جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ
میری ناقص رائے میں کسی بھی مسئلہ بھی مفید گفت وشنید کرنا ہو تو دلائل کی ابتداء قرآن کریم اور سنت (صحیح احادیث مبارکہ) سے کرنی چاہئے، صحابہ کرام کے اقوال کو تائید یا مزید وضاحت کے طور پر پیش کرنا چاہئے۔
اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے تو اس کے حل کیلئے اللہ تعالیٰ نے بھی کتاب وسنت ہی کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴾ ... سورة النساء کہ ’’ اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (ﷺ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔‘‘
لہٰذا طلاق ثلاث کے متعلّق پہلے قرآن کریم اور سنت مبارکہ سے مختصراً کچھ عرض کرتا ہوں۔ اس میں کسی بھائی کو اختلاف ہو تو دلیل سے ساتھ مجھ سے اختلاف کر سکتا ہے۔
بیک وقت تین طلاقیں دینا
سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہئے کہ جب طلاق کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو طلاق دینے کا صحیح طریقہ کار یہ ہے کہ حالتِ طہر میں، بغیر صحبت کیے، صرف ایک طلاق دی جائے۔
تین طلاقین بیک وقت دینا قرآن کریم اور سنّت رسولﷺ کے خلاف ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللهِ هُزُوًا ﴾ ... سورة البقرة کہ ’’تم اللہ کے احکام کو ہنسی کھیل نہ بناؤ۔‘‘ امام قرطبی نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے سیدنا ابن عباس سے عرض کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک سو طلاقیں دی ہیں ، مجھ پر اس کا کیا وبال ہے؟ انہوں نے فرمایا:
طُلِّقَتْ مِنْك بِثَلَاثٍ , وَسَبْع وَتِسْعُونَ اِتَّخَذْت بِهَا آيَات اللَّه هُزُوًا کہ ’’وہ تو تین طلاقوں کی بناء پر تجھ سے الگ ہو گئی، اور باقی ستانویں طلاقیں دے کر تو نے اللہ کی آیات کو مذاق بنایا ہے۔
بلکہ نبی کریمﷺ نے اسے تلعّب بکتاب اللہ (اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل ومذاق) قرار دیا ہے، ایک صحيح حدیث مبارکہ کے مطابق نبی کریمﷺ کو خبر ملی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دی ہیں تو نبی کریمﷺ غصّے میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا:
« أيلعب بكتاب الله – عز وجل – وأنا بين أظهركم ؟ » ... سنن النسائي کہ ’’کیا میری تمہارے درمیان موجودگی میں ہی اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے؟!‘‘ حتیٰ کہ (نبی کریمﷺ کا اتنا غصہ دیکھ کر) ایک صحابہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ میں اس شخص کو قتل نہ کردوں؟
سیدنا عمر تین طلاقیں اکٹھی دینا سخت نا پسند کرتے تھے کہ جس شخص کے متعلّق ان کو پتہ چلتا کہ اس نے بیک وقت تین طلاقیں دی ہیں تو اس کی پشت پر درّے لگاتے۔ (فتح الباری)
ایک مجلس کی تین طلاقوں کا عدم وقوع
تین طلاقیں اگر ایک مجلس میں دے دی جائیں تو وہ تین شمار نہیں ہوں گی۔
فرمانِ باری ہے:
﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ ... سورة البقرة کہ ’’طلاق دو مرتبہ ہے، پس (اس کے بعد) بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ مسلمان کو طلاق کے بعد بیوی سے رجوع کر کے اپنے پاس روک لینے یا طلاق کو مؤثر کرکے احسان کے ساتھ اسے اپنے سے جدا کر دینے کا دو مرتبہ حق حاصل ہے، البتہ تیسری طلاق کے بعد یہ حق نہیں، کیونکہ اس کے بعد بیوی ہمیشہ کیلئے جدا ہو جاتی ہے ، اس سے نہ رجوع ہو سکتا ہے نہ نکاح، یہاں تک کہ وہ کسی اور شخص سے آباد ہونے کی نیت سے باقاعدہ نکاح کرے، پھر وہ اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہوجائے تو پہلے خاوند سے اس کا دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ قرآن کریم کے اس اندازِ بیان سے صاف واضح ہے کہ ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دے دینا یا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرکے بیوی کو ہمیشہ کیلئے جدا کر دینا، قرآن کے مذکورہ حکم سے متصادم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتے ہیں کہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد سوچنے اور نظر ثانی کا موقع اور گنجائش باقی ہے لیکن لوگ ایک ہی مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کر کے اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے موقع اور گنجائش کو ختم کر دیتے ہیں۔ اس لئے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاقِ رجعی شمار کرنا، جس کے بعد عدت کے اندر خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہو، قرآن کریم کی رو سے زیادہ صحیح ہے اور ذیل کی احادیث مبارکہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے:
سيدنا رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں لیکن بعد میں سخت غمگین ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا:
« كيف طلقتها » کہ ’’تم نے اسے کس طرح طلاق دی تھی؟‘‘ انہوں نے کہا: تین مرتبہ۔ آپﷺ نے پوچھا:
« في مجلس واحد؟ » کہ ’’ایک ہی مجلس میں؟‘‘ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا:
« فإنما تلك واحدة، فارجعها إن شئت » کہ ’’پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے، اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔‘‘ راوی سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سیدنا رکانہ نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔
(مسند اَحمد)
سیدنا ابن عباس سے ہی مروی ہے کہ عہد رسالتمابﷺ اور عہد ابو بکر اور عمر فاروق کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک (ایک مجلس کی) تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔ پھر سیدنا عمر نے فرمایا کہ جس معاملے (طلاق) میں لوگوں کو سوچ وبچار سے کام لینا چاہئے تھا اس میں وہ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، لہٰذا ہم کیوں نہ اسے نافذ کر دیں، چنانچہ آپ نے اس کو ان پر لاگو کر دیا۔ (صحیح مسلم)
درج بالا حدیث مبارکہ کے سبز الفاظ اس بات پر شاہد ہیں کہ سیدنا عمر نے اس فیصلے کو نبی کریمﷺ کی حدیث یا حکم کے طور پر نہیں بلکہ ذاتی رائے سے نافذ کیا تھا۔
خود حنفی علماء کو بھی تسلیم ہے کہ سیدنا عمر کے ابتدائی زمانے تک تین طلاقیں ایک ہی طلاق سمجھی جاتی تھیں، پھر لوگوں کی کثرتِ طلاق کی وجہ سے انہوں نے تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے کا حکم سیاسی تدبیر کے طور پر نافذ کر دیا۔ چنانچہ امام طحطاوی در مختار کے حاشیے میں قہستانی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
(إنه كان في الصدر الأول إذا أرسل الثلاث جملة لم يحكم إلا بوقوع واحدة إلى زمن عمر، ثم حكم بوقوع الثلاث سياسة لكثرته من الناس ... حاشية الطحطاوي: 2 ؍ 105)
سیدنا عمر نے اپنے اس اجتہادی فیصلے پر آخری ایام میں اظہار ندامت بھی فرمایا تھا کہ انہیں بطور سزا یہ اقدام نہیں کرنا چاہئے تھا۔ (دیکھئے
إغاثة اللهفان 1 ؍ 351)
تین طلاقیں تین واقع ہونے پر حلالہ جیسا لعنتی عمل!
اللہ تعالیٰ نے مرد کو دو رجعی طلاقوں کا حق اس لئے نہیں دیا کہ وہ انہیں ایک ہی مجلس طلاق طلاق طلاق کہہ کر اس حق سے دستبردار ہوجائے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ حق اس طرح دیا ہے کہ وہ دو مختلف مجلسوں میں ’دو مرتبہ‘
﴿ الطلاق مرتان ﴾الگ الگ موقعوں پر ہوش وہواس کے ساتھ اسے استعمال کرے، تاکہ اگر بعد میں اسے پچھتاوا وغیرہ ہو تو وہ رجوع کر سکے
﴿ فإمساك بمعروف ﴾ لیکن کتاب وسنت کے خلاف تین طلاقیں تین ہی واقع ہونے کے فتوے کا وبال یہ پڑا اگر بعد میں مرد کو پچھتاوا ہوا (اور وہ تین طلاقیں اکٹھی دینے کی صورت میں لازما ہوتا ہے۔) تو اس کیلئے مطلقہ بیوی کو حلال کرنے کیلئے ایک ’سانڈ‘ ادھار پر لے کر حلالہ کرانے کا موقف اختیار کیا گیا،
حالانکہ نبی کریم ﷺ نے حلالہ کرنے والے اور جس کیلئے حلالہ کیا گیا دونوں پر لعنت فرمائی ہے، جس کے متعلق ہمارے نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
« ألا أخبركم بالتيس المستعار قالوا بلى يا رسول الله قال هو المحلل لعن الله المحلل والمحلل له » ... صحيح سنن ابن ماجهکہ ’’کیا میں تمہیں اُدھار لیے گئے سانڈ سے اگاہ نہ کروں، صحابہ نے عرض کیا: ضرور یا رسول اللہ! فرمایا کہ وہ حلالہ کرنے والا ہے، اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے اور جس کیلئے کرایا گیا دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘
واللہ تعالیٰ اعلم!
واضح رہے کہ بہت سے حنفی علماء بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں پر ایک واقع ہونے کے قائل ہیں۔ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے حوالے سے یہ کتاب
(مشاہیر امت اور پاک وہند کے متعدد علمائے احناف کی نظر میں ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل از حافظ صلاح الدین یوسف﷾) بہت ہی مفید ہے۔