• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک منصفانہ پیغام-تبلیغی جماعت کے نام

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم بھائیو اور بہنو۔ میں دین کی طرف آنے کے بعد 2 سال سے زیادہ عرصہ تبلیغی جماعت سے ہی جڑا رہا- اس دوران انکا خلوص بھی دیکھنے کو ملا اور اچھی باتیں بھی دیکھیں
پھر کسی کی دعوت جہاد پر جماعۃ الدعوۃ کے ساتھ مظفر آباد ٹریننگ پر گیا وہاں مجھے کچھ انکے بارے بتایا گیا چنانچہ واپسی پر میں نے اپنی تبلیغی جماعت کے بھائیو سے اور جامعہ اشرفیہ بھی جا کر وضاحت طلب کی مگر مطمئن نہ ہو سکا- آہستہ آہستہ اس جماعت کو چھوڑ کر جماعۃ الدعوۃ میں آ گیا آج بھی مجھے پرانے ساتھی ملتے ہیں تو میرا ایک سادہ سا مطالبہ ہوتا ہے جو میں آخر پر لکھوں گا ان شاء اللہ کہ وہ پورا کر دو تو میں جماعت کے ساتھ جانے کو تیار ہوں- مگر ابھی تک پورا نہیں کیا گیا
وہ مطالبہ ایک بچے کو بھی بتایا جائے تو اسکو سمجھ آجائے گا اسی وجہ سے میں نے اس موضوع کو ایک منصفانہ پیغام لکھا ہے کہ کوئی ذی شعور اسکو مسترد نہیں کر سکتا
اپنا مطالبہ بتانے سے پہلے میں اس کا پس منظر واضح کرنے کے لئے کچھ لکھنا چاہوں گا

میرے ان بھائیو کے مطابق تبلیغ بمعنی تذکیر اور دعوت میں فرق کیا جاتا ہے چنانچہ تبلیغ بمعنی تذکیر سے مراد کسی مسلمان کو ایسے عمل کی یاد دہانی کرانا جس کو وہ مانتا تو ہے مگر سستی، لا علمی وغیرہ کی وجہ سے کر نہیں رہا ہوتا مثلا نماز، روزہ، تبلیغ بمعنی تذکیر، اللہ کا ذکر وغیرہ- دعوت سے مراد کسی کو ایسی بات کی طرف بلانا جس کو وہ نہیں مانتا جیسے کافر کو اسلام کی دعوت دینا، مشرک کو توحید کی رافضی کو سنت کی وغیرہ

اب سب سے پہلے شیطان نے زین لھم الشیطن اعمالھم کے تحت ان کے ہاں ایک نعرے کو مقبول کر دیا ہے کہ جوڑ پیدا کرو توڑ پیدا نہ کرو چنانچہ اسی نعرہ کی وجہ سے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ آئیں اب اپنا منشور یہ بنا لیا ہے کہ ہم دعوت نہیں دیتے بلکہ تبلیغ بمعنی تذکیر کرتے ہیں- چناچہ یہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو نمازی بناؤ باقی خود ٹھیک ہو جائیں گے
لیکن جب انکو توحید کی اہمیت بتلائی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ مشرک ساری زندگی نمازیں پڑھتا رہے تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ قران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کہتا ہے کہ لئن اشرکت لیحبطن عملک تو باقیوں کا کیا حال ہو گا- اس موقع پر شیطان نے جو انکے لئے ایک عمل مزین کیا ہوا ہے اسکا سہارا لیتے ہیں کہ جی ہم تو ہر اعلان سے پہلے مندرجہ ذیل بات کرتے ہیں بھلا اس سے بڑی توحید کی دعوت کیا ہو سکتی ہے
اللہ سے ہونے کا اور غیر للہ سے نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے-محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں میں کامیابی اور غیروں کے طریقوں میں ناکامی کا یقین ہمارے دلوں میں آ جائے

میں اسی عمل پر ان بھائیوں کو بتاؤں گا کہ شیطان کیسے طریقے سے انکو فریب دے رہا ہے اور جس توحید پر انکو لگایا ہوا ہے کیا وہ مطلوب بھی ہے کہ نہیں

توحید کو علمی طریقے سے ہٹ کر ذرا سادہ طریقے سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں- توحید کے تناظر میں دو طرح کے افعال ہیں
1۔اللہ کے افعال مثلا زندہ کرنا، مردہ کرنا، بارش برسانا، رزق دینا-اس میں جب ہمارا عقیدہ ہو کہ یہ سارے کام ایک اللہ کرتا ہے تو یہ توحید ہے اور چونکہ ان افعال کا تعلق ہماری پرورش سے ہے تو فرض کریں یہ توحید ربوبیت ہے

2۔انسانوں کے افعال مثلا نماز، روزہ، حج، دعا، زکوۃ (نذرو نیاز)-
اب انسان یہ افعال صرف اللہ کے لئے کرے تو اسکو توحید کہیں گے اور چونکہ ان افعال کا تعلق معبود بنانے سے ہے تو فرض کریں یہ توحید الوھیت ہے

پہلی توحید کے بارے تقریبا تمام مشرک متفق ہوتے تھے اور ہوتے ہیں جیسے قران کہتا ہے قل من یرزقکم من السماء والارض ام من یملک السمع والابصار ومن یخرج الحی من المیت وہخرج المیت من الحی ومن یدبر الامر فسیقولون اللہ (الملک-21)
پس میرے ناقص علم کے مطابق نبیوں اور امتوں میں شروع دن سے عمومی محل نزاع توحید الوھیت رہی ہے توحید ربوبیت نہیں رہی-

اب ذرا اوپر والے نعرے کے پہلے حصے پر بحث کرتے ہیں دوسرے پر بعد میں کریں گے-
ذرا سوچیں کہ اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین والے نعرے میں نمبر 1 کے مطابق اللہ کے افعال آتے ہیں یا نمبر 2 کے مطابق ہمارے افعال آتے ہیں-تو یہ عام آدمی بھی بتا دے گا کہ اسمیں اللہ کے افعال آتے ہیں یعنی یہ توحید ربوبیت کی دعوت کا نعرہ ہو سکتا ہے جس پر کسی کا اختلاف نہیں چناچہ آپ دربار پر جانے والے مشرک کےسامنے بھی کہیں گے تو وہ اس پر اعتراض نہیں کرے گا چنانچہ آپکو پتھر نہیں لگیں گے حالانکہ آپکا دعوی تو نبیوں والا کام کا ہوتا ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس کے بارے قران کہتا ہے ولا کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک یعنی ٓپسے بڑے اخلاق والا کوئی ہو نہیں سکتا مگر انکو تو پتھر لگیں مگر ہمیں کچھ نہ کہا جائے اور اسکا میرا تجربہ بھی ہے کہ میں جماعت کے ساتھ تشکیل میں بریلویوں کی مسجد میں بھی جاتا تھا جہاں پر یہ نعرہ بھی لگایا جاتا تھا مگر کچھ نہیں ہوتو تھا کیونکہ انکو کہا جاتا کہ دکان رزق نہیں دیتی اللہ دیتا ہے تو اسپر اسکو کیا اعتراض تھا

میرا مطالبہ

وہ مجھے کہتے تھے ہم توحید الوھیت کی بھی دعوت دیتے ہیں تو میں کہتا ہاتھ کنگن کو آرسی کیا آئیے آپ نعرہ میں صرف تھوڑی سی تبدیلی کر دیں اور مندرجہ ذیل بنالیں اور مسجد ابراھیم یا رائونڈ میں لگا دیں میں سال کے لئے آپکے ساتھ چلنے کو تیار ہوں
اللہ سے مانگنے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ مانگنے کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے
دیکھیں کتنا سادہ سا نعرہ ہے مگر مطالبہ پورا نہیں ہوا-اس پر اگر کوئی یہ کہے کہ مصلحت کے تحت اسکی دعوت نہیں دیتے تاکہ لوگ بھاگ نہ جائیں تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم والا طریقہ کدھر جائے گا کہ وہ تو کہتے کہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دو تو اس سے باز نہیں آؤں گا توحید کی دعوت میں مصلحت سے مراد دعوت چھوڑ دینا نہیں بلکہ طریقہ میں مصلحت ہونی چاہیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو جب معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے ہیں تو کہتے ہیں

عن ابن عباس - رضى الله عنهما -أن رسول الله لما بعث معاذا إلي اليمن قال:"إنك تأتي قوما من أهل الكتاب ، فليكن أول ما تدعوهم إليه شهادة أن لا إله إلا الله - وفى رواية:إلى أن يوحدوا الله-فإن هم أطاعوك لذلك،فأعلمهم أن الله افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليله،فإن أطاعوك لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة تؤحذ من أغنيائهم فترد علي فقرائهم،فإن هم أطاعوك لذلك،فإياك وكرائم أموالهم،واتق دعوة المظلموم،فإنه ليس بينها وبين الله حجاب".
"أخرج الحديث البخاري ،ومسلم ،والنسائي ،وابن ماجه ،والدارمي ،وأحمد".
یعنی پہلے توحید کی دعوت پھر نماز کی پھر باقی- ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ نماز پر اسلئے بلائے کہ وہاں آکر توحید کا درس سنے یا علحیدہ اسکو وقت دیں مگر ایسا نہیں کیا جاتا-
باقی ان شاءاللہ اگلی فرصت میں
دعا اعوان
تلمیذ
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
قل من یرزقکم من السماء والارض ام من یملک السمع والابصار ومن یخرج الحی من المیت وہخرج المیت من الحی ومن یدبر الامر فسیقولون اللہ (الملک-21)
پس میرے ناقص علم کے
باقی ان شاءاللہ اگلی فرصت میں
یہ آپ کہاں سے چھاپ رہے ہیں۔۔۔
یہ سورۃ الملک نہیں ہے بلکہ سورہ یونس کی آیت نمبر 31 ہے ربط
اُمید ہے کتاب کا حوالہ ضرور پیش کریں گے۔۔۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
یہ آپ کہاں سے چھاپ رہے ہیں۔۔۔
یہ سورۃ الملک نہیں ہے بلکہ سورہ یونس کی آیت نمبر 31 ہے ربط
اُمید ہے کتاب کا حوالہ ضرور پیش کریں گے۔۔۔
محترم بھائی میں جلدی کی وجہ سے حوالہ غلط لکھ گیا آپکی بات ٹھیک ہے میں نے امن ھذا الذی یرزقکم سے مکس کر دیا اللہ آپکو جزا دے اور میری لغزش عاف فرمائے امین
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
محترم بھائی میں جلدی کی وجہ سے حوالہ غلط لکھ گیا آپکی بات ٹھیک ہے میں نے امن ھذا الذی یرزقکم سے مکس کر دیا اللہ آپکو جزا دے اور میری لغزش عاف فرمائے امین
تو اوپر آیت کو بھی درست کردیجئے۔۔۔
اور عربی عبارت کے ساتھ اردو ترجمہ ضرور دیا کیجئے۔۔۔
کیونکہ جو بیشتر ممبران عربی ترجمہ سے آگاہی نہیں رکھتے۔۔۔
ان تک بات کو پہنچانے میں آسانی رہے۔۔۔
امید ہے کہ آپ اس تجویز پر عمل کریں گے۔۔۔۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
عبدہ بھائی
آپ کا مرکزی اعتراض یہ ہے کہ تبلیغی جماعت والے اگر اپنے نعرہ میں تبدیلی کرلیں تو آپ تبلیغی جماعت کے ساتھ جانے پر تیار ہیں
مجھے اس تبدیلی کے مطالبہ کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی
دیکھیں ، ایک شخص اگر مسلمان ہونا چاہتا ہے تو اسے کلمہ پڑھایا جاتا ہے جس میں دو گواہیاں ہیں
اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت
اب قادیانی حضرات نے کافی فتنہ پھیلایا ہوا ہے اور ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ افریقا کے گاوں دیہات میں لوگو ں کو اسلام کی تبلیغ (وعظ کے ساتھ مالی لالچ بھی دیا ) کی اور جب وہ قائل ہوئے تو ان کو قادیانی بنادیا
اب اگر کوئی قادیانی حضرات کا فتنہ ذھن میں رکھتے ہوئے یہ مطالبہ کرے کہ مسلمانوں کو اپنا کلمہ تبدیل کرلینا چاہئيے کیوں کہ اس میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی تو ہے لیکن ختم النبوہ کا اقرار نہیں تو آپ کیا کہیں گے
میرے خیال میں تو جواب یہ ہوگا جب ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرے گا تو ان کے اقوال بھی مانے گا اور جب ان کے اقوال مانے گا تو ختم نبوت کو بھی مان لے گا کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے واضح ارشاد فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئي نبی نہیں
یعنی ختم نبوت کا اقرار ضمنا رسالت کی گواہی میں آجاتا ہے
اب تبلیغی جماعت والے اگر علی الاعلان صرف یہ کہتے ہیں
اللہ سے ہونے کا اور غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے
تو اس میں ضمنا یہ بھی آجاتا ہے
اللہ سے ہونے کا اور کسی بزرگ یا ولی سے نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے
جب کسی دل میں یہ بات آجائے گی تو وہ یقینا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے نام سے نذر و نیاز سے بھی رک جائے گا
وہ قبروں پر عرس منانے بھی نہیں جائے گا
اگر تبلیغی جماعت والے جو اعلان کرتے ہیں اس میں ضمنا وہ جملہ نہیں آتا جو میں اوپر نقل کیا ہے تو پھر تبلیغی جماعت کو شرک و بدعات والے اعمال میں ملوث بھی ہونا چاہئیے
تو کیا بات ہے تبلیغی جماعت والے عملا کی شرک و بدعت والے اعمال میں شریک نہیں ہوتے
1- کیا کبھی آپ نے ان کو 12 ربیع الاول کا جلوس نکالتے ہوئے دیکہا
2- کیا کبھی آپ نے ان کو گیارویں کرتے ہوئے دیکھا
3- کیا کبھی آپ نے ان کو عرس مناتے ہوئے دیکھا
نہیں باکل نہیں ۔ بلکہ اگر بدعتی لوگ اس جماعت کے ساتھ کچھ عرصہ لگا لیتے ہیں تو ان بدعات و شرکیات سے بچ جاتے ہیں
تو پھر اعلان میں تبدیلی کی کیا ضرورت ہے
اعلان میں تبدیل کی ضرورت تو تب پیش آتی جب تبلیغی جماعت خود بدعات و شرکیات میں ملوث ہوتی
نوٹ : ہمارا اس تھریڈ میں صرف تبلیغی جماعت کے اعلان کو ڈسکس کرنا ہے ۔ موضوع سے غیر متعلق پوسٹس سے گریز کریں ۔ نہ ہمارا موضوع فضائل اعمال ہے نہ سعودی عالم کا فتوی
ہمارا موضوع ہے کہ تبلیغی جماعت جو یہ اعلان کرتی ہے کہ اللہ سے ہونے کا اور غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے تو اس اعلان میں تبدیلی ہونی چاہئیے یا نہیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
عبدہ بھائی
نوٹ : ہمارا اس تھریڈ میں صرف تبلیغی جماعت کے اعلان کو ڈسکس کرنا ہے ۔ موضوع سے غیر متعلق پوسٹس سے گریز کریں ۔ نہ ہمارا موضوع فضائل اعمال ہے نہ سعودی عالم کا فتوی


محترم بھائی پہلے یہ بتانا لازمی ہے کہ آپ سے کافی دفعہ گفتگو ہوئی ہے اور میری ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی جماعت سے اختلاف کی وجہ سے بلاوجہ اس پر الزامات نہ لگائے جائیں
ویسے آپ تکفیری وبا والے دھاگہ میں آج کی ہی میری پوسٹ نمبر 2 دیکھ کر اندازہ کر سکتے ہیں کہ میں دعوت دینے میں کوشش کرتا ہوں کہ دشمنی کو مدنظر نہ رکھو باقی توفیق دینے والا اللہ ہے اگر شیطان غلطی کروا دے تو وہ میری طرف سے ہے اللہ معاف کرے امین

باقی اگلی پوسٹ میں آپ کی بات کا جواب فرصت سے دیتا ہوں ان شاءاللہ
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
عبدہ بھائی
آپ کا مرکزی اعتراض یہ ہے کہ تبلیغی جماعت والے اگر اپنے نعرہ میں تبدیلی کرلیں تو آپ تبلیغی جماعت کے ساتھ جانے پر تیار ہیں
مجھے اس تبدیلی کے مطالبہ کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی
دیکھیں ، ایک شخص اگر مسلمان ہونا چاہتا ہے تو اسے کلمہ پڑھایا جاتا ہے جس میں دو گواہیاں ہیں
اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت
اب قادیانی حضرات نے کافی فتنہ پھیلایا ہوا ہے اور ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ افریقا کے گاوں دیہات میں لوگو ں کو اسلام کی تبلیغ (وعظ کے ساتھ مالی لالچ بھی دیا ) کی اور جب وہ قائل ہوئے تو ان کو قادیانی بنادیا
اب اگر کوئی قادیانی حضرات کا فتنہ ذھن میں رکھتے ہوئے یہ مطالبہ کرے کہ مسلمانوں کو اپنا کلمہ تبدیل کرلینا چاہئيے کیوں کہ اس میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی تو ہے لیکن ختم النبوہ کا اقرار نہیں تو آپ کیا کہیں گے
میرے خیال میں تو جواب یہ ہوگا جب ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرے گا تو ان کے اقوال بھی مانے گا اور جب ان کے اقوال مانے گا تو ختم نبوت کو بھی مان لے گا کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے واضح ارشاد فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئي نبی نہیں
یعنی ختم نبوت کا اقرار ضمنا رسالت کی گواہی میں آجاتا ہے
اب تبلیغی جماعت والے اگر علی الاعلان صرف یہ کہتے ہیں
اللہ سے ہونے کا اور غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے
تو اس میں ضمنا یہ بھی آجاتا ہے
اللہ سے ہونے کا اور کسی بزرگ یا ولی سے نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے
جب کسی دل میں یہ بات آجائے گی تو وہ یقینا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے نام سے نذر و نیاز سے بھی رک جائے گا


وہ قبروں پر عرس منانے بھی نہیں جائے گا
اگر تبلیغی جماعت والے جو اعلان کرتے ہیں اس میں ضمنا وہ جملہ نہیں آتا جو میں اوپر نقل کیا ہے تو پھر تبلیغی جماعت کو شرک و بدعات والے اعمال میں ملوث بھی ہونا چاہئیے
تو کیا بات ہے تبلیغی جماعت والے عملا کی شرک و بدعت والے اعمال میں شریک نہیں ہوتے
1- کیا کبھی آپ نے ان کو 12 ربیع الاول کا جلوس نکالتے ہوئے دیکہا
2- کیا کبھی آپ نے ان کو گیارویں کرتے ہوئے دیکھا
3- کیا کبھی آپ نے ان کو عرس مناتے ہوئے دیکھا
نہیں باکل نہیں ۔ بلکہ اگر بدعتی لوگ اس جماعت کے ساتھ کچھ عرصہ لگا لیتے ہیں تو ان بدعات و شرکیات سے بچ جاتے ہیں


تو پھر اعلان میں تبدیلی کی کیا ضرورت ہے
اعلان میں تبدیل کی ضرورت تو تب پیش آتی جب تبلیغی جماعت خود بدعات و شرکیات میں ملوث ہوتی
نوٹ : ہمارا اس تھریڈ میں صرف تبلیغی جماعت کے اعلان کو ڈسکس کرنا ہے ۔ موضوع سے غیر متعلق پوسٹس سے گریز کریں ۔ نہ ہمارا موضوع فضائل اعمال ہے نہ سعودی عالم کا فتوی
ہمارا موضوع ہے کہ تبلیغی جماعت جو یہ اعلان کرتی ہے کہ اللہ سے ہونے کا اور غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے تو اس اعلان میں تبدیلی ہونی چاہئیے یا نہیں
محترم -

کیا نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان الله اجمعین نے بھی اس انداز کافر و مشرکین مکہ کو تبلیغ کی تھی کہ:

اللہ سے ہونے کا اور غیر للہ سے نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے-محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں میں کامیابی اور غیروں کے طریقوں میں ناکامی کا یقین ہمارے دلوں میں آ جائے-

پہلے جملے کو تو خود کافرو مشرکین مانتے تھے - جیسے عبدہ بھائی نے وضاحت کی ہے اور جو قرآن کی متعدد آیات سے واضح ہے - تو پھر سنّت نبوی کے مطابق تبلیغی جماعت لوگوں کو اس بات کی تبلیغ کیوں نہیں کرتی کہ :

صرف اللہ سے مانگنے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ مانگنے کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے-
اگر یہ تبلیغی جماعت کے لوگ :

١٢ ربیع الاول کا جلوس نہیں نکلتے ، عرس نہیں مناتے ، گیارویں نہیں مناتے تو یہ بھی ہے کہ :

[hl]دوسرے جملے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں میں کامیابی اور غیروں کے طریقوں میں ناکامی کا یقین ہمارے دلوں میں آ جائے)- پر تبلیغی جماعت کا خود اپنا عمل مفقود ہے [/hl]-

کیا تبلیغ کا یہی طریقہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے اختیار کیا تھا کہ گھر گھر جا کر ان کو چلہ ، چار مہینے اور گشت اور وقت لگانے کی تلقین کرتےتھے؟؟ (یہ ذہن میں رہے کہ یہ سب کچھ نبی کریم کے دور میں ممکن تھا) لیکن انہوں نے تو اس کو طریقہ تبلیغ نہیں بنایا -

والسلام -
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
عبدہ بھائی
آپ کا مرکزی اعتراض یہ ہے کہ تبلیغی جماعت والے اگر اپنے نعرہ میں تبدیلی کرلیں تو آپ تبلیغی جماعت کے ساتھ جانے پر تیار ہیں
مجھے اس تبدیلی کے مطالبہ کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی
محترم بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر دے میرے خیال میں آپ کو اوپر بات صحیح سمجھا نہیں سکا
1-میرا اعتراض اس چیز پر تھا کہ دعوت کس چیز پر دینی ہے اس پر آپکا اتفاق نظر آیا ہے کہ سب سے پہلے توحید کی دعوت ہی دینی ہے
2-اسکے بعد میرا اعتراض تھا کہ نبیوں نے بھی تو یہی کام کیا تھا تو انھوں نے کون سی توحید کی دعوت دی تھی (اس پر بھی آپکا کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے)
3-اسکے لئے میں نے توحید کی عمومی طور پر کی جانے والی تین قسموں کا ذکر کیا اور کہا کہ سردست میرا موضؤع پہلی دو قسمیں یعنی توحید ربوبیت اور توحید الوھیت ہے (اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا ان شاءاللہ)
4-توحید ربوبیت سے عمومی مراد اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین ہے یعنی اللہ کے افعال میں کسی اور کو شریک نہ ٹھہرانا مراد ہے جبکہ توحید الوھیت سے عمومی مراد ہمارے افعال کا کسی اور ذات کے لئے نہ ہونا مراد ہے یعنی اللہ سے مانگنے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ مانگنے کا یقین ہمارے دلوں میں آ جائے (اعتراض ہو تو بتا دیں)
5-پھر کہا تھا کہ تمام نبیوں نے عموما توحید الوھیت کی دعوت دی توحید ربوبیت کی دعوت کی بہت کم ضرورت پڑی (اس پر اعتراض ہے تو بتا دیں)
6-پھر لکھا تھا کہ آج بریلوی بھی توحید ربوبیت کو مانتے ہیں یعنی یہ کہنا کہ دوکان رزق نہیں دیتی اللہ دیتا ہے پس تم دکان کی پروا نہ کرو بلکہ چلہ پر چلو اسی طرح فصل سے کچھ نہیں ملتا اللہ رزق دیتا ہے پس تم فصل کو چھوڑوں اور اللہ پر توکل کر کے سہ روزہ پر چلو تو کوئی بریلوی یا مشرکین مکہ میں سے بھی اسکا انکار نہیں کرے گا کہ اللہ کے علاوہ کسی اور سے ہوتا ہے جیسے اللہ نے کہا قل من یرزقکم من السماء والارض------فسیقولون اللہ- پس آج آپ کو اس پر پتھر نہیں لگیں گے
7-پھر لکھا تھا کہ آج کے بریلوی بھی اور مشرکین مکہ بھی توحید الوھیت کے منکر تھے کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی سے کیوں نہیں مانگ سکتے

پس اوپر یہ ثابت کیا تھا کہ ہمارے نبی کا کلمہ لا الہ الا اللہ تھا یعنی توحید الوھیت کی دعوت تھی الہ کی جگہ رب نہیں تھا

اب آپ کے اعتراضات کی طرف آتے ہیں

کلمہ میں دو گواہیاں ہیں
اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت
اب قادیانی حضرات نے کافی فتنہ پھیلایا ہوا ہے اور ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ افریقا کے گاوں دیہات میں لوگو ں کو اسلام کی تبلیغ (وعظ کے ساتھ مالی لالچ بھی دیا ) کی اور جب وہ قائل ہوئے تو ان کو قادیانی بنادیا
اب اگر کوئی قادیانی حضرات کا فتنہ ذھن میں رکھتے ہوئے یہ مطالبہ کرے کہ مسلمانوں کو اپنا کلمہ تبدیل کرلینا چاہئيے کیوں کہ اس میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی تو ہے لیکن ختم النبوہ کا اقرار نہیں تو آپ کیا کہیں گے
یعنی ختم نبوت کا اقرار ضمنا رسالت کی گواہی میں آجاتا ہے
آپ کی بات پر مندرجہ ذیل اعتراضات ہیں

1-توحید الوھیت توحید ربوبیت میں داخل نہیں ہے اگر ایسا سمجھا جائے تو پھر اللہ سے ہونے کا یقین قرآن کہتا ہے کہ مشرکین مکہ بھی رکھتے تھے پھر مشرک کیوں ہوئے

2-مسلمان ہوتے ہوئے خالی کلمہ کے الفاظ سے عیسائی کو کیسے پتا چلتا ہے کہ عیسی خدا نہیں اور قادیانی کو کیسے پتا چلتا ہے کہ مرزا نبی نہیں- اسکی وضاحت بھی تو ہوتی ہے پس کسی قادیانی کو یا عیسائی کو جب تک آپ وضاحت نہ کریں تو اس سے لاکھ کلمے پڑھوا لیں وہ مسلمان نہیں ہو گا اور یہ بھی یاد رکھیں کہ وضاحت دونوں کے پرانے عقیدہ کو مدنظر رکھ کر کی جائے گی پس جب آپ بریلوی کو توحید کی دعوت دیں گے تو انکے مانگنے کے عقیدے کو مدنظر رکھ کر دی جائے گی خالی کلمہ کے الفاظ نہیں پڑھائے جائیں گے
3-خالی کلمہ تو قادیانی بھی یہ پڑھتا ہے کیا آپ اپنے اوپر والے اصول کے تحت انکو دعوت ہی نہیں دیں گے کیونکہ کلمہ تو آپ تبدیل نہیں کر سکتے جسکو وہ بھی پڑھ رہا ہے تو پھر اگر آپ نے اسکو اگر ختم نبوت کی دعوت دی تو آپ نے تو کلمہ ہی تبدیل کر دیا بلکہ آپ کے مولانا اللہ وسایا اور اس طرح کو اور بہت سے علماء کرام نے تو پھر سارے کلمہ کو کب سے تبدیل کر رکھا ہے
(اس پر کوئی اعتراض ہے تو بتائیں)


اب تبلیغی جماعت والے اگر علی الاعلان صرف یہ کہتے ہیں
اللہ سے ہونے کا اور غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے
تو اس میں ضمنا یہ بھی آجاتا ہے
اللہ سے ہونے کا اور کسی بزرگ یا ولی سے نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے
جب کسی دل میں یہ بات آجائے گی تو وہ یقینا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے نام سے نذر و نیاز سے بھی رک جائے گا
جی میں نے اوپر آپ سے اسی بارے ایک الزامی سوال پوچھا ہے کہ اس طرح آپ نے اوپر خود اقرار کیا ہے کہ کلمہ میں ضمنا ختم نبوت کا معاملہ آ جاتا ہے اور کلمہ میں توحید الوھیت کا معاملہ آ جاتا ہے تو کیا اگر کوئی داعی عیسائی یا قادیانی کو کہتا ہے کہ خالی کلمہ کے الفاظ ہی کہ دو تو تم مسلمان ہو جاؤ گے تو کیا وہ درست ہے

آپ کی بار بار ضمنا والی بات کرنے پر دعوت کے لحاظ سے اسکی وضاحت کرتا چلوں
تاکہ قارئین پر یہ بھی گڈ مڈ نہ ہو
دعوت کے پس منظر میں ضمنا والی بات دو طرح کی ہوسکتی ہے
ایک وہ جس کے بارے متکلم اور مخاطب کو سب پتا ہو مثلا متکلم کسی مسلمان کو کہتا ہے کہ نماز پڑھو تو اس میں ضمنا یہ حکم بھی موجود ہے کہ وضو کرو اور اسکا پتا دونوں کو ہے پس یہاں پر ضمنا بات کو بیان نہ بھی کیا جائے تو کوئی حرج نہیں
دوسری وہ جس کے بارے متکلم کو تو پتا ہو مگر مخاطب کو نہ پتا ہو مثلا متکلم کسی غیر مسلم کو کہتا ہے جسکو نماز کا پتا ہی نہیں کہ نماز پڑھو تو چاہے وہ نماز کا پورا طریقہ بھی بتا دے تو جب تک وضو کا نہیں بتائے گا اس وقت تک وضو والی بات ضمنا اس حکم میں شامل نہیں ہو گی

پس توحید الوھیت کبھی بھی ضمنا کسی بریلوی کے لئے توحید ربوبیت میں شمل نہیں ہو سکتی واللہ اعلم

اگر تبلیغی جماعت والے جو اعلان کرتے ہیں اس میں ضمنا وہ جملہ نہیں آتا جو میں اوپر نقل کیا ہے تو پھر تبلیغی جماعت کو شرک و بدعات والے اعمال میں ملوث بھی ہونا چاہئیے
تو کیا بات ہے تبلیغی جماعت والے عملا کی شرک و بدعت والے اعمال میں شریک نہیں ہوتے
محترم بھائی یہ کوئی دلیل نہیں ہے یعنی آپ ایک اصول بیان کر رہے ہیں کہ

اگر کوئی شرک نہیں کرتا تو اسکا مطلب ہے کہ وہ توحید کی دعوت بھی لازمی دیتا ہے

کیا آپ اس پر دوبارہ غور کریں گے کہ آپ نے ایک درست اصول بیان کیا ہے میں کوئی تبصرہ نہیں کرتا
اللہ تعالی آپ کو میری بات پڑھنے اور غور کرنے پر جزائے خیر دے امین
 

ابو دردا

مبتدی
شمولیت
جنوری 24، 2014
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
21
میرے خیال سے یہ تنقید براے تنقید کا نہ ختم ھونے والا سلسلہ قیامت تک جاری رھے گا اصل میں سچ وہ ھے جو اپنے بارے میں کہا جاے ھمیں اپنا احتساب کرنا چاہئ ھے دیکھو کسی کے نگہبان نہ بنو کسی کے ٹھیکدار نہ بنو کون سہی ھے کون غط ھے یہ فیصلہ تو اللہﷻ نے کرنا ھے کبھی کسی کے عیب نہ دیکھنا ورنہ اللہﷻ بن توبہ کے اٹھا لے گا توبہ کی توفیق نصیب نہ ھوگی اگر اوروں کے عیب دیکھتے دیکھتے زندگی گزر گئی تو ایک بات یاد رکھنا توبہ کے بغیر موت آے گی اپنی عیب دیکھو اوروں کی خوبیاں دیکھو تو ھر پل تمہیں توبہ کی توفیق نصیب ھوگی ھر پل تمہیں اور اچھے نظر ائیں گے اپنے آپ کو برا دیکھو گے اور اگر اوروں کے عیب دیکھے تو ھر پل اپنے آپ کو اچھا دیکھو گے اوروں کو برا دیکھو گے تکبر بھی آے گا حجت بھی آے گا اور توبہ بھی نہیں ھوگا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
میرے خیال سے یہ تنقید براے تنقید کا نہ ختم ھونے والا سلسلہ قیامت تک جاری رھے گا اصل میں سچ وہ ھے جو اپنے بارے میں کہا جاے ھمیں اپنا احتساب کرنا چاہئ ھے دیکھو کسی کے نگہبان نہ بنو کسی کے ٹھیکدار نہ بنو کون سہی ھے کون غط ھے یہ فیصلہ تو اللہﷻ نے کرنا ھے کبھی کسی کے عیب نہ دیکھنا ورنہ اللہﷻ بن توبہ کے اٹھا لے گا توبہ کی توفیق نصیب نہ ھوگی اگر اوروں کے عیب دیکھتے دیکھتے زندگی گزر گئی تو ایک بات یاد رکھنا توبہ کے بغیر موت آے گی اپنی عیب دیکھو اوروں کی خوبیاں دیکھو تو ھر پل تمہیں توبہ کی توفیق نصیب ھوگی ھر پل تمہیں اور اچھے نظر ائیں گے اپنے آپ کو برا دیکھو گے اور اگر اوروں کے عیب دیکھے تو ھر پل اپنے آپ کو اچھا دیکھو گے اوروں کو برا دیکھو گے تکبر بھی آے گا حجت بھی آے گا اور توبہ بھی نہیں ھوگا
جی محترم بھائی اسی لئے تو یہ دھاگہ شروع کیا تھا تاکہ ہمارے تبلیغی جماعت والے دعوت دینے سے باز آ جائیں کیونکہ انکو دوسروں کی کیا فکر پڑی ہوئی ہے اپنے اعمال کریں اور دوسروں کو چاہے وہ درست ہیں یا غلط اپنے حال پر چھوڑ دیں
آپ کا اگر ان کے ساتھ رابطہ ہو جائے تو میرا یہ پیغام (جو دراصل آپکا بھی پیغام ہے) ان تک پہنچا دیجیئے گا کہ لوگوں کے عیبوں (نماز نہ پڑھنے) کو چھوڑو اپنی توبہ کرو اور اپنے عیب دیکھو جب تم دوسروں کو دعوت دینا چھوڑ دو گے اور تمھیں کسی کی فکر نہیں ہو گی تو تم میں تکبر بھی ختم ہو جائے گا جو دوسروں کو غلطی پر دیکھ کر دعوت دینے سے پیدا ہوتا ہے اللہ آپ کو جزائے خیر دے امین
 
Top