• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایمان باالغیب اور ملحد

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ایمان باالغیب اور ملحد

تحریر : محمّد سلیم

القرآن ۔ سورہ البقرہ ۔ آیت نمبر 260

وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِىۡ كَيۡفَ تُحۡىِ الۡمَوۡتٰى ؕ قَالَ اَوَلَمۡ تُؤۡمِنۡ‌ؕ قَالَ بَلٰى وَلٰـكِنۡ لِّيَطۡمَٮِٕنَّ قَلۡبِىۡ‌ؕ قَالَ فَخُذۡ اَرۡبَعَةً مِّنَ الطَّيۡرِ فَصُرۡهُنَّ اِلَيۡكَ ثُمَّ اجۡعَلۡ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنۡهُنَّ جُزۡءًا ثُمَّ ادۡعُهُنَّ يَاۡتِيۡنَكَ سَعۡيًا ‌ؕ وَاعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿۲۶۰﴾

"اور یاد کرو جب ابراہیم نے کہا اے میرے پروردگار مجھے دکھا دے تُو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے ۔ فرمایا ۔ کیا تُو ایمان نہیں رکھتا ؟ اس نے عرض کی ۔ ایمان تو رکھتا ہوں پر دل کا اطمینان درکار ہے ۔ فرمایا ۔ چار پرندے لے اور انہیں اپنے سے مانوس کر لے پھر ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے ۔ پھر ان کو پکار ۔ وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے ۔ خوب جان لے ﷲ نہایت بااقتدار اور حکیم ہے ۔"

قارئین ! قرآن پاک کی یہ وہ آیت ہے جس سے ایمان باالغیب کی بہترین تشریح کی جا سکتی ہے ۔ ایک نبی ایک رسول کا ﷲ سے یہ پوچھنا کہ آپ مردوں کو کیسے زندہ کرتے ہیں اور جواب دینے سے پہلے ﷲ کا یہ کہنا کہ کیا تجھے ایمان نہیں ؟ اس جوابی سوال کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ سوال کرنے والا خدا اپنے ایک بندے کی ایمانی کیفیت سے واقف نہیں مگر تربیت میری مقصود ہے ۔ ہر اس شخص کی مقصود ہے جو قیامت تک اس آیت کو پڑھے اور اپنی اصلاح کرے ۔

اس آیت میں کئی باتیں قابلِ غور ہیں ۔

پہلی یہ کہ ایمان باالغیب ثبوت مل جانے کے بعد ایمان لانے کا نام نہیں بلکہ ثبوت سے پہلے ایمان لانے کا نام ہے ۔ ثبوت وقت آنے پر ملے گا ایمان پہلے لانا ہے ۔ کسی بھی بادشاہ کی بادشاہت اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ اس کا ہر حکم اس سے وجہ پوچھے بغیر بجا لایا جائے ۔ اگر وجہ جان کر بجا لایا جائے گا تو اس کا دوسرا مطلب یہ بنتا ہے کہ پھر آپ بادشاہ کو بادشاہ ہی نہیں سمجھتے ۔ اگر آپ کو وجہ نہ بتائی جائے تو آپ حکم عدولی بھی کر سکتے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ آپ کو بادشاہ کی صلاحیتوں پر بھی بھروسہ نہیں ۔ پہلے وجہ جانیں گے پھر اس کو اپنی محدود عقل سے پرکھیں گے ۔ پھر عقل اجازت دے گی تو عمل کر لیں گے ۔ تو پھر رب کون ہوا ؟ ربّ العالمین یا عقل ؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایمان باالغیب کا یہ رویہ منطق پر پورا اترتا ہے ؟ بادی النظر میں اس سوال کا جواب نفی میں بنتا ہے مگر اگر گہرائی میں جا کر سوچا جائے تو اس کا جواب ایک انتہائی روشن اثبات میں آتا ہے ۔

ﷲ تعالیٰ نے انسان کو ایک محدود عقل دے کر پیدا کیا ہے ۔ پھر اس کے اطراف میں کائنات کے رنگ بکھیر دیئے ہیں ۔ اس کائنات کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن تک ہماری عقل کی رسائی ہے مگر بہت سی چیزیں ایسی بھی ہیں جن کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ انسان اپنے خالق کی تخلیقات دیکھتا ہے تو اس کا کسی بنانے والے پہ یقین اور پختہ ہوتا ہے ۔
ﷲ تعالیٰ کے بہت سے معاملات انسان کے عقلی ارتقاء کے محتاج ہوتے ہیں مگر ایمان کا آغاذ تو ازل سے ہی ہو جاتا ہے ۔

بعض معاملات ایسے ہیں جن کو انسان ہزاروں سالوں کی ترقی کے بعد سمجھے گا اور بعض معاملات ایسے بھی ہیں جو انسان کے فہم کی دسترس سے باہر ہیں ۔

آخر الذکر کی مثال میں نے اوپر آیت میں پیش کر دی ۔ ﷲ مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے ؟ اس معاملے کا تعلق انسان کی عقلی ترقی سے نہیں ہے لہٰذا خالقِ کائنات کی طرف سے جواب علم کے بجائے تجربہ سے دیا گیا ۔ اگر اس سوال کا جواب علم سے دیا جاتا تو کیا انسان کے پاس اس علم کو سمجھنے کے لئے عقل موجود تھی ؟ یقیناً نہیں تھی تبھی جواب تجربے سے دیا گیا کہ دل کا اطمینان تو تجربے سے بھی حاصل ہو جاتا ہے ۔ ایمان یہ ہونا چاہئے کہ اگر ﷲ تعالیٰ کے لئے پہلی بار انسان کو زندگی دینا مشکل کام نہ تھا تو دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ؟ کسی کام کو کرنا بس پہلی بار ہی مشکل ہوتا ہے ۔ دوسری بار تو وہ آسان ہو جاتا ہے ۔ انسان نے پہلا ٹی وی کئی سالوں کی محنت کے بعد بنایا مگر آج کمپنیاں ہزاروں ٹی وی روزانہ بنا ڈالتی ہیں ۔ پہلا ٹی وی مشکل تھا اس کے بعد آسانی ہو گئی ۔
اب بات کرتے ہیں اول الذکر کی ۔ بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ آتے ہیں ۔ بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے تو اسے ماچس سے ڈرایا جاتا ہے کہ اس سے آگ لگ جاتی ہے ۔ ہاتھ جل سکتا ہے ۔ بچے کو اس معاملے میں وقتی طور پہ اپنے باپ پہ اندھا بھروسہ کرنا پڑتا ہے کیوں کہ وہ آگ کے نقصانات سے واقف نہیں ۔ مگر پھر جب وہ اس دنیا میں اپنی زندگی کے کچھ سال گزار لیتا ہے تو اس کے مشاہدے میں آگ سے ہونے والے حادثات آجاتے ہیں اور اس کا اپنے باپ پر یقین اور پختہ ہو جاتا ہے ۔

یہی معاملہ ایمان باالغیب کا بھی ہے کہ اگر یہ سوچا جائے کہ پہلے عقل تسلیم کرے گی پھر ایمان لایا جائے گا تو کیا پتہ عقل ترقی کے کس معیار پر ہے ؟

انسانی عقل تو کبھی سورج کو زمین کے گرد گھماتی ہے تو کبھی زمین کو سورج کے گرد ۔ پھر جب تک فیصلہ نہ ہو کہ کون کس کے گرد گھوم رہا ہے ایمان کیسے لایا جائے گا اور کون سی نسل ایمان لائے گی ؟

یقیناً یہ ایک مشکل ترین مسئلہ ہے ۔ اسی لئے ایمان باالغیب کی شرط رکھی گئی ہے کہ ایمان پہلے لے آؤ پھر جب ﷲ چاہے گا اس ایمان پر یقین بھی پختہ ہوتا جائے گا ۔

مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں ہم ملحد یا عقل پرست کہتے ہیں ۔ اب ذرا ان کے عقائد پر بھی بات کر لیتے ہیں کیوں کہ خدا پرستوں کا یہ ایمان باالغیب آج کل ملحدوں کی تکلیف کا باعث بنا ہوا ہے ۔ بہت اعتراضات ہیں ان کے ۔

یہاں موضوعِ بحث یہ نہیں کہ انسان اپنی عقل استعمال نہیں کرے گا ۔ بلکہ یہ ہے کہ اپنے ایمان باالغیب کو عقل کا محتاج نہ کرے گا کہ جو کچھ آج تک انسان یقینی حد تک جانتا ہے کیا اس میں اور ﷲ کی طرف سے دی جانے والی پیشگی اطلاعات میں اس نے کوئی فرق پایا ؟ اگر پایا تو وہ حق بجانب ہے کہ ایمان کو چھوڑ دے اور اگر نہیں پایا تو پھر اس بات کا یقین کر لے کہ آئندہ بھی جو کچھ وہ اپنی عقل سے جانے گا وہ ﷲ کی اطلاعات کے مطابق ہی ہو گا ۔

ملحد کہتے ہیں جب تک ہمارے پاس ثبوت نہ ہوں یا ﷲ کو دیکھ نہ لیں ہم ﷲ کو نہیں مانیں گے ۔ باوجود اس کے کہ ﷲ نے اپنی موجودگی کی نشانیاں خود انسان کے وجود کے اندر تخلیق کر رکھی ہیں ۔ اس کے اطراف میں تخلیق کر رکھی ہیں ۔ پھولوں کی خوشبو ۔ ان کے خوبصورت رنگ ۔ زیبرے اور تتلی کے جسم پہ بنے خوبصورت نقش و نگار ۔ پھلوں اور سبزیوں کے مختلف ذائقے ۔ یہ سب ارتقاء کے ثبوت نہیں ہیں ۔ یہ کسی خالق کی موجودگی کا داستان سناتے ہیں ۔

مگر ملحدوں کو یہ ثبوت کافی نہیں ہیں ۔ اس کے برعکس ان کو اس اتقائی نظریہ پر زیادہ ایمان ہے جس کے ثبوت اس سے بھی کم ہیں ۔ یک خلوی جرثومے سے زندگی کا آغاذ ہوا ۔ مگر یک خلوی جرثومے کو زندگی کہاں سے ملی یہ ہم نہیں جانتے مگر ایمان لے آئے اس نظریے پر ۔ چیمپنزی اور انسان کے درمیان کئی انواع کا ذکر ہم سنتے ہیں ۔ کسی کے بھی وجود کا کوئی ثبوت نہیں مگر ہم ایمان لائے اس نظریے پر ۔ یک خلوی جرثومے میں افزائشِ نسل کا طریقہ کچھ اور اسی سے ارتقاء یافتہ پودے میں افزائشِ نسل کا طریقہ کچھ اور ۔ پودے نے افزائشِ نسل کا یہ نیا طریقہ جسے ہم جنسی تولید کہتے ہیں کہاں سے سیکھا جب کہ اس کو کوئی مثال پہلے موجود ہی نہ تھی ؟ ہم نہیں جانتے مگر ہم ایمان لائے اس نظریے پر ۔ پودے سے ارتقاء یافتہ جانداروں نے اپنی افزائشِ نسل کے لئے جنسی تولید کو بھی ترک کر کے جنسی اختلاط کا ایک نیا راستہ اپنا لیا ۔ اس کی بھی پہلے کوئی مثال موجود نہیں ۔ کہاں سے یہ طریقہ آیا ؟ کس سے سیکھا ؟ کسی کو نہیں پتہ ۔ مگر ہم ایمان لائے اس نظریے پر ۔

کائنات کی خودبخود تشکیل کے معاملے میں بھی ایسے بنیادی مسائل موجود ہیں کہ انسانی عقل کائنات کی ازخود تخلیق کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے ۔

یہ جن سائنسی مسائل کا میں ذکر کر رہا ہوں یہ کوئی جزوی مسائل نہیں بلکہ بنیادی مسائل ہیں ۔ سائنس ان کے بارے میں کھلے عام اپنی لاعلمی کا اظہار کرتی ہے ۔ مگر ادھورے ثبوتوں کے باوجود ملحد اس پر ایمان لا چکے ۔ یعنی ثبوت بعد میں ملے گا ملحد ایمان آج لا چکے ۔ مگر اسی قسم کا ایمان مسلمانوں کا قابلِ قبول نہیں ۔ وجہ ؟

ایمان بالالغیب وہ بھی ہے ایمان باالغیب یہ بھی ہے ۔ اس دوغلے پن کا نام اگر الحاد ہے تو میں اس الحاد پر لعنت بھیجتا ہوں ۔

 
Top