• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مجلس کی تین طلاق سے متعلق مسند احمد کی رویات پر بحث۔

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
سلام بھائی

جب میں نے آپ کی بھیجی ہوئی حدیث پیش کی تو مجھے یہ جواب دیا گیا


جس کتاب سے تم نے روایت بیان کی وہی مصنف اس کو نہیں مانتا تو تم کیسے ثابت کرتے ہو؟




اسی رکانہ والی روایت کے مطابق امام نووی بیان کرتے ہیں کہ
" یہ روایت ضعیف ہے اور مجھولیوں کی روایت ہے اور رکانہ کے متعلق البتہ والی روایت ہی صحیح ہے اور البتہ میں ایک اور تین دونوں احتمال ہیں۔
( نووی ، شرح مسلم، صفحہ 926)

امام نووی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ کی روایت بیان کرنے کے بعد یہاں تک فرماتے ہیں کہ
" امام شافعی، امام مالک، امام ابو حنیفہ اور امام احمد اور جمھور علماء کا موقف ہے کہ تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں اور صرف طاؤس اور بعض اہل ظاھر کا موقف ہے کہ ایک ہوتی ہے"

( نووی ، شرح مسلم، صفحہ 926)





مسند احمد کے حوالے سے بھی یہ روایت ضعیف ہے۔
علامہ خطابی کہتے ہیں کہ اس کی سند مجہول ہے اور حجت بننے کے قابل نہیں کیونکہ ابو داؤد نے روایت کی ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تھی،
علامہ خطابی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ امام احمد بن حنبل رح سے اس روایت کے سارے طریق ضعیف ہیں۔
(مسند احمد بن حنبل، جلد 4 صفحہ 216)
حنبلی مسلک کے مشہور عالم ابن قدامہ رح نے بھی یہی فرمایا ہے کہ امام احمد سے حدیث رکانہ کے سارے طریق ضعیف ہیں۔
(مغنی ابن قدامہ، جلد 10 صفحہ 366)، (مسند احمد بن حنبل، جلد 4 صفحہ 216)

امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس روایت کو میں نہیں جانتا اور میں نے بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مضطرب ہے۔
(مسند احمد بن حنبل، جلد 4 صفحہ 217)

اس کے علاوہ اس کا راوی محمد بن اسحاق بھی ضعیف ہے۔ اس کے حالات بھی پڑھ لیں۔





 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
بھائی سوال وجواب کا سیکشن بحث ومباحثہ کے لئے نہیں ہے اس لئے میں نے اعتراضات کو یہاں نقل کردیا۔
میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ اس حدیث پر اعتراضات کئے گئے ہیں اور سارے اعتراضات کا دندان شکن جواب محدث کبیر علامہ رئیس الاحرار ندوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تنویر الآفاق میں دیا ہے۔
آپ اس کتاب کی طرف رجوع کریں آپ کو ہربات کا مفصل جواب مل جائے ۔

الغرض یہ کہ اس روایت پر بحث ایک معرکۃ الآراء مسئلہ ہے کوئی نئی بات نہیں ہے لہٰذا اس تعلق سے آپ اس پر علمائے اہل حدیث کی لکھئ گئ کتب کا مراجعہ کریں۔
حدیث پر ہرطرح کے اعتراضات کے جوابات کے لئے تنویر الافاق دیکھیں۔
محمدبن اسحاق کے بارے میں شیخ ارشاد الحق الاثری حفظہ اللہ کی کتاب توضیح الکلام کی طرف مراجعت بھی مفیدہوگی۔
 
Top