• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک عظیم ظلم۔۔۔۔شرک

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
ایک عظیم ظلم۔۔۔۔شرک

(قرآن کی رو سے)​
کل رات ایک دوست کہہ رہا تھا کہ قرآن و حدیث میں شر ک کی تعریف ہی نہیں ہے ، ایک عام آدمی کی بات زیادہ فکر مند نہیں کرتی ، لیکن جس میرے شیخ نے یہ بات کہی تھی وہ خود ایک عالم دین ہیں۔ خیر میں نے تو اسے جو بھی مثالیں دیں اس نے ہر بار یہی کہا کہ یہ تعریف نہیں بلکہ اس کی وضاحت ہے۔ میں جس بات سے متجسس ہوا کہ اتنا بڑا گناہ جسے اللہ تعالیٰ نے عظیم ظلم کہا ہے ، میرے محترم اس کی قرآ ن و حدیث سے تعریف ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں۔ پھر میں نے اسے ایک مثال دی ، میں نے پوچھا کہ ’’بقرۃ‘ کس زبان کا لفظ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہ عربی النسل ہے، میں نے کہا:جب ہم اس کا اردو ترجمہ کریں گے تو کیا کریں گے؟ اس نے کہا:گائے، پھر میں نے پوچھا کہ شرک کس زبان کا لفظ ہے؟ اس نے کہا:عربی، میں نے پھر پوچھا کہ اس کا اردو ترجمہ آپ ہی کر دیں، اس نے کہا: ساجھی دار، حصہ دار، شراکت داری دینا ، پھر میں نے اپنی بات کی وضاحت کی کہ قرآن جب کہتا ہے کہ اللہ کا کو ئی ہمسر نہیں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ تو اس کا اردو ہی اس کی تعریف(Definition) ہے۔ مثلاُ اس کا کوئی شریک نہیں کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی کی ذات ، صفات میں کوئی اس کا حصے دار نہیں۔ اور یہ بہت ہی بڑا گناہ ہے ہم لوگ کئی طرح سے اس کے مرتکب ہوتے، بہت سے لوگ تو انجانے میں شرک میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ بلکہ ایک بڑی تعداد تواس بات سے پوری طرح ناواقف ہے ، اور جو لوگ عالم ہونے کے باوجود شرک کے مرتکب ہوتے ہیں ،اگر انہیں احساس دلانے کی کوشش کی جائے تو وہ غصہ کرتے ہیں او رخود کو ٹھیک تصور کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ درباروں پہ جاکر شر ک کرتے ہیں بزگوں سے مانگتے جو کہ فوت ہو چکے ہیں اور وہ تو اپنی ہی مغفرت کی گارنٹی نہیں دے سکتے تو ہمیں کیا عطا کرسکیں گیں۔اور ایسے لوگ جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ ہم ان سے کہاں مانگتے ہیں ہم تواللہ کے نیک بندوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اللہ سے ہماری سفارش کردیں ۔وہ تو مرنے کے بعد اپنی ہی سفارش کرنے کے قابل نہیں توکسی اور کی سفارش کیسےٍ ہوگی۔ لیکن یہ ہے کہ مشرک(شرک کرنے ولے) کی عقل ہی کام نہیں کرتی ورنہ بات تو اس میں پچیدہ کوئی بھی نہیں ہے، سب واضح ہے۔ کچھ لوگ یا علی مدد، علی مولی ، یا رسول اللہ کہتے ہیں، توایسا کہنا بھی شرک ہے۔ پنجتن پاک، نبی پاک کے صدقے یہ بھی سب جملے جو ہم دعا یا تبرک سمجھ کر بولتے ہیں، یہ بھی سب شرک کے زمرے میں آتے ہیں۔
ارشاداتِ خداوندی:
سورة لقمان(31)
وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ (12) وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (13)
’’ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کا شکر گزار ہو ۔ جو کوئی شکر کرے اُس کا شکر اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے ۔ اور جو کوئی کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے۔
یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اُس نے کہا “ بیٹا ! خُدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
سورة النساء (4)
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا (48)
’’اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھیرایا اُس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی۔‘‘
سورة النساء (4)
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًا (116)
’’اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتاہے جسے وہ معاف کرنا چاہے۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔‘‘
سورة المائدة ( 5 )
إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّهُ عَلَيهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ (72)
’’ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا اُس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے او ر ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔‘‘
سورة الزمر (39)
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ {65} بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُن مِّنْ الشَّاكِرِينَ (66)
’’ )اے نبیؐ )تمہاری طرف اور تم سے پہلےگزرے ہوئے تمام انبیاء کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گا اور تم خسارے میں رہوگے۔ لہٰذا تم بس اللہ ہی کی بندگی کرو اور شکر گزار بندوں میں سے ہو جاؤ۔‘‘
سورة التوبة ( 9 )
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ۔۔۔ (28)
’’ اے ایمان لانے والو!مشرکین ناپاک ہیں۔‘‘
سورة يوسف (12)
وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللّهِ إِلاَّ وَهُم مُّشْرِكُونَ (106)
’’ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیراتے ہیں۔‘‘
سورة مريم ( 19)
إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُوْلَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا (60)
’’البتہ جو توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عملی اختیار کر لیں وہ جنّت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرّہ برابر حق تلفی نہ ہو گی۔ ‘‘
میں نے صرف قرآن پاک کی آیات کا حوالہ دے کر یہاں پر شرک کے متعلق کچھ آیت درج کی ہیں جن سے شرک کی سزا اور شرک کتنا بڑا گناہ ہے اس بات کا واضح پتہ چل رہا ہٰے۔
اللہ پاک کلمہ پڑھنے ولے ہر شخص کو ایک دن معاف فرما کر ضرور جنت میں لے آئیں گے سوائے اس کے کہ جس نے اللہ تعالیٰ سے شرک کیا ہو۔
اللہ پاک ہم سب کو شر ک جیسے تباہ کن گناہ سے محفوظ فرائے اور علم و عمل میں اضافہ فرمائے(آمین)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاک اللہ و احسن الجزاء۔ کچھ لوگوں کو قرآن سے شرک کی تعریف نہیں ملتی۔ تو کچھ یہ فرماتے ہیں کہ اس امت میں شرک ہو ہی نہیں سکتا۔ اور جب ثبوت کے طور پر قرآنی آیات پیش کی جاتی ہیں کہ بھائی جب اس امت میں شرک ہونا ہی نہیں تھا تو قرآن کی اتنی ساری آیات شرک کی مذمّت میں کیوں اتریں؟ تو ہمارے یہ بھائی کہتے ہیں کہ اتنی ساری آیات اتری ہیں اسی لئے تو شرک کا وجود نہیں ہے! بڑی عجیب بات ہے کہ نماز کے تعلق سے بھی بہت آیات اتریں لیکن بے نمازیوں کا وجود ختم نہ ہو سکا۔ گویا قرآن کی آیات کا بے معنی ہونا (نعوذ باللہ) ثابت ہو جائے تو ان کی بلا سے، لیکن امت میں شرک کو ماننا نہیں! جبکہ یہی معترضین عیسائیوں ، ہندوؤں اور یہودیوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ماننے کے باوجود ان کو مشرک بھی مانتے ہیں!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جزاک اللہ و احسن الجزاء۔ کچھ لوگوں کو قرآن سے شرک کی تعریف نہیں ملتی۔ تو کچھ یہ فرماتے ہیں کہ اس امت میں شرک ہو ہی نہیں سکتا۔ اور جب ثبوت کے طور پر قرآنی آیات پیش کی جاتی ہیں کہ بھائی جب اس امت میں شرک ہونا ہی نہیں تھا تو قرآن کی اتنی ساری آیات شرک کی مذمّت میں کیوں اتریں؟ تو ہمارے یہ بھائی کہتے ہیں کہ اتنی ساری آیات اتری ہیں اسی لئے تو شرک کا وجود نہیں ہے! بڑی عجیب بات ہے کہ نماز کے تعلق سے بھی بہت آیات اتریں لیکن بے نمازیوں کا وجود ختم نہ ہو سکا۔ گویا قرآن کی آیات کا بے معنی ہونا (نعوذ باللہ) ثابت ہو جائے تو ان کی بلا سے، لیکن امت میں شرک کو ماننا نہیں! جبکہ یہی معترضین عیسائیوں ، ہندوؤں اور یہودیوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ماننے کے باوجود ان کو مشرک بھی مانتے ہیں!
بہت خوب! شاکر بھائی! جزاکم اللہ خیرا!
آیت کریمہ: ﴿ وما يؤمن أكثرهم بالله إلا وهم مشركون ﴾ ... سورة یوسف کہ ’’ان میں اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے، مگر وہ مشرک ہوتے ہیں۔‘‘ کے بعد بھی اگر کوئی کہے کہ اس امت میں شرک نہیں ہو سکتا، تو پھر اس کی عقل کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
 

ابوعمر

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
66
ری ایکشن اسکور
358
پوائنٹ
71
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

جزاک اللہ! رانا ابو بکر بھائی! ماشاءاللہ بہت مفید پوسٹ ہے ۔

اس کے علاوہ میں انس نضر بھائی سے ایک بات یہ بھی پوچھنا چاہوں گا کہ بہت سے کلمہ گو مشرک، اہل توحید کو الزاماً یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کفار اور مشرکین کے متعلق اتاری گئی آیتوں کا مسلمانوں پرچسپاں کرتے ہیں۔ کیا کفار اور مشرکین کے متعلق اتاری گئی آیات کا اطلاق کلمہ گو مشرکین پر نہیں ہوتا؟

جزاک اللہ
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اس کے علاوہ میں انس نضر بھائی سے ایک بات یہ بھی پوچھنا چاہوں گا کہ بہت سے کلمہ گو مشرک، اہل توحید کو الزاماً یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کفار اور مشرکین کے متعلق اتاری گئی آیتوں کا مسلمانوں پرچسپاں کرتے ہیں۔ کیا کفار اور مشرکین کے متعلق اتاری گئی آیات کا اطلاق کلمہ گو مشرکین پر نہیں ہوتا؟
جزاک اللہ
ابو عمر بھائی!
میری ناقص رائے میں قرآن کریم اور احادیث مبارکہ گروہوں اور جماعتوں کو فوکس نہیں کرتیں، بلکہ ان میں حلال وحرام اور کیا چیز صحیح ہے اور کیا غلط کی بات ہوتی ہے۔ اگر ہم نصوص کا جائزہ لیں تو سزا یا جزا اور لعنت وملامت وغیرہ سب احکامات اچھے یا برے افعال پر لگائے گئے ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر لعنت کی تو فرمایا کہ ان کا نام لینے کی بجائے فرمایا:

﴿ إٍنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ﴾ ... سورة البقرة ١٥٩
کہ ’’جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، درآں حالیکہ ہم انہیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی اُن پر لعنت بھیجتے ہیں۔‘‘​
تو گویا یہودیوں پر نہیں بلکہ ہر علم کو چھپانے والے پر لعنت کی گئی۔ اسی طرح دیگر مثالیں بھی دی جاسکتی ہے۔ نبی کریمﷺ بھی جب بعض لوگوں کی غلطی واضح کرنا چاہتے ان مخصوص لوگوں کو پوائنٹ آؤٹ کیے بغیر فرماتے: « ما بال أقوام يفعلون كذا وكذا » گویا اصل زور فعل شنیع پر ہوتا، نہ کہ کرنے والی جماعت پر، بلکہ اس جماعت یا ان لوگوں کی پردہ پوشی کی ہی ترغیب ہمیں دی گئی۔
بلکہ شریعت کی نصوص میں جب مؤمنین، منافقین یا کفار کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اس سے کچھ مخصوص لوگ مراد نہیں ہوتے ہر ایمان لانے والا، ہر نفاق کا مظاہرہ کرنے والا، ہر انکار کرنے والا مراد ہوتا ہے۔ وگرنہ اگر اس طرح ہم نصوص کو مخصوص گرہوں پر چسپاں کرتے رہے تو پھر صحابہ کرام ﷢ کے بعد آنے والے لوگوں کیلئے ایک لحاظ سے تمام شریعت کالعدم ہوجائے گی۔ کیونکہ ہر شخص یہی دعویٰ کرے گا کہ یہ آیت مبارکہ تو فلاں کافر یا منافق کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اس کا اطلاق مجھ پر کیسے ہوسکتا ہے، اسی لئے علماء کے ہاں ایک قاعدہ بہت معروف ہے: (العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب) کہ ’’اعتبار نص میں موجود لفظوں کی عمومیت کا ہوتا ہے، نہ کہ کسی مخصوص واقعہ کا (جس کی سبب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔)‘‘ یعنی اگر قرآن کریم میں چوری کی سزا کا ذکر کیا گیا ہے تو نبی کریمﷺ کے دور میں پیش آنے والے واقعات پر چوری کی سزا آسمان سے نازل ہوئی۔ تو کیا آج کسی کو چوری کی سزا نہیں دی جا سکتی؟ اس بناء پر کہ یہ آیات تو صرف فلاں فلاں چور کے متعلق نازل ہوئی تھیں۔ سورۃ المجادلہ میں موجود ظہار کا حکم سیدنا اوس بن صامت﷜ اور ان کی بیوی خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کے متعلق نازل ہوا تھا۔ کیا اس حکم کو صرف انہی کے ساتھ خاص کر کے آئندہ کیلئے اس حکم کو کالعدم قرار دے دیا جائے؟؟؟ زنا کی سزا مخصوص لوگوں کیلئے نازل ہوئی تھی، کیا آج اس کا اطلاق نہیں ہوگا؟؟؟ اس طرح تو شریعت بازیچۂ اطفال بن جائے گی۔
تو یہ ایک شیطانی چال اور وسوسہ ہے کہ وہ تمام آیات جو کفار ومشرکین کے متعلّق نازل ہوئیں وہ انہی کے ساتھ خاص ہیں، ان کا آج کے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ میرا سوال ہے ان لوگوں سے کہ فرمانات نبویﷺ: «من حلف بغير الله فقد أشرك»، «من علق تميمة فقد أشرك»، «بين العبد و بين الكفر و الإيمان الصلاة ، فإذا تركها فقد أشرك»، «من ردته الطيرة عن حاجته ، فقد أشرك»، «أيما عبد أبق من مواليه فقد كفر حتى يرجع إليهم»، «من أتى حائضا ، أو امرأة في دبرها ، أو كاهنا فصدقه ؛ فقد كفر بما أنزل على محمد»، «من أعطي عطاء فوجد فليجز به ، ومن لم يجد فليثن ، فإن من أثنى فقد شكر ، ومن كتم فقد كفر ، ومن تحلى بما لم يعطه كان كلابس ثوبي زور»، «من أتى النساء في أعجازهن ؛ فقد كفر»، «من ادعى لغير أبيه وهو يعلم فقد كفر ، ومن ادعى قوما ليس هو منهم فليتبوأ مقعده من النار ، ومن دعا رجلا بالكفر ، أو قال : عدو الله ، وليس كذلك إلا حارت عليه »، «إذا قال للآخر : كافر ، فقد كفر أحدهما ، إن كان الذى قال له كافرا ؛ فقد صدق ؛ وإن لم يكن كما قال له فقد باء الذى قال له بالكفر» وغیرہ وغیرہ ان کفر وشرک کے احکامات کو کیا صرف نبی کریمﷺ کے دور کے کفار ومشرکین پر لاگو کیا جائے گا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
واضح رہے کہ جاويد احمد غامدی صاحب کا طریقہ واردات بھی یہی ہے، وہ جہاد کو بنی اسمٰعیل کے ساتھ، پردہ کو صرف امہات المؤمنین کے ساتھ اور دیگر کئی احکامات کو اسی دور کے ساتھ خاص کر کے ان سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، جو ایک انتہائی مذموم فعل ہے، اور یہی طریقہ کار غلام احمد پرویز کا بھی ہے کہ نبی کریمﷺ کی حیثیت صرف اس دور کے ایک حکمران (مرکز ملت) کی تھی لہٰذا ان کی تمام تشریحات (احادیث مبارکہ) اس ’دقیانوسی دَور‘ کے ساتھ خاص ہیں، تو جس طرح انہوں نے قرآن کی تشریح کی، اسی طرح آج کے حکمران خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں، مرکز ملت کے طور جدید دَور کے مطابق (انگریزوں کے مطابق) قرآن پاک کی تفسیر (تحریف) کا مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ والعیاذ باللہ!
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
ماشاء اللہ آپ نے نہایت ہی عمدہ طریقے سے وضاحت کردی ہے جو میرے خیال میں پیاسے کی سیرابی کے لئے کافی ہے۔۔! جزاک اللہ خیرا کثیرا انس بھائی جان۔
 
Top