ایک وقت میں ایک مجتہد ہی درستگی کو پہنچنے والا ہوتا ہے:
مختلف مجتہدین میں سے ایک کی بات ہی حق ہوتی ہے اور باقی سب غلطی پر ہوتے ہیں۔ لیکن فروعات ، جن پر کوئی قطعی دلیل نہ ہو، میں غلطی کرنے والے مجتہدین معذور سمجھتے جاتے ہیں او روہ گناہگار بھی نہیں ہوتے بلکہ اجتہاد کرنے کے بناء پر ان کو ایک اجر بھی ملتا ہے۔یہی اہل حق کا قول ہے ان لوگوں کے برخلاف جو یہ کہتے ہیں کہ ہر مجتہد ہی ٹھیک کہتا ہے۔
اس جھگڑے کو چکانے کےلیے فیصلہ کن بات وہ حدیث ہے جس کی صحت پر سب محدثین کا اتفاق ہے، کہ جب کوئی حاکم فیصلہ کرتے وقت اجتہاد کرتا ہے اور درست فیصلہ کردیتا ہے تو اس کو دہرا اجر ملتا ہے اور اگر کوئی اجتہاد کرنے کے باوجود غلطی کرجائے تو اس کو بھی ایک اجر تو ضرور ملتا ہے ۔ یہ حدیث اس بارے میں بالکل صریح ہے کہ حق ایک ہی ہوتا ہے اور بعض مجتہدین اس کے موافق ہوجاتے ہیں ۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ اپنے اجتہاد میں درست بات کو پالینے والے کےلیے دوہرا اجر ملتا ہے ، ایک اجتہاد پر اور دوسرا درست فیصلہ کرنے پر۔ اور بعض مجتہد کا اجتہاد اس حق کے خلاف ہوجاتا ہے۔تو ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس غلطی کرنے والے کو ایک اجر ملے گا جو اس کے اجتہاد کرنے کی بناء پر ہوگا۔تو اس دوسری قسم کے مجتہدکا اجر حاصل کرنا اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ درست بات پر ہوتا ہے کیونکہ نبی کریمﷺ نے مجتہدین کی دو قسمیں بنائی ہیں:
1۔ درست فیصلہ کرنے والے 2۔ غلطی کرجانے والے
تو اگر سارےمجتہد ہی درستگی کو پالینے والے ہوتے ، جیسا کہ کچھ لوگ ایسا کہتے ہیں ، تو نبی کریمﷺ کی کی ہوئی اس تقسیم کا کوئی مطلب اور فائدہ نہ ہوتا۔
ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر