• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مجلس کی تین طلاق اور خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
ایک مجلس کی تین طلاق اور خلیفہ راشد حضرت عمر

محترم محفل کے محترم بھائیو یہ دھاگہ شاکر بھائی کے مشورہ سے شروع کر رہا ہوں مقصد اس کا میرے اور میرے جیسے بے شمار بھائیوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے لا تعداد سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہے۔
جیسا کہ سب ہی جانتے ہیں کہ یہ وہ قانون ہے کہ جس کو خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شدت سے نافذ کروایا، اس بات کو ہر طبقہ ہی تسلیم کرتا ہے۔
مگر اختلاف آتا ہے کہ یہ ان کا ذاتی اجتہاد تھا اور انہوں نے عارضی طور پر نافذ کروایا، مگر اس کی دلیل اور اس کا ثبوت کسی ثقہ و مستند روایت سے ثابت نہیں، جب صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے جم غفیر کے سامنے ایک فیصلہ کا نفاذ ہو رہا ہو تو اور ہو بھی عارضی تو بہت سے صحابہ رضوان اللہ اجمعین کی واضح اور مستند روایت ہونی چاہیے تھیں کہ یہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا عارضی فیصلہ تھا۔
یہ تو ہوئی ایک بات۔
مگر دوسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ آیا یہ مسئلہ خلیفہ راشد کے اختیار میں آتا ہے کہ وہ اس میں اپنا ذاتی اجتہاد کریں اور پھر اسے نافذ کریں۔
کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں طلاق کا جو طریقہ بیان کیا ہے وہ اس طرح ہے کہ ایک طہر میں ایک طلاق اور پھر اگلے طہر میں دوسری طلاق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایک طہر میں دو طلاقوں کا محل ہی نہیں اور جب محل ہی نہیں تو دو ہوں یا تین وہ ایک کی طرف لوٹ جائیں گی اور یہی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
١۔ یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ذاتی اجہتاد سے قرآن کے بیان کردہ طریقہ کی نفی کی اور جو محل ایک طلاق کا تھا اس میں تین کو نافذ کر دیا۔
۲۔ یعنی واضح سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی اور اپنے اجتہاد کو سنت پر ترجیح دی اور نافذ کریا۔
اب دیکھیں معاشرے پر اس کے اثرات۔
ایک عورت کو ایک طہر میں تین طلاق ملی اور قرآن و سنت سے ثابت ہے کہ وہ تین طلاق نہیں بلکہ ایک ہے اور وہ اپنے خاوند پر حلال ہے کہ وہ رجوع کر کے اس سے دوبارہ تعلقات بحال کر سکتا ہے۔
مگر فتوی عمر رضی اللہ عنہ نے مذکورہ خاوند سے رجوع کا حق چھین لیا اور وہ عورت اپنے خاوند پر قرآن و سنت کے مطابق حلال ہوتے ہوئے بھی حرام ہو گئی۔
اس طرح ایک طرف تو فتویٰ عمررضی اللہ عنہ نے اللہ کا دیا ہوا حق رجوع سلب کیا، اور اللہ کی حلال کی ہوئی عورت کو حرام قرار دے دیا۔
اور حرام بھی ایسے کہ حرام قطعی یعنی جب تک وہ کسی دوسرے مرد سے شادی نہیں کرتی اپنے پہلے خاوند پر حلال نہیں ہو سکتی۔
یہ ایک اور ظلم ہوا کہ ایک ایسی عورت جس کو کہ اللہ نے حلال کیا ہوا تھا اور ایک مرد کی پناہ میں تھی اور وہ دونوں پھر سے رجوع کر سکتے تھے، کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ کسی غیر مرد کی زوجیت میں جائے اوراپنی عزت نفس کو مجروع کروا کے پھر پہلے خاوند سے شادی کرے ؟
آخر اس عورت کا جرم کیا تھا؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جزاک اللہ عمر معاویہ بھائی آپ نے ایک اور علمی پوسٹ کی شروعات کردی ہیں ۔ان شاءاللہ آپ کی شروع کردہ پوسٹ میں علماء کرام اپنے اپنے علمی خیالات کو واضح کریں گے اور بہت کچھ سیکھنے کے ساتھ بحث ومباحثہ میں خوب مزا آئے گا۔لیکن شروع پوسٹ سے ہی میں ایک دو باتوں کی طرف اشارہ کردیتا ہوں۔ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئےتمام بھائی ان شاءاللہ سنجیدگی اور دلائل صحیحہ سے بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔
1۔ذاتیات پر طعن وتشنیع،طنزیہ جملے،محبوب شخصیات پر واضح یا اشارۃ باتیں کسنا اوربحث ومباحثہ میں کسی بھی طرح شرارت کی بوپھیلانا وغیرہ۔الغرض ہر وہ بات ممنوع ہوگی ۔جو اخلاقیات کے دائرہ سے باہر ہوگی۔جس کی بھی پوسٹ اخلاقیات کے دائرہ سے باہر ہوگی اس کو نامنظور کردیا جائے گا۔
2۔فریقین میں سے ہر آدمی اپنی پوسٹ پر کیئے گئے اعتراضات کا مکمل جواب دیئے بغیر آگے نہیں جائے گا۔اگر کوئی جواب دیئے بغیر آگے بڑھنے کی کوشش بھی کرے گا تو اس کو باربار متنبہ کیاجاتا رہے گا۔اگر متنبہ کرنے کے باوجود بھی جواب دینے کی طرف نہیں سوچے گا تو اس کی نئی پوسٹ کو نامنظور کردیا جا تا رہے گا۔جب تک وہ ماقبل پوسٹ پر کیئے گئے اعتراضات کا مکمل جواب نہیں دے گا۔
3۔بات دلائل صریحہ صحیحہ کی روشنی میں کرنی ہوگی۔جس بھائی کی بھی دلیل ضعیف ہوئی اور فریق مخالف نے اس کو ضعیف ثابت کردیا تو اس کی پیش کردہ وہ ضعیف اور کمزور دلیل کو نامنظور کردیا جائے گا۔کیونکہ ہم نے تو ان باتوں کو سننا ہے اور ان پر عمل کرنا ہے جو صحیح سند سے آپ ﷺ سے ثابت ہوں۔
4۔گفتگو کو طویل کرنے کے بجائے مختصر مگر جامع گفتگو بادلائل کرنی ہوگی۔تاکہ مسئلہ الجھے بغیر سمجھ آجائے۔اور اعتراض بھی وہ کیا جائے جو اعتراض بنتا ہوں ۔بے تکے اعتراض کرنے سے بالکل گریز کیا جائے۔’’پانی ڈھلوان کی طرف بہتا ہے تو کیوں بہتا ہے‘‘ اس قبیل کے اعتراضات سے پلیز دوررہنے کی کوشش کی جائے۔
نوٹ
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہماری اصلاح فرمائے اور اتباع رسولﷺ کی مکمل توفیق عطا فرمائے۔اور صراط مستقیم کی طرف ہمارے سینے کھول دے۔آمین ثم آمین
ایک بار پھر عرض ہے کہ تمام بھائی ان باتوں پر عمل کریں گے۔ا ن شاءاللہ۔اگر کوئی بھی بھائی ان باتوں پر عمل نہیں کرے گا تو انتظامیہ کسی بھی قسم کاایکشن لے سکتی ہے ۔بعد میں کوئی بھی بھائی بات کرنے کا مجاز نہ ہوگا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
١۔ یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ذاتی اجہتاد سے قرآن کے بیان کردہ طریقہ کی نفی کی اور جو محل ایک طلاق کا تھا اس میں تین کو نافذ کر دیا۔
آپ کی یہ بات درست نہیں ہےبلکہ
مگر فتوی عمر رضی اللہ عنہ نے مذکورہ خاوند سے رجوع کا حق چھین لیا
آپ کی یہ بات درست ہے۔
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک طلاق کے محل میں تین طلاقوں کو نافذ کر دیا تو یہ بات درست نہیں ہے۔ اگر اصول فقہ سے آپ کو کچھ شغف ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ حکم وضعی کی بحث میں ایک بحث ’سبب‘ کی بھی ہے یعنی سبب حکم شرعی کی ایک قسم ہے۔اس کو ایک مثال سے سمجھیں کہ سورج کے ڈھلنے کو ظہر کی نماز کا سبب بنایا گیاہے یا آسان الفاظ میں فجر ، ظہر اور عصر کی نمازوں کے اوقات متعین ہیں۔ اگر کوئی شخص فجر کے وقت میں ظہر اور عصر کی نماز پڑھ لے تو اسے یہی کہا جائے گا کہ تمہاری نماز نہیں ہوئی ہے کیونکہ ہر نماز کی ادائیگی اس کے شریعت کی طرف سے طے کردہ وقت میں ضروری ہے۔ پس تین طلاقوں کے لیے تین اوقات مثل سبب کے ہیں اور جب سبب موجود ہو گا تو مسبب ہو گا یعنی شرعی حکم ہو گا۔ سبب کی عدم موجودگی میں مسبب بھی نہیں ہو گا کیونکہ سبب کی تعریف ہی یہی ہے کہ جس کے وجود سے حکم کا وجود اور جس کے عدم سےحکم کا عدم لازم آئے۔جب یہ مان لیا جائے کہ اللہ تعالی نے دوسری طلاق کے لیے کسی دوسرے طہر کو بطور وقت مقرر کیا ہے تو جب دوسری طلاق کا وقت نہیں آیا ہے یعنی دوسرا طہر تو وہ طلاق کیسے واقع ہو جائے گی ۔ یا تو یہ مانا جائے کہ اللہ تعالی نے دوسری طلاق کے کسی دوسری طہر کو بطور وقت مقرر نہیں کیا ہے تو پھر ایک مجلس کی تین طلاقوں کا نتیجہ نکالنا درست معلوم ہوتا ہے۔
کسی شرعی حکم کی تفہیم کے لیے بعض حضرات دنیاوی مثالیں دینا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ دنیا کے احکام کو دین پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ پس شرعی حکم کی تفہیم کے لیے کسی دوسرے شرعی حکم ہی کی مثال دی جائے اور دوسرا شرعی حکم بھی ایسا ہو جو اسی ضابطہ کے تحت ہو جس ضابطہ کے تحت پہلا حکم بیان ہو رہا ہے۔ ہم نے مذکورہ بالا مثال میں یہ بات واضح کی ہے کہ ایک وقت میں تین نمازوں کو جمع کرنا اور ایک وقت میں تین طلاقوں کو جمع کرنا ایک ہی شرعی ضابطہ کے تحت داخل ہے جسے ہم سبب ومسبب یا حکم وضعی کی بحث کہتے ہیں۔ اگر کسی کو اس مثال سےاختلاف ہو تو اصول فقہ کے اس ضابطہ اور اس کی تعریف کی روشنی میں ان دونوں مثالوں کے مابین فرق کی وضاحت کرے۔
پہلی طلاق کا وقت یا سبب طہر ہے جبکہ دوسری طلاق کا وقت یا سبب دوسرا طہر ہے اور تیسری طلاق کا وقت یا سبب تیسرا طہر ہے لہذا جب آپ نے یہ مان لیا کہ شریعت نے تین طلاقوں کے لیے متفرق تین طہر کو بطور وقت مقرر کیا ہے تو جب وہ طہر یعنی سبب موجود ہو گا تو طلاق واقع ہو گی اور اگر تو آپ یہ نہ مانتے ہوں کہ تین طلاق کے لیے تین متفرق طہر کو وقت یا سبب بنایا گیا ہے تو پھر آپ اس نتیجے میں حق بجانب ہیں جو آپ نکال رہے ہیں۔پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا بالکل بھی نہیں کیا ہے کہ ایک طلاق کو تین بنا کر نافذ کر دیا بلکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام ابن قیم رحمہ اللہ اور اہل الحدیث اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ایک ہی طلاق شمار کیا تھا لیکن ایک طلاق کے بعد مرد کے پاس جو رجوع کا حق تھا، اس پر یہ پابندی عائد کر دی تھی کہ ہم تمہیں رجوع نہیں کرنے دیں گے۔اس لیے میں نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ آپ کی دوسری عبارت میں جو تعبیر ہے وہ درست تعبیر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حق رجوع واپس لے لیا تھا۔
٢۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ اختیار تھا کہ جس کو قرآن نے رجوع کا حق دیا ہے تو اس سے رجوع کا حق واپس لے لیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا اختیار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بالکل بھی نہیں تھا تو پھر ان کے اس فعل کی کیا صحیح توجیہ ہے؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جو اختیار تھا وہ کتاب وسنت کے نفاذ کا تھا۔ اگر آپ کو اصول فقہ سے شغف ہے تو میری بات بہت ہی آسان ہو جائے گی کہ کتاب وسنت کے احکام کے نفاذ میں مصلحت، سد الذرائع، عرف وغیرہ جیسے قواعد عامہ کا لحاظ رکھنا شریعت سے ثابت ہے۔بلکہ اس سے بھی آسان بات کہوں کہ شرعی حکم کی اقسام میں سے ایک قسم ’مانع‘ کہلاتی ہے۔ ’مانع‘ کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات ایک شرعی حکم کا اطلاق کسی ’مانع‘ کی وجہ سے نہیں کیا جاتا ہے جیسا کہ وراثت کا منتقل ہونا ایک شرعی حکم ہے لیکن ”قتل‘ اس میں مانع ہے اور اگر کوئی بیٹا اپنے باپ کو قتل کر دے تو وہ اپنے باپ کا وارث نہیں بنے گا اگرچہ وہ اس کا وارث ہے۔ یہاں وراثت کے شرعی حکم کے اطلاق اور ایپلیکیشن میں ایک مانع کی وجہ سے اس حکم کا اطلاق نہ ہوا۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں انہوں نے چوری کی حد ساقط کر دی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حد کے نفاذ میں ایک مانع موجود تھااور وہ مانع قحط سالی تھی جس کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قطع ید کے قرآنی حکم کی تطبیق نہ کی اور چور کے ہاتھ نہ کاٹے ۔ اور اس قسم کے مسائل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بہت ہیں کہ جن میں بظاہر نصوص کی خلاف ورزی ہے ۔ انہیں اہل علم ”اولیات عمر“ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔
پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کے دیے ہوئے رجوع کے حق کو ختم نہیں کیا ، اگر ختم کیا ہوتا تو ایک مجلس میں ایک طلاق دینے والے کو بھی رجوع کاحق نہ ہوتا بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کی صورت میں یہ اجتہاد فرمایا ہے کہ ایسے شخص کو رجوع کا حق دینے میں ایک مانع موجود ہے اور وہ مانع شریعت کا مذاق اڑانا ہے۔پس شریعت نے ایک طلاق کی صورت میں آسانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طلاق دینے والے شخص کو رجوع کا جو حق دیا تھ، اسی حق رجوع میں اس شرعی حکم کا مذاق اڑانا ایک مانع بن گیا۔دوسرے الفاظ میں ایک رحمت یا آسانی والے قانون سے کیا اس شخص کو فائدہ اٹھانے کا حق ہے جس نے اسی قانون کو کھیل تماشا بنا لیا ہو تو اس بارے صحابہ کرام اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ جاری ہوا کہ کسی شرعی حکم یا قانون کا مذاق اڑانا اس شرعی حکم یا قانون کی نرمیوں اور آسانیوں سے فائدہ اٹھانے میں ایک مانع ہے۔یہ حضرت عمر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس فیصلہ کی توجیہ ہے۔
یہ واضح رہے کہ اجتہاد کی دو صورتیں ہیں ایک تو قرآن وسنت کی وسعتوں اور گہرائیوں میں کسی شرعی حکم کی تلاش اور دوسرا اس شرعی حکم کی کسی فقہ الواقع پر تطبیق بھی اجتہاد کہلاتی ہے اور اہل الحدیث کے نزدیک اجتہاد کی غالب صورت کتاب وسنت کے احکام کے تطبیق کے اجتہاد کی ہے جسے شرعی اصطلاح میں فقہ الاحکام کو فقہ الواقع پر لاگو کرنا کہتے ہیں۔فقہ الاحکام سے مراد کتاب وسنت ہے اور فقہ الواقع سے مراد وہ قوعہ ہے جس پر کتاب وسنت کی کسی نص کا اطلاق کیا جاتا ہے۔پس کتاب وسنت کے اطلاق میں یہاں اجتہاد ہوا ہے یعنی کتاب وسنت کے احکامات کے اطلاق کی کچھ شرائط، اسباب اور موانع ہوتے ہیں ، اگر وہ پورے ہوں تواس حکم کی تطبیق ہوتی ہے اور اگر کوئی شرط یا سبب مفقود ہو یا کوئی مانع موجود ہو تو شرعی حکم کی تطبیق نہیں ہوتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
میری ناقص رائے میں کسی بھی مسئلہ بھی مفید گفت وشنید کرنا ہو تو دلائل کی ابتداء قرآن کریم اور سنت (صحیح احادیث مبارکہ) سے کرنی چاہئے، صحابہ کرام﷢ کے اقوال کو تائید یا مزید وضاحت کے طور پر پیش کرنا چاہئے۔ لہٰذا مجھے اس پوسٹ کے عنوان پر اعتراض ہے۔
واضح رہے کہ میں اس بارے میں سیدنا عمر﷜ کے تین اکٹھی طلاق دینے پر رجوع کی اجازت نہ دینے کے وقتی فیصلے پر بحث ومباحثہ کا شدّت سے قائل ہوں، لیکن اصل دلائل کے بعد! کیا خیال ہے؟
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
جزاک اللہ ابوالحسن بھائی !
سب سے پہلے تو میں شاکر بھائی کا شکریہ ادا کروں گا کہ انہوں نے اصول و قواعد واضح کیے، میں تو اس پر یقین رکھتا ہوں کہ ہم تمام امتوں سے افضل امت سے تعلق رکھتے ہیں اور اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں کہ جو سراپا اخلاق تھے سو کیا وجہ ہو کہ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی سی پیروی بھی نہ کر سکیں ، ان شا اللہ میری طرف سے کسی رکن کو ایسی کوئی شکایت نہیں ہو گی کہ جس سے کسی کا دل دکھے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام ابن قیم رحمہ اللہ اور اہل الحدیث اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ایک ہی طلاق شمار کیا تھا.
اس میں مجھے اختلاف ہے ، جہاں تک امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کی بات ہے تو ان کا موقف تو یہی ہے جو آپ نے بیان کیا مگر اور اہل حدیث اہل علم والی بات درست نہیں کیونکہ
١۔ امام اہل حدیث، امام احمد بن حنبل رحمہ کا یہ موقف نہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نافذ کردہ فیصلے کو قرآن و سنت کا دائمی فیصلہ سمجھتے ہیں اور ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی قرارد دیتے ہوئے نافذ کرتے ہیں۔

۲۔ امام اہل حدیث امام مالک رحمہ کا بھی یہ موقف نہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو قرآن و سنت کے عین مطابق سمجھتے ہوئے دائمی فیصلہ جانتے ہیں اور ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی قرار دیتے ہیں۔

۳۔ امام اہل حدیث امام شافعی رحمہ کا بھی یہ موقف نہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو قرآن و سنت کے عین مطابق سمجھتے ہوئے دائمی فیصلہ جانتے ہیں اور ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی قرار دیتے ہیں۔

۴۔ بعد کے اہل حدیث حضرات میں سے امام ابن حزم بھی ایک مجلس کی تین طلاق کے نفاذ کو دائمی نفاذ جانتے ہیں ۔

۵۔ دور جدید کے سعودیہ کے شیخ عبدالوہاب نجدی بھی فیصلہ عمر رضی اللہ عنہ کو دائمی و عین قرآن و سنت کے مطابق جانتے ہیں ۔


اس لیے میں نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ آپ کی دوسری عبارت میں جو تعبیر ہے وہ درست تعبیر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حق رجوع واپس لے لیا تھا۔
اس سلسلے میں آپ نے جو مثالیں دی ہیں وہ مثالیں اور اس معاملے میں بہت ہی فرق ہے، کہ یہ حلال و حرام کا مئلہ ہے جیسا کہ اوپر میں نے عرض کیا تھا ، اس حق رجوع کے واپس لینے سے کیا اثرات ہوئے۔

١۔ کہ اللہ کی حلال کی ہوئی عورت حرام ہوئی۔
۲۔ ایک طرح سے زبردستی عورت اور مرد کو قطعی طور پر جدا کر دیا گیا ۔
۳۔ طلاق تو مرد نے دی اور رجوع والی اور عورت شاید اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہو تو اب کوئی صورت باقی نہیں ۔

تو یہ صرف سادہ سا حق رجوع سلب کرنے کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ حلت کو حرمت میں بدل دینے والا مسئلہ ہے۔
آیا خلیفہ راشد کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ نافذ کریں کہ جس کے اثرات سے حلال حرام ہو جائے۔

دوسرے یہ کہ آپ نے جو مثالیں دیں جیسے قطع ید تو دیکھیے اس سے لوگوں کو کچھ وقت کے لیے سہولت ملی، کہ اگر تنگی یا قحط میں کوئی کھانے پینے کی چیز چراتا ہے تو اس پر حد وقتی طور پر ساقط کی جاتی ہے اور یہ عین انصاف ہے؟

مگر یہاں تو اللہ کی دی ہوئی رخصت ، آسانی ختم کی جارہی ہے اور لوگوں کو سہولت نہیں دی جارہی بلکہ بد ترین مشکلات سے دوچار کیا جا رہا ہے، اور نکاح سے حلال شدہ عورت حرام قطعی قرار دی جا رہی ہے۔

٢۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ اختیار تھا کہ جس کو قرآن نے رجوع کا حق دیا ہے تو اس سے رجوع کا حق واپس لے لیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا اختیار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بالکل بھی نہیں تھا تو پھر ان کے اس فعل کی کیا صحیح توجیہ ہے؟

اسی حق رجوع میں اس شرعی حکم کا مذاق اڑانا ایک مانع بن گیا۔دوسرے الفاظ میں ایک رحمت یا آسانی والے قانون سے کیا اس شخص کو فائدہ اٹھانے کا حق ہے جس نے اسی قانون کو کھیل تماشا بنا لیا ہو تو اس بارے صحابہ کرام اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ جاری ہوا کہ کسی شرعی حکم یا قانون کا مذاق اڑانا اس شرعی حکم یا قانون کی نرمیوں اور آسانیوں سے فائدہ اٹھانے میں ایک مانع ہے۔یہ حضرت عمر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس فیصلہ کی توجیہ ہے۔
معاف کیجیے گا ایک طرف تو آپ کہہ رہے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ اختیار بالکل بھی نہیں تھا۔ اور پھر توجیہ بھی پیش کر رہے ہیں۔

جب قرآن و سنت ہی سپریم لاء ہیں اور ان میں ایک قانون کو واضح بیان کر دیا گیا ہے تو پھر کسی امتی کو یہ حق کس طرح دیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک واضح قانون کے ہوتے ہوئے اس کے متوازی قانون سازی کرے اور اللہ کا دیا ہوا حق سلب کرے۔

کیا حکم شرعی کو مذاق بنانے کی صورت میں یہ حق خلیفہ کو دیا جا سکتا ہے کہ وہ بجائے ان کو درے مارنے یا قید کرنے کے ، ان سے اللہ کا دیا ہوا حق ہی سلب کر لے، اور وہ بھی ایسے کہ اللہ کی حلال کی ہوئی عورت کو حرام ہی کر دے۔

کیا اس فیصلے سے حلال شدہ عورت حرام بلکہ حرام قطعی نہیں ہوئی ؟؟؟؟
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
میری ناقص رائے میں کسی بھی مسئلہ بھی مفید گفت وشنید کرنا ہو تو دلائل کی ابتداء قرآن کریم اور سنت (صحیح احادیث مبارکہ) سے کرنی چاہئے، صحابہ کرام﷢ کے اقوال کو تائید یا مزید وضاحت کے طور پر پیش کرنا چاہئے۔ لہٰذا مجھے اس پوسٹ کے عنوان پر اعتراض ہے۔
واضح رہے کہ میں اس بارے میں سیدنا عمر﷜ کے تین اکٹھی طلاق دینے پر رجوع کی اجازت نہ دینے کے وقتی فیصلے پر بحث ومباحثہ کا شدّت سے قائل ہوں، لیکن اصل دلائل کے بعد! کیا خیال ہے؟
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ امت کا کثیر طبقہ اور علمائے اہل حدیث کی اکثریت ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی قرار دیتی ہے، اور اس کو عین قرآن و سنت کے مطابق قرار دیتی ہے، دوسری طرف کچھ اہل حدیث حضرات اس موقف کو قرآن و سنت سے ہٹا ہوا قرار دیتے ہیں، اور اس کی زد میں بے شمار ائمہ اہل حدیث ، و صحابہ بالخصوص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ذات آتی ہے، سو اس موضوع کو شروع کرنے کا مقصد ائمہ اہل حدیث و سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نافذ کردہ فیصلے کودیکھنا ہے کہ آیا یہ ان کا اختیار میں تھا بھی یا نہیں ؟ جب مسئلہ کی نوعیت طے ہو جائے تو پھر دلائل بھی دیے جائیں گے۔
میرے خیال میں تو یہ خلیفہ راشد کے دائرہ کار سے ہی باہر ہے کہ وہ اللہ کی دی ہوئی سہولت ختم کرے، ایسی سہولت کے جس سے حلال قطعی حرام قطعی ہو جائے۔
جب اس کا فیصلہ ہو جائے گا کہ آیا یہ حلال و حرام کا مسئلہ ہے یا نہیں تو پھر مزید بات چلے گی۔
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
مسئلے کی نوعیت سمجھنے کے لیے حکیم عبدالرحمٰن خلیق صاحب کی کتاب 12 مسائل سے چند اقتباسات پیش کر رہا ہوں دیکھیں کہ کیا یہ مسئلہ صرف سادہ سا اجتہادی مسئلہ ہے یا گھمبیر حلال و حرام کا مسئلہ۔

مذکورہ کتاب کے صفحہ 228 پر رقم ہے کہ حدیث رسول پاک کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کا اپنی بیوی کو ایک ہی وقت میں اور بیک بار یہ کہنا کہ تجھے تین طلاق ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے خلاف ہے اور اس طرح کہنے سے تین طلاق موثر بھی نہیں ہوتیی، بلکہ وہ خواہ اسے تین چھوڑ تین ہزار بار بھی طلاق طلاق کہتا رہے وہ ایک ہی رجعی طلاق شمار ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں تین طلاق دینے کو نہ صرف نا پسند کیا ہے بلکہ اس کے خلاف اظہار و رنج و غضب بھی فرمایا ہے۔

سوال اٹھتا ہے اتنی سخت تہدید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نا پسندیدگی اور اظہار غضب کے باوجود کیا خلیفہ کو ایسا فتویٰ جاری کرنے کا حق ہوتا ہے۔ اس میں آپ نے اوپر فیصلہ عمر کے بارے میں جو توجیہ پیش کی ہے اس کا بھی جواب ہے کہ اللہ کے رسول نے کہا کہ میری زندگی میں کتاب اللہ سے کھیلا جا رہا ہے اور غضب ناک ہوئے مگر اس کے باوجود حق رجوع سلب نہ کیا ، اس طرح اس طرح کے مسئلہ میں ایک نظیر پیدا ہو گئی کہ کتاب اللہ سے کھیلنے کے باوجود اللہ کے نبی نے اللہ کا دیا ہوا حق سلب نہ کیا اور نہ ہی حلال کو حرام کیا پھر کسی امتی خلیفہ کس طرح ایک واضح مثال اور قانون اور سنت نبوی کے ہوتے ہوئے شریعت سے مذاق کو بنیاد بنا کر حق رجوع سلب کرتا ہے اور حلال کو حرام کرتا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

صفحہ 229 پر رقم ہے کہ ایک ہی وقت میں دی گئی تین طلاق کو تین قرار دے لینا نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں غلط اور منشائے رب العالمین کے خلاف ہے۔

سوال اٹھتا ہے کہ جو بات ہم امتیوں کے دلوں میں اللہ نے ڈالی اور مذکورہ بالا عبارت لکھوائی کیا کلہم عدول صحابہ کے ذہنوں میں نہ تھی، کہ یہ منشائے رب العالمین کے خلاف ہے، اور جو بات منشائے رب العالمین کے خلاف ہو اس کو نافذ کرنے کا حق کسی امتی کو کس طرح دیا جا سکتا ہے؟؟؟؟؟

صفحہ 234 پر رقم ہے یہ بڑی معمولی سے بات ہے بڑی آسان بھی ہے مگر حیرت ہے کہ اتنی عام اتنی معمولی اور اتنی آسان بات ہمارے حنفی بھائیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔

سوال اٹھتا ہے درست کہا حنفی بھائیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی مگر کیوں نہیں آ رہی کہ خلیفہ راشد جس کو بخاری و مسلم کے حوالے سے اس امت کا محث کہا گیا ، کہ اللہ نے جس کی زبان پر حق و باطل جاری کر دیا ، کہ جس کے راستے کو شیطان چھوڑ دیتا ہے، کی سمجھ میں بھی نہیں آئی اور جو اس کی سمجھ میں آیا اسی کو صحابہ کی جماعت نے اختیار کیا اور بلند پایہ اہل حدیث ائمہ نے اختیار کیا۔

اسی صحفے پر مزید رقم ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی طلاق قرار دینے کا خلاف منشائے ربانی اور خلاف سنت فعل اپنے نتیجہ کے اعتبار سے تین قسم کی خطرناک ہلاکتوں پر منتج ہوتا ہے۔

سوال اٹھتا ہے کہ یہ عبارت کیا ظاہر کرتی ہے کہ خلیفہ راشد نے خلاف منشائے ربانی اور خلاف سنت فعل نافذ کیا کہ جس کے نتائج خطرناک ہلاکتوں پر ختم ہوتے ہیں۔ کیا ہم جس خلیفہ کو خلیفہ راشد اور فاروق کہیں اس سے ایسے فیصلے کی توقع کر سکتے ہیں اور اس کو ایسا فیصلہ کرنے کی شریعت اجازت دیتی ہے۔

ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی قرار دے لینے کے نتیجہ میں جو پہلی ہلاکت درپیش ہے وہ یہ ہے کہ طلاق کا یہ طریقہ اللہ تعالیٰ کی منشاء اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے صریحا خلاف ہے۔

سوال اٹھتا ہے کہ کیا کسی خلیفہ کو یہ حق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی منشاء اور رسول اللہ کی سنت کے صریحا خلاف فیصلہ کو نافذ کرے۔

صفحہ 239 پر رقم ہے کہ کیونکہ اس طلاق کو صرف حنفی مفتی حضرات ہی طلاق مغلظہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طلاق کو طلاق رجعی قرار دیتے ہیں جس میں اسی پہلے نکاح پر رجوع درست ہے اور یہ رجوع اس لیے درست ہے کہ نکاح ابھی قائم تھا اگر نکاح ختم ہو چکتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت رکانہ کو رجوع کا حکم کیوں دیتے۔

سوال اٹھتا ہے کہ جب پیغمبر اسلام ایسے معاملے میں رجوع کا حکم دے رہے ہیں اور حق رجوع سلب نہیں کرتے کیوں کہ حق رجوع اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی سہولت ہے اور اللہ نے ابھی اس عورت کو اس مرد پر حلال کیا ہوا ہے پھر کسی خلیفہ کے پاس وہ کون سا اختیار ہے کہ نہ صرف اللہ کا دیا ہوا حق رجوع سلب کرتا ہے بلکہ اللہ کی حلال کی ہوئی عورت کو حرام کر دیتا ہے،۔

کیا شریعت میں اس طرح کی اور کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
محترم بھائی عمرمعاویہ ،
آپ کی درج بالا پوسٹس میں جو اعتراضات حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر بحیثیت خلیفہ ایک شرعی حکم کے تبدیل کرنے پر کئے گئے ہیں۔ ان کے بارے میں مہربانی فرما کر یہ بھی کنفرم کر دیں کہ احناف پر یہی اعتراضات کیوں نہیں لاگو ہوتے۔ یعنی کیا آپ کا نظریہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کسی شرعی حکم میں کوئی تبدیلی کی ہی نہیں تھی؟ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دور سے ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی سمجھا جاتا تھا؟ تب تو واقعی درج بالا اعتراضات صرف اہلحدیث پر ہی لاگو ہوتے ہیں۔

پھر کسی خلیفہ کے پاس وہ کون سا اختیار ہے کہ نہ صرف اللہ کا دیا ہوا حق رجوع سلب کرتا ہے بلکہ اللہ کی حلال کی ہوئی عورت کو حرام کر دیتا ہے،۔

کیا شریعت میں اس طرح کی اور کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔
مثال کے بارے میں عرض ہے بھائی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ''حبر الامّة'' ہونے کے باوجود نکاح متعہ کے آخری عمر تک قائل رہے۔ اور اسی پر فتویٰ دیتے رہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو قرآن ہی نہیں مانتے تھے۔

میری ناقص رائے میں شرعی مسائل کو جذباتی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرنا غلط طرز ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ
میری ناقص رائے میں کسی بھی مسئلہ بھی مفید گفت وشنید کرنا ہو تو دلائل کی ابتداء قرآن کریم اور سنت (صحیح احادیث مبارکہ) سے کرنی چاہئے، صحابہ کرام﷢ کے اقوال کو تائید یا مزید وضاحت کے طور پر پیش کرنا چاہئے۔
اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے تو اس کے حل کیلئے اللہ تعالیٰ نے بھی کتاب وسنت ہی کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرمانِ باری ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴾ ... سورة النساء کہ ’’ اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (ﷺ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔‘‘
لہٰذا طلاق ثلاث کے متعلّق پہلے قرآن کریم اور سنت مبارکہ سے مختصراً کچھ عرض کرتا ہوں۔ اس میں کسی بھائی کو اختلاف ہو تو دلیل سے ساتھ مجھ سے اختلاف کر سکتا ہے۔
بیک وقت تین طلاقیں دینا
سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہئے کہ جب طلاق کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو طلاق دینے کا صحیح طریقہ کار یہ ہے کہ حالتِ طہر میں، بغیر صحبت کیے، صرف ایک طلاق دی جائے۔
تین طلاقین بیک وقت دینا قرآن کریم اور سنّت رسولﷺ کے خلاف ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللهِ هُزُوًا ﴾ ... سورة البقرة کہ ’’تم اللہ کے احکام کو ہنسی کھیل نہ بناؤ۔‘‘ امام قرطبی﷫ نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے سیدنا ابن عباس﷜ سے عرض کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک سو طلاقیں دی ہیں ، مجھ پر اس کا کیا وبال ہے؟ انہوں نے فرمایا: طُلِّقَتْ مِنْك بِثَلَاثٍ , وَسَبْع وَتِسْعُونَ اِتَّخَذْت بِهَا آيَات اللَّه هُزُوًا کہ ’’وہ تو تین طلاقوں کی بناء پر تجھ سے الگ ہو گئی، اور باقی ستانویں طلاقیں دے کر تو نے اللہ کی آیات کو مذاق بنایا ہے۔
بلکہ نبی کریمﷺ نے اسے تلعّب بکتاب اللہ (اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل ومذاق) قرار دیا ہے، ایک صحيح حدیث مبارکہ کے مطابق نبی کریمﷺ کو خبر ملی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دی ہیں تو نبی کریمﷺ غصّے میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا: « أيلعب بكتاب الله – عز وجل – وأنا بين أظهركم ؟ » ... سنن النسائي کہ ’’کیا میری تمہارے درمیان موجودگی میں ہی اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے؟!‘‘ حتیٰ کہ (نبی کریمﷺ کا اتنا غصہ دیکھ کر) ایک صحابہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ میں اس شخص کو قتل نہ کردوں؟
سیدنا عمر﷜ تین طلاقیں اکٹھی دینا سخت نا پسند کرتے تھے کہ جس شخص کے متعلّق ان کو پتہ چلتا کہ اس نے بیک وقت تین طلاقیں دی ہیں تو اس کی پشت پر درّے لگاتے۔ (فتح الباری)

ایک مجلس کی تین طلاقوں کا عدم وقوع
تین طلاقیں اگر ایک مجلس میں دے دی جائیں تو وہ تین شمار نہیں ہوں گی۔
فرمانِ باری ہے: ﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ ... سورة البقرة کہ ’’طلاق دو مرتبہ ہے، پس (اس کے بعد) بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ مسلمان کو طلاق کے بعد بیوی سے رجوع کر کے اپنے پاس روک لینے یا طلاق کو مؤثر کرکے احسان کے ساتھ اسے اپنے سے جدا کر دینے کا دو مرتبہ حق حاصل ہے، البتہ تیسری طلاق کے بعد یہ حق نہیں، کیونکہ اس کے بعد بیوی ہمیشہ کیلئے جدا ہو جاتی ہے ، اس سے نہ رجوع ہو سکتا ہے نہ نکاح، یہاں تک کہ وہ کسی اور شخص سے آباد ہونے کی نیت سے باقاعدہ نکاح کرے، پھر وہ اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہوجائے تو پہلے خاوند سے اس کا دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ قرآن کریم کے اس اندازِ بیان سے صاف واضح ہے کہ ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دے دینا یا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرکے بیوی کو ہمیشہ کیلئے جدا کر دینا، قرآن کے مذکورہ حکم سے متصادم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتے ہیں کہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد سوچنے اور نظر ثانی کا موقع اور گنجائش باقی ہے لیکن لوگ ایک ہی مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کر کے اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے موقع اور گنجائش کو ختم کر دیتے ہیں۔ اس لئے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاقِ رجعی شمار کرنا، جس کے بعد عدت کے اندر خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہو، قرآن کریم کی رو سے زیادہ صحیح ہے اور ذیل کی احادیث مبارکہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے:
سيدنا رکانہ بن عبد یزید﷜ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں لیکن بعد میں سخت غمگین ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا: « كيف طلقتها » کہ ’’تم نے اسے کس طرح طلاق دی تھی؟‘‘ انہوں نے کہا: تین مرتبہ۔ آپﷺ نے پوچھا: « في مجلس واحد؟ » کہ ’’ایک ہی مجلس میں؟‘‘ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: « فإنما تلك واحدة، فارجعها إن شئت » کہ ’’پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے، اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔‘‘ راوی سیدنا ابن عباس﷜ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سیدنا رکانہ﷜ نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ (مسند اَحمد)
سیدنا ابن عباس﷜ سے ہی مروی ہے کہ عہد رسالتمابﷺ اور عہد ابو بکر﷜ اور عمر فاروق﷜ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک (ایک مجلس کی) تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔ پھر سیدنا عمر﷜ نے فرمایا کہ جس معاملے (طلاق) میں لوگوں کو سوچ وبچار سے کام لینا چاہئے تھا اس میں وہ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، لہٰذا ہم کیوں نہ اسے نافذ کر دیں، چنانچہ آپ نے اس کو ان پر لاگو کر دیا۔ (صحیح مسلم)
درج بالا حدیث مبارکہ کے سبز الفاظ اس بات پر شاہد ہیں کہ سیدنا عمر﷜ نے اس فیصلے کو نبی کریمﷺ کی حدیث یا حکم کے طور پر نہیں بلکہ ذاتی رائے سے نافذ کیا تھا۔
خود حنفی علماء کو بھی تسلیم ہے کہ سیدنا عمر﷜ کے ابتدائی زمانے تک تین طلاقیں ایک ہی طلاق سمجھی جاتی تھیں، پھر لوگوں کی کثرتِ طلاق کی وجہ سے انہوں نے تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے کا حکم سیاسی تدبیر کے طور پر نافذ کر دیا۔ چنانچہ امام طحطاوی﷫ در مختار کے حاشیے میں قہستانی کے حوالے سے لکھتے ہیں: (إنه كان في الصدر الأول إذا أرسل الثلاث جملة لم يحكم إلا بوقوع واحدة إلى زمن عمر، ثم حكم بوقوع الثلاث سياسة لكثرته من الناس ... حاشية الطحطاوي: 2 ؍ 105)
سیدنا عمر﷜ نے اپنے اس اجتہادی فیصلے پر آخری ایام میں اظہار ندامت بھی فرمایا تھا کہ انہیں بطور سزا یہ اقدام نہیں کرنا چاہئے تھا۔ (دیکھئے إغاثة اللهفان 1 ؍ 351)
تین طلاقیں تین واقع ہونے پر حلالہ جیسا لعنتی عمل!
اللہ تعالیٰ نے مرد کو دو رجعی طلاقوں کا حق اس لئے نہیں دیا کہ وہ انہیں ایک ہی مجلس طلاق طلاق طلاق کہہ کر اس حق سے دستبردار ہوجائے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ حق اس طرح دیا ہے کہ وہ دو مختلف مجلسوں میں ’دو مرتبہ‘ ﴿ الطلاق مرتان ﴾الگ الگ موقعوں پر ہوش وہواس کے ساتھ اسے استعمال کرے، تاکہ اگر بعد میں اسے پچھتاوا وغیرہ ہو تو وہ رجوع کر سکے ﴿ فإمساك بمعروف ﴾ لیکن کتاب وسنت کے خلاف تین طلاقیں تین ہی واقع ہونے کے فتوے کا وبال یہ پڑا اگر بعد میں مرد کو پچھتاوا ہوا (اور وہ تین طلاقیں اکٹھی دینے کی صورت میں لازما ہوتا ہے۔) تو اس کیلئے مطلقہ بیوی کو حلال کرنے کیلئے ایک ’سانڈ‘ ادھار پر لے کر حلالہ کرانے کا موقف اختیار کیا گیا، حالانکہ نبی کریم ﷺ نے حلالہ کرنے والے اور جس کیلئے حلالہ کیا گیا دونوں پر لعنت فرمائی ہے، جس کے متعلق ہمارے نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: « ألا أخبركم بالتيس المستعار قالوا بلى يا رسول الله قال هو المحلل لعن الله المحلل والمحلل له » ... صحيح سنن ابن ماجهکہ ’’کیا میں تمہیں اُدھار لیے گئے سانڈ سے اگاہ نہ کروں، صحابہ نے عرض کیا: ضرور یا رسول اللہ! فرمایا کہ وہ حلالہ کرنے والا ہے، اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے اور جس کیلئے کرایا گیا دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘
واللہ تعالیٰ اعلم!
واضح رہے کہ بہت سے حنفی علماء بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں پر ایک واقع ہونے کے قائل ہیں۔ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے حوالے سے یہ کتاب (مشاہیر امت اور پاک وہند کے متعدد علمائے احناف کی نظر میں ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل از حافظ صلاح الدین یوسف﷾) بہت ہی مفید ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
مگر اور اہل حدیث اہل علم والی بات درست نہیں کیونکہ
اہل الحدیث سے وہ مراد نہیں تھی جو آپ مراد لے رہے ہیں بلکہ معاصر اہل الحدیث اہل علم مراد ہیں۔اس لیے اس بحث کو لمبا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
مگر یہاں تو اللہ کی دی ہوئی رخصت ، آسانی ختم کی جارہی ہے اور لوگوں کو سہولت نہیں دی جارہی بلکہ بد ترین مشکلات سے دوچار کیا جا رہا ہے، اور نکاح سے حلال شدہ عورت حرام قطعی قرار دی جا رہی ہے۔
کیا ہر مسلمان کے لیے کیا جا رہا ہے؟؟؟نہیں بلکہ صرف اس کے لیے کیا جا رہاہے جس نے اس شرعی حکم کا عملی مذاق اڑایاہے اور شریعت کا عملی مذاق اڑانا عملی کفر ہے ۔لہذا اس جذباتی انداز کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ رخصتیں اور سہولتیں قانون کے پاسداری کرنے والوں کے ہوتی ہیں نہ کہ مجرموں کے لیے۔ اب آپ کیاکہیں گے کہ ایک شہر سے دوسرے شہر ڈکیتی کے لیے سفر کرنے والا مسافر کو بھی قصر کی سہولت ہے یا روزہ چھوڑنے کی ؟؟؟اور اگر آپ اس کے لیے یہ سہولت نہیں مانتے تو میں کہوں گاآپ تو اللہ کی دی ہوئی رخصتوںاور سہولتوں کو ختم کر رہے ہیں اور آپ کے پاس اس کا اختیار نہیں ہے اور اگر آپ مانتے ہیں تو پھر بحث آگے بڑھائی جائے گی۔
معاف کیجیے گا ایک طرف تو آپ کہہ رہے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ اختیار بالکل بھی نہیں تھا۔ اور پھر توجیہ بھی پیش کر رہے ہیں۔

جب قرآن و سنت ہی سپریم لاء ہیں اور ان میں ایک قانون کو واضح بیان کر دیا گیا ہے تو پھر کسی امتی کو یہ حق کس طرح دیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک واضح قانون کے ہوتے ہوئے اس کے متوازی قانون سازی کرے اور اللہ کا دیا ہوا حق سلب کرے۔

کیا حکم شرعی کو مذاق بنانے کی صورت میں یہ حق خلیفہ کو دیا جا سکتا ہے کہ وہ بجائے ان کو درے مارنے یا قید کرنے کے ، ان سے اللہ کا دیا ہوا حق ہی سلب کر لے، اور وہ بھی ایسے کہ اللہ کی حلال کی ہوئی عورت کو حرام ہی کر دے۔
میرا مشورہ یہ ہے کہ اس بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے کچھ اصول فقہ پڑھ لیں کیونکہ علمی بحث و مکالمہ کے متفرق مضامین کے مبادیات سے واقف ہونا ضروری ہے۔ آپ نے ’مانع‘ کی اصطلاح کوحلال کو حرام یا حرام کو حلال بنانا سمجھ لیا، یہ بجائے خود آپ کی طرف سے شریعت پر اعتراض ہے کہ ایک شرعی حکم یعنی مانع کا انکار کر رہے ہیں۔ اب اگر آپ ایک علم کے مبادیات سے واقف نہیں ہیں تو اس کا جواب نہ دیں ، اسی میں خیر کا پہلو ہوتاہے۔’مانع‘ حکم شرعی ہی کی ایک قسم ہے، اس کو اچھی طرح سمجھ لیں۔لہذا جب ہم نے
ایک مجلس کی تین طلاقوں کو شریعت کا مذاق اڑانا کہا، اور شریعت کے کسی حکم کا مذاق اڑانا اس حکم شرعی کی سہولت سے استفادہ میں مانع ہے۔ اور مانع حکم شرعی ہے۔
یہ کل مقدمہ ہے اور اس میں صغری کبری جمع ہے۔ مقدمہ کی ایک ایک شق پر علمی بحث کریں ، اگر کرنی ہے تو کیونکہ یہاں ہم صرف اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور اس اصطلاح کا ایک علمی پس منظر اور تاریخ ہوتی ہے اور اس کے علوم وفنون ہوتے ہیں، جن سے مدمقابل کے بارے یہ امید رکھی جاتی ہے کہ وہ ان سے واقف ہو گا۔
 
Top