَنُونِی فَسَأَلَہُ رَجُلٌ قَتْلَہُ أَحْسِبُہُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ فَمَنَعَہُ فَلَمَّا وَلَّی قَالَ إِنَّ مِنْ ضِئْضِیئِ ہَذَا أَوْ فِی عَقِبِ ہَذَا قَوْمٌ یَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ مُرُوقَ السَّہْمِ مِنَ الرَّمِیَّۃِ یَقْتُلُونَ أَہْلَ الاسْلَامِ وَیَدَعُونَ أَہْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَنَا أَدْرَکْتُہُمْ لَأَقْتُلَنَّہُمْ قَتْلَ عَادٍ۔))
أخرجہ البخاري في کتاب الأنبیاء، باب: قول اللّٰہ تعالیٰ: {وَإِلیٰ عَادٍ أَخَاہُمْ ہُوْدًا قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ}، رقم: ۳۳۴۴۔

’’ ابوسعیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کچھ مال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (ملک یمن سے) بھیجا۔ آپ نے اسے چار حصوں میں تقسیم کردیا۔ کچھ اقرع بن حابس کچھ عیینہ بن بدر کچھ زید طائی کچھ بنی نبھان اور علقمہ بن علاثہ کو دیا۔
اور پھر بنی کلاب کے ایک آدمی کو دیا تو قریش اور انصار غصے میں آگئے۔ انہوں نے کہا آپ اہل نجد کو تو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میں تالیف قلب کے لیے ایسا کر رہا ہوں۔ تو ایک دھنسی ہوئی آنکھوں، پھولے ہوئے رخساروں، بلند پیشانی گھنی داڑھی اور مونڈے ہوئے سر والا آدمی آیا اور کہنے لگا ’’اے محمد! اللہ سے ڈرو‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر میں ہی اس کی نافرمانی کروں گا تو پھر اس کی اطاعت کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے تو مجھے زمین والوں پر امانت دار سمجھ کر بھیجا مگر تم مجھے امین نہیں سمجھتے۔ یہ بات سن کر ایک صحابی نے (میرا خیال ہے کہ وہ خالد بن ولید تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو قتل کرنے کی اجازت مانگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کردیا۔
چنانچہ جب وہ چلا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے، جو ظاہر میں قرآن پڑھیں گے مگر قرآن ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دین اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر جانور کے پار ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بتوں کے پجاریوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میں نے ان کا زمانہ پایا تو جیسے قوم عاد والے ہلاک کیے گئے (کوئی نہ بچا) اسی طرح میں ان کو قتل کروں گا (کسی کو نہیں چھوڑوں گا)۔ ‘‘

علم ہوا کہ اس آدمی کی نسل سے خارجی لوگ نکلیں گے جو خلفاء کے باغی، مسلمانوں کے قاتل اور مشرکین کو چھوڑ دینے والے ہوں گے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی تھی اس لیے ایسے ہی ہوا۔ مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ لوگ نکلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قوم عاد کی طرح ان کی جڑیں اکھیڑ دیتے۔

ان کے قتل میں ثواب ملتا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(( یَأْتِی فِی آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ حُدَثَائُ الْأَسْنَانِ سُفَہَائُ الْأَحْلَامِ یَقُولُونَ مِنْ خَیْرِ قَوْلِ الْبَرِیَّۃِ یَمْرُقُونَ مِنَ الْاسْلَامِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ لَا یُجَاوِزُ إِیمَانُہُمْ حَنَاجِرَہُمْ فَأَیْنَمَا لَقِیتُمُوہُمْ فَاقْتُلُوہُمْ فَإِنَّ قَتْلَہُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔))
أخرجہ البخاري في کتاب المناقب، باب: علامات النبوۃ في الإسلام، رقم: ۳۶۱۱۔

ترجمہ:
’’ آخر زمانہ میں نو عمر قوم آئے گی، بیوقوف ہوں گے، بات تو وہ کہیں گے جو ساری مخلوق سے بہتر ہوگی لیکن وہ دین اسلام سے اس طرح صاف نکل جائیں گے جیسے تیر جانور کے پار نکل جاتا ہے، (اس پر کچھ نہیں لگا رہتا) ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ چنانچہ جہاں تم انہیں پاؤ تو قتل کر ڈالو (کیونکہ) جنہوں نے ان کو قتل کیا ان کے لیے قیامت کے روز اجر ہے۔ ‘‘
ان کی دیگر علامات میں یہ بھی ہے کہ نماز، روزہ اور تلاوت قرآن اور دیگر نیک اعمال میں مبالغہ سے کام لیں گے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( یَخْرُجُ فِیکُمْ قَوْمٌ تَحْقِرُونَ صَلَاتَکُمْ مَعَ صَلَاتِہِمْ وَصِیَامَکُمْ مَعَ صِیَامِہِمْ وَعَمَلَکُمْ مَعَ عَمَلِہِمْ وَیَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ وَیَنْظُرُ فِی الْقِدْحِ فَلَا یَرٰی شَیْئًا وَیَنْظُرُ فِی الرِّیْشِ فَـلَا یَرٰی شَیْئًا وَیَتَمارٰی فِی الْفُوْقُ۔))
أخرجہ البخاري في کتاب فضائل القرآن، باب: إچم من راء ی بقرائۃ القرآن، أو تأکل بہ، أو فجر بہ، رقم: ۵۰۵۸۔

’’ تم میں ایسی قوم نکلے گی کہ تم اپنی نمازیں ان کی نمازوں کے مقابلہ میں اور روزہ ان کے روزہ کی نسبت اور اعمال ان کے اعمال کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے، قرآن کی تلاوت کریں گے (لیکن) قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے ایسے صاف نکل جائیں گے جیسے تیر جانور کے پار ہوجاتا ہے اور وہ بھی اتنی صفائی کے ساتھ کہ تیر چلانے والا تیر کے پھل کو دیکھتا ہے تو اس میں بھی شکار کے خون وغیرہ کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ اگر اس کے اوپر دیکھتا ہے تو بھی کچھ نظر نہیں آتا۔ تیر کے پر کو دیکھتا ہے تو بھی وہاں کچھ نظر نہیں آتا۔ بس سوفار میں کجھ شبہ گزرتا ہے۔‘‘ (تیر کا وہ حصہ جہاں چلہ لگایا جاتا ہے اسے سوفار کہتے ہیں۔)
جہاں بھی تم انہیں پاؤ تو قتل کر ڈالو (کیونکہ) ان کے قاتل کے لیے قیامت کے دن ثواب ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے متعلق امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

اس حکم سے خوارج اور باغیوں کے قتل کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور یہی علماء کا اجماع ہے۔

قاضی عیاض رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:

علماء کا اجماع ہے کہ خارجی یا ان کی مثل کوئی بدعتی، جب بھی خلیفہ کے خلاف بغاوت کرے اور جماعت کی مخالفت کرے اور اتحاد کی لاٹھی توڑ دے تو ان کو ڈرانے اور دھمکانے کے بعد قتل کرنا واجب ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ إِِلٰی أَمْرِ اللّٰہِط} [الحجرات:۹]

’’ تو اس جماعت سے لڑو جو باغی ہے حتیٰ کہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ ‘‘

ہاں یہ بات بھی ہے کہ ان کے زخمیوں کو قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی شکست کھا کر بھاگنے والوں کا پیچھا کیا جائے گا، ان کے قیدیوں کو بھی قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ حکام کے حوالہ کیا جائے گا۔ ان کے اموال بھی جائز نہیں اور جو لوگ اطاعت سے نہ نکلیں اور نہ ہی لڑائی کے لیے کھڑے ہوں تو انہیں محض وعظ و نصیحت کی جائے گی اور باطل عقائد اور بدعتوں سے رجوع کرنے کی تلقین کی جائے گی۔

یہ حکم اس وقت تک ہے جب تک بدعت کی وجہ سے کافر نہیں ہوجاتے چنانچہ جب دائرہ اسلام سے خارج ہوجائیں گے تو ان کا حکم مرتد والا ہوجائے گا۔مگر اس ارتداد پر حد بذمہ حکمران ہوگی۔

مضمون جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عامر بھائی آپ کو خوارج کی بحث چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ مزید پھنس جائیں گے
لیکن بھائی علماء کی تکفیر نہیں کرنی چاہیے

مسلمان کی تکفیر کرنے پر وعید

ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"لا یرمي رجل رجلا بالفسوق ولا یرمیہ بالکفرالا ارتدت علیہ ان لم یکن صاحبہ کذالک"کوئی آدمی کسی دوسرے مسلمان آدمی کو کافر کہہ دے، یا فاسق کہہ دے، جس کو کافر یا فاسق کہا گیا ہے، اگر وہ واقعتاً کافر یا فاسق ہے تو پھر تو اس کی بات ٹھیک ہے۔اگر جس کو کہا گیا ہے وہ خود کافر یا فاسق نہیں۔ تو کہنے والا کافر یا فاسق ہوجاتا ہے۔
بخاری (ح ۶۰۴۵)اور مسلم (ح ۶۱)

معمولی بات نہیں ہے کہ فلاں بندہ کافر ہے، فلاں بندہ کافرہے۔ نام لےکر کافر قراردینا معمولی بات نہیں ہے۔ بلکہ بہت بڑی اور بہت خطرناک قسم کی بات ہے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں دو بھائی تھے، ان میں سے ایک گناہ کرتا تھا، دوسرا بڑا ہی عبادت گزار تھا، جو عبادت گزار تھا وہ دیکھتا کہ اس کا دوسرا بھائی گناہوں ہی میں لگا رہتا ہے۔ وہ اسے کہتا :باز آجا!گناہ والے کام نہ کر۔ایک دن اس نے دیکھا کہ وہ بند ہ کوئی بڑا گناہ کررہا تھاتو اس نے کہا باز آجا، یہ برا کام ہے , نہ کر۔تو یہ کہنے لگا کیا تجھے میرے اوپر نگران مقرر کیا گیا ہے؟ میں جومرضی کروں۔ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے۔تو رہنے دے۔ عبادت گزار آدمی کہتا ہے اللہ کی قسم ! اللہ تجھے نہیں معاف کرے گا۔ یا اس نے کہا اللہ تجھے جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کی روحیں قبض کرلیں۔ اللہ رب العالمین کے پاس دونوں جمع ہوئے۔ جو عبادت گزار تھا، بڑے ذوق شوق کے ساتھ عبادت کیا کرتا تھا ، اسے اللہ رب العالمین نےفرمایا کہ کیا تو مجھے جانتا ہے؟یا جو میرے اختیارات ہیں،کیا تو میرے اختیارات کو استعمال کرسکتا ہے۔ اور جو گناہگار تھا، اس کو اللہ نے کہا: جا ! میری رحمت کے ساتھ جنت میں داخل ہوجا, اور جو دوسرا عبادت گزار تھا، اس کے بارہ میں حکم دیا: اس کو جہنم میں لے جاؤ۔ ابو ہریرۃرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:'والذي نفسي بيده لتكلم بكلمة أوبقت دنياه وآخرته 'اس ظالم نے ایسی بات کہہ دی کہ اس کی دنیا بھی برباد اور آخرت بھی برباد ہوگئی۔ یہ کہہ دیا کہ اللہ تجھے جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ یا اللہ تجھ پر رحمت نہیں کرےگا۔
{سنن ابي داؤد ، کتاب الادب ، باب النہي عن البغي(4901) صحیح ابن حبان (۵۷۱۲)اور مسند احمد (۸۹۹۲) اور صحیح مسلم (۲۶۲۱) میں بھی اس کا شاہد موجود ہے۔}
تو میرے بھائی ھم جیسے لا علم لوگوں کو اس مسلے کو نہیں چھیڑنا چاھیے
 
Top