• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک ملاقات پروفیسر حافظ محمد سعید حفظہ اللہ کے ساتھ !!

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,656
پوائنٹ
186
میں مان گیا ہوں کہ حافظ صاحب ایک تربیت یافتہ کمانڈو ہیں۔ میں ان کے استقبال کے لئے ہوٹل کی لابی میں بیٹھا رہا،وقت معینہ ختم ہونے پر میں کمرہ ملاقات میں چلا گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ حافظ صاحب قبلہ وہاں اپنی ٹیم اورٹیکنالوجی کے لاؤ لشکر کے ساتھ پہلے ہی سے تشریف فرماہیں، وہ میری آنکھوں پر سورہ یاسین کا دم پڑھتے ہوئے کیسے اس کمرے تک پہنچے، یہ میرے لئے راز ہی رہا۔
طالبان سے مذاکرات
حافظ سعید کا کہنا ہے کہ جب امریکہ اس علاقے سے جا رہا ہے تو طالبان کے لئے کرنے کا کیا کام رہ گیا ہے، وہ مذاکرات نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے۔
کنٹرول لائن کی نئی صورت حال
پاکستان کے فوجیوں اور شہریوں کے گلے کٹتے رہیں ، کوئی شور نہیں مچتا، بھار ت اور دنیا میں غوغا آرائی اس وقت دیکھنے میں آتی ہے جب کسی بھارتی فوجی کا گلا کٹ جائے۔
بھارت سے اعتماد سازی
کشمیری ہمارے اوپر بے حد اعتماد کرتے تھے، ہم ان کے دکھ درد میں برابر کے شریک رہے ہیں لیکن ہماری حکومتوںنے بھارت کی ناز برداری شروع کردی اور اسے اعتماد سازی کے عمل کا نام دیا گیا، اس سے بھارت کے ساتھ باہمی اعتماد میں تو کیا فرق پڑنا تھا، بد قسمتی سے ہم کشمیر ی مسلمانوں کا اعتماد کھو بیٹھے، اب وہ اپنے آپ کو یکہ و تنہا محسو س کرتے ہیں۔
کشمیر میں در اندازی
آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے مابین پہلے ایک سیز فایر لائن تھی۔بھٹو نے شملہ سمجھوتے میں اسے کنٹرول لائن میں بدل دیا۔ بھارت نے سمجھا کہ یہ اصطلاح کسی حد تک بین الاقوامی سرحد کے مترادف ہے جبکہ پاکستان نے یہ اصطلاح اس مجبوری میں قبول کی کہ اس کی نوے ہزار سپاہ بھارت کی جیلوں میں گل سڑ رہی تھی اور مغربی سرحد پر وسیع علاقہ بھارت کے زیر قبضہ تھا ، بھٹو کو اس کی واپسی کی فکر تھی۔ قوم نے یہ کڑوا گھونٹ بھر لیامگر جنرل مشرف کے دور میں بلا ضرورت سیز فائر کا یک طرفہ اعلان کر دیا گیا۔ بھارت نے اس سیز فائر کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور سیالکوٹ سے آگے کنٹرول لائن پر بھی آہنی حفاظتی باڑ نصب کر لی اور اس سے پیچھے پختہ مورچے تعمیر کر لئے۔ اس سیز فائر سے پہلے نہ تو پاکستانی رینجرز بھارت کو حفاظتی باڑ لگانے دیتے تھے اور نہ پختہ بنکرز تعمیر کرنے دیتے تھے، سیز فائر نے بھارت کو جیسے کھلی چھٹی دے دی، اس نے پوری کنٹرول لائن پرچار سطحی دفاعی جال بچھا دیا جس کے اندر جھانکنا بھی کسی کے لئے ممکن نہیں ، اب اگر بھارت یہ دعوی کرتا ہے کہ وہاں در اندازی ہوتی ہے تواس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہو سکتا ہے۔ اس پربھارت کو وہاںمتعین اپنے فوجیوں کا کورٹ مارشل کرنا چاہئے۔تب سارا راز کھل جائے گا کہ بھارتی دعوے سرا سرجھوٹ کا پلندہ ہیں۔
کشمیری تحریک آزادی کو کون مہمیز دے رہا ہے
دنیا بھر میں جہاں کہیں آزادی کی تحریک چلی، اسی علاقے کے لوگوںنے قربانیاں دیں، کسی نے باہر سے جا کر ان کو آزاد ہونے میں مدد نہیں دی ، نہ یہ مدد دی جا سکتی ہے، فلسطینی اکیلے ہی کئی عشروں سے مزاحمت کر رہے ہیں، کشمیری بھی نہتے ہیں اور گلی بازاروں میں بھارتی جارح افواج کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ہاں ،1948 اور 1999میں کشمیری منزل سے ہمکنار ہونے والے تھے لیکن پھر عالمی سطح پر شاطرانہ چالیں عمل میں لائی گئیں۔اور کشمیریوںکی منزل کھوٹی ہوگئی۔
بھارت کا حافظ سعید فوبیا
بھارت میں پتہ بھی ہلے توا سکا الزام مجھ پر دھر دیا جاتا ہے۔میرے حالیہ خطبہ عید کے بارے میں کہا گیا کہ اس میں بھارت پر حملے کی دھمکی ہے، میں نے ایک بھارتی دانشور سے کہا کہ اس پورے خطبے کو دوبارہ سن لو اور کوئی ایک لفظ بھارت کے خلاف نکال کر دکھاؤ، اب دفاع پاکستان ریلی کے خطاب کو بھی بھارت کے خلاف جارحیت کے مترادف کہا جارہا ہے۔بھارت مجھے مقدمے کے لئے اپنے ہاں لے جانا چاہتا ہے،زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا کہ وہ میری جان لے لے گا، یہ کام تو وہ یہاں بھی کر سکتا ہے لیکن ایک مردہ حافظ سعیدان کے لئے زندہ حافظ سعید کے مقابلے میں زیادہ خطر ناک ثابت ہوگا۔
دہشت گردی کے پس پردہ کون
پاکستان میں جاری دہشت گردی کے مراکز افغان علاقے ہیں، وہیں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے، اہداف متعین کئے جاتے ہیں ،خود کش جیکٹیں فراہم کی جاتی ہیں اور ریموٹ کنٹرول نظام کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔افغانستان میںبھارتی قونصل خانے سفارتی فرائض کے بجائے پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی میں مصروف ہیں۔بلوچستان پر ان کی خصوصی توجہ ہے۔
بلوچستان ہاتھ سے نہیں نکلے گا
بھارتی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میں نے بلوچستان کا دورہ کیا، ڈر تو یہ تھا کہ وہاں سے کوئی زندہ واپس نہیںا ٓتا، کئی بلوچ علاقوں میں پاکستانیوں کا داخلہ ممکن نہیں مگر مجھے مینگل کے علاقے میں جو محبت ملی، اس سے میری آس زندہ ہو گئی کہ بلوچستان ہمارا جزو لاینفک رہے گا، ہمیں ان کی زندگی کو بدلنا ہے، ان کی محرومیوں کو دور کرنا ہے، میںنے کراچی میں دولت مند طبقے کو قائل کیا ہے کہ وہ بلوچستان کے دور افتادہ مقامات پر ایک ایک اسکول کی سرپرستی کریں تاکہ وہاں تعلیم کو فروغ حاصل ہو، پڑھی لکھی نسل کسی کے بہکاوے میں نہیں آئے گی، وہ روزگار کمانے کے قابل ہو گی اور ہتھیاروں سے خود بخود دور ہو جائے گی۔ بلوچستان کے طول و عرض میں مجھے روشنی کی کرن نظر آ رہی ہے، بس ان کے دلوں پر دستک دینے کی ضرورت ہے۔
انتخابی راستہ
پاکستان میںمذہبی پارٹیوں کو ووٹ نہیں ملتے، بعض مذہبی لیڈر بڑے بڑے اجتماعات کو دیکھ کر خوش فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اتنا بڑا ہجوم تو ایک ضلعی ناظم کا الیکشن نہیں جتو اسکتا۔مجھے یقین ہے کہ میں الیکشن میں کھڑ اہو جاؤں تو مجھے کوئی ووٹ نہیں دے گا ۔ مذہبی جماعتوں کے کہنے پرلوگ جانیں تو دینے کو تیار ہیں مگر ووٹ نہیں۔ مجھے اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے ، اس لئے میرے ذہن میں انتخابی سیاست کا کیڑا نہیں گھس سکا۔
بھارت میں بی جے پی کا اقتدار
کانگرس اور بی جے پی دونوں پاکستان دشمنی میں پیش پیش ہیں۔مگر میری دعا ہے کہ بی جے پی اقتدار میںآئے، اور خاص طور پر مسلمانوںکا خون پینے والا نریندر مودی وہاں وزیر اعظم بنے ،اس کے دور میں پاکستانیوں کو اچھی طرح علم ہو جائے گا کہ بھارت کو امن کی آشا سے کتنا لگاؤ ہے۔ بھارت میں دہشت گردی کی جتنی ہولناک وارداتیں ہوئیں، ان میں ہندو انتہا پسند ہی مجرم نکلے۔سمجھوتہ ایکسپریس کی دہشت گرد ی میں تو بھارتی فوج کے حاضر سروس اعلی افسر ملوث تھے۔بی جے پی کو آنے دیجئے، پاکستان میںلوگوں کا بھارت سے عشق خود بخود ہوا ہو جائے گا۔
 
شمولیت
اپریل 03، 2014
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
68
کفار سازشیں کرتے رہتے ہیں ہمیں اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہنا چاہے
 
Top