• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک جھوٹا وصیت نامہ اور اس کی تردید

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ایک جھوٹا وصیت نامہ اور اس کی تردید



یہ نصیحت نامہ سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمتہ اللہ علیہ کی جانب سے ان تمام مسلمانوں کے نام ہے جو اس پر مطلع ہوں اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو اسلام کے ساتھ اپنی حفاظت میں رکھے ، ہمیں اور ان کو جاہل و سرکش لوگوں کی افترا پردازیوں کے شر سے محفوظ رکھے، آمین ۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ......أما بعد:
حرم نبوی کے خادم شیخ احمد کی جانب منسوب ایک وصیت نامہ کی مجھے اطلاع ملی جس کاعنوان تھا(یہ وصیت نامہ مدینہ منورہ سے حرم نبوی کے خادم شیخ احمد کی جانب سے ) اس وصیت نامہ میں کہاگیا تھا کہ میں جمعہ کی رات قرآن کریم کی تلاوت کررہاتھا ، پھر اللہ کے اسماء حسنی کے ورد سے فارغ ہوکر سونے کی تیاری کی ، بستر خواب پر ایک خوبصورت مظہر والے انسان کے دیدار سےمشرف ہوا، وہ رسول اللہ ﷺ کی مبارک ہستی تھی جو ہمارے پاس قرآن کریم اور شریعت کے احکام لائی، اور سارے جہاں کے لئے رحمت بن کر آئی۔
آپ ﷺ نے فرمایا : اے شیخ احمد، میں نے کہا اے مخلوقات میں سب سے مکرم، اے اللہ کے رسول میں حاضر ہوں، آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : میں لوگوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے اس قدر شرمندہ ہوں کہ اپنے رب اور فرشتوں تک کو اپنا چہرہ نہ دکھا سکا ، کیونکہ ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد کفر پر مرے، پھر بعض ان گناہوں کاذکر کیا جن میں لوگ ملوث ہیں، پھر کہا: یہ وصیت نامہ غالب قدرت والے اللہ کی جانب سے لوگوں کے لئے باعث رحمت ہے ، پھر قیامت کی بعض نشانیوں کاذکر کرتے ہوئے آخر میں لکھا ہوا ہے،اے شیخ احمد لوگوں کو اس وصیت نامہ سے باخبر کردیجئے کیونکہ یہ لوح محفوظ میں مکتوب تقدیر سے نقل کی جارہی ہے، جو اسے لکھ کر ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجے گااس لئے جنت میں ایک محل بنایا جائے گا، اور جو اسے نہیں لکھے گا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں پہنچائے گا وہ بروز قیامت میری شفاعت سے محروم ہوگا ، جو اس وصیت کو لکھے گا اگر وہ فقیر ہے تو اللہ تعالی اسے مالدار کردیگا، مقروض ہے تواس کے قرضوں کی ادائیگی فرمادے گا، یااس پر کوئی گناہ ہے تو اس کو اور اس کے والدین کو اس وصیت کی برکت سے بخش دے گا ، اور اللہ کے بندوں میں سے جو اس کو نہیں لکھے گا دنیاو آخرت میں اس کاچہرہ سیاہ ہوگا۔
پھرتین بار قسم کھاکر کہا، عظمت والے اللہ کی قسم یہ حقیقت ہے اگر میں نے کذب بیانی سے کام لیا ہوتو دنیا سے میرا خاتمہ کفر کی موت ر ہو، جو اس وصیت کی تصدیق کرے وہ عذاب جہنم سے نجات پائیگا، اور جو اس کو جھٹلادے وہ کفر کامرتکب ہوگا۔
رسول اللہ ﷺ کی جانب سے منسوب جھوٹی وصیت کایہ خلاصہ تھا، ہم اسے برسوں سے سنتے چلے آرہے ہیں جو وقتاً فوقتاً لوگوں میں پھیلائی جاتی اور اس کی اشاعت کی جاتی ہے۔
اس وصیت کے الفاظ مختلف ہیں مثلاً مکار اور دغا باز ایک بار یہ کہتا ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کادیدار بحالت خواب کیا، اور آپ ﷺ نے اس وصیت کی ذمہ داری سونپی ، اور اس آخری پمفلٹ میں جس کاہم نے آپ کے سامنے ذکر کیا ہے، مکار اور دغا باز لکھتا ہے کہ جب انہوں نے سونے کی تیاری کی تو انہیں نبی ﷺ کادیدار میسر ہو، اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ دیدار بحالت بیداری ہو نہ کہ بحالت خواب ۔
کذاب نے اس وصیت میں بہت سی باتیں ایسی ذکر کی ہیں جوکھلم کھلا جھوٹ اور واضح طور پر بے بنیاد ہیں ، انشاء اللہ آج کی اس مختصرگفتگو میں آپ کو حقائق سے باخبر کرونگا، جیسا کہ گذشتہ برسوں میں لوگوں کو آگا ہ کرچکاہوں کہ ساری باتیں کھلم جھوٹ اور بے بنیاد ہیں پھر جب مجھے اس آخری اشاعت کی اطلاع ملی اس کی بابت کچھ لکھنے میں متردد ہوا، کیونکہ اس کاباطل ہنا روز روشن کی طرح عیاں اوراس کے گھڑنے والے کاعظیم جھوٹ پوری طرح واضح ہے ۔
میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس طرح کی باطل چیز معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے یا سلیم الفطرت لوگوں کے درمیان پھیل جائے گی ، لیکن مجھے بہت سے بھائیوں نے بتلایا کہ یہ وصیت نامہ لوگوں انتہائی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے ، اور بعض لوگ اسے سچ بھی مان رہے ہیں ، چنانچہ میں نے سوچا کہ مجھ جیسے لوگوں پر ذمہ داری ہے کہ اس بارے میں کچھ تحریر کریں تاکہ اس کاباطل ہونا اور رسول ﷺ جھوٹ باندھنا بے نقاب ہوجائے، اور ہر شخص خود کو دھوکہ سے بچاسکے، اگر کوئی صاحب علم و ایمان یاسلیم الفطرت صحیح سوچ بوجھ رکھنے والا شخص اس وصیت نامہ پر غور کرے تووہ اس حقیقت سے آگاہ ہوجائیگا کہ یہ مختلف وجوہات سے جھوٹ اور جعل سازی پرمبنی ہے۔
ہم نے شیخ احمد کے بعض رشتہ داروں سے اس وصیت نامہ کے بارے میں پوچھا توانہوں نے مجھے جواب دیا کہ یہ ایک جھوٹی بات ہے ، جو شیخ احمد کی جانب منسوب کردی گئی ہے، جب کہ انہوں نے قطعاً یہ باتیں نہیں کہی ہیں ، وہ اس دار فانی سے مدتوں پہلے کوچ کرگئے ہیں ۔
اگر بالفرض شیخ احمد یا ان سے بھی بزرگ کوئی شخصیت یہ دعوے کرے کہ وہ نیند یا بیداری کی حالت میں دیار نبوی سے مشرف ہوا اور آپ نے اسے یہ وصیتیں کیں توہم بلاریب و تردد یہ کہیں گے کہ وہ جھوٹا ہے، یااس طرح کی وصیتیں کرنے والا شیطان ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ و مطہرہ نہیں ہے، اس کی مختلف وجوہات ہیں جنہیں ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں ۔
پہلی وجہ : وفات نبوی کے بعد آپ ﷺ کادیدار بحالت بیداری ممکن نہیں ہے، جو جاہل صوفی یہ دعوی کرتاہے کہ اس نے بحالت بیداری نبی ﷺ کادیدار کیایاآپ ﷺ اپنی عید میلا د کے اجتماعات میں حاضر ہوتے ہیں ، یا اس جیسے دیگر باطل عقائد رکھے تو وہ غایت درجہ قبیح غلطی پر ہے، اس پر حق خلط ملط ہوگیا اور وہ ایک عظیم غلطی کاشکار ہوا، نیز اس نے کتاب و سنت اور اہل علم اجماع کی مخالفت کی ، کیونکہ مردے اپنی قبروں سے بروز قیامت ہی نکلیں گے ، اس سے پہلے دنیامیں ہرگز نہیں نکلیں گے : ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَ۝۱۵ۭ ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ۝۱۶
اس کے بعد پھر تم سب یقیناً مرجانے والے ہو پھر قیامت کے دن بلاشبہ تم سب اٹھائے جاؤگے۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے اس آیت کریمہ میں بتلا دیا کہ مردوں کو بروز قیامت ہی ان کی قبروں سے اٹھایا جائے گا، اس سے پہلے اس دنیا میں نہیں ، چنانچہ جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھے وہ صریح طور پر جھوٹا اور غلطی کامرتکب اور حق اس پر خلط ملط ہے ، وہ اس حق سے ناآشنا ہے جس حق کوسلف صالحین نے پہچانا تھا اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے اس پر چلے تھے۔
دوسری وجہ :
رسول اللہ ﷺ بقید حیات ہوں، یا اس دار فانی سے کوچ کرچکے ہوں کسی بھی صورت میں خلاف حق بات نہیں کہہ سکتے ، یہ وصیت نامہ واضح طورپر بہت سی خلاف شریعت باتوں پر مشتمل ہے، انشاء اللہ ہم ذیل کے سطور میں ان کاذکر کریں گے ، ہم مانتے ہیں کہ بحالت خواب نبی ﷺ کادیدار ہوسکتا ہے اور جس نے بحالت خواب آپ کو آپ کی مبارک شکل میں دیکھا اس نے درحقیقت آپ کو ہی دیکھا ، کیونکہ شیطان آپ کی شکل اختیار نہیں کرسکتا ہے، جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے۔
لیکن سارا معاملہ خواب دیکھنے والے کے ایمان ، کے ایمان ، صداقت، عدالت ، حفظ ، اور امانت و دیانت کاہے، کیا اس ے درحقیقت نبی ﷺ کو ہی آپ کی شکل میں دیکھا یاکوئی اور صورت تھی ؟
محدثین کااصول ہے کہ اگر کوئی حدیث نبی ﷺ سے وارد ہو اور اس کے بیان کرنے والے ثقہ ، عادل اور صحیح الحفظ نہ ہوں تو وہ حدیث قابل قبول اور لائق استدلال نہیں ہے۔
یا اس سے بیان کرنے والے ثقہ، صحیح الحفظ توہوں لیکن حفظ و ثقایت میں ان سے آگے بڑھے ہوئے راویں کی روایت سے ان کی بات ٹکراتی ہو اور ان دونوں میں تطبیق بھی ممکن نہ ہوتونسخ کی شرطوں کے پائے جانے کی صورت میں ایک کو ناسخ اور دوسرے کو منسوخ قرار دیا جائے گا، ناسخ پر عمل اور منسوخ کورد کردیاجائے گا۔
پھر وہ وصیت کیسے قبول کی جاسکتی ہے جس کابیان کرنے والا غیر معروف اور اس کی عدالت و امانت پردہ خفا میں ہے، درحقیقت اس طرح کی وصیت جو اگرچہ خلاف شریعت باتوں سے خالی ہوبلاتامل ردی کی ٹوکری میں ڈال دی جانی چاہیئے۔
پھر اس وصیت کے بارے میں آپ کی کیارائے ہےجو بہت سی ایسی باتوں پر مشتمل ہوجو بذات خود اس کے غلط اور رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ بولنے کاپتہ دے رہی ہوں نیز دین میں ایسی باتوں کے ایجاد کرنے پر مشتمل ہوں جن کی اللہ نے اجازت نہیں دی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس نے میری جانب ایسی بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی ہے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے''۔
جعل ساز نے اس وصیت میں رسول اللہ ﷺ کی جانب ایسی باتیں منسوب کی ہیں جو آپ ﷺ نے نہیں فرمائیں ، اور آپ ﷺ پر انتہائی خطرناک واضح جھوٹ بولا ہے، اگر وہ جلد از جلد توبہ نہ کرے اور لوگوں میں اپنے سفید جھوٹ کااعلان نہ کرے تووہ سخت وعید کامستحق ہے ، کیونکہ شریعت کااصول ہے کہ جو شخص کوئی غلط بات دین کی جانب منسوب کرکے لوگوں میں پھیلائے تو اس کی توبہ اس وقت تک صحیح نہ ہوگی جب تک کہ لوگوں میں اس کے غلط ہونے کااعلان نہ کرے تاکہ لوگوں کوپتہ چل جائے کہ وہ اپنی غلطی سے پھر گیا اور اسے تسلیم کرلیا ہے ، جیسا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا : اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْہُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ۝۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ يَلْعَنُہُمُ اللہُ وَيَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوْنَ۝۱۵۹ۙ اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُوْا فَاُولٰۗىِٕكَ اَتُوْبُ عَلَيْہِمْ۝۰ۚ وَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝۱۶۰
جولوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کرچکے ہیں ، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے ، مگر جولوگ جوتوبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کردیں ، تو میں ان کی توبہ قبول کرلیتا ہوں اور میں قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں ۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے اس آیت کریمہ میں واضح فرمادیا کہ جو حق کی معمولی بات بھی چھپا لے اس کی توبہ اس وقت تک درست نہیں ہوگی جب تک کہ وہ خرابیوں کی اصلاح اور حق کی وضاحت کاکام انجام نہ دے ۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے بندوں کے لئے اس دین کومکمل فرمادیا اور رسول اللہ ﷺ کومبعوث فرماکر اور مکمل شریعت عطا فرما کر اپنی نعمت کااتمام اور اپنے نبی ﷺ کووفات اس وقت دی جب کہ دین مکمل ہوگیا اور اس کے تمام تر احکامات کی وضاحت ہوگئی ، جیسا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا : اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۔
''آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کومکمل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوگیا''۔
اس وصیت نامہ کوگھڑنے والا چودھویں صدی میں ظہور پذیر ہوا ہے جو لوگوں کے دین کو خلط ملط کرنا چاہتا اور ان کے لئے ایک ایسا نیا دین ایجاد کرنا چاہتا ہے کہ جس کے اپنانے ہی پر جنت و جہنم کے داخلہ کادارومدار ہو، چنانچہ اس کے خود ساختہ دین کو اپنانے والا جنت سے لطف اندوز اور اس کاانکار کرنے والا جہنم کامستحق ہوا۔
نیز وہ اس وصیت نامہ کوقرآن کریم سے افضل اور عظیم تر بنانا چاہتا ہے چنانچہ وہ اس میں لکھتا ہے :
جو شخص اس وصیت کولکھوا کر ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجے گا ا سکے لئے جنت میں ایک محل بنایا جائے گا ، اور جو اسے لکھوا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ نہ بھیجے گا وہ بروز قیامت نبی ﷺ کی شفاعت سے محروم ہوگا۔
یہ انتہائی قبیح جھوٹ اور اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس کاگھڑنے والا شرم و حیا سے عاری اور دوغ بیان پر انتہائی دلیر ہے ، کیونکہ یہ فضیلت تو قرآن کریم کے لکھنے والے اور اسے ایک شہر سے دوسرے شہر بھیجنے والے کو حاصل نہیں ہے، اگر وہ اس پر عمل نہ کرے توپھر اس جھوٹی بات کو لکھنے اور اسے ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے والے کومذکورہ بالا فضائل کیسے حاصل ہوسکتے ہیں ؟
اورجوشخص قرآن کریم نہ تو لکھے اور نہ ہی ایک شہر سے دوسرے شہر بھیجے وہ نبی ﷺ کی رسالت پر ایمان رکھتا ہو، اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کی پیروی کرتاہو، صرف یہی ایک جھوٹی بات اس وصیت نامہ کے باطل اور اس کے ناشر کے جھوٹے ، بے شرم ، کنند ذہن اور رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت سے کورے ہونے کے لئے کافی ہے۔
اس وصیت نامہ میں مذکورہ باتوں کے علاوہ بھی بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو اس کے باطل اور غلط ہونے کابین ثبوت ہیں ، اگرچہ اس کا گھڑنے والا اس کے صحیح ہونے پر ہزار قسمیں کھائے اور اپنے خلاف سخت ترین عذابوں کی بددعائیں کرے، کہ وہ اپنی اس بات میں سچا ہے پھر بھی قطعاً وہ سچا نہیں ہے، اور اس کی باتیں قابل اعتبار نہیں ہیں ، بلکہ قسم بالائے قسم یہ وصیت نامہ کھلم کھلا جھوٹ اور غلط ہے ۔
ہم اللہ سبحانہ تعالی ، اپنے پاس موجود فرشتوں اور ان تحریروں سے باخبر ہرمسلمان کو گوابناکر کہتے ہیں ایسی گواہی جسے ہم لے کر اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہونگے کہ یہ وصیت نامہ سراسر جھوٹ اور رسول اللہ ﷺ پر الزام تراشی ہے، افترا پرداز کو اللہ تعالی ذلیل و رسوا کرے اور اسے ایسی سزائیں دے جس کا وہ مستحق ہے ۔
نیز اس وصیت نامہ کے باطل اور جھوٹے ہونے پر سابقہ امور کے علاوہ دیگر بہت سی چیزیں بھی دلالت کرتی ہیں ، ان میں سے بعض ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں ۔
پہلی دلیل : جو چیزیں اس وصیت نامہ کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان میں سے ایک جعل ساز کایہ کہنا کہ :
(ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک ایک لاکھ ساٹھ ہزار مسلمان مرتد اور کافر ہوکر مرگئے )
اس بات کاتعلق علم غیب سے ہے اور نبی ﷺ اپنی حیات مبارکہ میں غیب نہیں جانتے تھے تو وفات کے بعد غیب دانی کی بات کیسے کہی جاسکتی ہے، اور واضح رہے کہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد وحی کاسلسلہ بھی منقطع ہوگیا توپھر آپ اپنی امت کے احوال سے باخبر کیسے ہوسکتے ہیں ؟
قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللہِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ۔
اے نبی ﷺ آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں ۔
اور ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا : قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللہُ۝۰ۭ
اے نبی ﷺ لوگوں کو بتلا دیجئے کہ آسمان و زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا۔
صحیح حدیث میں وارد ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :'' بروز قیامت کچھ لوگوں کو میرے حوض سے بھگایا جائے گاتومیں کہوں گا اے میرے رب یہ میرے اصحاب ہیں یہ میرے اصحاب ہیں ، تومجھ سے کہاجائیگا اے محمدﷺ آپ نہیں جانتے کہ آپ کے دنیا سے رحلت فرماجانے کے بعد انھوں نے دین میں کیا کیابدعتیں ایجاد کرلی تھیں،آپ ﷺ نے فرمایا میں اس وقت وہی کہوں گا جو نیک بندے (عیسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا ):میں ان پر گواہ رہا جب تک میں ان میں رہا پھر جب تو نے مجھ کو اٹھا لیاتوتوہی ان پرمطلع رہا اور توہر چیز کی پوری خبر رکھتاہے۔
دوسری لیل :اس وصیت کے باطل اور جھوٹے ہونے پر دوسری دلیل جعل ساز کایہ کہنا ہے کہ :
جوشخص اس وصیت کولکھے اگر وہ فقیر ہوگا تو اللہ اسے مالدار کردے گامقروض ہوگاتواس کے قرضوں کی ادائیگی فرمادے گا اور اگر گناہ گار ہوگا تو اس وصیت کی برکت سے اللہ اسے اس کے والدین کو بخش دے گا آخر ..................تک ۔
یہ بہت بڑا جھوٹ اور دھوکہ باز کے جھوٹا اور بے شرم ہونے کی دلیل ہے کہ اسے اللہ تعالی اور نہیں اس کے بندوں سے شرم آتی ہے، اوپر جن تین فضائل کاذکر ہوا وہ باطل وصیت نامہ کولکھنے سے کیسے حاصل ہوسکتا ہے۔
ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ خبیث لوگوں پر حق و باطل کوخلط ملط کرنا اور انہیں اسی نامہ میں پھنسا کررکھتا چاتا ہے، تاکہ لوگ اسے لکھیں اور اسی من گھڑت فضیلت پر انحصار کریں اور اللہ کے مشروع کردہ اسباب کو ترک کردیں جنہیں اللہ نے بندوں کے لئے مالداری کے حصول قرضوں کی ادائیگی اور گناہوں کی مغفرت کاذریعہ بنایاہے۔
ہم اللہ تعالی کے ذریعہ ذلت و رسوائی کے اسباب ، خواہشات نفس اور شیطان کی پیروی سے پناہ مانگتے ہیں ۔
تیسری دلیل :اس وصیت نامہ کے باطل اور جھوٹ ہونے پر تیسری دلیل دھوکہ باز یہ کہتا ہے :
اللہ کے بندوں میں سے جو شخص اس وصیت نامہ کو نہیں لکھے گا اس کا چہرہ دنیا وآخرت میں سیاہ ہوگا۔
یہ بات بھی بدترین جھوٹ اور اس وصیت نامہ کے باطل اور اس کے گھڑنے والے کے جھوٹے ہونے کی واضح دلیل ہے۔
ایک دانشمند اس بات کو کیسے تسلیم کرسکتا ہے کہ وہ ایک ایسے وصیت نامہ کو لکھے جسے چودھویں صدی میں ایک غیر معروف شخص نے رسول اللہ ﷺ پر گھڑ کر پیش کیاہے، اور وہ یہ کہتا ہے کہ جوشخص اسے نہیں لکھے گا دنیا وآخرت میں اس کاچہرہ سیاہ ہوجائے گا ، اور جو اسے لکھے اگر وہ فقیر ہے تومالدار ہوجائے گا، قرضوں کے بوجھ سے لدا ہوا ہے تواس سے نجات پائیگا ، اور گناہگار ہے تواس کے سب گناہ بخش دیئے جائیں گے ، اے اللہ تو پاک ہے، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔
دلائل اور حقائق دونوں اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ اس وصیت نامہ کاگھڑنے والا جھوٹا اور اللہ پر بہت جرات و جسارت کرنیوالا ہے اور اسے اللہ تعالی اور لوگوں تک سے شرم نہیں آتی ہے۔
اس دنیا میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جنہوں نے یہ وصیت نامہ نہیں لکھا اس کے باوجود ان کے چہرے سیاہ نہیں ہوئے اور بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اسے کئی بار لکھا اس کے باوجود ان کاقرض ادا نہ ہوا اور غربت و افلاس جوں کاتوں رہا، ہم اللہ تعالی کی پناہ میں آتے ہیں کہ کہیں ہمارے دل کجی اورگناہ سے زنگ آلود نہ ہوجائیں ۔
شریعت مطہرہ نے افضل ترین کتاب قرآن مجید کے لکھنے والے کےلئے بھی مذکورہ فضائل اور اجر و ثواب کاوعدہ نہیں فرمایا ہے، تو اس جھوٹے وصیت نامہ کے لکھنے والے کویہ ثواب کیسے حاصل ہوسکتا ہے جبکہ یہ وصیت نامہ باطل چیزوں اور بہت سے کفریہ جملوں پر مشتمل ہے، اللہ سبحانہ و تعالی ان باتوں سے پاک ہے، وہ اپنے اوپر جرأت کے ساتھ جھوٹ گھڑنے والے پر بھی کس قدر مہربان اور بردبار ہے۔
چوتھی دلیل :اس وصیت نامہ کے کلی طور پر باطل اور واضح طور پر جھوٹ ہونے کی چوتھی دلیل دھوکہ باز کا یہ کہنا ہے کہ :
اس کی تصدیق کرنے والا عذاب جہنم سے نجات پائے گا اور جھٹلانے والاکافر ہوکرمرے گا۔
یہ بھی جھوٹ پر ایک بہت بڑی جرأت اور قبیح درجہ کی غلط بات ہے، دھوکہ باز ترغیب و ترہیب پر مشتمل ان جملوں کے ذریعہ لوگوں کو اپنے اس جھوٹ کی تصدیق کی جانب بلاناچاہتا ہے اور انہیں یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ اس وصیت نامہ کی تصدیق کرکے جہنم سے نجات پاجائیں گے، اور جھٹلانے کی صورت میں کفر کے مرتکب ہونگے۔
اللہ کی قسم اس کذاب نے اللہ تعالی پر بہت بڑی تہمت لگائی ہے، اللہ کی قسم اس نے ناحق کفریہ بات کہی ہے، بلکہ میں کہتاہوں کہ اس وصیت نامہ کی تصدیق کرنے والا ہی کافر ہونے کامستحق ہے، اور جو اسے جھٹلائے گا وہ ہرگز کافر نہیں ہوگا، کیونکہ یہ سراسر جھوٹ اور غلط بات ہے جس کی ازروئے صحت کوئی سند نہیں ہے، ہم اللہ تعالی کوگواہ بناکرکہتے ہیں کہ یہ وصیت نامہ جھوٹ اور اس کاگھڑنے والا کذاب ہے، وہ لوگوں کے لئے اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف شریعت پیش کرناچاہتا ہے، اور دین میں ایسی باتیں داخى کرناچاہتا ہے جن کادین سے دور کابھی واسطہ نہیں ہے، اللہ سبحانہ و تعالی نے اس امت کے لئے دین اسلام کو اس جھوٹ سے چودہ سوسال پہلے مکمل فرمادیا ۔
قارئین کرام اور دینی بھائیو! آپ اس طرح کی خود ساختہ باتوں کی تصدیق اور باہم ان کی اشاعت سے خود کو بچائیں کیونکہ حق ایک روشنی ہے جو اس کا طلبگار ہو مشتبہ نہیں ہوتا ، لہذا حق کو دلائل سے طلب کریں اور جس مسئلہ میں دقت پیش آئے اسے اہل علم سے معلوم کرلیاکریں، کبھی بھی دھوکہ بازوں کی قسموں سے دھوکہ نہ کھائیں کیونکہ ابلیس لعین نے بھی تمہارے والدین آدم وحوا سے قسمیں کھائی تھیں کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ،جبکہ وہ سب سے بڑا غدار دغا باز تھا ، جیساکہ اللہ تعالی نے سورہ اعراف میں اس کی بابت فرمایا: وَقَاسَمَہُمَآ اِنِّىْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ۝۲۱ۙ
'' اور( شیطان نے ) ان دونوں (آدم و حوا )کے روبرو قسم کھاکر کہا کہ یقین جانئے کہ میں تم دونوں کاخیرخواہ ہوں''۔
شیطان اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے دھوکہ بازوں سے بچو کیونکہ ان کے پاس لوگوں کو راہ حق سے گمراہ کرنے کے لئے بے شمار جھوٹی قسمیں ، بدعہدیاں اور بناوٹی باتیں ہیں ۔
اللہ تعالی نے مجھے اور تمام مسلمانوں کوشیطان کے شر، گمراہ کن لوگوں کے فتنوں ،جادہ حق سے منحرف لوگوں کی گمراہیوں اور باطل پرست اللہ کے دشمنوں کے مکروفریب سے محفوظ رکھے، جو اللہ تعالی کے نور(دین اسلام )کواپنی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں ، اور لوگوں پر ان کے دین کو خلط ملط کرناچاہتے ہیں ، حالانکہ اللہ تعالی اپنے دین کومکمل فرمانے والا اور اس کی مدد کرنے والا ہے، اگرچہ اللہ تعالی کے دشمن شیطان اور کے پیروکار کفار و ملحدین کوناگوار گزرے۔
جہاں تک برائیوں کے عام ہونے کے متعلق اس دھوکہ باز نے لکھا ہے ، تووہ امر واقعہ ہے ، قرآن کریم اور سنت مطہرہ نے منکرات و فواحش سے انتہائی ڈرایا دھمکایا ہے، دراصل کتاب و سنت ہی کی پیروی میں ہدایت ہے اور بس یہی دونوں چیزیں ہدایت کے لئے کافی ہیں۔
ہم اللہ عزوجل سے دعاکرتے ہیں کہ مسلمانوں کے احوال کی اصلاح فرمادے ، اور انہیں حق کی پیروی اور اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطافرمائے، تمام تر گناہوں سے توبہ کی توفیق بخشے بیشک وہ اللہ توبہ قبول کرنیوالا ، رحم و کرم کرنیوالا ، ہر چیز پر قادر ہے۔
رہی یہ بات کہ اس وصیت نامہ میں قیامت کی نشانیوں کاذکر ہے ،تواحادیث نبویہ میں علامات قیامت کامفصل ذکر موجود ہے ، قرآن کریم نے بھی بعض کی جانب اشارہ کیاہے، لہذا جوشخص اس بارے میں جاننا چاہتا ہوتواسے یہ چیزیں احادیث کی کتابیں اور اہل علم کی تالیفات میں مل سکتی ہیں ، لوگوں کو اس دھوکہ باز اور اس طرح کی گمراہیوں کی جانب توجہ دینے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے، ہمارے لئے اللہ تعالی ہی کافی ہے، وہ بہترین کارساز ہے اور ہم بلندو برتر اللہ کی مدد کے بغیر گناہوں سے بچنے اور نیکیوں کے بجالانے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں ۔
کتاب : توحید کا قلعہ
تالیف : عبدالملک القاسم
دارالقاسم للنشر والتوبیح
 
Top