• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مجلس کی تین طلاق سے متعلق حدیث رکانہ (مسند احمد) پر بحث

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا سعد بن إبراهيم ، حدثنا أبي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني داود بن الحصين ، عن عكرمة ، مولى ابن عباس ، عن ابن عباس ، قال : طلق ركانة بن عبد يزيد أخو بني المطلب امرأته ثلاثا في مجلس واحد ، فحزن عليها حزنا شديدا ، قال : فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم : كيف طلقتها ؟ قال : طلقتها ثلاثا ، قال : فقال : في مجلس واحد ؟ قال : نعم قال : فإنما تلك واحدة فأرجعها إن شئت قال : فرجعها فكان ابن عباس : يرى أنما الطلاق عند كل طهر.[مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 265]۔

اس حدیث پر عام طور سے تین قسم کے اعتراضات ہیں:

اول: رواۃ پر اعتراض
محمدبن اسحاق ، داؤد اورعکرمہ پر جرح
دوم: طریق پر اعتراض
عکرمہ سے داؤد کی روایت پر کلام
سوم: متن پراعتراض
1۔ متن محفوظ نہیں ہے
2۔ بفرض محفوظ غیر مدخولہ کے لئے ہے۔


یہ اور اس جیسے جو بھی اعتراضات اس حدیث پر وارد کئے جاتے ہیں ۔
جس بھائی کے علم میں بھی ایسا کوئی اعتراض ہو مختصر یا مفصل وہ اس تھریڈ ذکرکریں ۔
یا کاپی پیسٹ کریں ۔
یا لنک وغیرہ ہو تو اسے پیش کریں

تاکہ ان کا جائزہ لیا جاسکے۔
 
شمولیت
مارچ 01، 2015
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکة شیخ یہ ایک بلاغ سے کچھ اعترض ملے اور بھی اعتراضات ان کی کتابو سے اسکرین شارٹ لے کر بھیجتا ہو ان شاء اللہ

الجواب:۔
یہ روایت ہر گز قابل احتجاج نہیں ہے ۔
اولاً:۔ اس کی سند میں محمد بن اسحاقواقع ہے ۔
٭ امام نسائیؒ فرماتے ہیں کہ وہ قوی نہیں ہے۔ (((ضعفاء صغیر للنسائی ص۵۲)))
٭ امام ابو حاتمؒ فرماتے ہیں کہ ہو ضعیف ہے۔ (((کتاب العلل جلد ۱ص۴۳۳)))
٭ امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں کہ ہو قابل احتجاج نہیں محدث سلیمان تمییؒ فرماتے ہیں کہ وہ کذاب تھا ، امام ہشامؒ بن عروہ کہتے ہیں کہ وہ کذاب تھا امام یحیٰ ؒ بن سعید القطان فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا وہں کہ وہ کذاب ہے۔ (((میزان ص۲۱ ج۳)))
٭ امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ ہو دجالوں میں سے ایک دجال تھا ۔ (((تہذیب التہذیب جلد ۹ ص۴۱ و تاریخ بغداد جلد۱ ص۲۲۳)))
٭ امام مالک نے اس کو کذاب بھی فرمایا ہے۔ (((تاریخ بغداد جلد ۱ ص۲۲۳)))
٭اس پر شیعہ اور قدری ہونے کا الزام بھی ہے۔ (((تقریب ص۲۹۰)))
٭امام خطیب بغدادی ؒ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق کے بارے میں امام مالک ؒ کا کلام مشہور ہے اور حدیث کا علم رکھنے والوں میں سے کسی پر مخفی نہیں ہے۔(((تاریخ بغداد جلد ۱ ص۳۲۴)))
٭ علامہ ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ حلال و حرام کے بارے میں اس سے احتجاج صحیح نہیں ہے۔ (((تذکرہ الحفاظ جلد۱ص۱۶۳)))
اور یہی ہمارا مذھب ہے ایسے راویوں سے روایت نہیں لی جاسکتی خاص کر احکام میں تو ہرگز ہرگز ہرگز قابل قبول ہی نہیں۔
٭حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ محمد بن اسحاق سے جب کہ وہ متفرد ہو ا حکام کے بارے میں تو احتجاج نہیں کیا جا سکتا چہ جائیکہ جب وہ اپنے سے ثبت اور ثقہ راویوں کی مخالفت کرتا ہو۔(((محصلہ الدرایہ ص۱۹۳)))
٭نواب صدیق حسن خان صاحب غیرمقلد ایک سند کی تحقیق جس میں محمد بن اسحاق اتا ہے لکھتے ہیں کہ:۔
”در سندش نیز ہماںمحمد بن اسحاق است و محمد بن اسحاق حجت نیست “۔(((دلیل الطالب ص۲۳۹)))
یعنی اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے اور یہ حجت نہیں ۔
٭حافظ ابن رشد ؒ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق کی یہ روایت وہم پر مبنی ہے کیونکہ ثقہ راوی یوں روایت کرتے ہیں کہ حضرت رکانہؓ نے اپنی بیوی کو بتہ طلاق دی تھی نہ کہ تین۔ (((ہدایۃ المجتہد جلد ۲ ص۶۱)))
و ثانیاً:۔
اگر تنہا محمد بن اسحاق ہی اس سند کا راوی ہوتا تو اس کے ضعیف اور ناقبل احتجاج ہونے کے لیے یہی کافی تھا مگر غضب تو یہ ہے کہ اس سند میں داؤد بن حصین بھی ہے جو عکرمہؒ سے روایت کرتا ہے ۔
٭امام ابو زرعہؒ فرماتے ہیں کہ وہ ضعیف تھا ۔ اممام سفیان بن عینیہ ؒ فرماتے ہیں کہ ہم اس کی حدیث سے گریز کیا کرتے تھے۔ محدث عباس دوریؒ کہتے ہیں وہ میرے نزدیک ضعیف ہے (((میزان جلد۱ص۳۱۷)))
٭ امام ابن حاتم ؒ فرماتے ہیں کہ وہ منکر الحدیث تھا، محدث جوزقانیؒ کہتے ہیں کہ محدثین ان کی حدیظ کو قابل تعریف نہیں سمجھتے تھے۔ (((تہذیب التہذیب جلد ۳ص۱۸۱)))
٭امام علیؒ بن مدینیؒ اور امام ابو داؤد ؒ فرماتے ہیں کہ وہ داؤد بن حصین کی روایت عکرمہ سے منکر ہوتی ہے۔ (((میزان جلد ۱ص۳۱۷))) اور یہ روایت بھی عکرمہ سے ہے۔
٭حافظ ابن حجرؒ ان سے متعلق یہ فیصلہ دیتے ہیں کہ ثقہ الافی عکرمۃ (((تقریب ص۱۱۶))) کہ ہو ثقہ ہے مگر عکرمہ ؒ کی روایت میں وہ ثقہ نہیں ہے۔ اسی لیے امما بیہقیؒ فرماتے ہیں کہ اس اس حدیث سے حجت قائم نہیں ہو سکتی ۔(((سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۹)))
٭حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث معلول ہے۔ (((تلخیص الجیر ص۲۱۹)))
٭علامہ ذہبیؒ اس روایت کو داؤد بن حصین کے مناکیر میں شمار کرتے ہیں۔ (((میزان جلد ۱ص۳۱۷)))
٭مولانا شمس الحق صاحب عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ حافظ ابن القیم نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ۔(((تعلیق المغنی جلد ۲ص۳۳۶) ))لیکن مولانا حافظ محمد عبداللہ روپڑی صاحب غیرمقلد فرماتے ہیں کہ مگر ابن قیم کا یہ کہنا ٹھیک نہیں کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ اسناد کے حسن ہونے سے حدیث اس وقت حسن ہو سکتی ہے جب حدیث میں کوئی اور عیب نہ ہو اور یہاں اور عیب موجود ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کو معلول کہا ہے۔ خاص کہ جب امام احمد کا فتویٰ بھی اس کے خلاف ہے تو پھر معلولیت کا شبہ اور پختہ ہوجاتا ہے۔ (((ضمیہ ص۱۶)))
ابن قیم ؒ کو اس پر سخت سزائیں بھی ملیں۔ خود غیرمقلد ین کے گھر کی گواہی ملاحظہ ہو (((فتاویٰ ثنائیہ جلد۲ص۲۱۹)))
یہ ہیں وہ روایت جن سے زمانہ حال کے غیرمقلد روافض قرآن و حدیث اور جمہور امت کے اجماع کے مقابلہ میں حرام کو حلال کرنے کا ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔اللہ اکبر کبیرہ
الحاصل تین طلاقوں کو ایک قرار دینا اور غیر مدخول بہا کی متفرق طور پر دی گئی تین طلاقوں پر ہت مطلقہ کا حکم چسپاں کرنا نہ رویۃ ثابت ہے اور نہ دریۃ بلکہ یہ نری غلط فہمی ہے اور ہوم کا نتیجہ ہے ۔ ایسی غلطی پہلے کے لوگوں کو بھی ہو جایا کرتی تھی مگر وہ باانصاف اور دیانت دار لوگ تھے اس لیے وہ غلطی پر آگاہ ہونے پر اس کو چھوڑ دیتے تھے۔ مگر آج تو تعصب اور ضد کو چھوڑنا پسند نہیں کیا جاتا ۔ الااماشاء اللہ تعالٰی حضرت محمد بن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ مجھےبعض ایسے راویوں نے جن پر مجھے اعتماد اور بھروسہ تھا یہ حدیث سنائی کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو بحالت حیض تین طلاقیں دیدی تھیں اور پھر آنحضرت ﷺ نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا تھا میں بیس ۲۰ سال تک اسی غلط فہمی کا شکار رہا لیکن بعد کو مجھےے ابو غلاب یونسؓ بن جبیرؒ نے جو نہات ثقہ اور ثبت راوی تھے یہ روایت سنایہ کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تھی نہ کہ تین اور تین کی نسبت ان کی طرف غلط ہے۔ (((محصلہ مسلم جلد ۱ص۴۷۷ و سنن الکبریٰ ص۳۳۴)))
اس قسم کی غلط فہمی کا واقع ہوجانتاا تو مستعبد امر نہیں مگر دلائل کے بعد اس پر جمہود خالص تعصب ہے ۔ اللہ تعالٰی تمام اہل اسلام کو اس سے محفوظ و مصون رکھے آمین۔
غیرمقلدین کی پیش کردہ روایت ابن عباسؓ سے ہے اور یہ امام احمد بن حنبل نے بھی نقل کی ہے۔
اب دیکھتے ہیں ابن عباسؓ کا مذھب کیا تھا۔
چنانچہ حضرت ابن عباسؓ کی باسند صحیح روایت موجود ہے کہ:۔
”ایک شخص نے حضرت ابن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، حضرت ابن عباسؓ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہم نے یہ خیال کہ شاید وہ اس عورت کو واپس اسے دلانا چاہتے ہیں مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے ہو ااے ابن عباس ‌! ابن عباس اے ابن عباسؓ؟ بات یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالٰی سے نہ ڈرے تو اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکل سکتی جب تم نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی ہے تو اب تمہارے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں تمہاری بیوی اب تم سے بالکل علٰیحدہ ہو چکی ہے۔ (((سنن الکبریٰ جلد۷ ص۳۳۱)))
اکٹھی تین طلاق دینا گناہ ہے، جیسے یہاں پر اکٹھی تین طلاقیں دی گئیں جس کی وجہ یہ ہےکہ ابن عباسؓ نے کہا تم نے حماقت کا ارتکاب کیا یعنی اکٹھی طلاق دے دیں ہیں جو کہ واقع ہو چکی ہیں، ورنہ نہ تو کبھی ایک طلاق دینے سے گناہ ہے نہ ہی الگ الگ تین طلاق دینے سے یعنی شرعی طریقہ سے۔ لیکن غیرمقلدین کے نزدیک اکھٹی سے تو طلاق واقع تک نہیں ہوتی معاذ اللہ ثم معاذ اللہ جو کہ کھلا کفر ہے۔ اور یہ روایت ہے بھی صحیح۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اسناد و صحیح (((تعلیق المغنی ص۴۳۰)))
٭ایک روایت میں اتا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی حضرت ابن عباسؓ نے یہ فتویٰ دیا کہ تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں باقی ۹۷کے ساتھ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ مسخرہ کیا ہے۔ (((موطا امام مالک ص۱۹۹ دارقطنی جلد ۲ ص۴۳۰، و طحاوی جلد ۲ ص۳۰، و سنن الکبریٰ جلد۷ ص۳۳۳)))
اور اس کے علاوہ بھی بے شمار روایات موجود ہیں بفضلہ تعالٰی۔
اب دیکھتے ہیں خود امام احمد بن حنبلؒ کا مذھب کیا تھا۔
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ:۔
”جس شخص نے ایک ہی کلمہ میں تین طلاقیں دے دیں تو بے شک اس نے جہالت کا ارتکاب کیا مگر اس کی بیوی اسس پر حرام ہو جائے گی اور اس کے لئے وہ کبھی حلال نہیں ہو سکتی جب تک وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے“۔ (کتاب الصلوۃ ص۴۷)
اتنی واضح دلیل سبحان اللہ العظیم
ایک نظر:۔
٭ دونوں راویوں پر محدثین کرامؒ نے کافی تعداد میں جرحین کر رکھی ہیں۔
٭شیعہ اور قدری ہونے کا الزام اور شیعوں کا بھی یہی مذھب ہے۔
٭ احکام میں قوی نہیں ۔
٭روایت کرنے والے صحابی ابن عباس ؓ کا اپنا مذھب جو کہ صحیح سند سے ثابت ہے اس کے بلکل مخالف ہے۔
٭نقل کرنے والے امام احمد بن حنبل کا اپنا مذھب اس سے جد ا ہے۔
٭باسند صحیح روایت سے مسلک حق اہل سنت والجماعت کا مذھب ثابت ہونا اور روفض غیرمقلدین کا مذھب کا رد ہونا۔
اب بھی نہ مانیں غیرمقلد تو اللہ آپ کو پکڑے گا ،بس ہم صرف اتنا ہی کہیں گے کہ انگریز سے جو اپ نے اپنی جماعت کا نام اہل حدیث الارٹ کروایا تھا اسے وہ واپس کر دیں۔ شکریہ۔
(ہم غیرمقلد روافض کو کھلا چیلنج دیتے ہیں)
کوئی ایک ہی صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کریں جس میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین نہ کہا گیا ہو ایک ہی کہا گیا ہو اور اس روایت کا کوئی راوی شیعہ نہ ہو اور اس روایت کے کسی ایک بھی راوی کا اپنا فتوی اس حدیث کے خلاف نہ ہو۔ صرف ایک حدیث پیش کریں صرف ایک ہی جس میں یہ تین چیزیں نہ ہوں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جزاک اللہ خیرا۔
ان اعتراضات کا جواب دینے کے بعد ان شاء اللہ لنک اس دھاگہ میں فراہم کردیا جائے گا۔
مزید اعتراضات ہوں تو انہیں بھی پیش کردیں
 
Last edited:
Top