• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مجلس کی تین طلاق اور خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
محترم بھائی عمرمعاویہ ،
آپ کی درج بالا پوسٹس میں جو اعتراضات حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر بحیثیت خلیفہ ایک شرعی حکم کے تبدیل کرنے پر کئے گئے ہیں۔ ان کے بارے میں مہربانی فرما کر یہ بھی کنفرم کر دیں کہ احناف پر یہی اعتراضات کیوں نہیں لاگو ہوتے۔ یعنی کیا آپ کا نظریہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کسی شرعی حکم میں کوئی تبدیلی کی ہی نہیں تھی؟ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دور سے ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی سمجھا جاتا تھا؟ تب تو واقعی درج بالا اعتراضات صرف اہلحدیث پر ہی لاگو ہوتے ہیں۔
میری ناقص رائے میں شرعی مسائل کو جذباتی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرنا غلط طرز ہے۔
درست کہا آپ نے شرعی مسائل کو جذبانی بنیادوں پر حل کرنا غلط طرز ہے، اور جذبانی طرز یہی ہے کہ اور یہ جذباتی طرز ہی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق کے مسئلے میں حلالہ کو گھسیٹ لایا جاتا ہے اور عورت پر ظلم و زیادتی قرار دے کر اصل مسئلے کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔

میرا اس محترم فورم کے تمام محترم بھائیوں سے ایک سوال ہے کہ کیا بزبان صحیح بخاری از داود راز یہ موقف صحیح ہے کہۛ

ایک مجلس کی تین طلاق کو تین قرار دینا فتویٰ عمر رضی اللہ عنہ ہے اور یہ خلاف قرآن و سنت ہے، لہذا فتویٰ عمر کو اپنانا سنت نبوی کو چھوڑنا ہے اور فتویٰ عمر کو چھوڑنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنانا ہے۔

جی درست کہا میری ناقص رائے میں حضرت عمر نے کوئی ذاتی اجہتاد نہیں کیا کہ وہ خلاف قرآن و سنت ہوتا انہوں نے صرف سنت کو نافذ کیا اور یہ موقف جمہور علماء امت، و ائمہ امت ہے جن میں جلیل القدر اہل حدیث ائمہ شامل ہیں کسی ایک صحابی کا فتویٰ بھی اس کے خلاف نہیں ملتا تمام دور عمر رضی اللہ عنہ میں تمام امت میں یہ قانون جاری و ساری رہا۔

میرا با علم حضرات سے سوال ہے کہ معاملے کو الجھانے سے پہلے ایک بات کا جواب دیں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حلال عورت حرام ہوئی یا نہیں۔صرف ایک لفظ ہاں یا نہیں۔

میرا نہیں خیال کہ کوی اس کا جواب ایک لفظ میں گا بلکہ اس کے جواب میں صفحات کے صفحات کالے کیے جائیں گے مگر حق جو کہ واضح ہے اور اللہ کے فرمان کے مطابق حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح مگر اس واضح کا اقرار نہیں کیا جائے گا تو ہے کوئی اس واضح کا اقرار کرنے والا۔

کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو تین قرار دینے سے ایک عورت جو کہ ابھی اپنے خاوند کے نکاح میں تھی اور اس پر حلال تھی رجوع کے بعد وہ حرام بلکہ قطعی حرام ہوئی کہ نہیں۔

حلال حرام ہوا کہ نہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

محترم بھائی عمرمعاویہ ،
مثال کے بارے میں عرض ہے بھائی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ''حبر الامّة'' ہونے کے باوجود نکاح متعہ کے آخری عمر تک قائل رہے۔ اور اسی پر فتویٰ دیتے رہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو قرآن ہی نہیں مانتے تھے۔

میری ناقص رائے میں شرعی مسائل کو جذباتی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرنا غلط طرز ہے۔
متعہ کے بارے میں ابن عباس کی روایت کی صحت پر بہت جرح موجود ہے اور ابن عباس کا رجوع بھی ثابت ہے، اور درحقیقت یہ رافضیوں کی متعہ کے حق میں سب سے بڑی دلیل ہے جو نادانستگی سے آپ نے غلط مقام پر بیان کر دی۔ یاد رہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق میں بھی بعینہ اسی طرح کے الفاظ ہیں جیسے متعہ والی حدیث کے اور اس بارے میں بھی رافضی اس حدیث کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور موجود دور کے اہل حدیث حضرات کی بھی سب سے بڑی دلیل ابن عباس کی حدیث ہی ہے ۔
مجھے افسوس ہوا کہ آپ کی اس نادانی سے شاید کتنے لوگ متعہ کے بارے میں سوچنے لگ جائیں گے، میں نے مثال کیا مانگی تھی اور آپ نے جواب کیا دیا۔ اگر آپ اس کے قائل ہیں جیسا کہ آپ نے حوالہ دیا جبرالامة ابن عباس کے فتویٰ متعہ کا تو کیا آپ متعہ کو حلال سمجھتے ہیں؟
نہیں سمجھتے ناں یقننا تو پھر جس بات کو آپ مانتے ہی نہیں اس کو بطور اپنے موقف کے دلیل کے طور پر پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔

کہنے کا مقصد ہے حلال و حرام صرف اللہ کے اختیار میں ہے، کوئی خلیفہ کوئی امتی اس میں اجتہاد نہیں کر سکتا۔ اور حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی۔سو کوئی ہے کہنے والا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کی حلال کی ہوئی عورت کو حرام کیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
بلکہ نبی کریمﷺ نے اسے تلعّب بکتاب اللہ (اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل ومذاق) قرار دیا ہے، ایک صحيح حدیث مبارکہ کے مطابق نبی کریمﷺ کو خبر ملی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دی ہیں تو نبی کریمﷺ غصّے میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا: « أيلعب بكتاب الله – عز وجل – وأنا بين أظهركم ؟ » ... سنن النسائي کہ ’’کیا میری تمہارے درمیان موجودگی میں ہی اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے؟!‘‘ حتیٰ کہ (نبی کریمﷺ کا اتنا غصہ دیکھ کر) ایک صحابہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ میں اس شخص کو قتل نہ کردوں؟
جزاک اللہ انس بھائی ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اللہ کی کتاب سے کھیلا گیا مگر بقول اہل حدیث جدیدیہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حق رجوع سلب نہیں کیا اور اس طرح ایک طریقہ ایک قانون واضح کر دیا کہ باوجود اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل و مذاق کے کسی شخص سے اللہ کا دیا ہوا حق رجوع سلب نہیں کیا جا سکتا۔ پھر آپ لوگ یہ کیسے کہتے ہیں کہ اتنے واضح قانون اتنے واضح طریقہ کے ہونے کے باوجود عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نبی کے طریقہ کے خلاف صریحا خلاف اجہتاد کیا اور حق رجوع سلب کر لیا، جو کام اللہ کے نبی نے باوجود سخت غیض و غضب کے نہ کیا وہ حضرت عمر نے کر دیا کتنی عجیب اور کتنی چھوٹی بات ہے جو اس خلیفہ کے بارے میں سوچی گئی کہ بستر مرگ پر جس سے مستقل کے خلیفہ کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میرے سامنے دو مثالیں ہیں اللہ کے نبی نے کوئی خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا ، اور اللہ کے نبی کے پہلے خلیفہ نے مجھے خلیفہ نامزد کیا تھا ، اور اس محدث خلیفہ نے اللہ کی نبی کی سنت پر بستر مرگ پر بھی عمل کیا اور کوئی خلفیہ نامزد نہیں کیا یہ تھی اس کی سنت سے محبت۔


سیدنا ابن عباس سے ہی مروی ہے کہ عہد رسالتمابﷺ اور عہد ابو بکر اور عمر فاروق کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک (ایک مجلس کی) تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔ پھر سیدنا عمر نے فرمایا کہ جس معاملے (طلاق) میں لوگوں کو سوچ وبچار سے کام لینا چاہئے تھا اس میں وہ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، لہٰذا ہم کیوں نہ اسے نافذ کر دیں، چنانچہ آپ نے اس کو ان پر لاگو کر دیا۔ (صحیح مسلم)
درج بالا حدیث مبارکہ کے سبز الفاظ اس بات پر شاہد ہیں کہ سیدنا عمر نے اس فیصلے کو نبی کریمﷺ کی حدیث یا حکم کے طور پر نہیں بلکہ ذاتی رائے سے نافذ کیا تھا۔
درج بالا حدیث میں موجود بے شمار علتوں کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو بھی اس کے الفاظ میں بہت سے مفہوم کی بہت گنجائش ہے، کہ جس سے حدیث اور خلیفہ میں ٹکراو بھی پیدا نہیں ہوتا، اور کوئی خلیفہ کیسے اپنی ذاتی اجہتاد سے اللہ کے دیے ہوئے حق کو سلب کر سکتا ہے اور حلال عورت کو حرام کر سکتا ہے۔
لوگ طلاق دیتے تھے اور بعد میں جھوٹ کہہ دیتے تھے کہ ہمارا اراداہ تو ایک دینے کا تھا، لہذا ایک تصور کی جائے، تو اس معاملے میں خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے پہلے ہی خطبے میں ارشاد فرما دیا تھا کہ لوگو وحی کا زمانہ گذر گیا کہ جب تمہارے سچ جھوٹ کا فیصلہ ہو جایا کرتا تھا اب جو کسی کا ظاہر ہو گا میں اسی پر فیصلہ کروں گا۔ اور یہ موقف امام نووی رحمہ کا ہے جو صحیح مسلم میں دیکھا جا سکتا ہے اور تمام ائمہ اہل حدیث نے اس کو اس حدیث کی سب سے بہتر تشریح مانا ہے۔

قرآن کریم کے اس اندازِ بیان سے صاف واضح ہے کہ ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دے دینا یا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرکے بیوی کو ہمیشہ کیلئے جدا کر دینا، قرآن کے مذکورہ حکم سے متصادم ہے۔
آپ خود ہی کہہ رہے ہیں کہ یہ حکم قرآن کے مذکورہ حکم سے متصادم ہے، تو پھر کیا کو ئی صاحب ایمان مسلمان ایسے کسی فتوے کو قبول کرسکتا ہے کہ جو قرآن سے متصادم ہو، کیا آپ صحابہ پر یہ الزام نہیں لگا رہے کہ انہوں نے ایک حکم جو کہ قرآن سے متصادم تھا کو قبول کیا، اور سب سے بڑے صحابی نے ایک ایسا حکم جاری کیا جو کہ قرآن سے متصادم تھا۔

خود حنفی علماء کو بھی تسلیم ہے کہ سیدنا عمر کے ابتدائی زمانے تک تین طلاقیں ایک ہی طلاق سمجھی جاتی تھیں، پھر لوگوں کی کثرتِ طلاق کی وجہ سے انہوں نے تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے کا حکم سیاسی تدبیر کے طور پر نافذ کر دیا۔
بات کریں صحابہ کی اور جید ائمہ اہل حدیث کی کہ اس میں صرف حنفی علماء ہی نہیں بلکہ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ، امام اہل حدیث امام احمد بن حنبل، امام مالک، امام شافع، امام بخاری، امام مسلم، امام نسائی، الغرض ابن تیمیہ رحمہ سے بیشتر 99.99 فی صد لوگو ں کا ایک ہی موقف تھا سوائے رافضی حضرات کے ، اور موجود دور میں بھی سوائے برصغیر کے اہل حدیث حضرات کے ، اور قادیانی اور رافضی حضرات کے اکثریت کا موقف ایک ہی ہے۔

سیدنا عمر نے اپنے اس اجتہادی فیصلے پر آخری ایام میں اظہار ندامت بھی فرمایا تھا کہ انہیں بطور سزا یہ اقدام نہیں کرنا چاہئے تھا۔ (دیکھئے إغاثة اللهفان 1 ؍ 351)
یہ ایک من گھڑت روایت ہے اور اس روایت کی اس قدر جرح ہے کہ کسی بھی معقول اہل حدیث امام نے اس کو کہیں بھی کوٹ نہیں کیا،
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
کیا ہر مسلمان کے لیے کیا جا رہا ہے؟؟؟نہیں بلکہ صرف اس کے لیے کیا جا رہاہے جس نے اس شرعی حکم کا عملی مذاق اڑایاہے اور شریعت کا عملی مذاق اڑانا عملی کفر ہے ۔لہذا اس جذباتی انداز کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ رخصتیں اور سہولتیں قانون کے پاسداری کرنے والوں کے ہوتی ہیں نہ کہ مجرموں کے لیے۔ اب آپ کیاکہیں گے کہ ایک شہر سے دوسرے شہر ڈکیتی کے لیے سفر کرنے والا مسافر کو بھی قصر کی سہولت ہے یا روزہ چھوڑنے کی ؟؟؟اور اگر آپ اس کے لیے یہ سہولت نہیں مانتے تو میں کہوں گاآپ تو اللہ کی دی ہوئی رخصتوںاور سہولتوں کو ختم کر رہے ہیں اور آپ کے پاس اس کا اختیار نہیں ہے اور اگر آپ مانتے ہیں تو پھر بحث آگے بڑھائی جائے گی۔
آپ کی مندرجہ بالا تحریر کا سب سے بہترین جواب سب سے بہترین انسان کے واضح طریقے سے دے رہا ہوں ،

بلکہ نبی کریمﷺ نے اسے تلعّب بکتاب اللہ (اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل ومذاق) قرار دیا ہے، ایک صحيح حدیث مبارکہ کے مطابق نبی کریمﷺ کو خبر ملی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دی ہیں تو نبی کریمﷺ غصّے میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا: « أيلعب بكتاب الله – عز وجل – وأنا بين أظهركم ؟ » ... سنن النسائي کہ ’’کیا میری تمہارے درمیان موجودگی میں ہی اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے؟!‘‘ حتیٰ کہ (نبی کریمﷺ کا اتنا غصہ دیکھ کر) ایک صحابہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ میں اس شخص کو قتل نہ کردوں؟
اب مجھے بتائیں کہ آپ جو اوپر مجھے فقہ کی مو شگافیوں میں الجھا رہے ہیں کیوں ؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک واضح طریقے کے موجود ہوتے ہوئے اس چیز کی گنجائش ہے کہ کوئی امتی اس میں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتا پھر ے اور اسکی گرد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح سنت کو چھپا جائے۔ اور یہ جو سب کچھ جو آپ بیان کر رہے ہیں وہ عملی طور پر ہوا مگر بقول اہل حدیث حضرات کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حق رجوع سلب نہ کیا۔ تو پھر ہم کیسے ایک امتی خلیفہ کے حق رجوع کو سلب کرنے والا اجتہاد قبول کر لیں، کیا ہمارے پاس نبی کی واضح حدیث نہیں کہ اس معاملے میں جب کتاب اللہ سے کھیلا جائے تو نبی کریم نے کیا کیا ؟؟؟؟

لہذا اس جذباتی انداز کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ رخصتیں اور سہولتیں قانون کے پاسداری کرنے والوں کے ہوتی ہیں نہ کہ مجرموں کے لیے۔
سبحان اللہ اب دوسرا جواب بھی آپ نے اپنی ہی تحریر میں دے دیا رخصتیں اور سہولتیں قانون کی پاسداری کرنے والوں کے لیےہوتی ہیں نہ کہ مجرموں میں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آپ حضرات برصغیر پاک و ہند میں اس معاملے میں مجرموں بلکہ شرعی مجرموں جو کہ شرعیت کا عملی مذاق اڑا کر عملی کفر کے مرتکب ہوتے ہیں کو پورا پورا پروٹوکول دیتے ہیں اور انہیں مکمل رخصت اور سہولت دیتے ہین کہ جاؤ تم نے خدا کے قانون کا مذاق اڑایا، جاو اپنی زوجہ کے ساتھ خوشگوار ازوداجی زندگی گذارو اور اگر کوئی اعتراض کرے تو ہمارا مہر لگا فتویٰ دکھا دو۔ سبحان اللہ۔ اجی حضور مان لیں یہ موقف اہل سنت کا ہے ہی نہیں تو اس کو آپ جب اپنائیں گے تو یہی کچھ ہو گا سر ڈھانپیں گے تو پاون ننگے ہو جائیں گے اور پاوں ڈھانپے گے تو سر ننگا ہو جائے گا۔

پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کے اصولوں میں اتنا تضاد کیوں ہے جب آپ ایک چیز کو عملی کفر سے تعبیر کر رہے ہیں تو پھر اس پر سزا لاگو کیوں نہیں کرتے؟
جب آپ لوگ یہ سزا لاگو کرنا جائز یا خلاف سنت جانتے ہیں تو پھر کسی اور کو چاہے وہ خلیفہ ہی ہو کو کیوں کر یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ خلاف سنت سزا لاگو کرے؟

میرا مشورہ یہ ہے کہ اس بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے کچھ اصول فقہ پڑھ لیں کیونکہ علمی بحث و مکالمہ کے متفرق مضامین کے مبادیات سے واقف ہونا ضروری ہے۔ آپ نے ’مانع‘ کی اصطلاح کوحلال کو حرام یا حرام کو حلال بنانا سمجھ لیا، یہ بجائے خود آپ کی طرف سے شریعت پر اعتراض ہے کہ ایک شرعی حکم یعنی مانع کا انکار کر رہے ہیں۔ اب اگر آپ ایک علم کے مبادیات سے واقف نہیں ہیں تو اس کا جواب نہ دیں ،
آپ کا مشورہ بجا مگر میرا خیال ہے کہ یہ اہل حدیث حضرات کا فورم ہے اور یہاں بات قرآن و حدیث کے حوالے سے ہی ہو گی ، اور پھر جب اس معاملے میں واضح نصوص قرآنی موجود ہیں ، صحیح اور ثقہ احادیث موجود ہیں تو پھر فقہ کی موشگافیوں میں آپ مجھے الجھنے کا مشورہ کیوں دے رہے ہیں،

قرآن کا حکم بھی واضح ہےاور نبی کی سنت بھی تو پھر فقہ کے گھوڑے کو دوڑانے کی کیا ضرورت ہے اور کیا یہ اہل حدیث کے منہج کے خلاف نہیں کہ واضح نصوص قرآنی و احادیث صحیحہ کے ہوتے ہوئے فقہی مو شگافیوں میں الجھا جائے۔

میں ایک سادہ سا قرآن و حدیث پر عمل کرنے والا شخص ہوں میں اتنا جانتا ہوں کہ بقول آپ کی الجھی ہوئی نا سمجھ میں آنے والی توجیہ کے اس فیصلے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک عورت جو کہ رجوع کے بعد اپنے خاوند پر حلال ہو سکتی تھی ، حرام بلکہ حرام قطعی ہو گئی۔

اوپر انس بھائی نے قرآنی حکم واضح کر دیا

تین طلاقیں اگر ایک مجلس میں دے دی جائیں تو وہ تین شمار نہیں ہوں گی۔
فرمانِ باری ہے: ﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ ... سورة البقرة
قرآن کریم کے اس اندازِ بیان سے صاف واضح ہے کہ ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دے دینا یا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرکے بیوی کو ہمیشہ کیلئے جدا کر دینا، قرآن کے مذکورہ حکم سے متصادم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتے ہیں کہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد سوچنے اور نظر ثانی کا موقع اور گنجائش باقی ہے
مزید اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ بھی اس معاملے میں واضح کر دی گئی ہے۔

بلکہ نبی کریمﷺ نے اسے تلعّب بکتاب اللہ (اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل ومذاق) قرار دیا ہے، ایک صحيح حدیث مبارکہ کے مطابق نبی کریمﷺ کو خبر ملی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دی ہیں تو نبی کریمﷺ غصّے میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا: « أيلعب بكتاب الله – عز وجل – وأنا بين أظهركم ؟ » ... سنن النسائي کہ ’’کیا میری تمہارے درمیان موجودگی میں ہی اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے؟!‘‘ حتیٰ کہ (نبی کریمﷺ کا اتنا غصہ دیکھ کر) ایک صحابہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ میں اس شخص کو قتل نہ کردوں؟
میری تمام اہل حدیث حضرات سے گذارش ہے کہ بات چلائیں فقط قرآن و حدیث کے حوالے سے فقہ کی باریکیوں اور موشگافیوں میں تب جائیں جب قرآن و حدیث میں سے کچھ ثابت نہ ہو۔

اوپر دونوں اصول طے ہو چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ان اصولوں کی روشنی میں نفاذ سنت کے فیصلہ عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھنا ہو گا، کہ اتنے واضح احکام کے باجود خلیفہ راشد نے کیوں ایسا فیصلہ نافذ کیا کہ جو قرآن سے بھی متصادم ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بھی ٹکراتا ہے۔

جمہور علماء و ائمہ اربعہ کے نزدیک تو فیصلہ عمر درحقیقت قرآن وسنت ہی کا نفاذ ہے سو ہم اس لیے اس کو مانتے ہیں اس لیے نہیں مانتے کہ یہ ان کا ذاتی اجہتاد تھا، قرآن و حدیث کے واضح احکام ہونے کے بعد کسی کے ذاتی اجہتاد کی کوئی اہمیت نہیں وہ بھی حلال و حرام اور اللہ کے دیے ہوئے حق کو سلب کرنے میں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
١۔ یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ذاتی اجہتاد سے قرآن کے بیان کردہ طریقہ کی نفی کی اور جو محل ایک طلاق کا تھا اس میں تین کو نافذ کر دیا۔
۲۔ یعنی واضح سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی اور اپنے اجتہاد کو سنت پر ترجیح دی اور نافذ کریا۔
اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا عمر رضی اللہ عنہ نے جان بوجھکر قرآن اور حدیث کی مخالفت کی؟ کیا عمر رضی اللہ عنہ اس وقت حق پر قائم نہیں تھے؟
مجھے لگتا ہے عمرمعاویہ صاحب نے جو تحریر لکھی ہے وہ اس پر صفائی دیں،.
یہ میری ذاتی راے ہیں، میں بھی اہلے حدیث ہوں لیکن عمر رضی اللہ عنہ پر جو باتیں لکھی گیے ہے وو مجھے کافی سخت محسوس ہو رہی ہے. براے مہربانی اس پر روشنی ڈالے.
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
جزاک اللہ عامر بھائی العیاذ باللہ یہ میرا موقف نہیں یہ تو وہ موقف ہے جو ایک مجلس کی تین طلاق کو تین نہ ماننے سے پیدا ہوتا ہے، اور جس کو برصغیر کے اہل حدیث حضرات نے اختیار کیا ہوا ہے، جبکہ سر خیل ائمہ اہل حدیث امام احمد بن حنبل وجمہور علما ایک مجلس کی تین طلاق کے تین ہی کے قائل ہیں ، جس کی عکاس درج ذیل تحاریر ہیں۔

صحیح بخاری اردو ترجمہ از داود راز طبع شدہ از مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند 2004



جمہور علماء و ائمہ اربعہ کا تو یہ قول ہے کہ تین طلاق پڑ جائیں گی لیکن ایسا کرنے والا ایک بدعت اور حرام کا مرتکب ہو گا، اب دیکھ لیں جمہور میں کتنے علماء و ائمہ آتے ہیں۔

اب اس کے الٹ موقف اختیار کرنے کی صورت میں کیا ہوتا ہے یہ دل تھام کر پڑھیے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک طلاق پڑی ہے اس سے رجوع کر لے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں گو اس کے خلاف فتویٰ دیا اور تین طلاقوں کو قائم رکھا مگر حدیث کے خلاف ہم کو نہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اتباع ضروری ہے نہ کسی اورکی۔
یہ حضرت عمر رضی اللہ کا اجہتاد تھا جو حدیث کے خلاف قابل عمل نہیں ہو سکتا۔ میں ﴿میں مولانا وحید الزماں مرحوم﴾ کہتا ہوں ، مسلمانو اب تم کو اختیار ہے خواہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتوے پر عمل کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو چھوڑ دو، خواہ حدیث پر عمل کرو اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتوے کا کچھ خیال نہ کرو ہم تو شق ثانی اختیار کرتے ہیں۔


اوپر ابو الحسن علوی بھائی نے پوسٹ نمبر ۳ میں لکھا ۔

آپ کی یہ بات درست ہے۔ یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک طلاق کے محل میں تین طلاقوں کو نافذ کر دیا۔
مزید لکھتے ہیں
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ایک ہی طلاق شمار کیا تھا لیکن ایک طلاق کے بعد مرد کے پاس جو رجوع کا حق تھا، اس پر یہ پابندی عائد کر دی تھی کہ ہم تمہیں رجوع نہیں کرنے دیں گے۔اس لیے میں نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ آپ کی دوسری عبارت میں جو تعبیر ہے وہ درست تعبیر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حق رجوع واپس لے لیا تھا۔
٢۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ اختیار تھا کہ جس کو قرآن نے رجوع کا حق دیا ہے تو اس سے رجوع کا حق واپس لے لیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا اختیار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بالکل بھی نہیں تھا تو پھر ان کے اس فعل کی کیا صحیح توجیہ ہے؟
حکیم عبدالرحمٰن خلیق صاحب کی کتاب 12 مسائل میں لکھتے ہیں۔

صفحہ 229 پر رقم ہے کہ ایک ہی وقت میں دی گئی تین طلاق کو تین قرار دے لینا نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں غلط اور منشائے رب العالمین کے خلاف ہے۔

اسی صفحے پر مزید رقم ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی طلاق قرار دینے کا خلاف منشائے ربانی اور خلاف سنت فعل اپنے نتیجہ کے اعتبار سے تین قسم کی خطرناک ہلاکتوں پر منتج ہوتا ہے۔

ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی قرار دے لینے کے نتیجہ میں جو پہلی ہلاکت درپیش ہے وہ یہ ہے کہ طلاق کا یہ طریقہ اللہ تعالیٰ کی منشاء اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے صریحا خلاف ہے۔

اور انس بھائی پوسٹ نمبر ۹ میں لکھتے ہیں۔

ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرکے بیوی کو ہمیشہ کیلئے جدا کر دینا، قرآن کے مذکورہ حکم سے متصادم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتے ہیں کہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد سوچنے اور نظر ثانی کا موقع اور گنجائش باقی ہے
درج بالا حدیث مبارکہ کے سبز الفاظ اس بات پر شاہد ہیں کہ سیدنا عمر نے اس فیصلے کو نبی کریمﷺ کی حدیث یا حکم کے طور پر نہیں بلکہ ذاتی رائے سے نافذ کیا تھا۔
عبدالرحمٰن کیلانی اپنی کتاب ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل میں لکھتے ہیں۔

صفحہ ۲١ پر رقم ہےتاہم ہمیں یہ تسلیم کرلینے میں کچھ باک نہیں ہے کہ آپ ﴿حضرت عمر رضی اللہ عنہ ﴾ کا یہ فیصلہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء کے خلاف تھا۔ آپ کا یہ فیصلہ اجتہادی تھا جس میں غلطی کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔

العیاذ باللہ غلطی بھی کیسے مسلے میں کہ جس میں عورت کی حیثیت ہی تبدیل ہو جاتی ہے اور وہ حلال قطعی سے حرام قطعی ہو جاتی ہے اور دس سال تک اس غلطی کا احساس نہ عمر رضی اللہ عنہ کو ہوتا ہے اور نہ کسی اور صحابہ کو یعنی دس سال تک یہ اجتہادی غلطی جاری رہی اور اللہ کی حلال کردہ عورت کو حرام کیا جاتا رہا اور دس سال بے شمار صحابہ کی موجودگی میں کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی منشاء کے خلاف ہونے والا اجہتاد چلتا رہا۔

صفحہ 47 پر لکھتے ہیں چنانچہ دور نبوی میں ایک شخص نے یک بارگی تین طلاقیں دیں تو آپ غصہ کی وجہ سے کھڑے ہو گئے اور فرمایا میری زندگی میں ہی کتاب اللہ سے یوں کھیلا جا رہا ہے؟ لوگوں کی اس بد عادت پر انہیں زجر و تبیخ تو کی جاتی تھی، کیونکہ یہ طریق طلاق کتاب و سنت کے خلاف تھا ، تاہم 15ھ تک عملا یک بارگی تین طلا ق کو ایک ہی قرار دیا جاتا تھا اور اس معصیت و حماقت کے باوجود ان سے حق رجوع کو سلب نہیں کیا جاتا تھا۔

یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو حق رجوع سلب نہیں کیا مگر ان کے خلیفہ راشد نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف کیا اور حق رجوع سلب کیا کیوں؟

آپ نے یہ فیصلہ سرکاری اعلان کے ذریعہ نافذ کیا تھا اس کی نوعیت سیاسی بن جاتی ہے گویا یہ ایک وقتی اور عارضی قسم کا آرڈیننس تھا۔

سبحان اللہ کیا کسی شخص کو یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ و ہ سرکاری اعلان کے ذریعہ قرآن و سنت کے احکام کو معطل کر کے حلال کو حرام بنا دے چاہے ایک لمحہ کے لیے۔

اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے کوئی شرعی بنیاد موجود ہوتی تو آپ رضی اللہ عنہ یقینا استنباط کر کے لوگوں کو مطلع فرماتے۔

العیاذ باللہ یعنی بغیر کسی شرعی بنیاد کے قرآن کے بیان کردہ طریقہ طلاق کے خلاف طریقہ وضع کر لیا گیا، حق رجوع سلب کر لیا گیا، حلال عورت کو حرام کر دیا گیا۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
محترم بھائی عمر معاویہ،
آپ ابھی تک اسی جذباتی گفتگو کو بنیاد بنا کر طویل تحریریں پیش کر رہے ہیں۔ آپ کی ساری گفتگو کا خلاصہ صرف اتنا ہے کہ ’حضرت عمر بھلا سنت سے ثابت شدہ کسی حکم کی مخالفت میں کوئی حکم کیسے جاری کر سکتے ہیں؟‘ اور اس کا بہترین جواب انس نضر بھائی اپنی پوسٹ نمبر ٩ اور ابو الحسن علوی بھائی پوسٹ نمبر ١٠ میں دے چکےہیں۔ لیکن جواب میں بھی آپ دلائل کے بجائے وہی جذباتی گفتگو کر رہے ہیں۔ محترم ایسے تو کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر جذباتی فضا بنا کر اعتراض کئے جا سکتے ہیں بلکہ اہل تشیع کی جانب سے کئے بھی جاتے ہیں۔ دو مثالیں پہلے دے چکا ہوں۔ جن کا کوئی جواب آپ کے پاس نہیں کہ متعہ جیسے سنگین مسئلے پر ایک صحابی فتویٰ دیتے ہیں یا ایک صحابی اگر قرآن کی دو سورتوں کو قرآن ہی ماننے سے انکار کرتے ہیں تو ان پر آپ کے الفاظ میں کیوں اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ ایک صحابی ساری زندگی نماز میں تطبیق کرتے رہے یعنی دوران رکوع ہاتھ دونوں گھٹنوں کے بیچ رکھ کر پڑھتے رہے۔ پھر آپ جنگ جمل و صفین کے واقعات دیکھیں تو بات بہت دور تک نکل جائے گی۔

انس بھائی نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ تین طلاق کے مسئلہ پر کئی احناف علمائے کرام بھی اہلحدیث سے متفق ہیں۔ جن کے باحوالہ اقتباسات آپ کو (مشاہیر امت اور پاک وہند کے متعدد علمائے احناف کی نظر میں ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل از حافظ صلاح الدین یوسف﷾)کتاب میں مل جائیں گے۔ اس پر بھی ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں۔

ابو الحسن علوی بھائی نے آپ کو سمجھایا کہ شریعت کا مذاق اڑانے والے کے لئے یہ حکم بیان کیا گیا ہے۔ اور وہ بھی اس دور میں جب یہ مذاق اڑانا لوگوں کا معمول بن گیا تھا۔ آپ ان کے سمجھانے کے باوجود مانع کی اصطلاح کو حلال و حرام سمجھ رہے ہیں۔ اور پھر مطالبہ کر رہے ہیں کہ حلال عورت حرام ہوئی یا نہیں۔ ارے بھائی، حلال بکری بھی چوری کے گناہ کے ساتھ حرام ہو جاتی ہے۔ اگر حلال عورت شریعت کا مذاق اڑانے جیسے سنگین گناہ کی وجہ سے حرام قرار دی جائے تو ؟؟

باقی اس جذباتی فضا سے باہر نکل کر دیکھیں گے تو ١٩٧١ میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کی اس موضوع پر ایک کانفرنس ہو چکی ہے۔ جس میں جید علمائے کرام نے اپنے اپنے مقالہ جات پیش کئے اور پہلے سے فراہم کئے گئے سوالنامہ کے جوابات پیش کئے تھے ۔ اس کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے متفقہ طور پر (باستثنائے ایک بریلوی عالم) ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ہی طلاق قرار دئے جانے کی حمایت کی۔ اس کی پوری تفصیل تین طلاق مجموعہ مقالات علمیہ میں پڑھ سکتے ہیں۔

آپ کے جذبات قابل صد احترام ہیں۔ لیکن آپ کو موجودہ دور میں بھی خاندانوں اور خصوصاً خواتین سے متعلق مسائل کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔ یہ اتنا آسان مسئلہ نہیں کہ کوئی بھی شخص چند کتب پڑھ کر اس پر اپنی رائے دینے بیٹھ جائے۔ میرے خیال میں اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ چونکہ اس معاملے میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا ہے لہٰذا اس بات کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانا چاہئے۔ یعنی قرآن و صحیح حدیث سے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں تو اسے مان لیا جائے ورنہ ایک طلاق والے موقف کو مان لیں۔ اگر آپ متفق ہیں تو اپنا موقف قرآن اور صحیح احادیث سے پیش کیجئے۔

آپ کو اللہ تعالیٰ نے فرصت کے کافی اوقات دئے ہیں غالباً اسی لئے آپ ایک ایک اقتباس نقل کر کے کافی لمبی تحریر لکھ لیتے ہیں۔ انہی اوقات کو پہلے سے کوئی ذہن بنا کر جواب لکھنے کے بجائے ہماری پیش کردہ کتب پر بھی غور فرمائیں۔ اور خصوصاً اس بات پر بھی کہ جب اکثر مسالک کے جید علمائے کرام ایک پوائنٹ پر اتفاق کر رہے ہیں تو پھر آپ اور میں بھلا کیوں ایک فضول بحث میں الجھے رہیں؟
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
[JUSTIFY]
محترم بھائی عمر معاویہ،
آپ ابھی تک اسی جذباتی گفتگو کو بنیاد بنا کر طویل تحریریں پیش کر رہے ہیں۔ آپ کی ساری گفتگو کا خلاصہ صرف اتنا ہے کہ ’حضرت عمر بھلا سنت سے ثابت شدہ کسی حکم کی مخالفت میں کوئی حکم کیسے جاری کر سکتے ہیں؟‘ اور اس کا بہترین جواب انس نضر بھائی اپنی پوسٹ نمبر ٩ اور ابو الحسن علوی بھائی پوسٹ نمبر ١٠ میں دے چکےہیں۔ لیکن جواب میں بھی آپ دلائل کے بجائے وہی جذباتی گفتگو کر رہے ہیں۔
عمر معاویہ بھائی کسی بھی موضوع سے متعلق بحث کا صحیح طریق تو یہ ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق اپنا مئوقف دونوں فریق بیان کریں۔ طلاق کے مسئلہ پر بحث پر بھی اسی کے مطابق عمل ہونا چاہئے۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ شاید صرف اس بات پر معترض ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کیسے ایک فیصلہ کتاب و سنت کے خلاف کر دیا اور اسی پر آپ دلائل کی بجائے جذباتی فضا کو قائم کر رہے ہیں۔ میرے بھائی آپ کی یہ طرز ہمارے نہیں آپ کے علماء و اکابرین کے مئوقف کے بھی خلاف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو سوال آپ ہم سے کر رہے ہیں وہ آپ کے علماء و اکابرین کی جانب بھی بنتا ہے۔ کیونکہ وہ بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے الگ اور بطور سیاست و سزا مانتے ہیں۔
فقہ حنفی کی مشہور کتاب 'مجمع الانہر'میں لکھا ہے:
"تو جان لو ! بےشک صدر اول میں جب اکٹھی تین طلاقیں دی جاتی تھیں تو صرف ایک طلاق شمار ہوتی تھی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک ایسا ہی رہا پھر جب لوگ کثرت سے طلاقیں دینے لگے پھر ڈرانے دھمکانے کے لئے بطور سزا تین کو تین شمار کیا گیا۔" (مجمع الانہر فی شرح منتقی الابہر:ج٢ص٦)
صاحب در مختار علامہ محمد بن علی الحصکفی الحنفی نے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کو بطور سیاست (یعنی بطور ریاستی انتظام) نافذ کرناتسلیم کیا ہے۔ دیکھئے الدر المنتقی فی شرح الملتقی (ج٢ص٦ تحت مجمع الانہر)
علامہ شمس الدین قہستانی حنفی نے بھی یہی بات کہی ہے۔ دیکھئے جامع الرموز شرح النقایہ (ص٣٢١)
علامہ طحطاوی حنفی نے بھی تقریبا اسی بات کا قرار کر رکھا ہے۔ دیکھئے طحطاوی شرح در مختار(ج٢ص١٠٥)
حافظ محمد قاسم دیوبندی نے لکھا:
"لیکن جب دور عمر رضی اللہ عنہ میں طلاقوں کی کثرت ہوئی تو ان کو تین شمار کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ فاروق اعظم نے یہ بات یونہی نہیں کہی بلکہ جب طلاقوں کا رواج عام ہو گیا تو آپ نے صحابہ کبار سے مشورہ لیا اور شوہروں کے کان گرم کرنے کی مصلحت سے تین طلاق شمار کرنے کی اجازت عام فرما دی۔" (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:ص١٥٦)
اس کتاب کئی ایک دوسرے دیوبندی علماء کی تقاریز و پیش لفظ بھی موجود ہیں جن میں حکیم عزیز الرحمٰن اعظمی وغیرہ بھی شامل ہیں۔
محترم عمر معاویہ بھائی نےمختلف جگہ لکھ رکھا ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حق رجوع سلب نہیں کیا اور اس طرح ایک طریقہ ایک قانون واضح کر دیا کہ باوجود اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل و مذاق کے کسی شخص سے اللہ کا دیا ہوا حق رجوع سلب نہیں کیا جا سکتا۔ پھر آپ لوگ یہ کیسے کہتے ہیں کہ اتنے واضح قانون اتنے واضح طریقہ کے ہونے کے باوجود عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نبی کے طریقہ کے خلاف صریحا خلاف اجہتاد کیا اور حق رجوع سلب کر لیا، جو کام اللہ کے نبی نے باوجود سخت غیض و غضب کے نہ کیا وہ حضرت عمر نے کر دیا کتنی عجیب اور کتنی چھوٹی بات ہے جو اس خلیفہ کے بارے میں سوچی گئی۔
اس طرح ایک طرف تو فتویٰ عمررضی اللہ عنہ نے اللہ کا دیا ہوا حق رجوع سلب کیا، اور اللہ کی حلال کی ہوئی عورت کو حرام قرار دے دیا۔
اور حرام بھی ایسے کہ حرام قطعی یعنی جب تک وہ کسی دوسرے مرد سے شادی نہیں کرتی اپنے پہلے خاوند پر حلال نہیں ہو سکتی۔
یہ ایک اور ظلم ہوا کہ ایک ایسی عورت جس کو کہ اللہ نے حلال کیا ہوا تھا اور ایک مرد کی پناہ میں تھی اور وہ دونوں پھر سے رجوع کر سکتے تھے، کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ کسی غیر مرد کی زوجیت میں جائے اوراپنی عزت نفس کو مجروع کروا کے پھر پہلے خاوند سے شادی کرے ؟ آخر اس عورت کا جرم کیا تھا؟
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو حق رجوع سلب نہیں کیا مگر ان کے خلیفہ راشد نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف کیا اور حق رجوع سلب کیا کیوں؟
سبحان اللہ کیا کسی شخص کو یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ و ہ سرکاری اعلان کے ذریعہ قرآن و سنت کے احکام کو معطل کر کے حلال کو حرام بنا دے چاہے ایک لمحہ کے لیے۔
ایک دفعہ اوپر پیش کی گئی آپ کے اکابرین علماء کی آراء ملاحظہ فرمائیں اور پھر ذرا خود غور کیجئے کہ آپ کی یہ جذباتی تقاریر ہمارے خلاف ہیں کہ آپ کےاپنے علماء و اکابرین کے۔ کیا بطور سزا، بطور سیاست، صحابہ کے مشورے سے شوہروں کے کان گرم کرنے کے لئے اللہ کا دیا ہوا حق سلب کر لیا گیا؟ صدر اول کے احکام کو جن کے کتاب و سنت کے مطابق ہونے میں کسی کو شک ہی نہیں کو معطل کر کے حلال کو حرام بنا دیا۔۔۔!!! العیاذ باللہ! ان جذباتی تقاریر کی فرد جرم آپ کے علماء و اکابرین پر بھی عائد ہوتی ہے۔
خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس مسئلہ میں یہ الفاظ مروی ہیں کہ
"بےشک لوگوں نے اس کام میں عجلت شروع کر دی ہےجس میں ان کے لئے مہلت تھی۔" (صحیح مسلم:کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث)
گویا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ خود ان کے اپنے الفاظ میں لوگوں کی اسی عجلت کی بنا پر تھا۔
باقی رہا یہ معاملہ کہ کسی صحابی یا کسی خلیفہ راشد کے فیصلہ کومعقول دلیل کے ساتھ بھی خلاف قرآن و سنت قرار دینا یا غلط قرار دینا، یہ ان کی بڑی توہین ہے یا معاذ اللہ ان کے عدول ہونے کے خلاف ہے تو یہ بھی محض ایک جذباتیت پر مبنی بات ہے ورنہ کیا صحابہ کرام کے عدول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ معصوم تھے۔۔۔؟اور ان سے غلطی ممکن نہ تھی۔۔۔؟ تو یہ اہلسنت کا مسلک و مذہب ہرگز نہیں
دیوبندیوں کے امام اہلسنت سرفراز خان صفدر دیوبندی نے لکھا:
"دینی و دنیاوی معاملات میں خطائے اجتہادی اور زلت بڑی سے بڑی شخصیت سے بھی ہو سکتی ہے اوروں کا تو قصہ چھوڑیے خلاصہ کائنات فخر موجودات آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی باوجود "بعد از خدا بزرگ توقصہ مختصر" ہونے کے بھی بعض اوقات خطائے اجتہادی اور زلت سے دوچار ہوئی یہ الگ بات ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے غلطی پر برقرار نہیں رکھا۔ وحی کے ذریعہ اصلاح فرما دی۔" (الکلام المفید:ص146)
خلفاء راشدین رجوان اللہ اجمعین کے بارے میں لکھتے ہیں:
"حضرات خلفاء راشدین کا ہر قول اور ہر فعل بھی سنت ہو گی ہاں اگر کسی معقول دلیل سے ان کی کسی بات میں غلطی ثابت ہو جائے تو معاملہ جدا ہےکیونکہ وہ معصوم نہ تھے۔" (الکلام المفید:ص87)
مزید ایک جگہ لکھتے ہیں:
"حضرت صحابہ کرام نے بظاہر مال کے لالچ اور طمع کے لیے فدیہ کو قبول کیا تھا اور یہ رائے مذموم اور قابل گرفت تھی۔" (الکلام المفید:ص165)
امید ہے کہ صحابہ کرام کے عدول ہونے کے معانی کیا ہیں ۔۔۔؟ ان پر اچھی طرح غورو فکر فرمائیں گے اور جذباتی باتوں سے پرہیز کرنے کی کوشش کریں گے کہ بات کو سمجھنے سمجھانے میں جذباتی باتیں ہرگز فائدہ نہیں دیتیں۔
اب آخر میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اپنے دور میں حج تمتع پر پابندی عائد کرنا انتہائی مشہور و معروف ہے۔ اگر آج کوئی اٹھ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ پر بھی کچھ ایسی جذباتی باتیں کرنا شروع کرے کہ حج تو اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اللہ کی عبادت کا سب سے بڑا مظہر ہےاور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس عبادت پر پابندی لگا۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ و عبادت سے روکنا۔۔۔۔فلاں ہے اور فلاں ہے! تو یہ اہلسنت کا منہج و فکر ہرگز نہیں بلکہ جن کا یہ طرز عمل ہے ان کو روافض کے نام سے سب جانتے ہیں۔
صحابہ کرام کا منہج تو صرف یہ تھا جو کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نےکہا تھا:
"اللہ کی قسم! اسی بات نے تمھیں ہلاک کیا ہے ، میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ (اللہ) تمھیں عذاب دے گا، میں تمھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سناتا ہوں اور تم میرے سامنے ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنہما) کو پیش کرتے ہو۔" (الفقیہ والمتفقہ:ج1ص145 و سندہ صحیح)
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق دے، آمین یا رب العالمین۔
[/JUSTIFY]
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اصولی طورپر توفورم پر بحث کے دوران کتابوں کا پیش کرنا غلط ہے کیونکہ کتابیں ہرفریق پیش کرسکتاہے لیکن جب راجہ بھائی نے ایک کتاب پیش کی ہے اس ضمن میں اوراس بحث میں یہ کتاب بھی کافی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔پڑھئے
Talaq-e-Salaas aur Hafiz Ibn-e-Qaim (طلاق ثلاث اور حافظ ابن القیم)
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
آپ ابھی تک اسی جذباتی گفتگو کو بنیاد بنا کر طویل تحریریں پیش کر رہے ہیں۔ آپ کی ساری گفتگو کا خلاصہ صرف اتنا ہے کہ ’حضرت عمر بھلا سنت سے ثابت شدہ کسی حکم کی مخالفت میں کوئی حکم کیسے جاری کر سکتے ہیں؟
جزاک اللہ راجا بھائی، یہی میرا مقصود ہے۔ مگر جذباتیت کی بات غلط ہے ، میری ساری تحریریں ٹھوس دلائل کے ساتھ موجود ہیں۔

دو مثالیں پہلے دے چکا ہوں۔ جن کا کوئی جواب آپ کے پاس نہیں کہ متعہ جیسے سنگین مسئلے پر ایک صحابی فتویٰ دیتے ہیں۔
اس کا جواب دے چکا ہوں کہ اس حدیث پر بے شمار اعتراضات ہیں، اور یہ دلیل رافضی حضرات کی تو ہو سکتی ہے آپ کی نہیں اگر یہ آپ کی دلیل ہے تو اس کی وجہ سے آپ کا ایک مجلس کی تین طلاق والا موقف بھی کمزور ثابت ہوتا ہے، کیونکہ دونوں روایات میں بہت مماثلت ہے۔

١۔ آپ کیونکر دو ایک جیسے مضمون والی روایات میں سے ایک تو چن لیتے ہیں اور ایک کو چھوڑ دیتے ہیں؟
۲۔دونوں روایات میں فیصلہ کن کردار سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نظر آتا ہے؟
۳۔آپ کیوں ایک میں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو تسلیم کرتے نظر آتے ہیں اور دوسری کو خلاف سنت قرار دیتے ہیں؟
۴۔ رافضیت کے آزمودہ دلائل دے کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ میں آپ سے متعہ کی حرمت پر بات چیت کروں ؟
۵۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک کہنا سب سے پہلے رافضیت کا ہی شعار تھا اور یہ بعینہ انہی کے دلائل ہیں جو آپ دے رہے ہیں ؟ جس کا درحقیقت مجھے دکھ ہے ؟
٦۔ آپ کے بیان کردہ تمام دلائل اجماع صحابہ و امت سے متصادم ہیں، اور اہل سنت والجماعت کے نزدیک ان میں سے کوئی مسئلہ اختلافی نہیں رہا، نہ متعہ، نہ جمع قرآن اور کیا قرآن ہے اور کیا نہیں،اور نہ ہی جنگ جمل و صفین یہ تمام مسائل اہل سنت والجماعت کے نزدیک طے شدہ ہیں اور اجماع سے ان کا ایک طے شدہ موقف موجود ہے لہذا ان پر بات رافضی حضرات تو کرتے ہیں اہل سنت والجماعت کا کوئی فرد نہیں کرتا۔
۷۔ اللہ کے فضل و کرم سے مسئلہ متعہ پر ایک معاصر فورم میں رافضی حضرات سے تفصیلا گفتگو ہو چکی ہے ، جس میں آپ کے پیش کردہ تمام دلائل پر سیر حاصل بحث ہو چکی ہے جہاں باذوق نے بھی شرکت کی تھی ، اور اس کا دفاع کیا تھا ، اور الحمد للہ اہل سنت والجماعت کا موقف حق ثابت ہوا ، سبحان اللہ کیا خبر تھی کہ وہاں رافضیت کو دیے گئے جوابات ایک اہل سنت کے فورم پر بھی دینے پڑیں گے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پر حرمت متعہ کا فتویٰ دینے کا رافضی اتہام

متعہ والی بحث میں معاصر فورم پر نکاح المتعہ کا تعارف والے دھاگہ کے صفحہ 5 پر باذوق بھائی کا جواب اللہ انہیں جزائے خیر دے۔

ایک بات آپ کو یہ ضرور یاد دلا دوں کہ : متعہ کے موضوع پر اہل سنت کے تمام ائمہ و فقہا کا اجماع ہے کہ یہ اب قیامت تک کے لیے حرام قرار دیا جا چکا ہے۔ یقین رکھئے کہ کسی کی ہزار لاکھ صفحات والی تحقیق نہ اہل سنت کو پریشان کر سکتی ہے اور نہ کنفیوز۔محققینِ فورم بےشک اپنی "مرضی کی تحقیق" جاری رکھیں۔

باقی مزید تفصیل درج ذیل ہے۔

علامہ نیشا پوری المتوفی 728ھ فرماتے ہیں:
ان الناس لما ذکروا الاشعار فی فتیا ابن عباس فی المتعۃ قال قاتلھم اللہ الی ما افتیت با باحتھا علی الاطلاق لکنی قلت انھا تحل للمضطر کما تحل المیتۃ والدم ولحم الخنزیر۔
"جب لوگوں نے ابن عباس کے فتویٰ کی وجہ سے ان کی ہجو میں اشعار کہے تو انہوں نے کہا: خدا ان کو ہلاک کرے،میں نے علی الاطلاق متعہ کی اباحت کا فتوی نہیں دیا، بلکہ میں نے کہا تھا کہ متعہ مضطر کے لیے حلال ہے جیسے مُردار،خنزیر اور خون کا حکم ہے۔
اس روایت کو ابو بکر رازی الجصاص نے "احکام القرآن"ج2ص147 پر اور ابن ہمام المتوفی 861ھ نے "فتح القدیر" ج2ص386 اور علامی آلوسی المتوفی 1270ھ نے "روح المعانی" جز5ص6پر ذکر کیا ہے۔
حضرت ابن عباس کا مضطر کے لیے اباحت متعہ کا فتویٰ دینا بھی ان کی اجتہادی خطاء پر مبنی تھا اور جب ان پر حق واضح ہوگیا تو انہوں نے اس فتویٰ سے رجوع کرلیا اور اللہ تعالی سے توبہ کی، چنانچہ علامہ نیشاپوری لکھتے ہیں:
انہ رجع عن ذالک عند موتہ وقال انی اتوب الیک فی الصرف والمتعۃ (غرآئب القرآن جز5ص16﴾
"ابن عباس نے اپنے مرنے سے پہلے اپنے فتویٰ سے رجوع کیا اور کہا:میں صرف اور متعہ سے رجوع کرتا ہوں۔
"فالصحح حکایت من حکی عنہ الرجوع عنھا" "صحیح روایت یہ ہے کہ حضرت ابن عباس نے جواز متعہ سے رجوع کرلیا تھا"۔
نیز فرماتے ہیں:
"نزل عن قولہ فی الصرف و قولہ فی المتعۃ"(احکام القرآن ج6ص147-179)"ابن عباس سے صرف اور متعہ سے رجوع کرلیا تھا""۔
علامہ بدر الدین عینی المتوفی 855ھ نے “عمدۃ القاری“ جز 17 ص 246 پر اور علامہ ابن حجر عسقلانی المتوفی 852ھ نے “فتح الباری“ ج11 ص77 پر حضرت ابن عباس کا متعہ سے رجوع بیان فرمایا ہے اور اہلسنت کے تمام محقیقین نے اسی پر اعتماد کا اظہار فرمایا ہے، پھر کس قدر حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ جس بات سے حضرت ابن عباس رجوع فرماچکے ہیں اسے ان کا مسلک قراردے کر اس کی بنیاد پر اپنے مسلک کی دیوار استوار کی جائے۔

میرا خیال اتنا کافی اگر اب بھی آپ کہیں کہ میں نے ان دلائل کا جواب نہیں دیا تو خادم حاضر ہے ، مگر میرے خیال میں باذوق بھائی کا جواب ان تمام دلائل کا شافی و کافی جواب ہے۔

ابو الحسن علوی بھائی نے آپ کو سمجھایا کہ شریعت کا مذاق اڑانے والے کے لئے یہ حکم بیان کیا گیا ہے۔ اور وہ بھی اس دور میں جب یہ مذاق اڑانا لوگوں کا معمول بن گیا تھا۔ آپ ان کے سمجھانے کے باوجود مانع کی اصطلاح کو حلال و حرام سمجھ رہے ہیں۔ اور پھر مطالبہ کر رہے ہیں کہ حلال عورت حرام ہوئی یا نہیں۔ ارے بھائی، حلال بکری بھی چوری کے گناہ کے ساتھ حرام ہو جاتی ہے۔ اگر حلال عورت شریعت کا مذاق اڑانے جیسے سنگین گناہ کی وجہ سے حرام قرار دی جائے تو ؟؟
سبحان اللہ جو بات قرون خیر میں معمول بن گئی تھی کہ بقول آپ کے مانع کی اصطلاح کی زد میں آ گئی وہ اس موجودہ دور فتن میں خیر میں کس طرح تبدیل ہو گئی، اور کیا اس دور میں یہ مذاق اڑانا لوگوں کو معمول بن گیا تھا اور اب مذاق نہیں اڑایا جاتا،

تو کیا ایک خلیفہ راشد کی سنت و اجماع صحابہ کو ختم کرنے والی اتھارٹی کے بارے میں آپ بتا سکتے ہیں؟؟؟
یاد رہے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کو دانتوں سے پکڑے رہیں۔

باقی اس جذباتی فضا سے باہر نکل کر دیکھیں گے تو ١٩٧١ میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کی اس موضوع پر ایک کانفرنس ہو چکی ہے۔
تو کیا یہ اجماع امت ہو گیا جس سے کہ بقول آپ کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فتویٰ جو کہ شریعت کا مذاق اڑانے والوں کے لیے تھا ختم ہو گیا۔

اور کیا آپ کے اس اجماع امت کے مقابلے میں ائمہ اربعہ کا اجماع زیادہ وزنی نہیں ؟؟؟؟؟؟

یعنی قرآن و صحیح حدیث سے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں تو اسے مان لیا جائے ورنہ ایک طلاق والے موقف کو مان لیں۔ اگر آپ متفق ہیں تو اپنا موقف قرآن اور صحیح احادیث سے پیش کیجئے۔
پھر وہی بات کہ قرآن و سنت سے ثابت کریں؟

تو کیا آپ کے خیال میں خلیفہ راشد کا فیصلہ قرآن و سنت سے ثابت نہیں؟

ثابت تو وہ چیز کی جائے کہ جس میں تحقیق نہ ہوئی ہو اور جس میں ہمارے سامنے کوئی مثال یا عمل نہ ہو اب دیکھیے میرے پاس دلائل کیا ہیں ؟
١۔ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلیفہ راشد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نفاذ سنت کا فیصلہ۔
۳۔ اجماع صحابہ۔
۴۔پورے دور عمر رضی اللہ عنہ اور بعد میں سکوت صحابہ۔
۵۔ خلفائے بعد عثمان و علی رضی اللہ عنہم کا عمل۔
٦۔ ائمہ اربعہ کا اجماع۔
۷۔ جمہور علمائے امت کا موقف۔

آپ ان میں سے کس کس دلیل کا رد کرتے ہیں ، اس اس کا واضح ذکر کریں میں ان شاء اللہ سب کا جواب دوں گا۔

اور طالب نور بھائی

ورنہ کیا صحابہ کرام کے عدول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ معصوم تھے۔۔۔؟اور ان سے غلطی ممکن نہ تھی۔۔۔؟ تو یہ اہلسنت کا مسلک و مذہب ہرگز نہیں ۔
غلطی سے آپ کی کیا مراد ہے، کیا ایسے فیصلے کو غلطی کہا جا سکتا ہے کہ جو بے شمار صحابہ کی موجودگی میں پورے دور عمر میں جاری و ساری رہی، اور کسی کو احساس نہ ہو سکا کہ غلطی ہو گئی، اور اس کی تردید جاری کی جائے۔

اب آخر میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اپنے دور میں حج تمتع پر پابندی عائد کرنا انتہائی مشہور و معروف ہے۔
پھر معذرت کے ساتھ کے یہ مسئلہ بھی رافضی حضرات کی پسندیدہ دلیل ہے اور اہل سنت والجماعت کے نزدیک طے شدہ ہے اورکوئی فریق بھی اس کے خلاف بات نہیں کرتا ۔

آپ ان کے سمجھانے کے باوجود مانع کی اصطلاح کو حلال و حرام سمجھ رہے ہیں۔ اور پھر مطالبہ کر رہے ہیں کہ حلال عورت حرام ہوئی یا نہیں۔ ارے بھائی، حلال بکری بھی چوری کے گناہ کے ساتھ حرام ہو جاتی ہے۔ اگر حلال عورت شریعت کا مذاق اڑانے جیسے سنگین گناہ کی وجہ سے حرام قرار دی جائے تو ؟
افسوس کے ساتھ مگر آ پ کا یہ جواب حقائق سے بہت دور اور موضوع سے میل نہیں کھاتا۔ مانع کیا ہے میں آپ سے قرآن و سنت سے دلائل مانگتا ہوں، کہ کس کو حق ہے یہ کہنے کا کہ یہ حلال ہے یہ حرام، کون ہے جس نے مظطر کو بقدر ضرورت مردار کھانے کی اجازت دی۔

اور میں نے نہایت تفصیل سے جواب دیا کہ اس مانع سے اللہ کی مقرر کی ہوئی حلت متاثر ہوتی ہے اور حرمت میں تبدیل ہو جاتی ہے، لہزا یہ مانع قرآن و سنت کی تعلمیات کے خلاف ہے، کوئی بھی ایسا حکم جاری نہیں کر سکتا کہ جس سے اللہ کے حلال و حرام میں تبدیلی واقع ہو،۔

دوسری بات کہ مجھے حیرت ہے کہ آپ بکری کی کیسے بیچ میں لے آئے ، بھائی جان عورت کو اگر بکری کی طرح کھانے پر قیاس کیا جائے تو پھر تو وہ ہر صورت میں حرام ہی حرام ہے، اور پھر یہ حرام کس نے کیا میں کر رہا ہوں یا کوئی اور امتی نہیں یہ اللہ کا حرام کیا ہوا ہے۔ اور پھر چوری کے گناہ کے ساتھ بکری حرام ہوتی ہے تو یہ حرام کس نے کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ خدارا کچھ تو دلیل و منطق کا سہارا لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حرام بھی اللہ کا کیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہی میرا موقف ہے کہ کوئی امتی کوئی نبی بھی ایسا حکم دینے کا مجاز نہیں کہ جس سے شریعت کا حلال حرام ہو یا حرام حلال ہو۔
اللہ کے نبی کا فرمان ہے حرام بھی واضح ہے اور حلال بھی واضح۔
 
Top