• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک حدیث کی وضاحت درکار ہے

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92

اس حدیث کی وضاحت درکار ہے
ترجمہ

آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کہتے ہیں میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میرے قرب میں آتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ سو جب میں اس سے محبت کروں تو میں اس کا کان ہوجاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور میں اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ کسی چیز کو پکڑتا ہے اور میں اس کا پاؤں ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے تو میں ضرور اسے دیتا ہوں۔

میں نے یہ حدیث ایک کتاب میں پڑھی اس کی کیا تشریح ہوسکتی ہے کیوں کہ اس حدیث کا ظاہر اسلامی عقائید کے سخت خلاف ہے۔ اس سے تو لازم آتا ہے کہ اللہ انسانی اعضاء کی صورت اختیار کرلیتا ہے یا پھر انسانی اعضاء میں سما سکتا ہے معاذاللہ
کوئی صاحب علم اس حدیث کی باحوالہ تشریح کردیں جس سے اسلامی عقائید سے بھی جو بظاہر تصادم نظر آرہا ہے وہ ختم ہوجائے
جزاک اللہ
 
شمولیت
مئی 23، 2012
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
83
پوائنٹ
70
اسلام علیکم
بھائی یہ حدیث کا مطلب ظاہری معنی پر نہیں ہیں۔
اس حدیث کا ہر گز مطلب یہ نہیں کے اللہ پاک انسانی اعضاء کی صورت اختیار کرلیتا ہے یا پھر انسانی اعضاء میں سما جاتا ہے۔
اسے مراد ہے کے انسان جب اللہ رب عزت کے اتنا قریب ہوجاتا ہے تو اسکا ہر عمل اللہ کے حکم کے مطابق ہوجاتا ہے۔تو وہ جب اپنا کان استمال کرتا ہے تو اللہ کے حکم کے مطابق کرتا ہے اسی طرح اپنا ہر عمل اور اعضا یعنی انکھیں،ہاتھ،پاوں ہر چیز اللہ کے حکم کے عین مطابق استمال کرتا ہے۔جیسے قرآن میں اللہ پاک نی فرمایا۔۔۔

فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ ۠ وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى ۚ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِيْنَ مِنْهُ بَلَاۗءً حَسَـنًا ۭاِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ 17؀
سو تم نے انہیں قتل نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو قتل کیا۔ (١) اور آپ نے خاک کی مٹھی نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی (٢) تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے (٣) بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ ١٧:٨

رسول ﷺ نے کفار پر مٹی ڈالی تھی مگر اللہ پاک نے کہا کے آپ نے نہیں اللہ نے ڈالی ہے۔جبکے ڈالی رسول ﷺ نے تھی مراد یہ تھا کے ہے کام اللہ کے حکم کے مطابق تھا جبھی اللہ پاک نے کہا کے مینے ڈالی۔

امید ہے آپ جواب سے مطمعین ہونگے۔
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
قرآن میں ہے (( وھوالعلی العظیم)) کہ اللہ بلند اور عظمت والا ہے ۔

مذکورہ بالا حدیث میں ہے (( میں اسکا پاؤں ہوجاتا ہوں )) اور معلوم ہے کہ پاؤں ، مخلوق کا سب سے نچلا حصہ ہے ۔ لہذا اللہ کو "پست" کرنا ، اسکی صفت " العلی" ( بلند) کے خلاف ہے ۔ لہذا یہ معنی قرآن کے خلاف ہے ، اس لیے یہ معنی درست نہیں ہے ۔

جب کہ دوسری احادیث سے ، مذکورہ حدیث کے معنی کی وضاحت ہوتی ہے ، جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے (( قیامت کے دن ، اللہ بندے سے پوچھے گا ، میں بھو کا تھا ، تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا ، میں پیاسا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ کہے گا ، یا اللہ ! تجھے تو کھانے کی حاجت نہ تھی ، اللہ کہے گا ، میرا فلاں بندہ بھوکا تھا ۔۔۔۔۔۔الخ ( حدیث کا حوالہ مجھے یاد نہیں ہے )

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے کسی حکم ( جیسے کھانا نہ کھلانا) کو پورا نہ کرنے کی مثال ، اللہ نے اپنی ذات سے دی ہے ۔ مثلا اللہ فرماتے ہیں ( میں بھوکا تھا ) یعنی تم نے میرا حکم ( کھانا کھلانا) پورا نہ کیا ۔ اس حکم نہ ماننے کی مثال ، اللہ نے اپنی ذات سے دی ہے ( یعنی میں بھوکا تھا)

بالکل اسی طرح ، مذکورہ حدیث میں (( میں ہاتھ بن جاتا ہوں، میں پاؤں بن جاتا ہوں)) ، اللہ نے اپنا حکم ماننے کی مثال اپنے آپ سے دی ہے یعنی " میں ہاتھ بن جاتا ہوں"، "میں پاؤں بن جاتا ہوں" جیسے اللہ نے اپنا حکم نہ ماننے کی مثال اپنے آپ سے دی " میں بھوکا تھا"، "میں پیاسا تھا" ۔

مذکورہ حدیث میں ، اللہ کا حکم ، نوافل کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے ۔ اللہ نے اس حکم (نوافل کے ذریعے قرب ) کو پورا کرنے کی مثال اپنی ذات سے دی ہے ،جیسے " میں ہاتھ بن جاتا ہو" بالکل اسی طرح ، جس طرح اللہ نے اپنا حکم پورا نہ کرنے کی مثال اپنی ذات سے دی ہے ، جیسے " میں بھوکا تھا" ۔

معلوم ہوا کہ دونوں حدیثوں میں ، اللہ نے اپنے "حکم " کی مثال اپنے آپ سے دی ہے ، ایک میں" حکم "نہ ماننا( یعنی کھانا نہ کھلانا ) کی مثال یعنی " میں بھوکا تھا" ، دوسری میں"حکم ماننا ( یعنی نوافل کے ذریعہ قرب حاصل کرنا) کی مثال " میں ہاتھ بن جاتا ہو" ۔
دونوں حدیثوں میں، اللہ کی ذات ،مثال کی حد تک ہے ، کہ اللہ نہ تو بھوکا ہوتا ہے ، اور نہ کسی کا ہاتھ بنتا ہے ۔

واللہ اعلم
 

عامر

رکن
شمولیت
مئی 31، 2011
پیغامات
151
ری ایکشن اسکور
826
پوائنٹ
86
اسلام علیکم

اسی حدیث کے اس حصہ پر غور کریں جسمیں خود ہی وضاحت ہے

"اور اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے تو میں ضرور اسے دیتا ہوں"

اسان لفظوں میں یہاں مانگنے والا الگ ہے اور دینے والا الگ ہے

امید ہے بات واضح ہو گئی ہے
 

ضحاک

مبتدی
شمولیت
فروری 06، 2012
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
187
پوائنٹ
23
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اسلام علیکم

اسی حدیث کے اس حصہ پر غور کریں جسمیں خود ہی وضاحت ہے

"اور اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے تو میں ضرور اسے دیتا ہوں"

اسان لفظوں میں یہاں مانگنے والا الگ ہے اور دینے والا الگ ہے

امید ہے بات واضح ہو گئی ہے
ماشاءاللہ بہت اچھا اور مختصر سا پوائنٹ اور پھر اسی حدیث میں سے آپ نے پیش کیا مسئلہ کو سمجھنے کے لئے اتنا بھی کافی ہے۔
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ہم تاویل کے قائل نہیں تو پھر اس روایت کی تاویل کیوں کرتے ہیں

اہل علم سے گزارش ہے کہ اس پر کچھ روشنی ڈال دیں تاکہ علم میں اضافہ ہو سکے

جزاک اللہ خیراً
 

ابوطلحہ بابر

مشہور رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 03، 2013
پیغامات
674
ری ایکشن اسکور
843
پوائنٹ
195
امام ابن کثیر رحمہ اللہ تفسیر ابن کثیر میں فرماتے ہیں:
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن اخلاص اور اطاعت میں کامل ہو جاتا ہے تو اس کے تمام افعال محض اللہ کے لیے ہو جاتے ہیں وہ سنتا ہے اللہ کے لیے، دیکھتا ہے اللہ کے لیے، یعنی شریعت کی باتیں سنتا ہے، شریعت نے جن چیزوں کا دیکھنا جائز کیا ہے، انہی کو دیکھتا ہے، اسی طرح اس کا ہاتھ بڑھانا، پاؤں چلانا بھی اللہ کی رضا مندی کے کاموں کے لیے ہی ہوتا ہے۔ اللہ پر اس کا بھروسہ رہتا ہے اسی سے مدد چاہتا ہے، تمام کام اس کے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے ہی ہوتے ہیں۔
اس لیے بعض غیر صحیح احادیث میں اس کے بعد یہ بھی آیا ہے کہ پھر وہ میرے ہی لیے سنتا ہے اور میرے ہی لیے دیکھتا ہے اور میرے لیے پکڑتا ہے اور میرے لیے ہی چلتا پھرتا ہے ۔ تفسیر ابن کثیر ، سورۃ النحل، آیت 77
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ہم تاویل کے قائل نہیں تو پھر اس روایت کی تاویل کیوں کرتے ہیں

اہل علم سے گزارش ہے کہ اس پر کچھ روشنی ڈال دیں تاکہ علم میں اضافہ ہو سکے

جزاک اللہ خیراً
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تاویل کا معنی کیا ہوتا ہے؟؟؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یوں تو تاویل اور تفسیر میں کافی تفصیل ہے مگر اختصار کے ساتھ عرض ہے کہ:
تاویل کا معنی تفسیر و شرح ہوتا ہے، اور تاویل دو طرح کی ہیں، ایک مقبول اور ایک مردود!
مقبول تاویل وہ ہے کہ جس میں عبارت کے معنی و مفہوم کا تعین لغت و شرع کے اعتبار سے اس طرح کیا جائے کہ عبارت کا انکار ہو اور نہ ہی اس میں تحریف واقع ہو!
اور مردود تاویل وہ ہے کہ جس میں کوئی ایسا معنی و مفہوم متعین کیا جائے جس میں عبارت کا انکار و تحریف لازم آتی ہو!
اب مذکورہ حدیث کی جو تاویل اہل سنت والجماعت کرتے ہیں ، یعنی کہ اس حدیث کے معنی و مفہوم کا تعین کرتے ہیں، اس میں عبارت کا نہ انکار ہے اور نہ اس میں تحریف ہے، اگر کوئی شخص اس تاویل یعنی اس عبارت کی تفسیر و شرح و معنی و مفہوم کے تعین کو رد کرتے ہوئے یہ باور کروانا چاہئے کہ معاذ اللہ بندہ کا ہاتھ، کان آنکھ بندہ کا نہیں رہتا بلکہ وہ اللہ بن جاتا ہے ، تو اس سے تو اس کا بندہ کو اللہ بن جانا لازم آتا ہے!ٰ
اور بندہ کا اللہ بن جانا یا اللہ کا مجسم بندہ بن جانا محال ہے! یعنی کہ اس عبارت کا یہ معنی محال ہے!
اور عجب تو یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت یعنی اہل الحدیث کے بیان کردہ تاویل یعنی معنی و مفہوم کو رد کرنے والے جہلا خود تو اللہ کے ہاتھ کے وجود کا ہی انکار کرتے ہیں!
بہر حال اہل سنت والجماعت یعنی اہل الحدیث کی بان کردہ تاویل یعنی کہ اس کا یہ معنی و مفہوم مقبول تاویل ہے!
اور اہل سنت والجماعت یعنی اہل الحدیث یہ کہتے ہیں کہ ہم تاویل کے قائل نہیں، تو وہ قرآن کی آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی تاویل یعنی تفسیر و شرح کی بات نہیں کرتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات سے متعلق کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات میں تاویل نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات جن الفاظ میں قرآن و سنت مین وارد ہوئیں ہیں، ان پر ایمان لاتے ہیں ، اور کیونکہ اللہ کی صفات کی کیفیت فہم پر انسان قادر نہیں، اس کے جو معنی لغت وشرع میں بیان ہوئے ہیں ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔
فورم پر تلاش کرنے پر اس پر بہت کچھ مل جائے گا،ایک تھریڈ درج ذیل ہے:
أسماء وصفات کے باب میں سلف صالحین کا منہج اور اہم اصو ل
 
Top