• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایمان کی حقیقت

شمولیت
دسمبر 09، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
37
ایمان کی حقیقت

تحریر: جناب مولانا ریاض احمد، الریاض​
اسلامی عقیدہ کی خوبیوں میں سے ایک اہم خوبی یہ ہے کہ وہ توقیفی ہے یعنی اس کی بنیاد کتاب اور سنت صحیحہ پر ہے اور اس میں عقل و رائے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے اس منہج ربانی سے اعراض کیا اور عقلی گھوڑے دوڑائے وہ صراط مستقیم سے منحرف ہو گئے اور ضلالت و گمراہی کے دلدل میں جا پھنسے۔ پیش نظر مسئلہ میں اہل سنت والجماعت کے مسلک کے بیان اور گمراہ فرقوں کے افکار باطلہ کی تردید کی کوشش کی گئی ہے۔​

ایمان کی تعریف
ایمان نام ہے قول و عمل کا، دل و زبان کا قول، دل و زبان اور اعضاء و جوارح کا عمل، طاعت سے اس میں زیادتی ہوتی ہے اور معصیت سے کمی واقع ہوتی ہے۔
ایمان کے مذکورہ بالا اشیاء کو شامل ہونے کی دلیل مندرجہ ذیل ہے، ارشاد ربانی ہے:
'' وَمَا کَانَ اللّہُ لِیُضِیْعَ إِیْمَانَکُمْ '' (البقرۃ: ۱۴۳)
یہاں ایمان سے مراد تحویل قبلہ سے قبل بیت المقدس کو قبلہ بنا کر ادا کی گئی نمازیں ہیں۔ نماز کو ایمان کہا گیا ہے اور نماز ایسی عبادت ہے جو دل و زبان اور اعضاء و جوارح سے ادا کی جاتی ہے، ارشاد نبوی ہے:
'' الایمان ان تؤمن باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاخر والقدر خیرہ وشرہ '' (مسلم)
مذکورہ حدیث قلب و لسان، اور اعضاء کے قول کی دلیل یہ حدیث رسول ہے:
'' الایمان بضع وسبعون شعبۃ اعلاھا قول لا الہ الا اللہ وادناھا اماطۃ الاذی عن الطریق والحیاء شعبۃ من الایمان '' (مسلم)
 
شمولیت
دسمبر 09، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
37
کیا عمل ایمان کے مسمی میں داخل ہے؟
اہل سنت والجماعت کے نزدیک عمل ایمان کے مسمی میں شامل ہے لیکن مرجئہ (فرقہ) کے افکار اہل سنت والجماعت سے مختلف و متصادم ہیں۔ مرجئہ کے نزدیک زبان سے اقرار کا نام ایمان ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور چیز ایمان کی حقیقت میں نہیں آتی۔ اس لئے ان کے ہاں ایمان میں کمی و زیادتی کا کوئی تصور نہیں۔ ان کے نزدیک چوبیس گھنٹے اللہ کی عبادت کرنے والا شخص، چوبیس گھنٹے اللہ کی معصیت کرنے والے شخص کی طرح ہے اس لئے گناہ کا ایمان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک ایک متقی و پرہیز گار اور ایک بدکار و شرابی کے ایمان میں کوئی بھی فرق نہیں،ان میں سے کسی کو بھی عذاب نہ ہوگا۔ اس لئے کہ اعمال ایمان کے مسمی میں شامل نہیں ہیں۔
لیکن ان کا یہ موقف کتاب و سنت اور منہج سلف کے مخالف ہونے کے ناطے سراسر باطل ہے۔ اللہ رب العالمین نے قرآن کریم میں اعمال کو ایمان کہا ہے۔ چنانچہ جو لوگ تحویل قبلہ سے قبل بیت المقدس کی جانب رخ کر کے نماز ادا کیا کرتے تھے اور قبلہ تحویل ہونے سے پہلے فوت ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان نمازیوں کے متعلق فرمایا:
'' وَمَا کَانَ اللّہُ لِیُضِیْعَ إِیْمَانَکُمْ '' (البقرۃ: ۱۴۳)
یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری نمازوں کو برباد نہیں کرے گا، اس طرح سے نبی کریمe نے عملی گناہ کبیرہ کے مرتکب کے ایمان کی نفی فرمائی ہے، ارشاد نبوی ہے:
'' لا یزنی الزانی حین یزنی وھو مومن ولا یسرق السارق حین یسرق وھو مومن ولا یشرب الخمر حین یشربھا وھو مومن ولا ینتھب نھبۃ ذات شرف یرفع الناس الیہ فیھا أبصارھم حین ینتھبھا وھو مومن'' (متفق علیہ)
ان کی گمراہی کا اصل سبب ایمان کو مرکب نہ مانتے ہوئے بسیط ماننا ہے حالانکہ سلف کے نزدیک ایمان مرکب ہے۔
 
شمولیت
دسمبر 09، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
37
ایمان میں کمی و زیادتی
سلف کے نزدیک ایمان میں کمی و زیادتی واقع ہوتی ہے لیکن اکثر متکلمین اس کے منکر ہیں، ان کا قول ہے کہ ایمان میں شک لازم آتا ہے لیکن ان کا یہ عقیدہ کتاب و سنت کی مخالفت کی بناء پر باطل ہے۔ اللہ کی معرفت حاصل کرنے سے اس کی آیات کونیہ و شرعیہ میں غور کرنے سے اور نیکی و بھلائی کے کام کرنے سے ایمان میں زیادتی ہوتی ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
'' وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیْمَاناً '' (الانفال: ۲)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
'' فَأَمَّا الَّذِیْنَ آمَنُواْ فَزَادَتْہُمْ إِیْمَاناً '' (التوبۃ: ۱۲۴)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
'' لِیَزْدَادُوا إِیْمَاناً مَّعَ إِیْمَانِہِمْ '' (الفتح: ۴)
ارشاد نبوی ہے:
'' لو انکم تکونون فی کل حالۃ کحالتکم عندی صافتحکم الملائکۃ '' (مسلم)
اس کے علاوہ بے شمار نصوص ایمان میں زیادتی پر صراحتاً دلالت کر رہی ہیں۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں جہالت ولا علمی' اللہ کی آیات کونیہ سے غفلت اور آیات شرعیہ سے اعراض کرنے سے اور معاصی و سیئات کے ارتکاب کرنے سے ایمان میں نقص و کمی واقع ہوتی ہے۔

ایمان میں نقص کی دلیل نبی کریمe کا عورتوں کو ناقصات العقل والدین قرار دینا ہے۔ اگر فرض کر لیں کہ ایمان میں نقص کی کوئی نص صریح موجود نہیں تو پھر بھی ایمان میں زیادتی کی دلیل اس میں نقص کو مستلزم ہے، اس لئے کہ ہر وہ چیز جس میں زیادتی پائی جائے گی لازماً اس میں کمی بھی ہوگی۔
 
شمولیت
دسمبر 09، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
37
مرتکب کبیرہ کا حکم
اہل سنت والجماعت کے نزدیک مرتکب کبیرہ دائرہ ایمان سے خارج نہیں بلکہ گناہ کی وجہ سے وہ فاسق ہے اور اصل ایمان کی وجہ سے وہ مومن ہے نہ ہی مخرج من الملہ ہے اور نہ ہی مخلد فی النار ہے، اس کا معاملہ مشیئت الٰہی کے تحت ہے اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے بلا عذاب جنت میں داخل کر دے اور اگر چاہے تو اس کے گناہوں کے بقدر عذاب دے کر اسے جنت میں داخل کردے، ارشاد ربانی ہے:
'' إِنَّ اللّہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاء '' (النسائ: ۴۸)
احادیث شفاعت میں بھی اس بات کا اثبات ہے کہ اللہ تعالیٰ کہے گا جن کے دل میں رائی برابر بھی ایمان ہے انہیں جہنم سے نکالا جائے چنانچہ انہیں جہنم سے نکالا جائے گا اور وہ جل کر کالے ہو چکے ہوں گے پس انہیں نہر حیات میں ڈالا جائے گا۔ (بخاری) لیکن وعیدیہ (جو نصوص وعید کو نصوص وعد پر غالب مانتے ہیں اور وہ خوارج و معتزلہ ہیں) نے اہل سنت والجماعت کی مخالفت کی ہے اور مرتکب کبیرہ کو دائرہ ایمان سے خارج قرار دیا ہے لیکن دونوں فرقوں کے مابین تھوڑا فرق ضرور موجود ہے۔ خوارج مرتکب کبیرہ کو دائرہ ایمان سے خارج ماننے کے ہمراہ اسے کافر مانتے ہیں جبکہ معتزلہ اسے منزلۃ بین المنزلتین قرار دیتے ہیں، نہ اسے مومن کہتے ہیں اور نہ ہی کافر کہتے ہیں۔ لیکن نصوص کتاب و سنت سے ان کے اس منہج کی صاف تردید ہوتی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ آیت قصاص میں فرماتے ہیں:
'' یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْء ٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْہِ بِإِحْسَانٍ'' (البقرۃ: ۱۷۸)
آیت کریمہ سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قاتل کے لئے ایمان اور اخوت ایمانی کو ثابت کیا ہے اور قاتل کو مقتول کا بھائی قرار دیا ہے حالانکہ مومن کا قتل کبیرہ گناہ ہے۔ معلوم ہوا کہ مرتکب کبائر دائرہ ایمان سے خارج نہیں۔ اسی طرح سورہ حجرات کے اندر ارشاد فرمایا:
'' وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا فَإِن بَغَتْ إِحْدَاہُمَا عَلَی الْأُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتَّی تَفِیْء َ إِلَی أَمْرِ اللَّہِ فَإِن فَاء تْ فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ٭ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَۃٌ فَأَصْلِحُوا بَیْنَ اخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ'' (الحجرات: ۹-۱۰)
ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے دونوں گروہوں کے مابین عداوت و لڑائی کے باوجود انہیں مومن قرار دیا ہے، مومنوںکا بھائی کہا ہے اور ان کے درمیان صلح کرانے کا حکم دیا ہے، اس سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مرتکب کبائر ایمان سے خارج نہیں۔

اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولیٰ ہمیں اسلامی عقیدہ کی صحیح معرفت عطا فرمائے اور بدعقیدگی سے محفوظ رکھے اور عمل صالح کی توفیق دے۔ آمین!

بشکریہ
 
Top