• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک شیعہ کا امام بخاری پر اعتراض

Urdu

رکن
شمولیت
مئی 14، 2011
پیغامات
199
ری ایکشن اسکور
341
پوائنٹ
76
السلام علیکم و رحمتہ اللہ محترم علماء کرام،
ایک شیعہ نے امام بخاری رحمہ اللہ پر سنگین الزامات لگائے ہیں۔براہ کرم تسلی بخش جواب دیکر عند اللہ ما جور ہوں۔میں عبارت نیچے لکھ رہا ہوں۔
امام بخاری کا طریقہ انتخاب احادیث
ترتیب : مولانا ذوالفقار اسدی
امام بخاری سے منقول ہے :
میں چھ لاکھ حدیثوں سے انتخاب کر کے اپنی صحیح میں احادیث درج کی ہیں اور اس کتاب کو اپنے اور خدا کے درمیاں حجت قرار دیا ہے ۔ (۱)
فربری نے امام بخاری سے اس طرح نقل کیا ہے :
''ما کتبت فی کتاب الصحیح حدیثا الا اغتسلت قبل ذالک و صلیت رکعتین '' (۲)
'' میں ہر حدیث کو کتاب میں تحریر کرنے سے قبل غسل کیا اور دو رکعت ادا کر کے استخارہ کیا اور جب حدیث کی صحت استخارے کے ذریعے میرے نزدیک ثابت ہو گئی تب میں نے حدیث کو اپنی کتاب میں درج کیا ۔ ''
نقد مترجم :
امام بخاری نے صحیح بخاری کی تالیف میں (۱۶) سال صرف کئے ، جیسا کہ خطیب بغدادی نے بخاری سے نقل کیا ہے : میں نے اس کتاب کو سولہ (۱۶) سال میں تالیف کیا .
تاریخ بغداد ج ۲ ، بیان حالات محمد ابن اسماعیل ، ص ۱۴ .
امام بخاری کے مذکورہ قول کے مطابق چھ لاکھ حدیثوں میں سے تقریبا سات ہزار حدیثوں پر استخارہ آیا اور بقیہ پر استخارہ نہ آیا ، ذرا ہم تحقیق کر کے اس بات کو دیکھتے ہیں آیا یہ عمل ممکن ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ !
واضح رہے کہ امام بخاری نے ہر حدیث پر ایک مرتبہ استخارہ ، غسل اور دو رکعت نماز انجام دی ، پس کمترین مدت اگر ایک حدیث پر صرف کی جائے تو بیس (۲۰) منٹ ہوں گے ، گویا تین حدیثوں پر کم سے کم ایک گھنٹہ صرف ہوتا ہے ، اگر چھ لاکھ حدیثوں پر اس عمل کو انجام دیا جائے تو تقریبا دو لاکھ گھنٹوں کی ضرورت ہوگی ، جس کا حساب اس طرح ہوگا :
۱ ۔ امام بخاری نے دن و رات حدیث جمع کرنے کے لیے ۴ / گھنٹے کام کیا تو چھ لاکھ حدیثوں کے لئے ۱۳۷ / سال در کار ہوں گے .
۲ ۔ اگر امام بخاری نے روزانہ ۸ / گھنٹے صرف کئے تو تقریبا ساڑھے ارسٹھ (۵/۶۸) سال درکار ہوں گے ۔
۳ ۔ اگر بارہ گھنٹے صرف کئے تو ۴۶ / سال لازم ہوں گے ۔
۴ ۔ اگر ۱۶ / گھنٹے روزانہ استعمال میں لائے تو ۳۴ / سال ضروری ہوں گے ۔
۵ ۔ اگر بیس گھنٹے کام کریں تو ۲۷/ سال در کار ہوں گے ۔
۶ ۔ اگر ۲۴ / گھنٹے کام کریں تو ۲۳ / سال در کار ہوں گے ۔
لیکن لا ینحل معمہ یہاں یہ ہے کہ بخاری نے دس سال کی عمر سے تعلیم دین حاصل کرنا شروع کی اور جب بیس سال کے ہوئے تو علوم دینیہ کے حصول کے لئے گھر سے باہر نکلے اور عمر کے ۲۹ ویں سال سے ان چھ لاکھ حدیثوں پر تحقیقی کام کرنا شروع کیا اور کلی طور پر ۶۲ / سال عمر پائی ، پس اگر ہم ۶۲/ سے ۲۹ /کم کر دیں تو امام بخاری نے ۳۳ سال اس کام (احادیث جمع کر کے ان کی تحقیق) میں صرف کئے اور اگر ایک سال اور بڑھا لیں تو ۳۴/ سال ہوتے ہیں ، اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے بخاری کا یہ کہنا : '' میں نے صرف ۱۶/ سال ان حدیثوں پر کام کیا '' کیسے درست ہو سکتا ہے ؟ ! بہر حال اگر ہم ۱۶/ سال کی مدت سے قطع نظر کریں تو آپ کی عمر اس کام کو کرنے کے لئے ۱۳۷/ سال ہونی چاہئے اور دوسرے اور تیسرے فارمولے کے مطابق ۵/۶۸ یا ۴۶/ سال ہونا چاہئے اور اگر روزانہ ۱۶ گھنٹے کام کیا ، تو پھر آپ کی تعلیمی عمر کے برابر سال ہونا چاہئے ۳۴/ سال یعنی اگر آپ روزانہ ۱۶/ گھنٹے حدیث پر کام کریں تو پھر روزانہ آپ کو ۴۸ حدیثوں پر کام کرنا ہوگا ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی انسان یہ یقین کر سکتا ہے کہ ایک شخص ۲۴/ گھنٹوں میں ۴۸/ مرتبہ غسل کرے ؟! اور ہر غسل کے بعد دو رکعت نامز اور استخارہ انجام دے ؟! یعنی روزانہ ۱۹۶/ رکعت نمازیں پڑھے ؟ اور اگر غسل کو وضو کے لئے کافی نہ جانیں تو وضو بھی ۴۸/ مرتبہ نماز کے لئے انجام دینا ہوگا اور پھر اس کے علاوہ آٹھ گھنٹوں میں کھانا ، پینا ، رفع حاجت اور بقیہ نماز پنجگانہ مع فرض و نوافل جو تقریبا ۵۱/ رکعت ہوتی ہے اور ان نمازوں کے لئے وضو وغیرہ انجام دینا اوپ پھر ان ہی آٹھ گھنٹوں میں سونا اور ہر ماہ نماز جمعہ بھی ۴ مرتبہ آتی ہے اور ہر سال نماز عید کا اضافہ ہو جاتا ہے اور کسی غرض کے تحت سفر بھی کرنا ، باہر سے کھانے پینے کا سامان بھی مہیا کرنا ، بال بچوں سے بھی محو گفتگو ہونا اور دیگر لوگوں کے دینی مسائل بھی حل کرنا ، درس و تدریس کا سلسلہ بھی برقرار رکھنا اور پڑھانے کے لئے پیشگی مطالعہ کرنا اور زوجہ کو خاص وقت بھی دینا وغیرہ وغیرہ .
گزارش : یہاں پر ہم ارباب عقل و دانش سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا ایک انسان ۳۴/ سال تک مسلسل روزانہ مذکورہ عمل انجام ( ۴۸/ مرتبہ نماز و غسل اور ۴۸/ مرتبہ استخارہ وغیرہ وغیرہ ) دے سکتا ہے ؟ حقیقت تو یہ کہ ۸/ گھنٹے صرف بناز یومیہ کے لئے درکار ہوتے ہیں ، مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری کے زمانے میں دن ۴۸/ گھنٹے کا تھا ؟!
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
اور اگر اس حساب سے ایک لمحہ کے لئے ہم چشم پوشی کر لیں تب بھی بخاری کا یہ طریقہ انتخاب ِ حدیث علم درایت و روایت کے خلاف ہے ، کیونکہ روایت قبول کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے احوال رُواۃ کو دیکھا جائے کہ وہ کیسا تھا ، صادق تھا یا کاذب ، ذہین تھا یا کند ذہن ، امین تھا یا خائن مجہول الحال تھا یا غیر مجہول وغیرہ وغیرہ اور اس کے بعد تمام سلسلہ سند و روایت کو دیکھا جاتا ہے ، آیا روایت مقطوع تو نہیں ہے ، سلسلہ سند درمیان سے محذوف تو نہیں ، ان تمام مراحل کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ یہ روایت قرآن حدیث کے خلاف تو نہیں ، اگر مخالف ہے تو دہوار پر دے ماریں ، ان تمام اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر امام بخاری کو نہ جانے کیا سوجھی کہ غسل کر کر کے نمازیں پڑھ پڑھ کے استخارہ کے ذریعہ روایت اخذ کیں ؟!!! جی اگر ہر مسئلہ میں قوانین و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر استخارہ ہی کیا جائے تو پھر سلسلہ سند روایت تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اجتہاد کا کیا کام ؟ تب تو آپ استخارہ دیکھتے جایئے اور عمل کرتے جایئے ، اگر یہی بات مان لی جائے تو میرا مشورہ یہ ہے کہ صحیح بخاری پر پھر ایک تجدید استخارہ ہوجائے ، پھر دیکھئے کتنی روایتیں حذف ہوتی ہیں.
حوالاجات:
(1) مقدمہ فتح الباری (ھدی الساری) فصل اول ، ص ۵ ، مقدمہ ارشاد الساری ، کشف الظنون .
(2) مقدمہ فتح الباری ، ٖفصل اول ، ارشاد الساری ، کشف الظنون ، الفصل الرابع فیما یتعلق بخاری و جعلتہ حجۃ فیما ینی و بین اللہ ص ۲۹ .
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
انتظامیہ کے دوستوں (خصوصاََ خضر بھائی) سے کچھ گزارش کرنی ہے ۔
اس تھریڈ کو ۳ سال ہو چکے ۔۔۔اس کو ۲۲۷ دفعہ دیکھا جاچکا۔۔۔یعنی جو بھی دیکھتا رہا ۔۔۔وہ صرف اعتراض پڑھتا رہا۔۔۔
مجھے معلوم ہے یہ تحریر بہت ہی لایعنی اعتراض پر مشتمل ہے ۔۔۔اور ہر تحریر قابل جواب نہیں ہوتی ۔۔۔لیکن پھر اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایسی پوسٹ کو ریموو کر دینا چاہیے ۔۔جس نے نقل کیا ہے ۔۔۔اس کے انداز سے بھی محسو س ہوتا ہے کہ اس پر بھی اس اعتراض کا اثر ہوا۔۔۔اس لئے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔
اسی طرح خضر بھائی سے یہ بھی گزارش ہے کہ کوئی ایسا سوال جس میں کسی نظریہ پر حرف آتا ہو۔۔یا اس کو مد نظر رکھا گیا ہو ۔۔اس کا جواب تشنہ بھی نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔۔مثلاَََ میں نے ۲ ،۳ دن پہلے خضر بھائی کا ایک سوال کا جواب پڑھا ۔۔۔یاد نہیں تھریڈ کا عنوان کیا تھا۔۔۔لیکن سوال میں اہل بیت سے متعلق حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تھا ۔۔کہ جس کو پڑھ کر محسوس ہوتا تھا کہ ازواج مطہراتؓ اہل بیت میں سے نہیں ۔
انہوں نے بس اس کا حوالہ دے دیا کہ یہ حدیث بخاری وغیرہ میں ہے ۔۔لیکن یہ جواب تشنہ ہے ۔۔۔
عام آدمی خصوصاََ نیٹ پر آنے والے لوگ ایک عبارت پڑھ کر نظریہ قائم کر لیتے ہیں ۔۔ اس لئے پوری وضاحت کرنی چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس تحریر کے جواب میں کچھ باتیں لکھنی شروع کیں ۔کوئی بات رہ گئی ہو تو ۔۔۔۔یا کسی میں کمی رہ گئی ہو تو دوسرے دوست بھی اس میں حصہ ڈال دیں ۔۔اور اس کو پورا کردیں ۔۔۔۔جزاکم اللہ
اعتراض کی عبار ت سرخ رنگ میں ہے۔۔۔
امام بخاری کا طریقہ انتخاب احادیث
ترتیب : مولانا ذوالفقار اسدی
امام بخاری سے منقول ہے :
میں چھ لاکھ حدیثوں سے انتخاب کر کے اپنی صحیح میں احادیث درج کی ہیں اور اس کتاب کو اپنے اور خدا کے درمیاں حجت قرار دیا ہے ۔ (۱)
فربری نے امام بخاری سے اس طرح نقل کیا ہے :
''ما کتبت فی کتاب الصحیح حدیثا الا اغتسلت قبل ذالک و صلیت رکعتین '' (۲)
'' میں ہر حدیث کو کتاب میں تحریر کرنے سے قبل غسل کیا اور دو رکعت ادا کر کے استخارہ کیا اور جب حدیث کی صحت استخارے کے ذریعے میرے نزدیک ثابت ہو گئی تب میں نے حدیث کو اپنی کتاب میں درج کیا ۔ ''
نقد مترجم :
امام بخاری نے صحیح بخاری کی تالیف میں (۱۶) سال صرف کئے ، جیسا کہ خطیب بغدادی نے بخاری سے نقل کیا ہے : میں نے اس کتاب کو سولہ (۱۶) سال میں تالیف کیا .
تاریخ بغداد ج ۲ ، بیان حالات محمد ابن اسماعیل ، ص ۱۴ .
امام بخاری کے مذکورہ قول کے مطابق چھ لاکھ حدیثوں میں سے تقریبا سات ہزار حدیثوں پر استخارہ آیا اور بقیہ پر استخارہ نہ آیا ، ذرا ہم تحقیق کر کے اس بات کو دیکھتے ہیں آیا یہ عمل ممکن ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ !
واضح رہے کہ امام بخاری نے ہر حدیث پر ایک مرتبہ استخارہ ، غسل اور دو رکعت نماز انجام دی ، پس کمترین مدت اگر ایک حدیث پر صرف کی جائے تو بیس (۲۰) منٹ ہوں گے ، گویا تین حدیثوں پر کم سے کم ایک گھنٹہ صرف ہوتا ہے ، اگر چھ لاکھ حدیثوں پر اس عمل کو انجام دیا جائے تو تقریبا دو لاکھ گھنٹوں کی ضرورت ہوگی ، جس کا حساب اس طرح ہوگا :
اتنی تکلیف کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔۔کسی معتبر عالم سے پوچھ لیتے ۔۔۔چلیں پھر بھی دیکھتے ہیں۔۔۔۔
پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ ۶ لاکھ احادیث کے لئے غسل کیا گیا۔۔
کاش اپنی نقل کردا روایات کو ہی غور سے دیکھ لیتے ۔۔۔۔
مثلاََ جب آپ خود نقل کر رہے ہیں کہ حدیث کو کتاب میں تحریر کرنے سے قبل غسل کیا۔۔تو یہ انتخاب کے وقت کی بات نہیں یہ ’’کتاب جامع الصحیح ‘‘ میں تحریر کے وقت کی بات ہے ۔۔
یہ کہاں لکھا ہے کہ ۶ لاکھ سے انتخاب کے وقت غسل کیا اور رکعتیں پڑھیں ۔۔ ؟
آپ تو نقل کرتے ہیں ’’
میں ہر حدیث کو کتاب میں تحریر کرنے سے قبل غسل کیا اور دو رکعت ادا کر کے استخارہ کیا ‘‘ پھر تو آپ کو یہ روایت کہیں سے نکالنی پڑے گی کہ امام المحدثینؒ نے ۶ لاکھ حدیثیں تحریر کیں ۔۔۔
اور یہ ۶ لاکھ احادیث متون کا ذکر نہیں طرق و اسانید کا ہے ۔۔۔
چناچہ عرض یہ ہے کہ اتنے لمبے حساب کی ضرورت نہیں ۔۔۔
غسل اور رکعت کا فعل انتخاب کے بعد ’’جامع الصحیح‘‘ کی تحریر کے وقت کا ہے ۔
اور صحیح بخاری کی احادیث کی تعداد ۸۰۰۰ سے اوپر نہیں ہے ۔ معلقات اور متابعات ملا کے بھی ۱۰۰۰۰ سے اوپر نہیں بنتی ۔
اب آپ حساب کریں گے تو ٹینشن نہیں ہوگی۔ان شاءاللہ۔
ویسے تو مکرر حدیث ۱۰ بار بھی ہو تو وہ ایک ہی حدیث ہوتی ہے ۔ اور مکررات کو شمار نہ کریں تو پھر صحیح بخاری کی احادیث کی تعداد ۳ہزار سے نیچے ہے ۔
لیکن آپ کے لئے مکررات بھی شمار کردیں ہیں ۔ ان کے سمیت ہی حساب کرلیں ۔میں کوشش کرتا ہوں ایک لائن میں حساب کرنے کی۔۔۔۔۔تاکہ عام آدمی کو پڑھنے سمجھنے میں آسانی ہو۔۔۔
۱۶ سال (۳۶۰)دنوں کے حساب سے ۵۷۶۰ دن ہوئے ۔اب ان میں ۱۰۰۰۰ کو تقسیم کردیں ایک دن میں زیادہ سے زیادہ ۲ بار غسل ہوگا۔
اتنا تو میرا خیال ہے ۔۔غسل کرنے میں حرج نہیں ۔۔۔ویسے بھی اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں کو بہت پسند کرتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ۔۔اور ہمارے نبیﷺ نے بھی صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے ۔۔
اور اسی طرح رکعات بھی ۔۔۔۔
پھر آپ کو جو دوسری غلط فہمی ہوئے کہ ’’
امام بخاری کے مذکورہ قول کے مطابق چھ لاکھ حدیثوں میں سے تقریبا سات ہزار حدیثوں پر استخارہ آیا اور بقیہ پر استخارہ نہ آیا
نہیں جناب امام بخاری کے مذکورہ قول کے مطابق نہیں ۔۔۔آ پ کی ذاتی ناسمجھی کے مطابق۔۔
اور یہ جملہ ’’
استخارہ آیا اور بقیہ پر استخارہ نہ آیا ‘‘ تو برصغیر کا جملہ ہے ۔ اور اسلامی استخارہ کے علاوہ جتنے استخارے ہوں مثلاََ پرچی استخارہ ، ٹی وی استخارہ ، فلاں بابا جی کا استخارہ ۔۔۔۔ان میں بولا جاتا ہے ۔ اسلامی استخارہ میں آنا یا نہ آنا ضروری نہیں جیسا کہ میں آگے عرض کرتا ہوں۔
یوں لگتا ہے جیسے آپ کے نزدیک کوئی ۔۔۔عام سا آدمی ہے جس کو احادیث کے صحیح اور ضعیف کا علم نہیں اور استخارے کے ذریعے وہ معلوم کرتا ہے کہ کون کون سی حدیث صحیح ہے ۔۔۔تو وہ اس میں ڈالتا جاتا ہے ۔۔۔
نہیں جناب ایسا نہیں ۔۔۔اسلامی استخارہ اس سے مختلف ہوتا ہے ۔۔ پہلے میں آپ کو یاد دلا دوں کہ جن شخصیت کے بارے میں آپ ذکر کر رہے ہیں ۔۔۔انہیں اسلامی تاریخ میں ’’امیر المؤمنین فی الحدیث ‘‘ کا لقب دیا گیا ہے ۔اور یہ لقب احادیث کی صحت اور ضعف کی پہچان رکھنے والوں میں بلند ترین درجہ ہے ۔
امام بخاریؒ کو معلوم ہے کہ کون سی احادیث صحیح ہیں اور کون سی نہیں ۔۔۔اور انہوں نے کوئی دعوٰی بھی نہیں کیا کہ انہوں نے جو حدیثیں چھوڑ دیں وہ ساری ضعیف ہیں ۔۔۔چناچہ ان کی تصریحات وہیں موجود ہیں جہاں سے آپ نے اوپر کچھ روایات نقل کیں یعنی ان میں سے ایک فتح الباری۔۔۔۔
مقدمہ فتح الباری ۔ص ۱۰ ۔۔سےدو روایات دیکھیں ۔
محدث الاسماعیلیؒ نے ان سے روایت کیا ہے کہ میں نے اس کتاب میں جو روایات لکھیں ہیں وہ سب صحیح ہیں ۔اور بہت سی صحیح حدیثیں میں نے چھوڑ دی ہیں ۔(ترجمہ کا مفہوم)
اسماعیلیؒ اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ ۔۔۔اگر وہ ساری لے لیتے تو کتاب بہت بڑی ہو جاتی۔۔۔۔
دوسرا۔۔ابراہیم بن معقل النسفیؒ ۔۔امام بخاریؒ سے روایت کرتے ہیں ۔۔ جس کا حاصل یہی ہے کہ طوالت کے خوف سے کئی صحیح احادیث چھوڑ دیں۔
یعنی وہ جانتے تھے کہ صحیح احادیث کونسی ہیں اور ضعیف کونسی ۔۔۔
اب رہ گیا استخارہ۔۔۔اس کے لئے عرض ہے کہ اسلامی استخارہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کوئی کام کرتے ہیں تو اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو شامل کردیں ۔۔۔اور استخارہ کے بارے میں امام بخاریؒ نے صحیح بخاری ۔ج۲۔ص۵۷ (ط
دار طوق النجاة) پہ حدیث نقل کی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ جابر بن عبد اللهؓ قال كان رسول الله يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن ۔۔۔۔۔۔۔
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ ہم لوگوں کو تمام کاموں میں استخارہ اس طرح سکھاتے تھے جس طرح قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔۔۔۔۔
اور آگے فرماتے ہیں ۔۔۔۔
إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالأَمْرِ، فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ
یعنی تم میں سے کوئی کسی کام کو کرنا چاہے تو دو رکعت نماز پڑھے۔۔۔۔
کر استخارہ کی دعا پڑھیں۔۔۔۔اس دعا کے ترجمہ کا مفہوم ملاحظہ کریں۔
’’
اے اللہ ! میں آپ کے علم کا واسطہ دے کر آپ سے خیراور بھلائی طلب کرتا ہوں اور آپ کی قدرت کا واسطہ دے کر میں اچھائی پر قدرت طلب کرتا ہوں ، آپ غیب کو جاننے والے ہیں ۔ اے اللہ ! آپ علم رکھتے ہیں میں علم نہیں رکھتا ، یعنی یہ معاملہ میرے حق میں بہتر ہے یا نہیں ،اس کا علم آپ کو ہے، مجھے نہیں ، اور آپ قدرت رکھتے ہیں اور مجھ میں قوت نہیں ۔ یا اللہ ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ یہ معاملہ (یعنی نبی اکرمﷺ کی صحیح احادیث کا ایک مجموعہ جمع کرنا) میرے حق میں بہتر ہے ، میرے دین کے لیے بھی بہتر ہے ، میری معاش اور دنیا کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور انجام کار کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور میرے فوری نفع کے اعتبار سے اور دیرپا فائدے کے اعتبار سے بھی تو اس کو میرے لیے مقدر فرمادیجیے اور اس کو میرے لیے آسان فرمادیجیے اور اس میں میرے لیے برکت پیدا فرمادیجیے ۔ اور اگر آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ یہ معاملہ (یعنی نبی اکرمﷺ کی صحیح احادیث کا ایک مجموعہ جمع کرنا) میرے حق میں برا ہے ،میرے دین کے حق میں برا ہے یا میری دنیا اور معاش کے حق میں برا ہے یا میرے انجام کار کے اعتبار سے برا ہے، فوری نفع اور دیرپا نفع کے اعتبار سے بھی بہتر نہیں ہے تو اس کام کو مجھ سے پھیر دیجیے اور مجھے اس سے پھیر دیجیے اور میرے لیے خیر مقدر فرمادیجیے جہاں بھی ہو ، یعنی اگر یہ معاملہ میرے لیے بہتر نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیجیے اور اس کے بدلے جو کام میرے لیے بہتر ہو اس کو مقدر فرمادیجیے ، پھر مجھے اس پر راضی بھی کر دیجیے اور اس پر مطمئن بھی کردیجیے ۔
استخارہ کا مطلب ہے کسی معاملے میں خیراور بھلائی کا طلب کرنا،یعنی روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے اپنے ہرجائز کام میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا اور اللہ سے اس کام میں خیر، بھلائی اور رہنمائی طلب کرنا
استخارہٴ مسنونہ کا مقصد یہ ہے کہ بندے کے ذمے جو کام تھا وہ اس نے کرلیا اور اپنے آپ کو حق تعالی کے علم محیط اور قدرت کاملہ کے حوالہ کردیا
اور امام بخاریؒ کی اپنی نقل کردہ اس دعا استخارہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ کام جو امام صاحبؒ کر رہے تھے ۔۔۔وہ استخارہ کے الفاظ کے مطابق ان کے اور امت کے حق میں بہتر ، دین کے لیے بھی بہتر ، دنیا کے اعتبار سے بھی بہتر اور انجام کار کے اعتبار سے بھی بہتر اور فوری نفع کے اعتبار سے اور دیرپا فائدے کے اعتبار سے بھی بہتر تھا اور ہے ۔۔۔۔چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کو مقدر فرمادیا اور اس کو آسان فرمادیا اور اس میں برکت پیدا فرمادی۔۔۔۔۔۔کہ اللہ کے آخری نبیﷺ کی احادیث ہیں۔امت نے اس کو قبول کر لیا ۔اور سر کا تاج بنا لیا۔

اور یہی مطلب ہے امام صاحب کے اس قول کا
وما ادخلت فیہ حدیثا حتی استخرت اللہ تعالی ، وصلیت رکعتین ، وتیقنت صحتہ
اور میں نے اس میں ہر حدیث داخل کرنے سے پہلے استخارہ کیا ، اور دو رکعت نماز پڑھی اور صحت کا یقین کیا
یعنی ان کو کامل یقین تھا اور دل کا کامل رجحان تھا۔۔۔
نہ کہ یہ (اسلامی استخارہ سے ناواقف) جاہلانہ مطلب
صحت استخارے کے ذریعے میرے نزدیک ثابت ہو گئی تب میں نے حدیث کو
ایسا نہیں ہے

جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
میں تو بڑا حسن ظن رکھنے والا آدمی ہوں ۔۔۔لیکن کیا کیا جائے آپ کے ناقص اعتراض کے بعد طنزیہ شعر بتاتا ہے کہ آپ اعتراض میں مخلص نہیں ۔۔۔کوئی شرارت کا موڈ ہے ۔اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے ۔

اور اگر اس حساب سے ایک لمحہ کے لئے ہم چشم پوشی کر لیں تب بھی بخاری کا یہ طریقہ انتخاب ِ حدیث علم درایت و روایت کے خلاف ہے ،
پہلے آپ شرارت کر رہے تھے ۔۔۔جو اپنے زعم میں اب علمی اعتراض کرنے لگے ہیں ۔۔۔دیکھیں ذرا کیا ہے۔۔۔۔
کیونکہ روایت قبول کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے احوال رُواۃ کو دیکھا جائے کہ وہ کیسا تھا ، صادق تھا یا کاذب ، ذہین تھا یا کند ذہن ، امین تھا یا خائن مجہول الحال تھا یا غیر مجہول وغیرہ وغیرہ اور اس کے بعد تمام سلسلہ سند و روایت کو دیکھا جاتا ہے ، آیا روایت مقطوع تو نہیں ہے ، سلسلہ سند درمیان سے محذوف تو نہیں ،
یہ جملے تو بتاتے ہیں کہ جناب نے صحیح بخاری کو دیکھا بھی نہیں ۔۔۔
جناب روایت قبول کرنے کے جو طریقے ان سب پر تو یہ ایسی پوری اترتی ہے کہ اہل سنت کی تمام کتب میں سب سے صحیح کا اطلاق ہوتا ہے اس پر ۔۔۔
اور اہل سنۃ میں یہ بحث ہوتی ہے کہ کوئی حدیث کی کتاب اس سے زیادہ بھی صحیح ہے کہ نہیں۔۔۔
اس کتاب کو ان کے اساتذہ جو علم کے پہاڑ تھے انہوں نے پسند کیا اور تائید کی ۔۔۔اور اس کتاب کے متن اور سند اور شرح کی اتنی خدمت ہوئی کہ کیا کہیں ۔۔کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ۔جس کو چاہے عطا کرے ۔
اور اہل السنۃوالجماعۃ اپنے اِس ’’امام‘‘ کو ’’معصوم‘‘ نہیں سمجھتے ۔۔۔اس لئے جہاں اس کی اتنی خدمت ہوئی وہاں اس کو علم حدیث کے ہر ترازو میں پرکھا گیا ۔۔۔۔اس کی سند ۔۔۔۔ اس کے رواۃ ۔۔۔ اس کے متن کو ہر طرح پرکھا گیا ۔۔۔۔جہاں کوئی معمولی سی بھی بشری خطا ہوئی ۔۔۔۔امت کے جلیل القدر علما نے واضح فرما دی۔۔۔ بس یہ ہے کہ جنہوں نے ان پر تنقید بھی کی ۔۔۔۔وہ اپنی تنقید میں مخلص تھے ۔۔۔اس لئے ہرتنقید کرنے والے کو چاہیے کے اعتراض نیت کو خالص کر کے بات سمجھنے کے لئےکرے ۔


ان تمام مراحل کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ یہ روایت قرآن حدیث کے خلاف تو نہیں ، اگر مخالف ہے تو دہوار پر دے ماریں ،

اب میرا خیال ہے آپ چونکہ بالکل ہی ناواقف ہیں ۔۔ اس لئے یہی عرض ہے کہ اس کو نیت خالص کر کے علمی لحاظ سے دیکھیں ۔ اس میں ہمارے نبی ﷺ کی احادیث ہیں ۔ اس میں کچھ قرآن و حدیث کے خلاف نہیں ۔۔۔اگر بظاہر محسوس ہو(کیونکہ بعض لوگوں کی ناقص سمجھ ہوتی ہے جیسا کہ آپ نے ناقص اعتراض کئے ) تو ایسی صورت میں معتبر عالم سے رجوع کریں ۔۔۔ان شاء الله اعتراض دور ہوجائے گا تو پھر دیوار پر نہیں مارنا پڑے گا بلکہ دل و جان سے قبول کریں گے۔
ان تمام اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر
اسی لئے کہا ناں کہ جناب نے صحیح بخاری دیکھی بھی نہیں ۔۔۔جب دیکھیں گے تو پتا چلے گا کہ اس میں اصول و ضوابط کی کتنی پیروی کی گئی ہے ۔
امام بخاری کو نہ جانے کیا سوجھی کہ غسل کر کر کے نمازیں پڑھ پڑھ کے
اب تو واقعی محسوس ہورہا ہے کہ آپ کو ۔۔۔غسل ۔۔۔اور نمازوں سے الرجی ہو رہی ہے ۔۔۔
۔۔۔آپ بھی غسل کی عادت ڈالیں ۔۔۔ اس سے ذہن فریش ہو جاتا ہے ۔۔۔
اور نمازیں بھی اللہ تعالیٰ سے قرب کا ذریعہ ہیں ۔۔۔فرض پورے ہو جائیں ۔۔۔اس کے علاوہ اگر نفل پڑھے جائیں تو بہت تقوٰی پیدا ہوتا ہے ۔۔انسان لایعنی چیزوں سے بھی بچا رہتا ہے ۔

استخارہ کے ذریعہ روایت اخذ کیں ؟!!! جی اگر ہر مسئلہ میں قوانین و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر استخارہ ہی کیا جائے تو پھر سلسلہ سند روایت تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اجتہاد کا کیا کام ؟ تب تو آپ استخارہ دیکھتے جایئے اور عمل کرتے جایئے ، اگر یہی بات مان لی جائے تو میرا مشورہ یہ ہے کہ صحیح بخاری پر پھر ایک تجدید استخارہ ہوجائے ، پھر دیکھئے کتنی روایتیں حذف ہوتی ہیں.
آپ کے ساتھ لفظ مولانا لگا ہوا ہے ۔۔یعنی آپ عالم دین ہونے کے مدعی ہیں ۔۔۔اس لئے آپ کو بار بار شرمندہ نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔استخارہ سے متعلق اوپر عرض کر دیا ہے ۔۔۔اگر آپ اہل تشیع میں سے ہیں تو پھر بھی دیکھیں کہ آپ کی کتب میں نبی کریمﷺ کے فرمان نہیں ملتے ۔۔۔تو دیکھنا چاہیے کہ ۔۔۔ہمارے نبیﷺ نے کچھ تو فرمایا ہوگا۔۔۔وہ کہیں تو ہوگا ۔۔۔کہیں کوئی آپ کو اس سے دور نہ کر دے کوئی ۔۔۔۔۔ اس لئے کوئی کچھ کہے ۔۔۔۔صحیح بخار ی ضرور پڑھیے گا۔۔۔۔اور امام بخاریؒ کو بھول جائیں ۔۔۔۔ٹینشن نہ لیں ۔۔۔بس اپنے نبی ﷺ کے فرمان اس میں سے پڑھیں ۔۔۔استخارہ کی دعا یاد کریں اور صحیح استخارہ اپنی زندگی میں لائیں۔۔۔ اپنے نبی ﷺ کی زندگی کے واقعات اس میں پڑھیں ۔۔۔
جب یہ سب کرلیں گے تو مصنف کی بھی عظمت کے قائل ہو جائیں گےکہ اس نے کتنا عظیم کام کیا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا کلام اور نبی ﷺ کے فرامین پڑھنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
انتظامیہ کے دوستوں (خصوصاََ خضر بھائی) سے کچھ گزارش کرنی ہے ۔
اس تھریڈ کو ۳ سال ہو چکے ۔۔۔اس کو ۲۲۷ دفعہ دیکھا جاچکا۔۔۔یعنی جو بھی دیکھتا رہا ۔۔۔وہ صرف اعتراض پڑھتا رہا۔۔۔
مجھے معلوم ہے یہ تحریر بہت ہی لایعنی اعتراض پر مشتمل ہے ۔۔۔اور ہر تحریر قابل جواب نہیں ہوتی ۔۔۔لیکن پھر اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایسی پوسٹ کو ریموو کر دینا چاہیے ۔۔جس نے نقل کیا ہے ۔۔۔اس کے انداز سے بھی محسو س ہوتا ہے کہ اس پر بھی اس اعتراض کا اثر ہوا۔۔۔اس لئے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔
اسی طرح خضر بھائی سے یہ بھی گزارش ہے کہ کوئی ایسا سوال جس میں کسی نظریہ پر حرف آتا ہو۔۔یا اس کو مد نظر رکھا گیا ہو ۔۔اس کا جواب تشنہ بھی نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔۔مثلاَََ میں نے ۲ ،۳ دن پہلے خضر بھائی کا ایک سوال کا جواب پڑھا ۔۔۔یاد نہیں تھریڈ کا عنوان کیا تھا۔۔۔لیکن سوال میں اہل بیت سے متعلق حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تھا ۔۔کہ جس کو پڑھ کر محسوس ہوتا تھا کہ ازواج مطہراتؓ اہل بیت میں سے نہیں ۔
انہوں نے بس اس کا حوالہ دے دیا کہ یہ حدیث بخاری وغیرہ میں ہے ۔۔لیکن یہ جواب تشنہ ہے ۔۔۔
عام آدمی خصوصاََ نیٹ پر آنے والے لوگ ایک عبارت پڑھ کر نظریہ قائم کر لیتے ہیں ۔۔ اس لئے پوری وضاحت کرنی چاہیے ۔
بہترین تجاویز و تنبیہات ۔
بعض دفعہ کچھ تحریریں نظروں سے اوجھل رہ یا ہو جاتی ہیں ، ورنہ کچھ نہ کچھ لکھ ہی دیا جاتا ہے ۔
 
Top