• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایٹمی دھماکے کے بٹن والا بریف کیس!

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
ایٹمی دھماکے کے بٹن والا بریف کیس!
08 اگست 2016
لیفٹیننٹ کرنل
(ر) غلام جیلانی خان

دو روز پہلے انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز کے صفحہ اول پر ایک سٹوری شائع ہوئی جس کا عنوان تھا: ’’وہ وجہ کیا ہے جو صدر کو بٹن دبانے سے روکتی ہے؟‘‘

اس عنوان میں صدر کا مطلب صدر امریکہ بارک اوباما اور بٹن کا مطلب وہ نیوکلیئر بٹن ہے جس کو صرف اوباما ہی دبا سکتے ہیں اور ان کے دبانے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی جوہری ترکش سے بیک وقت 925 جوہری وارہیڈز فائر ہو کر منٹوں سیکنڈوں میں دشمن
(روس، چین یا کوئی بھی اور ملک / قوم) پر جا گریں گے۔ ان کی بربادی کی قوت ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے دونوں بموں کی مجموعی قوتِ ضرب سے 17 ہزار گنا زیادہ ہو گی۔ مطلب یہ ہے کہ ایک بٹن دبانے سے اگست 1945ء میں جاپان کے جو دو شہر خاک و خون میں تڑپا دیئے گئے تھے اسی طرح کے 17 ہزار شہر آنِ واحد میں صفحہ ء ہستی سے مٹ جائیں گے!

قیاس کُن ز گلستانِ من بہارِ مرا

امریکہ کے جوہری گلستان سے جو بہار پیدا ہو گی کسی کو اس کا قیاس کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ سیدھے سبھاؤ اگر یہ کہہ دیا جاتا کہ خدا کو ایک نیا کرۂ ارض تخلیق کرنا پڑے گا تو اس میں کوئی مغالطہ، غلطی یا جھوٹ نہ ہوتا۔۔۔ اخبار کے اس مضمون میں اور بھی کئی باتوں کا انکشاف کیا گیا ہے۔ مثلاً یہ کہ صدر امریکہ جہاں ہوتے ہیں، سیاہ رنگ کا ایک باکس
(بریف کیس) ہمیشہ اور ہمہ وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ (خبر نہیں جب وہ واش روم میں ہوتے ہیں تو ’’بٹن‘‘ کا چارج کسے دے جاتے ہیں یا کسی اور تخلیئے وغیرہ میں مشغول ہوں تو اس بٹن تک پہنچتے پہنچتے دشمن کے جوہری وار ہیڈز امریکی سرزمین کے کتنا نزدیک پہنچ جاتے ہیں!)۔۔۔ لیکن اب پتہ چلا ہے کہ اس بریف کیس میں کوئی بٹن وٹن نہیں ہوتا اور صدر امریکہ وہ واحد اتھارٹی بھی نہیں جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ جوہری حملے میں پہل کرنی ہے یا دشمن کے وار کا انتظار کرنا ہے۔۔۔۔ یہ وہ راز ہائے درونِ خانہ ہیں جو انتہائی خفیہ رکھے جاتے ہیں بلکہ 1945ء سے لے کر آج تک کسی کو بھی معلوم نہیں کہ قیامت کتنی بار سر تک آ پہنچی تھی اور پھر ٹل گئی تھی!

صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ اگر امریکہ پر جوہری حملہ ہو چکا ہو تو صدر کو جوابی حملے کے فیصلے کے لئے صرف چند منٹ ہی درکار ہوتے ہیں۔ آج کل امریکہ میں صدارتی مہم زوروں پر ہے۔ ٹرمپ اور ہلیری دونوں کا موقف کیا ہے، آیا اس طرح کا اہم ترین فیصلہ کسی عوامی اور جمہوری In-put کا انتظار کرتا ہے یا نہیں کرتا، آیا اس میں امریکہ کی دفاعی افواج کا بھی کوئی ہاتھ ہے یا سب کچھ اکیلے کمانڈر انچیف (صدر) کے قبضہ ء اختیار میں ہوتا ہے، جب حملے کا خدشہ ہو یا حملہ ہو گیا ہو تو وہ کون سی جوہری کابینہ ہے جو صدر کو یہ رائے دیتی ہے کہ وہ اس کا جواب دیں یا نہ دیں یا تاخیر کریں یا نہ کریں، اس حتمی فیصلے تک پہنچنے کا سلسلہء کمانڈ کیا ہے۔۔۔ یہ اور اس قسم کے درجنوں سوالات ہیں جو پبلک کے سامنے نہیں آتے اور نہ ہی کسی صدارتی مہم کی لابنگ کا حصہ بنتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے البتہ گزشتہ دنوں چند ایسے بیانات بھی پبلک کئے جو حیران کن حد تک امریکی روایات کی نفی کرتے تھے۔ مثلاً ان کا یہ استدلال کہ اب ناٹو کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ کہ امریکی جوہری کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم اب بہت فرسودہ ہو چکا ہے۔ اور انہوں نے یہ انکشاف کر کے بھی سامعین کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا کہ امریکی نیو کلیئر سسٹم میں ابھی تک فلاپی ڈسکیں زیر استعمال ہیں! کون نہیں جانتا کہ فلاپی ڈسکوں کے بعد
CDs اور USBs اور نجانے اور کون کون سی Chips ہیں جو منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ جوہری وار ہیڈز کو لانچ کرنے کے سسٹم میں ایک فرسودہ ٹیکنالوجی کا استعمال اس وقت اور بھی زیادہ کھٹکنے لگتا ہے جب روس اور چین تو کیا، بھارت اور پاکستان جیسے نوزائیدہ اور نوآزمودہ نیو کلیئر ممالک بھی فلاپی ڈسکوں کے استعمال سے آگے نکل چکے ہیں۔

شائد یہی وجہ ہے کہ امریکہ ان دِنوں اپنے تمام جوہری وارہیڈز کی تنظیمِ نو کر رہا ہے۔ نہ صرف تنظیم تبدیل کی جا رہی ہے بلکہ وہ ہزاروں جوہری بم بھی جو متروک ہونے کی عمر کو پہنچ چکے ہیں ان کی جگہ نئے نکور جوہری بم بنا رہا ہے۔ ان کا وزن، سائز اور شرحِ ہلاکت قدیم اور بھاری بھرکم جوہری بموں کے مقابلے میں بہت مختلف ہے۔ اس منصوبے پر اربوں ڈالر کا خرچہ اٹھ رہا ہے اور خبریں آ رہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ 2025ء تک امریکی نیوکلیئر ترکش میں 75 فیصد نئے تیر موجود ہوں گے!


ہم اس سیاہ رنگ کے بریف کیس کی بات کر رہے تھے جو ہمیشہ صدر کے ہمراہ رہتا ہے۔۔۔ اس بریف کیس میں جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کوئی بٹن نہیں ہوتا بلکہ ایسے پیچیدہ اور مشکل کوڈ، پروسیجر اور ڈرل ہوتی ہیں جن کو یاد رکھنا ہر ایرے غیرے کا کام نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں اسی مرد یا خاتون کو صدر بنایا جاتا ہے جس کی یادداشت بڑی تیز اور مضبوط ہوتی ہے۔

ہلیری کلنٹن کی عمرِ شریف اب 69 برس سے متجاوز ہو چکی ہے۔ لیکن ان کی تقریر کو سنیں تو بعض دیگر نسوانی خوبیوں اور خصوصیتوں کے علاوہ ان کے حافظے، فصاحت و بلاغت اور طلاقتِ لسانی پر رشک آتا ہے۔ یہی حال ٹرمپ کا بھی ہے۔ میں نے آج تک کسی صدارتی امیدوار کو دورانِ تقریر ڈگمگاتی زبان کا شکار ہوتے نہیں دیکھا۔ ان کا ایک ایک لفظ سامعین کو صاف صاف سنائی دیتا ہے، کوئی فقرہ ادھورا نہیں ہوتا، کوئی خیال واژگوں مواد یا حشو و زوائد کا حامل نہیں ہوتا۔ وہ بے تکان بولتے ہیں اور بے گمان جس نکتے پر بول رہے ہوتے ہیں لگتا ہے اس پر ان کو یقینِ کامل ہے۔ جوہری حملے کا فیصلہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ایسے ہی باصلاحیت مذکر اور مونث سیاست دانوں کو زیب دیتا ہے۔ جو لوگ دونوں امریکی سیاسی پارٹیوں (ڈیموکریٹ اور ری پبلکن) کے امیدواروں کی تقاریر کا جائزہ لے رہے ہوتے ہیں ان میں ایک گروہ ایسا بھی ہوتا ہے جو امیدوار کی اس مخصوص اہلیت کا تجزیہ کرتا ہے کہ کل کلاں اگر صدر کو جوہری حملے یا دفاع کا فیصلہ کرنا پڑا تو وہ کسی غیر ضروری تاخیر و تعجیل کا شکار تو نہیں ہو جائیں گے۔ چونکہ جوہری وار ہیڈز کو لانچ کرنے میں فوج کا کردار سب پر غالب ہوتا ہے اس لئے ٹاپ کے فوجی کمانڈروں کی سلیکشن میں بھی اسی امر کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ یہ ملٹری کمانڈر اس بات کا فیصلہ بھی کرتے ہیں کہ ان کو ’’بزن‘‘ کا حکم دینے والا ان کا صدر ہی بول رہا ہے یا ان کی آواز کی نقالی کوئی بہروپیا کر رہا ہے؟
مزید برآں صدر کے اس بریف کیس میں اہم جنگی منصوبوں کی تفصیلات بھی ہوتی ہیں۔ بطور کمانڈر انچیف، صدر کو یہ فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں کہ روئے زمین پر جگہ جگہ بکھری ہوئی امریکی افواج کو کیسے اور کہاں کہاں استعمال کرنا ہے، ایٹمی حملے کی صورت میں کون کون سی جوہری آبدوزوں کو دشمن کے کون کون سے اہداف پر جوہری وارہیڈز فائر کرنے کے احکامات جاری کرنے ہیں اور سٹرٹیجک بمبار کمانڈ کو کہاں کہاں لانچ کرنا ہے۔ چونکہ یہ تمام ٹاسک انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اس لئے ان کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے کمانڈر انچیف کی خصوصی وار کیبنٹ (بشرطیکہ وہ بچ جائے) کو بھی اسی طرح کے چیلنج درپیش ہوتے ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں امریکی صدور کا ملٹری ماضی ان کے لئے ایک اضافی کوالی فیکیشن ہوتا تھا۔ لیکن آج نہ تو ہلیری اور نہ ہی ٹرمپ کا کوئی ملٹری ماضی ہے۔ ان کے جوہری فیصلوں کا دارو مدار کلی طور پر ان کے فوجی مشیروں کے ہاتھوں میں ہو گا۔۔۔ اور یہ ایک خطرناک بات ہے۔ ماضی میں امریکی صدور کی 75 فیصد سے زیادہ تعداد کا ایک ملٹری ماضی ہوتا تھا جو شائد آئندہ نہ ہو سکے، اس لئے مستقبل کی جوہری جنگ میں صدورِ امریکہ کی بجائے فوجی کمانڈروں کا غالب عمل دخل متوقع ہے۔ آج کے جنگی سنریو میں دشمن کی آبدوزوں سے فائر کئے جانے والے میزائلوں کو واشنگٹن تک پہنچنے میں صرف 12 منٹ درکار ہوں گے، بین البراعظمی میزائیلوں سے داغے جانے والے وار ہیڈز 30 منٹوں میں امریکی دارالحکومت پر ترازو ہو جائیں گے اور اگر سٹرٹیجک بمبار کمانڈ (بی۔/52 بی۔12 وغیرہ) کی گلوبل رسائی کو مدنظر رکھا جائے تو امریکی فضائی دفاع کو چیرنا زیادہ سے زیادہ چند گھنٹے ہی لے گا۔


لیکن قارئین کرام! یہ سب مفروضے ہیں۔۔۔ ہم جانتے ہیں کہ جوہری وار فیئر کا کوئی ماضی نہیں۔ 1945ء کے دو ابتدائی قسم کے جوہری بموں کے استعمال کو ’’جوہری ماضی‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ جنگ ایک ایسی سرگرمی بھی ہے جس کے بارے میں کوئی بھی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔ روائتی جنگوں کا ماضی اگرچہ سینکڑوں ہزاروں برسوں پر پھیلا ہوا ہے پھر بھی اگر ان جنگوں کا تجزیہ کیا جائے تو ایسے سکہ بند اصول یا قواعد وضع نہیں کئے جا سکتے جو سینکڑوں، ہزاروں جنگوں میں ایک جیسے رہے ہوں۔۔۔ حیرت، حیرانی، تعجب، ناگہانیت، اچنبھا اور غیر متوقع حالات و واقعات کا دوسرا نام ’’جنگ‘‘ ہے!

پاکستان چونکہ سب سے آخری ڈکلیئرڈ نیو کلیئر پاور ہے (شمالی کوریا کو فی الحال رہنے دیتے ہیں!) اس لئے اس کو نیو کلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول کے قواعد و ضوابط وضع کرنے کی بنی بنائی آسانیاں میسر ہیں۔ ہماری نیو کلیئر کمانڈ اتھارٹی (NCA) کا بٹن وزیر اعظم پاکستان کے ہاتھ میں ہے، اس لئے آپ نے دیکھا ہو گا کہ وزیر اعظم بھی جہاں جاتے ہیں ان کا نیو کلیئر بریف کیس بھی ساتھ ہوتا ہے۔ اس بریف کیس میں بھی تقریباً وہی کچھ ہوتا ہے جو دنیا کی دوسری جوہری قوتوں کے فیصلہ کرنے والے افراد (یا فرد) کی دسترس میں ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے وزیر اعظم کا بھی چونکہ کوئی ملٹری ماضی نہیں اس لئے ان کے فیصلوں کا دارومدار بھی بیشتر فوجی کمانڈروں کے مشوروں پر منحصر ہوگا۔۔۔ اور وہ پیشگوئی جو امریکہ اور اس کے دشمنوں کے مابین جوہری حملے کے اوقات کا تعین کرنے کے لئے ہمارے سامنے آتی ہے اس قسم کی پیشگوئی پاک بھارت جوہری جنگ کے ضمن میں نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان اور بھارت کے جوہری بم تو گویا ایک ایسی حویلی میں رکھے ہوئے ہیں جس کے دو حصے ہیں اور دونوں کی دیواریں مشترک ہیں۔ جب بھی کسی حصے نے کوئی عاقبت نا اندیشانہ فیصلہ کیا وہ اپنے بم اٹھا کر دیوار کے پار پھینک سکتا ہے!۔۔۔ اس عمل میں کتنے سیکنڈ، منٹ یا گھنٹے لگیں گے اس کو بتانے کے لئے ہمارے جیسے ڈبہ پیر بھی کافی ہیں!


مجھے معلوم نہیں بھارت اور پاکستان کے اکثر سیاسی رہنما اپنے جوہری ترکش کی تباہ کن اہلیت و صلاحیت کا تذکرہ اور اس کو استعمال کرنے کا ’’ڈراوا‘‘ اتنے کھلے الفاظ میں کیوں دیتے رہتے ہیں جبکہ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ دونوں ملکوں میں جوہری جنگ کا کوئی امکان نہیں۔ (باہمی خود کشی کی بات اور ہے!) مجھے ایک سابق آرمی چیف اور سابق صدر کے اس بیان پر ہنسی آتی ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ہمارے جوہری بم شب برات پر چلانے والے پٹاخے نہیں۔ پرویز مشرف کا یہ بیان انتہائی جذباتی اور غیر دانشمندانہ ہی کہا جائے گا۔ معلوم نہیں ان پر کیا سحر طاری ہو گیا تھا کہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی انہوں نے جوہری وارہیڈز کو شب برات کی پھلجھڑیوں اور اناروں سے تشبیہ دی۔ جوہری بموں کا استعمال اور وہ بھی بالخصوص بھارت اور پاکستان کی کسی آئندہ جنگ میں، ایک نہایت سنجیدہ موضوع ہے۔ تاہم باعثِ اطمینان بات یہ بھی ہے کہ دنیا لاکھ کشمیر کو فلیش پوائنٹ قرار دے، ابھی دونوں ممالک میں ایسے سیاسی رہنما موجود ہیں جو اس مسئلے کی سنگینی سے با خبر ہیں۔ اس کے لئے ضروری نہیں کہ کسی کا ماضی، ملٹری ہو یا نہ ہو۔۔۔

پچھلے دنوں انڈین میڈیا میں بھی یہ خبر بڑے طمطراق سے نشر کی گئی گئی تھی کہ جون 1999ء میں کارگل کی لڑائی کے دوران بھارتی فضائیہ کے بمباروں اور لڑاکا طیاروں کو ریڈ الرٹ پر رکھا گیا تھا اور پائلٹوں کو کاک پِٹوں میں بٹھا دیا گیا تھا کہ جونہی آرڈر ملے، لائن آف کنٹرول عبور کر کے پاکستانی اہداف پر حملہ کر دیں۔ بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ ان طیاروں میں جوہری بم بھی تھے! لیکن اس خبر کا آخری حصہ یہ تھا کہ جب سب کچھ تیار ہو گیا تو عین آخری لمحے اس حملے کو منسوخ کر دیا گیا! ۔۔۔

میرے خیال میں یا تو یہ خبر محض گپ تھی یا کسی انڈین سیاسی رہنما کو وہی خیال آ گیا تھا جو ماضی کے 71 برسوں (1945ء تا 2016ء) میں بہت سے امریکی اور روسی صدور کو آیا ہو گا اور جو یہی تھا کہ ہم تو ڈوبیں گے ہی لیکن صنم کو بھی ساتھ لے کر ڈوبیں گے۔!

 
Top