• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک دکھی اور مجبور عورت کا سوال!

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
ایک عورت نے سوال کیا ہے کہ:

اس کے والدین نے اس کا رشتہ ایک لڑکے کے ساتھ کیا ہے، لیکن لڑکی وہ رشتہ نہیں کرنا چاہتی، لیکن اس کے ماں باپ اسے وہ رشتہ کرنے پر مجبور کر رہے ہیں، تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ کیا وہ اپنے والدین کے خلاف جا کر انکار نہیں کر سکتی؟
اور دوسری طرف سے لڑکا بھی یہ رشتہ نہیں کرنا چاہتا، لیکن وہ بھی اپنے والدین کے دباؤ میں آ کر مجبور ہے۔

دونوں طرف سے خاندانوں کا زور ہے۔

اس لیے لڑکا اور لڑکی دونوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے اپنے والدین کی وجہ سے شادی تو کر لیں گے، لیکن اس کے بعد کوئی جنسی تعلق نہیں رکھے گے۔

تو اس پر کیا حکم ہے؟

ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتا دیں کہ اگر لڑکی اس لڑکے سے شادی کر لے اس شرط پر کہ وہ ایک دوسرے کو نہیں چھوئیں گے، لیکن اگر بعد میں لڑکا اپنی بات سے مکر جائے، اور وہ لڑکی کو جنسی تعلق رکھنے کو کہے، اور لڑکی انکار کر دے تو کیا وہ گناہ گار ہو گی؟ جبکہ اس نے لڑکے سے پہلے ہی clear کیا ہو کہ وہ ایک دوسرے کو نہیں چھوئیں گے!

یہ لڑکی بہت پریشان ہے، اس لیے اس کی مدد فرمائیں، اور ٖ قرآن و حدیث سے جواب دیں، جزاک اللہ خیراً
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اس لیے لڑکا اور لڑکی دونوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے اپنے والدین کی وجہ سے شادی تو کر لیں گے، لیکن اس کے بعد کوئی جنسی تعلق نہیں رکھے گے۔تو اس پر کیا حکم ہے؟
ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتا دیں کہ اگر لڑکی اس لڑکے سے شادی کر لے اس شرط پر کہ وہ ایک دوسرے کو نہیں چھوئیں گے، لیکن اگر بعد میں لڑکا اپنی بات سے مکر جائے، اور وہ لڑکی کو جنسی تعلق رکھنے کو کہے، اور لڑکی انکار کر دے تو کیا وہ گناہ گار ہو گی؟ جبکہ اس نے لڑکے سے پہلے ہی clear کیا ہو کہ وہ ایک دوسرے کو نہیں چھوئیں گے!
١۔ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ اہل الحدیث کے ہاں فتوی ہمیشہ کسی ایسے وقوعہ کے بارے میں ہوتا ہے جو وقوع پذیر ہو گیا ہو اور مستقبل کی قیاس آرائیاں فتوی کی بنیاد نہیں ہوتی ہیں اور نہ ہی فتوی کا یہ مقصد ہے کہ کسی کام سے پہلے ہی جاری کر کے کسی شخص کو اس کا قانونی جواز فراہم کیا جائے۔ لہذا جو کام نہیں ہوا اس کے بارے کسی رائے کا اظہار کرنا درست نہیں ہے کیونکہ اہل الحدیث کے نزدیک اجتہاد ضرورت اور اضطرار کی حالت میں ہے جبکہ اہل الرائے کے نزدیک اجتہاد ایک مستقل شیئ ہے لہذا ان کے ہاں فقہ تقدیری کے نام پر مستقبل کے مسائل کے بارے بھی رائے کا اظہار کیا جاتا ہے۔

اس کے والدین نے اس کا رشتہ ایک لڑکے کے ساتھ کیا ہے، لیکن لڑکی وہ رشتہ نہیں کرنا چاہتی، لیکن اس کے ماں باپ اسے وہ رشتہ کرنے پر مجبور کر رہے ہیں، تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ کیا وہ اپنے والدین کے خلاف جا کر انکار نہیں کر سکتی؟
٢۔بالکل انکار کر سکتی ہے۔ نکاح میں ولی کی رضامندی کے ساتھ ساتھ لڑکی رضامندی بھی ضروری ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کنواری کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر کرنے سے منع فرمایا ہے اور اگر ولی کی طرف سے اس کی مرضی کے بغیر دیا جائے تو پھر اسے بغیر کسی وجہ کے بھی فسخ نکاح کا اختیار دیا ہے ۔ شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ کے مطابق اگر لڑکی کا ولی جبرا نکاح کر دے تو وہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا ہے ۔شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

لقد تزوجت منذ فترة قصيرة ، ولكنني غير سعيدة مع زوجي ، وقد أجبرني أهلي على الزواج منه ، ومشكلتي أنني لا أرغب في الإنجاب منه ، فهل يجوز أن أدعو الله أن لا يرزقني أولاداً منه أم لا يجوز ؟ وقد قرأت أنه لا يجوز استخدام حبوب منع الحمل بدون إذن الزوج ، فهل هذا صحيح ؟.
الحمد لله
لا يجوز للولي سواء أكان أبا أو غيره أن يزوج مَنْ كانت تحت ولايته دون رضاها ، لقول النبي صلى الله عليه وسلم فيما رواه عنه ابن عباس رضي الله عنهما : ( الأيم أحق بنفسها من وليها ، والبكر تستأذن في نفسها وإذنها صماتها ) رواه مسلم (1421)
وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( لا تُنْكَح الأيم حتى تُسْتَأمر ، ولا تنكح البكر حتى تستأذن . قالوا : يا رسول الله وكيف إذنها ؟ قال : أن تسكت ) رواه البخاري (4843) ومسلم (1419)

كما لا يجوز للولي أن يتعنت في تزويج موليته ، أو يعضلها عن الزواج ممن ترغب إذا كان كفؤاً لها ، وقد قال النبي - صلى الله عليه وسم - : ( إذا جاءكم من ترضون دينه وخلقه فأنكحوه إلا تفعلوه تكن فتنة في الأرض وفساد كبير ) رواه الترمذي (1084) وحسنه الألباني وانظر السؤال رقم (32580)
أما ما حصل معك ، فلك الخيار في الاستمرار أو عدمه ، فاستخيري الله عز وجل ، فإن رضيت فلك الاستمرار على هذا الزواج ، وإن لم تقبلي الاستمرار في زواجك فلك الحق في طلب الفسخ ، لأنه وقع بدون رضاك .
فعن خنساء بنت خذام الأنصارية : أن أباها زوجها وهي ثيب ، فكرهت ذلك ، فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فرد نكاحه . رواه البخاري (4845) ، وعن ابن عباس - رضي الله عنهما - : أن جارية بكرا أتت النبي صلى الله عليه وسلم ، فذكرت أن أباها زوجها وهي كارهة ، فخيرها النبي صلى الله عليه وسلم . رواه أبو داود (2096) وصححه الألباني .
وقد ذهب جماعة من أهل العلم إلى أن المرأة إذا زُوِّجت بدون رضاها فإن العقد يكون موقوفاً على إجازة المرأة ، فإن أجازته صح ، وإلا فلها الفسخ . وهو مذهب الحنفية ورواية عن الإمام أحمد . انظر المغني 7 / 364 ،فتح الباري 9 / 194

قال الشيخ ابن عثيمين في مسألة إجبار الوالد بنته على النكاح : إجبار الرجل ابنته على الزواج برجل لا تريد الزواج منه محرم ، والمحرم لا يكون صحيحاً ولا نافذاً ، لأن إنفاذه وتصحيحه مضاد لما ورد فيه من النهي ، لأن مقصود الشرع بالنهي عن أمر ما ، أن لا نتلبس به ولا نفعله ، ونحن إذا صححناه فمعناه أننا تلبسنا به وفعلناه ، وجعلناه بمنزلة العقود التي أباحها الشارع .....
وعلى هذا فالقول الراجح يكون تزويج الوالد ابنته هذه بمن لا تريده زوجا ، تزويجا فاسدا ، والعقد فاسد ، يجب النظر فيه من قبل المحكمة
انظر الفتاوى ص 760 ، وانظر أيضاً فتاوى الشيخ ابن إبراهيم 10 / 73 – 78

أما أخذك لحبوب منع الحمل دون علم الزوج ، فهذا ليس حلا للمشكلة ، لأن هذا معناه مكوثك تحت من لا ترضين ، وقد نص بعض أهل العلم كما في فتاوى الشيخ ابن إبراهيم الموضع السابق ، على أنه إذا ظهر من المرأة الرضى بزواجها ممن تزوجت منه جبرا ، فإنه يسقط حقها في طلب الفسخ ، وإذا سقط الحق في طلب الفسخ صار الرجل زوجا شرعيا لك ، وإذا كان كذلك لم يجز لك أخذ حبوب من الحمل إلا بعلمه عند وجود ما يدعو إلى ذلك .

الإسلام سؤال وجواب
 
Top