• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایمانِ مفصل اور مجمل کی تعریف

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایمانِ مفصل اور مجمل کی تعریف

بعض لوگ پیغمبروں پر مجمل ایمان لاتے ہیں۔ جبکہ ایمان مفصل وہ ہوتا ہے کہ جو کچھ پیغمبر لائے ہوں، اس میں سے بہت کچھ اس شخص تک پہنچ جائے اور کچھ نہ بھی پہنچے۔ سو جو کچھ اس کے پاس پہنچ جائے، اس پر ایمان لائے اور جو نہ پہنچے اس سے واقف نہ ہو اور اگر اس کے پاس پہنچ جائے تو اس پر بھی ایمان لے آئے لیکن جو کچھ پیغمبر لائے ہوں اس پر مجمل ایمان لائے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ وہ اس پر عمل کرے جسے وہ سمجھ لے کہ اس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور ایمان و تقویٰ کے ساتھ عمل کرے تو وہ اولیاء اللہ میں سے ہے۔ اس کے ایمان و تقویٰ کے مطابق اس کی ولایت ہوگی اور جس چیز کی حجت اس پر قائم نہ ہوئی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے پہچاننے اور اس پر ایمان مفصل لانے کی تکلیف ہی نہیں دیتا اور نہ اس کے ترک پر عذاب دیتا ہے۔ البتہ اس میں سے جو کمی رہ جاتی ہے، اس کے مطابق ولایت ِ الٰہی کے کمال میں بھی اس کے لیے کمی رہتی ہے۔
جو شخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے احکام و شرائع سے واقف ہو، ان پر ایمان مفصل لائے ا ور ان پر عمل کرے، اس کا ایمان اور اس کی ولایت اس شخص کے ایمان و ولایت کی بہ نسبت زیادہ کامل ہوتی ہے، جو ان سے مفصل طور پر واقف نہ ہو اور نہ عمل کرے لیکن ہوں گے دونوں ولی اللہ۔
جنت کے درجے متفاوت ہیں۔ بعض درجوں کو دوسروں پر بڑی فضیلت ہے اور اولیاء اللہ جو کہ مومن و متقی ہوتے ہیں، اس میں اپنے ایمان و تقویٰ کے مطابق ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مَّن كَانَ يُرِيدُالْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَالَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا ﴿١٨﴾ وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَوَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُممَّشْكُورًا ﴿١٩﴾ كُلًّا نُّمِدُّ هَـٰؤُلَاءِ وَهَـٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَۚ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا ﴿٢٠﴾ انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَابَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ وَلَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُتَفْضِيلًا ﴿٢١﴾ بنی اسرائیل
’’جو شخص دنیا کا طالب ہو تو ہم جسے چاہتے اور جتنا چاہتے ہیں۔ اسی دنیا میں سردست اس کو دے دیتے ہیں مگر پھر آخر کار ہم نے اس کے لیے دوزخ ٹھہرا رکھی ہے، جس میں وہ برے حالوں راندہِ درگاہ ہوکر داخل ہوگا اور جو طالبِ آخرت ہو اور آخرت کے لیے جیسی کوشش کرنی چاہیے۔ ویسی اس کے لیے کوشش بھی کرے اور وہ ایمان بھی رکھتا ہو تو یہی لوگ ہیں جن کی محنت اللہ کے ہاں مقبول ہوگی۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! اُن کو اور اِن کو تیرے پروردگار کی بخشش سے ہم امداد دیتے ہیں اور تیرے پروردگار کی مدد کسی پر بند نہیں۔ دیکھو تو سہی کہ ہم نے دنیا میں بعض لوگوں کو بعض پر کیسی برتری دی ہے اور البتہ آخرت کے درجوں میں (دنیا سے) بہت برتر اور برتری میں کہ کہیں بڑھ کر ہے۔‘‘
’’الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان‘‘

 
Top