• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک منکرین حدیث بھای کا نبیﷺ کی صحیح حدیت پر ایتراز حالت حیض میں مباشرت

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
عائشہ فرماتی ہیں کہ ہم میں سے کسی کو حیض آتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اختلاط کرنا چاہتے تو حیض کے غلبہ کے دوران ازار (لونگی،تہمد) باندھنے کا حکم دیتے اور پھر اختلاط فرماتے ۔قرآن اس سے منع کرتا ہے ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 46)

ازالہ:۔

ڈاکٹر شبیرکو یہاں بھی غلط فہمی ہوئی ہے قارئین کرام ! قرآن کریم میں ایسی کونسی آیت ہے جو اس سے روکتی ہے ڈاکٹر شبیرنے یہاں دو علمی خیانتیں کی ہیں ۔



1) حدیث کا ترجمہ غلط کیاہے ۔

2) آیت مبارکہ سے غلط استدلال کیا ہے ۔

اب قرآن کریم کا حکم ملاحظہ فرمائیں :

یسئلونک عن المحیض قل ھو اذی فاعتزلواالنساء فی المحیض ولاتقربوھن حتی یطھرن فاذا تطھرن فاتوھن من حیث امرکم اللہ (سورہ البقرہ ۔آیت 222)

''اور لوگ آپ سے حیض سے متعلق سوال کرتے ہیں کہہ دیجئے حیض ایک قسم کی تکلیف ہے اس لئے دوران حیض عورتوں سے دور رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب مت جاؤ اور پاک ہونے کے بعد ان کے پاس جاؤ جیسے اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا ''

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ :

1 ) حیض عورت کے لئے تکلیف کا باعث ہے ۔

2) اس حالت میں ان سے جماع کرنا منع ہے ۔

3) جب وہ اس سے پاک ہوجائیں تو ا ن سے جماع کرنا اللہ کے حکم سے جائز ہے ۔

یہ تین نکتے اس آیت سے سمجھ میں آتے ہیں ۔اب آئیں حدیث کی طرف :

''عن عائشہ کان یأمرنی فأتذر قیبا شرنی وانا حائض ''

'' عائشہ فرماتی ہیں کہ حیض کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تہہ پوش پہننے کا حکم دیتے اور اس کے بعد مجھ سے مباشرت کرتے ۔''

قارئین کرام ! یہ ہے وہ حدیث جسے ڈاکٹر شبیرنے خلاف قرآن کہہ کر ٹھکرادیا حالانکہ یہ ڈاکٹر شبیرکی کم علمی کی ایک اور بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ یہ قرآن کے موافق ہے نہ کہ مخالف۔ یہاںسب سے بڑی جو غلط فہمی ہوئی ہے وہ مباشرت کے الفاظ سے ہوئی ۔ ڈاکٹر شبیرنے

اس کے معنی اختلاط یعنی ہمبستری کے کئے ہیں لیکن عربی میں اس کا معنی کچھ اور بنتا ہے اور اردو میں مباشرت کے الفاظ کچھ اور معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔

صاحب عون المعبود (شرح سنن ابی داؤد ) ذکر فرماتے ہیں کہ :

''معنی المباشرة ھنا المس بالیدمن اللمس ''

'' مباشرت سے یہاں صرف ہاتھ سے چھونا اور دو جسموں کا ملنا مراد ہے (نہ کہ جماع)

مزید وضاحت امام شوکانی فرماتے ہیں : یہ قول ہے ۔''

''ان المباشرة فی الاصل التقاء ''

'' مباشرت اصل میں دو جسموں کے ملنے کو کہتے ہیں ۔''

لہٰذ ا حدیث کے معنی یہ ہوئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کے پاس جوبحالت حیض(اور دوسری حدیث میں روزے کے بھی الفاظ ہیں جسے ڈاکٹر شبیرنے آگے تنقید کا نشانہ بنایا ہے )اٹھتے بیٹھتے تھے اور ہاتھ لگاتے تھے اور پیار بھی کرلیا کرتے تھے (نہ کہ جماع) لہٰذا اب بتائیں یہ کہاں قرآن کے خلاف ہے ؟اگر آپ کہیں کہ اس آیت میں قریب جانے سے منع کیا گیا ہے تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کتنا قریب ؟ اگر آپ کی بات تسلیم بھی کرلی جائے تو معنی یہ ہونگے کہ عورت کو ایسی حالت میں اپنے گھر وںسے نکال دیا جائے ۔ اس لئے کہ ایک گھر میں رہتے ہوئے قربت لازمی چیز ہے ۔کیا آپ ایسا کرسکتے ہیں ہرگز نہیںتو حدیث کو ماننے میں کیا اختلاف ہے ۔۔۔۔؟؟

سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے دلائل :

انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یھودیوں میں سے کوئي عورت حالت حیض میں ہوتی تو وہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے بھی نہیں تھے اورنہ ہی انہيں اپنے گھروں میں رکھتے تھے توصحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارہ میں سوال کیا تو اللہ تعالی نے یہ آيت نازل فرمائی :

{ آپ سے حيض کے بارہ میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دیجۓ کہ وہ گندگی ہے ، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو ۔۔۔ آیت کے آخر تک } ۔

تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جماع کے علاوہ باقی سب کچھ کرو ۔

جب یہودیوں کواس کا پتہ چلا تووہ کہنے لگے اس شخص کوہمارے ہر کام میں مخالفت ہی کرنی ہوتی ہے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 302 ) ۔


Log in | Facebook

Munkir e Hadees exposed
 
Top