• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک عجیب مگر حقیقی مسئلہ ، علماء کرام توجہ دیں

وہم

رکن
شمولیت
فروری 22، 2014
پیغامات
127
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
75
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
ایک لڑکی جو کہ ایک بیرون ملک میں ہے ، وہ یتیم ہے ،دوران پڑھائی ، کالج یا یونی ورسٹی ایک اٹھارہ انیس سالہ لڑکا اور یہ لڑکی آپس میں پسند کی وجہ اور گناہ سے بچنے کے لئے سے نکاح کرتے ہیں ، نکاح کچھ اس طرح کہ لڑکے کے گھر والے جو کہ پاکستان میں ہیں کو کوئی خبر نہیں اس نکاح کی ، اور لڑکی کے رشتہ دار وغیرہ بھی اس نکاح میں شریک نہ تھے ،باقی نکاح کی تمام شرائظ و ارکان پورے کئے گئے تھے ، ایک مولوی صاحب نے نکاح مسجد میں پڑھایا ، ایک دو سال تک یہ شادی چلتی رہی اس کے بعد لڑکا جب اپنے ملک گھر واپس گیا تو لڑکے کے گھر والوں کو کسی طرح پتہ لگ گیا کہ لڑکے نے وہاں شادی کی ہوئی ہے ، انہوں نے لڑکے کو وہیں پر ہی روک لیا اور کچھ ایسا کہا اور کیا کہ اب اس لڑکی کا کوئی رابطہ نہیں ہے لڑکے سے ، اور نہ ہی لڑکا اس کی بات سننا چاہتا ہے ، اور اس کے یار دوست لڑکی کو بہت کوشش کے بعد یہ پیغام دیتے ہیں لڑکے کے گھر والوں کی طرف سے کہ یہ کوئی نکاح نہیں تھا نہ ہی ہم مانتے ہیں اور نہ ہی ہم طلاق دیتے ہیں ، اب لڑکی نہ تو عدالت میں جا سکتی ہے کیونکہ مولوی صاحب نے نکاح پڑھانے سے مکر گئے ہیں ، اور ڈاکومنٹس یا ریکارڈ وغیرہ نہیں دیتے ، لڑکی کسی اور ملک میں ہےاور اب اس کو رابطے کے لئے کوئی بھی راستہ نہیں بچا
اب صورت حال یہ ہے کہ لڑکی کہتی ہی کم از کم طلاق ہی دے دے ،
علماء کرام حل بتائیں کہ اخر یہ معاملہ کیسے حل ہوگا ؟
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

عبارت میں لکھی گئی بہت سی باتوں سے یہ مسئلہ حقیقی نہیں لگتا اگر ھے تو پھر معلومات درست نہیں۔

بیرون ملک کا نام نہیں لکھا کہ کونسا بیرون ملک ھے؟ عرب یا یورپ۔

یہ کونسا بیرون ملک تھا جہاں مولوی صاحب نے نکاح پڑھوایا اور اس پر کوئی ریکارڈ ہی نہیں؟

اگر عرب ملک ھے تو وہاں خارجی (غیر نیشنل) کی شادی میری معلومات کے مطابق مسجد میں نہیں بلکہ شرعی کورٹ میں ہوتی ھے۔

اگر یورپ ھے تو پھر یہاں ایک شادی نکاح کی شکل میں مولوی صاحب پڑھاتے ہیں جس پر نکاح نامہ رجسٹرڈ ہوتا ھے، دوسری کونسل میں انگلش میرج ہوتی ھے۔

19 سالہ لڑکا اگر یورپ میں آتا ھے تو انٹرمیڈیٹ کے لئے اکیلے کو ویزہ ملنا مشکل ھے اسے کمپینیئن کی ضرورت ھے، گریجوئیٹ کے لئے مل جاتا ھے، اور اگر عرب ملک ھے تو پھر وہاں کالج تک ہی پڑھائی حاصل کی جا سکتی ھے، اس سے آگے کی فیسیں ادا کرنا مشکل ھے۔

19 سال کا لڑکا لڑکی کا مولوی صاحب یا کورٹ میرج بہت مشکل ھے۔

اھل علم کے جواب کا انتظار کرتے ہیں۔

والسلام
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
گو کنعان بھائی کے تمام نکات اہم ہے اور بظاہر یہ مسئلہ ”غیر حقیقی“ ہی لگتا ہے۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ”وقوعہ“ تو ہوا ہو، لیکن راوی کے پاس اس کی درست معلومات نہ ہوں۔ تاہم تفاصیل سے قطع نظر اگر یہ شادی ”منعقد“ ہوئی ہے اور اس کے بعد لڑکا غائب ہوگیا ہے اور طلاق دینے پر بھی راضی نہیں ہے تو اب لڑکی کے پاس درج ذیل دو ہی ”راستے“ موجود ہیں۔
  1. اس شادی میں چونکہ لڑکی کے ولی شریک نہیں ہوئے، لہٰذا شرعاً یہ شادی ہی “منعقد“ نہیں ہوئی۔ اب تک لڑکا اور لڑکی ”زنا“ میں ملوث رہے ہیں۔ اب لڑکی کو چاہئے کہ وہ توبہ کرے۔ چونکہ اس کا نکاح ہی نہیں ہوا، لہٰذا اسے دوسری جگہ شادی کے لئے طلاق کی ضرورت نہیں ہے ۔
  2. بعض فقہا کے نزدیک لڑکی کے ولی کی رضامندی کے بغیر بھی نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں لڑکی اب کہیں اور شادی نہیں کرسکتی، الا یہ کہ وہ اپنے شوہر سے طلاق، خلع یا تنسیخ نکاح کے ذریعہ شرعاً علیحدہ ہوجائے، ۔ چونکہ لڑکا طلاق دینے پر رضامند نہیں ہے، لہٰذا پاکستان میں کورٹ کے ذریعہ رجوع کیا جائے۔ پاکستانی عدالت لڑکی کی ”شادی کی غیر مصدقہ تفاصیل“ کو نظر انداز کرتے ہوئے یقیناً لڑکی کی ”مدد“ کرے گی اور عدالت میں اگر لڑکا پیش نہ ہوا تب بھی عدالت دو چار نوٹسز کے بعد نکاح کی تنسیخ کا اعلان کردے گی۔ جس کے بعد لڑکی کہیں اور شادی کرسکتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
عقد مسیار/ عارضی شادی

شیخ ابن باز صاحب سے سوال
: آپ نے ایک فتوی جاری کیا ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ ویسٹرن [مغربی] ممالک میں اس نیت سے شادی کر لی جائے کہ کچھ عرصے کے بعد عورت کو طلاق دے دی جائے ۔۔۔۔۔ تو پھر آپکے اس فتوے اور عقد متعہ میں کیا فرق ہوا؟

شیخ ابن باز کا جواب: جی ہاں، یہ فتوی سعودیہ کی مفتی حضرات کی مستقل کونسل کی جانب سے جاری ہوا ہے اور میں اس کونسل کا سربراہ ہوں اور یہ ہمارا مشترکہ فتوی ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ شادی کی جائے اور دل میں نیت ہو کہ کچھ عرصے کے بعد طلاق دینی ہے

[ہمارا تبصرہ: یعنی لڑکی کو دھوکے میں رکھنا جائز ہے اور اسے بتانے کی ضرورت نہیں کہ دل میں نیت تو کچھ عرصے بعد طلاق کی کر رکھی ہے]۔ اور یہ (طلاق کی نیت) معاملہ ہے اللہ اور اسکے بندے کے درمیان۔

اگر کوئی شخص (سٹوڈنٹ) مغربی ملک میں اس نیت سے شادی کرتا ہے کہ اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد یا نوکری ملنے کے بعد لڑکی کو طلاق دے دے گا تو اس میں تمام علماء کی رائے کے مطابق ہرگز کوئی حرج نہیں ہے۔ نیت کا یہ معاملہ اللہ اور اسکے بندے کے درمیان ہے اور یہ نیت نکاح کی شرائط میں سے نہیں ہے۔
عقد متعہ اور مسیار میں فرق یہ ہے کہ عقد متعہ میں باقاعدہ ایک مقررہ وقت کے بعد طلاق کی شرط موجود ہے جیسے مہینے ، دو مہینے یا سال یا دو سال وغیرہ۔ عقد متعہ میں جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو خود بخود طلاق ہو جاتی ہے اور نکاح منسوخ ہو جاتا ہے، چنانچہ یہ شرط عقد متعہ کو حرام بناتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اللہ اور اسکے رسول ص کی سنت کے مطابق نکاح کرتا ہے، چاہے وہ دل میں طلاق کی نیت ہی کیوں نہ رکھتا ہو کہ جب وہ مغربی ملک کو تعلیم کے بعد چھوڑے گا تو لڑکی کو طلاق دے دے گا، تو اس چیز میں کوئی مضائقہ نہیں، اور یہ ایک طریقہ ہے جس سے انسان اپنے آپ کو برائیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور زناکاری سے بچ سکتا ہے، اور یہ اہل علم کی رائے ہے۔

فتوی از سعودی شیخ ابن باز کہ طلاق کی نیت دل میں رکھتے ہوئے نکاح کرنا جائز ہے۔ فتوی کا لنک

 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مسیار کےساتھ اس صورت حال کا کوئی تعلق نظر نہیں آرہا۔ اگر واقعتا یہ صورت پیش آئی ہے تو یہ ’’ تعلیق ‘‘ کے قریب تر ہے ۔ جس کا حل یہی ہے کہ عدالت سے رجوع کیا جائے ۔ عورت کو چاہیے کسی محرم رشتہ دار کے ساتھ خود کسی مفتی صاحب کے پاس جاکر صورت حال واضح کرے اور ان سے مسئلہ پوچھے ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
عقد مسیار/ عارضی شادی

شیخ ابن باز صاحب سے سوال
: آپ نے ایک فتوی جاری کیا ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ ویسٹرن [مغربی] ممالک میں اس نیت سے شادی کر لی جائے کہ کچھ عرصے کے بعد عورت کو طلاق دے دی جائے ۔۔۔۔۔ تو پھر آپکے اس فتوے اور عقد متعہ میں کیا فرق ہوا؟

شیخ ابن باز کا جواب: جی ہاں، یہ فتوی سعودیہ کی مفتی حضرات کی مستقل کونسل کی جانب سے جاری ہوا ہے اور میں اس کونسل کا سربراہ ہوں اور یہ ہمارا مشترکہ فتوی ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ شادی کی جائے اور دل میں نیت ہو کہ کچھ عرصے کے بعد طلاق دینی ہے

[ہمارا تبصرہ: یعنی لڑکی کو دھوکے میں رکھنا جائز ہے اور اسے بتانے کی ضرورت نہیں کہ دل میں نیت تو کچھ عرصے بعد طلاق کی کر رکھی ہے]۔ اور یہ (طلاق کی نیت) معاملہ ہے اللہ اور اسکے بندے کے درمیان۔

اگر کوئی شخص (سٹوڈنٹ) مغربی ملک میں اس نیت سے شادی کرتا ہے کہ اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد یا نوکری ملنے کے بعد لڑکی کو طلاق دے دے گا تو اس میں تمام علماء کی رائے کے مطابق ہرگز کوئی حرج نہیں ہے۔ نیت کا یہ معاملہ اللہ اور اسکے بندے کے درمیان ہے اور یہ نیت نکاح کی شرائط میں سے نہیں ہے۔
عقد متعہ اور مسیار میں فرق یہ ہے کہ عقد متعہ میں باقاعدہ ایک مقررہ وقت کے بعد طلاق کی شرط موجود ہے جیسے مہینے ، دو مہینے یا سال یا دو سال وغیرہ۔ عقد متعہ میں جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو خود بخود طلاق ہو جاتی ہے اور نکاح منسوخ ہو جاتا ہے، چنانچہ یہ شرط عقد متعہ کو حرام بناتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اللہ اور اسکے رسول ص کی سنت کے مطابق نکاح کرتا ہے، چاہے وہ دل میں طلاق کی نیت ہی کیوں نہ رکھتا ہو کہ جب وہ مغربی ملک کو تعلیم کے بعد چھوڑے گا تو لڑکی کو طلاق دے دے گا، تو اس چیز میں کوئی مضائقہ نہیں، اور یہ ایک طریقہ ہے جس سے انسان اپنے آپ کو برائیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور زناکاری سے بچ سکتا ہے، اور یہ اہل علم کی رائے ہے۔

فتوی از سعودی شیخ ابن باز کہ طلاق کی نیت دل میں رکھتے ہوئے نکاح کرنا جائز ہے۔ فتوی کا لنک
دجل نا کن کہ فردا روز محشر
میان مومناں شرمدہ باشی


الزواج بنية الطلاق

محمد سافر إلى الخارج لعدة شهور، وخوفا من الوقوع في الحرام تزوج بامرأة وفي نيته تطليقها إذا أراد العودة إلى بلده، ما هو الحكم في ذلك؟، وما هو الحكم إذا لم تكن لديه نية مسبقة بطلاقها وأنجبت له طفل أو طفلة، ثم طلقها؟
إذا نوى المسافر بزواجه أنه يطلق إذا عزم على الرحيل، هذا فيه اختلاف بين أهل العلم، من أهل العلم من ألحق هذا بالمتعة، من نكاح المتعة، ومنهم من قال: لا يلحق بنكاح المتعة وليس منها في شيء؛ لأنه قد ينوي ولا يعزم، ليس بشرط، بخلاف المتعة، فإنها مشارطة أنه يطلقها بعد شهر، بعد شهرين، يفارقها، أما هذا فليس بينه وبينهم مشارطه إنما في قلبه ونيته، أما إذا أراد الرحيل من مثلاً : من أمريكا، لندن، من كذا من كذا، من المغرب، من الجزائر طلق، وقد يستر هذه النية ويرغب فيها ويرتحل بها، فالأقرب -والله أعلم- أن هذا لا يكون من المتعة، بل يكون جائزاً، ولكن الأولى أن لا ينوي هذه النية، عليه أن يتزوج إن ناسبته ارتحل بها وإلا طلقها، أما ينوي نيةً جازمة أنه يطلقها، فالأولى ترك ذلك خروجاً من خلاف العلماء، هذا هو الأولى، لكن لا يبطل النكاح ولا يكون متعة بهذه النية، هذا هو الصواب، إنما يكون النكاح ناقصاً لأن في هذه النية والذي ينبغي أن يكون لديه رغبة مطلقة، فإذا نوى أنه إذا فارق أراد الرحيل طلق فالصحيح أنه لا يبطل نكاحه، لكنه ترك الذي ينبغي وهو أن يكون أن ينوي نية مطلقة في الرغبة إن ناسبته أبقاها وإلا طلقها، هذا الذي ينبغي للمؤمن، وأما إذا وقع الواقع، ونكح مسلمة أو كتابية يعني محصنة بعيدة عن الفواحش فإن الله إنما أباح لنا نكاح الكتابيات المحصنات، فإذا نكح كتابية محصنة، جاز ذلك، والأولى البعد عن ذلك وترك ذلك؛ لأنها قد تجر عليه بلاءاً، وقد تنجب أولاداً، وتنصِّرَهم، فينبغي له الحذر من ذلك، وألا يتزوج إلا مسلمة، هذا هو الذي ينبغي حرصاً على سلامة دين أولاده، بل على سلامته هو، فقد تجره إلى دينها وتنصره هي، فينبغي له الحذر، وقد يسلم هو لكن لا تسلم ذريته، فينبغي له الحذر، وألا يتزوج إلا مسلمة معروفة بالخير من بيئة صالحة؛ لأن هذا هو الذي يرجى منه الخير، وترجى معه السلامة والإحصان.


کنعان اب آپ سے التماس ہے کہ اس پوری عبارت کا ترجمہ کردیں!!
کیونکہ جب آپ اس عبارت کا ترجمہ پیش کریں گے تو آپ کی بیان کردہ تلخیص میں کتنی تلخیص ہے اور کتنی ڈندی واضح معلوم ہو جائے گا!!
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

یہ نہ تو کوئی مناظرہ ھے اور نہ ہی کوئی چیلنج اگر آپ عربی اردو جانتے ہیں تو یہ کام شکریہ کے ساتھ آپ ہی کر دیں۔

والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وربرکاتہ!
السلام علیکم

یہ نہ تو کوئی مناظرہ ھے اور نہ ہی کوئی چیلنج اگر آپ عربی اردو جانتے ہیں تو یہ کام شکریہ کے ساتھ آپ ہی کر دیں۔

والسلام
بات مناظرہ اور چیلنج کی نہیں، بات صرف اتنی ہے کہ آپ نے اپنی تحریر میں ابن باز کے فتوی کا اردو میں اختصار پیش کیا ہے، کیا وہ واقعی اس فتوی کا اختصار ہے، یا دجل کی ملمع کاری ؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وربرکاتہ!

بات مناظرہ اور چیلنج کی نہیں، بات صرف اتنی ہے کہ آپ نے اپنی تحریر میں ابن باز کے فتوی کا اردو میں اختصار پیش کیا ہے، کیا وہ واقعی اس فتوی کا اختصار ہے، یا دجل کی ملمع کاری ؟
الزام در الزام سے بہتر یہ ہوگا کہ آپ @کنعان بھائی کے پیش کردہ ”اختصاریہ“ اور اصل فتویٰ میں فرق یا تضاد (اگر کوئی ہو) کی نشاندہی کیجئے ۔ عربی سے ناواقف قارئین کیا جانیں کہ آپ اور کنعان میں سے کون غلطی پر ہے۔
 

وہم

رکن
شمولیت
فروری 22، 2014
پیغامات
127
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
75
وعلیکم السلام ۔ جی ہاں
السلام علیکم

عبارت میں لکھی گئی بہت سی باتوں سے یہ مسئلہ حقیقی نہیں لگتا اگر ھے تو پھر معلومات درست نہیں۔

بیرون ملک کا نام نہیں لکھا کہ کونسا بیرون ملک ھے؟ عرب یا یورپ۔

یہ کونسا بیرون ملک تھا جہاں مولوی صاحب نے نکاح پڑھوایا اور اس پر کوئی ریکارڈ ہی نہیں؟

اگر عرب ملک ھے تو وہاں خارجی (غیر نیشنل) کی شادی میری معلومات کے مطابق مسجد میں نہیں بلکہ شرعی کورٹ میں ہوتی ھے۔

اگر یورپ ھے تو پھر یہاں ایک شادی نکاح کی شکل میں مولوی صاحب پڑھاتے ہیں جس پر نکاح نامہ رجسٹرڈ ہوتا ھے، دوسری کونسل میں انگلش میرج ہوتی ھے۔

19 سالہ لڑکا اگر یورپ میں آتا ھے تو انٹرمیڈیٹ کے لئے اکیلے کو ویزہ ملنا مشکل ھے اسے کمپینیئن کی ضرورت ھے، گریجوئیٹ کے لئے مل جاتا ھے، اور اگر عرب ملک ھے تو پھر وہاں کالج تک ہی پڑھائی حاصل کی جا سکتی ھے، اس سے آگے کی فیسیں ادا کرنا مشکل ھے۔

19 سال کا لڑکا لڑکی کا مولوی صاحب یا کورٹ میرج بہت مشکل ھے۔

اھل علم کے جواب کا انتظار کرتے ہیں۔

والسلام
جی آپ کی دوسری بات درست ہے کہ معلومات ادھوری دی گئیں تھیں ، اس کی وجہ یہ تھی کہ میں ٹاٹل میں حقیقی مسئلہ ہونے کا لکھ چکا تھا اس لئے اختصار کیا ، تاکہ لنک مسئلہ لڑکے کا غائب ہو جانا ، لڑکی کا بے بس ہو جانا اور لڑکے کے گھر والوں کا نکاح ماننے سے انکار کرنا اور کہنا کہ جب شادی ہی نہیں ہوئی تو طلاق کس چییز کی دیں کا کہنا ، جس نے نکاح پڑھایا اس کا مکر جانا ،یہ مسئلہ پہلے ایسے ہی بیان ہوا تھا پھر تفصیل سے لکھنے کا کہنے پر اصل مسئلہ بہت بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا تھا اس لڑکی کی طرف سے ، جس کو میں اب پڑھوں گا کہ کیا لکھا ہے ، وہ میسج اتنا بڑا ہے کہ مجھے پورا پڑھنے کی ہمت ہی نہیں ہو سکی تھی ۔ اس لئے بنیادی باتیں ذکر کر دیں تھیں یہاں ، آُ نے علمی نکات اٹھائے ، جزاک اللہ خیرا ، میں مفصل کو ٹھوس اخصار سے پھر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں ، پورا مسیج پڑھنے کے بعد ،

گو کنعان بھائی کے تمام نکات اہم ہے اور بظاہر یہ مسئلہ ”غیر حقیقی“ ہی لگتا ہے۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ”وقوعہ“ تو ہوا ہو، لیکن راوی کے پاس اس کی درست معلومات نہ ہوں۔ تاہم تفاصیل سے قطع نظر اگر یہ شادی ”منعقد“ ہوئی ہے اور اس کے بعد لڑکا غائب ہوگیا ہے اور طلاق دینے پر بھی راضی نہیں ہے تو اب لڑکی کے پاس درج ذیل دو ہی ”راستے“ موجود ہیں۔
  1. اس شادی میں چونکہ لڑکی کے ولی شریک نہیں ہوئے، لہٰذا شرعاً یہ شادی ہی “منعقد“ نہیں ہوئی۔ اب تک لڑکا اور لڑکی ”زنا“ میں ملوث رہے ہیں۔ اب لڑکی کو چاہئے کہ وہ توبہ کرے۔ چونکہ اس کا نکاح ہی نہیں ہوا، لہٰذا اسے دوسری جگہ شادی کے لئے طلاق کی ضرورت نہیں ہے ۔
  2. بعض فقہا کے نزدیک لڑکی کے ولی کی رضامندی کے بغیر بھی نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں لڑکی اب کہیں اور شادی نہیں کرسکتی، الا یہ کہ وہ اپنے شوہر سے طلاق، خلع یا تنسیخ نکاح کے ذریعہ شرعاً علیحدہ ہوجائے، ۔ چونکہ لڑکا طلاق دینے پر رضامند نہیں ہے، لہٰذا پاکستان میں کورٹ کے ذریعہ رجوع کیا جائے۔ پاکستانی عدالت لڑکی کی ”شادی کی غیر مصدقہ تفاصیل“ کو نظر انداز کرتے ہوئے یقیناً لڑکی کی ”مدد“ کرے گی اور عدالت میں اگر لڑکا پیش نہ ہوا تب بھی عدالت دو چار نوٹسز کے بعد نکاح کی تنسیخ کا اعلان کردے گی۔ جس کے بعد لڑکی کہیں اور شادی کرسکتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
میں نے یہی دونوں جواب اس کے سامنے رکھے تھے ، لیکن اس نے رٹ لگائی ہوئی تھی کہ بہت سارے افراد و علماء کے مطابق ان کا نکاح ٹھیک تھا جب دوران شادی انہوں نے اپنا شک دور کرنا چاہا تھا ، اب میرے خیال میں صورت حال یہی ہے کہ وہ پاکستان میں عدالت سے رجوع کرے ،،، ایک دفعہ مفصل کو ٹھوس اختصار سے کے یہاں لکھوں گا ، ضرور راہنمائی کیجئے گا تب بھی ، جزاک اللہ خیرا جناب
مسیار کےساتھ اس صورت حال کا کوئی تعلق نظر نہیں آرہا۔ اگر واقعتا یہ صورت پیش آئی ہے تو یہ ’’ تعلیق ‘‘ کے قریب تر ہے ۔ جس کا حل یہی ہے کہ عدالت سے رجوع کیا جائے ۔ عورت کو چاہیے کسی محرم رشتہ دار کے ساتھ خود کسی مفتی صاحب کے پاس جاکر صورت حال واضح کرے اور ان سے مسئلہ پوچھے ۔
جزاک اللہ خیرا محترم ، میرے اگلے ریپلائے پر آپ بھی ضرور ایک نظر ڈالئیے گا جو میں صورت حال واضح کرنے کے لئے جلد لکھوں گا ،
 
Top