• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک سوال،ایک گزارش

شمولیت
ستمبر 25، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
32
میرا یہ سوال ان حضرات سے ہے جن اللہ نے علم سے نوازا ہے ،مجھے جہااں تک مسلک اہلھدیث کی تاریخ معلوم ہے ،یہ مسلک اہلحق لو گوں کا ہے،مگر تصوف پر بحث کے دوران ،فیض الابرار صاحب اور ارسلان صاحب کا موقف اس وقت سامنے جب انکے سامنے صوفیاء اہلھدیث ؒ کا تذکرہ کیا گیا تو ان صاحبان کا موقف یہ ہے کہ یہ بدعتی ،مشرک اور کافر ہیں،میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آیا یہ موقف اہلحدیث علماء کا ہے کہ صوفیاء اہلحدیث بدعتی ،مشرک اور کافر ہیں یا جہلاء اور نام نہاد اہلحدیث کے بکواسات ہیں
میری ہر اس شخص سے استدعا ہے جو مسلک اہلحدیث کو سمجھتا اور جانتا ہے وہ بتائے کہ کونسے اہل حدیث درست ہیں ،صوفیاء اہلھدیث یا منکر تصوف اہلحدیث؟
وضاحت: منکر تصوف سے مراد وہ نام نہاد اہلھدیث جو تصوف سے مطلق انکاری ہیں ،اور صوفیاء اہلھدیث سے مراد اکابرین اہلحدیث کے وہ لوگ جو صوفی گزرے ہیں جیسے غزنوی خاندانؒ ،سوہدری۔مولانا براہیم میر،مولانا ثناء اللہ امرتسری ، مولانا عبد اللہ روپڑی لکھوی خاندان رحمہ اللہ اجمعین وغیرہ ۔
اور منکرین تصوف کا موقف ہے کہ صوفی بدعتی مشرک اور کافر ہیں،جبکہ صوفیاء اہلحدیثؒ کا موقف یہ ہے کہ مطلق صوفیاء کی برائی نہیں کی جا سکتی ہاں نام نہاد اور جاہلی صوفیاء کا رد ضروری ہے۔
 
  • پسند
Reactions: Dua

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
منکرین تصوف میں میرا نام بھی شامل کر لیں.
تصوف کے قائل و فائل لوگوں کی مختلف حالتیں هیں. کوئی بدعت غیر مکفره اور کوئی بدعت مکفره اور کوئی شرک اور کوئی کفر کی حالت میں ہے. علماء نے سب صوفیوں پر ایک جیسا حکم نہیں لگایا.
اس کی وضاحت کئی بار ہو چکی. تصوف کا کم از کم درجہ بدعت کا ضرور ہے. اور دین اسلام میں یہ ایک اضافہ ہے. آپ مانیں یا نہ مانیں.
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
میرا یہ سوال ان حضرات سے ہے جن اللہ نے علم سے نوازا ہے ،مجھے جہااں تک مسلک اہلھدیث کی تاریخ معلوم ہے ،یہ مسلک اہلحق لو گوں کا ہے،مگر تصوف پر بحث کے دوران ،فیض الابرار صاحب اور ارسلان صاحب کا موقف اس وقت سامنے جب انکے سامنے صوفیاء اہلھدیث ؒ کا تذکرہ کیا گیا تو ان صاحبان کا موقف یہ ہے کہ یہ بدعتی ،مشرک اور کافر ہیں،میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آیا یہ موقف اہلحدیث علماء کا ہے کہ صوفیاء اہلحدیث بدعتی ،مشرک اور کافر ہیں یا جہلاء اور نام نہاد اہلحدیث کے بکواسات ہیں
میری ہر اس شخص سے استدعا ہے جو مسلک اہلحدیث کو سمجھتا اور جانتا ہے وہ بتائے کہ کونسے اہل حدیث درست ہیں ،صوفیاء اہلھدیث یا منکر تصوف اہلحدیث؟
وضاحت: منکر تصوف سے مراد وہ نام نہاد اہلھدیث جو تصوف سے مطلق انکاری ہیں ،اور صوفیاء اہلھدیث سے مراد اکابرین اہلحدیث کے وہ لوگ جو صوفی گزرے ہیں جیسے غزنوی خاندانؒ ،سوہدری۔مولانا براہیم میر،مولانا ثناء اللہ امرتسری ، مولانا عبد اللہ روپڑی لکھوی خاندان رحمہ اللہ اجمعین وغیرہ ۔
اور منکرین تصوف کا موقف ہے کہ صوفی بدعتی مشرک اور کافر ہیں،جبکہ صوفیاء اہلحدیثؒ کا موقف یہ ہے کہ مطلق صوفیاء کی برائی نہیں کی جا سکتی ہاں نام نہاد اور جاہلی صوفیاء کا رد ضروری ہے۔

پہلی بات تو آپ یہ بتائیں کہ میں نے تصوف میں یقین رکھنے والوں علمائے اہلحدیث کو کافر، مشرک اور بدعتی کہاں لکھا ہے، یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ نے یہاں جو جھوٹ بولا ہے اس کی حقیقت سامنے آ جائے۔ میں تو اس بات کو ماننے کے لیے بھی تیار نہیں جو صوفی بھی ہو اور اہلحدیث بھی۔

اب میں آپ کو اپنا موقف یہاں بتاتا ہوں، اول تو میں یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں کہ کوئی اہلحدیث عالم ہو اور وہ مروجہ صوفیت پر بھی یقین رکھتا ہو، ایسے شخص کو کوئی اہلحدیث ماننے کو تیار نہیں۔

صوفیت کا گندہ اور غلیظ کافرانہ عقیدہ وحدت الوجود ہے، یہ عقیدہ جس کا ہو گا وہ پکا کافر و مشرک ہے، کیونکہ اس عقیدے میں ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کی پاک ذات سمجھا جاتا ہے، استغفراللہ، سبحان اللہ عما یشرکون

لہذا صوفیت پر یقین رکھنے والا شخص اہلحدیث نہیں اور جو اہلحدیث ہو گا وہ ناقدین تصوف میں سے ہو گا، سلفی ازم اور صوفی ازم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

اب آپ کا مسئلہ کیا ہے، آپ کو اپنے باطل صوفی مذھب کو پھیلانے کے لیے اور اہلحدیث حلقے میں مقبولیت حاصل کرنے اور پنپنے کے لیے اور تو کچھ نہیں ملا ، بس یہی "پہاڑ" دلیل جو آپ کو ملی ہے وہ یہ کہ چند علماء اہلحدیث کے قول نقل کر کے شور مچا دیا ہے کہ صوفی اہلحدیث صوفی اہلحدیث، اوہ یار اللہ کا خوف کرو ، سننے والے اور پڑھنے والے بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ کیسا جاہل آدمی ہے جو اہلحدیثوں کو صوفی قرار دینے پر تلا ہوا ہے۔

لہذا کام کی بات کرو، ہمارے نزدیک قرآن و حدیث حجت ہے، اور قرآن و حدیث پر بات کرتے ہوئے تمہیں بخار چڑھتا ہے، فورم پر کئی لوگ تمہیں سمجھا چکے ہیں، لیکن تم اپنے باطل مذھب کو سختی سے تھامے ہوئے ہو، یہ سختی کسی کام کی نہیں بیکار ہے، یہ سختی اور پختگی عقیدہ توحید کے لیے ہوتی تو درست ہوتی۔

اللہ تمہیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 
شمولیت
ستمبر 25، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
32
پہلی بات تو آپ یہ بتائیں کہ میں نے تصوف میں یقین رکھنے والوں علمائے اہلحدیث کو کافر، مشرک اور بدعتی کہاں لکھا ہے، یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ نے یہاں جو جھوٹ بولا ہے اس کی حقیقت سامنے آ جائے۔
اچھا آپ صوفیاء اہلحدیثؒ کو بدعتی نہیں مانتے،مگر وہ جو آپ نے صوفیاء کو مشرک بدعتی لکھا ،عقبری صاحب کیساتھ مباحثے میں ،وہ اہلحدیث کے لئے نہیں ۔اہلحدیث صوفی وہ آپکے فتویٰ سے بالا تر۔واہ رہے مفتی صاحب کون سی آپکی کل سیدھی۔

میں تو اس بات کو ماننے کے لیے بھی تیار نہیں جو صوفی بھی ہو اور اہلحدیث بھی۔

اب میں آپ کو اپنا موقف یہاں بتاتا ہوں، اول تو میں یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں کہ کوئی اہلحدیث عالم ہو اور وہ مروجہ صوفیت پر بھی یقین رکھتا ہو، ایسے شخص کو کوئی اہلحدیث ماننے کو تیار نہیں۔
بات مروجہ کی نہیں بات یہ ہے کہ آپ لوگ بالکل تصوف کے انکاری ہیں ،جب کہ اہلحدیث علماء تصوف کے مدعی ہیں ،یا تو پھر آپ اہلحدیث نہیں یا پھر صوفیاء اہلحدیث اہل حدیث نہیں ،مگر وہ تو اس مسلک کے اکابر ہیں ،اورآپ کہاں پدی اور پدی کا شوربہ،اگر کوئی جائل صوفی تو اسکو کوئی نہیں مانتا مگر جو تصوف کی حقیقت کو نہیں مانتا وہ بھی جائل ہے۔آپ کا دعوی کہ اہل حدیث میں کوئی صوفی نہیں تو بتاو یہ کیا ہے؟
چند نمونے پیش خدمت ہیں:
سید نذیر حسین دہلوی ؒ اور تصوف
:’جن حضرات نے میاں سید نذیر حسین دہلویؒ کے علمی فضل وکمال کی تصویریں دیکھی ہیں وہ شاید یہ جان کر حیران ہوں کہ میاں صاحبؒ نہایت بلند مقام رکھنے والے صوفی بھی تھے‘‘۔(شمس العلماء )

مولانا فضل الدین بہاریؒ حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ کے کمالات کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
’’کہ حضرت کو جس نے دیکھا،وہ ایک خدا رسیدہ عاشق مزاج صوفی اور سچا درویش یا پیر طریقت خیال کرنے پرمجبور ہے‘‘۔
’’صیح بخاری وغیرہ کتب صحاح میں آپ جس وقت کتاب الرقاق اور نکات تصوف فرماتے تو خود کہتے،صاحبوہم تو احیاء العلوم کو یہاں دیکھتے ہیں‘‘۔(الحیات بعد الممات ص۱۲۳)
مولانا بہاریؒ مسمیریزم اورتصوف میں فرق کرتے ہوئے آپ ؒ کے حالات میں لکھتے ہیں:۔
’’میاں صاحب ؒ کو اس مسمیریزم کی خبر بھی نہ ہوگئی،مگر تصوف نبویﷺنے آپکو دلایا تھاکہ سب امور لاشئے ہیں،اسلام کو اس سے کسی طرح کا تعلق نہیں۔(ص۱۴۲)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:۔
’’میاں صاحب کا علم شریعت وطریقت تو مسلمات قطعیہ یقینیہ سے تھا،نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیائے اسلام جس پر شاہد ہے۔‘‘
اگر آپ سچے ہو تو بدعتی مشرک اور کافر ہونے کا فتوی دو
مولانا غلام رسول قلعوی اور تصوف:۔

مولا نا غلام رسول ؒ کی ایک اہم وصیت :۔مولانا غلام رسول رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ۱۸۷۱ میں حج بیت اللہ کیلئے روانہ ہوئے تو اپنے دونوں بیٹوں (مولانا عبدالقادر ؒ اور مولانا عبدالعزیزؒ ) کیلئے وصیت لکھی،جس میں حصول بیعت وتصوف کیلئے خصوصی نصیحت کی۔فرماتے ہیں:۔
’’وصیت کرتا ہوں کہ تمام کاموں پر علم دینی (یعنی) تفسیر،حدیث ،فقہ ،سیرت اور تصوف کو اوّلیں اہمیت دے،اور ہمت کرکے اسکی طرف متوجہ ہوں ،بلخصوص محدثین کی ہم نشینی اختیار کر ے(یاد رکھیں) کہ اہل حدیث ہی اہل اللہ ہیں،علوم دینی سے فراغت کے بعد کسی کامل و اکمل کے ہاتھ پر بیعت کریں،ہمارے علم کے مطابق اس عہدمیں حضرت عبداللہ غزنویؒ جیسا کوئی نہیں،ان کی صحبت کیمیاء ہے،اورکامل ومکمل پیر ہیں۔عبدالقادر ترجمعہ قران انہی سے شروع کرے،اورعبدالعزیز انہی سے بسم اللہ کا آغاز کرے،کیوں کہ میرے عقیدے کی روح سے وہ حضرت جنید ؒ کے مثل اور حضرت با یزیدؒ کی ماند ہیں رحمہ اللہ علیہم(یاد رکھیں) کوئی مدح کرنے والا انکے خصائص کا احاطہ نہیں کر سکتا ،اگرچہ مدح کرنے میں وہ سب پر سبقت لے گیا ہو،بس اتنی بات ہی کافی ہے ،اگر چہ میں کھوٹا سامان ہوں ، لیکن انکے خریداروں کی قطار میں کھڑا ہوں،چاہیے کہ ملحدوں ،زندیقوں اور ان لوگوں کی مجلسوں میں نہ بیٹھیں جو شریعت محمدیﷺ کے بال بھر بھی مخالف ہوں ۔اولیاء اور عامل صوفیاء کے بارے میں حسنِ عقیدت رکھیں امام شعرانی ؒ نے فرمایا ہے،
"ایا ک و لحوم الا ولیاء فانھا مسمومتہ"
’’ اپنے آپکو اولیاء اللہ کی گوشت خوری سے بچاؤ۔یہ زہریلے گوشت ہیں،یعنی ان کی غیبت نہ کرو،جہاں تک ممکن ہو،انکےساتھ نیک گمان رکھو‘‘
( تذکرہ غلام رسول ؒ قلعوی ص
۴۵۹)
ایک مکتوب میں فرماتے ہیں :
"ہمیشہ دوچیزوں کا حصول ضروری اور لازمی ہے ،ایک کتاب وسنت کا ادراک رکھنے کی علمی پونجی،جو دینی علوم کا سر چشمہ اور معنوی علوم کا خلاصہ ہے،دونوں چیزیں شمع کا درجہ رکھتی ہیں ،جن کو دائیں اور بائیں (طرف) رکھ کر راستہ طے کیا جا سکتا ہے ۔
دوسری چیز شرع حضرات صوفیاء کا طریقہ ہے ،جو کام کی اصل ،اسلام کی اساس اور ذوق ووجد کی مورث ہے ۔وہ جسم شریعت کے لئے جان کو درجہ رکھتی ہے،اور صورت اسلام کی حقیقت اور روح ہے۔
اسی مکتوب کے آخری حصہ میں فرماتے ہیں:
ملتان میں مولوی عبید اللہ کے فرزند مولوی عبد الرحٰمن اچھے عالم ہیں ،ریاضی اور حدیث کے علوم کی تعلیم اچھی طرح دیتے ہیں ۔دہلی میں مولانا نذیر حسین علوم دینیہ پڑھانے میں مہارت رکھتے ہیں ،وہیں مولوی سدید الدین لکھوی علوم عقلیہ میں بے حد کامل موجود ہیں۔باطنی علوم کے لئے صاحبزادہ رکن عالم اور جناب (سید) عبد اللہ صاحب غزنویؒ کا سلسلہ ہے(تذکرہ مولانا غلام رسول قلعویؒ340،341)

مولنا سید داؤد غزنویؒ کا تفکر اور دعوت تصوف:۔مولانا سید داؤد غزنوی ؒ مسلک اہلحدیث کی قد آور شخصیات میں سے تھے ۔ پروفیسر ڈاکٹر سید داؤد غزنویؒ بھی اپنے ہم مسلک حضرات کو تصوف وسلوک کی طرف یوں رہنمائی دیتے ہیں۔جو مولانا حنیف ندوی ؒ نے بیان فرمائی ہیں۔آپ فرماتے ہیں:۔
’’
تضاد کی تیسری صورت جس سے مولانا ( سید داؤد غزنویؒ )از حد شاکی اور پریشان تھے۔جماعت اہلحدیث کے مزاج کی موجودہ کفیت ہے،مولانا کے نقطہ نظر سے اسلام چونکہ تعلق باللہ اور اسکے ان انعکات کا نام ہے،جو معاشرہ اور اور فرد کی زندگی میں لطائف اخلاق کی تخلیق کرتے ہیں۔اسلئے تحریک اہلحدیث کا اولین مقصد یہ ہونا چاہئے کہ جماعت میں محبت الہی کے جذبوں کو عا م کرے۔تعلق باللہ کی برکات جو پھیلائے،اور اطاعت زہد واتقاوخشیت اور ذکر وفکر کو روا ج دے،لیکن ہماری محرومی و تیرہ بخشی ملاحظہ ہو کہ عوام تو عوام خواص تک تصوف وا حسان کی لذتوں سے نا آشنا ہیں۔حلانکہ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ خواص تو خواص ہمارے عوام تک زہد و ورع کا بہترین نمونہ سمجھے جاتے تھے۔آپ پوچھے گے مولانا مرحوم کے نزدیک ان تضادات سے چھٹکارا پانے کا طریق کیا تھا۔؟ بارہا یہ مسئلہ مولانا کے ہاں زیر بحث آیا ۔انکی اس سلسلہ میں جچی تلی رائے یہ تھی کہ ہمیں تعلیم وتربیت کے پورے نظام کو بدلنا چاہئے،کہ جو جماعت اہلحدیث کی تعمیر کے لئے زیادہ ساز گار ثابت ہو سکے۔اور اسکے فکر وعقیدہ کو ایسی استوار بنیادوں پہ قائم کر سکے، جن میں تضاد اور الجھاؤ کی خلل اندازیاں نہ پائی جائیں ۔جو ان میں زندگی کی نئی روح دوڑا سکے‘‘۔( حضرت مولانا داؤد غزنوی
ص ۳۳۶)
مشہور شخصیت نواب صدیق حسن خان کی خدمات تصوف
:َ۔

( اقتباس از دبستان اہلحدیث)
منکرین تصوف ،جو یہ بات کہتے ہیں کہ تصوف گالی ہے ،غلاظت ہے،شرک وبدعت ہے،اورنہ جانے صوفیاء عظام ؒ کی شان میں کیا بکواسات کرتے رہتے ہیں ،اور پھر ظلم یہ ہے کہ اپنا مسلک اہلحدیث بتاتے ہیں ،حق بات تو یہ کہ مسلک اہلحدیث تو صوفیاء کا مسلک ہے،یہ قول صوفی نواب صاحبؒ کا ہے،کیا نواب صدیق حسن صاحب نے سترہ کتابیں لوگوں کو مشرک ،بدعتی اور غلیظ بنانیں کے لئے لکھتے رہئے ہیں۔


ہے کوئی ایسا منکر تصوف جو اس بات کا جواب دے سکے۔



یہ چند نام بطور نمونہ لکھے ہیں انشاء اللہ میں مسلک اہلحدیث کی تاریخ سے ثابت کروں گا کہ یہ مسلک صوفیاء کا ہے،آپ اگر سچے تو ان حضرات کے متعلق فتوی لیکر آو۔





صوفیت کا گندہ اور غلیظ کافرانہ عقیدہ وحدت الوجود ہے، یہ عقیدہ جس کا ہو گا وہ پکا کافر و مشرک ہے، کیونکہ اس عقیدے میں ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کی پاک ذات سمجھا جاتا ہے، استغفراللہ، سبحان اللہ عما یشرکون

لہذا صوفیت پر یقین رکھنے والا شخص اہلحدیث نہیں اور جو اہلحدیث ہو گا وہ ناقدین تصوف میں سے ہو گا، سلفی ازم اور صوفی ازم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
پہلا جواب اسکا یہ ہے کہ وحدت الوجود کسی عقیدے کانام نہیں ،ابن عربی ؒ کے متعلق صوفیاء اہلحدیث ؒ کے موقف کے سلسلے میں میں صرف شیخ الکل آپکے نہیں ہمارے سید نذیر حسین دہلویؒ فرماتے:
عقید ت و احترام صوفیاء عظامؒ:۔
حضرت سید نذیر حسین دہلوی ؒ صوفیاء عظام سے بے حد عقیدت ومحبت اور احترام کیا کرتے تھے خاص الخاص شیخ اکبرعلامہ ابن عربیؒ سے تو بہت زیادہ عقیدت تھی۔مولانا بہاریؒ لکھتے ہیں:۔

’’طبقہ علماء اکرام میں شیخ محی الدین ابن عربیؒ کی بڑی تعظیم کرتے ،اور خاتم الولایہ المحمدیہ فرماتے۔اور بات بھی یہی ہے،کہ علم ظاہر وباطن کی ایسی جامعیت ندرت سے خالی نہیں ہے۔مولانا قاضی بشیر الدین قنوج علیہ الرحمۃ جو شیخ اکبر کے سخت مخالف تھے۔ایک مرتبہ دہلی سے اس غرض تشریف لائے کہ انکے بارے میں میاں صاحبؒ سے مناظرہ کریں ،اور دو مہینے دہلی میں رہے،اور روزانہ مجلس مناظرہ گرم رہی،مگر میاں صاحبؒ اپنی عقیدت سابقہ سے جو شیخ اکبر ؒ کی نسبت رکھتے تھے،ایک تل کے برابربھی پیچھے نہ ہٹے،آخرممدوح جن کو میاں صاحب ؒ سے کمال عقیدت تھی،دومہینے کے بعد واپس تشریف لے گئے ۔
مولانا مغفور اکثر طلباء کو کتب درسیہ پڑھا کر حدیث پڑھنے کے لئے دہلی بھیج دیتے ،چنانچہ پیشتر شاگرد مولانا مغفور کے میاں صاحبؒ کے بھی شاگرد ہیں۔مگر چونکہ ان لوگوں کے خیالات شیخ اکبر کی طرف سے مولانا مغفور کے سنیچے ہوئے تھے،ان میں بہت کم ایسے تھے جو شیخ اکبر کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہوں۔
مولانا ابوالطیب محمد شمس الحق (جو مولانا مغفور کے تلمیذ خاص اور میاں صاحب ؒ کے شاگرد رشید ہیں)نے بھی میاں صاحب ؒ سے کئی دن متواتر شیخ اکبر کی نسبت بحث کی ،اور فصوص الحکم شیخ اکبر پر اعتراض جمائے۔میاں صاحب نے پہلے سمجھایا ،مگر جب دیکھا کہ ابھی لا تسلم ہی کے کو چہ میں یہ ہیں تو فرمایاکہ:۔
’’ فتوحات مکیہ‘‘ آخری تصنیف شیخ اکبر کی ہے ،اور اسی لیے اپنی سب تصانیف ما سبق کی یہ ناسخ ہے‘‘​​
اس جملہ پر یہ بھی سمجھ گئے(الحیات بعد الممات ص ۱۲۳،۱۲۴)
مرزا مظہر جانجاناں ؒ سے عقیدت:۔مرزامظہر جانجاناںؒ ؒ صوفیاء نقشبدیہ میں سے بلند ترین مراتب صوفی گزرے ہیں،قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ مصنف تفسیر مظہری آپ ہی کے شاگرد تھے۔قاضی صاحبؒ نے اپنی شیخ کی عقیدت میں اپنی مایہ ناز تفسیرکا نام ہی’’ تفسیر مظہری‘‘ رکھا۔
’’حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ کھانے کی تمیز کے خصوص میں حضرت مرزا جانجا ناںؒ علیہ الرحمۃ کی بہت تعریف کرتے،ایک حکایت بیان کی ہے کہ ’’ عبدالاحد خان وزیر نے ایک روز لوزیں نہایت اہتمام سے تیار کر کے میرزا مظہر جان جاناں قدس سرہ کی خدمت میں بھیجی،میرزا صاحب نے ایک لوزیں ذرا سا توڑ کر چبا کر تھوک دیا اور فرمایا ’’ کیا بیلوں کی سانی بھیجی ہے‘‘۔( الحیات بعد لمات۱۵۱)
وحدت الوجود کے نام پر اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہر چیز خدا ہم اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ہاں اسکا ترجمعہ ہے کہ ہر چیز خداہ کے ہونے پر گواہ ہے تو اس وحدت الوجود کو ہم مانتے ہیں۔

اب آپ کا مسئلہ کیا ہے، آپ کو اپنے باطل صوفی مذھب کو پھیلانے کے لیے اور اہلحدیث حلقے میں مقبولیت حاصل کرنے اور پنپنے کے لیے اور تو کچھ نہیں ملا ، بس یہی "پہاڑ" دلیل جو آپ کو ملی ہے وہ یہ کہ چند علماء اہلحدیث کے قول نقل کر کے شور مچا دیا ہے کہ صوفی اہلحدیث صوفی اہلحدیث، اوہ یار اللہ کا خوف کرو ، سننے والے اور پڑھنے والے بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ کیسا جاہل آدمی ہے جو اہلحدیثوں کو صوفی قرار دینے پر تلا ہوا ہے۔

لہذا کام کی بات کرو، ہمارے نزدیک قرآن و حدیث حجت ہے، اور قرآن و حدیث پر بات کرتے ہوئے تمہیں بخار چڑھتا ہے، فورم پر کئی لوگ تمہیں سمجھا چکے ہیں، لیکن تم اپنے باطل مذھب کو سختی سے تھامے ہوئے ہو، یہ سختی کسی کام کی نہیں بیکار ہے، یہ سختی اور پختگی عقیدہ توحید کے لیے ہوتی تو درست ہوتی۔

اللہ تمہیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
اب آپ کا مسئلہ کیا ہے، آپ کو اپنے باطل منکرین تصوف مذھب کو پھیلانے کے لیے اور اہلحدیث حلقے میں مقبولیت حاصل کرنے اور پنپنے کے لیے اور تو کچھ نہیں ملا ، بس یہی "پہاڑ" دلیل جو آپ کو ملی ہے وہ یہ کہ چند نقلی منکر ین تصوف نام نہاد علماء اہلحدیث کے قول نقل کر کے شور مچا دیا ہے کہاہل حدیث تصوف کو نہیں مانتے، اوہ یار اللہ کا خوف کرو ، سننے والے اور پڑھنے والے بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ کیسا جاہل آدمی ہے جو اہلحدیثوں کو صوفی ماننے کے لئے تیار نہیں۔

لہذا کام کی بات کرو، ہمارے نزدیک قرآن و حدیث حجت ہے، اور قرآن و حدیث پر بات کرتے ہوئے تمہیں بخار چڑھتا ہے، فورم پر کئی لوگ تمہیں سمجھا چکے ہیں، لیکن تم اپنے باطل مذھب کو سختی سے تھامے ہوئے ہو، یہ سختی کسی کام کی نہیں بیکار ہے، یہ سختی اور پختگی عقیدہ توحید کے لیے ہوتی تو درست ہوتی۔

اللہ تمہیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 
شمولیت
ستمبر 25، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
32
منکرین تصوف میں میرا نام بھی شامل کر لیں.
تصوف کے قائل و فائل لوگوں کی مختلف حالتیں هیں. کوئی بدعت غیر مکفره اور کوئی بدعت مکفره اور کوئی شرک اور کوئی کفر کی حالت میں ھے. علماء نے سب صوفیوں پر ایک جیسا حکم نہیں لگایا.
اس کی وضاحت کئی بار ھو چکی. تصوف کا کم از کم درجه بدعت کا ضرور ھے. اور دین اسلام میں به ایک اضافہ ھے. آپ مانیں یا نه مانیں.
آپ کو دنا جانتی ہے بتانے کی ضرورت نہیں،بس صوفیاء اہل حدیث پر بدعتی ہونے کا فتوی لے آو اگر سچے ہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اچھا آپ صوفیاء اہلحدیثؒ کو بدعتی نہیں مانتے،مگر وہ جو آپ نے صوفیاء کو مشرک بدعتی لکھا ،عقبری صاحب کیساتھ مباحثے میں ،وہ اہلحدیث کے لئے نہیں ۔اہلحدیث صوفی وہ آپکے فتویٰ سے بالا تر۔واہ رہے مفتی صاحب کون سی آپکی کل سیدھی۔

بات مروجہ کی نہیں بات یہ ہے کہ آپ لوگ بالکل تصوف کے انکاری ہیں ،جب کہ اہلحدیث علماء تصوف کے مدعی ہیں ،یا تو پھر آپ اہلحدیث نہیں یا پھر صوفیاء اہلحدیث اہل حدیث نہیں ،مگر وہ تو اس مسلک کے اکابر ہیں ،اورآپ کہاں پدی اور پدی کا شوربہ،اگر کوئی جائل صوفی تو اسکو کوئی نہیں مانتا مگر جو تصوف کی حقیقت کو نہیں مانتا وہ بھی جائل ہے۔آپ کا دعوی کہ اہل حدیث میں کوئی صوفی نہیں تو بتاو یہ کیا ہے؟
چند نمونے پیش خدمت ہیں:
سید نذیر حسین دہلوی ؒ اور تصوف
:’جن حضرات نے میاں سید نذیر حسین دہلویؒ کے علمی فضل وکمال کی تصویریں دیکھی ہیں وہ شاید یہ جان کر حیران ہوں کہ میاں صاحبؒ نہایت بلند مقام رکھنے والے صوفی بھی تھے‘‘۔(شمس العلماء )

مولانا فضل الدین بہاریؒ حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ کے کمالات کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
’’کہ حضرت کو جس نے دیکھا،وہ ایک خدا رسیدہ عاشق مزاج صوفی اور سچا درویش یا پیر طریقت خیال کرنے پرمجبور ہے‘‘۔
’’صیح بخاری وغیرہ کتب صحاح میں آپ جس وقت کتاب الرقاق اور نکات تصوف فرماتے تو خود کہتے،صاحبوہم تو احیاء العلوم کو یہاں دیکھتے ہیں‘‘۔(الحیات بعد الممات ص۱۲۳)
مولانا بہاریؒ مسمیریزم اورتصوف میں فرق کرتے ہوئے آپ ؒ کے حالات میں لکھتے ہیں:۔
’’میاں صاحب ؒ کو اس مسمیریزم کی خبر بھی نہ ہوگئی،مگر تصوف نبویﷺنے آپکو دلایا تھاکہ سب امور لاشئے ہیں،اسلام کو اس سے کسی طرح کا تعلق نہیں۔(ص۱۴۲)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:۔
’’میاں صاحب کا علم شریعت وطریقت تو مسلمات قطعیہ یقینیہ سے تھا،نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیائے اسلام جس پر شاہد ہے۔‘‘
اگر آپ سچے ہو تو بدعتی مشرک اور کافر ہونے کا فتوی دو
مولانا غلام رسول قلعوی اور تصوف:۔

مولا نا غلام رسول ؒ کی ایک اہم وصیت :۔مولانا غلام رسول رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ۱۸۷۱ میں حج بیت اللہ کیلئے روانہ ہوئے تو اپنے دونوں بیٹوں (مولانا عبدالقادر ؒ اور مولانا عبدالعزیزؒ ) کیلئے وصیت لکھی،جس میں حصول بیعت وتصوف کیلئے خصوصی نصیحت کی۔فرماتے ہیں:۔
’’وصیت کرتا ہوں کہ تمام کاموں پر علم دینی (یعنی) تفسیر،حدیث ،فقہ ،سیرت اور تصوف کو اوّلیں اہمیت دے،اور ہمت کرکے اسکی طرف متوجہ ہوں ،بلخصوص محدثین کی ہم نشینی اختیار کر ے(یاد رکھیں) کہ اہل حدیث ہی اہل اللہ ہیں،علوم دینی سے فراغت کے بعد کسی کامل و اکمل کے ہاتھ پر بیعت کریں،ہمارے علم کے مطابق اس عہدمیں حضرت عبداللہ غزنویؒ جیسا کوئی نہیں،ان کی صحبت کیمیاء ہے،اورکامل ومکمل پیر ہیں۔عبدالقادر ترجمعہ قران انہی سے شروع کرے،اورعبدالعزیز انہی سے بسم اللہ کا آغاز کرے،کیوں کہ میرے عقیدے کی روح سے وہ حضرت جنید ؒ کے مثل اور حضرت با یزیدؒ کی ماند ہیں رحمہ اللہ علیہم(یاد رکھیں) کوئی مدح کرنے والا انکے خصائص کا احاطہ نہیں کر سکتا ،اگرچہ مدح کرنے میں وہ سب پر سبقت لے گیا ہو،بس اتنی بات ہی کافی ہے ،اگر چہ میں کھوٹا سامان ہوں ، لیکن انکے خریداروں کی قطار میں کھڑا ہوں،چاہیے کہ ملحدوں ،زندیقوں اور ان لوگوں کی مجلسوں میں نہ بیٹھیں جو شریعت محمدیﷺ کے بال بھر بھی مخالف ہوں ۔اولیاء اور عامل صوفیاء کے بارے میں حسنِ عقیدت رکھیں امام شعرانی ؒ نے فرمایا ہے،
"ایا ک و لحوم الا ولیاء فانھا مسمومتہ"
’’ اپنے آپکو اولیاء اللہ کی گوشت خوری سے بچاؤ۔یہ زہریلے گوشت ہیں،یعنی ان کی غیبت نہ کرو،جہاں تک ممکن ہو،انکےساتھ نیک گمان رکھو‘‘
( تذکرہ غلام رسول ؒ قلعوی ص ۴۵۹)
ایک مکتوب میں فرماتے ہیں :
"ہمیشہ دوچیزوں کا حصول ضروری اور لازمی ہے ،ایک کتاب وسنت کا ادراک رکھنے کی علمی پونجی،جو دینی علوم کا سر چشمہ اور معنوی علوم کا خلاصہ ہے،دونوں چیزیں شمع کا درجہ رکھتی ہیں ،جن کو دائیں اور بائیں (طرف) رکھ کر راستہ طے کیا جا سکتا ہے ۔
دوسری چیز شرع حضرات صوفیاء کا طریقہ ہے ،جو کام کی اصل ،اسلام کی اساس اور ذوق ووجد کی مورث ہے ۔وہ جسم شریعت کے لئے جان کو درجہ رکھتی ہے،اور صورت اسلام کی حقیقت اور روح ہے۔
اسی مکتوب کے آخری حصہ میں فرماتے ہیں:
ملتان میں مولوی عبید اللہ کے فرزند مولوی عبد الرحٰمن اچھے عالم ہیں ،ریاضی اور حدیث کے علوم کی تعلیم اچھی طرح دیتے ہیں ۔دہلی میں مولانا نذیر حسین علوم دینیہ پڑھانے میں مہارت رکھتے ہیں ،وہیں مولوی سدید الدین لکھوی علوم عقلیہ میں بے حد کامل موجود ہیں۔باطنی علوم کے لئے صاحبزادہ رکن عالم اور جناب (سید) عبد اللہ صاحب غزنویؒ کا سلسلہ ہے(تذکرہ مولانا غلام رسول قلعویؒ340،341)

مولنا سید داؤد غزنویؒ کا تفکر اور دعوت تصوف:۔مولانا سید داؤد غزنوی ؒ مسلک اہلحدیث کی قد آور شخصیات میں سے تھے ۔ پروفیسر ڈاکٹر سید داؤد غزنویؒ بھی اپنے ہم مسلک حضرات کو تصوف وسلوک کی طرف یوں رہنمائی دیتے ہیں۔جو مولانا حنیف ندوی ؒ نے بیان فرمائی ہیں۔آپ فرماتے ہیں:۔
’’ تضاد کی تیسری صورت جس سے مولانا ( سید داؤد غزنویؒ )از حد شاکی اور پریشان تھے۔جماعت اہلحدیث کے مزاج کی موجودہ کفیت ہے،مولانا کے نقطہ نظر سے اسلام چونکہ تعلق باللہ اور اسکے ان انعکات کا نام ہے،جو معاشرہ اور اور فرد کی زندگی میں لطائف اخلاق کی تخلیق کرتے ہیں۔اسلئے تحریک اہلحدیث کا اولین مقصد یہ ہونا چاہئے کہ جماعت میں محبت الہی کے جذبوں کو عا م کرے۔تعلق باللہ کی برکات جو پھیلائے،اور اطاعت زہد واتقاوخشیت اور ذکر وفکر کو روا ج دے،لیکن ہماری محرومی و تیرہ بخشی ملاحظہ ہو کہ عوام تو عوام خواص تک تصوف وا حسان کی لذتوں سے نا آشنا ہیں۔حلانکہ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ خواص تو خواص ہمارے عوام تک زہد و ورع کا بہترین نمونہ سمجھے جاتے تھے۔آپ پوچھے گے مولانا مرحوم کے نزدیک ان تضادات سے چھٹکارا پانے کا طریق کیا تھا۔؟ بارہا یہ مسئلہ مولانا کے ہاں زیر بحث آیا ۔انکی اس سلسلہ میں جچی تلی رائے یہ تھی کہ ہمیں تعلیم وتربیت کے پورے نظام کو بدلنا چاہئے،کہ جو جماعت اہلحدیث کی تعمیر کے لئے زیادہ ساز گار ثابت ہو سکے۔اور اسکے فکر وعقیدہ کو ایسی استوار بنیادوں پہ قائم کر سکے، جن میں تضاد اور الجھاؤ کی خلل اندازیاں نہ پائی جائیں ۔جو ان میں زندگی کی نئی روح دوڑا سکے‘‘۔( حضرت مولانا داؤد غزنوی
ص ۳۳۶)
مشہور شخصیت نواب صدیق حسن خان کی خدمات تصوف
:َ۔

( اقتباس از دبستان اہلحدیث)
منکرین تصوف ،جو یہ بات کہتے ہیں کہ تصوف گالی ہے ،غلاظت ہے،شرک وبدعت ہے،اورنہ جانے صوفیاء عظام ؒ کی شان میں کیا بکواسات کرتے رہتے ہیں ،اور پھر ظلم یہ ہے کہ اپنا مسلک اہلحدیث بتاتے ہیں ،حق بات تو یہ کہ مسلک اہلحدیث تو صوفیاء کا مسلک ہے،یہ قول صوفی نواب صاحبؒ کا ہے،کیا نواب صدیق حسن صاحب نے سترہ کتابیں لوگوں کو مشرک ،بدعتی اور غلیظ بنانیں کے لئے لکھتے رہئے ہیں۔

ہے کوئی ایسا منکر تصوف جو اس بات کا جواب دے سکے۔



یہ چند نام بطور نمونہ لکھے ہیں انشاء اللہ میں مسلک اہلحدیث کی تاریخ سے ثابت کروں گا کہ یہ مسلک صوفیاء کا ہے،آپ اگر سچے تو ان حضرات کے متعلق فتوی لیکر آو۔





پہلا جواب اسکا یہ ہے کہ وحدت الوجود کسی عقیدے کانام نہیں ،ابن عربی ؒ کے متعلق صوفیاء اہلحدیث ؒ کے موقف کے سلسلے میں میں صرف شیخ الکل آپکے نہیں ہمارے سید نذیر حسین دہلویؒ فرماتے:
عقید ت و احترام صوفیاء عظامؒ:۔
حضرت سید نذیر حسین دہلوی ؒ صوفیاء عظام سے بے حد عقیدت ومحبت اور احترام کیا کرتے تھے خاص الخاص شیخ اکبرعلامہ ابن عربیؒ سے تو بہت زیادہ عقیدت تھی۔مولانا بہاریؒ لکھتے ہیں:۔​
’’طبقہ علماء اکرام میں شیخ محی الدین ابن عربیؒ کی بڑی تعظیم کرتے ،اور خاتم الولایہ المحمدیہ فرماتے۔اور بات بھی یہی ہے،کہ علم ظاہر وباطن کی ایسی جامعیت ندرت سے خالی نہیں ہے۔مولانا قاضی بشیر الدین قنوج علیہ الرحمۃ جو شیخ اکبر کے سخت مخالف تھے۔ایک مرتبہ دہلی سے اس غرض تشریف لائے کہ انکے بارے میں میاں صاحبؒ سے مناظرہ کریں ،اور دو مہینے دہلی میں رہے،اور روزانہ مجلس مناظرہ گرم رہی،مگر میاں صاحبؒ اپنی عقیدت سابقہ سے جو شیخ اکبر ؒ کی نسبت رکھتے تھے،ایک تل کے برابربھی پیچھے نہ ہٹے،آخرممدوح جن کو میاں صاحب ؒ سے کمال عقیدت تھی،دومہینے کے بعد واپس تشریف لے گئے ۔​
مولانا مغفور اکثر طلباء کو کتب درسیہ پڑھا کر حدیث پڑھنے کے لئے دہلی بھیج دیتے ،چنانچہ پیشتر شاگرد مولانا مغفور کے میاں صاحبؒ کے بھی شاگرد ہیں۔مگر چونکہ ان لوگوں کے خیالات شیخ اکبر کی طرف سے مولانا مغفور کے سنیچے ہوئے تھے،ان میں بہت کم ایسے تھے جو شیخ اکبر کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہوں۔​
مولانا ابوالطیب محمد شمس الحق (جو مولانا مغفور کے تلمیذ خاص اور میاں صاحب ؒ کے شاگرد رشید ہیں)نے بھی میاں صاحب ؒ سے کئی دن متواتر شیخ اکبر کی نسبت بحث کی ،اور فصوص الحکم شیخ اکبر پر اعتراض جمائے۔میاں صاحب نے پہلے سمجھایا ،مگر جب دیکھا کہ ابھی لا تسلم ہی کے کو چہ میں یہ ہیں تو فرمایاکہ:۔​
’’ فتوحات مکیہ‘‘ آخری تصنیف شیخ اکبر کی ہے ،اور اسی لیے اپنی سب تصانیف ما سبق کی یہ ناسخ ہے‘‘​​

اس جملہ پر یہ بھی سمجھ گئے(الحیات بعد الممات ص ۱۲۳،۱۲۴)​
مرزا مظہر جانجاناں ؒ سے عقیدت:۔مرزامظہر جانجاناںؒ ؒ صوفیاء نقشبدیہ میں سے بلند ترین مراتب صوفی گزرے ہیں،قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ مصنف تفسیر مظہری آپ ہی کے شاگرد تھے۔قاضی صاحبؒ نے اپنی شیخ کی عقیدت میں اپنی مایہ ناز تفسیرکا نام ہی’’ تفسیر مظہری‘‘ رکھا۔​
’’حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ کھانے کی تمیز کے خصوص میں حضرت مرزا جانجا ناںؒ علیہ الرحمۃ کی بہت تعریف کرتے،ایک حکایت بیان کی ہے کہ ’’ عبدالاحد خان وزیر نے ایک روز لوزیں نہایت اہتمام سے تیار کر کے میرزا مظہر جان جاناں قدس سرہ کی خدمت میں بھیجی،میرزا صاحب نے ایک لوزیں ذرا سا توڑ کر چبا کر تھوک دیا اور فرمایا ’’ کیا بیلوں کی سانی بھیجی ہے‘‘۔( الحیات بعد لمات۱۵۱)​
وحدت الوجود کے نام پر اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہر چیز خدا ہم اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ہاں اسکا ترجمعہ ہے کہ ہر چیز خداہ کے ہونے پر گواہ ہے تو اس وحدت الوجود کو ہم مانتے ہیں۔​

اب آپ کا مسئلہ کیا ہے، آپ کو اپنے باطل منکرین تصوف مذھب کو پھیلانے کے لیے اور اہلحدیث حلقے میں مقبولیت حاصل کرنے اور پنپنے کے لیے اور تو کچھ نہیں ملا ، بس یہی "پہاڑ" دلیل جو آپ کو ملی ہے وہ یہ کہ چند نقلی منکر ین تصوف نام نہاد علماء اہلحدیث کے قول نقل کر کے شور مچا دیا ہے کہاہل حدیث تصوف کو نہیں مانتے، اوہ یار اللہ کا خوف کرو ، سننے والے اور پڑھنے والے بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ کیسا جاہل آدمی ہے جو اہلحدیثوں کو صوفی ماننے کے لئے تیار نہیں۔

لہذا کام کی بات کرو، ہمارے نزدیک قرآن و حدیث حجت ہے، اور قرآن و حدیث پر بات کرتے ہوئے تمہیں بخار چڑھتا ہے، فورم پر کئی لوگ تمہیں سمجھا چکے ہیں، لیکن تم اپنے باطل مذھب کو سختی سے تھامے ہوئے ہو، یہ سختی کسی کام کی نہیں بیکار ہے، یہ سختی اور پختگی عقیدہ توحید کے لیے ہوتی تو درست ہوتی۔

اللہ تمہیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
تمہارے ساتھ گفتگو صرف وقت کے ضیاع کے سوا اور کچھ نہیں ہے، تمہاری کیفیت دیکھ کر میں نے یہ دعا لکھی تھی۔
اللہ تمہیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میرا یہ سوال ان حضرات سے ہے جن اللہ نے علم سے نوازا ہے ،مجھے جہااں تک مسلک اہلھدیث کی تاریخ معلوم ہے ،یہ مسلک اہلحق لو گوں کا ہے،مگر تصوف پر بحث کے دوران ،فیض الابرار صاحب اور ارسلان صاحب کا موقف اس وقت سامنے جب انکے سامنے صوفیاء اہلھدیث ؒ کا تذکرہ کیا گیا تو ان صاحبان کا موقف یہ ہے کہ یہ بدعتی ،مشرک اور کافر ہیں،میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آیا یہ موقف اہلحدیث علماء کا ہے کہ صوفیاء اہلحدیث بدعتی ،مشرک اور کافر ہیں یا جہلاء اور نام نہاد اہلحدیث کے بکواسات ہیں
میری ہر اس شخص سے استدعا ہے جو مسلک اہلحدیث کو سمجھتا اور جانتا ہے وہ بتائے کہ کونسے اہل حدیث درست ہیں ،صوفیاء اہلھدیث یا منکر تصوف اہلحدیث؟
وضاحت: منکر تصوف سے مراد وہ نام نہاد اہلھدیث جو تصوف سے مطلق انکاری ہیں ،اور صوفیاء اہلھدیث سے مراد اکابرین اہلحدیث کے وہ لوگ جو صوفی گزرے ہیں جیسے غزنوی خاندانؒ ،سوہدری۔مولانا براہیم میر،مولانا ثناء اللہ امرتسری ، مولانا عبد اللہ روپڑی لکھوی خاندان رحمہ اللہ اجمعین وغیرہ ۔
اور منکرین تصوف کا موقف ہے کہ صوفی بدعتی مشرک اور کافر ہیں،جبکہ صوفیاء اہلحدیثؒ کا موقف یہ ہے کہ مطلق صوفیاء کی برائی نہیں کی جا سکتی ہاں نام نہاد اور جاہلی صوفیاء کا رد ضروری ہے۔
میرے بھائی آپ اس پوسٹ کا مطالعہ کریں تا کہ آپ کو عقیدہ کا علم حاصل ہو جائے-

ایک مسلمان کیلئے صحیح عقیدہ کے مختصر مسائل ، اور باطل عقائد کا بیان !!!
 
شمولیت
ستمبر 25، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
32
تمہارے ساتھ گفتگو صرف وقت کے ضیاع کے سوا اور کچھ نہیں ہے، تمہاری کیفیت دیکھ کر میں نے یہ دعا لکھی تھی۔
اللہ تمہیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
دوسروں کو فورا کافر مشرک کہتے ہو مگر اپنی تمھاری یہ حالت کہ ایک فتوی مانگا ہے وہ بھی تمھارے گلے میں اٹک گیا ہے ۔ثابت ہوا کہ منکرین تصوف جھوٹوں اور بد دیانتوں کا ٹولہ جس کا مسلک اہلحدیث سے کوئی تعلق نہیں ،اگر سچے تو جن کو میں نے صوفی ثابت کیا ن پر کفر کا فتوی لے آو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
علمی حدود میں جن لوگوں نے تصوف کے سلسلہ میں بحث کی ہے ان میں سے کوئی اس حقیقت کی معرفت تک نہیں پہنچ سکا کہ اسلام میں سب سے پہلا کون شخص تھا جس نے اپنے آپ کو لفظ صوفی سے موسوم کیا اور نہ ہی اس بات کا حتمی طور پر کسی کو سراغ لگا کہ صوفیانہ فکر کی داغ بیل کس نے ڈالی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ منہج تصوف عقیدۃ اور فکر کی حیثیت سے قبل اسلام پر وان چڑھا، اور وہ تمام اقوام و ادیان میں اور خصوصا بر ہمنیت اور ہند و مذہب میں رائج تھا نیز فارسی مجوسیوں میں بھی اس کا رواج تھا، اور مجوسی زندیقوں کے توسط سے اسلامی فکر کی طرف منتقل ہوا اور اس کے اصول و ضوابط چوتھی و پانچویں صدی ہجری میں مرتب ہوئے۔
بعض اہل قلم نے گمان کیا کہ زہد وتصوف میں گہرا تعلق ہے یہی وجہ ہے کہ تصوف کی نسبت ایسے لوگوں کی طرف کردی گئی جو زہد ، دنیا سے بے رغبتی اور اللہ و حدہ لا شریک لہ کی جانب سراپا متوجہ ہونے میں معروف و مشہور تھے جیسے فضل بن عیاضؒ ، عبداللہ بن مباری ؒ اور ابراہیم بن ادھمؒ وغیرہ ہیں۔ صوفیاء کے طبقہ نگاروں نے ان عابدوں اور زاہدوں کو قافلۂ صوفیاء کے أئمہ قرار دیا، اور بعض نے جیسے الشعرانی وغیرہ ہیں اس سے بھی دس قدم آگے بڑھ کر یہ کہنے کی جرأت کی کہ خلفاء راشدین طبقات صوفیاء کے اولین لوگ تھے۔
اگر آپ کچھ اہل حدیث علماء کو تصوف سے منسوب کرتے ہیں تو یہ تو پرانی روش ہے۔اس طرح کرنے سے تصوف برحق نہیں ہوجاتا۔ لازم ہے کہ آپ قرآن وسنت سے دلائل لائیں تب بات بنتی ہے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
دوسروں کو فورا کافر مشرک کہتے ہو مگر اپنی تمھاری یہ حالت کہ ایک فتوی مانگا ہے وہ بھی تمھارے گلے میں اٹک گیا ہے ۔ثابت ہوا کہ منکرین تصوف جھوٹوں اور بد دیانتوں کا ٹولہ جس کا مسلک اہلحدیث سے کوئی تعلق نہیں ،اگر سچے تو جن کو میں نے صوفی ثابت کیا ن پر کفر کا فتوی لے آو۔
میرا خیال یہ ہے کہ ہمارے ان بھائیوں کو تصوف کے بارے آگہی نہین ہے اس لیے ان کو دوسرے طریقے سے سمجھاؤ، میں یہاں وضاحت کر دیتا ہوں لفظ تصوف بعد کی ایجاد ہے لیکن اس سے پہلے اس کا نام احسان و سلوک تھا اور احسان و سلوک کا مطلب زہد و تقوی ہے دنیا سے بے زاری اللہ کی طرف توجہ لیکن بعد میں آنے والے لوگوں نے اس کا نام تصوف رکھ لیا اور اس میں وہ چیزیں داخل کر دی جن کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ تصوف وہ تصوف نہیں ہے جو اسلام کے تابع ہو بلکہ یہ تصوف کی بگڑی ہوئی شکل ہے اگر مین یہ کہوں کہ تمام صحابہ زہد و تقوی ، احسان وسلوک اور تصوف میں سب سے آگے تھے تو یہ غلط نہیں ہے بلکہ عین حقیقت ہے کیوں کہ حقیقی تصوف اب موجود نہیں ہے اس لیے لوگ موجودہ تصوف سے نالاں ہیں اور اس پر معترض ہیں اس لیے دونوں طرف کے لوگ کا موقف درست ہے جو اس تصوف کو غلط کہہ رہے ہیں وہ موجودہ صورت حال کو دیکھ کر اس پر معترض ہیں اور جو بھائی تصوف کا دفاع کر رہے ہیں وہ اس قدیم تصوف کو سامنے رکھے ہوے ہیں ،اور جو اہل حدیث علما تصوف کو قائل ہیں وہ بھی تصوف کو زہد و ورع کے معنی میں لیتے ہیں اس لیے وہ اس کو درست گردانتے تھے
 
Top